اردو
Thursday 18th of July 2024
0
نفر 0

امیر المومنین علی علیہ السلام کی نگاہ میں آخرالزمان كے لوگوں كا احوال

کہا جاسکتا ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے کلام میں امام زمانہ سے متعلق معارف و تعلیمات کا سب سے بڑا حصہ آخر الزمان کے حالات اور اس دور میں رونما ہونے والے حادثات و واقعات سے مختص ہے. حضرت امیر (ع) اس دور کے واقعات بیان کرتے ہوئے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے تدبیریں بھی بیان فرماتے ہیں.

یہ حوادث اور واقعات ثقافتی، معاشرتی، اخلاقی، تربیتی اور طبیعی مسائل پر مشتمل ہیں؛ چونکہ ان میں سے بہت سے مسائل اور خصوصیات کا ہمارے دور میں ـ کم از کم زندگی کے بعض شعبوں میں ـ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، یہاں ہم ان واقعات و حوادث سے بہتر آگہی حاصل کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے بہتر تدبیریں اخذ کرنے کی غرض سے بعض نمونے پیش کرتے ہیں. اس امید کے ساتھ کہ ہماری زیادہ سے زیادہ ہوشیاری و بیداری کا سبب ہوں اور ان امور سے آگہی حاصل کرنے کے بعد ان کے منفی عارضوں سے اپنے آپ اور اپنے معاشرے کو بچاسکیں.

* یأتى على النّاس زمان لا یقَرَّبُ فیه الّا الماحِلُ و لا یظَرَّفُ فیه الّا الفاجِرُ، وَ لا یضَعَّفُ فیهِ اِلّا الْمُنْصِفُ، یعُدّونَ الصَّدَقَة فیه غُرْما، و صِلةَ الرَّحِمَ مَنّاً، و العبادَةَ اسْتِطالَةً على النّاسِ! فَعِنْدَ ذلِكَ یكونُ السُّلْطانُ بمشوَرَةِ الاِماءِ و امارة الصبیانِ و تدبیر الخِصیان(۱)

لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جب

چغل خوروں کے سوا کوئی مقرّب نہ ہوگا؛

بدکار اور فاجر لوگ ہوشیار اور زیرک سمجھے جائیں گے؛

منصف افراد کمزور سمجھے جائیں گے؛

خدا کی راہ میں صدقہ و خیرات کو تاوان سمجھا جائے گا؛

صلۂ ارحام اور رشتہ داروں اور اقرباء کے ساتھ آنا جانا احسان کے طور پر سرانجام دیا جائے گا؛ اور

خدا کی بندگی اور اطاعت کو لوگوں پر فاخر [فخرفروشی] کا وسیلہ قرار دیا جائے گا؛

ایسے زمانے میں حکومت عورتوں کے مشورے،

بچوں کی امارت اور

خواجہ سراؤں کی

تدبیر سے ہوگی.

روى اصبغ بن نباته عن اميرالمؤمنين عليه السلام قال: سمعته يقول: يظهر فى آخرالزمان و اقتراب الساعة و هو شرّ الازمنة نسوة كاشفات عاريات متبرجات، من الدين خارجات، و الى الفتن مائلات، و الى الشهواتِ و اللّذّاتِ مسرعات، للمحرماتِ مستحِلّات، و فى جهنم خالدات.(۲)

اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں: میں نے امیرالمؤمنین (ع) کو فرماتے ہوئے سنا کہ: آخر الزمان میں ـ جو کہ بدترین زمانہ ہے ـ جب قیامت قریب ہوجائے گی؛ ایسی عورتیں ظاہر ہونگی جو

بے پردہ ہیں؛

ان کی زینتیں آشکار اور ہویدا ہیں؛

وہ عام لوگوں کی نظروں کے سامنے چلتی پھرتی ہیں؛

وہ دین سے خارج ہوجاتی ہیں (اور احکام دین کی پابندی نہیں کرتیں)؛

فتنہ انگیز امور میں داخل ہوتی ہیں؛

شہوتوں اور لذت جوئیوں کی طرف مائل ہوتی ہیں؛

خدا کے حرام کو حلال سمجھتی ہیں؛

ایسی عورتیں جہنم میں باقی رہیں گی.

