ماہ شوال ١٤٨ھ میں فقہ جعفریہ کے بانی اور آسمان عصمت وطہارت کے چھٹے ستارے حضرت امام جعفر صادقـ کا یوم شہادت ہے ۔دنیائے اسلا م کے علمی حلقوں میں امام جعفر صادق ـ کو اس لحاظ سے خصوصی اہمیت حاصل ہے کہ آپ نے مذہب اہل بیت کے علمی سرمائے کو ایک مکتب اور فقہی مذہب کی شکل دی اور دوسرے اسلامی مذاہب کے مقابلے میں مذہب اہل بیت کی فقہی اور علمی بنیادرکھی۔ چونکہ اس دور میں بنی اُمیہ او ر بنی عباس کی سیاسی چپقلش اور اقتدار کی منتقلی نے حضرت امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کو ایک سنہری موقع فراہم کیا تاکہ وہ مکتب اہل بیت کو دین اسلام او ر شریعت محمدیہ ۖکے محافظ اور مبین کے طور پر متعارف کر اسکیں.
اس سلسلے میں امام محمد باقر ـ کے زمانے سے ہی سیاسی نشیب وفراز کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا لیکن امام جعفر صادق ـ جب مسند امامت پر فائز ہوئے تو مسلمان خلفاکی جنگ اقتدار اپنے عروج پر تھی اور اقتدار بنی اُمیہ سے بنی عباس کی جانب منتقل ہو چکا تھا اور بنی عباس کی نوخیز حکومت اپنی سیاسی بنیادیں مضبوط کر نے میں لگی ہوئی تھی جس کی وجہ سے حضرت امام جعفرصادق ـکو کھل کر فرصت ملی کہ آپ دین اسلام کی علمی بنیادوں کو مستحکم کر سکیں اور حقیقی اسلام ناب محمدی ۖ کے قوانین کو مدون صورت میں پیش کر سکیں ۔
اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ حضرت امام صادق ـ کا بیت الشرف ایک ایساعلمی مرکز تھا جس نے جہاں بہت بڑا علمی ذخیرہ عالم اسلام کو فراہم کیا ہے وہاں بہت سے صاحبان فکر ونظر اور علمائے فقہ وحکمت کی پرورش بھی کی ہے اور آپ کے علمی مکتب ومدرسے سے اہل بیت اطہار سے سیاسی وابستگی رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ اہل بیت کی سیاسی روش کے مخالفین نے بھی بھر پور علمی استفادہ کیا ہے ۔اسی لئے مورخین نے آپ کے مدرسہ فکر سے فارغ التحصیل ہو نے والے علماء ومحدثین وفقہا کی تعداد چار ہزار تک بتائی ہے ۔ جن میں اہل سنت کے فقہی مذاہب کی بر جستہ شخصیات بھی شامل ہیں ۔اپنی ہمہ گیر ذاتی قابلیت اور مختلف علوم پر مکمل طور پر حاوی ہونے کی بنا پر امام جعفر صادق ـ کو پوری دنیائے اسلام میں تعظیم وعزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور شائقین علم ومعرفت دور دور سے آکر آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتے تھے ۔
اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ آپ کا مدرسہ علم وحکمت، انواع واقسام کے علوم ومعارف کا منبع اور آپ کے علمی وروحانی فیوض وبرکات کا دروازہ سب تشنگان علم ومعرفت کے لئے کھلا ہوا تھا اور یہی آپ کی علمی سیرت تھی کہ جس کی وجہ سے آپ کے سخت ترین سیاسی مخالفین بھی بغیر کسی جھجک کے آپ کے علمی سرچشمے سے بہرہ مند ہو رہے تھے ۔ لہذا یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیائے اسلام کے تمام عظیم دانشور اور علماء اپنے علم وفضل کے لئے اہل بیت رسول ۖ کے مرہون منت رہے ہیں ۔
اس سلسلے میں علامہ شبلی نعمانی اپنی کتاب ''سیرت نعمان '' میں اس حقیقت کی ایک جھلک یوں دکھاتے ہیں :''ابو حنیفہ ایک عرصہ دراز تک امام جعفر صادق ـ کے حلقہ درس میں حاضری دیتے رہے اور آپ سے کثیر مقدار میں فقہ اور حدیث کا بیش قیمت علم حاصل کیا ۔شیعہ وسنی دونوں فرقے اس بات پر متفق ہیں کہ ابو حنیفہ کے علم کااہم ذریعہ اُن کا امام جعفر صادق ـسے ربط وضبط تھا ''۔
