اس بات سے قطعی انکار کی گنجایش نہیںکہ انسان کی نشونما اور زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ اسکی کی ضرورتیں اور احتیاجات بھی بدلتے رہتے ہیں اگر یہ تبدیلی نہ ہوتی توکسی بھی طرح کی ترقی اور نشونما کا امکان بھی نہ ہوتا چونکہ انسان طبیعی طورسے معاشرتی اور اجتماعی ہے اسی لئے اپنی شخصی اور فردی زندگی کے علاوہ معاشرتی زندگی میں بھی آگے بڑھنا چاہتاہے اس سلسلے میں اپنی ذاتی صلاحیتوں کے علاوہ ووسروں کے تجربوں اور روزمرہ کے ایسے سارے وسائل اور ابزار کا سہارا لیتا ہے جو اسے جلد از جلد اپنے منزل مقصود سے ہمکنار کراسکتے ہوںانہی میں سے ایک ناقابل انکار حقیقت آئیڈیل، ماڈل یا اسوہ ہے جسکے نقش قدم پر چل کر انسان اپنی زندگی کے مختلف جوانب اور میادین میں رشد و ترقی کی راہوں کو طے کرتا ہے بعض افراد غیر شعوری اور بعض شعوری طور پراپنی زندگی میںاس ضرورت کومحسوس کرتے ہیںاور یہ ایک ایسی ضرورت ہے جس میں نہ عمر کا لحاظ ہوتا ہے اور نا ہی کسی اور چیز کا۔ بلکہ انسان اپنے آئیڈیل کی کامیاب زندگی کے اصولوں کی پیروی کرکے اپنی زندگی کوبھی کامیاب بناناچاہتا ہے لہذابچے، بوڑھے، خواتین ومرد ، جاہل ، عالم ، اچھا برا سب کے سب اپنی زندگی میں ایک ایسے آئیڈیل کی تلاش میں ہوتے ہیں جسے وہ اپنی زندگی کے تمام میادین میں نمونہ عمل بناسکیں۔پس دوسرے معنوں میںاگرا سے فطری ضرورت کا نام دیا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔
جی ہاںدینی اورمذہبی تعلیمات کی رو سے بھی اگر دیکھا جائے تواس ضرورت پرنہ صرف تاکید ہوئی ہے بلکہ دینی اور اسلامی آئیڈیل اور اسوہ حسنہ کے نقش قدم پر فکری اور عملی میدان میں چلنے پر بھی بہت زور دیا گیا ہے۔
قرآنی آیات اوراسلامی روایات کی روسے بھی زندگی میں آئیڈیل اپنانے پر بہت تاکید ہوئی ہے قرآن کریم نے انسان کے واسطے مثبت اور منفی دونوں طرح کے آئیڈیل کاتعارف بھی کرایا ہے اور مثبت آئیڈیل کو اسطرح سے پیش کیا کہ گویا تمام اعصار میں تمام نسلوں کے واسطے قابل اعتماد اور قابل عمل ہو سکتا ہے۔مثال کے طور پر پیغمبر اسلام (ص) کو صاحبان ایمان کے واسطے اسوہ حسنہ اور ماڈل قرار دیاہے
''لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ لمن کان یرجو اللہ و الیوم الآخر۔۔۔( احزاب٢١)''
''تم میں سے رسول کی زندگی میں اسکے لئے بہترین نمونہ عمل ہے جو بھی خدا اور آخرت سے امید لگائے ہوئے ہے''
اسی طرح سے توحید اور وحدانیت کی حقیقت کو فروغ بخشنے والے حضرت ابراہیم اور آپکے ساتھیوں کو مسلمانوں کے واسطے نمونہ عمل اور ماڈل کیا حیثیت سے پیش کیا گیاہے۔
''قدکانت لکم اسوة حسنہ فی ابراھیم و الذین معہ۔۔۔( ممتحنہ ٤)'' ''بیشک حضرت ابراہیم اور آپکے ساتھیوں کی زندگی میں تمہارے لئے نمونہ عمل ہے''
اور سورہ تحریم کی آخری تین آیتوں میں دو طرح کے منفی اور مثبت آئیڈل پیش کئے ہیں اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ کفار اور غیر مسلموں کے واسطے حضرت لوط اور نوح کی بیویاںمنفی آئیڈیل اورحضرت آسیہ اور حضرت مریم کو سارے مومن خواتین و مرد کے لئے مثبت آئیڈیل بناکے پیش کے گیا۔
