امام عصر ارواحنا فداہ کی عظمت سے واقفیت انتظار کی راہ پر چلنے کے لئے بہت ہی موثر ذریعہ ہے لہذا اس کے متعلق وضاحت کر رہے ہیں :
وہ روایتیں جو حضرات اہل بیت علیہم السلام سے امام عصر ارواحنا فداہ کی شخصیت و عظمت کے متعلق وارد ہوئی ہیں آدمی کو لرزہ براندام کردیتی ہیں اور وہ سکتہ میں آجاتاہے۔
یہ کیو نکر ہوسکتا ہے کہ اتنے سارے روح کی گہرائی پراثر انداز ہونے والے کلمات کے باوجود ہمارے سماج نے(طاوٴوس اہل الجنۃ ) بہشتی طاوٴوس کی جگہ پر زاغ و زغن کو دل سے لگالیا ہے؟اتنی غفلت کیوں ؟اور اس درجہ فراموشی کس وجہ سے ہے؟کیا علماء اوربزرگان دین نے اس راہ میں کوئی شائستہ کام انجام دیا ہے ؟کیا صاحبان قدرت اور حکام جو اپنے کو آنحضرت سے وابستہ سمجھتے ہیں انھوں نے آپ کے لئے کو ئی خدمت انجام دی ہے؟شیعہ ثروتمندوں اور قوت رکھنے والوں نے دین کے اس بنیادی اور حیاتی ترین عمل کے لئے کوئی سعی کی ہے ؟کیا عوام نے امام زمانہ (عج) کی طرف توجہ کے ذریعہ اپنی دردناک حالت تبدیل کی ہے ؟حقیقت یہ ہے کہ عوام کا ہر گروہ اس غفلت میں کم و پیش شریک رہا ہے گرچہ کچھ عالم و غیر عالم افراد ایسے گذرے ہیں اور ہیں کہ انھیں اس کا قلق رہا ہے اور افسوس و حسرت کے عالم میں زندگی گذار دی ہے اور گذار رہے ہیں اس موضوع کوچھوڑیں کہ حقیقت تلخ ہے ، اور خود پسندوں کے دل کو تکلیف پہنچائے گی ،اس وقت خاندان وحی کے کچھ فرمودات کو پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ انھوں نے آپ کو کن عبارتوں سے یاد کیا ہے اور کس طرح لوگوں کو آنحضرت (عج)کی طرف متوجہ کیا ہے اور کس طرح لوگوں کو ان کے احترام کا سبق دیا ہے ۔
۱:۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :
ہمارے ماں باپ ان پر قربان جائیں وہ ہمارے ہمنام اور ہمارے شبیہ ہیں۔
اس کلام کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام عصر(عج)کی غیبت کے افسوس ناک زمانہ کے تذکرہ کے بعد فرمایا:
سیکون بعدی فتنۃ صمّاء صیلم یسقط فیہا کلّ ولیجۃ وبطانۃ، وذلک عند فقدان شیعتک الخامس من السابع من ولدک، یحزن لفقدہ اٴہل الاٴرض والسماء، فکم موٴمن وموٴمنۃ متاٴسف متلھّف حیران عند فقدہ۔ثمّ اٴطرق ملیّاً ثمّ رفع راٴسہ وقال: باٴبی واٴمّی سمیّی وشبیہی وشبیہ موسی بن عمران علیہ جلابیب النور یتوقّد من شعاع القدس۔(۱)
میرے بعد ایسا فتنہ ہوگا کہ جو لوگوں کو بہرا کردیگا اور بہت ہی سخت مرحلہ ہوگا
اس میں ہر برگزیدہ اور رازدار شخص گرپڑے گا اور یہ اس وقت ہوگا کہ جب تمہارے شیعہ تمہارے فرزندوں میں ساتویں امام کی (اولاد میں)پانچویں کو گم کر دیں گے اور ان کے غایب ہونے سے اہل آسمان وزمین غمگین ہوں گے،بہت سے باایمان عورت مردایسے ہوں گے کہ جو ان کی غیبت کے وقت محزون اور غمزدہ ہوں گے یہ کہنے کے بعد آنحضرت (ص) نے آہستہ سے اپنا سر نیچے جھکا لیا اور پھر سراوپرکرکے فرمایا :
