قال حضرت محمد صلى الله عليه وآله وسلم انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی
اس میں کوئی شک نہیں کہ مکتب تشیّع میں امامت کو خاصّ اھمیت حاصل ہےاور اس کو اساسی اصول میں شمار کیا جاتا ہے نسان کسی بہی صورت میں آسمانی رہبری و ہدایت سے بے نیاز نہیں ہے
اس اسمانی ہدایت کی ذمّہ داری اس وقت تک حضرت رسالتمآب (ص)کے دوش مبارک پر ہے جب تک آپ (ص) کا سایہ امّت پر باقی ہے اور نبوّت ختم نہیں ہو ئی اور جیسے ہی نبوت ختم ہوئی ویسے ہی وہ آسمانی رہبری وہدایت کا زیور اور یہ الہی وظیفہ امام معصوم کے حوالے کیا جاتا ہے لیکن یہ الہی منصب ہے انسانون کا اس کے انتخاب میں کوئی عمل دخل نہیں ہے اور رسول اکرم (ص)نے اللہ تعالی کے حکم کی فرمانبرداری کرتے ہوۓ ان افراد کا مختلف مقامات پر تعارف کروایا جن کی ذمّہ داری آسمانی ہدایت کے علم کو اٹھا کر آگے چلنا تہا رسالتمآب نے (ص)حجج الہی کے تمام اوصاف بتادیۓ بعض جگہوں پہ ہاتھہ بلند کرکے بتلایا کہ ہدایت کا یہ بار سنگین میرے بعد ان افراد پر ہے اپنی ولایت کا سب سے اقرار لیتے ہوۓ اپنے خلفاء کی ولایت کا سب سے عہد ومیثاق لیا یہ سب اس لیۓ تہا کہ معاندین کا عذر ختم ہو جائے ۔
امامت کا منصب اس سے بالاتر وبرتر ہے کہ لوگ اپنی عقلوں سے اس تک رسائی حاصل کر سکیں امامت انبیاء کی منزلت ،اللہ کی خلافت اور رسول اللہ (ص) کی نیابت کا نام ہے لہذا یہ منصب فقط ان افراد کا حق ہے جن کو اللہ چن کر اپنے رسول (ص)کے ذریعے تعارف کرواۓ ۔
اس عظیم منصب کا صرف وہی حقدار ہے جو مظہر صفات خدا ہو ۔
امامت زمام دین ،نظام مسلمین صلاح دنیا اور مؤمنین کی عزت و وقار کا نام ہے۔
امام حجت خدا ہوتا ہے اگر زمین ایک لحظ کے لئے بہی خالی ہو جاۓ تو اپنے ساکنین کے ساتھہ دہنس جاۓ گی ۔
جب تک دار تکلیف باقی ہے اس وقت تک حجت خدا امام حق کا ہونا ضروری ہے بحرحال امامت کی معرفت کے بغیر موت جاھلیت والی موت ہے اب سؤال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں حجت خدا نائب مصطفی (ص)کون ہے؟؟؟
حضور(ص) نے اپنی امت کو یہ بشارت دی کہ جہل کی تاریکی دور کرنے ،ظلم وستم کا قلع قمع کرنے اور عدل کا پرچم لہرانے، کلمہ حق کو بلند کرنے اور اسلام کو تمام ادیان پر غلبہ عطاکرنے والا مھدیّ ضرور آئے گا ۔
ہماری بحث ایسے مھدیّ موعد(ع)کے بارے میں 12 فصلوں اور خاتمہ پر مشتمل ہے ہماری بحث کا عمدہ ہدف مھدویت شخصی کا اثبات اور مھدویت نوعی کا بطلان ہے ۔
پہلی فصل:
اجمالی تعارف
نام: م۔ح۔م۔د
والد گرامی: حضرت امام حسن عسکری (علیھما السلام)
والدہ: نرجس خاتون (ملیکہ اور صقیل بہی ذکر ہواہے)
کنیت: ابوالقاسم ، اباصالح
القاب: مھدی،بقیۃ اللہ ،منتظر،صاحب الامر،صاحب الزّمان قائم ،خلف صالح و۔۔۔۔۔۔
شجرۂنسب: محمّد بن حسن بن علیّ بن محمد بن علیّ بن موسی بن جعفربن محمّد بن علیّ بن حسن بن علیّ بن ابیطالب علیھم السلام۔
تاریخ ولادت: جمعۃ المبارک 15 شعبان المعظم سن 255ھہ۔
محلّ ولادت: سامراء
سال آغاز امامت:260ھہ(آغاز امامت کے وقت حضرت مھدی (ع)کی عمر پانج برس تہی)
آغاز غیبت صغری:260ھہ
آغازغیبت کبری:329ھہ
مدّت غیبت صغری:تقریبا70(ستر سال)
مدّت غیبت کبری: اللہ اعلم (اللہ بھترجانتا ہے)
مدّت امامت: اللہ اعلم
عمر مبارک: اللہ اعلم
محل ظھور:وادئ حق کعبہ معلّی
نوّاب اربعہ:
1۔ عثمان بن سعید عمروی (متوفی سن 257 ھہ)
2۔ محمّد بن عثمان عمروی (متوفی سن 304)
3۔ حسین بن روح نوبختی (متوفی سن 336ھہ)
4۔ علیّ بن محمّد سمری (متوفی329 ھہ)
نوٹ: اس فصل میں مذکورہ مطالب حضرت مہدی (ع) کی حیات طیبہ سے مربوط کتب میں مندرج ہیں لہذا حوالہ ذکر کرنے سے اعراض کرتے ہیں ۔
دوسری فصل:
تواتر احادیث حضرت مھدیّ(ع)
وہ احادیث جن میں حضرت مھدیّ(ع) کا ذکر پایا جاتا ہے ، فریقین کی نظر میں متواتر ہیں ہم یہان فقط کجھہ علماء اھل سنت کے اقوال کو ذکر کرتے ہیں :
1۔ زینی دحلان لکھتے ہیں : (والاحادیث التی جاء فیھا ذکر ظھورالمھدی (ع) کثیرۃ ) 1
اوروہ احادیث جن میں حضرت مھدیّ کے ظہور کا ذکر ہوا ہے زیادہ اور متواتر ہیں ۔
2۔شیخ محمّد بن رسول الحسینی البرزنجی اپنی کتاب (الاشاعۃ لاشراط السّاعۃ میں یوں رقم طراز ہیں :
( قدعلمت انّ احادیث وجود المھدی وخروجہ آخر الزّمان و انّہ من عترۃ الرّسول (ص) من ولد فاطمۃ بلغت حدّالتواتر المعنویّ فلامعنی لانکارھا) 2
بتحقیق آپ جان چکے ہیں کہ احادیث وجود اور خروج مھدیّ آخری زمانہ میں اور یہ کہ مھدیّ عترت رسول (ص) اوراولاد فاطمہ میں سے ہیں تواتر معنوی کی حدّ کو پہنچ چکی ہیں بس ایسی احادیث کے انکار کی کوئی معنی اور وجہ نہیں ہے ۔
3۔ابن حجر ھیثمی اپنی کتاب " الصواعق المحرقہ " میں لکہتے ہیں
(والاحادیث التیّ جاء فیھا ذکر ظھور المھدی کثیرۃ متواترۃ ) 3
یہ عین عبارت زینی دحلان بہی ہے جس کا اوپر ذکر ہو چکاہے ۔
4۔ ابوطالب تجلیل تبریزی علاّمہ محمّد بن حسن آسفوی کی کتاب "مناقب الشافی" سے نقل کرتے ہیں:
(وقد تواترت الاخبار عن رسول اللہ (ص)بذکر المھدیّ وانّہ من اھل بیتہ)4
اور بتحقیق حضرت رسول خدا(ص)سے منقول روایات حضرت مہدی(ع) کے ذکر کے بارے میں اور اس میں کہ وہ اھل بیت رسول خدا(ص)سے ہیں ، متواتر ہیں۔
5۔علاّمہ قرطبی اپنی تفسیر "الجامع لاحکام القرآن " میں لکہتے ہیں:
(الاخبار الصحاح قد تواترت علی انّ المھدیّ من عترۃ الرّسول (ص)) 5
اور بتحقیق صحیح روایات اس امر پر متواتر ہیں کہ مہدیّ نسل رسول خدا (ص) سے ہیں ۔
6 ۔ سید فاخر موسوی ابوالحسن آلسحری سے نقل کرتے ہیں:
(وقد تواترت الاخبار واستفاضت بکثرۃ رواتھاعن المصطفی (ص) بمجیئ المھدی وانہ من اھل البیت۔۔۔۔) 6
بتحقیق روات کی کثرت کی وجہ سے حضرت محمّد مصطفی (ع)سے منقول روایات خروج اور ظھور حضرت مھدیّ کے متعلق اور اس بارے میں کہ وہ اھل بیت رسول خدا (ص) سے ہیں مستفیضہ اور متواتر ہیں ۔
7۔علامہ شیخ محمّد بن احمد سفارینی حنبلی اپنی کتاب " لوائح الانوار البھّیۃ " میں لکھتے ہیں :
( کثرت بخروجہ الروایات حتّی بلغت حد التواتر المعنوی فلا معنی لانکارھا ) 7
8۔علامہ شبلنجی اپنی کتاب " نورالابصار'' میں تحریر کرتے ہیں:(تواترت الاخبار عن النبی (ص) انہ من اھل بیتہ وانہ یملا الارض عدلا) 8
حضرت رسول اکرم (ص) سے صادر ہونے والی روایات اس امر پر متواتر ہیں کہ مھدیّ آنحضرت (ص)کے اھل بیت میں سے ہیں اور زمین کو عدل سے بھر دیں گے ۔
9۔علاّمہ ابن صبان اپنی کتاب " اسعاف الرّغبین " میں لکہتے ہیں:
