اردو
Thursday 5th of December 2024
0
نفر 0

مهدی(عج) ايک انقلاب ميں دس انقلاب

مہدوی انقلاب کوجس بھی زاویے سے محلاحظہ کریں تاریخ بشرمیں واقعا ایک عظیم انقلاب ہے۔ مہدوی انقلاب فقط سیاسی انقلاب نہیں ہے بلکہ روایات کی روشنی میں دیکھاجائے توبشرکے تمام مادی ومعنوی پہلوؤں میں ایک عمیق انقلاب ہے۔

۱۔ علمی انقلاب،عقلی وفکری انقلاب:

روایت میں واردہواہے کہ جب امام زمانہ ظہورفرمائیں گے توانسانوں کے سروں پرایک شفقت بھراہاتھ پھیریں گے جس کی بناء پرفجمع بہ عقولھم… ”بشر کی عقل کامل ہوجائے گی“اس کے تمام بندخانے کھل جائیں گے۔ واکمل بہ اخلاقھم واحلامھم… بشریت کے اخلاق حسنہ کی تکمیل ہوجائے گی،الغرض یہ کہ انسانیت کی تمام دلی آرزوئیں برآئیں گی۔

اسلامی کلچرمیں عقل واخلاق دونوں جمع ہوسکتے ہیں۔ جب کہ مغربی طرزفکررکھنے والوں کاکہناہے کہ یہ دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے یعنی اگرانسان علم، ترقی، عقل وفکرچاہے توپھراخلاقیات کے ساتھ نہیں چلاجاسکتا…! مغرب والے علم واخلاق کوہمیشہ الگ الگ رکھتے ہیں،اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ اخلاقیات قابل اثبات نہیں ہیں،وہ کیوں؟ وہ اس لئے کہ ان کی نگاہ میں اخلاقیات عقل کے دائرے سے باہرہیں،لہذا وہ نہ صرف اخلاقیات بلکہ الہیات کوبھی عقل کے دائرہ کارسے باہرسمجھتے ہیں۔

سوال پھرعقل کادائرہ کارکیاہے…؟

مغربی دانشوروں کے بقول عقل کادائرہ کا رصرف اورصرف دنیاوی اورتجربی امورمیں کارآمدہے نتیجتایہ کہ تمام روحانی باتیں ،تمام غیرتجزی امور کوعقل کے ذریعے ثابت نہیں کیاجاسکتا،جب کہ اسلام میں(قرآن وحدیث)فکروفلسفہ کے لحاظ سے عقل کادائرہ کاربہت وسیع ہے اورانسانی عقل الہیات،اخلاقیات، معاداورتجزی مسائل میں اپنی حیثیت کے مطابق قطعی رائے رکھتی ہے۔ البتہ مذکورہ بالامسائل میں عقل بشرکے ادراکات مساوی طورپرنہیں ہیں اوراسلام کبھی بھی عقل تجزی کامخالف نہیں رہاجیساکہ اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ ہوتارہتاہے۔

مہدوی انقلاب میں عقل بشرکے تین مراحل کوزندہ کیاجائے گا۔

۱۔ عقلانیت توحیدی

۲۔عقلانیت ارزشی(اخلاقی قدریں(

۳۔عقلانیت تجزی۔

روایت میں ملتاہے کہ مہدوی جہان میں بشرکے عقل وشعوراورعلم وآگاہی کاعالم یہ ہوگاکہ گھرمیں بیٹھی ہوئی خواتین اپنے فرائض منصبی کے علاوہ علم وحکمت، عقل ومنطق کے آخری مراحل کوطے کرجائیں گی یعنی اپنے تمام علمی (دینی ودنیوی)مسائل کوخودحل کرسکیںگی،گویاکہ مہدوی انقلاب میں علم وعقل کاپرچم گھرگھرپرلہرائے گا حتی کہ افریقا،افغانستان،ہندوستان جیسے محروم وپسماندہ علاقوں میں بھی خواتین علم وعفت کویکجاطورپرحاصل کرپائیں گی۔ جب کہ مغرب میں ایسانہیں ہے۔انہیں علم وعفت کے دوآپشن دئیے جاتے ہیں اوریہ باورکرایاجاتاہے کہ حجاب کے ساتھ علم وعقل کوحاصل کرنامحال ہے لہذاان میں سے کسی بھی ایک کاانتخاب کرو؟

