مغفرت الہی
قال رسول الله صلى الله علیه و آله: إنَّما سُمِّیَ رَمَضانُ؛ لِأَنَّهُ یُرمِضُ الذُّنوبَ(1) ؛
رمضان کو اس لیے رمضان کہا جاتا ہے چونکہ یہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔
قال رسول الله صلى الله علیه و آله: أتَدرونَ لِمَ سُمِّیَ شَعبانُ شَعبانَ؟ لِأَنَّهُ یَتَشَعَّبُ مِنهُ خَیرٌ كَثیرٌ لِرَمَضانَ، و إنَّما سُمِّیَ رَمَضانُ رَمَضانَ؛ لِأَنَّهُ تُرمَضُ فیهِ الذُّنوبُ ـ أی تُحرَقُ ـ (2) ؛
کیا آپ جانتے ہیں کہ شعبان کو کیوں شعبان کہا گیا ہے؟ اس لیے کہ اس سے رمضان کے لیے خیر کثیر منشعب ہوتا اور وجود میں آتا ہے۔ اور رمضان کو اس لیے رمضان کہا گیا ہے چونکہ اس میں گناہ جل جاتے ہیں۔
الدرّ المنثور عن عائشة: قیلَ لِلنَّبِیِّ صلى الله علیه و آله: یا رَسولَ الله، ما رَمَضانُ؟ قالَ: «أرمَضَ الله ُ فیهِ ذُنوبَ المُؤمِنینَ و غَفَرَها لَهُم»(3) ؛
پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھا گیا ، یا رسول اللہ! رمضان کیا ہے؟ فرمایا: خداوند عالم اس میں مومنین کے گناہوں کو جلا دیتا ہے اور انہیں معاف کر دیتا ہے۔
قال رسول الله صلى الله علیه و آله: مَن صامَ رَمَضانَ و قامَهُ إیمانا وَاحتِسابا غُفِرَ لَهُ ما تَقَدَّمَ مِن ذَنبِهِ، و مَن قامَ لَیلَةَ القَدرِ إیمانا وَاحتِسابا غُفِرَ لَهُ ما تَقَدَّمَ مِن ذَنبِهِ (4) ؛
جو شخص ماہ رمضان میں ایمان کے ساتھ اور خدا سے جزا حاصل کرنے کی امید سے روزے رکھے اور نماز قائم کرے تو خداوند عالم اس کے پچھلے تمام گناہوں کومعاف کر دے گا۔ اور جو شخص شب قدر کو ایمان اور اجر الہی کی امید کے ساتھ عبادت کرے تو خدا اس کے گزشتہ تمام گناہوں کو بخش دے گا۔
قال رسول الله صلى الله علیه و آله: شَهرُ رَمَضانَ شَهرٌ فَرَضَ الله ُ عز و جل عَلَیكُم صِیامَهُ؛ فَمَن صامَهُ إیمانا وَاحتِسابا خَرَجَ مِن ذُنوبِهِ كَیَومَ وَلَدَتهُ اُمُّهُ(5) ؛
ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں خداوند عالم نے تم پر روزے واجب کئے ہیں لہذا جو شخص اس میں ایمان اور خدا سے اجر حاصل کرنے کی امید سے روزہ رکھے تو ایسے گناہوں سے پاک ہو گا جیسے ماں کے بیٹ سے بغیر گناہ کے پیدا ہوا تھا۔
قال رسول الله صلى الله علیه و آله: مَن صامَ رَمَضانَ و خَتَمَهُ بِصَدَقَةٍ؛ و غَدا إلَى المُصَلّى بِغُسلٍ، رَجَعَ مَغفورا لَهُ (6)؛
جو شخص ماہ رمضان میں روزہ رکھے اور صدقہ دے کر اسے افطار کرے اور غسل کر کے جانماز پر جائے تو اس حال میں واپس آئے گا کہ اس کے گناہ معاف ہوں گے۔
قال رسول الله صلى الله علیه و آله: یَأمُرُ الله ُ مَلَكا یُنادی فی كُلِّ یَومٍ مِن شَهرِ رَمَضانَ فِی الهَواءِ: أبشِروا عِبادی! فَقَد وَ هَبتُ لَكُم ذُنوبَكُمُ السّالِفَةَ، و شَفَّعتُ بَعضَهُم فی بَعضٍ فی لَیلَةِ القَدرِ، إلاّ مَن أفطَرَ عَلى مُسكِرٍ أو حِقدٍ عَلى أخیهِ المُسلِم(7)؛