ہمارے ماں باپ ان پر قربان وہ ہمارے ہمنام اور وموسیٰ بن عمران سے مشابہت رکھتے ہیں ان کے (بدن )پر نورانی پیرہن ہے جو شعا ع قدس سے جلاء حاصل کرتاہے ۔
۲:۔حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے آپ کے متعلق فرمایا :
میری جان آپ پر قربان…∙∙∙
اس کلام کی نسبت علامہ مجلسی نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی طرف دی ہے اور فرمایاہے۔
وہ شعری دیوان جو حضرت امیر علیہ السلام سے منسوب ہے اس میں حضرت نے فرمایا :
” فثمّ یقوم القائم الحقّ منکم وبالحق یاتیکم وبالحقّ یعمل سمیّ نبیّ اللہ نفسی فداوٴہ فلا تخذلوہ یا بنیّ وعجّلوا “ (۲)
یعنی پس اس وقت (ناشائستہ حکومتوں کے بعد)تم میں سے جو حق کو قائم کرے گاوہ اٹھ کھڑا ہوگا اور حق کو تمہارے لئے فراہم کرے گا اور اس پر عمل کرے گا ۔
وہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہم نام ہے ہماری جان اس پر قربان لہٰذا میرے بیٹے اس کی مدد میں کوتاہی نہ کرنا اور اس کی نصرت میں جلدی کرنا ۔
۳:۔حضرت امیر المومنین علیہ السلام:
بہترین کنیز کے فرزند پر (ہمارے ماں باپ قربان جائیں) ۔ (۳)
اولین مظلوم عالم حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے امام عصر (عج)کے جسمانی اوصاف کو بیان کرنے کے بعد ایک جملہ کے ذریعہ جس کا تذکرہ ہم نے کیا ہے اپنے عظیم قلبی اشتیاق کا اظہار فرمایا ہے ،اس روایت کو جابر جعفی جو امام محمد باقر علیہ السلام کے اصحاب اور خاص لوگوں میں تھے نقل فرمایا ہے اس روایت میں حضرت امیر المو منین علیہ السلام نے امام عصر (عج)کے جسمانی نیک صفات کو بیان کرنے پر اکتفا کی ہے اور آنحضرت کے معنوی خصائل و ملکوتی قدرت کو بیان کرنے سے پرہیز کیا ہے اس لئے کہ ایسے شخص سے گفتگوکر رہے تھے جو عالم خلق کی تمام تباہی و فساد کا باعث اور بنیادی علت ہے ۔
اس وقت اس روایت پر توجہ کرئیے :۔
جناب جابر جعفی کہتے ہیں: ہم نے امام محمد باقر علیہ السلام کو فرماتے ہوے سنا :
سایر عمربن الخطّاب امیر الموٴمنین علیہ السلام فقال: اٴخبرنی عن المھدیّ ما اسمہ؟فقال: اٴما اسمہ فانّ حبیبی عہدالیّ اٴن لا احدّث باسمہ حتّٰی یبعثہ اللّٰہ، قال فاٴخبرنی عن صفتہ،قال: ہو شابّ مربوع حسن الوجہ حسن الشعر، یسیل شعرہ علی منکبیہ، ونور وجہہ یعلو سواد لحیتہ وراٴسہ، بابی ابن خیرۃ الاماء۔(۴)
عمر بن خطاب امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ راہ چل رہے تھے آپ سے عرض کیا: مجھے مہدی کے بارے میں خبر دیجئے ان کا نام کیا ہے ؟