ضَرَبَ اﷲُ مَثَلاً لِلَّذِینَ کَفَرُوا اِمْرََةَ نُوحٍ وَاِمْرََةَ لُوطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنْ اﷲِ شَیْئًا وَقِیلَ ادْخُلاَالنَّارَ مَعَ الدَّاخِلِینَ (١٠) وَضَرَبَ اﷲُ مَثَلاً لِلَّذِینَ آمَنُوا اِمْرََةَ فِرْعَوْنَ ِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِی عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ وَنَجِّنِی مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہِ وَنَجِّنِی مِنْ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ (١١) وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِی َحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیہِ مِنْ رُوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِکَلِمَاتِ رَبِّہَا وَکُتُبِہِ وَکَانَتْ مِنْ الْقَانِتِینَ (١٢)
خدا نے کفر اختیار کرنے والوں کے لئے زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال بیان کی ہے کہ یہ دونوں ہمارے نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں لیکن ان سے خیانت کی تو اس زوجیت نے خدا کی بارگاہ میں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور ان سے کہہ دیا گیا کہ تم بھی تمام جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجا (10)
اور خدا نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی زوجہ کی مثال بیان کی ہے کہ اس نے دعا کی کہ پروردگار میرے لئے جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے کاروبار سے نجات دلادے اور اس پوری ظالم قوم سے نجات عطا کردے (11)
اور مریم بنت عمران علیہا السلام کی مثال جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کے کلمات اور کتابوں کی تصدیق کی اور وہ ہمارے فرمانبردار بندوں میں سے تھی(12)
پس فردی اور معاشرتی سطح پرایک ا چھے اور مثبت آئیڈیل کی ضرورت سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے اور عقلی و شرعی اعتبار سے ایک آئیڈیل ہماری زندگی میں مؤثر کردار اپنا تا ہے وگرنہ شریعت کی تاکید کرنا بے معنی ہے۔
یہ مضمون چونکہ معاشرے کی ایسی صنف کے آئیڈیل کی ضرورت کے پہلو پر روشنی ڈالے گا جسکا انسانی اور مثالی معاشرہ بنانے میں ایک اہم کردار ہے اگر کہا جائے کہ مرد سے بھی زیادہ اسی صنف کی وجہ سے معاشرے کی ترقی اور پسماندگی کا دارومدار ہوتا ہے تو کوئی بیہودہ بات نہیں کہی۔جی ہاںیہ صنف خواتین ہے بقول امام خمینی : انسان عورت کی گود سے معراج پر فائز ہوجاتا ہے ۔یہ اس کائنات کی وہ بہترین مخلوق ہے جس کے وجود کے بغیر معاشرہ ناقص اور عیب دارہے جس کی وجہ سے کائنات کا حسن، دلکشی اور رنگینیت برقرارہے۔ بقول علاّمہ اقبال:
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ اسی کے سازسے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑ کے ثریا سے مشت خاک اسکی کہ ہر شرف ہے اسی درج کا درمکنون
مکالمات فلاطون نہ لکھ سکی لیکن اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطون
لیکن عصر حاضر۔۔۔
عصرحاضر کا انسان ہر طرح کی حیرانی اور پریشانی میں مبتلا ہے ہمارے معاشرے کی نئی نسل روزبروز فساد اور لاابالی گری کے دلدل میں دھنس چکی ہے آج کے انسان کی زندگی کے مختلف مراحل میں انحراف اور لغزشیں دکھائی دیتا ہے چونکہ انسان کی فردی اور معاشرتی تربیت ، اصلاح اور تہذیب کے عروج و زوال میں خواتین کا اہم کردار ہے لہذا ان سب مشکلات کا حل اسی میںہے کہ صنف خواتین کی تربیت اچھی ہو انہیں اسلامی اصولوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم ،اور سماجی مسائل کو حل کرنے کی سوج بوجھ سے بھی آراستہ کیا جا سکے وہ معاشرے کے ہر میدان میں مرد سے قدم بہ قدم ملاکے چل سکے اور اسکے اصول اور اعتقادات سے تصادم بھی نہ ہونے پائے اس کیلئے ایک آئیڈیل کی ضرورت ہے ایسا آئیڈیل جسکے اندر یہ سارے گھن پائے جاتے ہوں جسے وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے محبت بھی کرتی ہوںاور اسکی عمل اورفکر کی تقلید کرکے زمانے کے ان سارے مسائل میں حصہ بھی لے سکیں جو انکا ذاتی حق ہے ایک ایسے ماڈل ہو جسکے نقش قدم پر چل کے اسلام اور معاشرتی مسائل کی دوگانگی اور ظاہری تناقض کی گھتی کو بھی سلجھایا جا سکے۔ زمانے کی ترقی ، علمی، صنعتی اورٹکنیکل سہولیتوں نے ہر دور میںوقتی ، جعلی اور کاذب آئیڈیل کو لوگوں کے سامنے پیش کیااور اپنے گمان سے مثالی شخصیت کو بہترین کیڈر اور بہت ہی اچھے انداز میں پیش کرتا رہا ۔
مسلم معاشرے میںایک طرف سے مغرب تو دوسری طرف مشرق ، اپنے وقتی ، جعلی اور غیر مطمئن آئیڈیل پیش کرتارہااور چناچہ ہم اپنے روایتی اور حقیقی آئیڈیل کا صحیح تعارف پیش کرنے سے قاصر رہے لہذا ہماری نئی نسل ، ہماری ماں، بہنیں ، بچے، بوڑھے، نوجوان،مرد ،خواتین سب کے سب انہیں کاذب اور جعلی آئیڈیل کو اپنانے اور اپنامشعل راہ قرار دینے میںذرا سی بھی ہچکھچاہٹ کا احساس نہیں کرتے ہیں انہیں اپنے کیریٔر اور اپنی نجی زندگی میں صرف دو ہی عنصر دیکھنے کو ملتے ہیں یا بالیوڈ یا پھر ہالیوڈ،مغرب اور غیر مسلم مشرق کی اسی اندہی تقلید کی وجہ سے ہم وسیع پیمانے پر اپنی حقیقی تہذیب اور ثقافت اسلامی کو کھوبیٹھے ہیں۔
لیکن بنیادی طور سے اگر دیکھا جائے توآج بھی ایک اچھے، مطمئن ، قابل اعتماد ، دائمی اور ھمہ گیر آئیڈیل کا فقدان واضح اورنمایاں طور طور پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ آج کی عورت نے ایسے مکاتب کی جانب رخ کیا ہے اور انکے کھوکھلے اور فرسودہ اور بے اعتبارآئیڈیل اور ماڈل کو اپنا لیا ہے، ایسے انسانوں کو اپنا سرمشق قراردیا ہے جنکے نقش قدم پر چل کے اپنی حقیقی پہچان اورتشخص ہی کھودیا ۔ وہ اپنی اصلی حقیقت سے جدا اور الگ تھلگ ہوچکی ہے غیروں اور اجنبیوںسے پیوستہ ہوچکی ہے اسی لئے یہ سارے مشکلات اوردرد بھرے نالے اور فریادیں سنائی دیتی ہیں۔ (درمکتب فاطمہ، ص٢٦)
جی ہاں جو چیز انسان کی زندگی میں حقیقی تبدیلی لاسکتاہے زندگی کو واقعی معنی اور مفہوم عطا کرسکتا ہے وہ ایک ایسا آئیڈیل اور نمونہ عمل ہے جو ہر جہت سے مطلق، دائمی، ھمہ گیر، محسوس اور محبوب ہوایسے میں خواتین کے واسطے خواتین ہی بہترین آئیڈیل ثابت ہو سکتی ہیں۔