و فقهاؤهم يفتون بما يشتهونَ، و قُضاتُهُم يقولونَ مالا يعْلمونَ و اكثُرهمْ بالزورِ يشهدونَ! من كان عنده دراهم كان موقّراً مرفُوعاً و من يعلمون انه مقلّ فهو عندهُم موضُوع (۳)

آخرالزمان کے فقہاء

اپنی دلی خواہشات کے مطابق فتوے دیں گے؛

ان کے قاضی ایسی چیزوں پر فیصلے سنائیں گے جنہیں وہ جانتے تک نہیں؛

ان کی اکثریت جھوٹی شہادتیں دیتے ہیں؛

ان کے نزدیک دولتمند و صاحب مال افراد عزیز و محترم ہوتے ہیں جبکہ غریب اور بے مال و منال لوگ ان کے نزدیک حقیر اور خوار ہوتے ہیں.

عن النزال بن سبرة قال خطبنا علىّ بن ابيطالب عليه السلام فحمد اللّه و اثنى عليه، ثم قال: سلونى ايها الناس قبل ان تفقدونى ثلاثاً فقام اليه صعصعة بن صوحان، فقال: يا اميرالمؤمنين! متى يخرج الدجّال؟...فقال عليه السلام احفظ! فان علامة ذلك اذا امات الناس الصلاة، واضاعوا الامانة و استحلّوا الكذب، و اكلوا الربا، و اخذوا الرّشا، و شيدوا البنيان و باعوا الدين بالدنيا و استعملوا السفهاء و شاوروا النساء، و قطعوا الارحام، و اتّبعوا الاهواء و استخفّوا بالدماء و كان الحلم ضعفاً، و الظلم فخراً... (۴)

نزال بن سمرہ کہتے ہیں: على بن ابیطالب (ع) نے ہمارے لئے خطبہ پڑھا اور خدا کی حمد و ثناء ادا کی اور تین مرتبہ فرمایا: مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ میں تمہارے درمیان سے اٹھ جاؤں؛ چنانچہ صعصعہ بن صوحان اٹھے اور عرض کیا:

یا امیرالمؤمنین! دجال کس زمانے میں خروج کرے گا؟

حضرت امیر (ع) نے فرمایا: یاد رکھو جو کچھ میں کہتا ہوں! دجال اس وقت اٹھے گا جب

لوگ نماز ترک کردیں گے؛

امانت کو ضائع کردیں گے؛

دروغ گوئی کو مباح سمجھیں گے؛

رباخواری (اور سودخوری) کریں گے؛

رشوت لیں گے؛

عمارتوں کو مضبوط بنائیں گے؛

دین کو دنیا کے عوض بیچ ڈالیں گے؛

سفیہوں اور بے وقوفوں کو کام پر مأمور کریں گے؛

عورتوں کے ساتھ مشورے کریں گے؛

صلۂ ارحام کو منقطع کردیں گے،

ہوا و ہوس کی پیروی کریں گے؛

ایک دوسرے کے خون کو ناچیز سمجھیں گے؛

حلم اور بردباری کو کمزوری اور ضعف کی علامت سمجھیں گے اور

ظلم و ستم کو اپنے لئے اعزاز و افتخار تصور کریں گے...

عن على عليه السلام قال: يأتى على الناسِ زمان همّتُهم بطونهم، و شرفُهُم متاعهم و قبلتهم نساؤهم و دينهم دراهمهم و دنانيرهم، اولئك شرار الخلق، لا خلاق لهم عنداللّه.(۵)

امیرالمؤمنین (ع) نے فرمایا: لوگوں پر وہ زمانہ آئے گا جب

ان کی ہمت ان کے پیٹ سے تجاوز نہیں کرےگی؛

ان کا شرف و اعتبار ان کے اموال اور ساز و سامان پر منحصر ہوگا.

ان کا قبلہ ان کی عورتیں اور ان کا دین ان کے درہم و دینار ہونگے؛

وہ بدترین لوگ ہیں جن کے لئے خدا کی بارگاہ میں کوئی حصہ اور کوئی بہرہ نہیں ہے

عن علي عليه السلام قال: يأتى على الناس زمان لا يُتَّبع فيه العالم و لا يستحيى فيه من الحليم و لا يوقّر فيه الكبير و لا يرحَمُ فيه الصغير يقتل بعضهم بعضاً... (۶)

على بن ابیطالب (ع) نے فرمایا: لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جب

لوگ عالم کی پیروی نہیں کریں گے؛

صابر و حلیم انسانوں سے حیا نہیں کریں گے [وہ لوگوں کی بدکاریوں کے سامنے جتنا بھی صبر و حلم اپنائے وہ پھر بھی اس سے حیاء نہیں کرتے اور اس کے سامنے بدکاریان جاری رکھتے ہیں]

اس زمانے میں بڑوں کی تکریم نہیں ہوتی اور

بچوں پر رحم نہیں کیا جاتا؛

بعض لوگ بعض دوسروں کا خون بہاتے ہیں اورانہیں [بلاوجہ] قتل کرتے ہیں.

