اردو
Tuesday 24th of December 2024
0
نفر 0

آخرت میں ثواب اور عذاب

قارئین محترم: 1-مقالہ حاضر ایک عربی مقالے کا ترجمہ ہے جسے قابل احترم جناب ڈاکٹرسید خلیل سید خیلیل طباطبائی نے (الثواب والعقاب في الآخرة) کے نام سےتحریر کیا تھا ۔ جسے بندہ حقیر نے اردو میں ترجمہ کیا ہے ساتھ ہی بعض جگہوں پر اضافہ اور ترمیم بھی ہوئی ہے۔ 2-ترجمہ میں موجود احادیث اور قرآن کریم کے متن مرکز تحقیقات کے سافٹ وئیز جامع فقہ اور جامع احادیث سے اخذ کیا ہے۔ 3-ترجمہ میں موجود آیات کا ترجمہ اور

 قارئین  محترم:
1-مقالہ حاضر ایک عربی مقالے کا ترجمہ ہے جسے قابل احترم جناب ڈاکٹرسید خلیل  سید خیلیل طباطبائی نے (الثواب والعقاب في الآخرة) کے نام سےتحریر کیا تھا ۔  جسے بندہ حقیر نے اردو میں ترجمہ کیا ہے ساتھ ہی بعض جگہوں پر اضافہ اور ترمیم بھی ہوئی ہے۔
2-ترجمہ میں موجود احادیث اور قرآن کریم کے متن مرکز تحقیقات کے سافٹ وئیز جامع فقہ اور جامع احادیث سے اخذ کیا ہے۔
3-ترجمہ میں موجود آیات کا  ترجمہ   اور مختصر تشریح شیخ  حجة الاسلام و المسلمین الحاج محسن  علی نجفی دام ظلہ کی تفسیر "بلاغ القرآن " سے لیا ہے۔

مقدمہ
یقینا یہ دنیا عمل کی جگہ ہے یہاں حساب و کتاب نہیں ہے جبکہ آخرت حساب کی جگہ ہے وہاں عمل نہیں ہوگا ۔ ہر انسان کو اس کے عمل کے مطابق جزا ملے گی، اگر عمل اچھے ہوں تو جزا ملے گی اور اگر عمل برے ہوں تو عذاب ملے گا۔ یہاں یہ ہو سکتا ہے کہ رحمت الہی  یا انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کی شفاعت، شامل حال ہو جائے اور اس کو نجات دلائے۔  اور یہ بندگان خدا پر رحمت الہی کی ایک جھلک ہے۔ اور اگر انسان کے تمام اعمال برے اور عقیدے باطل ہوں تو خدا وند متعال نے اس جہنم میں ڈالنے کا وعدہ کیا ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔
 یہاں ذہن میں دو اہم سوال ابھرتے ہیں:
پہلا یہ کہ انسان کے ان دنیوی اعمال کا حیات اخروی سے کیا تعلق ہے؟
دوسرا یہ کہ فرض کریں انسان اس دنیا میں گناہ گار ہو تو کیوں کر خدا اس کو آخرت میں عذاب دے گا، اسے جہنم کی آگ میں جلائے گا اور وہ ہمیشہ وہیں رہے گا؟


دنیوی اعمال کا حیات اخروی سے تعلق
یہاں دو بنیادی نظریے ہیں جن سے ان دونوں سوالوں کے جواب واضح ہو جائیں گے:
پہلا نظریہ: ثواب اورعذاب  خدا کی جزا اور سزا ہیں۔
اللہ سبحانہ و تعالی ہی مالک حقیقی، پروردگار اور معبود ہے ، اس نے بندگان کو اپنی اطاعت کرنے اور نا فرمانی سے بچنے کا حکم دیا ہے ۔ اس نے لوگوں کو راہ راست کی طرف ہدایت کرنے کے لئے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا، انبیاء  اور اوصیاء علیہم السلام اور ان کے بعد علماء اورمومنین نے وعظ و نصیحت، تبلیغ دین اور عذاب خدا سے ڈرانے کے لئے اپنی تمام تر کوششیں کئیں۔
 اب اگر کوئی انسان عمل صالح کرے تو خدا وند متعال نے اس کودائمی جنت کا وعدہ دیا ہے۔ لیکن اگر کوئی برا عمل کرے تو آخرت میں اس کا نتیجہ دیکھے گااور عمل کے مطابق اسے عذاب دیا جائے گا۔ کبھی تو اسی دنیا میں ہی سزا مل جاتی ہے ؛ مثال کے طور پر انواع و اقسام کی مشکلات میں گرفتار ہوجائے یا پھر برزخ میں؛ کیونکہ برزخ بھی گناہ گاروں کی حساب و کتاب کا ایک مرحلہ ہےتو اس بنیاد پر قبر یا تو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا آتش جہنم کے گھڑوں میں سے ایک گھڑا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے : و في المروي عن النبي صلى اللّه عليه و سلم ان القبر إما روضة من رياض الجنة أو حفرة من حفر النيران) )ميرزا محمد تقى آملى ، مصباح الهدى في شرح العروة الوثقى ج‌6، ص: 455)۔
لیکن اگر انسان کے گناہ بہت ہی زیادہ ہوں تو خداوند متعال قیامت کے دن اسے عذاب دے گا، وہ ایک بہت ہی طولانی دن ہو گا جس کی مقدار اسی دنیا کے پچاس ہزار سال کے برابرہے انسان وہ پورا دن حساب و کتاب کے لیے کھڑا رہے گا، اس دن کی گرمی اور مختلف اقسام کی مشکلات کو برداشت کرے گا۔ اگر یہ سب کچھ اس کے گناہوں کی سزا کے لیے کافی ہو تو پھر ممکن ہے کہ وہ جنت میں جا سکے و گرنہ پھر ہو سکتا ہے کہ محمد و آل محمد علیہم السلام کی شفاعت اسے نصیب ہو جائے جو کہ رحمت الہی کا ایک مظہر ہے؛ کیوں کہ  :
﴿يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ لاَ يَشْفَعُونَ إِلاَّ لِمَنِ ارْتَضَى وَ هُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُوَن) (انبیاء – 28)
اللہ ان باتوں کو جانتا ہے جو ان کے روبرو اور جو ان کے پس پردہ ہیں اور وہ فقط ان لوگوں کی شفاعت کر سکتے ہیں جن سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ کی ہیبت سے ہراساں رہتے ہیں۔
لیکن اگر اس کے گناہ اور بھی زیادہ ہوں؛ پھر  اگر وہ مسلمان بھی ہو تو مختلف روایات کے مطابق سو سال، چار سو سال یا جب تک خدا چاہے جہنم میں رہے گا ۔
(تذكره بعض الروايات بمائة سنة واخرى بأربعمائة سنة. ( وللعلم فان كل يوم من أيام الآخرة يعادل ألف سنة من سنين الدنيا، وكل سنة تعادل ثلاثمائة وستين ألف سنة من سنين الدنيا.)