حضرت نے فرمایا :لیکن میرے حبیب نے مجھ سے عہد لیا ہے کہ ان کا نام کسی کونہ بتاؤں یہاں تک کہ پروردگارعالم انھیں مبعوث کرے ۔
عمر نے عرض کیا :پس ان کی صفت بیان فرمائےے۔
حضرت نے فرمایا :وہ چہار شانہ خوشرو حسین ان کے بال شانوں پر بکھرے ہوں گے اور ان کے چہرے کا نور ان کے بال اور داڑھی کی سیاہی پرظاہرہوگا، اس بہترین کنیز کے فرزند پر ہمارے باپ قربان جائیں۔
۴۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام
اس بہترین کنیز کے فرزند پر ہمارے ماں باپ قربان جائیں ۔
اس کلام کو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے دوسری مرتبہ تکرار فرمایا ہے اور حارث ہمدانی نے اسے حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے نقل کیا ہے ۔
حضرت علیہ السلام نے اس روایت میں حضرت بقیۃ اللہ (عج)کی شمشیر انتقام سے ظالموں کے ظلم و ستم کے خاتمہ کا تذکرہ کیا ہے اور فرمایا ہے :دنیا کے تمام ستمگروں کے منھ میں زہر کا کڑوا جام انڈیلیں گے اس جگہ حضرت کے اس کلام پر توجہ دیں جو غمزدہ کے دل کو شاد کردےتا ہے:
باٴبی ابن خیرۃ الإماء- یعنی القائم من ولدہ علیہ السلام یسومہم خسفاً، ویسقیہم بکاٴس مصبرۃ، ولا یعطیہم اِلاّٰ السیف ہرجاً۔(۵)
بہترین کنیز کے فرزند پر ہمارے والدقربان جائیں ،یعنی حضرت قائم(عج)جو آنحضرت علیہ السلام کی اولاد سے ہیں، ذلت اور خواری کو ان پر تحمیل کریں گے اور وہ ظرف جو (بہت ہی تلخ دو ا)صبر سے پر ہوگا ان (ستمگروں ) کے منھ میں انڈلیں گے اور انہیں کو ئی چیز سوائے فتنہ و آشوب کی شمشیر کے عطا نہ کریں گے ۔
ہاں وہ دن ہے کہ جب سقیفہ میں بیٹھنے والوں اور ان کے وارثوں کی حکومت کا خاتمہ ہوگا اور وہ سبھی جام تلخ نوش کریں گے ۔
۵۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام
میرے باپ بہترین کنیز کے فرزندپر قربان جائیں ۔
حضرت امیر علیہ السلام نے اس جملہ کو ایک مرتبہ اور اپنے خطبہ کے درمیان فرمایا :
فانظروا اٴھل بیت نبیکم فان لبدوا فالبدوا واِن استنصروکم فانصروہم، لیخرجنّ اللّٰہ برجل منّا اٴہل البیت، باٴبی ابن خیرۃ الإماء لایعطیھم اِلّاالسیف ھرجاً ھرجاً موضوعاً علی عاتقۃ ثمانیۃ۔(۶)
اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کی طرف دیکھو اگر وہ چین سے بیٹھ جائیں تو تم بھی چین سے بیٹھ جاؤ اور اگر تمھیں مدد کے لئے بلایا تو ان کی مدد کرو، یقینا پرور دگار عالم ہم اہل بیت سے ایک مرد کو (ستمگروں کی نابودی کے لئے )پیدا کرے گا ۔
بہترین کنیز کے فرزند پر میرے باپ قربان جائیں ،انھیں (ستمگروں) کچھ نہ دیں گے مگر شمشیر ، کیا معرکہ ہوگا ! کیا آشوب ہوگا!آٹھ مہینے اپنے شانہ پر شمشیر رکھیں گے ۔
