اردو
Monday 6th of May 2024
0
نفر 0

علی (ع) تنہا مولود کعبہ

 

تیرہ رجب المرجب مرجب کی مبارک تاریخ مولائے متقیان حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے یوم ولادت باسعادت سے منصوب ہے آپ نے آج ہی کے دن اللہ گھر یعنی خانہ کعبہ کے اندر دنیا کو نور امامت سے منور فرمایا اور آنکھ کھولی تو خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آغوش مبارک میں اور یوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ختم رسالت اور آغاز امامت کی نوید دے کر کفر و شرک نفاق کے خلاف اس عظیم تحریک میں شامل ہونے کا گویا اعلان کردیا کہ جس کا آغاز حضرت اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سرزمین حجاز پر شروع کرچکے تھے اور پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ پیغمبر اسلام (ص) کی آغوش مبارک میں پلنے والا بچہ ہی تھا کہ جس نے بھرے مجمع میں آپ کی رسالت کی تصدیق کی اور تبلیغ رسالت کے ہر مرحلے میں آپ کا ساتھ دینے کا عزم ظاہر کیا اور جواب میں آنحضرت (ص)نے بھی آپ کو اپنا وصی وزیر اور جانشین مقرر فرمایا چنانچہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے عہد کو بخوبی نبھایا اور آپ کے بعد آپ کی اولاد نے کار رسالت کو آگے بڑھانے کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا ۔

 

امیر المؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سیرت و کردار کے لحاظ سے آنحضرت (ص) سے مطابقت رکھتے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے آغوش رسالت میں پرورش پائی اور آنحضرت (ص) نے آپ کی تربیت اس انداز میں کی تھی کہ علم و حلم کا کوئی گوشہ ایسا نہیں تھا جو آپ نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات میں منتقل نہ کیا ہو ۔

چنانچہ ایسی بہت سی معتبر احادیث اور روایات موجود ہیں جن کا ذکر تواتر کے ساتھ شیعہ اور سنی دونوں علماء نے کیا ہے ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر حاجیوں کے مجمع میں آپ کا یہ فرمانا من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ کہ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں اس ارشاد کے بعد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی فضیلت میں پھر کوئی حدیث اور روایت بیان کرنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ۔

غدیر خم کے مقام پر حجاج کرام کے مجمع میں آنحضرت (ص) کا معروف خطبہ اور اس کے بعد آیہ بلغ کے مطابق حضرت علی علیہ السلام کو بحیثیت مولا و آقا قرار دینا اور پھر جبرئیل امین کی طرف سے انّ دین عند اللہ الاسلام کی بشارت ایسے مبارک اور تاریخساز واقعات ہیں کہ جس پر جتنا جشن منایا جائے کم ہے ۔خانہ کعبہ ایک قدیم ترین عبادت گاہ ہے اس کی بنیاد حضرت آدم (ع) نے ڈالی تھی اور اس کی دیواریں حضرت ابراہیم (ع) اور حضرت اسماعیل (ع) نے بلند کیں۔ اگر چہ یہ گھر بالکل سادہ ہے نقش و نگار اور زینت و آرائش سے خالی ہے فقط چونے مٹی اور پتھروں کی ایک سیدھی سادی عمارت ہے ، مگر اس کا ایک ایک پتھر برکت و سعادت کا سرچشمہ اور عزت و حرمت کا مرکز و محور ہے ۔ (۱)

خدا وند عالم فرماتا ہے

” جَعَلَ اللّٰہُ الکعبۃ البیت الحرام“ (۲)

” اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو محترم گھر قرار دیا ہے “

خانہ کعبہ کی عزت و حرمت دائمی اور ابدی ہے ایسا نہیں ہے کہ پہلے اس کی عزت و حرمت تھی اب نہیں ہے ۔ بلکہ جس وقت اس کی بنیاد رکھی گئی اسی وقت سے اسے بلند اور با عظمت و غیر معمولی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے اور آج بھی اس کی مرکزیت و اہمیت اسی طرح قائم و دائم ہے ۔

خدا کے حکم سے حضرت ابراہیم (ع)نے حجاز کے ایک ویران علاقہ میں خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی حضرت اسماعیل (ع) بھی اس کام میں شریک ہو گئے ۔اس طرح باپ بیٹوں نے مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کو مکمل کرکے اسے پائے تکمیل تک پہنچایا۔ یہ حسن نیت و پرخلوص عمل کا نتیجہ تھا کہ خانہ کعبہ کو تمام جزیرہ عرب میں مرکزی عبادتگاہ کی حیثیت حاصل ہو گئی ہر گوشہ و کنار سے لوگ کھنچ کر آنے لگے۔

” اِنَّ اَوَّلَ بَیتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکَّۃَ مُبَارَکاً وَ ھُدیً لِلعٰالَمِینَ“ (۳)

”پہلا گھر جو لوگوں کے لئے بنایا گیا وہ بکہ میں ہے جو بابرکت اور سارےعالم کے لئے ذریعہ ہدایت ہے “

مولد امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب (ع)