۲۔حقوق کاانقلاب:

مہدوی انقلاب میں علمی انقلاب کے علاوہ ایک حقوقی انقلاب بھی انجام پائے گا۔ جیساکہ ابھی ابھی اشارہ ہواکہ عفت وشرافت،عورت کابنیادی حق اورزیور ہے جوآج کے معاشرے میں چھین لیاگیاہے۔ مہدوی انقلاب میں یہ سب چیزیں واپس اپنی جگہ پرپلٹ آئیںگی اورعورت کے اجتماعی کردار کومہدی موعود دوبارہ سے زندہ فرمائیں گے۔ روایت میں ملتاہے کہ امام کے ۳۱۳/خاص الخاص اصحاب میں سے ۵۰/عورتیں ہوں گی۔ اس تعدادسے بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ ایک جہانی انقلاب میں خواتین کاکس قدرکردارہے۔اس کے علاوہ ہرظالم ومستکبرسے مظلزم ومستضعف کے حق میں حساب لیا جائے گا۔ اگرچہ ظالم نے وہ مال حق مہرہی کیوں نہ قراردیاہو۔

۳۔ اقتصادی وٹیکنالوجی کاانقلاب:

امام محمدباقر سے روایت نقل ہوئی ہے کہ : ”ساری زمین مہدی موعودکے تصرف میں آجائے گی۔ زمین کے خزانے،زیرزمین معدنی وسائل اورتمام نعمتیں اور رحمتیں ان کی دسترس میں ہوں گی“ اس روایت کامفہوم یہ ہے کہ ان کے زمانے میںتمام زمینی خزانے بشریت کے حق میںکیش ہوں گے۔ ظاہری بات ہے کہ جب تمام خزانے کیش ہوں توپھرلوگوں کی اقتصادی صورتحال آئیڈیل ہوگی اوران تمام خزانوں سے بہترطورپراستفادہ جدیدٹیکنالوجی سے ہی ممکن ہے۔ ایک اورروایت میں ہے کہ ”ان کے زمانے میں دولت ونعمت کی ایسی فراوانی ہوگی کہ انسان جس جگہ بھی قدم رکھے گاوہ سبزہ زارہوگا“ کہیں پربھی خشک ریگستان کانام ونشان نہ ہوگا۔ روایت میں یہ بھی ملتاہے کہ جتنی ہمت پروردگارنے آدم سے ظہورتک بشریت کوعطاکی ہے وہ سب فقط مہدوی جہان کوعطا کرے گا۔ البتہ یہ فرق ضرورہوگاکہ ان نعمتوں سے بشرکادماغ خراب نہیں ہوگا۔

۴۔ انسانی روابط میں انقلاب:

 روایت میں امام محمدباقر سے نقل ہواہے کہ: ”ایک شخص آپ کی خدمت میں آیااورکہا: کہ کوفہ شہرمیں ہماری یعنی آپ کے چاہنے والوں کی تعدادکافی ہوگئی ہے اورہم اچھے خاصے منظم بھی ہیں اگرآپ مصلحت سمجھتے ہیں توہم لوگ بنی عباس کے خلاف مسلحانہ قیام کرنے کے لئے تیارہیں؟ امام نے فرمایاکہ کیاتم لوگوں کاایک دوسرے پراتنااعتمادہے کہ اگرتم میں سے ایک دوسرے کی جیب میں بغیربتائے کچھ اٹھالے تودوسراناراض نہ ہو؟ یعنی کیاتمہارے رابطے اتنے برادرانہ ہیں کہ ایک دوسرے کے مال کواپناسمجھ کراستعمال کریں؟ ای شخص نے کہا کہ: مولا! ایسارابطہ تونہیں ہے۔ تب حضرت نے فرمایا: توپھریہ لوگ ایک دوسرے کے لئے جان اورخون کانذرانہ کیسے پیش کریں گے؟ جولوگ ابھی پیسے کے معاملے میں صاف نہیں ہیں وہ لوگ جانثاری کے مرحلے سے کیسے گذریں گے…؟

