اس جگہ ضروری ہے کہ ایک نکتہ کی طرف نشاندہی کی جائے: وہ یہ کہ ائمہ علیہم السلام نے ایسے دور میں زندگی گذاری ہے جس میں حبتری (۱) کی ملعونہ حکومت نے ماحول میں ایسی گھٹن پیدا کردی تھی جو علوی عدل پر مبنی حکومت کے وجود میں آنے میں رکاوٹ تھی، اسی وجہ سے ہمارے ائمہ علیہم السلام کے پاس الہٰی اسرار کے بیان کرنے کا موقع فراہم نہ تھا، اور اموی و عباسی ستمگر و سرکش اس امر سے روکتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ بر حق امیر اور اولین مظلوم (جس کو اس کے حق سے محروم کیا گیا) حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں :
” کان لرسول اللہ صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سرّ لا یعلمہ الاقلیل․․․․ ولو لا طغاة ھٰذہ الامّةلبثثت ھٰذا السرّ “ (۲)
رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک ایسا راز تھا جس سے سوائے مخصوص افراد کے دوسرے آگاہ نہیں تھے ․․․اگر اس امت کے سرکش افرادنہ ہوتے تو بلا شبہ اس کو ہر ایک پر ظاہر کر دیتا اورلوگوں کے درمیان نشر کر دیتا معلوم ہوا ہمارے ائمہ علیہم السلام نے عوام سے اسرار بیان نہیں فرمائے اور اسے سوائے کچھ مخصوص افراد کے جو آپ کے دوستوں میں سب سے برتر اور خالص تھے کسی اور پر ظاہر نہیں کیا ۔
چنانچہ افشاء راز اور اہم معنوی حقائق کا بیان ان کے لئے ممکن نہ ہوا اس کی وجہ یہ تھی کہ عوام میں اسے برداشت کرنے کی قوت نہیں تھی ․ اور یہ وجہ بھی تھی کہ لوگ حضرت قائم ارواحنا فداہ کے ظہور تک اس حبتری حکومت کے اندر زندگی گذاریں گے ۔
حضرت امام صادق علیہ السلام آیت کریمہ ” و اللیل اذا یسر “ (۳) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
” ہی دولة حبتر فھی تسری الیٰ قیام القائم (عج) “ (۴)
اس شب سے مراد حبتر کی حکومت ہے جو حضرت قائم کے قیام تک باقی رہے گی۔
یہی وجہ ہے کہ معصومین علیہم السلام نے بہت سے معنوی حقائق و اسرار کو دعاؤں اور مناجات کے ضمن میں بیان کیا ہے اگر آپ ان کے خواہاں ہیں تو انھیں دعاوٴوں اور مناجات میں تلاش کریں ۔
اہل بیت علیہم السلام نہ صرف سیاسی ماحول اور عوام کی فکری کیفیت کی وجہ سے اسرار کو صراحت کے ساتھ بیان نہیں کر سکے اور انہیں دعاؤں اور مناجات کے ضمن میں بیان کیا، بلکہ انھوں نے نہایت اہم اعتقادی مسائل اور اعلی معارف کو بھی دعا، مناجات اور زیارت کی صورت میں بیان کیا ہے جنہیں دعاؤں کی طرف رجوع اور اس میں تحقیق کے ذریعہ معلوم کیا جا سکتا ہے بلکہ اسرار ‘عقاید ‘اور بلند پایہ معارف سے قطع نظر بہت سے مطالب اور مسائل جو انسان کی زندگی میں بنیادی اور حیاتی کردار رکھتے ہیں انھیں بھی بیان فرمایا ہے، اور انسانی سماج کو زندگی کا بہترین درس دیا ہے۔
بطور مثال صحیفہ کاملہ سجادیہ جس کی صحت کی حضرت حجت ارواحنا فداہ نے تائید فرمائی ہے اگر اس کے اندر دقت کی جاے اور دیکھا جائے تو احساس ہوگا کہ حضرت امام سجاد علیہ السلام نے دعا اور مناجات کے عنوان سے بہت ہی مختصر لفظوں میں زندگی کے عظیم حقائق کوبیان کیا ہے ،اسی طرح دیگر دعاؤں میں توجہ جو حضرت علیہ السلام سے یا اہل بیت علیہم السلام سے صادر ہوئی ہیں اس حقیقت کو بخوبی واضح کرتی ہیں۔
دعاؤں میں جن اہم درسوں کی تعلیم ائمہ علیہم السلام نے ہمیں دی ہے یہاں اس کی کچھ مثالیں آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
مناجات انجیلیہ میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں :
اسئلک من الہمم اعلاھا (۵)
پروردگار! عالی ترین ہمت تجھ سے چاہتا ہوں ۔
امام سجاد علیہ السلام کا یہ کلام ہراس شخص کے لئے جو اس دعا کی کتاب کو ہاتھ میں لیتا ہے اور دعاؤں کو پڑھنے کے ذریعہ پروردگار عالم سے ہم کلام ہوتا ہے بیداری کی گھنٹی ہے ۔
یہ دعا کرنے والا جو بھی ہو گرچہ خود کو بے ارادہ اور نا چیز سمجھتا ہے اسے چاہئے کہ پروردگار عالم سے بہترین اور عالی ترین ہمت طلب کرے تاکہ اپنی زندگی میں عظیم تبدیلی پیدا کرسکے اور اپنے وجود کو سماج کے لئے حیاتی اور بنیادی بنا سکے، یہ وہ حقیقت ہے جو قلب پر نور امامت کی چمک کے ساتھ جاودانی بن جاتی ہے ۔
جو کچھ دعاؤں اور ․․․حضرات معصومین علیہم السلام سے ہم تک پہنچا ہے وہی ولایت کا طور سینا ہے، جو وادی ایمن تک پہنچنا چاہتا ہے اور ہدایت کے کوہ طور سینا کی چوٹیوں پر جانا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ دعا کے آداب اور قبولیت کے شرائط معلوم کرے اور سیکھے یہاں تک کہ دعا کے مستجاب ہونے کا مشاہدہ کرے۔
جو کچھ ہم نے کہا وہ وہی ہے جو قرآن اور روایات سے ہمارے ہاتھ لگا ہے لہٰذا موقع غنیمت جانتے ہوئے اسے محفوظ کرلیجئے اور الہی رحمت و کرم سے مایوس نہ ہوئیے ۔
” اِنَّہُ لاٰیَیْاٴَسُ مِنْ رَوْحِ اللّٰہِ اِلاّٰالْقَوْمُ الکٰافِرُون “ (۶)
(بلا شبہ خدا کی رحمت اورکرم سے سوائے کافر قوم کے کوئی مایوس نہیں ہوتا)
خاندان وحی کے نور امامت سے مستفید ہونے کے ساتھ اپنے جسم و روح کے اندرنورامیداورنوریقین پیداکریئے ۔
حوالہ جات:
۱)۔حبتر اولیائے الہی کی خلافت کے اولین غاصب کے لئے کنایہ ہے بحار الانوار ج ۳۵ص۳۳۶
۲)۔بحار الانوار ج۹۵ص۳۰۶
۳)۔سورہٴ فجرآیت۴
۴)۔بحارالانوارج۲۴ص۷۸
۵)۔بحارالانوار ج۹۴ ص ۱۵۵
۶)۔ سورہٴ یوسف آیت:۸۷
source : http://www.tebyan.net