(وقد تواترات الاخبار عن النبی (ص) بخروجہ و انّہ من اھل بیتہ وانہ یملا الارض عدلا ) 9
بتحقیق حضور اکرم (ص)سے صادر ہونے والی روایات حضرت مھدّی (ع) کے ظھور پر اور اس پہ کہ وہ اھل بیت رسول (ص)میں سے ہیں اور وہ زمین کو عدل سے بھر دیں گے ، متواتر ہیں ۔
10- حافظ ابن حجر عسقلانی (م 852ھہ)اپنی کتاب " تھذیب التھذیب " میں محمّد بن حسین آبری سے نقل کرتے ہیں:
(وقد تواترت الاخبار واستفاضت بکثرة رواتها عن المصطفی (ص)فی المھدیّ وانہ من اھل بیتہ ۔۔۔ ) 10
بتحقیق راویون کی کثرت کی وجہ سے حضرت مصطفی (ص)
سے منقول روایات حضرت مھدی کے متعلق اور اس امر کے بارے میں کہ مھدیّ (ع) آ نحضرت ( ص ) کے اھل بیت سے ہیں ، مستفیضہ و متواترہ ہیں ۔
11 ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی " فتح الباری " میں لکھتے ہیں :
( و فی صلاۃ عیسی ( ع ) خلف رجل من ھذ ہ الامّۃ مع کونہ فی آخر الزمان و قرب قیام الساعۃ دلالۃ للصحیح من الاقوال : انّ الارض لا تخلوا من قائم اللہ بحجّۃ ) 11
حضرت عیسی ( ع) کی اس امّت میں ایک شخص کے پیچھے نماز پڑہنے میں حالانکہ یہ امر آخری زمانے میں قیامت برپا ہونے کے قریب ہوگا ، صحیح قول کی دلیل ہے کہ : زمیں حجت خدا سے خالی نہیں رہتی ۔
مجھے نہیں معلوم ابن حجر کی نظر میں عیسی ( ع ) کا امام اور مقتدی کون ہے ؟
اور کیوں اس شخصیت کو واضح بیان نہیں کیا جاتا ؟
البتہ بغض بیان حقیقت سے مانع ہوتا ہے ۔
12 ۔ قاصی محمّد بن علی شوکانی نے موضوع مھدویت کے بارے میں اس نام کے ساتھہ ( التوضیح فی تواتر ما جاء فی المنتظر والدجال و المسیح ) رسالہ لکھا ہے اور اس رسالہ میں پچاس حدیثیں حضرت مھدی کے بارےمیں تحریر کی میں ۔ وہ لکھتے ہیں :
( ۔۔۔۔ فتقر بجمیع ما سقناہ انّ الا حادیث الواردۃ فی المھدی المنتظر (ع) متواترۃ ۔۔۔۔۔) 12
یعنی جو کچھہ ہم بیان کر چکے ہیں اس سے ثابت ہوا کہ وہ
احادیث جو مھدی منتظر کے بارے میں وارد ہوئی ہیں ، متواتر ہیں ۔
تیسری فصل :
حضرت مھدی (عج) کا نام اور آپکی کنیت
متعدد احادیث رسول اکرم (ص) میں حضرت مھدی (عج) کا نام اور ان کی کنیت کا ذکرآیا ہے اور خود آنحضرت (عج) کا مشخص و معین کرنا مھدویت نوعی کے بطلان پر محکم دلیل ہے ۔ ہم ذیل میں حضور اکرم "ص" کی چند احادیث کو تبرکا و تیمنا ذکر کرتے ہیں :
1۔ طبرانی نے اپنی کتاب" المعجم الکبیر " میں عبد اللہ ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا :
(یخرج رجل من اھل بیتی یواطئ اسمہ اسمی و خلقہ خلقی یملاھا قسطا و عدلا کما ملئت ظلما و جورا ) 13
میرے اھل بیت سے ایک شخص ظہور کرے گا اس کا نام میرے نام کے موافق ہوگا ۔ وہ اس کو ( زمین ) اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گا جس طرح وہ جور سے بھر چکی ہوگی ۔
اس حدیث میں شاھد (یواطئ اسمہ اسمی ) ہے پوری حدیث کو اسی ایک جملہ کی وجہ سے نقل کیا ہے یہ لفظ "یواطی " فعل مضارع ہے اس کی فعل ماضی واطا ہے اور اس کا مصدر مواطاۃ ہے مواطاۃ مساوات و موافقت کرنا کے معنی میں ہے لھذا یواطی یعنی یوافق و یساوی اور ہر مسلمان آنحضرت (ص) کا نام جانتا ہے وہ مسلمان کیسا ہے جس کو اپنے نبی کا نام ہی نہ آتا ہو!!!
ہاں میرے رسول کا اسم گرامی محمد (ص) ہے
امّت کے لئے صحیح و روا نہیں تہا کہ حضور کی موجودگی میں آپ کو نام سے پکارا جائے اور اس چیز کو مسلمانوں کے لئے حرام قرار دیا گیا تہا لھذا ادب کی پاسداری کرنے کے والے، عظمت رسول(ص) کا خیال کرنے والے ،آپ (ص) کے نام پہ مر مٹنے والے ،آپ پہ فدا ہونے والے اصحاب کرام یا محمّد کہہ کر نہیں بلاتے تہے ہاں جب بلانا مقصودہوتا تہا تو قرآن کی پیروی کرتے ہو ئے "یا رسول اللہ " یا نبیّ اللہ و ۔۔۔ کہتے تہے اور اپنی آوازوں کو آنحضرت (ص) کی آواز سے ھمیشہ نیچے رکھتے تہے اور اپنے اس عمل کے ذریعہ عالم اسلام کو بتانا چاہتے تہے کہ ہم رسول (ص) کی طرح نہیں ہیں ہم غلام ہیں وہ ہمارامولا ہم رعایا ہین وہ ہمارے سردار ہیں ۔
ہاں البتہ رسول اللہ (ص) کی مانند نصّ قرآنی کے مطابق فقط آل محمّد (ص) ہیں اس لئے کہ وہ رسول (ص) سے اور رسول ان سے ہیں یہ ایک حقیقت کا نام ہیں ، ظاہر میں ان کے اسما ء و صفات و حالات مختلف ہیں لیکن حقیقت میں سب ایک ہین اور ایک ہی نور سے ہیں ۔
آل محمّد (ص) کے سیّد و سردار مولی الموحّدین امیر المؤمنین علی بن ابی طالب (ع) کو اللہ نفس رسول قرار دیتے ہوئے فرمایا:
(۔۔۔ فقل تعالوا ندع ابناءنا و ابنا ئکم و نساءنا و نسائکم و انفسنا و انفسکم ۔۔۔۔)(14)
اور ان سب کی عصمت و طہارت کو سب کے لئے عیاں کرتے ہوئے فرمایا : ( انّما یریداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا ) 15
بھر حال قرآن میں میرے رسول (ص) کے لئے کسی جگہ بھی "یا محمّد" کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا البتّہ محمّد رسول اللہ ، طہ ، یسیں، المزمل ، المدثر،
یا یھا النبی ، یا یّھا الرسول ۔۔۔۔۔۔ کو ضرور استعمال کیا گیا ہے ۔ حضرت امیر المؤمنین (ع) کو برادر رسول (ص) اور آپ کے علاوہ حضرت مھدی (ع) تک یابن رسول اللہ کہہ کر پکارتے تہے ۔
اسی سبب سے ہم یا مھدی ، یا ابا صالح ، یا حجۃ اللہ ، یا بقیّۃاللہ ، و ۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں لیکن کبھی بھی یا محمّد سے اپنے مولا کو نہیں پکارتے اس لئے کہ اپنے امام وقت کے نام لینے سے بعض روایات میں منع کیا گیا ہے اور اس لئے کہ کیوں کہ آپ کا نام ہمارے رسول (ص) کے نام کے مطابق و مساوی ہے ۔ لھذا حدّ اقل ادب کا یہ تقاضا ہے کہ اس طرح نہ پکارا جائے ۔
2 ۔ آنحضرت(ص) نے فرمایا :
( القائم المھدیّ من ولدی ، اسمہ اسمی ، وکنیتہ کنیتی ، اشبہ الناس بی خلقا و خلقا ۔ ) 16
قیام کرنے والا مھدی میری اولاد سے ہے اس کا نام میرا نام ہوگا ، اس کی کنیت میرے کنیت ہوگی ۔ وہ صورت (خلق ) کے لحاظ سے سب انسانوں سے میرے مشابھ ہوگا ۔ حضرت رسول اکرم (ص)کی کنیت ابوالقاسم ہے اور امام عصر (عج) کی کنیت بھی ابو القاسم ہے ۔
حضرت مھدی (عج) اشبہ الناس برسول اللہ (ص) خلقا و خلقا ہیں ۔ کیوں نہ ایسے ہو حالانکہ سب حقیقت واحدہ کے مصادیق ہین ، اللہ نے ان سب کو ایک ہی نور سے خلق فرمایا اور باقی مخلوق کو ان کی وجہ سے اور ان کے لئے خلق فرمایا ہے ۔
قرآن میں اخلاق رسول (ص) کے لئے اللہ نے یوں فرمایا :
( انّک لعلی خلق عظیم ) 17