یہ وہی محترم و پاک و پاکیزہ اور با عظمت گھر ہے جس میں مولائے متقیان حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ تمام علماءو مو رخین اہل سنت وشیعہ نے با اتفاق لکھا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام خانہ کعبہ میںپیدا ہوئے ۔حاکم نیشاپوری جو اہل سنت کے بزرگ علما میں شمار ہوتے ہیں اپنی کتاب مستدرک ،ج۳،ص۴۸۳ پر اس حدیث کو باسندو متواتر لکھا ہے :

لکھتے ہیں

” وَقَد تَوَاتِرَتِ الاَخبٰارُ اَنَّ فَاطِمَۃَ بِنتِ اَسَد (ع) وَلَدَت اَمِیرَ المُومِنِینَ عَلِی ابنُ اَبِی طَالِبٍ کَرَّمَ اللّٰہُ وَجہَہُ فِی جَو فِ الکَعبَۃ “

”امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ ،فاطمہ ابنت اسدکے بطن مبارک سے خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے “

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب ” ازالۃ الخفائ“ صفحہ ۲۵۱ پر اس حدیث کو اور واضح طور پر تحریرکیا ہے کہ احضرت علی علیہ السلام سے پہلے اور نہ ان کے بعد کسی کو یہ شرف نصیب نہیں ہوا چنانچہ لکھتے ہیں:

” تواتر الاخبار انفاطمۃ بنت اسد ولدت امیر المومنین علیاً فی جوف الکعبۃ فانہ ولد فی یوم الجمعۃ ثالث عشر من شہر رجب بعد عام الفیل بثلاثین سنۃ فی الکعبۃ و لم یولد فیھا احد سواہ قبلہ ولا بعدہ“

متواتر روایت سے ثابت ہے کہ امیر المومنین علی (ع)روز جمعہ تیرہ رجب تیس عام الفیل کو وسط کعبہ میں فاطمہ بنت اسد کے بطن سے پیدا ہوئے اور آپ کے علاوہ نہ آپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد کوئی خانہ کعبہ میں پیدا ہوا“

حافظ گنجی شافعی اپنی کتاب ” کفایۃالطالب“صفحہ ۲۶۰پرحاکم سے نقلکرتے ہوئے لکھتےہیں:

”امیرالمو منین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر شب جمعہ ۱۳رجب ، ۳۰ عام الفیل کو پیدا ہوئے۔ ان کے علاوہ کوئی بھی بیت اللہ میں نہیں پیدا ہوا ۔نہ اس سے پہلے اورنہ اس کے بعد ۔ یہ منزلت و شرف فقط حضرت علی علیہ السلام کو حاصل ہے” ۔

” لم یولد قبلہ و لا بعدہ مولود فی بیت الحرام

حضرت علی (ع) سے پہلے اور نہ آپ(ع) کے بعد کوئی خانہ کعبہ میں پیدا نہیں ہو۔

علامہ امینی اپنی کتاب ” الغدیر“ جلد ۶ صفحہ ۲۱ کے بعد حضرت علی ابن ابی طالب کی ولادت کے واقعہ کو کہ خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے ،اہل سنت کی ۲۰ سے زیادہ کتابوں سے ذکر کیا ہے اور شیعوں کی پچاس سے زیادہ کتابوں سے نقل کیا ہے ۔

بہر حال اصل واقعہ کو تھوڑا بہت اختلاف کے ساتھ اہل سنت علماءو مو رخین نے یوں لکھا ہے: جب فاطمہ بنت اسد پر وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے تو انھوں نے جناب ابو طالب (ع) سے بتایا۔ جناب ابو طالب (ع)ان کا ہاتھ پکڑ کر بیت الحرام میں لائے اور خانہ کعبہ کے اندر لے گئے اور کہا:

” اجلسی علیٰ اسم اللّٰہ “ خدا کا نام لے کر یہیں بیٹھ جائو

اس کے بعد ایک بہت ہی خوبصورت بچہ پیدا ہوا جس کا نام جناب ابو طالب (ع) نے ”علی“ رکھا ۔ اس حدیث کو ابن مغازلی نے اپنی کتاب مناقب اور ابن صباغ نے” فصولالمھمہ “میں نقل کیا ہے۔ اور بہت سے لوگوں نے ان سے اس حدیث کو نقل کیاہے۔

اسی سے ملتا جلتا واقعہ بعض مورخین و علماءشیعہ نے بھی لکھا ہے ۔لیکن علماءشیعہ رضوان اللہ علیہم نے کچھ اس طرح لکھا ہے :

جس وقت جناب فاطمہ بنت اسد پر وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے تو وہ خود خانہ کعبہ کے قریب تشریف لے گئیں اور خدا وند عالم سے دعا کی کہ خدا یا میری اس مشکل کو آسان کردے ۔ ابھی دعا میں مشغول ہی تھیں کہ خانہ کعبہ کی دیوار پھٹی اور فاطمہ بنت اسد(ع) اندر داخل ہوگئیں اوروہیں پر حضرت علی علیہ السلا م کی ولادت ہوئی۔

بریدہ بن قعنب سے روایت ہے :

بریدہ کہتے ہیں کہ میں عباس اور بنی ہاشم کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد الحرام میں خانہ کعبہ کی طرف رخ کئے بیٹھا تھا کہ اچانک فاطمہ(ع) بنت اسد آئیں اور طواف خانہ کعبہ میں مشغول ہو گئیں، اثنائے طواف میں ان پرآثار وضع حمل ظاہر ہوئے تو خانہ کعبہ کے قریب آکر فرمایا:

”رب انی مومنۃ بک و بما جاءمن عندک من رسل و کتب ،انی مصدقۃ بکلام جدی ابراھیم الخلیل ، و انہ بنی البیت العتیق ، فبحق الذی بنیٰ ھٰذا البیت ، و بحق المولود الذی فی بطنی لما یسرت علی ّ ولادتی“

خدا وندا میں تجھ پر اور تیرے تمام پیغمبروں پر اور تیری کتاب پر ایمان رکھتی ہوں جو تیری طرف آئی ہے ۔اور اپنے جد جناب ابراہیم خلیل کی تصدیق کرتی ہوں اور یہ کہ انھوں نے اس خانہ کعبہ کو بنایا ، خدایا اس شخص کا واسطہ جس نے اس گھر کی بنیاد رکھی، اور اس بچے کا واسطہ جو میرے بطن میں ہے اس کی ولادت میرے لئے آسان کر ۔

بریدہ بن قعنب کہتے ہیں:

ہم لوگوں نے دیکھا کہ اچانک خانہ کعبہ کی پشت کی دیوار شق ہوئی اور فاطمہ (ع)بنت اسد کعبہ کے اندر داخل ہوکر نظروں سے اوجھل ہو گئیں ۔ پھر دیوارکعبہ آپس میں مل گئی ۔ہم لوگوں نے بڑی کوشش کی کہ خانہ کعبہ کا تالا کھول کر اندرداخل ہوں لیکن تالا نہ کھلا ۔ تالے کے نہ کھلنے سے ہم لوگوں پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ یہ خدا وند عالم کا معجزہ ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔جناب فاطمہ (ع)بنت اسد چوتھے روز حضرت علی علیہ السلام کو ہاتھوں پر لیئے ہوئے برآمد ہوئیں۔

روایت میں ہے کہ: فاطمہ بنت (ع) اسد فرماتی ہیں کہ علی (ع) کی ولادت کے بعد جب میں خانہ کعبہ سے باہر آنے لگی تو ہاتف غیبی نے ندا دی

” یافاطمۃ سمیہ علیا فھو علی واللّٰہ العلی الاعلیٰ یقول : انی شققت اسمہ من اسمی و ادبتہ بادبی ، و وقفتہ علی غامض علمی۔۔۔۔“

اے فاطمہ (ع) اس بچہ کا نام علی (ع)رکھواس لئے کہ یہ علی و بلند ہے اور خداعلی اعلیٰ ہے : میں نے اس بچہ کا نام اپنے نام سے جدا کیا ہے اور اپنے ادب سے اس کو مو دب کیا ہے ۔اور اسے اپنے علم کی باریکیون سے آگاہ کیا ہے ۔ (۴)

ولادت علی (ع) کے سلسلہ میں علماء،

مو رخین و محدثین اہل سنت کا نظریہ

۱۔ حاکم نیشابوری

امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہ خانہ کعبہ میںفاطمہ بنت اسد کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے یہ روایت تواتر کی حد تک ہے ۔ (۵)

۲۔حافظ گنجی شافعی

امیرالمو منین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر شب جمعہ ۳۱رجب ، ۰۳ عام الفیل کو پیدا ہوئے۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد کوئی بیت اللہ میں پیدا نہ ہوا ۔ یہ مقام و منزلت و شرف فقط حضرت علی علیہ السلام کو حاصل ہے ۔ (۶)

۳۔علامہ ابن صبّاغ مالکی

علی بن ابی طالب علیہ السلام شب جمعہ ۳۱رجب ،۰۳عام الفیل، ۳۲سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔حضرت علی علیہ السلام کی جلالت وبزرگی اور کرامت کی وجہ سے خداوند عالم نے اس فضیلت کوان کے لئے مخصوص کیا ہے ۔ (۷)

۴۔احمد بن عبد الرحیم دہلوی :

شاہ ولی اللہ احمد بن عبد الرحیم د معروف محدث دہلوی نقل کرتے ہیں:

”بغیر کسی شک و شبہ کے یہ روایت متواتر ہے کہ علی بنابی طالب علیہ السلام شب جمعہ ۱۳رجب ،۳۰عامالفیل، ۲۳سال قبل از ہجرت ،مکہ معظمہ میںخانہ کعبہ کے اندر فاطمہ بنت اسد کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے ۔ ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد کوئی بھی شخص خانہ کعبہ کے اندر پیدا نہیں ہوا ۔ حضرت علی (ع) کی جلالت وبزرگی اور کرامت کی وجہ سے خداوند عالم نے اس فضیلت کوان کے لئے مخصوص کیا ہے “(۸)

۵۔ علامہ ابن جوزی جنفی کہتے ہیں کہ حدیث میں وارد ہے :

”جناب فاطمہ (ع)بنت اسد خانہ کعبہ کا طواف کررہی تھےں کہ وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے اسی وقت خانہ کعبہ کا دروازہ کھلااورجناب فاطمہ (ع)بنت اسد کعبہ کے اندر داخل ہوگئےں ۔اسی جگہ خانہ کعبہ کے اندر حضرت علی علیہ السلام پیدا ہوئے۔“ (۹)