یاد رہے! کہ آخرت کا ایک دن اس دنیا کے ہزار سالوں کے برابر ہے جب کہ آخرت کا  ایک سال اس دنیا کے تین لاکھ ساٹھ ہزار سال کے برابر ہے)اس کے بعد اس کے گناہ پاک ہو جائیں گے اور رحمت الہی اس کے شامل حال ہو گی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی شفاعت کریں گےاور وہ جہنم سے جنت میں آجائے گا۔
لیکن اگر کوئی انسان "نعوذ باللہ" مشرک ہو تو پھر وہ ہمیشہ ہی جہنم میں رہے گا، اس کو نہ موت آئے گی اور نہ ہی اس کا عذاب ختم ہوگا۔ قرآن کریم میں تقریباً ایک ہزار آیتیں ا س کے بارے میں ہیں۔ پس اس نظریہ کے مطابق اللہ تعالی نے مومنین سے ثواب کا وعدہ کیا ہے اور وہ بزرگوار ہے اس سے کہ وعدہ خلافی کرے۔ لہذا اپنے  وعدہ کے مطابق مومنین کو جنت میں داخل کرے گا۔
جبکہ اللہ نے گناہ گاروں اور کافروں کے ساتھ جہنم کا وعدہ کیا ہے خدا اپنے وعدے کو وفا کرے گا اور انہیں جہنم میں داخل کرے گا اگر وہ مسلمان ہوں تو وقتی طور پر جہنم میں رکھے گا۔ لیکن اگروہ کافر ہوں تو ہمیشہ ہی جہنم میں رہیں گے۔
قرآن مجید نے  اس مطلب کو کتنی ہی آیات میں ذکر کیا ہے:
1-مومنین کے ہمیشہ جنت میں رہنے کے لیے ارشاد رب العزت ہے:
(وَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً لَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَ نُدْخِلُهُمْ ظِلاًّ ظَلِيلاً)﴿ النساء، الآية، 57﴾
بے شک اللہ تم لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل کے سپرد کر دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کرو، اللہ تمہیں مناسب ترین نصیحت کرتا ہے، یقینا اللہ تو ہر بات کو خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
(قُلْ أَ أُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍ مِنْ ذٰلِكُمْ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَ أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَ رِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ وَ اللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ) ﴿ آل‌عمران‌، الآية، 15﴾
 کہدیجیے:کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز بتاؤں؟ جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے نیز ان کے لیے پاکیزہ بیویاں اور اللہ کی خوشنودی ہو گی اور اللہ بندوں پر خوب نگاہ رکھنے والا ہے۔
(لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ خَالِدِينَ كَانَ عَلَى رَبِّكَ وَعْداً مَسْئُولاً) ﴿الفرقان‌، الآية، 16﴾
وہاں ان کے لیے ہر وہ چیز جسے وہ چاہیں گے موجود ہو گی جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، یہ لازمی وعدہ آپ کے پروردگار کے ذمے ہے۔
مختصر تشریح:
(وَعْدًا مَّسْـُٔـوْلًا):یعنی ایسا وعدہ جس کی جوابدہی ہوتی ہے۔ اللہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے۔(لَا يُسْــَٔـلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَہُمْ يُسْــَٔــلُوْنَ ((الانبیاء، 23) وہ جو کرتا ہے اس کے بارے میں پوچھا نہیں جاتا البتہ لوگوں سے پوچھا جائے گا۔‘‘ بعض چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات پر لازم قرار دیا ہے جیساکہ فرمایا): كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰي نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ ((انعام،54) ’’ تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر واجب قرار دیا ہے۔‘‘ یہاں بھی ایسا ہی ہے کہ اللہ نے خود لازم قرار دیا ہے، کیونکہ وعدہ خلافی قبیح ہے اور اللہ سے قبیح عمل صادر نہیں ہو سکتا ۔
(أُولٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ) ﴿الأحقاف‌، الآية، 14﴾
یہ لوگ جنت والے ہوں گے (جو) ہمیشہ اسی میں رہیں گے ان اعمال کے صلے میں جو وہ بجا لایا کرتے تھے۔
2-مسلمان گناہ گاروں کے وقتی طور پر جہنم میں عذاب سہنے کے لیے ارشاد خداوندی ہے:(وَ يَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعاً يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِنَ الْإِنْسِ وَ قَالَ أَوْلِيَاؤُهُمْ مِنَ الْإِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَ بَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلاَّ مَا شَاءَ اللَّهُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ) ﴿الأنعام‌، الآية،128﴾
اور اس طرح ہم ظالموں کو ان کے ان کرتوتوں کی وجہ سے جو وہ کر رہے ہیں ایک دوسرے پر مسلط کریں گے۔
(وَ كَذٰلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضاً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ) ﴿الأنعام‌، الآية،129﴾
اور اس طرح ہم ظالموں کو ان کے ان کرتوتوں کی وجہ سے جو وہ کر رہے ہیں ایک دوسرے پر مسلط کریں گے۔
مختصر تشریح:
یعنی جب لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں اور شیطان کی اطاعت کرتے ہیں تو اللہ بھی ان میں سے ہر ایک کو دوسرے پر حاکم اور مسلط بنا دیتا ہے ۔ ایک ظالم دوسرے ظالم پر حاکم اور مسلط ہوتا ہے تو وہ مزید ظلم اور گمراہی میں مبتلا کرے گا ۔ یہ سب خود ان کے اعمال کا طبعی نتیجہ ہے۔
(فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَ شَهِيقٌ) ﴿هود، الآية:106﴾
پس جو بدبخت ہوں گے وہ جہنم میں جائیں گے جس میں انہیں چلانا اور دھاڑنا ہو گا ۔
(خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَ الْأَرْضُ إِلاَّ مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ)﴿ هود، الآية،107﴾
وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے جب تک آسمانوں اور زمین کا وجود ہے مگر یہ کہ آپ کا رب (نجات دینا) چاہے، بیشک آپ کا رب جو ارادہ کرتا ہے اسے خوب بجا لاتا ہے ۔
مختصر تشریح:
جہنمی زندگی کی ابدیت کو بتاتے ہوئے فرمایا: جب تک آسمان و زمین موجود ہوں گے یہ لوگ جہنم میں رہیں گے۔ اس سے جہنم کے آسمان و زمین مراد ہیں، ورنہ دنیاوی آسمان و زمین تو نابود ہو چکے ہوں گے۔
(وَ أَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَ الْأَرْضُ إِلاَّ مَا شَاءَ رَبُّكَ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ) ﴿هود، الآية،108﴾