جملہ اسمیہ ثبوت و دوام پر دلالت کرتا ہے اور جملہ اسمیّہ کا استعمال تاکید کے لئے ہوتا ہے اور اسمیّہ جملہ میں حروف مشبہ بالفعل کا استعمال بھی تاکید کی غرض سے ہوتا ہے اور لام تاکید کو بھی اسی ھدف کے پیش نظر لایا جاتا ہے ۔
اھل علم پہ مخفی نہیں کہ مسلسل تاکید اس وقت لائی جاتی ہے جب متکلّم کے کلام کا منکر موجود ہو ، لھذا اللہ تعالی نے نزول آیت سے لے کر بقائے تکلیف تک تمام منکران خلق رسول(ص) کی زبانوں پر اس آیت کے ذریعہ تالے لگا دیئے ۔
ہاں بیشک حضرت مھدی (ع) بھی اپنے جدّ بزرگوار کی طرح خلق عظیم کے مالک ہیں ۔
اے قلم کچھ آہستہ چل زیادہ روانی نہ دکہا اس لئے کہ "الظھورفائونڈیشن " والوں نے تیرے لئے بھت کم صفحات مقرر کئے ہیں ۔ قلم نے کہا : اگر ایسا ہی ہے تو آپ ہمیں اذن کتابت نہ دیں ہم نہیں لکھیں گے ۔ قلم کا یہ جواب سن کر ہم بے جواب ہو گئے اور خود سے کہا : کیوں اختصار سے کام نہیں لیتے ؛ اسی اختصار میں تیری بھتری اور بھلائی ہے ۔
3 ۔ عن عبداللہ بن مسعود قال رسول اللہ :
( یخرج فی آخرالزمان رجل من ولدی اسمہ کاسمی و کنیتہ ککنیتی، یملاالارض عدلا کما ملئت جورا ) 18
آخری زمانہ میں میری اولاد سے ایسا شخص خروج کرے گا جس کا نام میرے نام کی طرح ہوگا اور اسکی کنیت میری کنیت کی مانند ہوگی ؛ وہ زمین کو اسی طرح عدل سے بھر دیں گے جس طرح وہ جور سے پر ہوچکی ہوگی ۔
4 ۔ عن حذیفہ قال : قال رسول اللہ (ص) :
( لو لم یبق من الدنیا الّا یوم واحد لبعث اللہ رجلا اسمہ اسمی و خلقہ خلقی ) (19)
حضرت حذیفہ (رض) مرویّ ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا :
اگر دنیا کا صرف ایک دن باقی رہے گا تو بھی حتما اللہ ایک ایسے شخص کو بھیجے گا جس کا نام اور خلق میرے نام اور خلق پر ہوگا ۔
5 ۔ عن جابر بن عبد اللہ الانصاری قال : قال رسول اللہ (ص) :
( المھدی من ولدی اسمہ اسمی و کنیتہ ککنیتی ۔۔۔۔۔ ) 20
مھدی (ع) میری اولاد سے ہوگا اس کا نام میرے نام پر ہوگا اور اسکی کنیت میری کنیت کی مانند ہوگی ۔
6 ۔ عن عبداللہ قال : قال رسول اللہ (ص)
( لا یذھب الدنیا حتّی یملک رجل من اھل بیتی یوافق اسمہ اسمی) 21
عبد اللہ (ابن مسعود ) سے مروی ہے انہوں نے کہا : رسول اللہ (ص) نے فرمایا : دنیا ختم نہیں ہوگی یھاں تک کہ میرے اھل بیت میں سے ایک شخص مالک ہوجائے ؛ اس کا نام میرے نام کے موافق ہوگا ۔
7 ۔ عن عبد اللہ عن النبی (ص) قال :
( یلی رجل من اھل بیتی یواطی اسمہ اسمی ) 22
عبد اللہ ( ابن مسعود ) سے روایت ہے کہ حضور (ص) نے فرمایا :
میرے اھل بیت میں سے ایک ایسا شخص خلیفہ ہوگا جس کا نام میرے نام کے برابر ہوگا ۔
8 ۔ عن عبد اللہ قال : قال رسول اللہ (ص):
( تذھب الدنیا حتّی یملک العرب رجل من اھل بیتی یواطی اسمہ اسمی ) 23
دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میرے اھل بیت میں سے ایک شخص پورے عرب کا مالک ہوجائے ؛ اس کا نام میرے نام کے مطابق ہوگا ۔
چو تھی فصل : حضرت امام مھدی ( ع) کا عترت و اھل بیت رسول سے ہونا
یہ بات متواتر روایات اسلام سے ثابت ہے کہ حضرت مھدی (ع) اولاد ، عترت اور اھل بیت رسول اکرم (ص) سےہیں ۔ ہم پہلے شیعہ منابع سے 8 احادیث اور پھر منابع عامّہ سے بارہ احادیث ذکر کرتے ہیں :
1 ۔ عن امّ سلمۃ قالت : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم یقول : ( المھدی من عترتی من ولد فاطمۃ )24
حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے انھوں نے فرمایا : میں نے خود رسول اللہ سے سنا کہ آپ (ص) نے فرمایا :
مھدیّ میری عترت( نسل) اور فاطمہ سلام اللہ علیھا کی اولاد سے ہوں گے ۔
2 : عن ابی سعید الخدری ، قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم یقول :
( انّ المھدی من عترتی من اھل بیتی ، یخرج فی آخرالزمان۔۔۔۔۔۔۔ ) 25
ابو سعید خدری سے ورایت ہے انھوں نے کہا : میں نے رسول اللہ (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : بتحقیق مھدی ّ میری نسل اور میری اھل بیت سے ہیں ۔ وہ آخری زمانہ میں ظاھر ہوں گے ۔
3 ۔ عن عبد اللہ بن مسعود ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم :
(لا تذھب الدنیا حتّی یلی امّتی رجل من اھل بیتی یقال لہ :المھدیّ۔ ) 26
عبد اللہ بن مسعود سے ورایت ہے انہوں نے کہا : رسول اللہ نے فرمایا : دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میری اھل بیت میں سے ایک ایسا شخص میری امّت کا امام اور سرپرست ہوجائے کہ جس کو مھدی (ع) کہا جائے گا ۔
4 ۔ عن عبداللہ ابن مسعود ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :
(لا تقوم السّاعۃ حتّی یملک رجل من ولدی یوافق اسمہ اسمی ۔۔) 27
عبد اللہ ابن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہوگی یہاں تک کہ میری اولاد سے ایسا شخص ( پوری زمین کا ) مالک ہوجائے جس کا نام میرے نام کے برابر ہو ۔
5 ۔ عن جبر ابن نوف ابی الودّاک ، قال : قلت لابی سعید الخدری : ۔۔۔۔فقال ابو سعید :۔۔۔۔۔۔ ولکن سمعت رسول اللہ (ص) یقول :
( ۔۔۔۔۔ تمّ یبعت اللہ عزّ و جلّ رجلا منّی و من عترتی ۔۔۔۔۔) 28
جبر ابن نوف ابی الوداک سے مروی ہے انہوں نے کہا : میں نے ابو سعید خدری سے کہا : ۔۔۔۔۔ پھر ابو سعید خدری کہنے لگا :۔۔۔۔۔۔ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ۔۔۔۔۔ پھر اللہ عزّ و جلّ مجھہ سے اور میری عترت سے ایک شخص کو بھیجے گا ۔۔۔۔۔ ( منّی ) سے مراد میری نسل ہے اور اس کے بعد والا کلمہ ( من عترتی ) اس کے لئے مفسر ومبیّن ہے ۔
6 ۔ عن جابر بن عبداللہ الانصاری ، قال : قال رسول اللہ (ص)( المھدی من ولدی۔۔۔۔۔ ) 29
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے مروی ہے انھوں نے کہا : رسول اللہ (ص) نے فرمایا : مھدی میری اولاد سے ہوں گے ۔
7 عن الصّادق جعفر بن محمّد ، عن آبائہ علیھم السلام ، قال : رسول اللہ (ص)( المھدی من ولدی ۔۔۔۔۔۔۔) 30
حضرت امام صادق علیہ آلاف التحیّۃ والثناء اپنے آباء واجداد علیھم آلاف التحیّۃ والثناء سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا : مھدی میری اولاد سے ہوں گے ۔
8 ۔ عن الامام السجّاد علیہ السلام ، قال : رسول اللہ (ص) :( القائم من ولدی ۔۔۔۔۔ ) 31
حضرت امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں: رسول اللہ(ص)نے فرمایا : قائم "عج" میری اولاد میں سے ہوں گے ۔
مختصر وضاحت :
مذکورہ روایات میں غور و فکر کرنے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ وہ مھدی جس کی بشارت آسمانی کتب میں دی گئی ہے اور جس کے بارے میں قرآن کی متعدد آیات نازل ہوئی ہیں ، اور جس کی خبر ہمیں پیغمبر اسلام (ص) نے متعدد مقامات پر مختلف الفاظ کے ساتھ دی ہے ۔