۶۔ابن مغازلی شافعی زبیدہ بنت عجلان سے نقل کرتے ہیں :

”جس وقت فاطمہ بنت اسد پر وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے اور درد شدت اختیار کرگیا ، تو جناب ابو طالب(ع)بہت زیادہ پریشان ہوگئے اسی اثناءمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہاںپہنچ گئے اور پوچھا چچا جان آپ کیوں پریشان ہیں ! جناب ابو طالب (ع) نے جناب فاطمہ بنت اسد کا قضیہ بیان کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فاطمہ(ع)بنت اسد کے پاس تشریف لے گئے ۔اور آپ (ص) نے جناب ابو طالب (ع)کاہاتھ پکڑکر خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہوگئے ،فاطمہ (ع)بنت اسد بھی ساتھ ساتھ تھیں ۔ وہاں پہنچ کر آپ نے فاطمہ(ع) بنت اسد کو خانہ کعبہ کے اندر بھیج کر فرمایا : ”اجلسی علیٰ اسم اللّٰہ “ اللہ کا نام لے کر آپ اس جگہ بیٹھ جائیے ۔ پس کچھ دیر کے بعد ایک بہت ہی خوبصورت وپاکیزہ بچہ پیدا ہوا ۔ اتنا خوبصورت بچہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔جناب ابوطالب (ع)نے اس بچہ کا نام ” علی “رکھا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس بچہ کو ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر فاطمہ (ع)بنت اسد کے ہمراہ ان کے گھر تشریف لے گئے ۔ (۱۰)

۷۔علامہ سکتواری بسنوی :

اسلام میں وہ سب سے پہلا بچہ ہے جس کا تمام صحابہ کے درمیان ”حیدر “ یعنی شیر نام رکھاگیاہے۔ وہ ہمارے مولا اور سید و سردار حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں ۔ جس وقت حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اس وقت حضرت ابو طالب (ع)سفر پرگئے ہوئے تھے ۔ حضرت علی علیہ السلام کی مادر گرامی نے ان کانام تفاول کرنے کے بعد”اسد“ رکھا ۔ کیوں کہ” اسد“ ان کے والد محترم کا نام تھا۔ (۱۱)

۸۔ علامہ محمد مبین انصاری حنفی لکھنوی(فرنگی محلی):

حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی بھی اس پاک و پاکیزہ اور مقدس جگہ پر پیدا نہ ہوا ۔ خدا وند عالم نے اس فضیلت کو فقط حضرت علی (ع) ہی سے مخصوص کیا ہے اور خانہ کعبہ کو بھی اس شرف سے مشرف فرمایا ہے۔ (۱۲)

۹۔ صفی الدین حضرمی شافعی لکھتے ہیں:

حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی ۔آپ (ع) وہ پہلے اور آخری شخص ہیں جو ایسی پاک اور مقدس جگہ پیدا ہوے ۔(۱۳)

۱۰۔ حافظ شمس الدین ذہبی:

حافظ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد ذہبی ” تلخیص مستدرک “ میں تحریر فرماتے ہیں: یہ خبر تواتر کی حد تک ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ (۱۴)

۱۱۔ آلوسی بغدادی:

یہ واقعہ اپنی جگہ بجا اور بہتر ہے کہ خدا وند عالم نے ارادہ کیا ہے کہ ہمارے امام اور پیشوا کو ایسی جگہ پیدا کرے جو سارے عالم کے مومنین کا قبلہ ہے ۔ پاک و پاکیزہ ہے وہ پر وردگار کہ ہر اس چیز کو اسی کی جگہ پر رکھتا ہے ۔وہ بہترین حاکم ہے ۔ (۵۱)

وہ آگے لکھتے ہیں:

جیسا کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام بھی چاہتے تھے کہ خانہ کعبہ جس کے اندر پیدا ہونا ان کے لئے باعث افتخار تھااس کی خدمت کریں۔یہی وجہ تھی کہ انھوں نے بتوں کو بلندی سے اٹھا کر نیچے پھینک دیا ۔ حدیث کے ایک ٹکڑے میں آیا ہے کہ خانہ کعبہ نے بارگاہ خدا وندی میں شکایت کرتے ہوئے کہا : بار الٰہا کب تک لوگ میرے چاروں طرف بتوں کی پوجا کرتے رہیں گے۔ خداوند عالم نے اس سے وعدہ کیا کہ اس مکان مقدس کو بتو ں سے پاک کرے گا۔ (۱۶)

۱۲۔ عبد الحق دہلوی:

عبد الحق بن سیف الدین دہلوی اپنی کتاب ” مدارج النبوہ“ میں تحریر فرماتے ہیں: جناب فاطمہ بنت اسد نے امیر المومنین کا نام حیدر رکھا ،اس لئے کہ معنی کے اعتبار سے باپ (اسد) اور بیٹے کا نام ایک ہی رہے۔ لیکن جناب ابو طالب (ع) اس نام کو پسند نہیںکیا،یہی وجہ ہے کہ انھوں نے آپ کا نام ” علی (ع) “ رکھا۔ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو ”صدیق “ کہہ کر پکارا اور آپ کی کنیت ” ابو ریحانتین“ رکھی۔ ” امین، شریف، ہادی، مہتدی، یعسوب الدین وغیرہ القاب سے آپ کو نوازا۔اس کے بعد عبد الحق بن سیف الدین دہلوی تحریر فرماتے ہیں : ” حضرت علی (ع) کی ولادت باسعادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی“ (۱۷)

