حضرت عبدالمطلب نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے دادا تھے - ان کا دور حيات اسلام کے نزديک تھا اس ليۓ حضور صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے اجداد ميں سے آپ کے دادا کي زندگي کے متعلق اچھي خاصي معلومات اسلامي تاريخ کيا حصّہ بن چکي ہے - جناب عبد المطلب، ايک ہر دل عزيز، مہربان، عقلمند، سرپرست اور قريش کي ايسي پناہ گاہ تھے جن کا کوئي مقابل اور رقيب نہيں تھا- وہ تمام عظيم الٰہي شخصيتوں کي طرح اپنے معاشرے ميں نماياں کردار رکھتے تھے - طولاني عمر پانے کے باوجود مکہ کے آلودہ سماج کے رنگ ميں اپنے کو کبھي (1) عرب کے قبيلے اور گروہ چھوٹے اور بڑے ہونے کے لحاظ سے اور اس کے اندر جو شاخيں پيدا ہوئي تھيں ان کے اعتبار سے ترتيب وار انھيں شعب، قبيلہ، عمارہ، بطن، فخذ اور فصيلہ کہا جاتا تھا- جيسے خزيمہ، شعب، کنانہ، قبيلہ، قريش، عمارہ، قصي، بطن، ہاشم، فخذ، اور عباس کو فصيلہ کہا جاتا تھا (ابن حزم، العقدالفريد، ج3، ص 33؛ ڈاکٹر حسين مؤنس، تاريخ قريش، (دار السعوديہ، ط 1، 14ظ 8ھ.ق) ، ص 215) اس بنياد پر بعض دانشوروںنے قريش کو ''قبيلہ'' اور بعض نے ''عمارہ'' کہا ہے- ليکن اس بات کا خيال رہے کہ اس تقسيم بندي کي بنياد اور اصل ، محل بحث ہے- اور اصولي طور پر بعض محققين نے اس تقسيم بندي کو قبول نہيں کيا ہے- (تاريخ قريش، ص 216- 215)، ہم يہاں پر اس بحث سے ہٹ کر صرف آساني کے لئے قريش کو قبيلہ کے عنوان سے ذکر کرتے ہيں-
آپ حضرت ہاشم کے نہايت جليل القدر صاحبزادے تھے- والد کا انتقال بچپنے ميں ہي ہوچکا تھا- پرورش کے فراض آپ کے چچا مُطَّلِب کي کنار عاطفت ميں ادا ہوئے اور خوش قسمتي سے آخر ميں عرب کے سب سے بڑے سردار قرار پائے- آپ کے والد ہي کي طرح آپ کي والدہ بھي (جن کا نام سلميٰ تھا) شرافت و عظمت ميں انتہائي بلندي کي مالک تھيں- جناب عبد المطلب کا ايک نام شيبۃ الحمد بھي تھا، کيونکہ آپ کي ولادت کے وقت آپ کے سر پرسفيد بال تھے اور شيب، سر کي سفيدي کو کہتے ہيں- حمد سے اسے مضاف اس لئے کيا کہ آگے چل کر بے انتہا ممدوح ہونے کي ان ميں علامتيں ديکھي جا رہي تھيں- آپ سنِ شعور تک پہنچتے ہي جناب ہاشم کي طرح نامور اور مشہور ہوگئے- آپ نے اپنے آباوء و اجداد کي طرح اپنے پر شراب حرام کر رکھي تھي اور غارِ حراء ميں بيٹھ کر عبادت کرتے تھے- آپ کا دسترخوان اتنا وسيع تھا کہ انسانوں کے علاوہ پرندوں کو بھي کھانا کھلايا جاتا تھا- مصيبت زدوں کي امداد اور غريبوں کي خبرگيري ان کا خاص شيوہ تھا- آپ نے بعض ايسے طريقے رائج کئے جو بعد ميں مذہبي نقطہء نظر سے انساني زندگي کے اصول بن گئے- مثلاً ايفاء نذر، نکاح محارم سے اجتناب، دختر کشي کي ممانعت، خمر و زنا کي حرمت اور چور کے ہاتھ کا کاٹنا- عبد المطلب کا يہ عظيم کارنامہ ہے کہ انہوں نے چاہ زمزم کو جو مرورِ زمانہ سے بند ہوچکا تھا، پھر کھدوا کر جاري کيا-
حوالہ:
(1) حلبي، گزشتہ حوالہ، ص 6؛ آلوسي، گزشتہ حوالہ، ص 323؛ ابن اثير ، الکامل في التاريخ، ج2، ص 15؛ بلاذري، انساب الاشراف، تحقيق: محمد حميد اللہ (قاہرہ: دار المعارف)، ج1، ص73.
source : http://www.tebyan.net