اس کا آخری زمانہ میں ظھور اور عالمی حکومت قائم کرنا تمام ادیان آسمانی کا ایک متّفقہ امر ہے ۔یہ عقیدہ فقط ہمارے ساتھہ مخصوص نہیں ہے بلکہ عالم اسلام کا ایک مشترکہ نظریّہ و عقیدہ ہے ۔ ایسا موعود ایک خاص شخص ہے جس کا نام بھی معیّن ہے اور مشخص ہے ۔ اس کا نام بھی اللہ کی جانب سے
( وما ینطق عن الھوی ان ھو الّا وحی یوحی )32
کے مالک نے متعدد جگھون پہ بیان کیا ہے ،اور عصمت و ولایت عظمی کے مالک نے مھدی موعود کی کنیت بھی بیان فرمائی ہے ۔
اسی مناسبت سےہم تیسری فصل میں کچھ اقوال رسول اکرم (ص) کو ذکر کر چکے ہیں ۔اگر خوف تطویل نہ ہوتا تو بہت زیادہ احادیث کو ذکر کرتے اور ہر حدیث کی کچھ وضاحت بھی بیان کرتے ۔
ہمارے رسول (ص)نے اس مھدی موعود کا نسب شریف بھی عالم اسلام کے لئے بیان فرمایا ہے تاکہ کسی کے لئے حق کی پذیرش میں کوئی عذر و حجت باقی نہ رہے لھذا ہر عذر کو منقطع کرتے ہوئے اور ہر حجت کو باطل قرار دیتے ہوئے اس مھدی موعود کا نسب اطھر بہی بیان فرمایا ہے ۔ اس امر پر بھی روایات متواتر ہیں ۔ ہم اس فصل کی ابتداء میں بعض احادیث کو شیعہ منابع سے ذکر کیا ہے ۔
مذکورہ احادیث بھی بعنوان مثال ذکر کی گئی ہیں ورنہ حقیقت میں احادیث احصاء سے باہر ہیں ۔ بھر حال یہ تمام احادیث مھدویت نوعی کو باطل کر رہی ہیں ۔
مذکورہ احادیث پر ایک اجمالی نظر
پہلی حدیث میں (عترتی ) آیا ہے ؛ عترت کی معنی اولاد کے ہیں لیکن اصطلاح میں عترت رسول (ص) اور اھل بیت رسول (ص) ایک ہی معنی کے دو لفظ ہیں ۔ لھذا مھدی میری عترت سے ہیں یعنی میری اولاد اور میرے اھل بیت (ع) میں سے ہے ۔ اور من ولد فاطمۃ بیان (عترتی ) ہے ۔
دوسری حدیث میں دونوں لفظ (عترتی ، اھل بیتی ) استعمال ہوۓ ہیں اور دوسرا لفظ یعنی اھل بیتی پہلے لفظ کی تفسیر کر رہا ہے ۔
تیسری روایت میں بھی لفظ (اھل بیتی ) استعمال ہوا ہے ۔
چوتھی حدیث میں ( من ولدی ) استعمال کیا گیا ہے ۔ لفظ وِلد ، وُلد ،وَلد، وَلَد میں مفرد اور جمع مساوی ہے لیکن کبھی وُلد بعنوان جمع استعمال کیا جاتا ہے یہاں اسی عنوان سے ذکر ہوا ہے ۔
اسی طرح چھٹی ، ساتویں اور آٹھویں حدیث میں بھی یہی لفظ استعمال ہوا ہے ۔ البتّہ پانچویں حدیث میں لفظ ( منّی و من عترتی ) استعمال ہوا ہے اور منّی سے مراد من عترتی ہے واو تفسیری ہے
منابع اھل سنّت سے کچھ احادیث :
1 ۔ عن علی ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :
( المھدی منّا اھل البیت یصلحہ اللہ فی لیلۃ ) 33
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے ، انھوں نے فرمایا : رسول اللہ (ص) نے ارشاد فرمایا : مھدی میری اھل بیت سے ہوگا ، اللہ اسے ایک ہی رات میں صالح بنا دے گا ۔
2 ۔ عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ (ص) :
( المھدیّ منّا اھل البیت ۔۔۔۔۔۔ ) 34
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا :
مھدی ہم اھلبیت سے ہوگا ۔۔۔۔۔۔
3 ۔ عن علی رضی اللہ عنہ عن النبی (ص) قال :
( لو لم یبق من الدھر الّا یوم لبعث اللہ رجلا من اھل بیتی یملا ھا عدلا کما ملئت جورا ) 35
حضرت علی علیہ السلام حضرت نبی اکرم (ص )سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے فرمایا : اگر دنیا کا فقط ایک دن رہ جائے گا تو یقینا اللہ میرے اھل بیت میں سے ایک ایسے شخص کو بھیجے گا جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم سے بھرچکی ہوگی ۔
4 ۔ عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ (ص
( لا تقوم الساعۃ حتّی تملا الارض ظلما و جورا و عدوانا ثمّ یخرج من اھل بیتی من یملاھا قسطا و عدلا ۔) 36
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا :
قیامت برپا نہیں ہوگی یہاں تک زمین ظلم و جور اور دشمنی و سر کشی سے بھر جائے گی ، پھر میرے اھل بیت سے ایسا شخص ظھور کرے گا جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا ۔
5 ۔ عن عبد اللہ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ (ص)
( لا تذھب الدنیا حتّی یملک العرب رجل من اھل بیتی یواطی اسمہ اسمی) 37
عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص ) نے فرمایا:
دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہو گی یہاں تک کہ میرے اھل بیت میں سے ایسا شخص عرب کا مالک بن جائے گا جس کا نام میرے نام کے برابر ہوگا ۔
یاد رہنا چاہیئے کہ یہاں عبد اللہ سے مراد عبداللہ ابن مسعود ہے ۔
6 ۔ عن عبد اللہ رضی اللہ عنہ عن النبی (ص) قال :
( یلی رجل من اھل بیتی یواطی اسمہ اسمی ) 38
عبد اللہ (ابن مسعود) سے روایت ہے کہ نبی اکرم (ص) نے فرمایا :
میرے اھل بیت میں سے ایک ایسا شحص خلیفہ ہوگا جس کا نام میرے نام کے مطابق ہوگا ۔
7 ۔ عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ (ص)
( لو لم یبق من الدنیا الّا لیلۃ لطوّل اللہ تلک الیلۃ حتّی یملک رجل من اھل بیتی یواطی اسمہ اسمی ۔۔۔۔۔۔ ) 39
(عبد اللہ) ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ (ص) فرمایا :
اگر دنیا کی فقط ایک رات ہی باقی رہ گئی تو اللہ اس رات کو اس قدر لمبا کردے گا یہان تک کہ میرے اھل بیت میں سے ایک ایسا شخص ( پوری زمین کا) مالک بنے گا جس کا نام میرے نام کے موافق و مساوی ہوگا ۔
8 ۔ عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ : سمعت رسول اللہ (ص) یقول : ( یخرج رجل من اھل بیتی یقول بسنّتی ۔۔۔۔۔ ) 40
ابو سعید خدری سے روایت ہے انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ (ص) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ آپ (ص)نے فرمایا :
میری اھل بیت میں سے ایک ایسا شخص ظھور کرے گا جو میری سنّت بتلائے گا۔
9 ۔ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال : حدّثنی خلیلی ابو القاسم (ص) قال: ( لا یقوم الساعۃ حتّی یخرج علیھم رجل من اھل بیتی ، فیضربھم حتّی یرجعوا الی الحق ) 41
ابو ھریرہ سے روایت ہے انھوں نے کہا : مجھے میرے خلیل ابو القاسم نے فرمایا :
قیامت اس وقت تک بپا نہیں ہوگی جب تک کہ میرے اھل بیت سے ایک شخص انسانوں میں ظاہر نہ ہو پس وہ لوگوں کو مارے گا حتّی کہ وہ حق کی طرف پلٹ آئیں گے ۔
10 ۔ عن عبد اللہ قال : قال رسول اللہ (ص) :
( لا تنقضی الایّام ولا یذھب الدھر حتّی یملک العرب رجل من اھل بیتی ، اسمہ یواطی اسمی ) 42