اور جو نیک بخت ہوں گے وہ جنت میں ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان اور زمین کا وجود ہے مگر جو آپ کا رب چاہے، وہاں منقطع نہ ہونے والی بخشش ہو گی۔
مختصر تشریح:
 جو نیک بخت لوگ جنت میں داخل ہوں گے وہ اللہ کے وعدے کے مطابق ہے اور یہ ناممکن ہے کہ اللہ اپنے وعدے کے خلاف ورزی کرے، لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ کوئی نیک بخت جنت میں نہ جائے اور ساتھ یہ بھی وعدہ ہے کہ وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے، لہٰذا یہ بھی ناممکن ہے کہ اللہ کسی کو جنت سے نکال دے۔ اس لیے فرمایا کہ جنت کی بخشش غیر مقطوع اور دائمی ہے۔(اِلَّا مَا شَاۗءَ رَبُّكَ )صرف اپنی قدرت کاملہ و تصرف کوبتانے کے لیے ہے کہ یہ امر کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں ہے، اللہ ہر وقت ہر عمل پر قادر ہے ۔
احادیث میں ذکر ہوا ہے کہ مسلمان ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا ، قرآن مجید نے ان آیات میں ان کو ہمیشہ جہنم میں رہنے کا حکم الگ کیا ہے؛ کیونکہ ان کا عذاب اس وقت ہوگا جب زمین و آسمان باقی ہوں ہمیشہ کے لئے نہیں۔
3-کفار کے ہمیشہ جہنم میں رہنے کے لیے خدافرما رہا ہے:
 (وَ يَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعاً ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا مَكَانَكُمْ أَنْتُمْ وَ شُرَكَاؤُكُمْ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ وَ قَالَ شُرَكَاؤُهُمْ مَا كُنْتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ) ﴿يونس‌، الآية، 28﴾
اور جس دن ہم ان سب کو (اپنی عدالت میں) جمع کریں گے پھر ہم مشرکوں سے کہیں گے: تم اور تمہارے شریک اپنی اپنی جگہ ٹھہر جاؤ، پھر ہم ان میں جدائی ڈال دیں گے تو ان کے شریک کہیں گے: تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے۔
فَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيداً بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ إِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِينَ﴿ يونس‌، الآية، 29﴾
پس ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے، تمہاری اس عبادت سے ہم بالکل بے خبر تھے۔
مختصر شرح:
 ( 29،28) مشرکین جن شریکوں کی عبادت کرتے رہے ہیں کل بروز قیامت وہ شریک اس بات کا انکار کریں گے اور کہیں گے کہ تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے۔ اس انکار کی وجہ یہ ہے کہ ان کی عبادت ہوتی ہی نہیں ہے۔ ان مشرکوں نے حقیقی معبود کی عبادت کی نہیں اور جن کی عبادت کی تھی وہ معبود تھے نہیں، لہٰذا ان کی یہ عبادت رائیگاں گئی۔ مثلاً ایک شخص ایک انسان کو معبود سمجھ کر اس کی عبادت کرتا رہے اور کل اس انسان سے سوال ہو تو وہ انکار کرے گا کہ میری کسی نے عبادت نہیں کی۔ کیونکہ اس نے نہ کسی کی دعا سنی ہے، نہ اس تک کوئی پکار پہنچی ہے، نہ سجدہ و خشوع کا اسے علم ہے۔ اس طرح اس کی یہ عبادت نہ صرف رائیگاں گئی بلکہ مشرک ہونے کی وجہ سے وبال جان بن گئی۔
اس نظریہ کے مطابق گناہ گاروں اور کافروں کے لیے عذاب الہی کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے کفرکیا، خدا کے حکم کی نافرمانی کی، اولیائے الہی کی اطاعت نہیں کی اور دنیامیں نفسانی خواہشات کی پیروی کی، اس وجہ سے آخرت میں عذاب کے مستحق بن گئے۔
(لاَ يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَ هُمْ يُسْأَلُونَ) ﴿ الأنبياء، الآية: 23﴾
ہ جو کام کرتا ہے اس کی پرسش نہیں ہو گی اور جو کام یہ لوگ کرتے ہیں اس کی ان سے پرسش ہو گی۔
مختصر تشریح:
کسی کے عمل میں غلطی کا امکان ہو تو اس پر سوال ہوتا ہے کہ یہ کام تم نے کیسے انجام دیا ؟ اللہ کی طرف سے کسی قسم کی غلطی کا امکان نہ ہونے کی وجہ سے اس کا ہر عمل مصلحت و حکمت پر مشتمل ہوتا ہے، لہٰذا اللہ پر یہ سوال نہیں ہوتا کہ یہ عمل اللہ نے کیسے انجام دیا؟
 پس خدا وند متعال نے اپنی حکمت کے تقاضا کے مطابق انسان کو پیدا کیا اور دنیا کو اپنے بندوں کے لیے دار الامتحان  جب کہ آخرت کو ان کےعمل کے مطابق دار الجزاء بنایا۔ خدا سے اس کام کے بارے میں سوال نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس کے راز کے بارے میں؛ کیونکہ وہی بندوں کا مالک ہے اور بندے کو کوئی اختیار نہیں ہوتا
دوسرا نظریہ: تجسم اعمال
اس نظریہ کے قائلین کا کہنا ہے کہ دنیا میں انسان کے عمل اور آخرت میں اس کی حالت میں براہ راست واسطہ ہے؛ کیونکہ آخرت میں ہر عمل مجسم ہو گا۔ اگر عمل نیک ہو تو وہ جنت  اور دائمی نعمتوں کی صورت میں مجسم ہو گا ۔ لیکن اگر عمل برا اور گناہ ہوتو عذاب کی صورت میں مجسم ہوگا لہذا انسان دنیا میں کیے ہوئے اپنے عمل کا اسیر ہے، اپنے بوئے ہوئے کو خود ہی کاٹے گا اگر کوئی پھل بوئے گا تو پھل کاٹے گا لیکن اگر کوئی اندرائین بوئے گا تو وہ اندرائین ہی کاٹے گا۔
اس نظریہ کی وضاحت کے لئے شکم مادر میں موجود بچہ کی مثال دیتے ہیں؛ جنین کو ہاتھ پاؤں کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کو تو آنکھ کان اور دوسرے اعضاء کی بھی ضرورت نہیں ہوتی اب اگر جنین یہ سوچ کر کہ ہاتھ پاؤں کی ضرورت نہیں ہے اور شکم مادر میں جگہ کی توسیع کے لیے انہیں کاٹ دے تو لنگڑا لولا ہی پیدا ہوگااور دنیا میں پوری زندگی اس کی سزا بھگتا رہے گا۔
 یہ خدا کا انتقام نہیں ہے بلکہ اس کے اپنے کرتوت کی بنا پر ہے۔ بطن مادر میں پاؤں کاٹنے کی وجہ سے دنیا میں وہ چل نہیں پائے گا جس کی بنا پر وہ عمر بھر سختی اور عذاب میں مبتلا رہے گا اور بڑی مشکل سے چل پھر کر اپنی ضروریات کو پورا کر سکے گا۔ اسی طرح اگر شکم مادر میں ضرورت نہ ہونے کی بنا پر آنکھیں پھوڑھ سے تو اس دنیا میں اندھا پیدا ہوگا اور پوری زندگی اندھے پن کا عذاب سہتا رہے گا اور زندگی میں آنے جانے وغیرہ میں مشکلات کا سامنا کرے گا۔
