نام
پیغمبر اسلام (ص) نے آپ کا نام اللہ کے نام پر علی رکھا۔ حضرت ابو طالب و فاطمہ بنت اسد نے پیغمبر اسلام (ص) سے عرض کیا کہ ہم نے ہاتف غیبی سے یہی نام سنا تھا۔
القاب
آپ کے مشہور القاب امیر المومنین ، مرتضی، اسد اللہ، ید اللہ، نفس اللہ، حیدر، کرار، نفس رسول اور ساقی کوثر ہیں۔
کنیت
حضرت علی علیہ السّلام کی مشہور کنیت ابو الحسن و ابو تراب ہیں۔
والدین
حضرت علی (ع) ہاشمی خاندان کے وه پہلے فرزند ہیں جن کے والد اور و الده دونوں ہاشمی ہیں ۔ آپ کے والد ابو طالب بن عبد المطلب بن ہاشم ہیں اور ماں فاطمه بنت اسد بن ہاشم ہیں ۔
ہاشمی خاندان قبیل ہ قریش میں اور قریش تمام عربوں میں اخلاقی فضائل کے لحاظ سے مشہور و معروف تھے ۔
جواں مردی ، دلیری ، شجاعت اور بہت سے فضائل بنی ہاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل حضرت علی (ع) کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھے ۔
ولادت
جت حضرت علی (ع) کی ولادت کا وقت قریب آیا تو فاطمه بنت اسد کعبه کے پاس ائیں اور آپنے جسم کو اس کی دیوار سے مس کر کے عرض کیا:
پروردگارا ! میں تجھ پر، تیرےنبیوں پر، تیری طرف سے نازل شده کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے، آپنے جد ابراھیم (ع) کے کلام پر راسخ ایمان رکھتی ہوں ۔
پروردگارا ! تجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ جس نے اس مکان مقدس کی تعمیر کی اور اس بچه کے حق کا واسطه جو میرے شکم میں موجود ہے، اس کی ولادت کو میرے لئے آسان فرما ۔
ابھی ایک لمحہ بھی نہیں گزرا تھا که کعبہ کی جنوبی مشرقی دیوار ، عباس بن عبد المطلب اور یزید بن تعف کی نظروں کے سامنے شگافته ہوئی، فاطمه بنت اسد کعبہ میں داخل ہوئیں اور دیوار دوباره مل گئی ۔ فاطمه بنت اسد تین دن تک روئے زمین کے اس سب سے مقدس مکان میں اللہ کی مہمان رہیں اور تیره رجب سن ۳۰/ عام الفیل کو بچہ کی ولادت ہوئی ۔ ولادت کے بعد جب فاطمه بنت اسد نے کعبہ سے باہر آنا چاہا تو دیوار دو باره شگافتہ ہوئی، آپ کعبه سے باہر تشریف لائیں اور فرمایا :” میں نے غیب سے یہ پیغام سنا ہے که اس بچے کا ” نام علی “ رکھنا “ ۔
بچپن ا ور تربیت
حضرت علی (ع) تین سال کی عمر تک آپنے والدین کے پاس رہے اور اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کے پاس آگئے۔ کیون کہ جب آپ تین سال کے تھےاس وقت مکہ میں بہت سخت قحط پڑا ۔جس کی وجہ سے رسول الله (ص) کے چچا ابو طالب کو اقتصادی مشکل کابہت سخت سامنا کرنا پڑا ۔ رسول الله (ص) نے آپنے دوسرے چچا عباس سے مشوره کرنے کے بعد یہ طے کیا کہ ہم میں سے ہر ایک، ابو طالب کے ایک ایک بچے کی کفالت آپنے ذمہ لے لے تاکہ ان کی مشکل آسان ہو جائے ۔ اس طرح عباس نے جعفر اور رسول الله (ص) نے علی (ع) کی کفالت آپنے ذمہ لے لی ۔
حضرت علی (ع) پوری طرح سے پیغمبر اکرم (ص) کی کفالت میں آگئے اور حضرت علی علیہ السّلام کی پرورش براهِ راست حضرت محمد مصطفےٰ کے زیر نظر ہونے لگی ۔ ا ٓ پ نے انتہائی محبت اور توجہ سے آپنا پورا وقت، اس چھوٹے بھائی کی علمی اورا خلاقی تربیت میں صرف کیا. کچھ تو حضرت علی (ع) کے ذاتی جوہر اور پھراس پر رسول جیسے بلند مرتبہ مربیّ کافیض تربیت ، چنانچہ علی علیہ السّلام دس برس کے سن میں ہی اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ جب پیغمبر اسلام (ص) نے رسالت کا دعوی ک یا، تو آپ نے ان کی تصدیق فرمائ ۔ آپ ہمیشه رسول الله (ص) کے ساتھ رہتے تھے، یہاں تک کہ جب پیغمبر اکرم (ص) شہر سے باہر، کوه و بیابان کی طرف جاتے تھے تو آپ کو آپنے ساتھ لے جاتے تھے ۔
پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت اور حضرت علی (ع)
جب حضرت محمد مصطفے ( ص ) چالیس سال کے ہوئے تو اللہ نے انہیں عملی طور پر آپنا پیغام پہنچانے کے لئے معین فرمایا ۔ اللہ کی طرف سے پیغمبر (ص) کو جو یہ ذمہ داری سونپی گئ ، اسی کو بعثت کہتے ہیں.
حضرت محمد (ص) پر وحی الٰہی کے نزول و پیغمبری کے لئے انتخاب کے بعدکی تین سال کی مخفیانہ دعوت کے بعد بالاخر خدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی اور رسول الله (ص) کو عمومی طور پر دعوت اسلام کا حکم دیا گیا ۔
اس دوران پیغمبراکرم (ص) کی الٰہی دعوت کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے والے تنہا حضرت علی (ع) تھے۔ جب رسول الله (ص) نے اپنے اعزاء و اقرباء کے درمیان اسلام کی تبلیغ کے لئے انہیں دعوت دی تو آپ کے ہمدرد و ہمدم، تنہا حضرت علی (ع) تھے ۔
اس دعوت میں پیغمبر خدا (ص) نےحاضرین سے سوال کیا کہ آپ میں سے کون ہے جو اس راه میں میری مدد کرے اور آپ کے درمیان میرا بھائی، وصی اور جانشین ہو؟
اس سوال کا جواب فقط حضرت علی (ع) نے دیا :” اے پیغمبر خدا ! میں اس راه میں آپ کی نصرت کروں گا ۔ پیغمبر اکرم (ص) نے تین مرتبه اسی سوال کی تکرار اور تینوں مرتبہ حضرت علی (ع) کا جواب سننے کے بعد فرمایا :
اے میرے خاندان والوں ! جان لو که علی میرا بھائی اور میرے بعد تمہارے درمیان میرا وصی و جانشین ہے ۔
علی (ع) کے فضائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ (ع) رسول الله (ص) پر ایمان لانے والے سب سے پہلے شخص ہیں ۔ اس سلسلے میں ابن ابی الحدید لکھتے ہیں :
”بزرگ علماء اور گروه معتزلہ کے متکلمین کے درمیان اس
source : abna