عن عاصم بن ضمرة عن على عليه السلام انه قال: لتملانّ الارض ظلما و جوراً حتى لا يقُولَ اَحَد اللّه الاّ مستخفياً، ثم ياتى اللّه بقومٍ صالحين يملَؤُونها قِسطاً و عدلاً كما مُلِئَتْ ظلماً و جوراً.(۷)

عاصم بن ضمرہ حضرت على (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ع) نے فرمایا: [ آخر الزمان] میں

زمین ظلم و ستم سے بھرجائے گی،

کوئی بھی خدا کا نام زبان پر نہیں لائے گا ـ مگر خفیہ طور پر ـ

اس دور کے بعد ہی خداوند متعال صالح اور نیکوکار لوگ لائے گا جو زمین کو قسط و عدل سے بھر دیں گے جیسے کہ یہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی.

ان بين يدى القائم عليه السلام سنين خدّاعة يكَذَّبُ فيها الصادق و يصدّق فيها الكاذِبُ و يقَرّبُ فيها الماحِلُ و ينطق فيها الرُّويبْضَةُ قلت و ما الرُّويبْضَةُ و ما الماحِلُ؟ قال: او ما تقرؤون القرآن قوله و هو شديدُ المِحال قال: يريدُ المكر، فقلتُ و ما الماحِلُ؟ قال: يريد المكّارَ(۸)

حضرت على (ع) فرماتے ہیں: قیام قائم علی السلام سے قبل مکر و دغابازی کے سال درپیش ہیں. ان سالوں کے دوران

سچے لوگ جھوٹے سمجھے جائیں گے اور ان کے عوض جھوٹے لوگ سچے سمجھے جائیں گے؛

"ماحل" مقرب ہوجائے گا اور "رویبضہ" بولنے میں دوسروں پر سبقت لے گا.

راوی کہتا ہے: میں نے عرض کیا: یا امیرالمؤمنین "رویبضہ" اور "ماحل" کون ہیں؟

حضرت امیر (ع) نے فرمایا: کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا جہاں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: ... «و ہو شدید المحال» اور فرمایا: ماحل وہ شخص ہے جو مکر و حیلہ گری کرتا ہے اور زیادہ مکر کرکے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے.

ایک نکتہ: اس روایت میں رویبضہ کی وضاحت نہیں ہوئی ہے مگر ایک دوسرے مقام پر کسی مناسبت سے رسول اللہ (ص) فرماتے ہیں:

رویبضة = الرجلُ التّافِهُ ینطقُ فى امر العامّةِ

رویبضہ وہ پست و حقیر اور بے شخصیت آدمی ہے جو پستی اور نااہلی اور سفلگی کے باوجود لوگوں کے امور میں مداخلت کرتا ہے اور لوگوں کی جگہ اظہار خیال کرتا ہے.

۱.نهج البلاغه فیض الاسلام، حکمت 98ص 1132

۲. منتخب الاثر، ص 426ح 4ط مکتبة الصدر.

۳. بشارةالاسلام، ص 80ط دار الکتب الاسلامى؛ الزام الناصب، ص 185ط مؤسسه مطبوعاتى حق بین، مختصر اختلاف کی ساته بحواله "روزگار رهایى".

۴. بحارالانوار، ج 52ص 192و 193

۵. کنزالعمال، ج 11ص 192ح 31186

۶. کنزالعمال، ج 11ص 192 ح 31187

۷. بحارالانوار، ج 51ص 117 منتخب الاثر، ص 484

۸. غیبت نعمانى، ص 278

 


source : http://quranoitrat.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیا عباس بن عبدالمطلب اور ان کے فرزند شیعوں کے ...
حسنین کے فضائل صحیحین کی روشنی میں
امام سجاد(ع) واقعہ کربلا ميں
امام جعفر صادق اورفکری جمود سے مقابلہ
جلال و جبروت حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام
امیر المومنین علی علیہ السلام کی نگاہ میں ...
حسینیت اور یزیدیت کی شناخت
امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے ...
حضرت ولی عصرؑ کی ولادت باسعادت
امام محمد باقر عليہ السلام کا عہد

 
user comment