۵۔ دولت کی عادلانہ تقسیم:

پیغمبراکرم سے ایک روایت ہے کہ جس میں آپ نے فرمایا: یقسم المال صخاحا یعنی مہدی موعود بیت المال کوساری بشریت میں برابرسے تقسیم فرمائیں گے۔ بیت المال کی تقسیم کے سلسلے میں آپ کے نزدیک کوئی کالا،گورانہ ہوگاکوئی آقاوغلام نہ ہوگا۔ ان کے نزدیک سب لوگ ایک جیسے ہوں گے۔ اسی لئے لوگ زکاة لے کرمحتاجوں کوڈھونڈیں گے تب بھی کوئی حاجت مندمسکین نہ ملے گا۔

آج کے زمانے میں بعض شہروں یاملکوں کے بارے میں ایساغلط تاثرپایاجاتاہے کہ فلاں شہریاملک میں سب امیرہوگئے ہیں…؟؟؟لیکن آپ ذرا توجہ کریں توپتاچلے گاکہ اسی شہرمیں سینکڑوں لوگ اب بھی فٹ پاتھوں پرسوتے ہیں…؟؟؟اسی شہرمیں اقلیت کوپہلے درجے کااوراکثریت کودوسرے درجے کاشہری سمجھاجاتاہے…؟

۶۔ حقوق الناس کے حصول کے لئے انقلاب:

اسحاق بن عمارحضرت امام جعفرصادق سے روایت نقل کرتے ہیں کہ : ”ایک دن میں حضرت کی خدمت میں تھاتوآپ نے حقوق الناس کے بارے میں کچھ مطالب بیان کئے۔ وہ چیزیں بیان کیں جوبظاہرچھوٹی چھوٹی ہیں اورلوگ اس طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ مثلانبی کریم حضرت محمد نے فرمایاکہ اگرتم اپنے گھر میں کھاپی کرسوگئے اورتمہارے ہمسائے میں کوئی بھوکاسوگیاہے توتمہیں مسلمان کاعنوان اپنے لئے استعمال کرنے کاحق نہیں ہے۔ حضرت نے یہ بھی فرمایا کہ : ”ہرطرف سے چالیس گھروں تک ہمسایہ محسوب ہوتاہے جس کی تمہیں خبررکھنی ہے۔ اگرکہیں سے گذررہے ہوتوآنکھیں بندکرکے مت گذروتمہارے آس پاس بہت سے مریض اورمفلس اورمفلوک الحال انسان موجوہوسکتے ہیں“۔

راوی کہتاہے کہ جب امام نے یہ مطالب بیان فرمائے تومیری اندرونی حالت دگرگون ہونے لگی اورمیں سوچنے لگاکہ اگریہ سب حقوق الناس ہیں توپھرہمارا کیابنے گا؟ کیاہم بھی مسلمان ہیں؟ لہذامیں نے فوراامام  سے سوال کیاکہ مولاہم لوگ تباہ وبربادہوگئے؟ اس لئے کہ آپ نے جوکچھ بیان فرمایاہے وہ سب ہم میں موجودنہیں ہے۔

