رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج سہ پہر کو اعلی سول اور فوجی حکام اور اہلکاروں سے ملاقات میں داخلی اور خارجی اہم مسائل میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسیوں کی تشریح کی اور رمضان المبارک کے مہینے کو سیاسی اور سماجی پہلوؤں پر توجہ ،خلوص، طہارت ، پاکیزگی اور توبہ و انابہ کا اہم مہینہ قراردیا اور باہمی ہمدردی و اتحاد کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: حکام کے درمیان اتحاد و یکجہتی ایک اہم فریضہ اور سنگین ذمہ داری ہے جان بوجھ کر اتحاد و یکجہتی کو پارہ پارہ کرنا غیر شرعی عمل ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ماہ رمضان المبارک کو تضرع و زاری ، توبہ و انابہ ، اللہ تعالی کے حکم کے سامنے دل و جاں سے تسلیم ہونے، طہارت و پاکیزگي ، آلودگیوں سے دور اور پاک و صاف رہنے کا مہینہ قراردیتے ہوئے فرمایا: رمضان المبارک ہر سال کی طرح، شب و روز میں نمازیں ادا کرنے، بیدار رہنے اور اللہ تعالی کے ساتھ راز و نیاز کرنے اور دل و جاں میں نورانیت و درخشندگی پیدا کرنے کے لحاظ سے ایک اہم اور بے نظیر موقع ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے رمضان المبارک کی خصوصیات میں توبہ و انابہ کو ایک اہم خصوصیت قراردیا اور اس سلسلے میں اعلی حکام اور اہلکاروں کی سنگین ذمہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی کی بارگاہ میں توبہ و انابہ نیز غلط راستے پلٹنے اور غلط فکر و نظر سے باز گشت کے لئے ضروری ہے کہ انسان سب سے پہلے غلطیوں، غفلتوں اور خطاؤں کو اچھی طرح پہچان لے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انفرادی اور اجتماعی تمام شعبوں میں توبہ اور باز گشت کے دائرے کو بہت بڑا اور وسیع قراردیتے ہوئے فررمایا: وہ تمام افراد جو معاشرے کے مختلف میدانوں میں کسی نہ کسی وجہ سے اثر و رسوخ رکھتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اپنی رفتار اور گفتار اور اپنے زیر نظر اہلکاروں ، اداروں کی رفتار اور عمل پر اچھی طرح نظر رکھیں کیونکہ اگر زیر نظر اہلکاروں اور اداروں کی خطائیں اور غلطیاں متعلقہ افسر کی رفتار و گفتار کی روشنی میں ہوں تو یہ غلطیاں اس افسر اور ا س ذمہ دار فرد کے نامہ اعمال میں درج ہونگی ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے توبہ اور عمل و فکر کی تصحیح کا اصلی مقصد و ہدف ،تقوی الہی قراردیتے ہوئے فرمایا: تقوی کا انفرادی پہلو یہ ہے کہ انسان محرمات کو ترک کرے اور واجبات کو انجام دے لیکن تقوی کے اس سے اہم پہلو بھی ہیں جن کے بارے میں اکثر غفلت کی جاتی ہے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صحیفہ سجادیہ کی دعائے شریفہ مکارم الاخلاق کی روشنی میں عدل و انصاف کے فروغ ، غیظ و غضب اور غصہ پر کنٹرول ، اصلاح ذات البین ، اتحاد و یکجہتی اور معاشرے میں پائے جانے والے بحران کو ختم کرنے کے سلسلے میں کوشش، ایکدوسرے سے کسی وجہ سے دور ہوجانے والےمؤمن بھائیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے سلسلےمیں تلاش و کوشش جیسے امور کو تقوی کے اہم امور قراردیتے ہوئے فرمایا: آج ہمارے سیاسی مسائل بھی اسی قسم کے ہیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تمام شعبوں اور حصوں میں عدل و انصاف کے فروغ کو تقوی کا سب سے اعلی اور اہم پہلو قراردیتے ہوئے فرومایا: اجرائی، قضائی اور اجتماعی شعبوں میں عدل وانصاف، وسائل اور مواقع کی تقسیم میں عدل و انصاف، افراد کے انتخاب میں عدل و انصاف ، حقیقی معنی و مفہوم میں عدل وانصاف کے مصادیق ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عمل و فکر کو منحرف کرنے والے غصہ اور غیظ و غضب کو قابو میں رکھنے کو تقوی کا ایک اور پہلو قراردیا اور اختلاف پھیلانے کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کچھ لوگ سیاسی گروہوں اور ان سے وابستہ افراد کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے اور تفرقہ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اور دشمن کی ان حرکتوں کا مقابلہ الہی تقوی کے روشن اور بارز مصادیق میں شامل ہے ۔
source : http://www.taghrib.ir/