کچھ مشکلات اس سے ہلکی اور آسان ہوتی ہے مثال کے طور پر اگر ماں نقصان دہ دوائی استعمال کرے تو کبھی کبھار تو پیدائشی طور پر بچہ کی ران کا جوڑ جدا ہوجاتا ہے اور ٹھیک ہونے میں مہینوں لگ جاتے ہیں تب جاکر وہ صحیح سالم انسان بن جاتا ہے لیکن اس بیماری کے علاج کے لئے کئے جانے والا آپریشن وغیرہ کی تکلیف تو اسے برداشت کرنا پڑتی ہے۔ پھر جاکر وہ مکمل طور پر صحیح ہوجاتا ہے۔ اس سے کم خطر مشکلات بھی ہوتی ہیں ، کبھی بچہ بہ مشکل پیدا ہوتا ہے بد مزاج پیدا ہوتا ہے موٹاپے یا لاغری کا شکار ہوتا ہے یا اس کے علاوہ کسی دوسری جسمانی یا اخلاقی برائی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کا دنیوی زندگی میں خاص اثر ہوتا ہے۔ اگر وہ خوبصورت ، ذہین، چالاک اور صحیح و سالم ہو تو کامیاب بن سکتا ہے، اور اگر کمزور اور کند ذہن ہو تو تعلیمی یا عملی میدان میں بڑے  میدان تک  نہیں پہنچ پاتا  یا دنیا میں اپنی امیدوں اور امنگوں کو حاصل نہیں کر پاتا۔  دنیا کے اعمال کی آخرت میں اسی طرح کی تاثیر ہوتی ہے۔ کچھ عمل جیسے کفر وغیرہ دائمی بدبختی اور ہمیشہ جہنم میں رہنے کا سبب بنتے ہیں جیسے پیدائشی نابینا کہ  وہ جب تک دنیا میں رہے اس کے علاج کی کوئی امید نہیں ہوتی ۔ کچھ گناہ وقتی عذاب کا باعث بنتے ہیں جب تک کہ انسان جنت میں جانے کی صلاحیت پیدا کرے۔ البتہ عذاب کا کم یا زیادہ ہونا گناہ کے درجہ پر موقوف ہے ۔ کچھ اعمال اخلاقی گناہ ہوتے ہیں جیسے کنجوسی، بد اخلاقی، مشکلات پر زیادہ صبر نہ کرنا، مستحب اعمال کو اہمیت نہ دینا، مکروہات کو انجام دینا وغیرہ جن کی وجہ سے نیکیاں کم ہو جائیں گی اور اسے جنت میں چھوٹا مقام ملے گا۔
لیکن اگر کوئی مکمل طور پر ایمان لے آئے ، نیک اعمال انجام دے،مستحبات کو بھی ترک نہ کرے، پوری زندگی خدا کی معصیت نہ کرے، اخلاق حسنہ اور اچھی صفات سے متصف ہو،اس کی گردن پر لوگوں کا کوئی حق نہ ہو کہ جس کی وجہ سے حساب طولانی بن سکے، تو اس کو جنت میں اعلی مقام ملے گاوہ زیادہ مزے میں ہو گا، اسے رضایت پروردگار نصیب ہوگی جو کہ دنیا کی ہر مادی لذت سے بڑھ کر ہے۔ تجسم اعمال کے نظریے کے مطابق انسان اپنے دنیوی اعمال کو ہی آخرت میں دیکھے گا جو اس کی سعادت یا بد بختی کا سبب بنیں گے۔ اللہ کی طرف سے کوئی عذاب نہیں ہوگا بلکہ اللہ انسان کو چھوڑ دے گا کہ وہ اپنے دنیوی اعمال کا نتیجہ دیکھے۔ اگر کسی کے گناہ کم ہوں گے تو ان کا حساب دے گا سزا پائے گا بالکل اسی طرح جیسےکوئی خود اپنے گھر کو آگ لگا ئے تو خود ہی جلے گا کسی دوسرے نے اسے نہیں جلایا۔
جنت یا جہنم میں رہنے کا سبب
مومن کی نیت یہ ہوتی ہے کہ پوری زندگی خدا کی اطاعت کرتا رہے گا۔ کافر کی نیت یہ ہوتی ہے کہ زندگی بھر خدا کا انکار کرتا رہے گا۔ یہ دونوں اپنی نیتوں کا نتیجہ ہی آخرت میں پائیں گے۔ لہذا آخرت کی جزاء نیت پر ہے یہی مضمون بہت ساری احادیث میں  بھی وارد ہوا ہے۔
آخرت میں تجسم اعمال کی طرف بہت ساری آیات  اشارہ کرتی ہیں ۔ مثلاً:
1-    آخرت کی نابینائی دنیا میں ذکر خدا سے منہ پھیرنے کی وجہ سے ہے:(وَ الَّذِينَ كَسَبُوا السَّيِّئَاتِ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ مَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ عَاصِمٍ كَأَنَّمَا أُغْشِيَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعاً مِنَ اللَّيْلِ مُظْلِماً أُولٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ) ﴿ يونس‌، الآية: 27﴾
اور جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا ہے تو بدی کی سزا بھی ویسی ہی (بدی) ہے اور ان پر ذلت چھائی ہوئی ہو گی، انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا گویا ان کے چہروں پر تاریک رات کے سیاہ (پردوں کے) ٹکڑے پڑے ہوئے ہوں، یہ جہنم والے ہیں، اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے۔
مختصر تشریح:
 نیکی کا بدلہ تو دس گنا اور اس سے بھی زیادہ ملے گا جبکہ برائی کا بدلہ صرف اسی برائی کے برابر ملے گا، اس سے زیادہ نہیں۔ یعنی جتنی برائی ہے اتنی سزا دی جائے گی۔ اس سزا سے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ اگر یہ برائی شرک ہے تو کوئی شفاعت کرنے والا بھی شفاعت نہیں کر سکے گا۔
اس کے بعد اس برائی کا جو بھی بدلہ ہوگا اس کی ایک تصویر یہاں بیان ہوئی کہ ان کو تہہ بہ تہہ تاریکیوں میں ڈالا جائے گا کہ کچھ بھی دکھائی نہ دے، کیونکہ تاریکی یاس و نومیدی میں مبتلا کرتی ہے۔
(وَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَ اسْتَكْبَرُوا عَنْهَا أُولٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ) ﴿الأعراف‌، الآية: 36﴾
اور جو لوگ ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں اور ان سے تکبر کرتے ہیں وہی اہل جہنم ہیں،جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
(قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعاً فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لاَ هُمْ يَحْزَنُونَ)﴿ البقرة، الآية:38﴾
ہم نے کہا: تم سب یہاں سے نیچے اتر جاؤ، پھر اگر میری طرف سے کوئی ہدایت تم تک پہنچے تو جس جس نے میری ہدایت کی پیروی کی، پھر انہیں نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔
(وَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ) ﴿ البقرة، الآية: 39﴾
اور جو لوگ کفر کریں اور ہماری آیات کو جھٹلائیں وہی دوزخ والے ہوں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
مختصر شرح:
 38۔ 39 ۔ (هبوط الی الارض) کا حکم دو مرتبہ ملا ہے۔ ایک حکم توبہ سے پہلے، اس میں فرمایا: ایک دوسرے کے دشمن بن کر اترجاؤ۔ توبہ کے بعد کے حکم میں فرمایا: جس نے میری ہدایت کی پیروی کی، پھر انہیں نہ تو کوئی خوف ہو گا، نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ توبہ سے پہلے حکم میں باہمی عداوت اور بعد کے حکم میں ہدایت و نجات کا ذکر ہے۔
زمین پر اترنے کا حکم ملنے کے بعد روئے زمین پربسنے والوں کے لیے پہلی مرتبہ شریعت اور دستور حیات کا ذکر ہو رہا ہے۔ ان دو مختصر آیتوں میں آنے والی تمام شریعتوں کا ایک نہایت ہی جامع خلاصہ ذکر فرمایا۔ یہ خلاصہ تین ایسے نکات پر مشتمل ہے جو بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں:
 1۔ ہدایت: اس میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کا ذکر ہے: (مِّـنِّىْ هدًى)۔
