اپنے آپ كو بنانے او رسنوار نے اور نفس كو پاك كرنے كا ايك اہم سبب نفس پر مراقبت اور توجہ ركھنا ہوتا ہے_ جو انسان اپنى سعادت كے متعلق سوچنا اور فكر ركھتا ہو وہ برے اخلاق اور نفسانى بيماريوں سے غافل نہيں رہ سكتا بلكہ اسے ہر وقت اپنے نفس پر توجہہ ركھنى چاہئے اور تمام اخلاق اور كردار ملكات اور افكار كو اپنے كنٹرول ميں ركھنا چاہئے اور اس پر پورى نگاہ ركھے_ ہم اس مطلب كو كئي ايك مطالب كے ضمن ميں بيان كرتے ہيں_
اعمال كا ضبط كرنا اور لكھنا
قرآن اور احاديث پيغمبر اور اہلبيت عليہم السلام سے معلوم ہوتا كہ انسان كے تمام اعمال حركات گفتار سانس لينا افكار اور نظريات نيت تمام كے تمام نامہ اعمال ميں ضبط اور ثبت كئے جاتے ہيں اور قيامت تك حساب دينے كے لئے باقى رہتے ہيں اور ہر ايك انسان قيامت كے دن اپنے اچھے برے اعمال كى جزا اور سزا ديا جائيگا جيسے خدا قرآن مجيد ميں فرماتا ہے كہ '' قيامت كے دن لوگ گروہ در گروہ خارج ہونگے تا كہ وہ اپنے اعمال كو ديكھ ليں جس نے ايك ذرا بھر نيكى انجام دى ہوگى وہ اسے ديكھے گا اورجس نے ذرا بھر برائي انجام دى ہوگى اسے ديكھے گا_
نيز فرماتا ہے كہ '' كتاب ركھى جائيگى مجرموں كو ديكھے گا كہ وہ اس سے جو ان كے نامہ اعمال ميں ثبت ہے خوف زدہ ہيں اور كہتے ہونگے كہ يہ كيسى كتاب ہے كہ جس نے تمام چيزوں كو ثبت كر ركھا ہے اور كسى چھوٹے بڑے كام كو نہيں چھوڑااپنے تمام اعمال كو حاضر شدہ ديكھيں گے تيرا خدا كسى پر ظلم نہيں كرتا_
خدا فرماتا ہے ''قيامت كے دن جس نے جو عمل خير انجام ديا ہوگا حاضر ديكھے گا اور جن برے عمل كا ارتكاب كيا ہوگا اسے بھى حاضر پائيگا اور آرزو كرے گا كہ اس كے اور اس كے عمل كے درميان بہت زيادہ فاصلہ ہوتا_
خدا فرماتا ہے '' كوئي بات زبان پر نہيں لاتا مگر اس كے لكھنے كے لئے فرشتے كو حاضر اور نگاہ كرنے والا پائے گا_
اگر ہمارا يہ عقيدہ ہے كہ انسان كے تمام اعمال اور كردار حركات اور گفتار يہاں تك كہ افكار اور نظريات سوچ اور فكر لكھے جاتے ہيں تو پھر ہم كس طرح ان كے انجام دينے سے غافل رہ سكتے ہيں؟
قيامت ميں حساب
بہت زيادہ آيات اور روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ قيامت كے دن بہت زيادہ وقت سے بندوں كا حساب ليا جائيگا_ بندوں كے تمام اعمال چھوٹے بڑے كا حساب ليا جائيگا اور معمولى سے معمولى كام سے بھى غفلت نہيں كى جائيگى جيسے خداوند عالم قرآن ميں فرماتا ہے كہ '' عدالت كے ترازو كو قيامت كے دن نصب كيا جائيگا اور كسى طرح ظلم نہيں كيا جائيگا اگر خردل كے دانہ كے ايك مثقال برابر عقل كيا ہوگا تو اسے بھى حساب ميں لايا جائيگا او رخود ہم حساب لينے كے لئے كافى ہيں_
نيز فرماتا ہے '' جو كچھ باطن اور اندر ميں ركھتے ہو خواہ اسے ظارہ كرو يا چھپائے ركھو خدا تم سے اس كا بھى حساب لے گا_
نيز خدا فرماتا ہے '' اعمال كا وزن كيا جانا قيامت كے دن حق كے مطابق ہوگا جن كے اعمال كا پلڑا بھارى ہوگا وہ نجات پائيں گے اور جن كے اعمال كا پلڑا ہلكا ہوگا تو انہوں نے اپنے نفس كو نقصان پہنچايا ہے اس لئے كہ انہوں نے ہمارى آيات پر ظلم كيا ہے_قرآن مجيد ميں قيامت كو يوم الحساب كہا گيا ہے اور خدا كو سريع الحساب يعنى بہت جلدى حساب لينے والا كہا گيا ہے_
آيات اور بہت زيادہ روايات كى رو سے ايك سخت مرحلہ جو تمام بندوں كے لئے پيش لانے والا ہے وہ اعمال كا حساب و كتاب اور ان كا تولا جانا ہے_ انسانى اپنى تمام عمر ميں تھوڑے تھوڑے اعمال بالاتا ہے اور كئي دن كے بعد انہيں فراموش كر ديتا ہے حالانكہ معمولى سے معمولى كام بھى اس صفحہ ہستى سے نہيں مٹتے بلكہ تمام اس دنيا ميں ثبت اور ضبط ہوجاتے ہيں اور انسان كے ساتھ باقى رہ جاتے ہيں گرچہ انسان اس جہان ميں بطور كلى ان سے غافل ہى كيوں نہ ہوچكا ہو_ مرنے كے بعد جب اس كى چشم بصيرت روشن ہوگى تو تمام اعمال ايك جگہ اكٹھے مشاہدہ كرے گا اس وقت اسے احساس ہوگا كہ تمام اعمال گفتار اور كردار عقائد اور افكار حاضر ہيں اور اس كے ساتھ موجود ہيں اور كسى وقت اس سے جدا نہيں ہوئے_
