فدک خیبر کے مشرق اور مدینه منوره سے 20 فرسخ (120 کیلومیٹر) کے فاصلے پر واقع ایک سرزمین کا نام ہے. اس علاقے میں رسول الله کے دور میں پانی کا چشمه تھا؛ نخلستان تھا؛ کھیتی باڑی کے لئے زرخیز خطه بھی تھا اور یہاں رہنے کے لئے ایک رہائشی قلعہ بھی تھا جہاں یہودی رہائش پذیر تھے.
غزوہ خیبر میں (لشکر اسلام کے سپہ سالاروں کی ناکامی کے بعد) جب علی علیہ السلام کی سرکردگی میں خیبر کے قلعات یکے بعد دیگرے فتح ہوئے تو فدک کی یہودی – جنہوں نے جنگ خیبر میں خیبر کے یہودیوں کو تعاون کا وعدہ دیا تھا؛ بغیر جنگ و خونریزی کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے ہتھیار ڈال کر جنگ سے دستبردار ہوئے؛ چنانچہ فدک کا علاقہ جنگ کے بغیر ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سپرد کیا گیا. اور سورہ حشر کی آیات 6 اور 7 کی مطابق([1]) حکم الہی سے یہ سرزمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ملکیت خاص قرار پائی. ان آیات کے مطابق مسلمان اور مجاہدین کے لئے – جنگوں میں ملنے والی غنیمت کے برعکس – اس سرزمین میں کوئی حصہ قرار نہیں دیا گیا.
سنی اور شیعہ مؤرخین اور راویوں کا اتفاق ہے کہ سورہ اسراء کی آیت 26([2]) کے نزول کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کو اپنے پاس بلایا اور اپنی اس ذاتی ملکیت یعنی فدک کی وسیع و عریض اور زرخیز زمینیں آپ (س) کو بخش دیں اور یہ زمینیں سیدہ کی ملکیت میں آگئیں.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد اول نے کچھ افراد فدک روانہ کئے اور مالکہ یعنی سیدہ سلام اللہ علیہا کے وکلاء کو وہاں سے نکال باہر کرکے اس علاقے کو غصب کردیا. سیدہ نے اول کے پاس جاکر اپنا حق چھینے جانے کی شکایت کی اور ابوبکر نے فیصلہ سنایا جو سب کو معلوم ہے.
سماعتی ضوابط اور عدالتی کاروائی کی قواعد کی رو سی فیصلہ متعدد اور عدالتی خامیوں اور نواقص کا مجموعہ ہے؛ جیسا کہ:
1- اسلامی سماعتی رویئے (Islamic Hearing Procedure) اور فقہی قواعد کے مطابق اگر کسی شخص کے قبضے میں کوئی مال یا جائیداد ہو (مثلا ایک مکان اس کے تصرف میں ہو) اور دوسرا شخص اس پر اپنی مالکیت کا دعوي کرے مدعی کا فرض ہے کہ وہ اپنا دعوي ثابت کرے اور گواہ پیش کرے اور جو شخص متصرفِ مال و مِلک (Possessor) ہے اس پر اس طرح کا کوئی فرض عائد نہیں ہوتا؛ جبکہ اول نے اس مسلمہ اور حقیقی و یقینی قانون کے برعکس اپنا دعوي ثابت کرنے کے لئے کوئی شاہد و گواہ پیش نہیں کیا بلکہ سیدہ فاطمہ (س) سے گواہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا.
2-فقہ کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ جب تک متصرف جائداد کے خلاف کسی نے شکایت نہ کی ہو قاضی (یا حاکم) کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اس کے خلاف کوئی اقدام کرے. اور یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ سیدہ کے خلاف کسی نے بھی جاکر دربار خلیفہ میں شکایت نہیں کی تھی.
3-اول خود ہی مدعی (Complainant) بھی تھے اور قاضی بھی! اور یہ امر اسلامی فقہ کی رو سے ہرگز مجاز نہیں ہے.