اس خطبہ میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام دنیا کی اصلاح، دنیا سے ستمگروں اور ظالموں کی نابودی کی خبر د ے رہے ہیں اور فرماتے ہیں آٹھ مہینے اس زمین پر ستمگروں سے جنگ ہو گی ،پھر پورے عالم میں صلح و محبت برقرار ہو جائے گی ۔
۶۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام
آہ! میں کس درجہ انھیں دیکھنے کا مشتاق ہوں۔
اس کلام کو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام حضرت امام عصر ارواحنا فداہ کے نیک خصائل کو یاد کرنے اور فتنہ و فساد کے تذکرہ کے بعد فرمایا:
” ھاہ - و اوماٴ بیدہ الی صدرہ - شو قاً الی روٴیتہ “ (۷)
آہ ! اور اپنے قلب کی طرف اشارہ کیا ،ہم کس درجہ مشتاق ہیں کہ ان کی زیارت کریں۔
اس لئے کہ حضرت کو اپنے وسیع علم کی بنا پر معلوم تھا کہ سقیفہ میں جمع ہونے والے اس کابیج چھوڑجائیں گے اور اس کا فتنہ ایسے ہی جاری ہوگا اس کی آگ لمبے عرصہ تک پورے عالم کو سیاہ کرتی رہے گی تیرگی و بدبختی دنیا کے تمام لوگوں کا احاطہ کرلے گی اور یہ ظلم و ستم اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک منتقم آل محمد (ص)امام عصر (عج)اپنے ان ۳۱۳/ساتھیوں جنھوں نے تہذیب نفس کے ساتھ امر ولایت کو اپنی روح میں رچابسا رکھا ہے کے ساتھ قیام کریں گے اور دنیا کے تمام مظلوموں کا بدلہ ظالمین سے لیں گے۔اگر سقیفہ کے تاریک ایام میں اپنی جان کی بازی لگانے والے مددگار عالم کے اولین مظلوم حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے ساتھ ہوتے تو دشمن خانہ وحی کو آگ نہیں لگا سکتے تھے عالم ہستی کے امیر کے گلے میں رسی کا پھندا نہیں ڈال سکتے تھے اور ماہ عالم کے چہرے کو نیلا نہیں کرسکتے تھے ۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں :
فنظرت فاذا لیس لی معین اِلّا اٴھل بیتی فضننت بھم عن الموت، واٴغضیت علی القذی، وشربت علی الشّجی، وصبرت علی اٴخذ الکظم، وعلی اٴمرّ من طعم العلقم۔ (۸)
چونکہ مخالفین نے خلافت کو جو کہ ہمارا حق تھا غصب کر لیا (اپنے امر میں ہم نے فکر کیا)تودیکھا سوائے میرے اہل بیت کے میرا کوئی مددگار نہیں ہے میں اس پر راضی نہیں ہوا کہ وہ قتل ہوں اور وہ آنکھ جس میں تنکا چلاگیا تھا اسے بند کرلیا ‘جبکہ اس نے میرے گلے کی ہڈی کو جکڑ رکھا تھا لیکن ہم نے پی لیا (شدید غم واندوہ کی وجہ سے)سانس لینا مشکل تھا (بہت ہی کڑوی جڑی )کے مزہ سے بھی زیادہ تلخ چیزوںپر ہم نے صبر کیا ۔
ہاں ،اس کائنات کی مظلوم ترین ذات ان تمام مظالم کو جو ان پر کئے گئے بیان کرنے کے بعد مستقبل میں ہونے والے فتنوں کو یاد کرتے ہیں اور ان تمام فتنوں اور فساد کو خاتمہ دینے والے کے نام کا بھی تذکرہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں ۔