خداوند عالم قرآن ميں فرماتا ہے كہ '' ہر آدمى قيامت كے دن حساب كے لئے محشر ميں اس حالت ميں آئے گا كہ ايك فرشتہ اسے لے آرہا ہوگا اور وہ اس كے ہر نيك اور بد كا گواہ بھى ہوگا اسے كہا جائے گا تو اس واقعيت اور حقيقت سے غافل تھا ليكن آج تيرى باطنى انكھ بينا او روشن ہوگئي ہے_
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ '' قيامت كے دن خدا كا بندہ ايك قدم نہيں اٹھائيگا مگر اس سے چار چيزوں كا سوال كيا جائيگا_ اس كى عمر سے كہ كس راستے ميں خرچ كى ہے_ اس كى جوانى سے كہ اسے كس راستے ميں خرچ كيا ہے_ اس كے مال سے كہ كس طريقے سے كمايا اور كہاں خرچ كيا ہے_ اور ہم اہلبيت كى دوستى كے بارے ميں سوال كيا جائيگا_
ايك اور حديث ميں پيغمبر(ص) نے فرمايا ہے كہ '' بندے كو قيامت كے دن حساب كے لئے حاضر كريں گے_ ہر ايك دن كے لئے كہ اس نے دنيا ميں زندگى كى ہے_ ہر دن رات كے ہر ساعت كے لئے چوبيس خزانے لائيں گے ايك خزينہ كو كھوليں گے جو نور اور سرور سے پر ہوگا _ خدا كا بندہ اس كے ديكھنے سے اتنا خوشحال ہوگا كہ اگر اس كى خوشحالى كو جہنميوں كے درميان تقسيم كيا جائے تو وہ كسى درد اور تكليف كو محسوس نہيں كريں گے يہ وہ ساعت ہوگى كہ جس ميں وہ اللہ تعالى كى اطاعت ميں مشغول ہوا تھا_ اس كے بعد ايك دوسرے خزينہ كو كھوليں گے كہ جو تاريك او ربدبو دار وحشت آور ہوگا خدا كا بندہ اس كے ديكھنے سے اس طرح جزع اور فزع كرے گا كہ اگر اسے بہشتيوں ميں تقسيم كيا جائے تو بہشت كى تمام نعمتيں ان كے لئے ناگوار ہوجائيں گى يہ وہ ساعت تھى كہ جس ميں وہ اللہ تعالى كى نافرمانى كر رہا تھا_ اس كے بعد اس كے لئے تيسرے خزانہ كو كھوليں گے كہ جو بالكل خالى ہوگا نہ اس ميں خوش كرنے والا عمل ہوگا اور نہ غم لانے والا عمل ہوگا يہ وہ ساعت ہے كہ جس ميں خدا كا بندہ سويا ہوا تھا يا مباح كاموں ميں مشغول ہوا تھا_ خدا كا بندہ اس كے ديكھنے سے بھى غمگين اور افسوس ناك ہوگا كيونكہ وہ اسے دنيا ميں اچھے كاموں سے پر كر سكتا تھا اور كوتاہى اور سستى كى وجہ سے اس نے ايسا كيا تھا_ اسى لئے خداوند عالم قيامت كے بارے ميں فرماتا ہے كہ يوم التاغبن يعنى خسارے اور نقصان كا دن_
قيامت كے دن بندوں كا بطور وقت حساب ليا جائيگا اور انكا انجام معين كيا جائيگا تمام گذرے ہوئے اعمال كا حساب ليا جائے گا_ انسان كے اعضاء اور جوارح پيغمبر اور فرشتے يہاں تك زمين گواہى دے گى بہت سخت حساب ہوگا اور اس پر انسان كا انجام معين كيا جائے گا دل حساب كے ہونے كى وجہ سے دھڑك رہے ہونگے اور بدن اس سے لرزہ باندام ہونگے ايسا خوف ہوگا كہ مائيں اپنے شيرخوار بچوں كو بھول جائيں گى اور حاملہ عورتيں بچے سقط كرديں گى تمام لوگ مضطرب ہونگے كہ ان كا انجام كيا ہوگا كيا ان كے حساب كا نتيجہ اللہ تعالى كى خوشنودى اور آزادى كا پروانہ ہوگا اور پيغمبروں اور اولياء خدا كے سامنے سر خروى اور بہشت ميں ہميشہ كى زندگى ہوگى _ اللہ كے نيك بندوں كى ہمسايگى ہوگى يا اللہ تعالى كا غيظ اور غضب لوگوں كے درميانى رسوائي اور دوزخ ميں ہميشہ كى زندگى ہوگي_
احاديث سے معلوم ہوتا ہے كہ بندوں كا حساب ايك جيسا نہيں ہوگا_ بعض انسانوں كا حساب بہت سخت اور مشكل اور طولانى ہوگا_ دوسرى بعض كا حساب آسان اور سادہ ہوگا_ حساب مختلف مراحل ميں ليا جائيگا_ اور ہر مرحلہ اور متوقف ميں ايك چيز سے سوال كيا جائے گا سب سے زيادہ سخت مرحلہ اور موقف مظالم كا ہوگا اس مرحلہ ميں حقوق الناس اور ان پر ظلم اور جور سے سوال كيا جائيگا اس مرحلہ ميں پورى طرح حساب ليا جائيگا اور ہر ايك انسان اپنا قرض دوسرے قرض خواہ كو ادا كرے گا_ جائے تاسف ہے كہ وہاں انسان كے پاس مال نہيں ہوگا كہ وہ قرض خواہوں كا قرض ادا كر كرسكے ناچار اس كو اپنى نيكيوں سے ادا كرے گا اگر اس كے پاس نيكياں ہوئيں تو ان كو لے كر مال كے عوض قرض خواہوں كو ادا كرے گا اور اگر اس كے پاس نيكياں نہ ہوئيں تو قرض خواہوں كى برائيوں كو اس كے نام اعمال ميں ڈال ديا جائيگا بہرحال وہ بہت سخت د ن ہوگا_ خداوند عالم ہم تمام كى فرياد رسى فرمائے_ آمين_
البتہ حساب كى سختى اور طوالت تمام انسانوں كے لئے برابر نہ ہوگى بلكہ انسان كى اچھائيوں اور برائيوں كے حساب سے فرق كرے گى ليكن خدا كے نيك اور متقى اور لائق بندوں كے لئے حساب تھوڑى مدت ميں اور آسان ہوگا_ پيغمبر اكرم نے اس شخص كے جواب ميں كہ جس نے حساب كے طويل ہونے كے بارے ميں سوال كيا تھا_ فرمايا_ ''خدا كى قسم كہ مومن پر اتنا آسان اور سہل ہوگا كہ واجب نماز كے پڑھنے سے بھى آسانتر ہوگا_