۱۳۔اخطب خوارزمی:

موفق بن احمد جو اخطب خوارزمی سے مشہور ہیں اپنی کتاب ” مناقب“ میں تحریر فرماتے ہیں: ”علی بن ابی طالب علیہ السلام شب جمعہ ۱۳رجب ،۳۰عام الفیل، ۲۳سال قبل از ہجرت اور بعثت سے ۱۰ یا ۱۲ سال پہلے مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے“ ۔ (۱۸)

۱۴۔ شیخ مومن بن حسن شبلنجی:

شیخ مومن بن حسن شبلنجی کہتے ہیں کہ حضرت علی ابن طالب (ع) حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچازاد بھائی اور خدا وند عالم کی برہنہ تلوار ہیں جو مکہ معظمہ خانہ کعبہ کے اندر ۱۳رجب الحرام جمعہ کے دن ۳۰ عام الفیل ہجرت کے ۲۳سال قبل خانہ خدا میں پیدا ہوئے ۔ (۱۹)

۱۵۔عباس محمود عقاد :

عقاد کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پید ا ہوئے ۔ خدا وند عالم نے حضرت علی علیہ السلام کے چہرے کو پاک و پاکیزہ اور بلند قرار دیا تھا کہ وہ بتوں کا سجدہ نہ کریں لہٰذا وہ چاہتا تھا کہ ایک نئے انداز اور نئی جگہ ان کی ولادت ہو پس خانہ کعبہ کو انتخاب کیا جو عبادت گاہ تھی۔قریب تھا کہ علی علیہ السلام مسلمان پیدا ہوتے ۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلمان پیدا ہوئے ،لہٰذا ہم ان کی ولادت پر غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ وہ فطرت اسلام پر پیدا ہوئے کیوں کہ وہ بتوں کی پرستش سے ناواقف تھے اور نہ کبھی بتوں کی پوجا کی۔ وہ اس مبارک جگہ پیدا ہوئے جہاں سے اسلام کا آغاز ہوا۔ (۲۰)

۱۶۔ علامہ صفوری:

علامہ صفور ی کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام اپنی مادر گرامی کے بطن مبارک سے خانہ کعبہ کے اندر جس کو خدا نے شرف بخشا ہے پیدا ہوئے ۔ یہ وہ فضیلت ہے جس کو خدا وند عالم نے ان کے لئے مخصوص کر دیا تھا۔ (۲۱)

۱۷۔ علامہ برہان الدین حلبی شافعی:

علامہ برہان الدین حلبی شافعی نے حضرت علی ابن ابی طالب کی ولادت کے سلسلہ میں کافی طولانی بحث کی ہے مختصر یہ کہ حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیداہوئے ۔ اس وقت حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمرمبارک تیس سال تھی۔(۲۲)

۱۸۔ عبد الحمید خان دہلوی :

عبد الحمید خان دہلوی لکھتے ہیں: اکثر مو رخین کا اتفاق و اعتقاد ہے کہ حضرت علی علیہ السلام مکہ معظمہ خانہ کعبہ کے اندر جمعہ کے دن ۱۳ رجب تیس عام الفیل کو پیدا ہوئے اُس سے پہلے اور اُس کے بعد کوئی بیت اللہ میں پیدا نہیں ہوا ۔ (۲۳)

۱۹۔ باکثیر حضرمی:

”علی بن ابی طالب علیہ السلام ۱۳رجب ،۳۰عام الفیل، ۲۳سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے“ (۲۴)

۲۰۔ مولوی اشرف

”علی بن ابی طالب علیہ السلام ۱۳رجب ،۳۰عام الفیل، ۲۳سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے“ (۲۵)

۲۱۔ علّامہ سعید گجراتی:

علامہ سعید گجراتی اہل سنت کے بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں ،اپنی کتاب ” الاعلام با علام مسجد الحرام “ میں اس روایت کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ” حضرت علی (ع) ابو قبیس نامی پہاڑ کے دامن میں پیدا ہوئے“ جس کو دشمنان اہلبیت (ع)نے لکھا ہے۔

” خدا یا ! تو بہتر جانتا ہے کہ یہ بہتان دشمنان اہلبیت (ع) کی طرف سے ہے۔ دشمنان علی (ع) نے اس واقعہ کو گڑھا ہے ۔ جب کہ متواتر روایتیں دلالت کرتی ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔ خدایا ! تو مجھے رسول اکرم (ص) کی سنت پر باقی رکھ اور ان کے اہلبیت (ع) کی دشمنی سے دور رکھ “ (۲۶

۲۲۔ عبد المسیح انطاکی مصری:

عبد المسیح انطاکی مصری شاعرنے مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کی ولادت سےمتعلق تقریبا پانچ سو (۵۰۰) شعر کہیں ہیں کہ حضرت علی (ع) خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ میں ان تمام اشعار کو یہاں ذکر نہیں کر سکتا شاہد کے طور پر مطلع آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں:

