انہوں نے کہا: مجھے اسلامی انقلاب نے تشیع کی راہ دکھائی.حقیقت کے حقیقی طالب اسے حاصل کرہی لیں گے خواہ وہ اپنی عمر کے تیسرے عشرے میں حق کے منبع سے ہزاروں میل دور ہی کیوں نہ بس رہے ہوں.
«جناب لافرمونی» سری لنکا کے باشندے ہیں اور اس ملک کی زبان سنہالی ہے اور وہاں کی آبادی کے 74 فیصد لوگ بدھ مذہب کے پیروکار ہیں جبکہ مسلمانوں کی آبادی بہت ہی قلیل ہے اور مسلمانوں کی اکثریت کا تعلق سنی مسلک سے ہے.
انہیں انقلاب اسلامی کا پیغام پہنچا اور آخر کار مذہب اہل بیت (ع) کے دائرہ حق میں وارد ہوئے.
جناب لافرمونی کے ساتھ مختصر سا انٹرویو:
س. سنا ہے کہ آپ اپنی عمر کے تیسرے عشرے تک اہل سنت کے پیروکار تھے اور اس کے بعد شیعہ ہوگئے.
ج. جی ہاں.
س: کیوں شیعہ ہوئے؟
ج. میں سنی گھرانے میں پیدا ہوا اور پروان چڑھا؛ ہائی اسکول سے فارغ ہونے کے بعد جغرافیہ کے مضمون میں سری لنکا ہی کی ایک یونیورسٹی میں حصول تعلیم کیا. میں یونیورسٹی میں ہی تھا کہ ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا اور ہم انقلاب اسلامی کی خبریں اخبارات وغیرہ کے ذریعے پڑھتے رہتے تھے. یونیورسٹی سے فراغت کے بعد وزارت تعلیم میں بھرتی ہوا اور استاد کی حیثیت سے سرگرم عمل ہوا. اسی دوران ایرانی سفارتخانے نے کلچرل ہاؤس کی بنیاد رکھی اور اس نے ترجمے کے سلسلے میں مجھ سے تعاون کی درخواست کی؛ میں انگریزی اور عربی زبان پر عبور رکھتا تھا چنانچہ میں نے ادارہ تعلیم کو استعفا دیا اور میری کلچرل ہاؤس میں تقرری ہوئی. اس نئے پیشے میں مجھے پہلی بار تشیع پڑھنے کو ملا اور میں نے تشیع کا بھرپور مطالعہ کیا؛ کچھ عرصہ بعد سفارت خانے کے اہلکاروں کی ترغیب پر میں نے ایران کا سفر کیا اور قم کے مقدس شہر میں اپنے مطالعات کی تکمیل کی اور باقاعدہ طور پر شیعہ ہوا.
س. سری لنکا میں ادیان و مذاہب کے پیروکاروں کا تناسب کیا ہے؟
ج. 74 فیصد بدھ مذہب کے پیروکار ہیں؛ اور باقی لوگ دیگر ادیان کے پیروکار ہیں؛ 7 فیصد عوام مسلمان اور سنی ہیں جبکہ شیعیان اہل بیت (ع) کی تعداد قلیل ہے.
س: آپ کے ملک کی عمومی زبان کیا ہے؟
ج. سری لنکا کے عوام کی زبان سنہالی ہے.
س. ایران سے واپسی کے بعد کیا آپ کی تبلیغی سرگرمیاں بھی ہیں؟
ج. ہاں! میں عالمی اسلامی علوم کے مرکز (جو اب جامعةالمصطفی العالمیہ میں تبدیل ہوا ہے) میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد سری لنکا واپس لوٹا اور وہاں «ہاشمیہ فاؤنڈیشن» کی بنیاد رکھی جس کا مقصد ہی ثقافتی اور تبلیفی سرگرمیاں آگے بڑھانا ہے اور اس وقت میں اس فاؤنڈیشن کا ڈائریکٹر ہوں.
س. آپ کی قلمی سرگرمیاں؟
ج. میں نے اب تک 40 کتابیں شائع کی ہیں جن میں «صحیفہ کاملہ سجادیہ» کا تامل زبان میں ترجمہ، چودہ معصومین علیہم السلام کی زندگانی کی تألیف، اسلام میں عورت کے حقوق اور سچوں کی کہانیاں سمیت آیت اللہ شہید مطہری کی بعض کتابوں کا ترجمہ، ڈاکٹر علی شریعتی کی بعض کتابوں کا ترجمہ، اور سب سے اہم سنہالی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں.
اس کے علاوہ متعدد علمی مقالات کا بھی ترجمہ کیا اور میں نے خود بھی متعدد مقالات لکھ کر شائع کئے.
س. آپ کتنی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں؟
ج. فارسی، عربی، انگریزی اور دو مقامی زبانوں پر عبور کامل رکھتا ہوں.
س: شکریہ
ج. میں بھی آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں.
source : http://rizvia.net