پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد امت کی قیادت کا موضوع گزشتہ چودہ صدیوں سے عقائد اور مذاھب کے علماء اور دانشوروں کے درمیان مسلسل مورد بحث قرار پاتا رھا ھے ، لیکن آج تک ایک محقق بھی ایسا پیدا نھیں ھوا جو یہ توجیہ کرے کہ حضرت ابو بکر کی خلافت پیغمبر اسلام کی نص کے مطابق عمل میں آئی ھے اور یہ کھے کہ پیغمبر خدا صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں اپنی حیات میں لوگوں کو وصیت کی تھی۔
حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں سنی علماء کے تمام دلائل مھاجرین و انصار کی بیعت اور خلافت پر اتفاق نظر تک محدود ھیں اور یہ امر کہ حضرت ابو بکر کی خلافت پیغمبر اکرم کی نص کے مطابق نھیں تھی ، یہ بات خود سقیفہ میں حضرت ابو بکر اور ان کے ھمفکروں کے بیانات سے بالکل ظاھر اور واضح ھوجاتی ھے ۔ اگر حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں پیغمبر کی طرف سے کوئی نص موجود ھوتی تو وہ خود سقیفہ میں حضرت عمر اور ابو عبیدہ کا ھاتہ پکڑ کر ھر گز یہ نہ کھتے کہ : ” قد رضیت لکم ھذین الرجلین “ میں ان دو افراد کو خلافت کےلئے صالح اور شائستہ جانتا ھوں اور ان دونوں کے انتخاب پرراضی ھوں۔
اس کے علاوہ اگر حضرت ابو بکر کی خلافت کے سلسلے میں کوئی الٰھی نص موجود ھوتی ، تو سقیفہ میں قریش کی پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے قرابت اور ان کی اسلام میں سبقت کے ذریعہ استدلال نھیں کیا جاتا اور ان کے دوست و ھم فکر کبھی حضرت ابو بکر کے پیغمبر کے ساتھ غار ثور میں ھم سفر ھونے اور نماز میں پیغمبر کی جانشینی جیسے مسائل سے اپنے استدلال کو تقویت نہ بخشتے۔
خود حضرت ابو بکر نے سقیفہ کے دن انصار کے امیدوار کی تنقید کرتے ھوئے کھا: ”ان العرب لا تعرف ھذا الامر الّا القریش اوسط العرب داراً و نسباً “، عرب معاشرہ قریش کے علاوہ __جو حسب و نسب کے لحاظ سے دوسروں پر برتری رکھتے ھیں __کسی کو خلافت کےلئے شائستہ نھیں جانتا ۔
اگر حضرت ابو بکر کی خلافت کے حق میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک لفظ بھی بیان ھوا ھوتا تو ان کمزور دلائل سے استدلال کرنے کے بجائے اس کا سھارا لیکر خود حضرت ابو بکر کھتے : اے لوگو! پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فلاں سال اور فلاں روز مجھے مسلمانوں کے پیشوا اور خلیفہ کے طور پر منتخب کیا ھے۔
یہ کیسے کھا جاسکتا کہ حضرت ابو بکر کی خلافت کو پیغمبر نے معین فرمایا ھے جب کہ وہ خود بیماری کی حالت میں تمنا کرتے تھے، کہ کاش میں نے پیغمبر اسلام سےیہ پوچہ لیا ھوتا کہ ”امت کی قیادت“ کا حقدار کون ھے؟
عالم اسلام کے مشھور مؤرخ ، طبری اس واقعہ کو تفصیل سے بیان کرتے ھوئے لکھتے ھیں : ” جب ابو بکر بیمار ھوئے اور قریش کا ایک معروف سرمایہ دار عبد الرحمان بن عوف ان کی عیادت کیلئے آیا تومقدماتی گفتگو کے بعد ابو بکر نے انتھائی افسوس کے ساتھ لوگوں کی طرف رخ کرکے کھا:
میری تکلیف کی پھلی وجہ وہ تین چیزیں ھیں جن کو میں نے انجام دیا ھے ، کاش میں نے انھیں انجام نہ دیا ھوتا ! اور تین چیزیں اور ھیں کہ کا ش میں نے ان کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا ھوتا ۔
وہ تین چیزں جنھیں کاش میں نے انجام نہ دیا ھوتا حسب ذیل ھیں :
1۔ کاش فاطمہ کا گھر نہ کھلوایا ھوتا چاھے جنگ و جدال کی نوبت آجاتی ۔
2۔ کاش میں نے سقیفہ کے دن خلافت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر نہ لی ھوتی اور اسے عمر یا ابو عبیدہ کے سپرد کرکے خود وزیر و مشیر کے عھدہ پر رھتا ۔
3۔ کاش ایاس بن عبد الله کو جو راھزنی کرتا تھا ، آگ میں جلانے کے بجائے تلوار سے قتل کرتا۔
اور وہ تین چیزیں جن کے بارے میں کاش میں نے پیغمبر اکرم سے پوچہ لیاھوتا یہ ھیں :
1۔ کاش میں نے پوچہ لیا ھوتا کہ خلافت و قیادت کا حقدار کون ھے ؟ اور خلافت کا لباس کس کے بدن کے مطابق ھے؟
2۔ کاش میں سوال کرلیا ھوتا کہ کیا اس سلسلے میں انصار کا کوئی حق بنتا ھے؟
3 کاش میں نے پھوپھی اور بھن کی بیٹی کی میراث کے بارے میں پیغمبر اسلام سے دریافت کرلیا ھوتا! (۱)
نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی
اھل سنت کے بعض علماء اور دانشوروں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیماری کے دوران نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی کے موضوع کو بڑی شدو مد سے نقل کیاھے اور اسے ایک بڑی فضیلت یا خلافت کے لئے سند شمار کرکے یہ کھنا چاھا کہ جب پیغمبر نماز میں ان کی جانشینی پر راضی ھوں تو لوگوں کو ان کی خلافت اور حکمرانی پر اور بھی زیادہ راضی ھونا چاھئے جو ایک دنیوی امر ھے ۔
جواب :یہ استدلال کئی جھتوں سے قابل رد ھے :
1۔ تاریخی لحاظ سے کسی بھی صورت میں ثابت نھیں ھے کہ نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی پیغمبر کی اجازت سے انجام پائی ھو ۔ بعید نھیں ھے کہ انھوں نے خود یا کسی کے اشارہ پر یہ کام انجام دیا ھو۔ اس امر کی تائید اس واقعہ سے ھوتی ھے کہ حضرت ابو بکر نے ایک بار اور پیغمبر کی اجازت کے بغیر آپ کی جگہ کھڑے ھوکر نماز کی امامت خود شروع کردی تھی ۔اھل سنت کے مشھور محدث امام بخاری اپنی صحیح میں نقل کرتے ھیں : ایک دن پیغمبر قبیلہ بنی عمرو بن عوف کی طرف گئے تھے ۔ نماز کا وقت ھوگیا ابو بکر پیغمبر کی جگہ پر کھڑے ھوگئے اور نماز کی امامت شروع کردی جب پیغمبر مسجد میں پھنچے اور دیکھا کہ نماز شروع ھوچکی ھے تو نمازکی صفوں کو چیرتے ھوئے محراب تک پھنچ گئے اور نماز کی امامت خود سنبھال لی اور ابو بکر پیچھے ھٹ کر بعد والی صف میںکھڑے ھوئے۔ (۲)
2۔ اگر ھم فرض کرلیں کہ حضرت ابو بکر نے پیغمبر کے حکم سے آپ کی جگہ پر نماز پڑھائی ھوگی تو نماز میں امامت کرنا ھرگز حکومت اور خلافت جیسی انتھائی اھم ذمہ داری کی صلاحیت کےلئے دلیل نھیں بن سکتا ۔
نماز کی امامت کےلئے قرائت کے صحیح ھونے اور احکام نماز جاننے کے علاوہ کوئی اور چیز معتبر نھیں ھے ( اور اھل سنت علماء کی نظر میں عدالت تک کی شرط نھیں ھے ) لیکن خلافت اسلامیہ کے حاکم کےلئے سنگین شرائط ھیں جن میں سے کسی ایک شرط کو نماز کی امامت کےلئے ضروری نھیں سمجھا جاتا ھے ،جیسے : اصول اور فروع دین پر مکمل دسترس اور کامل آگاھی رکھنا۔