فی رحبۃ الکعبۃ الزھراءقد انبثقت

انوار طفل وضائت فی منافیھا (۲۷)

--------------------------------------------------------------------------------

۱۔ سیرہ امیر المومنین ، ج۱۱۴۔ تالیف علامہ مفتی جعفر حسین صاحب ( ناشر امامیہ کتب خانہ لاہور)

۲۔ سورہ مائدہ ۹۷

۳۔ سورہ آل عمران ۹۶

۴۔ زندگانی امیر المومنین (ع) ،ص۷۲،مصنف سید ہاشم رسولی محلاتی ( ناشردفتر فرہنگ اسلامی قم)

۵۔ مستدرک حاکم نیشاپوری ،ج۳ص۴۸۳۔۵۵۰( حکیم ابن حزام کے شرح میں)و کفایۃ الطالب،ص۲۶۰

۶۔ کفایۃ الطالب ، ص۴۰۷

۷ ۔الفصول المہمۃ ،ص۳۰

۸ ۔ ازالۃ الخلفاءج۲ص۲۵۱

۹۔ تذکرۃ الخواص ،ص۲۰

۱۰۔ مناقب ابن مغازلی ،ص ۶، ح۳ ۔الفصول المہمۃ ،ص۳۰

۱۱۔ محاضرۃ الاوائل ،ص۷۹

۱۲۔ وسیلۃ النجاۃ ،محمد مبین حنفی ،ص۶۰( چاپ گلشن فیض لکھنو )

۱۳۔ وسیلۃ المآل ،حضرمی شافعی ، ص۲۸۲

۱۴۔ تلخیص مستدرک ج۲ص۴۸۳

۱۵۔ غالیۃ المواعظ ،ج ۲ص۸۹ و الغدیر ،ج۶ ، ص۲۲

۱۶۔ازاحۃ الخلفاءعن خلافۃ الخلفاء،ص۲۵۱

۱۷۔ مدارج النبوہ ج۲ص۵۳۱

۱۸۔ کفایۃ الطالب ، ص۴۰۷

۱۹۔ نور الابصار ، ص۸۵

۲۰۔ عبقریۃ الامام علی(ع) ،ص۴۳

۲۱۔ نزھۃ المجالس ،ج۲ص۴۵۴

۲۲۔ السیرۃ الحلبیۃ ،ج۱ص۱۳۹و ج۳ص۳۶۷

۲۳۔ سیرہ خلفاءج ۸ ص ۲

۲۴۔ وسیلۃ المال ،ص۱۴۵

۲۵۔ ریاض الجنان ،ج۱ص۱۱۱

۲۶۔ الاعلام الا ¾ علام مسجد الحرام خطی بہ نقل علی و کعبہ،ص۷۶

۲۷۔ قصیدہ علویہ ص۶۱

حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی سیرت اور فضیلت کے بیان میں علم و حلم شجاعت دلیری ، شفقت و رحمدلی اور انہی جیسی انگنت صفات کا تذکرہ کیا جاتاہے اور ان موضوعات پر نہ جانے اب تک کتنی ہی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور تا قیام قیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا لیکن اس کے باوجود آپ کی شخصیت کے مکمل ادراک کا دعوی شاید ہی کوئی کرسکے چنانچہ آنحضرت (ص) کی ایک حدیث یوں بیان کی جاتی ہے کہ مجھے کسی نے نہیں پہچانا سوائے علی اور علی کو کسی نے نہیں پہچانا سوائے میرے ۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای اپ کی سبرت کے بیان میں فرماتے ہیں:

امیرالمومنین (ع)ایسے مقدس اور نورانی صفات وخصوصیات کےحامل انسان ہیں کہ ہم انھیں سمجھنے سے بھی قاصر ہیں آپ کی علمی منزلت آپ کا نورانی مرتبہ آپ کی عصمت و طہارت وہ حقائق ہیں جو آپ کی ذات پاک اورآپ کے قلب منور میں موجزن تھے اور علم وحکمت کی شکل میں آپ کی زبان مبارک پر جاری رہتے تھے، وہ تقرب الہی اور وہ ذکر الہی جو ہمیشہ اور ہر حال میں آپ کے کردارسے نمایاں اور زبان پر جاری رہتا تھا ایسی چیزیں ہیں جو آپ کی نورانی فطرت کی مانند ہمارے فہم و ادراک سے باہر ہیں ۔لیکن ہم ان پر یقین و عقیدہ رکھتے ہیں اور فخر کرتے ہیں ۔

امیر المومنین (ع) کی دوسری خصوصیات وہ ہیں جوآپ کی ذات مقدس کوہر دورکے تمام انسانوں کیلۓ معیار اور نمونہ عمل بناتی ہیں اور وہ اتباع اور پیروی کرنے کیلۓ ہیں۔ معیاراورنمونہ عمل ان کاموں کو مطابقت دینےکیلۓ ایک میزان اور وسیلہ ہوتا ہے جو انسان انجام دینا چاہتاہے ۔ یہ نمونہ عمل کسی خاص گروہ وطبقے سے مخصوص نہیں ہے ، حتی صرف مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے ۔ ہم جو یہ دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں امیرالمومنین (ع) کی شخصیت اتنی پرکشش ہے اس کی وجہ یہی خصوصیات ہیں۔لہذا جو لوگ مسلمان بھی نہیں ہیں یا آپ کی امامت کی بھی تصدیق نہیں کی ہے وہ بھی ان خصوصیات کی عظمتوں کے سامنے سر تسلیم خم کر لیتے ہيں اور نہ چاہتے ہوۓ بھی مدح وستائش کرنے لگتے ہیں۔بنابرایں یہ خصوصیات سب کیلۓ نمونہ عمل اور مثالی ہیں .