عبد اللہ ( ابن مسعود ) سے روایت ہے انھوں نے کہا : رسول اللہ (ص) نے فرمایا :
دن پورے نہیں ہون گے اور زمانہ ختم نہیں ہو گا یہاں تک کہ میرے اھل بیت میں سے ایک شخص پورے عرب کا مالک بن جائے گا ، اس کا نام میرے نام کے مطابق ہے ۔
11 ۔ عن ابن مسعود قال : قال رسول اللہ (ص)
( لا یذھب اللّیالی و الایّام حتّی یملک رجل من اھل بیتی یواطی اسمہ اسمی )43
ابن مسعود سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : رسول اللہ نے فرمایا :
راتیں اور دن ختم نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے اھل بیت میں سے ایک ایسا شخص مالک ہو جائے گا جس کا نام میرے نام کے موافق ہوگا ۔
12 ۔ عن علی رضی اللہ عنہ قال : قلت: یا رسول اللہ امنّا آل محمّد المھدی ام من غیرنا ؟ فقال:
( لا، بل منّا ، یختم اللہ بہ الدّین کما فتح بنا ، و بنا ینقذون من الفتنۃ کما انقذوا من الشّرک ۔۔۔۔) 44
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے آپ نے فرمایا : میں نے عرض کی یا رسول اللہ (ص) کیا مھدی ھم آل محمّد سے ہوں گے یا ہمارے علاوہ کسی اور سے ؟
تو آپ نے فرمایا: نہیں ، بلکہ وہ ہم ہی میں سے ہوں گے ، اللہ ان پر دین ختم فرمائے گا جس طرح ہم سے آغاز فرمایا ہے اور ہمارے ذریعے ہی لوگوں کو فتنہ سے بچایا جائے گا جس طرح انہیں شرک سے بچایا گیا ہے ۔۔۔۔۔
پانچویں فصل:
حضرت مہدیّ (ع) کا اولاد علیّ وبتول (ع) سے ہونا:
اس مطلب پر بھی روایات فریقین متواتر ہیں ہم اختصار کے پیش نظر چند احادیث منابع اھل سنّت سے پیش کرتے ہیں:
حضور اکرم (ص) نے فرمایا:
1۔(المھدی من ولد فاطمۃ ) 45
مھدیّ اولاد فاطمہ میں سے ہیں ۔
2۔(ابشری یا فاطمۃ المھدی منک) 46
اے فاطمہ بشارت ہو مہدی آپ کی اولاد سے ہیں۔
3۔حضرت امام حسین (ع) فرماتے ہیں رسول اکرم(ص) نے میری والدہ فاطمہ (س) سے فرمایا: (المھدیّ من ولدک)47
مھدیّ تیری اولاد سے ہیں۔
4۔ امّ سلمہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا :حضور اکرم (ص) نے فرمایا:
(المھدی من عترتی من ولد فاطمۃ )48
5۔ حضرت رسالتمآب (ص) نے حضرت امیرالمؤمنین علیّ (ع) کے ہاتھہ کو اٹہا کر فرمایا :
(یخرج من صلب ھذا فتی یملا الارض قسطاوعدلا) 49
اس کے صلب سے ایک جوان ظاھر ہوگا جو زمین کو عدل و انصاف سے بھردیگا۔
چھٹی فصل :
حضرت مھدیّ (ع)کا اولاد امام حسین (ع) اور ذریت حسین (ع)سے ہونا:
اس مطلب پر روایات زیادہ ہیں لیکن ہم فقط دو روایات منابع اہل سنت سے ذکر کرتے ہیں:
1۔ احمد بن عبداللہ طبری نے حذیفہ سے رسول اکرم (ص) کا یہ فرمان نقل کیاہے :
(لو لم یبق من الدنیا الاّ یوم واحد لطول اللہ ذالک الیوم حتی یبعث رجلا من ولدی اسمہ کاسمی فقال سلمان :من ایّ ولدک یا رسول اللہ ؟ قال :من ولدی ھذا و ضرب بیدہ علی الحسین (ع) ) 50
اگر دنیا کا فقط ایک دن باقی بچ جاۓ تو بہی اللہ اس دن کو یقینا طولانی قرار دے گا یہاں تک کہ میری اولاد سے ایک ایسے شخص کو مبعوث کرے گا جس کا نام میرے نام کی مانندہوگا سلمان نے عرض کی :اے اللہ کے رسول (ص) وہ آپ کے کس فرزند کی اولاد سے ہوگا ؟
فرمایا:میرے اس فرزند سے ہوگا یہ کہہ کر اپنے ہاتھہ کو حسین(ع) پہ رکھا۔
2۔ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک نعثل نامی یہودی حضرت رسالتمآب (ص)کی بارگاہ میں شرفیاب ہو کر عرض کرنے لگا :محمد (ص) آپ سے کجھہ ایسی چیزوں کے بارے میں پوچہنا چاہتاہوں جو مدّت سے میرے دل میں کہٹک رہی ہیں اگر آپ میرے ان سوالوں کا جواب دیں گے تو میں آپ کے ہاتھہ پر اسلام لاوں گا حضرت نے فرمایا ؛اے ابو عمارہ پوچہو۔(فا خبرنی عن وصّیک من ھو؟ فما من نبیّ الاّ ولہ وصی وانّ نبیا موسی بن عمران اوصی الی یوشع بن نون فقال نعم انّ وصیی والخلیفۃ من بعدی علیّ بن الی طالب وبعدہ :سبطای : الحسن والحسین یتلوہ تسعۃ من ولد الحسین ائمۃ الابرار فقال: یامحمد سمھم لی: قال نعم فاذامضی الحسین فابنہ علیّ واذامضی علیّ فابنہ محمد فاذامضی محمد فابنہ جعفرفاذامضی جعفرفابنہ موسی فاذامضی موسی فابنہ علی فاذامضی علیّ فابنہ محمد ثم ابنہ علیّ ثم ابنہ الحسن ثم الحجۃ ابن الحسن فھذہ اثناعشر ائمۃ عدد نقباء بنی اسرائیل قال فاین مکانھم من الجنۃ؟
قال :معی فی درجتی) 51
پس مجھے خبر دیں اپنے وصی کے متعلق کہ وہ کون ہے ؟اس لئے کہ ہر نبی کے لئے وصی ہوتا ہے اور ہمارے نبی موسی بن عمران نے یوشع بن نون کو اپنا وصی قراردیاہے حضور (ص) نے فرمایا ہاں بتحقیق میرا وصی اور میرا خلیفہ میرے بعد علیّ بن ابی طالب ہے اور اس کے بعد میرے دو نواسے حسن وحسین (ع) اور حسین کے بعد نو حسین کی اولاد سے ہیں گے یہی آئمہ ابرار ہیں اس نے عرض کی محمد :ان کے نام بتلائیے آپ (ص) نے فرمایا پس جب حسین اس دنیا سے رخصت ہون گے تو ان کا فرزند علیّ اور جب علیّ اس دنیا سے چلے جائین گے تو ان کا بیٹا محمد اور جب محمد اس دنیا سے رخصت ہوں گے تو ان کا فرزند جعفر آور جب جعفر اس دنیا سے رخصت ہوں گے تو ان کا بیٹا موسی اور جب موسی اس دنیا سے چلے گۓ تو ان کا بیٹا علی اور جب علیّ اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے تو ان کا فرزند محمد پھر ان کا فرزند علیّ پھران کا فرزند حسن اور پھر ان کا بیٹا حجّت میرا خلیفہ ہے۔
یہ بارہ نفر ہیں انکی تعداد بنی اسرائیل کے نبیون کی ہے اس نے پوچہا :جنت میں یہ کس جگھہ ہون گے ؟فرمایا میرے درجہ میں میرے ساتھہ ہوں گے ۔
چھٹی فصل :
حلیہ مبارک حضرت مہدی (ع) ۔
گزشتہ فصول سے یہ بات بخوبی واضع ہوگئی کہ مہدویت نوعی والا نظریہ بالکل بے بنیاد ہے بلکہ پورا عالم جس مہدی موعود کے انتظار میں ہے وہ اھل بیت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)،اولاد علی اور فاطمہ (علیھماالسلام )اورفرزندان امام حسین (ع)سے ہیں اور ان کا نام (م،ح،م،د) اور کنیت ابوالقاسم اور نور چشم نرجس خاتون (ع) اور دلبند امام حسن عسکری (ع) ہے ۔وہ صفات میں میرے رسول (ص) کے مشابہ ہے اسکی ظاہری صورت اور اسکی سیرت دونوں رسول اللہ (ص) جیسی ہیں وہ کردار میں گفتار میں صورت و سیرت میں بالکل شبیہ رسول اعظم (ص)ہے۔ بحرحال مھدویت نوعی والے نظریہ کے بطلان کے ساتھہ تین اور نظریے بہی قطعی طور پر باطل ہوگے وہ یہ ہیں:
1۔مھدیّ وہی حضرت عیسی (ع)ہیں ۔اس نظریہ کی بنیاد ایک یاچند جعلی روایات پر ہے۔
2۔مھدیّ سے مراد عمر بن عبد العزیز ہے ۔اس نظریّہ کی بنیاد بہی ایک جعلی حدیث ہے۔