احکام اور حدود الٰھی کے تحت مسلمانوں کے امور کو چلانے کی پوری صلاحیت رکھنا ۔
گناہ اور خطا سے مبرّا ھونا
اس استدلال سے پتا چلتا ھے کہ استدلال کرنے والے نے امامت کے منصب کو ایک معمولی منصب تصور کرلیا ھے اور اس سے پیغمبر کی جانشینی کوایکعام حکمرانی کے سوا کچھ اور نھیں سمجھا ھے اسی لئے وہ کھتا ھے کہ : جب پیغمبر نے ابو بکر کو دینی امر کےلئے منتخب کرلیا تو لازم اور ضروری ھے کہ ھم ان کی خلافت پر اور بھی زیادہ راضی ھوں ، جو ایک دنیوی امر ھے۔
اس جملہ سے معلوم ھوتا ھے کہ کھنے والے نے اسلامی حکمرانی سے وھی معنی مراد لیا ھے جو دنیا کے عام حکمرانوں کے بارے میں تصور کیا جاتا ھے ۔ جبکہ پیغمبر کا خلیفہ ظاھری حکومت اور مملکت کے امور کو چلانے کے علاو کچھ ایسے معنوی منصبوں اور اختیارات کا بھی مالک ھوتا ھے جو عام حکمراں میں نھیں پائے جاتے اور ھم اس سلسلے میں اس سے پھلے مختصر طور پر بحث کرچکے ھیں۔
3۔ اگر نماز کیلئے حضرت ابو بکر کی امامت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے انجام پائی تھی ، تو پیغمبر اکرم بخار اور ضعف کی حالت میں ایک ھاتہ کو حضرت علی(ع)کے شانے پر اور دوسرے ھاتہ کو ” فضل بن عباس “ کے شانے پر رکہ کر مسجد میں کیوں داخل ھوئے اور حضرت ابو بکر کے آگے کھڑے ھوکر نماز کیوں پڑھائی؟ پیغمبر کا یہ عمل امامت کےلئے حضرت ابو بکر کے تعین سے میل نھیں کھاتا۔اگر چہ اھل سنت علماء نماز میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شرکت کی اس طرح توجیہ کرتے ھیں کہ حضرت ابو بکر نے پیغمبر اکرم کی اقتداء کی اور لوگوں نے ابو بکر کی اقتداء کی ۔ اسی صورت میں نما زپڑھی گئی (۳)
واضح ھے کہ یہ توجیہ بھت بعید اور ناقابل قبول ھے ، کیونکہ اگر یھی مقصود تھا تو کیا ضرورت تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس ضعف و بخار کی حالت میں اپنے چچیرے بھائیوں کا سھارا لیکر مسجد میں تشریف لا تے اور نماز کےلئے کھڑے ھوتے؟ بلکہ اس واقعہ کا صحیح تجزیہ یہ ھے کہ پیغمبر اکرم اپنی اس کاروائی سے حضرت ابو بکر کی امامت کو توڑ کر خود امامت کرنا چاھتے تھے۔
4۔ بعض روایتوں سے پتا چلتا کہ کہ نماز کےلئے حضرت ابو بکر کی امامت ایک سے زیادہ بار واقع ھوئی ھے اور ان سب کا پیغمبر کی اجازت سے ثابت کرنا بھت مشکل اور دشوار ھے کیونکہ پیغمبر اکرم نے اپنے بیماری کے آغاز میں ھی اسامہ بن زید کے ھاتہ میں پرچم دیکر سب کو رومیوں سے جنگ پر جانے اور مدینہ ترک کرنے کا حکم دے دیا تھا ۔ اور لوگوں کے جانے پر اس قدر مصر تھے کہ مکرر فرماتے تھے :
”جھّزو جیش اسامة “اسامہ کے لشکر کو تیار کرو۔
اورجو افراد اسامہ کے لشکر میں شامل ھونے سے انکار کررھے تھے ، آپ ان پر لعنت بھیج کر خدا کی رحمت سے محروم ھونے کی دعا فرماتے تھے (۴)
ان حالات میں پیغمبر ابوبکر کو امامت کے فرائض انجام دینے کی اجازت کیسے دیتے ؟!