خداوند عالم ایک فرشتہ کو حکم دیتا ہے کہ ماہ رمضان کے ہر دن فضا میں یہ ندا دے: ’’ اے میرے بندو! خوشخبری! میں نے تمہارے گزشتہ تمام گناہ بخش دئیے اور شب قدر میں تمہارے ایک دوسرے کی نسبت شفاعت قبول کر لی سوائے شخص کے جس نے شراب سے افطار کیا ہو یا کسی مسلمان بھائی کی نسبت بغض و کینہ دل میں رکھا ہو۔
قال رسول الله صلى الله علیه و آله: إنَّ رَمَضانَ شَهرٌ افتَرَضَ الله ُ عز و جل صِیامَهُ، و إنّی سَنَنتُ لِلمُسلِمینَ قِیامَهُ؛ فَمَن صامَهُ إیمانا وَاحتِسابا خَرَجَ مِنَ الذُّنوبِ كَیَومَ وَلَدَتهُ اُمُّهُ(8) ؛
بیشک رمضان ایسا مہینہ ہے کہ جس میں خداوند عالم نے روزے واجب کئے ہیں اور میں قیام ( مستحبی نمازوں) کو اس میں مسلمانوں کے لیے اپنی سنت قرار دیتا ہوں لہذا جو شخص ایمان اور امید سے روزے رکھے تو وہ ایسے گناہوں سے پاک ہو گا جیسے ماں کے پیٹ سے پاک پیدا ہوا تھا۔
قال رسول الله صلى الله علیه و آله: مَن صامَ رَمَضانَ؛ و عَرَفَ حُدودَهُ؛ و تَحَفَّظَ مِمّا كانَ یَنبَغی لَهُ أن یَتَحَفَّظَ فیهِ، كَفَّرَ ما قَبلَهُ (9) ؛
جو شخص رمضان میں روزے رکھے اور اس کی حدود کو پہچانے اور ان چیزوں سے خود کو محفوظ رکھے جن سے اس مہینہ میں محفوظ رہنا چاہیے تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔
جہنم کی آگ سے آزادی
قال رسول الله صلى الله علیه و آله: سُمِّیَ شَهرُ رَمَضانَ شَهرَ العِتقِ ؛ لِأَنَّ لله ِِ فی كُلِّ یَومٍ ولَیلَةٍ سِتَّمِئَةِ عَتیقٍ، و فی آخِرِهِ مِثلَ ما أعتَقَ فیما مَضى(10) ؛
ماہ رمضان کو آزادی کا مہینہ کہا گیا ہے چونکہ خدا اس کے ہر دن و رات میں چھ سو افراد کو ( جہنم کی آگ سے) آزاد کرتا ہے اور نیز مہینے کے آخر میں پورے مہینے کے برابر آزاد کرتا ہے۔
قال رسول الله صلى الله علیه و آله: إنَّ الله ِِ تَعالى فی كُلِّ لَیلَةٍ مِن رَمَضانَ سِتَّمِئَةِ ألفِ عَتیقٍ مِنَ النّارِ قال البیهقی فی فضائل الأوقات: ... (11) ؛
خداوند عالم رمضان کی ہر رات کو چھ سو ہزار گناہ گاروں کو آزاد کرتاہے۔ بیہقی نے فضائل الاوقات میں کہا ہے: ہمارے علماء کے نزدیک عدد سے مراد کثرت ہے نہ کہ وہی تعداد کو حدیث میں وارد ہوئی ہے۔ اور یہ تمام چیزیں اس شخص کے لیے ہیں جو ماہ رمضان کی حدود کو پہچانتا ہو اور اس کے حقوق کا لحاظ رکھتا ہو۔ لہذا جب آخری رات ہو گی تو خدا اس سے پہلے جتنے افراد کو آزاد کر چکا ہو گا اتنی مقدار میں دوبارہ جہنم سے آزاد کرے گا۔