تب امام  نے میری اندرونی کیفیت محسوس کرتے ہوئے فرمایاکہ : ”میں نے جوکچھ بیان کیاہے وہ ایک آئیڈیل معاشرے کی تصویرتھی اورایسی خوبصورت تصویر صرف اورصرف تب ہی بن سکتی ہے جب ہمارے قائم قیام فرمائیں گے لیکن یہ بات یادرہے کہ ایسامعاشرہ ہم سب آئمہ کے دل کی آرزوہے لہذا تم سے جس قدرہوسکے اس خوبصورت تصویرمیں رنگ بھرنے کی کوشش کرتے رہواورتم پرآج بھی ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی خبرگیری اوردست گیری کرو۔ کوئی بھی دوسرے کی شکست یاکمزوری پرخوش نہ ہو۔ ایک دوسرے کے غم وخوشی کوتہہ دل سے محسوس کرو۔ ایک دوسرے کوبھول مت جانااس لئے کہ اس طرح طبقاتی فاصلوں میں اضافہ ہوجاتاہے اورپھرمعاشرے میں فسادزورپکڑجاتاہے اورفسادنہ خداکوپسندہے اورنہ ہی ہمیں“۔

لیکن افسوس کہ آج کل بھائی کوبھائی کے غم وخوشی کی پرواہ نہیں ہوتی۔ پڑوسی کوپڑوسی کانام تک پتہ نہیں ہوتا۔ مومن،مومن سے دوربھاگتاہے۔ استادکوشاگرد کی صلاحیتوں کاپتہ نہیں اورشاگردکواستادکی حیثیت معلوم نہیں ہے۔

۷۔ خودپرستی اورسودپرستی کے خلاف انقلاب:

روایت میں ہے کہ سب لوگوں کی معاشی حالت بہت اچھی ہوگی اورسب کے سب سرمایہ داربن جائیں گے لیکن سودپرستی کی روح ختم ہوجائے گی۔ ایسانہ ہوگا کہ جتناکھاسکتے ہوں کھاؤاورجوبچ جائے فریج میں رکھ دواورہوسکے تودوسرے کے ہاتھوں سے حتی منہ سے نوالہ چھین لیں یہ سب نہیں ہوگا۔ اوراگرکہیں ہوا بھی تووہ عدالت مہدوی  سے بچ نہیں سکے گا۔ درحقیقت سرمایہ اوردولت بری چیزنہیں ہے لیکن سرمایہ کی بنیادپرحیوان بن جانانہایت براہے۔

کسی نے امام جعفرصادق سے پوچھاکہ مولی ہم نے سناہے کہ آپ نے فرمایاہے کہ : ”ربح المومن علی المومن رباء“ یعنی مومن کامومن سے فائدہ لیناسود کے زمرے میں آتاہے۔ مولانے فرمایاکہ ہاں یہ درست ہے میں نے کہاہے لیکن یہ مہدوی معاشرے کی تصویرہے کہ اس معاشرے میں سب ایک دوسرے کی خدمت کریں گے کوئی کسی سے اجرت نہ لے گا۔ درزی ،حجام کے کپڑے سئیے گااورحجام ،درزی کے بال بنائے گا۔ سب لوگ اسی طرح ہوں گے۔ ایک دوسرے سے سود(فائدہ)لیناحرام ہوگاسب ایک دوسرے کی خدمت کریں گے(سبحان اللہ)۔

۸۔ امنیت عمومی کے حوالے سے انقلاب:

کسی بھی معاشرے میں کچھ چیزیں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جیسے تعلیم،صحت،اخلاقیات…وغیرہ۔ ایسی ہی ایک اہم چیزامنیت عمومی ہے۔ امنیت عمومی کے بغیرکوئی بھی معاشرہ،کوئی بھی قوم آگے نہیں بڑھ سکتی۔ جس کی واضح مثال ہمارے موجودہ حالات ہیں کوئی چھوٹا ہو یا بڑاامیرہویاغریب کوئی بھی خودکو محفوظ نہیں سمجھتابدمعاش،دہشت گرد،غنڈے،ڈاکواورلٹیرے سب کے سب آزادی کے ساتھ دندناتے پھررہے ہیں کوئی پوچھنے والانہیں جس طرف رخ کریں وہیں بم پھٹ رہے ہیں لہذاتعلیم وتجارت سے لے کرلوگوں کی فلاح سے متعلق ہرقسم کے کام ٹھپ ہوکررہ گئے ہیں۔