4- قاضی کو مدعی اور مدعي علیہ کا موقف سن کر فیصلہ کرنا چاہئے اور اس کے بعد حکم پر عملدر آمد کرانا چاہئے؛ جبکہ اس مخصوص مسئلے میں شکایت، فرد جرم عائد کرنے، فیصلہ سنانے اور دیگر مراحل طے کرنے سے قبل ہی اول نے فدک کو اپنے قبضے میں لے رکھا تھا اور یہ امر بھی عدالتی معیاروں سے مطابقت نہیں رکھتا.
5- قانون کے مطابق جب قاضی خود حقیقت کا علم رکھتا ہو. ([3]) وہ اپنے علم کے مطابق فیصلہ کرسکتا ہے. اول آیت تطہیر ([4]) کے ظاہر و مفہوم کے تحت بخوبی جانتے تھے کہ حضرت فاطمہ (س) ، معصومہ اور طاہرہ ہیں اور کبھی جھوٹ نہیں بولتیں مگر انہوں نے سیدہ کی بات قبول کرنے سے صاف انکار کیا اور ان سے گواہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا!
6- گو کہ گواہ پیش کرنے کی ذمہ داری اول پر عائد ہوتی تھی (کیونکہ مدعی وہی تھے)، سیدہ فاطمہ (س) نے دو گواہ پیش کئے: «حضرت علی علیہ السلام» اور رسول اللہ (ص) کی خادمہ «جناب ام ایمن».
ان دو گواہوں میں سے ایک بحکم آیت تطہیر معصوم تھے اور دوسری ام ایمن تھیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نی جنت کی بشارت سنائی تھی. آیت تطہیر پر ایمان رکھنے والے ہر شخص کے لئے اس آیت کے مطابق، مصداق آیت “حضرت علی علیہ السلام” کی گواہی مفیدِ علم اور حجت تھی اور دو گواہوں کی گواہی کا نعم البدل ہوسکتی تھی. اسی طرح ام ایمن کی گواہی رسول اللہ (ص) کے وعدہ جنت کی رو سے اطمینان بخش تھی اور یہ گواہی دو عورتوں کی گواہی کا نعم البدل ہوسکتی تھی یا پھر ایک مرد (خواہ وہ علی علیہ السلام کی بجائے کوئی عام آدمی ہی کیوں نہ ہو) کی گواہی کو مکمل کرسکتی تھی. مگر تعجب و تأسف کا مقام ہے کہ خلیفہ نے ان دو کی شہادت قبول نہیں کی اور کہا: ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی قابل قبول نہیں ہے بلکہ دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہی دینی چاہئے!!
7- ہم (اِس زمانے میں) جانتے ہیں (تو خلیفہ بھی اُس دور میں ضرور جانتے ہونگے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جلیل القدر صحابی «خزیمة بن ثابت» کی گواہی دو گواہوں کی گواہی کے بدلے قبول فرمائی جس کی وجہ سے خزیمہ ذوالشہادتین کے لقب سے مشہور ہوئے. اب سوال یہ ہے کہ کیا علی علیہ السلام کی گواہی / شہادت – جو سابق فی الاسلام بھی تھے اور قرآن کی صریح گواہی کے مطابق معصوم بھی تھے – خزیمہ کی گواہی کے برابر بھی نہ تھی؟ !
8- اسلامی سماعتی رویئے کے مطابق عدالت میں مالکیت کے اثبات کے لئے دو مرد گواہوں کی ضرورت نہیں ہوتی؛ بلکہ ایک شاہد اور ایک قسم بھی کافی ہے؛ بالفاظ دیگر مال و جائداد کے مقدمات میں “قسم” گواہی کو مکمل کر دیتی ہے اور فدک کا مسئلہ بھی مال و جائداد کا مسئلہ تھا.
9- اول و دوئم کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کثرت مصاحبت کی بنا پر ان دونوں کو قطعی طور پر اس حقیقت سے آگاہی حاصل تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فدک سیدہ فاطمةالزہراء سلام اللہ علیہا کو واگذار کیا تھا؛ ان دونوں کو اس حقیقت کا علم تھا مگر خلیفہ نے سماعت کی متعدد خامیوں اور نواقص کے باوجود اپنے علم و یقین کے برعکس فیصلہ دیا.
10-شاید اول کے فیصلے کے بے بنیاد ہونے کی اصلی ترین دلیل یہ ہو کہ تاریخ نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اور فدک کئی بار اہل بیت علیہم السلام کو لوٹا دیا گیا. یہ کام سب سے پہلے عمربن عبدالعزیز نے کیا۔ ([5])
مأخوذ از کتاب: فدک، تألیف آیت اللہ رضااستادی ، مطبوعہ نشر برگزیدہ ، قم ، بهار 2006
مآخذ:
[1] - وَمَا أَفَاء اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَن يَشَاء وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور جو کچھ خدا نے ان سے اپنے رسول صلی الله علیہ و آلہ و سلم کی طرف لوٹایا ہے، ایسی چیز ہے جس کے حصول کے لئے نہ تو تم (مسلمانوں) نے گهوڑے دوڑائے ہیں نہ ہی اونٹ، مگر خدا اپنے رسل کو جس پر چاہے مسلط کردیتا ہے اورالله ہر چیز پر قدرت رکهتا ہے.
مَّا أَفَاء اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبَى و َالْيَتَامَى وَ الْمَسَاكِينِ وَ ابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاء مِنكُمْ
اور بستیوں والوں کا جو کچھ (مال و مِلک) الله تعالی اپنے رسول (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کے ہاتھ لگائے وه الله کا ہے اور رسول (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کا اور رسول کے قرابتداروں اور یتیموں، مسکینوں کا اور راستے میں (بے خرچ) رہنے والے مسافروں کا ہے تا کہ تمہارے دولتمندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ ره جائے.
[2] - وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ
اور قرابت دار کو اس کا حق دے دو.
[3]- اگر کوئی دعوي کرے کہ خلیفہ نے علم و یقین کے مطابق فیصلہ دیا اسی لئے انہوں نے عدالتی کاروائی کے مختلف مراحل طے کرنا ضروری سمجھے بغیر فدک پر قبضہ کیا تو اس کو اس سوال کا سامنا کرنا پڑے گا کہ اگر انہیں یقین تھا تو پھر انہیں عدالتی کاروائی کا سلسلہ کیوں چلایا اور سیده (س﴾ سے گواہ پیش کرنے کا مطالبہ کیوں کیا؟ یا پھر اس سوال کا جواب دینا پڑے گا کہ کیا انہوں نے وفات رسول (س﴾ سے قبل ہی فدک غصب کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جیسا که قرائن وشواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بھی پہلے سے ہی طی شدہ تھا اور فدک غصب کرکے خاندان رسالت کو مالی اور اقتصادی لحاظ سے کمزور اورمحتاج بنانا تھا اور عدالتی کاروائی صرف ایک ڈھونگ تھی!. حقیقت یہ ہے کہ اول و دوئم ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رہتے تھے اور قطعی طور پر اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فدک سیدہ فاطمةالزہراء سلام اللہ علیہا کو واگذار کیا تھا؛ مگر اول نے در حقیقت اپنے علم و یقین کے برعکس فیصلہ دیا۔
[4] – إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا” (احزاب – 33﴾
خدا نے فقط ارادہ فرمایا کہ رجس و آلودگی کو تم خاندان (اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے دور کردے اور تمہیں پاک و مطہر کردے جیسا کہ پاک ہونے کا حق ہے.
[5] - عمر بن عبدالعزیز اہل سنت و الجماعت کے ہاں خلفائے راشدین کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں البتہ یہ روایت بھی ہے کہ ان سے پہلے دوئم نے اپنی دور میں ایک بار فدک اہل بیت علیہم السلام کو لوٹا دیا تھا جس سے اول کے فیصلے کے اعتبار کا اندازہ ہوتا ہے
source : /www.fourteenstars.com