قيامت سے پہلے اپنا حساب كريں
جو شخص قيامت حساب اور كتاب اور اعمال اور جزاء اور سزا كا عقيدہ اور ايمان ركھتا ہے اور جانتا ہے كہ تمام اعمال ضبط اور ثبت ہو رہے ہيں اور قيامت كے دن بہت وقت سے انكا حساب ليا جائے گا اور ان كى اچھى يا برى جزاء اور سزا دى جائيگى وہ كس طرح اپنے اعمال اور كردار اور اخلاق سے لا پرواہ اور بے تغاوت نہيں ہوسكتا ہے؟ كيا وہ يہ نہ سوچے كہ دن اور رات ماہ اور سال اور اپنى عمر ميں كيا كر رہا ہے؟ اور آخرت كے لے كونسا زاد راہ اور توشہ بھيج رہا ہے؟ ايمان كا لازمہ يہ ہے كہ ہم اسى دنيا ميں اپنے اعمال كا حساب كرليں اور خوب غور اور فكر كريں كہ ہم نے ابھى تك كيا انجام ديا ہے اور كيا كر رہے ہيں؟ حساب كرليں اورخوب غور اور فكر كريں كہ ہم نے ابھى تك كيا انجام ديا ہے اور كيا كر رہے ہيں؟ بعينہ اس عقلمند تاجر كى طرح جو ہر روز اور ہر مہينے اور سال اپنى آمدن خرچ كا حساب كرتا ہے كہ كہيں اسے نقصان نہ ہوجائے اور اس كا سرمايہ ضائع نہ ہوجائے_
اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' اس سے پہلے كہ تمہارا قيامت كے دن حساب ليا جائے اسى د نيا ميں اپنے اعمال كو ناپ تول لو_ حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' جو شخص اسى دنيا ميں اپنا حساب كرلے وہ فائدہ ميں رہے گا_
امام على نقى عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' وہ ہم ميں سے نہيں ہے جو ہر روز اپنا حساب نہيں كرتا اگر اس نے نيك كام انجام ديئے ہوں تو اللہ تعالى سے اور زيادہ كى توفيق طلب كرے اور اگر برے كام انجام ديئے ہوں تو استغفار اور توبہ كرے_
حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' جو اپنے آپ كا جساب كرلے وہ فائدہ ميں ہوگا اور جو اپنے حساب سے غافل ہوگا وہ نقصان اٹھائيگا_ جو اس دنيا ميں ڈرے وہ قيامت كے دن امن ميں ہوگا اور جو نصيحت حاصل كرے وہ آگاہ ہوجائيگا جو شخص ديكھے وہ سمجھے گا اور جو سمجھے گا وہ دانا اور عقلمند ہوجائيگا_
پيغمبر اكرم نے جناب ابوذر سے فرمايا '' اے ابوذر اس سے پہلے كہ تيرا حساب قيامت ميں ليا جائے تو اپنا حساب اسى دنيا ميں كرلے كيونكہ آج كا حساب آخرت كے حساب سے زيادہ آسان ہے اپنے نفس كو قيامت كے دن وزن كئے جانے سے پہلے اسي دنيا ميں وزن كرلے اور اسى وسيلے سے اپنے آپ كو قيامت كے دن كے لئے كہ جس دن تو خدا كے سامنے جائے گا اور معمولى سے معمولى چيز اس ذات سے مخفى نہيں ہے آمادہ كرلے_ آپ نے فرمايا اے آباذر انسان متقى نہيں ہوتا مگر يہ كہ وہ اپنے نفس كا حساب اس سے بھى سخت جو ايك شريك دوسرے شريك سے كرتا ہے كرے انسان كو خوب سوچنا چاہئے كہ كھانے والى پينے والى پہننے والى چيزيں كس راستے سے حاصل كر رہا ہے_ كيا حلال سے ہے يا حرام سے؟ اے اباذر جو شخص اس كا پابند نہ ہو كہ مال كو كس طريقے سے حاصل كر رہا ہے خدا بھى پرواہ نہيں كرے گا كہ اسے كس راستے سے جہنم ميں داخل كرے_
امام زين العابدين عليہ السلام نے فرمايا ہے '' اے آدم كى اولاد تو ہميشہ خير و خوبى پر ہوگا جب تك اپنے نفس ميں وعظ كرنے والا ركھے رہے گا اور اپنے نفس كے حساب كرتے رہنے كا پابند رہے گا اور اللہ كا خوف تيرا ظاہر ہوا اور محزون ہونا تيرا باطن ہو_ اے آدم كا فرزند تو مرجائيگا اور قيامت كے دن اٹھايا جائيگا اور اللہ تعالى اور اللہ كے عدل كے ترازو كے سامنے حساب كے لئے حاضر ہوگا لہذا قيامت كے دن حساب دينے كے لئے آمادہ ہوجاؤ_
انسان اس جہان ميں تاجر كى طرح ہے كہ اس كا سرمايہ اس كى محدود عمر ہے يعنى يہى دن اور رات ہفتے اور مہينے اور سال_ يہ عمر كا سرمايہ ہو نہ ہو خرچ ہو كر رہے گا_ اور آہستہ آہستہ موت كے نزديك ہوجائيگا جوانى بڑھاپے ميں طاقت كمزورى ميں اور صحت اور سلامتى بيمارى ميں تبديل ہوجائيگى اگر انسان نے عمر كو نيك كاموں ميں خرچ كيا اور آخرت كے لئے توشہ اور زاد راہ بھيجا تو اس نے نقصان اور ضرر نہيں كيا كيونكہ اس نے اپنے لئے مستقبل سعادتمند اور اچھا فراہم كرليا ليكن اگر اس نے عمر كے گران قدر سرمايہ جوانى اور اپنى سلامتى كو ضائع كيا اور اس كے مقابلے ميں آخرت كے لئے نيك عمل ذخيرہ نہ بنايا بلكہ برے اخلاق اور گناہ كے ارتكاب سے اپنے نفس كو كثيف اور آلودہ كيا تو اس نے اتنا بڑا نقصان اٹھايا ہے كہ جس كى تلافى نہيں كى جاسكتي_