کندجنس با ھم جنس پرواز ۔۔۔ کبوتر با کبوتر، باز با باز۔
کمال و سعادت کے لحاظ سے ایک عورت جتنی بھی آگے ہوگی اسی انداز سے دوسری خواتین کے واسطے آئیڈیل اور مثالی خاتون واقع ہوسکتی ہے مطلق اور دائمی آئیڈیل زمانے اور مقام کی قید اور محدودیت سے بڑھکرہر دور اور ہر جگہ کی خواتین کے لئے آئیڈیل اور مثالی خاتون ہے۔
دائمی اور ہمیشہ باقی رہنے والے آئیڈیل کے اسرارو رموز:
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک دائمی اور ہمیشہ رہنے والے آئیڈیل کی ضرورت کیوں ہے ؟ وہ اس لئے کہ ۔۔۔
ز…اسکے افکار اور سوچ ہمیشہ کے لئے زندہ ہوتی ہے۔
ز…گفتار اور عمل کے اعتبار سے اسکی سیرت انسانی فطرت کے ساتھ ھم آھنگ ہوتی ہے ۔
ز…اسکی عقیدت اور فکر و اندیشہ میں یکجہتی اور ملاپ پایا جاتا ہے۔
دامن اسلام میں ایسے بہت سارے آئیڈیل اور مثالی خواتین موجود ہیں جنہیں اپنا مشعل راہ بنا کے کسی بھی عورت کے متعلق گمراہی اور انحراف کی گمانہ زنی بھی نہیں کی جاسکتی چہ جائیکہ وہ راہ گمراہی کی جانب قدم بڑھاسکے ۔لیکن…جب دامن اسلام میں ایسے آئیڈیل پائے جاتے ہیں پھر ہماری خواتین کی یہ سرگردانی اور پریشانی کیسی؟ ہمارے معاشرے کی خواتین کی زندگی ناکام کیوں ؟معاشرہ میںجہالت ، پسماندگی ، انحراف ، فساد اور زبون حالی کا عروج کیوں ؟ بعض جگہوں پر خواتین ابھی بھی گھٹن کا احساس کرتی ہیںکیوں ؟معاشرے کی پڑھی لکھی نسل اسلامی اور انسانی اقدار اور اصولوں سے کوسوں دورنکل چکی ہیںکیوں؟ اب بھی عورت کی معاشرتی سرگرمیوں کو اسلامی تعلیمات کا منافی سمجھاتا ہے کیوں ؟ ماں باپ، بھائی بہن، بیٹا بیٹی، میاں بیوی کو ایک دوسرے کے فرائض اور ذمہ داری سے آشنایی نہیں ہے کیوں؟ہمارے معاشرے کا روشن خیال طبقہ خواتین اور مردوں کے احیائے حقوق کے لئے مغربی اور سامراجی گروہوں، کنونشنوں اور آرگنائزیشنوں کا سہارا لیتا ہے کیوں؟ ایسے ہی اور بہت سارے کیوں…؟ جو ہمارے مسلم معاشرے کی حالت زار دیکھ کے ہر سنجیدہ ، درد مند اور ذی شعور انسان کے ذہن میں ابھر سکتے ہیں۔
انکا جواب صرف ایک جملہ میں پوشیدہ ہے کہ ہمارے معاشرے کو ان چہروں سے حقیقی آشنائی نہیں ہے ابھی تک ہمیں انکے اصلی اور واقعی زندگی سے آشناہی نہیں کرایا گیا ہے یا یوں کہا جائے کہ ہم خود آشنا نہیں تو اپنے معاشرے کو ان کی پہچان کیا کروائیں گے!!۔ہمارے لئے خاتون جنت دو عالم کی شہزادی (ص)سے بڑھکر کوئی ماڈل ہی نہیں ۔لیکن معرفت نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے معاشرے نے کبھی آپ کی ذات کو اس زاویے سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی اسی لئے غیر اسلامی ماڈل کی اتباع کی وجہ سے زوال، پسماندگی اور انحرافات نے معاشرے کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔کیا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاجیسی ہستی کے ہوتے ہوئے ہماری خواتین کو اپنی زندگی کے اسوہ حسنہ کی تلاش کے واسطے دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑتیں؟ ہم قصور وار ہیں ہم نے آپ(ع) کی زندگی کو مثالی خاتون کے حوالے سے کبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی تو دوسروں کو کیا سمجھاتے ۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کو ہم نے ایک بکھرے ہوے موتیوں کے ہار کی طرح ایک ایک دانہ کرکے بانٹ دیا ہے اور عوام کی دادو واہ واہ کی غرض سے اسی ایک موتی کی کرن دکھاکے عوام کا دل لبہا تے رہے اور انکی آنکھوں کو اشکبار کرتے رہیں۔
مرحوم ڈاکٹر علی شریعتی اپنی کتاب (فاطمہ فاطمہ ہے) میں عورت کے دو چہرے ، قدیم عورت کا روایتی چہرہ اور جدید عورت کا مصنوعی چہرہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:کہ ہماری عورت جس کی زندگی اور تونائی کا اصلی سرچشمہ اسلام ہے، اپنی خودی کو خود اثبات کرنا چاہتی ہے ناہی قدیم روایتی چہرہ اسکا ماڈل اورآئیڈیل ہو سکتی ہے اور نا ہی مغربی عورت ۔تو اسلام کی عظیم خاتون فاطمہ ہی انکے واسطے نمونہ ہوسکتی ہے لیکن انکی معرفت ہماری خواتین کو کس حدتک ہے؟ اسکے بارے میں کتنی معلومات رکھتی ہیں ؟ہماری عوام اس پاکیزہ اور بزرگ ہستی سے بڑی عقیدت رکھتے ہیںہر سال لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس عظیم ہستی کی یاد میں گریہ و بکا کرتی ہے۔ہر سال ہزاروں بلکہ لاکھوں محفلیں اور مجلسیں ان کی یاد میں منعقد کی جاتی ہے بے شمار تقریبات ہوتی ہیں جن میں ان کی مدح و ثنا کی جاتی ہے ان کی عظمت اور جلالت کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ان کی کرامت اور معجزوں کا ذکر ہوتا ہے ان کی مصیبت پر گریہ اور ان کے دشمنوں سے بیزاری اور نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہمیں اس عظیم اور ہمہ گیر شخصیت کی معرفت حاصل نہیں ہے اور اس بزرگ اور مقدس شخصیت کے بارے میں ہماری معلومات بہت سطحی اور محض ان چند اطلاعات پر مشتمل ہیں کہ:
جناب فاطمہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ)کی چہتی بیٹی تھیں جناب رسالت مآب کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد آپ کی زندگی آلام و مصائب میں گھر گئی۔ آپ کو فدک کی جاگیر سے محروم کردیا گیا آپ کے گھر پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجہ میں گھر کا دروازہ آپ کے پہلو پر گر ا اور جناب محسن شکم مادر میں شہید ہوگئے ان حالات میں آپ کی شخصیت حزن و ملا کا مرقع بن کر رہ گئی آپ کا یہ معمول بن گیا کہ آپ اپنے بچوں کو ساتھ لے کر شہر سے باہر چلی جاتی تھیں اور اس دور افتادہ مقام پر تمام دن گریہ و بکا میں مصروف رہتی تھیں اس طرح ان کی مختصر عمر محض گریہ و بکا کرنے اور اپنے دشمنوں کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرنے میں بیت گئی یہاں تک کہ انہوں نے اس دارفانی سے رحلت کی اپنے انتقال کے وقت آپ نے وصیت کی جنازہ رات کو اٹھایا جائے تاکہ وہ لوگ جن سے آپ ناراض تھیں آپ کے جنازے میں شریک نہ ہوسکیں اور نہ انہیں آپ کی قبر کا نشان معلوم ہوسکے۔