قال رسول الله صلى الله علیه و آله: إنَّ لله ِِ فی كُلِّ یَومِ جُمُعَةٍ سِتَّمِئَةِ ألفِ عَتیقٍ مِنَ النّارِ كُلُّهُم قَدِ استَوجَبوها، و فی كُلِّ ساعَةٍ مِن لَیلٍ أو نَهارٍ مِن شَهرِ رَمَضانَ ألفَ عَتیقٍ مِنَ النّارِ كُلُّهُم قَدِ استَوجَبوها، و لَهُ یَومَ الفِطرِ مِثلُ ما أعتَقَ فِی الشَّهرِ وَالجُمُعَةِ (12)؛
خداوند عالم ہر جمعہ کے دن چھ سو ہزار افراد کو آتش جہنم سے آزاد کرتا ہے جو اس کے قابل ہوتے ہیں۔ اور ماہ رمضان کے دن و رات کے ہر گھنٹے میں ہزار افراد کو آزاد کرتا ہے جو اس قابل ہوتے ہیں۔ اور عید فطر کے دن اس مہینے اور تمام جمعہ کےدنوں کی مقدار میں آزاد کرتا ہے۔
قال رسول الله صلى الله علیه و آله: إنَّ لله ِِ عز و جل عِندَ كُلِّ فَطرَةٍ الفطرة: المرَّةُ من الإفطار، عُتَقاءَ مِنَ النّارِ(13)؛
خداوند عالم ہر افطار کے وقت کچھ افراد کو آتش جھنم سے نجات دیتا ہے۔
قال الإمام الصادق علیه السلام: إنَّ لله ِِ عز و جل فی كُلِّ لَیلَةٍ مِن شَهرِ رَمَضانَ عُتَقاءَ و طُلَقاءَ مِنَ النّارِ إلاّ مَن أفطَرَ عَلى مُسكِرٍ، فَإِذا كانَ فی آخِرِ لَیلَةٍ مِنهُ أعتَقَ فیها مِثلَ ما أعتَقَ فی جَمیعِهِ (14) ؛
خداوند عالم ماہ رمضان کی ہر رات میں کچھ افراد کو آتش جہنم سے نجات دیتا ہے مگر وہ شخص جس نے شراب کے ساتھ افطار کیا ہو۔ پس جب اس کی آخری رات ہو گی تو پورے مہینے کی مقدار میں بندوں کو آزاد کرے گا۔
قال الإمام الصادق علیه السلام: إذا كانَ أوَّلُ لَیلَةٍ مِن شَهرِ رَمَضانَ غَفَرَ الله ُ لِمَن شاءَ مِنَ الخَلقِ، فَإِذا كانَتِ اللَّیلَةُ الَّتی تَلیها ضاعَفَهُم، فَإِذا كانَتِ اللَّیلَةُ الَّتی تَلیها ضاعَفَ كُلَّ ما أعتَقَ، حَتّى آخِرِ لَیلَةٍ فی شَهرِ رَمَضانَ تَضاعَفَ مِثلَ ما أعتَقَ فی كُلِّ لَیلَةٍ .(15)
جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو خداوندعالم اپنے بندوں میں سے جنہیں چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے اور جب دوسری رات آتی ہے تو اس کے دوبرابر معاف کرتا ہے تیسری رات پچھلی رات کے دوبرابر یہاں تک کہ اس کی آخری رات کو پچھلی تمام راتوں کے دوبرابر آتش جہنم سے آزاد کر دیتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس قابل ہیں کہ خدا کے ان بندوں میں شمار ہوسکیں جنہیں وہ اس مبارک مہینہ میں آتش جہنم سےآزاد کرتا ہے؟ کیا ہم بھی آزاد ہونے والوں میں سے ہو سکتے ہیں؟
ذرا سوچیے اور غور کیجئے۔ اگر ابھی تک اس قابل نہیں بنے ہیں تو ابھی فرصت ہاتھ سے نہیں گئی ہے اس مہینہ کے آخر تک ہم اپنے آپ کو خدا کے ان بندوں میں شامل کر سکتے ہیں جنہیں خدا اس مہینے کی آخری رات کو معاف کر دے گا اور جہنم سے نجات دے گا۔
حوالہ جات
1- الفردوس: 2/60/2339، كنز العمّال: 8/466/23688 نقلاً عن محمّد بن منصور السمعانی وابن مندة فی أمالیهما، الدرّ المنثور:1/ 444 نقلاً عن ابن مردویه و كلّها عن أنس .