خداوند عالم قرآن ميں فرماتا ہے '' عصر كى قسم كہ انسان نقصان اور خسارہ ميں ہے مگر وہ انسان جو ايمان لائيں اور نيك عمل بجالائيں اور حق اور بردبارى كى ايك دوسرے كو سفارش كريں _ (291)
اميرالمومنين عليہ السلام فرماتے ہيں_ كہ ''عاقل وہ ہے جو آج كے دن ميں كل يعنى قيامت كى فكر كرے اور اپنے آپ كو آزاد كرنے كى كوشش كرے اور اس كہ لئے كہ جس سے بھاگ جانا يعنى موت سے ممكن نہيں ہے نيك اعمال انجام دے_
نيز آنحضرت فرمايا ہے كہ ''جو شخص اپنا حساب كرے تو وہ اپنے عيبوں كو سمجھ پاتا ہے اور گناہوں كو معلوم كرليتا ہے اور پھر گناہوں سے توبہ كرتا ہے اور اپنے عيبوں كى اصلاح كرتا ہے_
كس طرح حساب كريں
نفس پر كنٹرول كرنا سادہ اور آسان كام نہيں ہوتا بلكہ سوچ اور فكر اور سياست بردبارى اور حتمى ارادے كا محتاج ہوتا ہے_ كيا نفس امارہ اتنى آسانى سے رام اور مطيع ہوسكتا ہے؟ كيا اتنى سادگى سے فيصلے اور حساب كے لئے حاضر ہوجاتا ہے؟ كيا اتنى آسانى سے حساب دے ديتا ہے؟ اميرالمومنين عليہ السلام فرماتے ہيں كہ '' جس نے اپنے نفس كو اپنى تدبير اور سياست كے كنٹرول ميں نہ ديا تو اس نے اسے ضائع كرديا ہے_
حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' كہ جس شخص نے اپنے نفس كا فريب اور دھوكہ دينا مول لے ليا تو وہ اس كو ہلاك ميں ڈال دے گا_
آنحضرت نے فرمايا ہے كہ ''جس شخص كے نفس ميں بيدارى اورآگاہى ہو تو خداوند عالم كى طرف سے اس كے لئے نگاہ بان معين كيا جائيگا_
نيز آنحضرت(ص) نے فرمايا ہے كہ ''پے در پے جہاد سے اپنے نفس كے مالك بنو اور اپنے كنٹرول ميں ركھو_ نفس كے حساب كو تين مرحلوں ميں انجام ديا جائے تا كہ تدريجاً وہ اس كى عادت كرے اور مطيع ہوجائے_
1_ مشارطہ اور عہد لينا
نفس كے حساب كو اس طرح شروع كريں دن كى پہلى گھڑى ميں ہر روز كے كاموں كے انجام دينے سے پہلے ايك وقت مشارطہ كے لئے معين كرليں مثال كے طور پر صبح كى نماز كے بعد ايك گوشہ ميں بيٹھ جائيں اور اپنے آپ سے گفتگو كريں اور يوں كہيں_ ابھى ميںزندہ ہوں ليكن يہ معلوم نہيں كہ كب تك زندہ رہوں گا_ شايد ايك گھنٹہ يا اس كم اور زيادہ زندہ رہونگا_ عمر كا گذرا ہوا وقت ضائع ہوگيا ہے ليكن عمر كا باقى وقت ابھى ميرے پاس موجود ہے اور يہى ميرا سرمايہ بن سكتا ہے بقيہ عمر كے ہر وقت ميں آخرت كے لئے زاد راہ مہيا كرسكتا ہوں اور اگر ابھى ميرى موت آگئي اور حضرت عزرائيل عليہ السلام ميرى جان قبض كرنے كے لئے آگئے تو ان سے كتنى خواہش اور تمنا كرتا كہ ايك دن ياايك گھڑى اور ميرى عمر ميں زيادہ كيا جائے؟
اے بيچارے نفس اگر تو اسى حالت ميں ہو اور تيرى يہ تمنا اور خواہش پورى كر دى جائے اور دوبارہ مجھے دنيا ميں لٹا ديا گيا تو سوچ كہ تو كيا كرے گا؟ اے نفس اپنے آپ اور ميرے اوپر رحم كر اور ان گھڑيوں كو بے فائدہ ضائع نہ كر سستى نہ كر كہ قيامت كے دن پشيمان ہوگا_
ليكن اس دن پشيمانى اور حسرت كوئي فائدہ نہيں دے گي_ اے نفس تيرى عمر كى ہر گھڑى كے لئے خداوند عالم نے ايك خزانہ برقرار كر ركھا ہے كہ اس ميں تيرے اچھے اور برے عمل محفوظ كئے جاتے ہيں اور تو ان كا نتيجہ اور انجام قيامت كو ديكھے گا اے نفس كوشش كر كہ ان خزانوں كو نيك اعمال سے پر كردے اور متوجہ رہ كر ان خزانوں كو گناہ اور نافرمانى سے پر نہ كرے_ اسى طرح اپنے جسم كے ہر ہر عضو كو مخاطب كر كے ان سے عہد اور پيمان ليں كہ وہ گناہ كا ارتكاب نہ كريں مثلاً زبان سے كہيں جھوٹ، غيبت، چغلخوري، عيب جوئي، گالياں، بيودہ گفتگو، توہين، ذليل كرنا، اپنى تعريف كرنا، لڑائي، جھگڑا، جھوٹى گواہى يہ سب كے سب برے اخلاق اور اللہ كى طرف سے حرام كئے گئے ہيں اور انسان كى اخروى زندگى كو تباہ كردينے والے ہيں اے زبان ميں تجھے اجازت نہيں ديتا كہ تو ان كو بجالائے_ اے زبان اپنے اور ميرے اوپر رحم كر اور نافرمانى سے ہاتھ اٹھالے كيونكہ تيرے سب كہے ہوئے اعمال كو خزانہ اور دفتر ميں لكھا جاتا ہے اور قيامت كے دن ان كا مجھے جواب دينا ہوگا_ اس ذريعے سے زبان سے وعدہ ليں كہ وہ گناہ كا ارتكاب نہ كرے_ اس كے بعد اسے وہ نيك اعمال جو زبان بجالاسكتى ہے_ بتلائے جائيں اور اسے مجبور كريں كہ وہ ان كو سارے دن ميں بجالائے مثلاً اس سے كہيں كہ تو فلان ذكر اور كام سے اپنے اعمال كے دفتر اور خزانے كو نور اور سرور سے پر كردے اور آخرت كے جہاں ميں اس كا نتيجہ حاصل كر اور اس سے غفلت نہ كر كہ پيشمان ہوجائيگي_ اسى طرح سے يہ ہر ايك عضو سے گفتگو كرے اور وعدہ لے كہ گناہوں كا ارتكاب نہ كريں اور نيك اعمال انجام ديں_
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے اپنے والد بزرگوار سے نقل كيا ہے كہ آپ نے فرمايا كہ '' جب رات ہوتى ہے تو رات اس طرح كى آواز ديتى ہے كہ جسے سوائے جن اور انسان كے تمام موجودات اس كى آواز كو سنتے ہيں وہ آواز يوں ديتى ہے_ اے آدم كے فرزند ميں نئي مخلوق ہوں جو كام مجھ ميں انجام ديئے جاتے ہيں_ ميں اس كى گواہى دونگى مجھ سے فائدہ اٹھاؤ ميں سورج نكلنے كے بعد پھر اس دنيا ميں نہيں آؤنگى تو پھر مجھ سے اپنى نيكيوں ميں اضافہ نہيں كرسكے گا اور نہ ہى اپنے گناہوں سے توبہ كرسكے گا اور جب رات چلى جاتى ہے اور دن نكل آتا ہے تو دن بھى اسى طرح كى آواز ديتا ہے_
ممكن ہے كہ نفس امارہ اور شيطان ہميں يہ كہے كہ تو اس قسم كے پروگرام پرتو عمل نہيں كرسكتا مگر ان قيود اور حدود كے ہوتے ہوئے زندگى كى جاسكتى ہے؟ كيا ہر روز ايك گھڑى اس طرح كے حساب كے لئے معين كيا جاسكتى ہے؟ نفس امارہ اور شيطن اس طرح كے وسوسے سے ہميں فريب دينا چاہتا ہے اور ہميں حتمى ارادہ سے روكنا چاہتاہے_ ضرورى ہے كہ اس كے مقابلے كے لئے ڈٹ جانا چاہئے اور اسے كہيں كہ اس طرح كا پروگرام پورى طرح سے قابل عمل ہے اور يہ روزمرہ كى زندگى سے كوئي منافات نہيں ركھتا اور چونكہ يہ ميرے نفس كے پاك كرنے اور اخروى سعادت كے لئے ضرورى ہے لہذا مجھے يہ انجام دينا ہوگا اور اتنا مشكل بھى نہيں ہے _ تو اے نفس ارادہ كر لے اور عزم كر لے يہ كام آسان ہوجائيگا اور اگر ابتداء ميں كچھ مشكل ہو تو آہستہ آہستہ عمل كرنے سے آسان ہوجائيگا_
2_ مراقبت
جب انسان اپنے نفس سے مشارطہ يعنى عہد لے چكے تو پھر اس كے بعد ان عہد پر عمل كرنے كا مرحلہ آتا ہے كہ جسے مراقبت كہا جاتا ہے لہذا تمام دن ميں تمام حالات ميں اپنے نفس كى مراقبت اور محافظت كرتے رہيں كہ وہ وعدہ اور عہد جو كر ركھا ہے اس پر عمل كريں_ انسان كو تمام حالات ميں بيدار اور مواظب رہنا چاہئے اور خدا كو ہميشہ حاضر اور ناظر جانے اور كئے ہوئے وعدے كو ياد ركھے كہ اگر اس نے ايك لحظہ بھى غفلت كى تو ممكن ہے كہ شيطن اور نفس امارہ اس كے ارادے ميں رخنہ اندازى كرے اور كئے وعدہ پر عمل كرنے سے روك دے امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' عاقل وہ ہے جو ہميشہ نفس كے ساتھ جہاد ميں مشغول رہے اور اس كى اصلاح كى كوشش كرتارہے اور اس ذريعے اسے اپنے ملكيت ميں قرار دے عقلمند انسان نفس كو دنيا اور جو كچھ دنيا ميں ہے مشغول ركھنے سے پرہيز كرنے والا ہوتا ہے_
حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' نفس پر اعتماد كرنا اور نفس سے خوش بين ہونا شيطن كے لئے بہترين موقع فراہم كرتا ہے_(300)نيز آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ '' جو شخص نفس كے اندر سے روكنے والا ركھتا ہو تو خداوند عالم كى طرف سے بھى اسكے لئے محافظت كرنے والا معين كيا جاتا ہے_
جو انسان اپنے نفس كا مراقب ہے وہ ہميشہ بيدار اور خدا كى ياد ميں ہوتا ہے وہ اپنے آپ كو ذات الہى كے سامنے حاضر ديكھتا ہے كسى كام كو بغير سوچے سمجھے انجام نہيں ديتا اگر كوئي گناہ يا نافرمانى اس كے سامنے آئے تو فورا اسے اللہ اور قيامت كے حساب و كتاب كى ياد آجاتى ہے اور وہ اسے چھوڑ ديتا ہے اپنے كئے ہوئے عہد اور پيمان كو نہيں بھلاتا اسى ذريعے سے اپنے نفس كو ہميشہ اپنى ملكيت اور كنٹرول ميں ركھتا ہے اور اپنے نفس كو برائيوں اور ناپاكيوں سے روكے ركھتا ہے ايسا كرنا نفس كو پاك كرنے كا ايك بہترين وسيلہ ہے اس كے علاوہ جو انسان مراقبت