جناب فاطمہ کی عظیم شخصیت کے متعلق ہماری معلومات کا دائرہ محض ان چند اطلاعات تک محدود ہے ہم جو دل و جان سے ان کی عظمت اور جلالت کے معترف ہیں اور ہم جو اپنے روح اور ایمان کی تمام گہرائیوں اور توانائیوں کے ساتھ ان سے عقیدت رکھتے ہیں ایسی بے پایاں اور لازوال عقیدت جس سے زیادہ عقیدت رکھنا کسی انسانی گروہ کیلئے ممکن نہیں ہے لیکن اس ہستی کے بارے میں جو ہماری عقیدتوں کا مرکز ہے ہماری معلومات افسوسناک حد تک محدود اور سطحی ہیں۔''(فاطمہ فاطمہ ہے، ص١١۔١٢)
پس '' ابھی تک جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کی زندگی کی اصلی اور حقیقی تصویر ہمارے اذھان میں موجود نہیں ہے آپ کے چاہنے وا لوں اور محبین کے اذھان میں آپکی زندگی ایک نامفہوم اور مبہم تصویر سے زیادہ کچھ بھی نہیںہے''(در مکتب فاطمہ۔ ص٣٥٨)
لہذا اگر آپکی حقیقی تصویر کو پیش کیا جائے تو گمراہ اور کاذب آئیڈئل کو سرمشق زندگی بنانے میںاپنی عمرضایع نہ ہوتی، ضرورت صرف معرفت کی ہے پہچان کی ہے زندگی کے دائمی اصولوں کو حقیقت کے آئینہ میں اتارنے کی ہے۔
چند ایک دلائل کی بنیاد پر یہ بات ثابت کی جاسکتی ہے کہ نہ فقط مسلمان خواتین بلکہ پوری دنیاکی خواتین کے واسطے آپ سے بڑھ کر ایک ھمہ گیر، دائمی اور بنا کسی نقص اور عیب کے ،ایک مکمل آئیڈئل کوئی اور واقع نہیں ہو سکتی ہیں۔
١۔چونکہ آپ خود ایک عورت تھیںاور اسکے ساتھ ساتھ کمال اور سعادت کے عروج پر فائز تھیں لہذا صنف خواتین کے مسائل کے واسطے ایک عورت ہی ھمہ گیر آئیڈئل ہوسکتی ہیں ۔
٢۔آپ ایسے مکتب کی بیٹی اور پاسباںہیں جوجاودان اور ہمیشہ رہنے والا مکتب ہے لہذا اس مکتب کے پاسبان بھی ابدی ہیں رہتی دنیا تک باقی ہے ۔''فاطمة سیدة نساء اہل الجنةّ''
'' یا فاطمة الا ترضین ان تکونی سیدة نساء العالمین و سیدة نساء ہذہ الامّة و سیدة نساء المؤمنین''
٣۔کائنات کی عظیم شخصیتوں نے آپ کواپنی پوری زندگی میںاسوہ حسنہ قرار دیا ہے اور اپنے آئیڈئل کے طور انتخاب کیا اور امام زمانہ (عجہ)اپنی حکومت کے لئے آپ ہی کو آئیڈیل قرار دیتے ہیں: '' ولی اسوة فی ابنة رسول اللّہ''
٤۔ آپ کی فکری اور عملی امور کی بنیاد فطرت کے ابدی اصولوں پر قائم ہے یہ بات روشن ہے کہ زمانے اور مقام کی قید و ثغور ایک شخصیت کی فکری اور عملی اثرات کو محدود نہیں کر سکتی ہیں فطری اصولوں اور انسانی بنیادوں پر تشکیل پانے والی فکر، آیٔیڈیالوجی اور عمل ہمیشہ باقی رہتی ہے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاکا ہر فکر ی اور عملی کارنامہ انسانی اور فطری اصولوں پر مبنی ہیںیہ اصول ابدی ہیں ان میں کبھی بھی کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی زمانے اور وقت کے تقاضے صرف ہماری انہی ضرورتوں کو بدل دیتے ہیں جنہیں ہم دوسر ی ضرورتوں کا نام دیتے ہیں لیکن اصول اولیہ کبھی نہیں بدلتے، ہو سکتا ہے کہ ہماری روش ، متھیڈ اور طور طریقہ بدل جائے ۔'' مثال کے طور پر ظلم اور ظالم کے خلاف احتجاج کرنا لوگوں کو ظلم سہنے سے پرہیز دلانا ایک ایسا دائمی فطری اور انسانی اصول ہے جو زمانے کی تبدیلیوں کی وجہ سے کبھی نہیں بدلتا ، چاہے پتھر کے زمانے کا