شرک
شرک آمیز افکار انسانوں کو تقسیم کر دیتے ہیں۔ جس معاشرے کی بنیاد مشرکانہ عقیدے پر ہو اس میں انسان ایک دوسرے سے جدا اور ایک دوسرے کے لئے اجنبی اور مختلف طبقات میں تقسیم ہوں گے۔ جب مشرک معاشرے میں سر آغاز وجود اور پورے عالم پر مسلط و محیط ہستی سے انسانوں کے رابطے کا موضوع اٹھے گا تو فطری بات ہے کہ اس معاشرے کے انسان ایک دوسرے سے جدا ہوں گے کیونکہ کوئی ایک طبقہ کسی ایک خدا سے متعلق ہوگا تو دوسرا طبقہ کسی دوسرے خدا سے اور تیسرا طبقہ کسی تیسرے خدا سے۔ جس معاشرے میں شرک کا بول بالا ہوگا وہاں انسانوں اور انسانی طبقات کے درمیان ایک ناقابل تسخیر دیوار اور کبھی نہ پٹنے والی خلیج ہوگی۔
شیطان
جہاں بھی مومنین اور اللہ تعالی کے صالح بندوں کے درمیان اختلاف نظر آ رہا ہے وہاں یقینا شیطان اور دشمن خدا کا عمل دخل ہے۔ جہاں بھی آپ کو اختلاف نظر آئے، آپ غور کریں تو آپ کو بڑی آسانی سے شیطان بھی نظر آ جائے گا۔ یا پھر وہ شیطان، جو ہمارے نفس کے اندر موجود ہے جسے نفس امارہ کہتے ہیں اور جو سب سے خطرناک شیطان ہے، ہمیں دکھائی دے گا۔ بنابریں ہر اختلاف کے پس پردہ یا تو ہماری انانیت، جاہ طلبی اور مفاد پرستی ہے اور یا پھر خارجی اور ظاہری شیطان یعنی دشمن، سامراج اور ظالم طاقتوں کا ہاتھ کارفرما ہے۔
جہالت و کج فہمی
اگر آپ امت اسلامیہ کو تفرقے کا شکار دیکھ رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو صحیح طور پر اس کا ادراک نہیں ہے کہ اتحاد بھی دین کا جز ہے۔ اب وہ دور ہے کہ جس میں امت اسلامیہ کو خواہ وہ سیاسی شخصیات ہوں، علمی ہستیاں ہوں یا دینی عمائدین اور یا پھر عوامی طبقات سب کو ہمیشہ سے زیادہ ہوشیار رہنا چاہئے، دشمن کے حربوں کو پہچاننا اور اس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ ان کا ایک موثر ترین حربہ اختلاف کی آگ بھڑکانا ہے۔ وہ پیسے خرچ کرکے اور مربوط سازشوں کے ذریعے اس کوشش میں ہیں کہ مسلمانوں کو آپسی اختلافات میں الجھائے رکھیں اور ہماری غفلتوں، کج فہمیوں اور تعصب کو استعمال کرکے ہمیں ایک دوسرے کی نابودی پر مامور کر دیں۔
آج بعض مکاتب فکر میں تنگ نظری دکھائی دیتی ہے۔ وہ اپنے علاوہ پورے عالم اسلام کو کافر سمجھتے ہیں۔ جسے بھی پیغمبر اسلام سے عشق و محبت ہے وہ کافر ہے؟! اس تنگ نظری کے عوامل کیا ہیں؟ ہمیں تو بے حد خوشی ہوگی کہ ان اختلافات سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے کا ہاتھ گرمجوشی سے تھامیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں۔
نسلی تعصب
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مسلمان قوموں کے درمیان قومیتی، قومی، لسانی اور اسی جیسے دوسرے پہلوؤں پر زور دیا جاتا ہے۔ بالکل واضح ہے کہ یہ حالت امت اسلامیہ کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کے عمل کی شروعات کی علامت ہے۔ ہم نے دیکھا کہ اسی ملک میں گزشتہ (شاہی) حکومت کے دور میں کس طرح نسل، حسب و نسب اور خون سے متعلق غلط افسانوں اور خیالات کی جانب بازگشت اور فارسیت اور ایرانیت کا مسئلہ کس زور و شور سے اٹھایا گيا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ ملت ایران کو اس سے کیا فائدہ پہنچ سکتا تھا؟ ضرر و زیاں کے علاوہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں ہو سکتا تھا۔ سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ اس سے دیگر اسلامی قوموں کے مقابلے میں ملت ایران کے اندر علاحدگی پسندی کا جذبہ پیدا ہوا اور دوسری قوموں کے ساتھ اس قوم کی کشیدگی شروع ہوئی۔ یہی کام عرب قوموں کے ساتھ کیا گيا اور یہی چال علاقے کی دیگر قومیتوں کے ساتھ بھی چلی گئی اور آج بھی چلی جا رہی ہے۔
صاحبان اقتدار
مسلمان فرقوں اور مسلکوں کے درمیان صدیوں قبل سے آج تک اختلافات، ٹکراؤ، تنازعہ اور تضاد جاری رہا ہے اور ان اختلافات کا نقصان ہمیشہ مسلمانوں کو پہنچا ہے۔ تاریخ اسلام میں ان اختلافات اور تنازعات کے بہت بڑے حصے کی ساری ذمہ داری مادی طاقتوں کی ہے۔ ابتدائی اختلافات یعنی قرآن کے مخلوق ہونے یا نہ ہونے اور اسی جیسے دوسرے مسائل سے لیکر ديگر اختلافی موضوعات تک جو طول تاریخ میں اسلامی فرقوں کے ما بین خاص طور پر شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان نظر آتے ہیں تقریبا تمام اسلامی خطوں میں ان اختلافات کے تار سیاسی طاقتوں سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ البتہ عمومی جہالت، عقل و منطق سے خالی تعصب اور ایک دوسرے کے اختلافات کو برانگيختہ کرنے کا بھی بہت اثر پڑتا ہے لیکن یہ سب کچھ مقدمہ ہے اور صرف انہی عوامل کی بنیاد پر تاریخ کے وہ اندوہناک واقعات رونما نہیں ہو سکتے تھے۔ ان بڑے سانحوں کی ذمہ داری زمانے کی طاقتوں پر ہے جنہوں نے ان اختلافات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ جب استعمار اسلامی ممالک میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر گھس آیا تو واضح ہو گیا کہ اس کی نظریں بھی اسی ہدف پر ٹکی ہوئی ہیں۔
source : http://urdu.khamenei.ir