آہ ، میںاسے دیکھنے کا کس درجہ مشتاق ہوں ۔
۷: ۔امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :
اگر میں اس زمانہ میں رہا تو اپنی جان اس صاحب امر کے لئے محفوظ رکھوںگا ۔
یہ کلام اس ذات کا ہے جس نے سارے عالم میں علم و حکمت کو شکافتہ کیا اور خلقت عالم کے تمام اسرار سے واقف ہے وہ ذات جس کے لئے آئندہ آنے والے اور ماضی میں رہنے والے ان افراد کی طرح ہیں کہ جو آپ کے حضور میں اورسامنے ہوں ۔
حضرت علیہ السلام نے جب آئندہ اور آئندہ آنے والوں کا تذکرہ کیاتوحضرت مھدی (عج)کے ظہور سے پہلے ہونے والے قیام کے متعلق یوں بیان فرمایا :
” اَما إِنِّی لوادرکت ذالک لا ستبقیت نفسی لصاحب ھذا الامر “ (۹)
آگاہ رہو اگر میں اس زمانہ میںرہا تو اپنی جان کو اس صاحب امر(عج) کے لئے محفوظ رکھوں گا۔
مرحوم آیت اللہ شیخ محمد جواد خراسانی نے اپنی کتاب میں تحریر فرمایا ہے اس زمانہ سے حضرت کا مقصود وہ گروہ ہے جو(شیلا )سے ہوگا اور حق کے حصول کے لئے قیام کرے گا ۔
۸: ۔امام محمدباقر علیہ السلام
میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں،وہ ہمارے ہمنام اور ان کی کنیت ہماری کنیت ہے میرے باپ اس پر قربان جو پوری دنیا کو عدالت و انصاف سے ویسے ہی پر کر دیگا جیسے وہ ظلم جور سے بھری ہوگی ۔
اس روایت کو ابو حمزہ ثمالی جو حضرت کے بزرگ اصحاب میں سے ہیں انھوں نے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں ایک روز امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں تھا جب لوگ حضرت سے رخصت ہو کر چلے گئے تو مجھ سے فرمایا :
یااٴبا حمزۃ، من المحتوم الّذی حتمہ اللّٰہ قیام قائمنا، فمن شک فیما اٴقول لقی اللّٰہ وھوبہ کافر، ثمّ قال:باٴبی واُمّی المسمّی باسمی والمکنّی بکنیتی، السابع من ولدی،باٴبی من یملاٴ الاٴ رض عدلاً وقسطاًکما ملئت ظلماً وجوراً۔
یااٴباحمزۃ، من اٴدرکہ فیسلم لہ ما سلّم لمحمّد وعلیّ فقد وجبت لہ الجنۃ، ومن لم یسلّم فقد حرّم اللّٰہ علیہ الجنّۃ وماٴواہ النار وبئس مثوی الظالیمن۔(۱۰)
اے ابوحمزہ ! وہ چیزیں جن کوپروردگار عالم نے حتمی قرا ردیا ہے وہ ہمارے قائم(عج)کا قیام ہے اور جو کچھ ہم نے کہا اس میں اگر کوئی شک کرے تو وہ ایسی حالت میں پروردگار عالم سے ملاقات کرے گا کہ کافر ہو گا ۔
پھر فرمایا :ہمارے ماں باپ ان پر قربان ان کا نام ہمارے نام پر ہے اور ان کی کنیت ہماری کنیت پر رکھی گئی ہے وہ ہماری ساتویں پشت میں ہو گا ،میر ے باپ ان پر قربان جو پوری زمین کو عدل و انصاف سے ویسے بھر دےں گے جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی ۔