غیرمہذب انسان ہو یا عصر حاضرکا تعلیم یافتہ اور مہذب انسان یا پھر آ نے والا بشر ہو یہ سب کے سب اس اصول کے پابند ہیںلیکن زمانے کے تقاضے صرف ظلم و ظالم کے خلاف احتجاج کرنے کے طریقہ کار اور متھیڈ میں تبدیلی لاتے ہیں۔'' لہذااس اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو ہم حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی زندگی کے ان اصولوں کو آج بھی اپنا سکتے ہیں ان پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں اور اپنی زندگی کو فاطمہ گونہ بنا سکتے ہیں ۔ اس اعتبار سے اگر فاطمہ کی زندگی کو دیکھا جائے تو یہ نہ فقط صنف خواتین کے لئے بلکہ پوری انسانیت کے واسطے مثالی خاتون اور آئیڈئل ہوسکتی ہے علامہ اقبال بھی اسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
سیرت فرزندہا از امہات جوہر صدق و صفا از امہات
مرزع تسلیم را حاصل بتول مادراں را اسوہ کامل بتول ( رموز بیخودی، ص٣٤٥)
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی اٹھارہ برس کی مختصر سی زندگی نے انسانی اعلی اقدار کے ایسے عظیم اور گہرے اقیانوس کو جنم دیا جسکی تہ اورگہرائیوں میں جاکے ان اعلی اقدار اور اصولوں کے لعل و جوہر کی غواصی کرنا کسی معمولی غواص کا کام نہیں بلکہ ایسے غواصوں کی ضرورت ہے جو اس اقیانوس کے ہر جانب سے واقف ہو۔
حضرت فاطمہ(س) کی زندگی ایک ھمہ گیر آئیڈئیل۔
فاطمہ کی زندگی میںکچھ اہم اصول پائے جاتے ہیں جن کا سرچشمہ اسلام ناب محمدی(ص) ہے ۔
پہلا اصول۔ زندگی میں ایک خاص قسم کا نظم و نسق حاکم تھا اور ہر کام کا ہدف معین اور مشخص تھا۔
۔۔۔۔۔ خدا کی جانب سے نازل ہوئے آئین اور قانون پر مکمل ایمان اور عقیدہ رکھتی تھیں۔
۔۔۔۔۔ آپکی عمل اور سوچ اسلامی تعلیمات سے عین مطابقت رکھتی تھی۔
۔۔۔۔۔ اپنے سارے اعمال تقوا ، زہد اور ورع کے دائرے میں انجام دیتی تھیں۔
۔۔۔۔۔ اپنی ہر کام کو بنا کسی افراط اور تفریط کے اعتدال کے ساتھ انجام دیتی تھیں۔
۔۔۔۔ ۔اپنی ہر کام میںمسلمانوں کی مصلحت اور منفعت کا خیال رکھا کرتی تھیں۔
۔۔۔۔۔ معاشرتی کاموں میں بھر پور شرکت کرکے چاردیورای کے زندانی بننے کے جاہلیت کے تصور پر کاری ضرب لگائی۔
۔۔۔۔۔اپنے اہداف اور مقاصد کی دسترسی کے لئے اپنی رأی میں ثابت قدم رہتی تھیں۔
۔۔۔۔۔اپنے اہداف اور مقاصد کی دسترسی کے لئے سختیوں اور مشکلات کوصبر اور استقامت سے تحمل اور برداشت کرتی تھیں۔
۔۔۔۔۔ خدا پر مکمل ایمان کی وجہ سے یادخدا سے کبھی بھی غافل نہیں ہوتی تھیں۔
اسی اعتماد اور ایمان کی وجہ سے بہادری اور شجاعت کا مظہر تھیں۔
خدا کے دئے پر قناعت کرتی تھیں۔
صالح اور پاک و پاکیز ہستیوں کی اقتدا کرتی تھیں۔
۔خدا کی رضایت کو مخلوقات کی رضایت پر ترجیح دیتی تھیں۔
اپنی انسانی عزت ، عظمت اور کرامت کی حفاظت کرتی تھیں۔
ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کرتی تھیں۔
آپکی زندگی مسلسل جدوجہد اور مبارزہ کا دوسرا نام تھا۔