3مھدیّ بنی العباس میں سے ہے۔ ہس نظریہ کی بنیاد وہ جعلی احادیث ہیں جن میں کہا گیاہے کہ (المھدی من ولد العباس بن عبدالمطلب)
مذکورہ تینوں نظریات ذکر کرنے کے بعد شیخ علامہ مرعی بن یوسف مقدسی حنبلی جو کہ گیارہویں صدی کے علماء اھل سنت میں سے ہیں اپنی کتاب (فرائد فوائد الفکر فی الامام الھدی) میں لکہتے ہیں:
(یخرج فی آخر الزمان وانہ غیرعیسی وقدکثرت بذالک الاخبار والرّوایات وشاع ذالک فی الامصار باحادیث الثقات)52
اس کتاب کی تحقیق شیخ سامی غریری نے کی ہے اور روایات موضوعہ اور ان کے مصادر ذکر کرنے کے بعد علّت جعل بہی ذکر کرتے ہیں شائقین مراجعہ کر سکتے ہیں۔
اس فصل میں فقط پانج احادیث پہ اکتفاکرتے ہیں ۔
حضوراکرم(ص)نے فرمایا:
1( المھدی منّی اجلی الجبہۃ اقنی الانف)53
مھدیّ میری اولاد سے ہیں اس کی پیشانی چوڑی نورانی اور ناک مبارک باریک ہے۔
2۔(المھدی من ولدی وجھہ کالقمرالدرّی )54
مھدیّ میری اولاد سے ہے اس کا چہرہ اطہر چاند کی طرح درخشان ہے۔
3۔(المھدی من ولدی وجھہ کالکوکب الدریّ اللون لون عربی والجسم جسم اسرائیلی )55
مھدیّ میری نسل سے ہے ،اس کا چہرہ مبارک درخشاں ستارہ کی مانند ہے وہ گندم گون رنگ اور بلند قد کے مالک ہیں ۔
علامہ مجلسی اس حدیث کی تشریح میں لکہتے ہیں۔: (المراد من قولہ کالکوکب الدرّی ای طویل القامۃ وعظیم الجثۃ والمراد من قولہ :کالکوکب الدریّ ای مضی کما انّ الکوکب یضی )56
واضع رہنا چاہیۓ کہ دوسری روایت رخ انور مھدیّ (ع) کی قمر (چاند) سے اور تیسری حدیث میں کوکب (ستارہ)سے تشبیہ دی گئی ہے ہر چاند اور ستارہ سے نہیں بلکہ درخشان چاند وستارہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔
طویل القامہ سے مراد قد کا بلند و دراز ہوناہے۔
اگر یوں کہا جاۓ کہ چاند ستارہ اور سورج کا نور بہی نور مھدیّ (ع) کے سامنے شرمسار نظر آتا ہے تو مبالغہ نہیں ہوگا اور اس تعبیر میں کوئی حرج نہیں ہے۔
4۔(انہ شاب اکحل العنین ازج الحاجبین افتی الانف کث اللحیۃ علی خدہ الایمن خال)57
مہدیّ یقینا ایسا جوان ہے جس کی آنکہیں بڑی اور سیاہ اور ابرو (بہنویں) جڑی ہوئی ہیں اور ناک مبارک باریک اور محاسن پہ گہنے بال اور دائیں رخسارپر دلکش خال ہے۔
(المھدی طاووس اھل الجنۃ)58
مھدیّ اھل جنت کا طاووس ہے۔
دنیا کا خوبصورت ترین پرندہ طاووس ہے لہذا حضرت مھدیّ بہی بے حدّ حسین وجمیل ہیں اور تشبیہ کا یہی تقاضا ہے۔
ان کا حسن وجمال قابل توصیف نہیں چونکہ ان کے حسن و جمال کی جتنی بہی تعریف کی جاہے پھر بھی کم ہے اس لیے کہ اس گھرانے کے افراد اس سے بھی بڑھہ کر خوبصورت ہیں۔
ساتویں فصل:
غیبت حضرت مھدیّ(ع)
احادیث غیبت بھی متواتر ہیں :ہم اختصارکی وجہ سے چند احادیث پہ اکتفاکرتے ہیں: حضرت رسالتمآب (ص)غیبت حضرت مھدیّ (ع) کے بارے میں فرماتے ہیں:
1۔(لابد للغلام من غیبۃ فقیل لہ ولم یا رسول اللہ (ص) یخاف القتل)59
اس نوجوان کی غیبت ضروری ہے حضور(ص)کی خدمت میں عرض کی گئی اے رسول خدا(ص) کیوں اس کے لئے غیبت ہے ؟ فرمایا اس لئے کہ اسے قتل کا خوف ہے۔
2۔(المھدی من ولدیّ اسمہ اسمی و کنیتہ کنیتی اشبہ الناس لی خلقا وخلقا تکون لہ غیبۃ و حیرۃ تضل فیھا الامم ثم یقبل کالشھاب الثاقب یملاھا عدلا وقسطا کما ملئت جورا وظلما)60
مھدیّ میری نسل سے ہے اس کا نام میرے نام پر ہے اور اسکی کنیت میری کنیت ہے وہ تمام لوگوں میں میرے ساتھہ خلق (صورت) اور خلق(کردار)کے لحاظ سے سب سے زیادہ شباھت رکہتا ہے اس کے لئے غیبت وحیرت ہے جس غیبت میں امتیں گمراہ ہوں گی پہر وہ درخشان ستارہ کی مانند آئے گا زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح پر کرے گا جس طرح وہ جور وظلم سے بہر چکی ہوگی۔
3۔(المھدی من ولدی تکون لہ غیبۃ وحیرۃ تضل فیھا الامم یاتی بذخیرۃ الانبیاء علیہم السلام فیملاھا قسطا وعدلا کما ملئت جورا و ظلما ) 61
اس حدیث میں یاتی بذخیرۃ الانبیاء استعمال ہوا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے مہدی ذخیرۂ انبیاء (ع)کو لائے گا حدیث باقی جملوں کا ترجمہ اوپر والی حدیث میں مذکور ہے۔
4۔ (طوبی لمن ادرک قائم اھل بیتی و ھو مقتد بہ قبل قیامہ ویتولی اولیاءہ یعادی اعدائہ ذالک من رفقائی وذوی مودّتی واکرم امتی علیّ یوم القیامۃ) ۔62
سعادت ہے اس شخص کے لئے جو میرے اھل بیت کے قائم (ع) کو حالانکہ اس کی اقتداء کرتے ہوئےاس کے قیام سے قبل پالے اور اس کے دوستوں کو دوست اور اس کے دشمنون کو دشمن رکھے وہ میرے رفقآء (جمع رفیق) میں ہوگا اور میرے نزدیک قیامت کے دن میری امت میں سب سے زیادہ محترم ہوگا۔
5۔(المھدی من ولدی الذی یفتح اللہ بہ مشارق الارض و مغاربھا ذالک الذی یغیب عن اولیائہ غیبۃ لایثبت علی القول بامامتہ الاّ من امتحن اللہ قلبہ للایمان ۔۔۔) 63
مھدیّ میری اولاد سے ایسا فرزند ہے جس کے سبب اللہ مشارق ومغارب زمین کو فتح کرے گا وہ مھدی جو اپنے اولیاء اور دوستوں سے ایسی غیبت اختیار کرے گا اس میں انکی امامت کے عقیدہ پر کوئی ثابت قائم نہیں رہے گا سوائے اس شخص کے جس کے قلب کو اللہ نے ایمان کے لئے آزمایا ہو۔
ضروری وضاحت :
ائمّہ معصومین (ع) کی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مھدیّ کے لئے دو قسم کی غیبتں ہیں: 1- صغری 2 – کبری ۔
لیکن مجھے حضور(ع)کی کوئی حدیث نہیں ملی جس میں یہ غیبت کی تقسیم موجود ہوالبتہ اسی حدیث سے غیبت کبری سمجھی جاتی ہے
غیبت کے اساسی مفھوم میں دو نظریے ہیں:
1-اختفاءالشخص2-اختفاءالعنوان والشخصیۃ ۔
یعنی حضرت مہدی (ع)لوگوں کو دیکھتے ہیں لیکن لوگ حضرت کے دیدار سے محروم ہیں دوسرے نظریے کی بناپر حضرت کو لوگ دیکھتے ہیں اور آپکی زیارت سے مختلف مقامات میں شرفیاب ہوتے ہیں لیکن پہچان نہیں پاتے لہذا جب حضرت ظہور فرمائیں گے اور لوگ دیدار مہدی سے معراج کی منزلت پہ فائز ہوں گے تو کہیں گے :ہم نے حضرت (ع)کو فلاں مسجد میں دیکہا تہا۔
بحرحال ان دونوں نظریات میں کیا فرق ہے ؟
اس سوال کے جواب سے صفحات کی محدودیت کی وجہہ سے اعراض کررہے ہیں۔
مخفی نہ رہے مذکورہ دونوں نظریات روایات سے ماخوذ ہیں۔
آٹھویں فصل:
زمان غیبت میں حضرت کے وجود سے استفادہ
اس فصل میں صفحات کی محدودیت کے پیش نظر فقط مذکورہ پانچویں حدیث کا وہ حصہ پیش خدمت ہے جو وہاں چھوڑدیاگیا تہا وہ یہ ہے:
(فقلت :یارسول اللہ (ص)ھل لاولیائہ الانتفاع بہ فی غیبتہ ؟
فقال:والذی بعثنی بالحق نبیا انھم یستضیئون بنورہ وینتفعون بولایتہ فی غیبتہ کانتفاع النّاس بالشمس اذا سترھا سحاب یا جابر ھذامن مکنون سراللہ ومخزون علمہ فاکتمہ الّا عن اھلہ ) 64