ركھتا ہے وہ تمام دن واجبات اور مستحبات كى ياد ميں رہتا ہے اور نيك كام اور خيرات كے بجالانے ميں مشغول رہتا ہے اور كوشش كرتا ہے كہ نماز كو فضيلت كے وقت ميں خضوع اور خشوع اور حضور قلب سے اس طرح بجالائے كہ گويا اس كے عمر كى آخرى نماز ہے_ ہر حالت اور ہر كام ميں اللہ كى ياد ميں ہوتا ہے فارغ وقت بيہودہ اور لغويات ميں نہيں كاٹتا اور آخرت كے لئے ان اوقات سے فائدہ اٹھاتا ہے وقت كى قدر كو پہچانتا ہے اور ہر فرصت سے اپنے نفس كے كام كرنے ميں سعى اور كوشش كرتا ہے اور جتنى طاقت ركھتا سے مستحبات كے بجا لانے ميں بھى كوشش كرتا ہے كتنا ہى اچھا ہے كہ انسان بعض اہم مستحب كے بجالانے كى عادت ڈالے _ اللہ تعالى كا ذكر اور اس كى ياد تو انسان كے لئے ہر حالت ميں ممكن ہوا كرتى ہے_ سب سے مہم يہ ہے كہ انسان اپنے روز مرہ كے تمام كاموں كو قصد قربت اور اخلاص سے عبادت اور سير و سلوك الى اللہ كے لئے قرار دے دے يہاں تك كہ خورد و نوش اور كسب كار اور سونا اور جاگنا نكاح اور ازدواج اور باقى تمام مباح كاموں كو نيت اور اخلاص كے ساتھ عبادت كى جزو بنا سكتا ہے_ كار و بار اگر حلال روزى كمانے اور مخلوق خدا كى خدمت كى نيت سے ہو تو پھر يہ بھى عبادت ہے_ اسى طرح كھانا پينا اٹھنا بيٹھنا سونا اور جاگنا اگر زندہ رہنے اور اللہ كى بندگى كے لئے قرا ردے تو يہ بھى عبادت ہيں_ اللہ كے مخصوص بندے اسى طرح تھے اور ہيں_
3_ اعمال كا حساب
تيسرا مرحلہ اپنے ہر روز كے اعمال كا حساب كرنا ہے ضرورى ہے انسان دن ميں ايك وقت اپنے سارے دن كے اعمال كے حساب كرنے كے لئے معين كرلے اور كتنا ہى اچھا ہے كہ يہ وقت رات كے سونے كے وقت ہو جب كہ انسان تمام دن كے كاموں سے فارغ ہوجاتا ہے اس وقت تنہائي ميں بيٹھ جائے اور خوب فكر كرے كہ آج سارا دن اس نے كيا كيا ہے ترتيب سے دن كى پہلى گھڑى سے شروع كرے اور آخر غروب تك ايك ايك چيز كا دقيق حساب كرے جس وقت ميں اچھے كاموں اور عبادت ميں مشغول رہا ہے تو خداوند عالم كا اس توفيق دينے پر شكريہ ادا كرے اور ارادہ كر لے كہ اسے بجالاتا رہے گا_ اور جس ميں وقت گناہ اور معصيت كا ارتكاب كيا ہے تو اپنے نفس كو سرزنش كرے اور نفس سے كہے كہ اے بدبخت اور شقى تو نے كيا كيا ہے؟ كيوں تو نے اپنے نامہ اعمال كو گناہ سے سياہ كيا ہے؟ قيامت كے دن خدا كا كيا جواب دے گا؟ خدا كے آخرت ميں دردناك عذاب سے كيا كرے گا؟ خدا نے تجھے عمر اور صحت اور سلامتى اور موقع ديا تھا تا كہ آخرت كے لئے زاد راہ مہيا كرے تو اس نے اس كى عوض اپنے نامہ اعمال كوگناہ سے پر كر ديا ہے_ كيا يہ احتمال نہيں ديتا تھا كہ اس وقت تيرى موت آپہنچے؟ تو اس صورت ميں كيا كرتا؟ اے بے حيا نفس _ كيوں تو نے خدا سے شرم نہيں كي؟
اے جھوٹے اور منافق _ تو تو خدا اور قيامت پر ايمان ركھنے كا ادعا كرتا تھا كيوں تو كردار ميں ايسا نہيں ہوتا_ پھر اس وقت توبہ كرے اور ارادہ كر لے كہ پھر اس طرح كے گناہ كا ارتكاب نہيں كرے گا اور كزرے ہوئے گناہوں كا تدارك كرے گا_
اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' جو شخص اپنے نفس كو گناہوں اور عيوب پر سرزنش كرے تو وہ گناہوں كے ارتكاب سے پرہيز كر لے گا_
اگر انسان محسوس كرے كہ نفس سركش اور نافرمانى كر رہا ہے اور گناہ كے ترك كرنے اور توبہ كرنے پر حاضر نہيں ہو رہا تو پھر انسان كو بھى نفس كا مقابلہ كرنا چاہئے اور اس پر سختى سے پيش آنا چاہئے اس صورت ميں ايك مناسب كام كو وسيلہ بنائے مثلا اگر اس نے حرام مال كھايا ہے يا كسى دوسرى نافرمانى كو بجالايا ہے تو اس كے عوض كچھ مال خدا كى راہ ميں دے دے يا ايك دن يا كئي دن روزہ ركھ لے_ تھوڑے دنوں كے لئے لذيز غذا يا ٹھنڈا، پاني، پينا، چھوڑدے، يا دوسرے لذائذ كے جسے نفس چاہتا ہے اس كے بجالانے سے ايك جائے يا تھوڑے سے وقت كے لئے سورج كى گرمى ميں كھڑا ہو جائے بہرحال نفس امارہ كے سامنے سستى اور كمزورى نہ دكھلائے ور نہ وہ مسلط ہوجائيگا اور انسان كو ہلاكت كى وادى ميں جا پھينكے گا اور اگر تم اس كے سامنے سختى اور مقابلہ كے ساتھ پيش آئے تو وہ تيرا مطيع اور فرمانبردار ہوجائيگا اگر كسى وقت ميں نہ كوئي اچھا كام انجام ديا ہو اور نہ كسى گناہ كا ارتكاب كيا ہو تو پھر بھى نفس كو سرزنش اور ملامت كرے اور اسے كہے كہ كس طرح تم نے عمر كے سرمايہ كو ضايع كيا ہے؟ تو اس وقت نيك عمل بجالا سكتا تھا اور آخرت كے لئے زاد راہ حاصل كر سكتا تھا كيوں نہيں ايسا كيا اے بدبخت نقصان اٹھانے والے كيوں ايسى گران قدر فرصت كو ہاتھ سے جانے ديا ہے_ اس دن جس دن پشيمانى اور حسرت فائدہ مند نہ ہوگى پشيمان ہوگا_ اس طريقے سے پورے وقت جيسے ايك شريك دوسرے شريك سے كرتا ہے اپنے دن رات كے كاموں كو مورد دقت اور مواخذہ قرار دے اگر ہو سكے تو اپنے ان تمام كے نتائج كو كسى كاپى ميں لكھ كے_ بہرحال نفس كے پاك و پاكيزہ بنانے كے لئے مراقبت اور حساب ايك بہت ضرورى اور فائدہ مند كام شمار ہوتا ہے جو شخص بھى سعادت كا طالب ہے اسے اس كو اہميت دينى چاہئے گرچہ يہ كام ابتداء ميں مشكل نظر آتا ہے ليكن اگر ارادہ اور پائيدارى كر لے تو يہ جلدى آسان اور سہل ہوجائيگا اور نفس امارہ كنٹرول اور زير نظر ہوجائيگا_ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ ميں تمہيں عقلمندوں كا عقلمند اور احمقوں كا حق نہ بتلاؤں؟ عرض كيا گيا يا رسول اللہ(ص) _ فرمايئے آپ نے فرمايا سب سے عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے نفس كا حساب كرے اور مرنے كے بعد كے لئے نيك عمل بجالائے اور سب سے احمق وہ ہے كہ جو خواہشات نفس كى پيروى كرے اور دور دراز خواہشوں ميں سرگرم ہے_ اس آدمى نے عرض كي_ يا رسول اللہ(ص) _ كہ انسان كس طرح اپنے نفس كا حساب كرے؟ آپ (ص) نے فرمايا جب دن ختم ہوجائے اور رات ہوجائے تو اپنے نفس كى طرف رجوع كرے اور اسے كہے اے نفس آج كا دن بھى چلا گيا اور يہ پھر لوٹ كے نہيں آئيگا خداوند عالم تجھ سے اس دن كے بارے ميں سوال كرے گا كہ اس دن كو كن چيزوں ميں گذرا ہے اور كونسا عمل انجام ديا ہے؟ كيا اللہ كا ذكر اور اس كى ياد كى ہے؟ كيا كسى مومن بھائي كا حق ادا كيا ہے؟ كيا كسى مومن بھائي كا غم دور كيا ہے؟ كيا اس كى غير حاضرى ميں اس كے اہل و عيال كى سرپرستى كى ہے؟ كيا كسى مومن بھائي كى غيبت سے دفاع كيا ہے؟ كيا كسى مسلمان كى مدد كى ہے؟ آج كے دن كيا كيا ہے_ اس دن جو كچھ انجام ديا ہوا ايك ايك كو ياد كرے اگر وہ ديكھے كہ اس نے نيك كام انجام ديئے ہيں تو خداوند عالم كا اس نعمت اور توفيق پر شكريہ ادا كرے اور اگر ديكھے كہ اس نے گناہ كا ارتكاب كيا ہے اور نافرمانى بجالايا ہے تو توبہ كرے اور ارادہ كرلے كہ اس كے بعد گناہوں كا ارتكاب نہيں كرے گا_ اور پيغمبر اور اس كى آل پر درود بھيج كر اپنے نفس كى كثافتوں كو اس سے دور كرے اور اميرالمومنين عليہ السلام كى ولايت اور بيعت كو اپنے نفس كے سامنے پيش كرے اور آپ كے دشمنوں پر لعنت بھيجے اگر اس نے ايسا كرليا تو خدا اس سے كہے گا كہ '' ميں تم سے قيامت كے دن حساب لينے سے سختى نہيں كرونگا كيونكہ تو ميرے اولياء كيساتھ محبت ركھتا تھا اور ان كے د شمنوں سے دشمنى ركھتا تھا_
امام موسى كاظم عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' وہ ہم ميں سے نہيں ہے جو اپنے نفس كا ہر روز حساب نہيں كرتا اگر وہ اچھے كام انجام دے تو خداوند عالم سے زيادہ توفيق دينے كو طلب كرے اور اگر نافرمانى اور معصيت كا ارتكاب كيا ہو تو استعفا اور توبہ كرے_
پيغمبر عليہ السلام نے ابوذر سے فرمايا كہ '' غقلمند انسان كو اپنا وقت تقسيم كرنا چاہيئے ايك وقت خداوند عالم كے ساتھ مناجات كرنے كے لئے مخصوص كرے_ اور ايك وقت اپنے نفس كے حساب لينے كے لئے مختص كرلے اور ايك وقت ان چيزوں ميں غور كرنے ے لئے جو خداوند عالم نے اسے عنايت كى ہيں مخصوص كردے_
اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' اپنے نفس سے اس كے كردار اور اعمال كے بارے ميں حساب ليا كرو اس سے واجبات كے ادا كرنے كا مطالبہ كرو اور اس سے چاہو كہ اس دنيا فانى سے استفادہ كرے اور آخرت كے لئے زاد راہ اور توشہ بھيجے اور اس سفر كے لئے قبل اس كے كہ اس كے لئے اٹھائے جاو امادہ ہوجاؤ_
نيز حضرت على عليہ السلام نے فرماياكہ '' انسان كے لئے كتنا ضرورى ہے كہ ايك وقت اپنے لئے معين كرلے جب كہ تمام كاموں سے فارغ ہوچكا ہو_ اس ميں اپنے نفس كا حساب كرے اور سوچے كہ گذرے ہوئے دن اور رات ميں كونسے اچھے اور فائدہ مند كام انجام ديئے ہيں اور كونسے برے نقصان دينے والوں كاموں كو بجالايا ہے_
اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' اپنے نفس سے جہاد كر اور اس سے ايك شريك كے مانند حساب كتاب لے اور ايك قرض خواہ كى طرح اس سے حقوق الہى كے ادا كرنے كا مطالبہ كرے كيونكہ سب سے زيادہ سعادتمند انسان وہ ہے كہ جو اپنے نفس كے حساب كے لئے آمادہ ہو_
على عليہ السلام نے فرمايا كہ '' كہ جو شخص اپنے نفس كا حساب كرے تو وہ اپنے عيبوں سے آگاہ ہوجاتا ہے اور اپنے گناہوں كو جان جاتا ہے اور ان سے توبہ كرتا ہے اور اپنے عيبوں كى اصلاح كرتا ہے_
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' اس سے پہلے كہ قيامت كے دن تمہارا حساب ليا جائے تم اس دنيا ميں اپنا حساب خود كرلو كيونكہ قيامت كے دن پچاس مقامات پر بندوں كا حساب ليا جائيگا اور ہر ايك مقام ميں ہزار سال تك اس كا حساب ليا جاتا رہيگا_ آپ نے اس كے بعد يہ آيت پڑھى وہ دن كہ جس كى مقدار پچاس ہزار سال ہوگي_
اس بات كى ياد دھانى بہت ضرورى ہے كہ انسان نفس كے حساب كے وقت خود نفس پر اعتماد نہ كرے اور اس كى بابت خوش عقيدہ نہ ہو كيونكہ نفس بہت ہى مكار اور امارہ سو ہے_ سينكڑوں حيلے بہانے سے اچھے كام كو برا اور برے كو اچھا ظاہر كرتا ہے_ انسان كو اپنے بارے اپنى ذمہ دارى كو نہيں سوچنے ديتا تا كہ انسان اس پر عمل پيرا ہو سكے_ گناہ كے ارتكاب اور عبادت كے ترك كرنے كى كوئي نہ كوئي توجيہ كرے گا_ گناہوں كو فراموشى ميں ڈال دے گا اور معمولى بتلائے گا_ چھوٹى عبادت كو بہت بڑا ظاہر كرے گا اور انسان كو مغرور كردے گا_ موت اور قيامت كو بھلا دے گا اور دور دراز اميدوں كو قوى قرار دے گا_ حساب كرنے كو سخت اور عمل نہ كئے جانے والى چيز بلكہ غير ضرورى ظاہر كردے گا اسى لئے انسان كو اپنے نفس كى بارے ميں بدگمانى ركھتے ہوئے اس كا حساب كرنا چائے_ حساب كرنے ميں بہت وقت كرنى چاہئے اور نفس اور شيطن كے تاويلات اور ہيرا پھيرى كى طرف كان نہيں دھرنے چائيں_
اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' اللہ تعالى كى ياد كے لئے كچھ لوگ ہيں كہ جنہوں نے اللہ تعالى كے ذكر كو دنيا كے عوض قرار دے ركھا ہے لہذا ان كو كار و بار اللہ تعالى كے ذكر سے نہيں روكتا_ اپنى زندگى كو اللہ تعالى كے ذكر كے ساتھ گزارتے ہيں_ گناہوں كے بارے قرآن كى آيات اور احاديث غافل انسانوں كو سناتے ہيں اور عدل اور انصاف كرنے كا حكم ديتے ہيں اور خود بھى اس پر عمل كرتے ہيں_ منكرات سے روكتے ہيں اور خودبھى ان سے ركتے ہيں گويا كہ انہوں نے دنيا كو طے كرليا ہے اور آخرت ميں پہنچ چكے ہيں_ انہوں نے اس دنيا كے علاوہ اور دنيا كو ديكھ ليا ہے اور گويا برزخ كے لوگوں كے حالات جو غائب ہيں ان سے آگاہ ہوچكے ہيں_ قيامت اور اس كے بارے ميں جو وعدے ديئے گئے ہيں گويا ان كے سامنے صحيح موجود ہوچكے ہيں_ دنيا والوں كے لئے غيبى پردے اس طرح ہٹا ديتے ہيں كہ گويا وہ ايسى چيزوں كو ديكھ رہے ہوں كہ جن كو دنيا والے نہيں ديكھ رہے ہوتے اور ايسى چيزوں كو سن رہے ہيں كہ جنہيں دنيا والے نہيں سن رہے_ اگر تو ان كے مقامات عاليہ اور ان كى مجالس كو اپنى عقل كے سامنے مجسم كرے تو گويا وہ يوں نظر آئيں گے كہ انہوں نے اپنے روزكے اعمال نامہ كو كھولا ہوا ہے اور اپنے اعمال كے حساب كرلينے سے فارغ ہوچكے ہيں يہاں تك كہ ہر چھوٹے بڑے كاموں سے كہ جن كاانہيں حكم ديا گيا ہے اور ان كے بجالانے ميں انہوں نے كوتاہى برتى ہے يا جن سے انہيں روكا گيا ہے اور انہوں نے اس كا ارتكاب كريا ہے ان تمام كى ذمہ دارى اپنى گردن پر ڈال ديتے ہيں اور اپنے آپ كو ان كے بجالانے اور اطاعت كرنے ميں كمزور ديكھتے ہيں اور زار زار گريہ و بكاء كرتے ہيں اور گريہ اور بكاء سے اللہ كى بارگاہ ميں اپنى پشيمانى كا اظہار كرتے ہيں_ ان كو تم ہدايت كرنے ولا اور اندھيروں كے چراغ پاؤگے كہ جن كے ارد گرد ملا مكہ نے گھيرا ہوا ہے اور اللہ تعالى كى مہربانى ان پر نازل ہوچكى ہے_ آسمان كے دروازے ان كے لئے كھول ديئےئے ہيں اور ان كے لئے محترم اور مكرم جگہ حاضر كى جاچكى ہے_
source : http://rizvia.net