2۔ اتباع : اس میں ہدایت خداوندی کی اتباع کرنے والوں کے اچھے انجام اوران کی حیات ابدی کاذکر ہے: (فَمَنْ تَبِــعَ هدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهمْ وَلَا همْ يَحْزَنُوْنَ) ۔" جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا اسے نہ آیندہ کے بارے میں کسی نقصان کا خوف ہو گا اور نہ کسی گزشتہ خسارے پر حزن و ملال۔" اس آیت میں ہدایت کی اتباع کرنے والوں کی حیات کی جامع تعریف یوں بیان کی گئی ہے کہ ان کی زندگی سکون و اطمینان سے گزرے گی اور زندگی کا سکون غارت کرنے والے دو عوامل خوف اور حزن ان کے قریب نہیں پھٹکیں گے۔(اَلَا بِذِكْرِ الله تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْب)یاد رکھو! یاد خدا سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔
 3۔ کفر :آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو اس ہدایت کی پیروی سے انکار کریں گے ایسے لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہے۔(اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّار) جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
(يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَ أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَ إِيَّايَ فَارْهَبُونِ) ﴿البقرة، الآية:40﴾
 اے بنی اسرائیل ! میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازا ہے اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور تم لوگ صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔
(مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَنْ يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ أُولٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَ فِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ) ﴿ التوبة، الآية: 17﴾
مشرکین کو یہ حق حاصل نہیں کہ اللہ کی مساجد کو آباد کریں درحالیکہ وہ خود اپنے کفر کی شہادت دے رہے ہیں، ان لوگوں کے اعمال برباد ہوگئے اور وہ آتش میں ہمیشہ رہیں گے۔
مختصر تشریح:
شرک باللہ چونکہ عبادت اور عبودیت کے منافی ہے اس لیے مشرکوں کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کی عبادت کے لیے مسجدیں آباد کریں۔ کیونکہ جن کا عقیدہ صحیح نہیں ہے ان کی عبادت بھی صحیح نہیں ۔
(إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَ الْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أُولٰئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ)﴿البينة، الآية:6﴾
 اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر ہو گئے وہ یقینا جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہیں گے، یہی لوگ مخلوقات میں بدترین ہیں۔  
(إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولٰئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ )﴿ البينة، الآية:7﴾
جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے یقینا یہی لوگ مخلوقات میں بہترین ہیں۔
مختصر تشریح:
 طبری اپنی تفسیر میں، شوکانی ،فتح القدیر 5: 564 ط حلبی، آلوسی ،روح المعانی میں  اورسیوطی الدرالمنثور میں روایت کرتے ہیں کہ: (خیر البریة)علیؑ اور ان کے ماننے والے ہیں۔ اصحاب رسولؐ علیؑ کو آتے دیکھ کر کہا کرتے تھے : (جاء خیر البریة)۔ مخلوقات میں سب سے افضل آ گئے۔(الأمالی للطوسی ص251)
(جَزَاؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ)﴿البينة، الآية:8﴾
ان کا صلہ ان کے رب کے پاس دائمی باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور جن میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، یہ سب کچھ اپنے رب سے خوف رکھنے والے کے لیے ہے۔
قال تعالى :(وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى)﴿سورة طه، الآية: 124﴾
 اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی اور بروز قیامت ہم اسے اندھا محشور کریں گے۔
مختصر تشریح:
جو قلب ذکر خدا سے معطر نہ ہو اسے زندگی کا لطف نہیں آتا۔ یہ قلب اپنے خالق سے بہت مانوس ہوتا ہے اس سے جدائی کی صورت میں اسے سکون نہیں ملتا خواہ دنیا کی ساری دولت اور حکومت اس کومیسر آ جائے۔ اس سے یہ نکتہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ انسان صرف اس دنیا کی زندگی کے لیے پیدا نہیں ہوا، کیونکہ اس دنیا کی ریل پیل سے اس کا جی نہیں بھرتا، بلکہ وہ مزید بے سکون ہو جاتا ہے۔ اگر یہ انسان صرف اسی زندگی کے لیے پیدا ہوا ہوتا تو اسی دنیا کی چیزوں سے اسے اس طرح سکون ملنا چاہیے تھا جس طرح مچھلی کو پانی میں سکون ملتاہے۔
(قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا) ﴿سورة طه، الآية: 125﴾
وہ کہے گا: پروردگارا ! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایاحالانکہ میں تو بینا تھا؟
(قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسَى) ﴿سورة طه، الآية: 126﴾
جواب ملے گا: ایسا ہی ہے! ہماری نشانیاں تیرے پاس آئی تھیں تو نے انہیں بھلادیا تھا اور آج تو بھی اسی طرح بھلایا جا رہا ہے۔
  (وَ كَذٰلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَ لَمْ يُؤْمِنْ بِآيَاتِ رَبِّهِ وَ لَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَ أَبْقَى) ﴿سورة طه، الآية: 127﴾
اور ہم حد سے تجاوز کرنے والوں اور اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان نہ لانے والوں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں اور آخرت کا عذاب تو زیادہ شدید اور تادیر باقی رہنے والا ہے۔
مختصر تشریح:  
125 تا 127۔ ایک ضابطہ کلی کا بیان ہے کہ جس طرح مذکورہ شخص کو اندھا ہو کر اللہ کی بارگاہ میں جانا پڑے گا اسی طرح ہر حد سے تجاوز کرنے والے کی سزا بھی یہی ہو گی۔ جیسے اس دارِ دنیا میں اللہ کو فراموش کیا ہے، ویسے اللہ بھی دارِ آخرت میں اسے فراموش کرے گا۔
2-    آخرت کی آگ سے پیٹ بھرنا،  دنیا میں مال یتیم  کھانے کی وجہ سے ہے:
2- أكل النارفي الآخرة بسبب أكل مال اليتيم في الدنيا :
قال تعالى :(إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا) ﴿ سورة النساء، الآية: 10﴾
جو لوگ ناحق یتیموں کامال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بس آگ بھرتے ہیں اور وہ جلد ہی جہنم کی بھڑکتی آگ میں تپائے جائیں گے۔
3-    مردہ بھائی کا گوشت کھانا غیبت کی وجہ سے ہے:
3- أكل لحم أخيه الميت بسبب الغيبة:
قال تعالى: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ) (سورة الحجرات: 12)
اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بعض گمان یقینا گناہ ہیں اور تجسس بھی نہ کیا کرو اور تم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم نفرت کرتے ہو اور اللہ سے ڈرو، اللہ یقینا بڑا توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔
مختصر تشریح:   
سند اور دلیل کے بغیر کسی قسم کا مؤقف اختیار کرنا درست نہیں ہے۔ ظن و گمان کسی بھی مؤقف کے لیے سند اور دلیل نہیں ہیں۔ کیونکہ ظن و گمان بعض اوقات حقیقت تک رسائی کا ذریعہ نہیں بنتے۔ غیبت گناہ کبیرہ ہے، کیونکہ یہ احترام آدمیت کے خلاف ہے۔ غیبت کی تعریف یہ ہے :کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی ایسی برائی بیان کرنا جس سے اس کا راز فاش ہو جاتا ہو۔ اگر یہ برائی اس میں موجود ہو تو یہ غیبت ہے، وگرنہ بہتان ہے جو زیادہ سخت گناہ ہے۔ اسی طرح لوگوں کے راز ٹٹولنا بھی احترام انسانی کے خلاف ہے۔ اللہ نے غیبت کو مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے۔ اس میں دو باتیں قدر مشترک ہیں: اول تو یہ عمل ہتک اور بے عزتی کا باعث ہے۔ دوسری بات یہ کہ مردہ اپنی لاش کی بے حرمتی کا دفاع نہیں کر سکتا، غیر موجود شخص بھی اپنی صفائی پیش نہیں کر سکتا۔ یہ عمل نفسیاتی لحاظ سے نہایت عاجز و ناتواں اور بے مایہ ہونے کی علامت ہے۔ سچ فرمایا مولائے متقیانؑ نے(اَلْغِیبَة جُهدُ الْعَاجِزِ) :  غیبت کمزور شخص کی ایک لا حاصل کوشش ہے۔(نہج البلاغۃ 461 :556)
4-    آگ سے پیٹ بھرنا احکام خدا کو چھپانے کی وجہ سے ہے:
4- يأكلون الناربسبب كتمان ما أنزل الله :
قال تعالى: (إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلاً أُولَـئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلاَّ النَّارَ وَلاَ يُكَلِّمُهُمُ اللّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ) (سورة البقرة : 174)
جو لوگ اللہ کی نازل کردہ کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے عوض میں حقیر قیمت حاصل کرتے ہیں، یہ لوگ بس اپنے پیٹ آتش سے بھر رہے ہیں اور اللہ قیامت کے دن ایسے لوگوں سے بات نہیں کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
مختصر تشریح:
جو لوگ حقیر دنیاوی مفادات کی خاطراحکام خداوندی کو درست بیان نہیں کرتے، دراصل وہ اپنے شکم کو آگ سے بھر رہے ہیں۔ یہ آیت تجسم اعمال پر دلالت کرتی ہے۔ یعنی انسان اس دنیا میں جو بھی عمل انجام دیتا ہے، وہ آخرت میں مجسم ہو کر سامنے آئے گا۔ جو لوگ احکام خدا کو چھپا کر دنیا میں مال و دولت کماتے ہیں قیامت کے دن یہی مال آگ کی شکل اختیار کرے گا ۔
قیامت کے دن اللہ ایسے لوگوں سے نہ بات کرے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا۔ دنیا میں اللہ سے ہمکلام ہونے کا شرف صرف انبیاء علیہم السلام کو حاصل ہے، لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مومنوں سے ہمکلام ہوگا۔ قیامت کے دن سب کو اللہ ہی کے سامنے جوابدہی کے لیے حاضر ہونا ہے اور حساب و کتاب دینا ہے۔
5-    جہنم کا ایندھن بننا کفر کی وجہ سے ہے:
5- الكفر وقود النار:
قال تعالى: (فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ)(سورة البقرة: 24)
 اور اگر تم نے ایسا نہ کیا اور ہرگز تم ایسا نہ کر سکو گے تو اس آتش سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں (یہ آگ) کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے ۔
6-    مومنین کا نور ان کے آگے آگے ہوگا جب کہ کفار تاریکی میں ہوں گے:
6- نور المؤمنين يسعى بين أيديهم ، والكافرون في الظلمات :
قال تعالى:(يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَى نُورُهُم بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِم بُشْرَاكُمُ الْيَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ) (سورة الحديد : 12)
قیامت کے دن آپ مومنین اور مومنات کو دیکھیں گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کی دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا (ان سے کہا جائے گا) آج تمہیں ان جنتوں کی بشارت ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں تمہیں ہمیشہ رہنا ہو گا، یہی تو بڑی کامیابی ہے۔
 مختصر تشریح:
 چونکہ مؤمنین کے نامہ اعمال سامنے یا دائیں طرف سے وصول ہوں گے، اس لیے نور بھی اسی جانب ہو گا اور ہر فرد کو اس کے اعمال کے مطابق نور ملے گا۔ معلوم ہوتاہے کہ قیامت کے روز کافر اور منافق اسی تاریکی میں مبتلا رہیں گے، جس میں وہ دنیا میں مبتلا رہ چکے ہیں۔
 اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے:
 (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ) (سورة التحريم :8)
اے ایمان والو! اللہ کے آگے توبہ کرو خالص توبہ، بعید نہیں کہ اللہ تم سے تمہارے گناہ دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کر دے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اس دن اللہ نہ اپنے نبی کو رسوا کرے گا اور نہ ہی ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں، ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں طرف دوڑ رہا ہو گا اور وہ دعا کر رہے ہوں گے: اے ہمارے پروردگار! ہمارا نور ہمارے لیے پورا کر دے اور ہم سے درگزر فرما، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
مختصر تشریح:
 (نَّصُوْحًا)صیغہ مبالغہ۔ یعنی خالص ترین توبہ۔ حضرت علیہ السلام سے روایت ہے: توبہ و استغفار کے چھ ستون ہیں(1) گزشتہ گناہوں کے لیے ندامت(2) عدم اعادہ کا عزم(3) وہ تمام فرائض انجام دیں جو چھٹ گئے ہیں(4) لوگوں میں سے کسی کا حق تیرے ذمے نہ ہو (5)گناہ کے ذریعے تیرے بدن کا جو گوشت بنا ہے، وہ غم و اندوہ سے پگھل کر تازہ گوشت بن جائے(6) اپنے کو اطاعت کی تلخی چکھا دے، جیساکہ گناہ کی لذت چکھ لی تھی۔ (مستدرک الوسائل 12: 407 قریب منه فی الکشاف 4: 569)