امیرالمومنین (ع) پیغمبراکرم (ص) کی دوسری تصویر ہیں اورآنحضرت (ص)کے شاگردوں میں ہیں البتہ ہمارے سامنےموجود یہ عظيم شخصیت جواگرچہ خود کوپیغمبر(ص) کے سامنے چھوٹااور معمولی سمجھتی ہے اور خود آنحضرت (ص) کی شاگرد ہےجب ہم اسے انسان کی نظر سے دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک مافوق البشر شخصیت نظر آتی ہے ۔آپ کی شخصیت میں حیرت انگیز توازن پایا چاتاہے یعنی امیرالمومنین (ع) کے وجود میں بظاہر متضاداور ایک دوسرے سےمختلف صفات اتنی خوبصورتی سے جمع ہیں کہ خود ایک طرح کا حسن پیدا کر رہے ہيں۔ انسان کو کسی کے اندر بھی یہ صفات یکجا نہیں ملیں گے۔امیرالمومنین (ع) کے اندر اس قسم کے بےشمار صفات موجود ہیں ایک دو نہیں بہت زیادہ ہیں۔اس وقت میں ان میں سے کچھ متضاد صفات جو امیرالمومنین (ع) کے اندرموجودہیں بیان کررہا ہوں ؛مثلا رحم و نرم دلی صلابت وسختی کے ساتھ سازگار نہیں ہوتی،لیکن امیرالمومنین (ع) کے اندر محبت و مہربانی اور رحمدلی اتنے اعلی پیمانے پر ہے کہ عام انسانوں کے اندربہت کم نظر نہیں آتی ہے۔ رحمدلی اور مروت کا عالم یہ ہے کہ آپ نہ صرف یتیم بچوں کے گھرجاتے ہيں ، نہ صرف یہ کہ ان کاتنور جلاتے ہیں ان کے لۓ روٹی پکاتے ہیں اوروہ کھانا جو ان کیلۓ لے گۓ ہیں اپنے ہاتھوں سےان بچوں کو کھلاتے ہیں بلکہ غمگین اور رنجیدہ بچوں کے لبوں پر مسکراہٹ لانےکیلۓ ان کے ساتھ کھیلتے بھی ہیں۔ان کے سامنے جھک جاتے ہیں اور انہیں اپنےکندھوں پر بٹھاکرگھماتے ہیں اور ان کے معمولی سے گھر میں انھیں کھیل کود میں مشغول کرتے ہیں تاکہ یتیم بچوں کے لبوں پر مسکراہٹ آسکے یہی امیر المومنین نہروان کے واقعے میں جہاں کچھ کج فکر اور متعصب افراد نے بے بنیاد بہانوں سے حکومت گرانے کی کوشش کی تھی جب ان کا سامنا ہوتا ہے تو انھیں نصیجت کرتے ہیں جب اس کا کوئ نتیجہ نہیں نکلتا تو پھر سختی سے پیش آنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔یہ وہی علی ہیں۔ جب آپ کے مد مقابل بد طینت اور بد ذات لوگ ہوتے ہیں اور بچھو کی مانند عمل کر رہے ہیں،پھر آّپ سختی سے کام لیتے ہيں۔ ۔ یہ وہی علی ہیں جن کیلۓ سورہ فتح کی انتیسویں آیت میں ارشاد ہوا ہے،اشداء علی الکفار و رحماء بینھم،دیکھیں یہ دونوں خصوصیات نے امیرالمومنین میں کتنی خوبصورتی پیدا کردی ہے۔اتنے رحم دل انسان ہیں کہ آپ کو یہ برداشت نہیں کہ کوئ یتیم بچہ رنجیدہ رہے ،فرماتے ہیں کہ جب تک میں اسے ہنسا نہں لوں گایہاں سے جاؤں گا نہیں لیکن وہاں ان کج فکر اورکج عمل انسانوں کے سامنے جو بچھو کی مانند ہربیگناہ کوڈنک مارتے ہیں،ڈٹ جاتے ہیں یہ آپ کی حکومت اور تقوے کا ایک اور نمونہ ہے۔ ،کیا حکومت میں انسان اس قسم کا زہد و ورع اختیار کرسکتاہے ؟ حکومت بظاہر زہد و ورع کے ساتھ سازگار نہيں ہے لیکن امیرالمومنین(ع) نےمظبوط ترین حکومتوں کے ساتھ میں بھی زہد و ورع کو اکٹھا کردیا ،اور یہ بہت عجیب بات ہے ۔اور وہ اس سلسلے میں کسی سے کوئ مروت نہیں کرتے تھے اگر ان کی نظر مبارک میں کوئی حاکم کمزور ہوتااوراس کام کے لۓ مناسب نہ ہوتاتو اسے معزول کردیتے تھے۔