میں نے عرض کی :اے رسول خدا کیا اس کی غیبت میں اس کے دوست اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟
فرمایا مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کا نبی بناکر مبعوث کیا بتحقیق وہ لوگ اس کے نور سے روشنی حاصل کریں گے اور اس کی غیبت میں اس کی ولایت سے اس طرح فائدہ اٹھائیں گے جس طرح لوگ سورج سے اس وقت بھی فائدہ اٹھاتے ہیں جب سورج کو بادل چھپا دے ۔
اے جابر یہ اللہ کے پوشیدہ اسرار اور اس کے محزون علم میں سے ہے نا اھل سے اسے چھپاؤ۔
نویں فصل:
انتظار حضرت مھدیّ (ع)
حضور (ص)کی نظر میں حضرت مھدیّ کے انتظار کا بہت زیادہ ثواب ہے ؛ ہم فقط دو حدیثوں پر اکتفا کرتے ہیں :
1 ۔ ( افضل العبادۃ انتظار الفرج) 65
بہترین عبادت انتظار ظہور مھدیّ(ع) ہے۔
2۔(طوبی للصابرین فی غیبتہ طوبی للمتقین علی محبتہ اولئک الذین وصفھم اللہ فی کتابہ وقال (ھدی للمتقین الذّین یؤمنون بالغیب ) 66 سعادت مند ہیں اس کی غیبت میں صبر کرنے والے ۔ اور اس کی محبت پر ثابت قدم رہنے والے یہ وہ لوگ ہیں جن کی اللہ نے اپنی کتاب میں یوں تعریف فرمائی ہے (یہ قرآن پرہیز گاروں کے لئے ہدایت ہے وہ لوگ جو غیب پہ ایمان رکھتے ہیں ۔
دسویں فصل:
حضرت مہدیّ( ع)کی تکذیب کفر اور ان کی اطاعت واجب
ہم یہاں فقط دو حدیثوں پر اکتفاء کرتے ہیں حضور اکرم (ص)فرماتے ہیں:
1۔ (من کذب بالمھدی فقد کفر) 67
جس نے مہدی کو جہٹلایا بتحقیق وہ کافر ہوگیا۔
2۔ (یخرج المھدیّ وعلی راسہ عمامۃ فیاتی مناد ینادی : ھذا المھدی خلیفۃ اللہ فاتبعوہ ) 68
مہدی ظہور فرمائیں گے حالنکہ اس کے سر پر عمامہ ہوگا پس ایک منادی آواز دے گا:یہ مہدی اللہ کا خلیفہ ہے تم سب ان کی اتباع کرو۔
گیارہویں فصل :
حضرت مہدی (ع) کی طولانی عمر
ہم علامات ظہور حضرت مہدیّ (ع)کے ذکر سے اعراض کر رہے ہیں شائقین اطلاع کی غرض سے کتب مفصلہ کی جانب رجوع فرمائیں ۔
البتہ حضور (ص) نے جو علامات ظہور بیان فرمائی ہیں ان میں سے بعض کو اھل سنت کی کتب میں مراجعہ کر سکتے ہیں مثلا عقدالدرر ،فرائد فوائد الفکر فی الامام المھدی المنتظر (ع) ، البرھان فی علامات مھدیّ آخرالزمان و۔۔۔۔
رہا مسئلا حضرت مہدیّ (ع) کی طویل زندگی کا تو اس بارے میں فقط دو نکتوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں:
پہلا نکتہ:علماء اھل سنت میں بعض ایسے محققین ہیں جنھوں نے حضرت مہدیّ (ع) کے متعلق بحث کرتے ہوئے اس موضوع سے بہی بحث کی ہے مثلا شافعی گنجی نے اپنی کتاب "البیان فی اخبار صاحب الزمان "میں 25باب کا عنوان یوں قرار دیا ہے : (فی الدلالۃ علی جواز بقاء المھدی حیا باقیا منذ غیبتہ الی آلان ) 69
پھر یوں بحث کو شروع کرتے ہیں :
(ولاامتناع فی بقائہ بدلیل عیسی والیاس و الخضر من اولیاء اللہ وبقاء الدجال وابلیس الملعونین من اعداءاللہ تعالی وھؤلاء قد ثبت بقاؤھم بالکتاب والسنۃ وقد اتفقوا علیہ ثم انکروا جواز بقاء المھدی و ھااناابین بقاء کل واحد منھم فلا یسمع بعد ھذا لعاقل انکار جواز بقاء المھدی (ع) ) 70
عبارت کے ترجمہ کی احتیاج نہیں سمجتھے اس لئے ترجمہ سے گریز کیا ہے ۔
اسی موضوع سے مربوط دوسرا نکتہ یہ ہے :اولا عقل طولانی عمر کے امکان کی نفی نہیں کرتا ۔
ثانیا: تاریخ میں متعدد حضرات گذر چکے ہیں ۔ اس سلسلہ میں منتخب الاثر کی دوسری فصل کا 30 باب قابل مطالعہ ہے ۔
اور اسی طرح ( امامت ومہدویت ) بہی نایاب کتاب ہے ۔
ثالثا: علمی اور سائنسی تحقیق کے مطابق انسان کی عمر کی حدمعین نہیں ہے۔
رابعا: حضرت مہدیّ (ع)کی طولانی عمر کے ساتھہ اللہ کی قدرت کا تعلق ہے لہذا حضرت مہدیّ (ع) کی طویل عمر پر اعترض حقیقت میں اللہ کی قدرت کاملہ پر اعتراض ہے ۔
بارہویں فصل :
حضرت مہدیّ (ع) کی اقتداء میں حضرت عیسی (ع) کی نماز
اس مطلب پر فراوان احادیث دلالت کر رہی ہیں فقط دو حدیث کے ذکر پر قناعت کرتے ہیں:
1۔(کیف انتم اذا نزل فیکم ابن مریم وامامکم منکم۔) 71
2۔ تم لوگوں کا اس وقت کیا حال ہوگا جب تمہارے درمیان عیسی بن مریم آسمان سے اتریں گے اور تمہارے امام تم میں سے ہونگے ۔
2۔(مناالذی یصلی عیسی بن مریم خلفہ ) 72
ہم اھل بیت میں سے وہ شخص بہی ہے جس کے پیچھے عیسی بن مریم نماز اداکریں گے ۔
خاتمہ
محمد بن یزید قزوینی نے اپنی کتاب "السنن" میں حضور اکرم (ص)سے یہ حدیث نقل کی ہے : (۔۔۔۔ ولا مھدیّ الاّ عیسی بن مریم )73
یہ حدیث علی فرض صحتہ متواتر روایات کے ساتھہ معارضہ کی طاقت نہیں رکہتی کیوں کہ متواتر روایات سے یہ ثابت ہے کہ (المھدیّ من عترۃ الرّسول و۔۔۔) دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت کی سند میں محمد بن خالد جندی واقع ہے جس کے بارے میں علماء رجال متروک الحدیث اور مجھول جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔
تیسری بات یہ کہ ذھبی جیسا متعصب بہی میزان الاعتدال میں لکہتا ہے :
(وھو خبر منکر) 74
اور فتنی اپنی کتاب میں لکہتے ہیں:(وھذاحدیث موضوع) 75
یہ جعلی حدیث ہے۔
عون المعبود میں مذکور ہے کہ(اس حدیث کو بیھقی اور حاکم نے ضعیف قرار دیاہے اور اس حدیث میں ابان بن صالح ہے جو کہ متروک الحدیث ہے ) 76
(البیان فی اخبار صاحب الزمان (ع)میں گیارہواں باب یہ ہے: فی الرد علی من زعم ان المھدیّ ھو عیسی بن مریم ) 77
نتیجہ:مہدویت نوعی والا نظریہ اور حضرت عیسی ( ع) کو مہدیّ قرار دینا یا کسی اور کو مہدی قرار دینا باطل اور بے بنیاد ہے ۔
حوالہ جات
1۔ زینی دحلان ، الفتوحات الاسلامیّہ 2/238،المکتبۃ التجاریۃ الکبری،1354ھہ مصر۔
2۔ برزنجی ،محمّد بن حسن ،الاشاعۃ لاشراط الساعۃ ،ص 112 باب 3۔
3۔ ہیشمی ،ابن حجر ،الصواعق المحرقہ،2/211۔
4۔ تبریزی ،ابوطالب تجلیل، تنزیہ الشیعہ الاثنی عشریۃ عن الشبھات الواھیۃ ،ص 385۔
5۔ قرطبی ،محمد بن احمد ،الجامع لاحکام القرآن 8/121-122۔
6۔ موسوی ،فاخر،التجلّی الاعظم ،ص 542،ط 1،1421ھہ، قم ایران۔
7 ۔ سفارینی حنبلی ،محمد بن احمد ،لوائح الانوار البہیّہ ،2/80۔
8۔ شبلنجی ،مؤمن نور الابصار ،ص171، الشعبیّہ ، مصر اور، ص 189 ،دار الفکر ،بیروت۔
9۔ابن صبّان ،محمد بن علیّ ،اسعاف الرّاغبین ،ص140، باب 2۔
10،عسقلانی، ابن حجر ،تھذیب التھذیب ،9/126 رقم :200،ط ،1
1404ھہ، دارالفکر بیروت لبنان
11۔ عسقلانی، ابن حجر ،فتح الباری 6/385، ،ط 2 دارالمعرفہ بیروت ،لبنان۔
12۔ عظیم آبادی ،عون المعبود ،11/308،ط 3،1415ھہ ،دارالکتب العلمیّہ ،بیروت ،لبنان۔