5۔ مؤرخین اور محدثین نے اقرار کیا ھے کہ جس وقت حضرت ابو بکر نماز کی امامت کرنا چاھتے تھے ، پیغمبر اکرم نے حضرت عائشہ ، ابو بکر کی بیٹی سے فرمایا:”فانّکنّ صواحب یوسف“” تم مصر کی عورتوں کے مانند ھو جنھوں نے یوسف(ع)کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا“اب دیکھنا چاھئے کہ اس جملہ کا مفھوم کیا ھے، اور اس سے پیغمبر کا مقصد کیا تھا؟
یہ جملہ اس امر کی حکایت کرتا ھے کہ حضرت عائشہ پیغمبر اکرم کی تنبیہ کے باوجود اسی طرح خیانت کی مرتکب ھوئی تھیں ، جس طرح مصر کی عورتیں خیانت کی مرتکب ھوئیں تھی اور زلیخا کو عزیز مصر سے خیانت کرنے پر آمادہ کرتی تھیں۔
جس خیانت کے بارے میں یھاں پر تصور کیا جاسکتا ھے ، وہ اس کے سوا کچھ نھیں کہ حضرت عائشہ نے پیغمبر اکرم کی اجازت کے بغیر اپنے باپ کو پیغام بھیجا تھا کہ پیغمبر کی جگہ پر نماز پڑھائیں۔
اھل سنت کے علماء ، پیغمبر اسلام کے اس جملہ کی دوسرے انداز میں تفسیر کرتے ھیں اور کھتے ھیں :
پیغمبر اصرار فرماتے تھے کہ حضرت ابو بکر آپ کی جگہ پر نماز پڑھائیں ، لیکن حضرت عائشہ راضی نھیں تھیں ، کیونکہ وہ کھتی تھیں کہ لوگ اس عمل کو فال بد تصور کریں گے اور حضرت ابو بکر کی نما زمیں امامت کو پیغمبر کی موت سے تعبیر کریں گے اور حضرت ابو بکر کو پیغمبر کی موت کا پیغام لانے والا تصور کریں گے “
کیا یہ توجیہ پیغمبر اسلام کے عمل ( مسجد میں حاضر ھوکر امامت کو سنبھالنے ) سے میل کھاتی ھے؟!!
یھاں پر میں اپنی بات تمام کرتے ھوئے اس قضیہ کی صحیح نتیجہ گیری کا فیصلہ قارئین کرام پر چھوڑتا ھوں۔
حوالہ جات
1۔ تاریخ طبری ،ج3 ، ص 234 ۔
2۔ صحیح بخاری ج 2، ص 25۔
3۔ صحیح بخاری ، ج 2، ص 22۔
4۔ شرح نھج البلاغہ،ابن ابی الحدید ، ج 6، ص 52 ، نقل از : کتاب السقیفہ ، تالیف ابو بکر احمد بن عبد العزیز جوھری۔
source : http://www.shiastudies.com