۔دوسرانمونہ آپ کی طاقت و مظلومیت ہے۔ آپ کے زمانے میں کوئ آپ کی مانند طاقتور نہیں تھا۔ وہ عجیب و غریب شجاعت حیدری کس کے اندر تھی -آپ کی عمر کے آخری حصے تک کسی نے بھی آپ کی شجاعت کا مقابلہ کرنے کا دعوی نہیں کیا۔یہی انسان جو اپنے زمانے کا سب سے زيادہ مظلوم انسان تھا بلکہ جیسا کہ کہا گیاہے اور صحیح بھی ہے، شائد تاریخ انسانیت کا سب سے زیادہ مظلوم انسان ہے "اس کی طاقت و مظلومیت کے دوعنصر ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد ہیں ،معمولا جو لوگ طاقتور ہوتے ہیں وہ مظلوم نہیں ہوتے لیکن امیرالمومنین(ع) مظلوم واقع ہوۓ ہیں ۔ 

امیرالمومنین (ع) جو پیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد سے حکومت حاصل ہونے تک اپنی ذاتی دولت سے آبادکاری کے کام کرتے رہے، باغات لگاتے رہے ،کنوئیں کھودتے رہے نہریں جاری کرتے رہے مزرعہ تیار کرتے رہے ، عجیب یہ ہے کہ سب کچہ راہ خدا میں دے دیتے تھے۔ امیرالمومنین (ع) اپنے دور کے زیادہ آمدنی والے افراد میں سےتھے،آپ کے حوالے سے نقل کیا گيا ہے کہ"وصدقتی الیوم لو قسمت علی بنی ہاشم لوسعہم، میں اپنے مال سےجو صدقہ دیتاہوں اگر تمام بنی ہاشم میں تقسیم کروں تو ان کیلۓ کافی ہو جاۓ گا۔

عدل علی ابن ابی طالب(ع) ایک اور نمونہ ہے۔جب ہم یہ کہتے ہیں عدالت علی ابن ابی طالب (ع) کی ذات میں موجودہے تو ہر آدمی ابتدائی طور پر اس سے جو سمجھتاہے وہ یہ کہ وہ سماج میں عدل قائم کرتے تھے۔یہ عدل ہے لیکن عدل کی اعلی مثال توازن ہے ۔بالعدل قامت السموات والارض،زمین و آسمان عدل کی بنیاد پر قائم ہیں ،یعنی خلقت میں توازن ،حق بھی یہی ہے۔عدل و حق نتیجے میں ایک ہی چیزہے اور ایک ہی معنی اورایک ہی حقیقت کے حامل ہیں ۔امیرالمومنین کی زندگی عدل و توازن کی خصوصیات کی مظہر ہےجہاں ہر چیز اپنے مقام اور مرتبے پر ہے اور منزل کمال پر فائزہے امیرالمومنین(ع) کی ایک اور خصوصیت آپ کا استغفار ہےامیرالمومنین(ع) کی دعا توبہ اور استغفار بہت اہم ہے ایسی شخصیت جو جنگ اور جد و جدوجہد کرتی ہے ، میدان جنگ میں فاتح اور میدان سیاست مدبر ہو اور اس دور کے بڑے ملکوں پر تقریبا پانچ سال حکمرانی کی ہو اگر آپ امیرالمومنین کے زیرحکومت علاقے کا آج اندازہ لگا نا چاہیں تو وہ تقریباآج کے دس ملکوں پر مشتمل ہوگا اتنے وسیع قلمرومیں اس قدر کام اورجدو جہد کے ساتھ ساتھ آپ ایک عظیم اور مکمل سیاست داں بھی ہیں۔اور دنیا کا نظم و نسق چلا رہے ہیں۔آپ کا وہ میدان جنگ آپ کا میدان سیاست آپ کا سماجی امورسنبھالناعوام کے مابین آپ کے فیصلے اور معاشرے میں عوام کے حقوق کا تحفظ ۔یہ سب بہت عظیم کام ہیں اس کیلۓ بہت کام اور انتظام و اہتمام کی ضرورت ہوتی ہے اور انسان کو ہر وقت کا کرتے رہنا پڑتا ہے ۔اس قسم کے مواقع پر ایک پہلو شخصیت کے حامل افراد کہتے ہیں کہ ہماری دعا و عبادت یہی ہے ہم تو راہ خدا میں کام کر ہی رہے ہیں، اور ہمارا کام تو خدا ہی کیلۓ ہےلیکن امیرالمومنین یہ نہیں کہتے ،آپ وہ کام بھی کرتے ہیں اور عبادت بھی کرتےہیں.

 


source : http://mahdicentre.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام جعفرصادق ـ کی علمی سیرت اور ہماری ذمہ داریاں
آیت تطہیر کا نزول بیت ام سلمہ (ع) میں
امام مہدی علیہ السلام اولادعلی (ع)سے ہیں
حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا )
حضرت پیغمبر اسلام (ص) کا مختصر زندگی نامه
قاتلین حسین (ع) کی حقیقت
امام جعفر صادق عليہ السلام کي سيرت طيبہ
شہادت امام جعفر صادق علیہ السلام
دو محرم سے لے کر نو محرم الحرام تک کے مختصر واقعات
ہدف کے حصول ميں امام حسين کا عزم وحوصلہ اور شجا عت

 
user comment