فرانس میں دیگر یورپی ممالک کے مقابلے مسلمانوں کی آبادی کہیں زیادہ ہے اس کے باوجود ان دنوں دوسرے یوروپی ممالک کے مقابلے فرانس میں ہی مسلم دشمنی شباب پر پے۔ ان دنوں فرانس کے الگ الگ شہروں میں مسلمانوں کے قبرستانوں، عبادت خانوں اور مسجدوں کو نشانہ بنانے کا ایک سلسلہ شروع ہے۔ تازہ ترین واردات اپریل کی ہے جب فرانس کے جنوب مغربی شہر تولوسو کے مسلمان اس وقت انگشت بدانداں رہ گئے جب وہ نماز فجر کیلئے مقامی مسجد پہنچے۔ مسجد کسی ایک یا کئی شرپسندوں نے ملکر جلا دی تھی۔ مسجد السلام کے امام عبدالنبی الحمراوی نے مسجد جلانے کی واردات کو دلدوز قرار دیتے ہوئے اس سوال کا جواب دینے سے معذوری ظاہر کی کہ مسجد جلانے کے پس پشت کون ہوسکتا ہے اور مسجد کیوں جلائی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا کسی بھی پڑوسی سے کبھی کسی قسم کا کوئی تنازعہ نہیں رہا ہے۔ مسجد السلام شہر تولوسو کی مضافاتی بستی کولومائرز میں واقع ہے اور یقینی طور پر اسے 11 اپریل کی شب آگ لگائی گئی تھی۔ سرکاری اہلکاران کے مطابق کوئی ایک درجن فائر انجنوں نے آگ پر فوری طور پر قابو پالیا پر اتنی دیر میں مسجد السلام کا اندرون مکمل طور پر جل کر تباہ ہو چکا تھا۔ تحقیقاتی افسران کو اندازہ ہے کہ آگ دانستہ لگائی گئی تھی۔ مسجد السلام میں آگ لگانے کیلئے شرپسندوں نے صحن مسجد میں کچرا جمع کرکے اس کو پھونک دیا تھا۔ مسجد کے اندر داخل ہونے کیلئے شرپسندوں نے دروازے توڑ دئے تھے۔ مسجد السلام کی آتش زنی کو وزیر داخلی سلامتی مائیکل الیوٹ میری نے نفرت انگیز قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو یہ یقین دلایا ہے کہ شرپسندوں کو ہرحالت میں گرفتار کرلیا جائیگا۔ وزیر کے مطابق شرپسندوں کی شناخت اور گرفتاری کی ہر ممکنہ کوشش کی جائے گی۔ مسجد السلام کا افتتاح کیا گیا تھا۔ اس مسجد پر حملہ کرکے اسے کیوں نذر آتش کیا گیا اس سلسلہ میں مقامی مسلمان کسی ایک نتیجہ پر پہنچنے سے قاصر ہیں۔ فرانس کی اسلامی تنظیم کے ایک ذمے دار عبدالقادر کا کہنا ہے کہ آتش زنی کی کوئی بھی ممکنہ وجہ ہوسکتی ہے۔ ایک وجہ اسلاموفوبیا یعنی اسلام سے خوف اور ڈر بھی ہے مگر یہ بھی ممکن ہے کہ مسلمانوں کے آپسی مسلکی تنازعات کی وجہ سے مسجد کو آگ لگائی گئ ہے۔ حالیہ دنوں میں مسجد السلام اور دوسری مسجدوں کے نظم کو لیکر مقامی باشندوں کے مختلف گروپوں میں اختلافات ابھر آئے تھے۔ مراکشی مسلمان شدو مد سے مسجد السلام پر قبضہ کرنے کیلئے کوشاں تھے۔ ایک بار مسجد السلام کے اندر مخالف گروپوں میں ہاتھاپائی بھی ہوئی تھی۔ مسجد السلام جس علاقہ میں ہے وہاں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات تقریبا خوشگوار ہیں اور کبھی کسی کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف آواز نہیں اٹھائی گئی ہے۔ مگر علاقہ کے ایک مسلمان عمار مکرم کا کہنا ہے کہ اسلام سے ڈر، خوف اور نفرت کے اظہار کیلئے مسجد السلام میں آگ لگائی گئی ہے، عمار مکرم آتش زنی کی اس واردات کو گذشتہ چند دنوں کے اندر فرانس کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کیخلاف ہونے والے نفرت انگیز ہنگاموں سے جوڑ رہے ہیں۔اپریل کے آغاز میں ایک قبرستان میں نہ صرف مسلم قبروں کی بے حرمتی کی گئی بلکہ وہاں مسلمانوں کی قبروں پر خنزیز کے سر کاٹ کر ڈال دئے گئے تھے۔ فرانس میں نوٹرے ڈم دی لوورے کا قبرستان جنگ عظیم کے مرحومین کا سب سے بڑا قبرستان ہے، اس قبرستان میں مسلمانوں کی قبریں بھی ہیں۔ جنگ عظیم کے مرحومین کو خراج عقیدت پیش کرنے کی ایک سرکاری تقریب کے دوران مسلمانوں کی قبروں پر خنزیر کے سر ڈال کر قبروں کی بے حرمتی کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی اکثریت کا یہ اندازہ ہے کہ مسلم قبروں کی بے حرمتی انتہائی دائیں نظریات کے شدت پسندوں نے کی تھی اور یہی شدت پسند مسجد السلام کی آتش زنی کے بھی ذمہ دار ہیں۔ اس سے قبل بھی فرانس میں مسلم قبروں کی بے حرمتی اور عبادت گاہوں پر حملہ کی وارداتیں ہوچکی ہیں۔ اپریل کے رواں مہینے میں ہی ہیسنکن نامی شہر میں بھی ایک مسجد پر حملہ کرکے مسجد کی بے حرمتی کی گئی تھی۔حملہ میں نسل پرست اور نو نازی ملوث تھے۔ ان حملوں کی ممکنہ وجہ مسلمانوں میں اشتعال پھیلانا ہے مگر مسجدوں پر حملے کی وارداتوں اور قبرستانوں کی بے حرمتی اور مسلمانوں کے خلاف شرانگیز نعروں کے باوجود فرانس کا مسلمان صبر وضبط کا دامن تھامے ہوئے ہے، مگر حالات کسی بھی وقت بگڑ سکتے ہیں اور تشدد کا لاوا پھوٹ سکتا ہے۔ مسلم لیڈران اس حقیقت سے واقف ہیں کہ تشدد ہوا تو مسلمان خسارہ میں رہیں گے اس لئے وہ نوجوانوں کو مشتعل ہونے سے روکنے کیلئے ہرممکن کوششیں کرہے ہیں۔ فرانس میں کوئی سات ملین یعنی 11 لاکھ مسلمان رہتے ہیں۔
بشکریہ سیاست بنگلور
source : http://www.akhbaroafkar.com