2- مستدرك الوسائل: 7/484/8710 نقلاً عن القطب الراوندی فی لبّ اللباب؛ كنز العمّال: 8/591/24293 نقلاً عن أبی الشیخ فی الثواب والدیلمی عن أنس .
3- الدرّ المنثور: 1/ 444 نقلاً عن ابن مردویه والأصبهانی .
4- سنن الترمذی: 3/67/683، صحیح البخاری: 2/672/1802، صحیح مسلم: 1/524/175، سنن أبی داود: 2/49/1372و لیس فیها «و قامه»، فضائل الأوقات للبیهقی:40 / 57؛ فضائل الأشهر الثلاثة: 105/ 94 عن ابن عبّاس و ص 142/154 و لیس فیه ذیله، الأمالی للطوسی: 150/247 كلاهما عن أبی هریرة و لیس فیهما «وقامه»، بحارالأنوار: 96/366/42 و ج 97/17/35.
5- تهذیب الأحكام: 4/152/421 عن عبدالرحمن بن عوف عن أبیه، عوالی اللآلی: 3/132/1، بحارالأنوار: 96/ 375/63 .
6- ثواب الأعمال: 102/1 عن أنس، بحارالأنوار: 90/363 /15؛ المعجم الأوسط : 6/57/5784 عن أبی هریرة، كنز العمّال: 8/482/23733 .
7- الدعوات: 207/561، بحارالأنوار: 97/ 5 / 5 .
8- مسند ابن حنبل: 1/413 / 1688، سنن ابن ماجه:1/421/1328، سنن النسائی: 4/158، مسند أبی یعلى:1/395 /862 كلّها عن عبدالرحمن بن عوف نحوه؛ مستدرك الوسائل: 7/397/8516 نقلاً عن القطب الراوندی فی النوادر عن عبدالرحمن عن أبیه عنه صلى الله علیه و آله و فیه «شهر فرض الله صیامه و سنّ قیامه ... .»
9- مسند ابن حنبل: 4/110/11524، صحیح ابن حبّان: 8/220/3433 ، السنن الكبرى: 4/501/8505، مسند أبی یعلى: 2/19/1053 كلّها عن أبی سعید الخدری، الزهد لابن المبارك (الملحقات): 24/98 عن عطاء بن یسار، كنز العمّال: 8/481/23727؛ فضائل الأشهر الثلاثة: 131/138 عن أبی سعید الخدری.
10- النوادر للأشعری: 18 / 2 عن إسماعیل بن أبی زیاد عن الإمام الصادق علیه السلام، بحارالأنوار: 96/381/6 .
11- شُعَب الإیمان:3/303/3604، فضائل الأوقات للبیهقی: 44/ 69 كلاهما عن الحسن، كنزالعمّال: 8/479/23719.
12- مستدرك الوسائل : 7 / 484 / 8710 نقلاً عن القطب الراوندی فی لبّ اللباب .
13- فضائل الأوقات للبیهقی: 44 / 67 عن أبی اُمامة .
14- الكافی: 4/68/7، تهذیب الأحكام: 4/193/551، كتاب من لا یحضره الفقیه: 2/98 /1838، الأمالی للصدوق: 113/91 كلّها عن محمّد بن مروان، بحارالأنوار: 96/362/31 .
15- الإقبال: 1/28 عن محمّد بن مروان، المصباح للكفعمیّ: 836.
source : http://www.abna.ir