قرآن کے مطابق وحی رسالی تین قسم کی ھے جیسا کہ ارشاد ھوا:
<وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اٴَنْ یُکَلِّمَہُ اللهُ إِلاَّ وَحْیًا اٴَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ اٴَوْ یُرْسِلَ رَسُولاً فَیُوحِیَ بِإِذْنِہِ مَا یَشَاءُ إِنَّہُ عَلِیٌّ حَکِیمٌ ز وَکَذَلِکَ اٴَوْحَیْنَا إِلَیْکَ رُوحًا مِنْ اٴَمْرِنَا۔۔۔
”یعنی کسی سے اللهتعالی نے کلام نھیں کیا مگر یا وحی کے ذریعے یا حجاب کے ذریعے یا بھیجے ھوئے فرشتے کے ذریعے جس ذریعے سے بھی وہ جو چاہتا ھے وحی کرتا ھے بیشک وھی بلند مرتبہ والا دانا ھے۔اسی طرح سے اے رسول ھم نے اپنی طرف سے آپ کی طرف روح الامیں کے ذریعے وحی کی“۔
۱۔وحی مستقیم:یعنی قلب پیغمبر (ص) پر مستقیم اور بلا واسطہ وحی کا نازل کرنا جیسا کہ اس سلسلے میں خودپیغمبر اکرم (ص)کا ارشاد ھے:”ان روح القدس ینفث فی روعی“۔
یعنی روح القدس نے میرے اندر پھونکا(اس سے معلوم ھوتا ھے کہ روح القدس جبرئیل کے علاوہ کوئی اور ھے)
۲۔آواز کا ایجاد کرنا:پیغمبر (ص)کی طرف اس طرح سے آواز کے ساتھ وحی کاپہنچناکہ ان کے علاوہ کسی اور کا نہ سننا اس طرح سے آواز کا سننااور صاحب آواز کا دکھائی نہ دینا ایسا ھے کہ گویا کوئی پردے کے پیچھے سے بولے اس لئے آیت <اٴومن وراء حجاب>ذکر ھوا،حضرت موسیٰ کی طرف کوہ طور میں جو وحی ھوئی شب معراج پیغمبر کو بھی اسی طرح کی وحی ھوئی۔
۳۔وحی کا فرشتہ کے ذریعہ سے بھیجنا:جس طرح جبرئیل امین پیغامات الٰھی کو پیغمبر اکرم (ص) کے پاس لایا کرتے تھے جیسا کہ قرآن میں ارشاد ھوا:<نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الْاٴَمِینُ ز عَلٰی قَلْبِکَ۔۔۔
”یعنی روح الامین نے اس قرآن کو آپ کے قلب پر نازل کیا“۔
نزول وحی کی کیفیت
پیغمبر اکرم (ص) کی طرف جب مستقیم بلا واسطہ وحی نازل ھوتی تھی تو آپ کو سنگینی کا احساس ھوتا تھا آنحضرت(ص) کا جسم گرم ھوجاتا تھا اور آپ کی پیشانی پرپسینہ جاری ھوجاتا تھا اگر آپ(ص) اونٹ یاگھوڑے پرسوار ھوتے تواس حیوان کی کمر جھکنے لگتی تھی اور زمین سے نزدیک ھوجاتی تھی،حضرت علی (ع) ارشاد فرماتے ھیں:”جب قلب پیغمبر (ص)پر سورہ مائدہ کا نزول ھوا تو اس وقت آپ”شھباء“نامی سواری پر تھے کہ حیوان کی کمر خم ھوگئی اور نزدیک تھا کہ زمین سے لگ جائے ایسے وقت میں پیغمبر (ص) کی حالت متغیر ھونے لگی اور آپ نے اپنے ھاتھ کو قریب صحابی کے کندھے پر رکھ دیا“۔
عبادہ بن صامت کہتے ھیں”نزول وحی کے وقت پیغمبر کا ر نگ متغیر ھونے لگتا تھا اور پیغمبر کی کمر جھکنے لگتی تھی اور پیغمبر سر کو جھکا لیتے تھے یہ دیکھ کر صحابہ بھی جھک جایا کرتے تھے“۔
بعض اوقات ایسا ھوتا تھا کہ نزول وحی کے وقت پیغمبر کے زانو برابر میں بیٹھے ھوئے دوسرے شخص کے زانووں پر پڑ جاتے وہ پیغمبر کے زانووٴں کی سنگینی کو تحمّل نہ کرپاتا تھا۔ھمیں نھیں معلوم کہ پیغمبر پر اس طرح کی حالت کیوں طاری ھوتی تھی شاید اس کی وجہ یہ ھو کہ ھم وحی کی حقیقت سے آشنا نھیں ھیں،مزید تفصیل کے لئے دوسری کتابوں کی طرف رجوع کیاجائے جو خاص وحی اور اس کی کیفیت کے بارے میں لکھی گئی ھیں۔
source : http://www.islamshia-w.com