فاطمہ کی زندگی میں یہ سارے اصول کار فرما تھے یہ اصول کبھی بدلتے نہیں بلکہ ہمیشہ زندہ اور باقی رہنے والے ہیں تبھی تو فاطمہ ہمیشہ زندہ ہے ۔اسی بقا کی وجہ سے فاطمہ ہمیشہ اور ہر جہت سے مثالی معاشرے کی بنیاد کے لئے ایک آئیڈیل اور مثالی خاتوں ہے …جی ہاں وہ مثالی خاتون ہے۔
انسانی اعلی اقدارکے لئے … محنت اور مشقت کے لئے … عشق اور عبادت کے لئے … خودی ،خودباوری اور خوداری کے لئے … عفت اور پاکیزگی کے لئے … شرافت اور کرامت کے لئے … جذبہ اور ایثار کے لئے … عقل و عرفان کے لئے … تہذیب اور اعلی تربیت کے لئے … بیداری اور ہوشیاری کے لئے … فکر و عمل کے امتزاج کے لئے … کامیاب زندگی کے لئے … ہمدردی اور ہمدلی کے لئے … صداقت اور امانت کے لئے … احسان اور ارشادکے لئے … حق اور حقیقت کی خاطر باطل کے ساتھ محاذآرائی کے لئے … ایک دائمی اورمسلسل جدو جہد کے لئے … یا سادے الفاظ میں کہوں اسلامی حکومت کے اعلی اقتدار اور ولایت الہی کے دفاع کے لئے۔
علامہ اقبال ، حضرت فاطمہ کو مسلمان خواتین کے واسطے ماڈل کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فطرت تو جذبہ ہا دارد بلند چشم ہوش از اسوہ زہرا مبند
تا حسینی شاخ تو بار آورد موسم پیشیںبگلزارآورد ( رموز بیخودی، ص ٣٥٠)
بقول ڈاکٹر علی شریعتی: '' فاطمہ کی شخصیت کے بارے میں گفتگو کرنا انتہائی دشوار ہے وہ ایک ''عورت'' تھیں اسلام نے مثالی عورت کا جو تصور پیش کیا ہے اس تصور کی روشن تصویر ، یہ پاکیزہ تصویر خود پیغمبر نے اپنے انسانیت طراز ہاتھوں سے بنائی تھی جس طرح سونے کو آگ میں تپاکر کندن بنایا جاتا ہے اسی طرح پیغمبر نے آپ کو سختی ، فقر اور جدوجہد کی آنچ میں تپا کر نکھارا۔ آپ کی تعلیم و تربیت پر بڑی گہری اور کڑی نگاہ رکھی اور آپ کو حیرت انگیز انسانی خوبیوں کا مظہر بنادیا۔
وہ ہر اعتبار سے ایک مثالی عورت تھیں ، نسوانیت کی تمام گوناگوں ابعاد کے لے ایک مثالی نمونہ۔
اپنے باپ کے حوالے سے۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مثالی بیٹی۔
اپنے شوہر کے حوالے سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مثالی بیوی۔
اپنے بچوں کے حوالے سے۔۔۔۔۔۔۔ ایک مثالی ماں۔
اور وقت اور سماجی ماحول کے تناظر میں وہ ایک زن مبارز و مسؤل کا نمونہ تھیں ، انہوں نے اپنی سیرت سے معاشرے میں عورت کی ذمہ داریوں اور اس کے دائرہ عمل کی نشاندہی کی۔
وہ بذات خود ایک امام ہیں ایک نمونہ مثالی ہیں ایک آئیڈیل ٹائپ(IDEAL TYPE)ہیں ان کا اسوہ عورتوں کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ ہے ہر اس عورت کے لئے جو آزادانہ طور پر اپنی شخصیت کی تعمیر کرنے کی خواہش مند ہو وہ ایک نگراں'' شاہد'' ہیں۔ان کی حیرت انگیز طفلی ، ان کی جدوجہد اور کشمکش سے لبریز زندگی ، داخلی اور خارجی محاذ پر ان کا مسلسل جہاد اپنے باپ کے گھر اپنے شوہرکے گھر اور اپنے معاشرہ میں ان کا کردار ان کی فکر ، ان کا عمل غرض ان کی جامع اور مثالی شخصیت اس سوال کا مکمل جواب ہے کہ ایک عورت کو کیسا ہونا چاہیے۔''( فاطمہ فاطمہ ہے، ص٢٨٦)
اگر پندی ز درویش بگیری ہزار امت بمیرد تو نمیری
بتولی باش و پنہان شو از این عصر کہ در آغوش شبیری بگیری
source : http://www.shianet.in