(يَوْمَ لَا يُخْزِي الله) اس روز اللہ اپنے رسولؐ اور اہل ایمان کو رسوا نہیں کرے گا۔ اہل ایمان قیامت کے دن جب منافقین کو تاریکی میں دیکھیں گے تو دعا کریں گے (رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا )ہمارا نور ہمارے لیے پورا کر دیجیے۔  اصول کافی میں آیا ہے: قیامت کے دن ائمۂ معصومنین علیهم السلام مؤمنین کے آگے اور دائیں طرف ہوں گے اور انہیں جنت تک پہنچائیں گے۔(الکافی 1؛19)
تیسری آیت میں یوں ارشاد باری تعالی ہے:
(يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُم بِسُورٍ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ) (سورة الحديد : 13)
 اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مؤمنین سے کہیں گے: ہمارا انتظار کریں تاکہ ہم تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں، (مگر) ان سے کہا جائے گا: اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور نور تلاش کرو، پھر ان کے درمیان ایک دیوار بنا دی جائے گی، جس کا ایک دروازہ ہو گا جس کے اندرونی حصے میں رحمت ہو گی اور اس کی بیرونی جانب عذاب ہو گا۔
 مختصر تشریح:
منافقین، مؤمنین سے مدد طلب کریں گے تو ان کو وہ باتیں یاد دلائی جائیں گی جن کی وجہ سے انہیں یہ دن دیکھنا پڑا۔ وہ ہیں: فتنہ پروری، موقع پرستی، شکوک پیدا کرنا اور آرزوؤں کے دھوکے میں آنا۔
7-    گناہوں کا انسان پر حاوی ہونا:
7- احاطة السيئات والخطايا بالانسان:
قال تعالى: (بَلَى مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيـئَتُهُ فَأُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ) (سورة البقرة: 81)
البتہ جو کوئی بدی اختیار کرے اور اس کے گناہ اس پر حاوی ہو جائیں تو ایسے لوگ اہل دوزخ ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
وَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ) (سورة البقرة :82))
اور جو ایمان لائیں اور اچھے اعمال بجا لائیں، یہ لوگ اہل جنت ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
  مختصر تشریح:
81۔ 82 اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر گناہ اس پر حاوی نہ ہوا ہو اور ہدایت و توبہ کے لیے ہنوز گنجائش موجود ہو تو نجات کی بھی گنجائش ہوتی ہے ۔ اللہ کی سنت اور اس کا عدل و انصاف یہ ہے کہ جزا عمل کے مطابق ہو۔ اگر گناہ اور معصیت انسان کی زندگی کو ڈھانپ لے اور ہدایت کی کوئی گنجائش نہ ہو تو اس کا لازمی نتیجہ جہنم ہے ۔
اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ جب تک انسان کے گناہ مکمل طور پر اس پر حاوی نہ ہو جائیں اس وقت تک ہدایت، توبہ اور نجات کی گنجائش باقی رہتی ہے۔
8-    آخرت میں اعمال کو دیکھنا:
8- رؤية الأعمال في الآخرة:
يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتاً لِيُرَوْا أَعْمَالَهُمْ) ﴿الزلة:6﴾)
اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر نکل آئیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھائے جائیں
(فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ) ﴿الزلة:7﴾
 پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا۔
  مختصر تشریح:
 6۔ 7 ہر ایک اپنے اپنے عمل کا معائنہ کرے گا۔ جزائے عمل تو حساب اور عمل کے معائنے کے بعد ملی گی۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی روایت ہے: اگر یہ شخض جہنمی ہے اور اس نے کار خیر کیا ہے، قیامت کے دن اس کار خیر کو دیکھ کر حسرت کرے گا کہ کیوں یہ کار خیر غیر اللہ کے لیے انجام دیا اور اگر اہل جنت ہے تو کار شر نظر تو آئے گا، مگر اسے معاف کر دیا گیا ہو گا۔ (المیزان فی تفسیر القرآن)
(وَ مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً يَرَهُ) ﴿الزلة:8﴾
اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا۔
  مختصر تشریح:
یہ اس صورت میں ہے کہ انسان خیر و شر کو اپنے ساتھ لے کر حساب گاہ تک پہنچ جائے، لیکن اگر کسی کا شر توبہ و استغفار یا دوسری نیکیوں یا شفاعت کی وجہ سے محو ہو گیا ہو یا کارِخیر دوسرے جرائم کی وجہ سے حبط ہو گیا ہو تو خیر و شر کو دکھایا نہیں جائے گا۔
     یہ آیات اسی معنی کو صراحت سے بیان کرتی ہے کہ انسان اپنی قبور سے نکالے جائیں گے تاکہ اپنے اعمال کو دیکھیں، پس ان کےاعمال ان کی آنکھوں کے سامنے مجسم بن جائیں گے جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔
(و ورد في حديث المعراج أن النبي (ص) أطلع على نتائج أعمال بعض الناس كما جاء في تفسير القمي عن أبي عبد الله الصادق (ع) قال في حديث مفصل جاء فيه):
حدیث معراج میں نقل ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کچھ لوگوں کے اعمال کے نتیجوں سے باخبر ہوئے۔ جیسا کہ تفسیر قمی میں امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے، جس میں امام علیہ السلام نے تفصیل سےبیان کیا ہے، اس میں یوں آیا ہے کہ:( قال (ص) : ( ثم مضيت فاذا أنا بقوم بين أيديهم موائد من لحم طيب ولحم خبيث يأكلون اللحم الخبيث ويدعون الطيب فقلت: من هؤلاء يا جبرئيل؟ فقال: هؤلاء الذين يأكلون الحرام ويدعون الحلال وهم من أمتك يا محمد.
ورأيت ملكين يناديان في السماء أحدهما يقول: اللهم أعط كل منفق خلفا والآخر يقول: اللهم أعط كل ممسك تلفا.
ثم مضيت فاذا بأقوام لهم مشافر كمشافر الابل يقرض اللحم من جنوبهم ويلقى في أفواههم فقلت: من هؤلاء يا جبرئيل؟ فقال: هؤلاء الهمازون اللمازون.
ثم مضيت فاذا بأقوام ترضخ رؤوسهم بالصخر فقلت: من هؤلاء يا جبرئيل؟ فقال: هؤلاء الذين ينامون عن صلاة العشاء.
ثم مضيت فاذا أنا بأقوام تقذف النار في أفواههم وتخرج من أدبارهم فقلت: من هؤلاء يا جبرئيل؟ قال: هؤلاء الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما انما يأكلون في بطونهم نارا وسيصلون سعيرا.
ثم مضيت فاذا أنا بأقوام يريد أحدهم أن يقوم فلا يقدر من عظم بطنه فقلت: من هؤلاء يا جبرئيل؟ قال: هؤلاء الذين يأكلون الربا لا يقومون الا كما يقوم الذي يتخبطه الشيطان من المسّ. واذا هم بسبيل آل فرعون يعرضون على النار غدوا وعشيا يقولون ربنا متى تقوم الساعة؟
قال: ثم مضيت فاذا بنسوان معلقات بثديهن فقلت: من هؤلاء يا جبرئيل فقال: هؤلاء اللواتي يورثن أموال أزواجهن أولاد غيرهم. ثم قال رسول الله (ص): اشتد غضب الرب على إمرأة أدخلت على قوم في نسبهم من ليس منهم، فاطلع على عوراتهم وأكل خزائنهم.....)