اے ابا حمزہ جو بھی ان کے زمانہ میں ان کے سامنے جائے بالکل اسی طرح تسلیم ہو جائے جیسے محمدو علی علیہما السلام کی بارگاہ میں تسلیم تھا تو اس پر جنت واجب ہے اور جو ان کے سامنے تسلیم نہ ہو، توپروردگار عالم بہشت اس پر حرام کردے گااو راسکا ٹھکانہ آتش ہے جوکہ ظالموںکے لئے بہت ہی بری جگہ ہے۔
۹۔ امام صادق علیہ السلام :
اگر ہم ان کے زمانہ میں ہوں تو جب تک زندہ ہوں ان کی خدمت کریں گے۔
اس کلام کو امام صادق علیہ السلام نے اسوقت فرمایا جب حضرت بقیت اللہ ارواحنا فداہ کے متعلق آپ سے سوال کیا گیا :
ھل ولد القائم؟
قال:لا، ولو اٴدرکتہ لخدمتہ اٴیام حیاتی۔(۱۱)
کیا حضرت قائم کی ولادت ہو گئی ہے ؟تو حضرت نے فرمایا :نہیں ،اگر میں انھیں دیکھوں تو اپنی پوری زندگی ان کی خدمت کرونگا ۔
۱۰۔ امام صادق علیہ السلام
میں نے نور آل محمد (علیہ السلام )کے لئے دعا کی عباد بن محمد مدائنی کہتے ہیں ،امام صادق علیہ السلام نے نماز ظہر کے بعد دعا کے لئے ہاتھ بلند کیا اور دعا فرمائی ہم نے کہا ہماری جان آپ پر قربان ہو ،آپ نے اپنے لئے دعا کی ؟ فرمایا :
دعوت لنور آل محمدعلیہم السلام وسائقھم والمنتقم باٴمراللّٰہ من اعدائھم۔ (۱۲)
نور آل محمد (علیہم السلام)غایب ہے اورجو امر خدا کی بنا پر ان کے دشمنوں سے انتقام لے گا اس کے لئے دعا کی ۔
البتہ خاندان وحی میں سبھی نور ہیں اور ان کی معرفت خدا کی معرفت کی نورانیت کی بنا پر ہے لیکن امام صادق علیہ السلام کے بیان کے مطابق اس روایت میں آنحضرت نور الانوار ہیں ۔
۱۱۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام :
میرے والد اس پر قربان جائیں جس پر خدا کی راہ میں ملامت کرنے والوں کی ملامت اثر انداز نہیں ہوتی میرے والد اس پر قربان جو خدا کے امر سے قیام کرے گا ۔
یحییٰ بن نوفلی کا بیان ہے :
حضرت امام موسیٰ بن جعفر علیہما السلام نے نماز عصر کے بعد اپنے ہاتھوں کو دعا کے لئے بلند کرکے ایک دعا پڑھی ہم نے حضرت علیہ السلام سے عرض کیا آپنے کس کے لئے دعا کی ۔
قال: ذلک المہدی من آل محمد علیھم السلام قال:
باٴبی المنبدح البطن،المقرون الحاجبین، اٴحمش الساقین، بعید مابین المنکبین، اٴسمراللون، یعتادہ مع سمرتہ صفرۃ من سھر اللیل، باٴبی من لیلہ یرعی النجوم ساجداً وراکعاً، باٴبی من لا یاٴخذھ فی اللّٰہ لومۃ لائم، مصباح الدجیٰ، باٴبی القائم باٴمر اللّٰہ۔(۱۳)
حضرت نے فرمایا : مھدی آل محمد(عج)کے لئے۔
فرمایا : میرے والد اس وجود پر قربان جائیں جس کی ابرو ملی ہوئی ہے، پنڈلیاں پتلی ہیں چارشانہ قوی ہیکل اور گندم گوں ہے اور تہجد وشب زندہ داری کی وجہ سے رنگ زرد ہے۔
میرے والد اس پر قربان جو راتوں کوسجدہ ورکوع کی حالت میں ستاروں کے غروب ہونے کی رعایت کرتا ہے ۔
میرے والد اس پر قربان جو خدا کے حکم سے قیام کرے گا ۔
۱۲۔ حضرت امام رضاعلیہ السلام