اور یہ سب امام ـ کی علمی روش وسیرت تھی کہ جس نے بلاکسی تفریق کے سب تشنگان علم کو آپ کے دروازے پر لاکھڑا کیا تھا اور عالم اسلام میں ایک علمی وحدت قائم کردی تھی ۔لہذا امام جعفر صادق ـکی یہ علمی سیرت آج کے دور میں بھی بہترین نمونہ عمل بن سکتی ہے اور اسلامی علوم ومعارف سے محبت رکھنے والے تمام مسلمانوں کو اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ آپ جس سیاسی فکر ونظریہ کے بھی تابع ہیں لیکن علمی وحدت وہم بستگی برقرارکرنا نہ فقط ہمارے لئے ممکن ہے بلکہ ہماری ضرورت بھی ہے ۔چونکہ علمی اختلاف ،علم کی ترقی اور پیش رفت کا پیش خیمہ ہو تا ہے لیکن سیاسی اختلاف ؛تفرقے وانتشارکا باعث بنتا ہے ۔
لہذا ہمیں علمی اختلاف رائے کی وجہ سے تفرقے اور انتشار کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔بلکہ ہمارے درمیان علمی اختلاف رائے ،ایک دوسرے کو سمجھنے اور دلیل وبرہان کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خیالات وافکارسے استفادے کا باعث بننا چاہیے اور اسی علمی گفتگو کے ذریعے ہمیں اُمت مسلمہ کے مسائل ومشکلات کا حل تلاش کر نا چاہیے ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ جب سیاسی طاقتوں کے تمام تر اختلاف کے باوجود تمام مسلمان مسالک کے دینی مراکز یکجہتی کا نمونہ ہوتے اور اپنے علمی اختلاف رائے کو سیاسی میادین کے بجائے دلیل وبرہان کی میز پر طے کرتے او ر گفتگو وعلمی تبادلہ خیال کے ذریعے اُمت کے مسائل کو حل کرتے لیکن یہ سب اُس وقت ہوتا کہ جب اہل علم کے ہاتھ میں دینی مراکز کی باگ دوڑ ہوتی اور اپنے اسلاف کی طرح مختلف دینی ومذہبی مکاتب فکر علم کے میدان میں ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو کھڑے نظر آتے یہی امام جعفر صادق ـ کی سیرت وروش تھی کہ جس کی وجہ سے پورا عالم اسلام اپنی علمی تشنگی بجھانے کے لئے اُن کے دروازے پر حاضر ہوتا تھا ۔
آج ہمارے دینی مدارس کی روش وطریقہ بھی یہی ہونا چاہیے کہ وہ تمام تعصبات سے دور رہتے ہوئے فقط دین اور علم کی خدمت کریں اور ایسانصاب وطریقہ اپنے مدارس میں رائج نہ کریں جس کی وجہ سے تشنگان علم ومعارف کے درمیان دوریاں پیدا ہوں اور اُمت مسلمہ میں علمی اختلاف رائے ،علمی تفرقہ میں تبدیل ہو جائے ۔
امام جعفر صادق ـ کے یوم ولادت کے موقع پر ہمارا پیغام یہی ہے کہ اس وقت جب سیاسی اختلاف کی وجہ سے اُمت مسلمہ کا شیرازہ مکمل طور پربکھر چکا ہے ؛ امام ـ کی یہی علمی سیرت وروش ہمارے لئے بہترین نمونہ عمل بن سکتی ہے اور ہمارے علمی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے ہمارے درمیان علمی وحدت ویکجہتی برقرار کر سکتی ہے جس کے بعد ہم سیاسی وحدت ویکجہتی کی طرف بڑھ سکتے ہیں ۔اوریہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب تمام اسلامی مسالک کے دینی مراکز اور علماء ودانشور اپنی اس ذمہ داری کو پورا کریں اوراپنے اندر ایک دوسرے کے ساتھ علمی تبادلہ خیال کا جذبہ پیدا کریں ۔
source : http://rizvia.net