رسول اللہ(ص) نےفرمایا: پھر میں آگے بڑھا میں نے دیکھا کچھ لوگ ہیں جن کے آگے پاکیزہ گوشت بھی ہے اور بدبودار گوشت بھی لیکن وہ پاکیزہ گوشت کو چھوڑ کر بدبودار گوشت کھارہے ہیں۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا: یہ کون ہیں؟ اس نے بتایا: یہ آپ کی امت کے حرام کھانے والے لوگ ہیں انہوں نے حلال کو چھوڑ دیا تھا۔ پھر میں نے آسمان سے دو فرشتوں کو صدا دیتے ہوئے سنا، ان میں سے ایک کہہ رہا تھا: خدایا! تیری راہ میں خرچ کرنے والوں کو برکت عطا کر۔ دوسرا کہہ رہا تھا: خدایا! ہر کنجوس اور بخیل کے مال کو ضائع فرما۔پھر میں آگے بڑھا میں نے دیکھا کچھ لوگوں کے اونٹ کی طرح  ہونٹ  ہونگے ان کے اطراف سے گوشت کاٹ کر ان کے منہ میں ڈالا جا رہا ہے۔ میں نے پوچھا: جبرائیل! یہ کون ہیں؟ اس نے جواب دیا یہ طعنہ دینے والے عیب گو ہیں۔
پھر آگے بڑھے تو میں نے دیکھا کچھ لوگوں کے سر پتھر سے ٹکرائے جا رہے ہین۔ میں سوال کیا: جبرائیل! یہ کون ہیں؟ کہا: یہ وہ لوگ ہیں جو نماز عشاء کو چھوڑ کر سو جاتے تھے ۔
پھر آگے بڑھے میں دیکھا کچھ لوگوں کے منہ میں آگ ٹھونسی  جا رہی ہے جو ان کے پیچھے سے نکل رہی ہے۔ میں نے پوچھا: جبرائیل!یہ کون ہیں؟ جواب دیا: یہ لوگ ہیں جو  یتیموں کا مال ناحق کھاتے تھے وہ گویا کہ آگ کھا رہے تھےاور جنہوں نے جہنم میں جانا تھا۔
پھر آگے بڑھے تو میں نے دیکھا کہ کچھ لوگو ایسے ہیں جو کھڑا تو ہونا چاہتے ہیں لیکن پیٹ کی سنگینی کی وجہ سے کھڑے نہیں ہو پا رہے ہیں۔ میں نے پوچھا: جبرائیل! یہ کوں ہیں؟ کہا: یہ ربا خوار ہیں اب یہ اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے حواس باختہ کیا ہو، انہیں آل فرعون کی طرح صبح شام آگ میں ڈالا جائے گا۔ وہ پوچھتے رہیں گے کہ قیامت کب آئے گی۔
آپ ص نے مزید فرمایا: پھر ہم آگے بڑھے جہاں میں کچھ عورتوں کو پستانوں کے بل لٹکے دیکھا میں پوچھا : جبرائیل! یہ کون ہیں؟ کہا یہ وہ عورتیں ہیں جنہوں نے غیروں کی اوالاد کو اپنے شوہر کا وارث بنایا ۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: خدا بہت ہی غضبناک ہوتا ہے اس عورت پر جو غیروں کی اولاد کو دوسروں کے خاندان میں داخل کرے۔(زنا زادے کو شوہر کی اولاد بنائے) پھر وہ اس خاندان کے رازوں کو جاننے لگے اور ان کے خزانوں کو استعمال کرئے۔
دونوں نظریوں کو جمع کرنا
پس ان دونوں نظریوں میں کوئی تضاد نظر نہیں آرہا ہے خصوصاً اس لیے کہ دونوں نے قرآن کریم کی آیات سے دلیل پیش کی ہے۔ جبکہ دونوں کو جمع کرنا بھی ممکن ہے وہ اس طرح کہ ثواب اور عذاب خود اللہ کےوعدے کی وجہ سے ہو اور وعدہ کا پورا ہونا اس طرح ہو کہ انسان اپنے اس عمل کے نتیجے کو دیکھ لے جو اس نے دنیا میں انجام دیا تھا۔ اس طرح خداوند عالم ہر ایک کے لیے اس کا راستہ آسان کرتا چلا جائے فرمان خدا وندی ہے:
(مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاء لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلاهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا) (سورة الإسراء،18).
جو شخص عجلت پسند ہے تو ہم جسے جو چاہیں اس دنیا میں اسے جلد دیتے ہیں پھر ہم نے اس کے لیے جہنم کو مقرر کیا ہے جس میں وہ مذموم اور راندہ درگاہ ہو کر بھسم ہوجائے گا۔
(وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا)(سورة الإسراء،18) ۔
اور جو شخص آخرت کا طالب ہے اور اس کے لیے جتنی سعی درکا رہے وہ اتنی سعی کرتا ہے اور وہ مومن بھی ہے تو ایسے لوگوں کی سعی مقبول ہو گی۔
مختصر تشریح:
18۔ 19 یہ اس شخص کا ذکر ہے جو صرف طالب دنیا ہو اور آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو۔ ایسے شخص کے لیے فرمایا: جو شخص عجلت پسند ہو ہم بھی عجلت سے دے دیتے ہیں۔ یعنی ہم اس کے لیے دنیا کی نعمتوں میں فراوانی کرتے ہیں، نادان اس فراوانی نعمت کو دیکھ کر اسے کامیابی تصور کرتے ہیں، جبکہ درحقیقت یہ اس کے لیے نقمت اور عذاب کا پیش خیمہ ہے ۔ لیکن اگر کوئی آخرت کے لیے کھیتی کے عنوان سے طالب دنیا ہو تو یہ مذموم نہیں ہے بلکہ دنیا سعادت اخروی کے لیے بہترین ذریعہ ہے۔ انبیاء، صلحاء اور متقین نے اسی دنیاوی زندگی سے عند اللہ مقام بنایا ہے۔ چنانچہ دوسرے جملے میں فرمایا: اور جو شخص طالب آخرت ہو، اس کے لیے مطلوبہ سعی بھی کرتا ہو تو اس کی سعی کی قدردانی ہو گی۔ ظاہر ہے یہ سعی اسی دنیاوی زندگی میں کرنا ہے۔ البتہ اس سعی کے ساتھ ایمان کا ہونا شرط ہے۔ اگر ایمان باللہ اور ایمان بالآخرہ نہ ہو تو سعی بھی وجود میں نہ آئے گی۔
 
(كُلاًّ نُّمِدُّ هَـؤُلاء وَهَـؤُلاء مِنْ عَطَاء رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاء رَبِّكَ مَحْظُورًا) (سورة الإسراء،20)۔
ہم (دنیا میں) ان کی بھی اور ان کی بھی آپ کے پروردگار کے عطیے سے مدد کرتے ہیں اور آپ کے پروردگار کا عطیہ ـ(کسی کے لیے بھی) ممنوع نہیں ہے۔
 مختصر تشریح:
چنانچہ یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تکوینی نظام نہایت غیر جانبدار ہے۔ پانی، خاک، ہوا اور دھوپ وغیرہ سے مؤمن اور کافر دونوں یکساں طور پر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
(انظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَلَلآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلاً) (سورة الإسراء،21)۔دیکھ لیجیے: ہم نے کس طرح ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور آخرت تو درجات کے اعتبار سے زیادہ بڑی اور فضیلت کے اعتبار سے بھی زیادہ بڑی ہے۔
 مختصر تشریح:
دنیا میں محنت اور کوشش کی بنا پر بعض کو بعض پر فوقیت حاصل ہے۔ جو زیادہ محنت کرتا ہے اس کے پاس زیادہ مال و دولت ہوتی ہے۔ اسی سے آخرت کا حال بھی قابل فہم ہو جاتا ہے کہ وہاں بھی سعی اور کوشش یعنی عمل کے ذریعے بعض کو فوقیت حاصل ہو گی۔ مگر دنیا میں جو مال و جاہ میں فضیلت حاصل ہوا کرتی ہے، اس سے آخرت کی فضیلت بہت زیادہ بڑی ہے۔ دنیا کا مال و دولت، جاہ و سلطنت ناپائیدار اور آخرت کے درجات و فضیلت ابدی اور دائمی ہیں۔
والحمد لله رب العالمين.

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

2012ء میں قیامت
آؤنہج البلاغہ کی سیر کریں!
زندگی نامہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ...
تفریح
کفرانِ نعمت
اسلام کی سب سے بڑی عید مبارک ہو/ عید غدیر کے دن کے ...
ائمہ اطہار{ع} کے پاس زرارہ کا مقام کیا تھا؟
عزاداری اور انتظارکا باہمی رابطہ
قرآنی جوان

 
user comment