میرے ماں باپ ان پر قربان وہ ہمارے جد کے ہمنام اور ہمارے و حضرت موسیٰ علیہ السلام کے شبیہ ہیں۔
اس کلام کو حضرت امام رضا علیہ السلام نے امام عصر (عج)کی غیبت کے زمانہ میں برپا ہونے والے شدید فتنہ کے تذکرہ کے بعد فرمایا :
یہ فتنے اس درجہ شدید اور ویران کن ہیں کہ نہایت ہوشیار اور زیرک افراد کو بھی اپنے دام میں گرفتار کر لیںگے ۔
گرچہ وہ دین اور دینداری کے مدعی ہیں لیکن ان کی گمراہی کی وجہ سے امام عصر ارواحنا فداہ کو اس طرح غربت و تنہائی گھیر لے گی کہ آسمان و زمین او رہر آگاہ اور دردمند دل رکھنے والا انسان حضرت (عج)کے لئے گریہ کرے گا ،اس جگہ حضرت امام رضا علیہ السلام کے کلام پر توجہ فرمائیں :
لابدّ من فتنۃ صمّاء صیلم یسقط فیہا کلّ بطانۃ و ولیجۃ، وذلک عند فقدان الشیعۃ الثالث من ولدی،یبکی علیہ اٴہل السماء و اھل الاٴرض،وکلّ حریّ وحرّان وکلّ حزین ولھفان۔
ثمّ قال علیہ السلام:باٴبی واٴمّی سمّی جدّی وشبیہی وشبیہ موسی بن عمران علیہ السلام علیہ جیوب النور یتوقّد من شعاع ضیاء القدس۔(۱۴)
ناگزیر نہایت ہی سخت اور سنگین فتنہ واقع ہوگا ،جس میں ہر رازدار اور منتخب فرد (دوام نہ لاسکے گا)اورگر پڑےگا اور یہ اس وقت ہوگا کہ جب ہمارے فرزندوں میں تیسرے فرزند کو شیعہ کھودیں گے اس پر اہل آسمان وزمین گریہ کریں گے تلاش میں رہنے والا ہر مرد و عورت اور ہر غمگین و حسرت زدہ فرد اس پر گریہ کرےگا ۔
پھر فرمایا :ہمارے ماں باپ اس پر قربان جو ہمارے جد رسول اللہ (ص)کا ہمنام اور موسیٰ بن عمران علیہ السلام کا شبیہ ہے اس کے (جسم )پر نورانی پیراہن ہے کہ جوقدس کی شعاعوں سے ضیاء حاصل کرتا ہے ۔(۱۵)
کتاب ”تنزیہ الخاطر“میں امام رضا علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت علیہ السلام ایک نشست میں لفظ قائم کے ذکر کے وقت خود کھڑے ہوے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو سر پر رکھااور کہا:
” اللھم عَجِّلْ فرجہ و سَہِّل مخرجہ“
اور پھر آنحضرت(عج)کی حکومت کی خصوصیت کے متعلق لوگوں سے بیان فرمایا ۔
مرحوم محدث نوری نے (نجم الثاقب )میں فرمایا حضرت امام عصرارواحنا فداہ کا نام بالخصوص آنحضرت (عج)کا مخصوص لقب سننے کے بعد کھڑے ہو جانا تمام ممالک میں سارے شیعوں کی روش و سیرت ہے اور عرب،عجم،ترک،دیلم حتیٰ اہل سنت بھی اس سیرت پر عمل کرتے ہیں (۱۶)
مرحوم علامہ امینی (الغدیر )میںلکھتے ہیں :
روایت ہوئی ہے کہ جب دعبل نے امام رضا علیہ السلام کے لئے قصیدہ پڑھا اور حضرت حجت (عج)کو یاد کیا :
فلولا الّذی اٴرجوہ فی الیوم اٴو غدٍ
تقطع نفسی اثرھم حسراتی
خروج اِمام لامحالۃ خارج
یقوم علی اسم اللّٰہ والبرکات