مہدوی معاشرے میں اہم ترین توجہ امنیت عمومی کی جانب مبذول ہوگی۔ روایت میں ہے کہ : اگرایک جوان عورت مکمل زیورات وحسن فطری کے ساتھ شرق وغرف عالم کااگرتنہاء سفربھی کرے گی تواسے کوئی گزندنہ پہنچے گا۔ گزندتودورکی بات ہے اصلاخوداس کے اپنے وجودمیں کسی قسم کاکوئی خوف نہ آئے گا۔ ایک اور روایت میں ملتاہے کہ لوگ انقلاب مہدوی کے کچھ عرص ہ بعداصلابھول جائیں گے کہ ”خوف“ بھی کسی چیزکانام ہے۔

۹۔ زرخیزی اورشادابی کے حوالے سے انقلاب:

روایت میں ہے کہ مردہ زمین امام مہدی کے دست باکفایت کے ذریعے آبادزرخیزہوگی۔ ہرطرف سبزہ زار،ہریالی اورشادابی وطراوت جھلک رہی ہوگی۔ گویا کسی قسم کاغم وغصہ باقی نہ رہے گادلوں میں بھی بہاریں لوٹ آئیں گی۔ غم وخوشی ہوگی لیکن انسانی غم وخوشی،حیوانی خوشی کامطلق وجودنہ ہوگا۔ آج کے زمانے کے برعکس جہاںلوگ دوسروں کے غم سے خوش اوردوسرے کی خوشی پرغمگین ہوتے ہیں!!

مہدوی معاشرے میں مردے بھی قبروں میں سرورمحسوس کریں گے۔ جانوربھی آپس میں صلح وصفاکرلیں گے۔ کوئی جانورکسی کوچیزپھاڑنہیں کھائے گا۔ وہ اس لئے کہ جب ایک جانوربھوکاہوگاتودوسرے کوچیزپھاڑکھائے گالیکن اگروہ سیرہوتوایسی حرکت کیوں کرے گا…؟لیکن انسان عجیب ہے اگرسیربھی ہو پھر بھی نظردوسروں کے مال پرہی ہوتی ہے۔ الغرض یہ کہ مہدوی معاشرے میں یہ سب کچھ بدل جائے گاانشاء اللہ۔

۱۰۔ درک دین اوروسعت فکری کاانقلاب:

مہدوی معاشرے میں دین کی شناخت ومعرفت اپنی اوج کوپہنچ جائے گی۔ امام تمام شبہات اوربدعات کاخاتمہ فرمائیں گے۔ قرآن کریم کے چہرہٴ انورسے صدیوں پراناگردوغبارہٹائیں گے۔ تب دلوں میں بہاراورفکروں میں نکھار آئے گا۔ لیکن دین کے جعلی ٹھکیداروں کویہ بات قطعاپسندنہ آئے گی اوروہ لوگ جنگ صفین کی طرح ایک بارپھرقرآن ہاتھوں میں اٹھاکرمہدی کے مقابلے میں آجائیں گے اورالزام لگائیں گے کہ یہ کیاجدیددین لائے ہو؟ جوباتیں کررہے ہووہ سب کی سب نئی ہیں۔ تم سے پہلے نہ کسی نے یہ بیان کی ہیں اورنہ ہی کسی نے سنی ہیں۔