13۔ طبرانی ،ابوالقاسم سلیمان بن احمد ،المعجم الکبیر 10/137،ح:10229،تحقیق ،تخریج ؛حمدی عبدالمجید السلفی، داراحیاء التراث العربی بیروت، لبنان۔
14۔آل عمران /61
15۔الاحزاب/33۔
16۔ قندوزی ،سلیمان بن ابراھیم ،ینابیع المودۃ ، 3/397 باب 94 تحقیق :سید علی جمال اشرف الحسینی، ط 1، 1416ھہ۔اسوہ قم۔ ایران۔
علامہ مجلسی ،محمّد باقر ،بحار الانوار ،51\ 72، ط 2 ،1403ھہ مؤسسۃ الوفاء ،بیروت لبنان۔
17۔القلم /4
18۔سبط ابن جوزی ،تذکرۃ خواص الامّہ ،ص 204،تھران ،ایران۔
19۔گنجی شافعی ،محمد بن یوسف ،البیان فی اخبار صاحب الزمان (ع)ص 127باب 13،ط 5 ،1409ھہ ق مؤسسۃ النشر الاسلامی ،قم یہ کتاب احادیث المہدی (ع)من مسند احمدابن حنبل کے ساتھہ شایع ہو ئی ہے
20۔ قندوزی حنفی، سلیمان بن ابراھیم ،ینابیع المودّہ 3/386باب 94 و 3\ 395۔
21۔طبرانی ،ابوالقاسم ،سلیمان بن احمد ،المعجم الکبیر 10/131 ح 10208۔
22 ۔ترمذی، محمد بن عیسی ،الجامع الصحیح ،4/505،رقم الحدیث :2231،دارحیاء التراث العربی بیروت لبنان ۔
23۔بزار،ابوبکر احمد بن عمرو المسند 5/204ح 1409مکتبہ المدینہ بیروت لبنان۔
24مجلسی محمد بافر بحارالانوار 51/75ح 30باب 1۔
25۔ شیخ طوسی ابوجعفر محمد بن حسن الغیبہ ص 180ح 38 تحقیق :عبد اللہ تھرانی ،علی احمد ناصح ط 1،1411ھہ مؤسسۃ المعارف الاسلامیہ قم ایران۔
26۔مجلسی محمد باقر بحارالانوار 51/75 ح 28 باب 1۔
27۔طبری (شیعہ)محمد بن جریر ،دلائل الامامہ ص 255 ح54 ،ط 1 1413ھہ مؤسسۃ البعثہ قم ۔
28۔ مجلسی محمد باقر ،بحارالانوار ،51 /68ح 9 باب 1 اور شیخ طوسی ابو جعفر محمد بن حسن ،الامالی 2/126۔
29 صدوق ابوجعفر محممد بن علی کمال الدین ،تمام النعمہ 1/286 ح 1 باب 25 تصحیح وتعلیق :علی اکبر غفاری محرم الحرام 1405 ھہ مؤسسۃ النشر الاسلامی قم ایران۔
30۔ قمی ،ابن بابویہ الامامۃ والتبصرہ ص 120 باب فی الغیبۃ ط 1 1404 ھہ مدرسۃ الامام المہدی(ع)قم۔
31۔ صدوق ابو جعفر محمد بن علی کمال الدین وتمام النعمہ ص 114ح 6 باب 39۔
32 ۔النجم/3
33 ۔ابن ماجہ محمد بن یزید السنن 2/1367ح 4085،دارالفکر بیروت لبنان۔
34 ۔حاکم نیشاپوری ،ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ المستدرک علی الصّحیحین 4/600ح 8670۔
35۔ ابن ابی شیبہ کوفی ،عبداللہ ،المصنف 7/531 ح 37648 ،ط 1409ھہ مکتبۃ الرّشید الریاض ،المملکۃ العربیہ السعودیہ ۔
36 ۔ حاکم نیشاپوری ،ابوعبداللہ محمد بن عبد اللہ المستدرک 4/600ح 8669۔
37 ۔ ترمذی ، محمد بن عیسی ،الجامع الصحیح 4/505ح2230۔و بزار، المسند 5/204ح 8364۔
38 ۔ ترمذی الجامع الصحیح 4/505 ح2231۔
و سجستانی ،ابوداود ،سلیمان بن اشعث السسنن 4/107ح4284۔ دارالفکر بیروت۔
و شیبانی ،ابو عبداللہ ،احمد بن حنبل المسند 1 /376ح 3571۔مؤسسہ قرطبہ مصر ۔
39۔ طبرانی ابوالقاسم ،سلیمان بن احمد ،المعجم الکبیر،10/135ح10224۔
40 ۔حاکم نیشاپوری ، ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ ،المستدرک ،4/501ح8400۔
41 ۔ ھیثمی ،علی بن ابی بکر،مجمع الزوائد 7/315 ،دارالکتاب العربی ،بیروت ،لبنان۔
۔ شیبانی ، ابو عبد اللہ احمد بن حنبل ، المسند ، ار 376 ۔ 377 42
43 ۔ طبرانی ، ابو القاسم سلیمان بن احمد ، المعجم الکبیر ، 10 \ 133 ح 10219
44 ۔ ھیثمی، علی بن ابی بکر ، مجمع الزوائد ، 371
45 ۔ ذھبی ، شمس الدین ، تذکرۃ الحفاظ ، 2 \ 464 ترجمہ احمد ابن عبد الملک بن وافد ، دار احیا ء تراث العربیّ ، بیروت ۔ لبنان ۔
46 ۔ مرعشی نجفی ، شھاب الدین ، شرح احقاق الحق ، 13 \ 108 ، قم – ایران ۔
47 ۔ طبری ، احمد بن عبد اللہ ، ذخائر العقبی ، ص 136 ، ط 1356 ھ ، مؤسّسۃ الرسالہ ، بیروت ۔ لبنان
48 ۔ مسجستانی ، سلیمان بن اشعث ، السنن ، 4 \107 ح 4284
49 ۔ مرعشی نجفی ، شھاب الدین ، شرح احقاق الحق ، 13 \ 168 از الفناوی والحدیثیۃ ، ص 27 ط مصر ۔
50 ۔ طبری احمد بن عبداللہ ، ذخائر العقبی ، ص 136
51 ۔ جوینی خراسانی ، ابراھیم بن محمّد ، فرائد السمطین ، 2\ 133\431
52 ۔ مقدسی حنبلی ، مرعی بن یوسف ، فر ائد فوا ئد الفکر می الامام المھدی "ع" ص 59 ، تحقیق : سامی الغریری ، ط 1 ، 1421 ھ ، مؤسّسۃ المعارف الاسلامیۃ ، قم ۔ ایران ۔
53 ۔ سجسانی ، سلیمان بن اشعث ، السّنن ، قم ۔ ایران
54 ۔ عاملی کورانی ، شیخ علی ، معجم احادیث الامام المھدی "ع" ، 1\ 130 ، ط1 ، 1411 ھ مؤسّسۃ المعارف الاسلامیۃ ، قم قندوزی ، سلیمان بن ابراھیم ۔ ینابیع المودہ ، 3 \ 263 باب 73۔
55 ۔ مجلسی ، محمّد باقر ، بحار الانوار ، 51 \ 91
56 ۔ مجلسی ، محمّد باقر ، بحار الانوار ،51 \ 80
57 ۔ ابن صیّان ، محمّد بن علی یونس ، الصراط المستقیم ، 2 \ 241 ، تصحیح و تعلیق : محمّد باقر بھبودی ، ط 1 ، 1384 ھ المکتبۃ المرتضویۃ ، ایران ۔
59 ۔ مجلسی ، محمّد باقر ، بحار الانوار ،52 \ 90 باب 20 ۔
60 ۔ خزّار قمی ، کفایۃ الاثر ، ص 67 و صدوق ، کمال الدین و تمام النعمۃ ، ص 286 باب 25
61 ۔ بحرانی ، سیّد ھاشم ، غایۃ المرام ، 7\ 89 باب 141 ، تحقیق : سید علیعاشور
62 ۔ مجلسی ، محمّد باقر ، بحار الانوار ۔ 52 \130 و شیخ طوسی ، الغیبہ ، 456 ۔
63 ۔ قندوزی حنفی ، سلیمان بن ابراھیم ، ینا بیع المودہ ، 3\238
64 ۔ مجلسی ، محمّد باقر ، بحار الانوار ، 52 \ 93
65 ۔شیخ صدوق ،کمال الدین وتمام النعمہ ،ص 287باب 25 ح2۔
66 ۔ خزّاز قمی کفایۃ الاثر، ص 60 اور سورہ بقرہ آیت 3 ۔
67 ۔ عاملی کورانی شیخ علیّ ،معحم احادیث الامام المہدیّ (ع)2/17۔
68 ۔ طبرانی، ابوالقاسم سلیمان بن احمد ،مسندالشامیین 2/71 ح937۔
69 ۔ گنجی شافعی ابو عبداللہ ،محمد بن یوسف ،البیان فی اخبار صاحب الزمان (ع) ص 184۔
70۔گزشتہ حوالہ (البیان فی اخبار صاحب الزمان (ع) ص 148)۔
71 ۔بخاری ،محمد بن اسماعیل ،الجامع الصحیح 4/143 ،کتاب بدء الخلق ط 1 ،1401ھہ دارالفکر ،بیروت ،لبنان۔
و عسقلانی ابن حجر۔فتح الباری 6/358۔
عینی بدرالدین عمدۃ القاری 16/40 داراحیاءالتراث العربی ،بیروت،لبنان۔
72 ۔مرعشی نجفی ،شہاب الدین ،شرح احقاق الحق ،15/382
و ینابیع المودہ 2/81 و 3/266 باب 73
73 ۔قزوینی ،محمد بن یزید، السسنن ،2/1341ھہ تحقیق وتعلیق :محمد فؤاد عبد الباقی ،دارالفکر بیروت لبنان۔
74 ۔ ذھبی شمس الدین ،میزان الاعتدال 3/535۔
75 ۔ فتنی ،تذکرۃ الموضوعات ص 223۔
76 ۔عظیم آبادی ،عون المعبود 11/244۔
77 ۔گنجی شافعی ،محمّد بن یوسف ،البیان فی اخبار صاحب الزمان (ع)ص 122
source : http://saqlain.or