توحضرت امام رضا علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں کوسر پر رکھا اور اداے احترام فرمایا اور ساتھ ہی حضرت کے ظہورکے لئے دعا فرمائی ۔ (۱۷)
اوراپنے اس مقدمہ کواس روایت پر تمام کرتا ہوں:امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ جب حضرت حجت ارواحنا فداہ کے القاب میں لفظ قائم کا ذکر ہو تو اس وقت کھڑے ہونے کی علت کیا ہے ؟امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :
اس وجہ سے کہ آپ کے لئے طویل غیبت ہے اور بہت ہی محبت کے ساتھ آنحضرت(عج) اپنے دوستوں میں ان کی طرف دیکھتے ہیں جو آپ کو اس لقب سے یاد کرے جو آپ کی حکومت اور غربت کے متعلق حسرت پر دلالت کرتا ہے اور وہ بندہ جو اپنے آقا کے لئے خضوع سے پیش آتا ہے ،اسے تعظیم اس طرح کرنی چاہئے کہ جب اس کا آقا اپنی پرجلالت نگاہوں سے اس کی طرف دیکھے تو اس کے سامنے اٹھ کر کھڑا ہو جائے لہٰذا جو بھی اس نام کوزبان پر جاری کرے اسے کھڑا ہونا چاہئے اور پروردگار عالم سے فرج میں تعجیل طلب کرنی چاہئے ۔ (۱۸)
پروردگار عالم سے دعا ہے کہ ہمیں اہل بیت علیہم السلام کے واقعی شیعوں میں قراردے تاکہ ہم ان بزرگ ہستےوں کے عملاً پیروہوں۔
وماتوفیقی الا باللّٰہ
مرتضیٰ مجتھدی سیستانی
۱)۔ کفایۃ الاثر :۱۵۸،بحار الانوار :ج۳۶ص۳۳۷وج۵۱ص۱۰۹․
۲)۔ بحار الانوار :ج۵۱ص۱۳۱
۳)۔ حضرت نرجس خاتون علیہاالسلام روم کی شاہزادی اور خاندان وحی سے ملحق ہونے کی غرض سے انھوں نے کنیزوں کا لباس پہنا اور حضرت بقیۃ اللہ الاعظم کی ماں ہونے کا افتخار حاصل کیا اور کنیزوں کا لباس پہننے اور کنیزوں میں مخلوط ہونے کی وجہ سے انھیں روایات میں بہترین کنیزکے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔
۴)۔ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۳۶
۵)۔ مرحوم نعمانی کی الغیبۃ ص ۲۲۹
۶)۔بحارالانوار ج۵۱ص۱۲۱
۷)۔ بحارالانوار ج ۵۱ص۱۱۵
۸)۔ نہج البلاغہ فیض الاسلام خطبہ ۲۶ص ۹۲
۹)۔ مرحوم نعمانی کی الغیبۃ ص۲۷۳
۱۰)۔ بحار الانوار ج۵۱ص۱۳۹ج۲۴ص۲۴۱ج۳۶ص۳۹۴
۱۱)۔ مرحوم نعمانی کی الغیبۃ ص۲۷۳ بحارالانوار ج ۵۱ ص۱۴۸ ،امام حسین علیہ السلام او رامام جعفر علیہ السلام کی کنیت ایک ہونے کی وجہ صاحب ” عقد الدرر “ سے چوک ہوئی ہے اور امام صادق علیہ السلام کی بہت سی روایتوں کی نسبت امام حسین علیہ السلام کی طرف دی ہے۔
۱۲)۔ فلاح السائل ص ۱۷۰
۱۳)۔ بحار الانوار ج۸۶ ص۸۱
۱۴)۔ مرحوم نعمانی کی الغیبۃ ص۱۸۰ ،کمال الدین ص۳۷۰ ،بحار الانوار ج۱۵ص ۱۵۲،الزام الناصب ج۱ص۲۲۱
۱۵)۔ اس روایت سے مشابہ روایت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرچکے ہیں ۔
۱۶)۔ الزام الناصب ج۱ص ۲۷۱
۱۷)۔ الغدیر :ج ۲ص ۳۶۱
۱۸)۔ الزام الناصب ج۱ص ۲۷۱
source : http://www.mahdimission.com