امام پرالزام لگانے والے دوقسم کے لوگ ہوں گے۔ کچھ وہ لوگ جوخیالوں ہی خیالوں میں اپنے آپ کودانشورسمجھتے ہیں اوردوسرے وہی درباری واستعماری ملا جن کواپنی دکان کے بندہوجانے کاخطرہ ہوگاان لوگوں نے ہربہانے سے دین کانام تولیاہے مگردن کے لئے ذرہ برابربھی کچھ نہیں کیا۔ ان لوگوں نے دینی سرمائے سے کوٹھیاں اورگاڑیاں توبنالی ہیں لیکن دین کی خاطرکبھی ایک تھپڑبھی نہیں کھایا۔ یہ لوگ مریدسازی کے استادہیں اورشہرت طلبی کے دلدادہ۔ ایسے لوگ خودکوماسٹرمائنڈ سمجھتے ہیں اورکشف وکرامات کے دعویدارہوتے ہیں۔ امام زمانہ علیہ السلام کی اصل جنگ ظلم وجہل سے ہوگی۔ وہ دین خداکوویساہی بیان کریں گے جیسانازل ہواتھااب اگرکسی کی دکان کونقصان پہنچتاہے یاکسی کے مریدکم ہوجاتے ہیں توہوتے رہیں ۔ آپ کسی جاہل کی پرواہ نہ کریں گے۔ اورکسی بدعتی دکاندارکوہرگزمعاف نہ کریں گے۔

یہ جوشیعوں پرالزام لگایاجاتاہے کہ شیعہ کسی اورقرآن کے قائل ہیں یہ سراسرجھوٹ وتہمت ہے شیعہ نظریہ کبھی یہ نہیں رہاکہ ہماراقرآن دوسراہے یااس قرآن کی تحریف ہوئی ہے۔ نعوذباللہ درحقیقت ہمارے مخالفین کوہماری روایات کے سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ ہماری روایات کامفہوم یہ ہے کہ حضور کے بعد جتنی بھی بدعات نے جنم لیاہے اورقرآن کریم کی جتنی بھی غلط تفسریں اورتاویلیں ہوئی ہیں مہدی موعودان سب کوختم کرکے اصل تفسیربیان فرمائیں گے۔

آخرمیں یہ روایت بھی ملاحظہ فرمالیں کہ حضرت امام محمدباقر نے فرمایاکہ : ”مہدوی معاشرے میں جدیداطلاعات اورمعلومات میسرآئے گی۔ (جیسے ہم لوگ آج کل انفارمیشن ٹیکنالوجی کہتے ہیں)۔ روایت کامزیدبیان یہ ہے کہ : ”اس وقت جتنی بھی معلومات ومعرفت بشرکے پاس ہے وہ کل ۲۷/۲ہے۔ یعنی مہدی موعودکے پاس جوعلمی خزانے کے ۲۷حروف ہیں موجودہ بشرکے پاس(ان تمام ترترقیوں کے باوجود)صرف ۲حرف کے برابرعلم ہے۔ ۲۵حروف کے معادل علمی ذخیرہ مہدی  موعودکے پاس ہے“۔ اب آپ خوداندازہ لگالیں کہ یہ انقلاب تمام انقلابوں کی جان ہوگا۔ گویاآج کاانسان ان معلومات کے ساتھ بشریت مہدی موعود کے کسی پرائمری اسکومیں توداخل ہوسکتاہے لیکن یونیورسٹی میں ہرگزداخل نہیں ہوسکتا۔

 

 


source : http://www.al-shia.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

رسول اکرم کا طریقہ حکومت – دوسرا حصه
فاطمہ (س) کی معرفت لیلۃ القدر کی معرفت ہے
شیعیان علی جنتی مخلوق
خدیجہ(ع) کی دولت اور علی (ع) کی تلوار
نبی (ص) کی ذات محور اتحاد
امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت
امام زمانہ عج کی نیابت عام، مرجعیت تقلید سے ولایت ...
فضائل فاطمہ (س) قرآن کی زبانی
میراث فاطمہ علیہا السلام اور حدیث لا نورث کے بارے ...
حضرت علی (ع) سے شادی

 
user comment