قرآني نصوص ايسي قديم تاريخي نصوص ہيں جو نہايت صحيح اور دقيق ہيں نيز عہد رسالت کے زمانے سے تعلق رکھتي ہيں اور علمي طريقہء کار کي رو سے ہمارے لئے يہ ضروري ہے کہ ہم عصر نبي کے واقعات کے بارے ميں صرف قرآني آيات و نصوص پر ہي بھروسہ کريں اور ان سے آگے نہ بڑھيں کيونکہ آنحضرت (ص) کي بعثت کے ساتھ ہي نزول آيات کا سلسلہ شروع ہوا اور آپ کي وفات تک جاري رہا-
جب ہميں يہ معلوم ہو گيا کہ جو تاريخي روايتيں حديث و سيرت کي کتابوں ميں درج ہيں ان کي تدوين حوادث کے عہدِ وقوع کے بعد ہو ئي ہے اور ان ميں جھوٹ اور آميزش کا امکان ہے تو يہ بات منطقي اور فطري ہے کہ ہم ان روايتوں کو قرآن و سنت اور عقل کے ميزان پر پرکھيں پھر جو روايتيںان کے موافق ہوں انہيں قبول کر ليں اور جوان کے مخالف ہوں ان کو رد کر ديں -
واضح رہے کہ نبوت خدائي نمائندگي اور الٰہي منصب ہے يہ عہدہ اسي کي طرف سے ملتا ہے تاکہ نبي ضروري ہدايت کے ذريعہ بشريت کي مدد کرے- اس منصب کے لئے خدا اپنے بندوں ميں سے اسي کو منتخب کرتا ہے جو مثالي خصوصيتوں سے سرشار ہوتا ہے - يہي خصوصيتيں آپ (ص) کو ان مہموں کو سر کرنے پر قادر بنا ديتي ہيں جو آپ (ص) سے مطلوب تھيں -
نبي کا خدا کي طرف سے منتخب ہونا ضروري ہے تاکہ وہ رسالت اور اس کے مقاصد کو اچھي طرح سمجھ سکے اور اس کو صحيح انداز ميں سمجھا سکے اور تبليغ و بيان ، دفاع و تحفظ کے ميدان ميں ناتواں ثابت نہ ہو جو امور اس کے ذمہ ہوتے ہيں، ان کي انجام دہي کے لئے علم و بصيرت ، نفس کا صحيح سالم ہونا، ضمير کا درست ہونا، صبر و پائيداري ، شجاعت و حلم، انابت، بندگيء خدا ، خوفِ خدا، اخلاص عمل، گناہوں اور خطا و لغزش سے محفوظ رہنا، صراط مستقيم پر تائيد الٰہي سے ثابت رہنا درکار ہے ، پھر خاتم النبيين کو ئي انوکھے اور کم پايہ کے رسول نہيں تھے بلکہ وہ تمام انبياء سے زيادہ عظيم اور کامل تھے، آپ (ص) کے اندر گذشتہ انبياء کے سارے صفاتِ کمال موجود تھے اور خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ اپني رسالت کو کہاں قرار دے-
يہ بات روز روشن کي طرح واضح ہے اور طبيعتوں کا اقتضا بھي يہي ہے کہ خدائي ذمہ داري کے حامل کے اندر اسے قبول کر نے اور اسے نافذ کرنے کي صلاحيت و استعداد ہونا چاہے - اس صورت ميں خاتم النبيين کے لئے ضروري ہے کہ آپ کے اندر ہر وہ صلاحيت ہونا چاہئے جس کے ذريعہ اس خدائي ذمہ داري کو پورا کيا جا سکے اور اس خدائي مہم کو سر کرنے کے لئے ان خصوصيتوں کو بعثت سے پہلے ہي فراہم ہونا چاہئے، قرآن مجيد بھي اسي کي تائيد کرتا ہے ارشاد ہے :
1- (کذالک يوحي اليک واليٰ الذين من قبلک، اللّٰہ العزيزالحکيم) (1)
عزت و حکمت والا خدا اسي طرح آپ(ص) کي طرف وحي کرتا ہے جيسے آپ سے پہلے والوں پر وحي بھيجتا تھا-
2-( وما ارسلنا من قبلک الا رجالا نوحي اليھم من اھل القري)ٰ (2)
ہم نے آپ(ص) سے پہلے انہيں مردوں کو رسول(ص) مقرر کيا جو آباد ي ميں رہتے تھے اور ہم ان کي طرف وحي بھيجتے تھے-
3- (وما ارسلنا من قبلک من رسول(ص) الا نوحي اليہ انہ لا الٰہ الا انا فاعبدون-) (3)
اور ہم نے آپ(ص) سے پہلے کوئي رسول(ص) نہيں بھيجا مگر اس پر وحي کرتے رہے کہ ميرے علاوہ کوئي خدا نہيں ہے پس تم سب ميري عبادت کرو-
ہم نے انہيں امام بنا يا وہ ہمارے حکم سے ہدايت کرتے ہيں، ہم نے ان پر نيک کام کرنے، نماز قائم کرنے، اور زکات دينے کي وحي کي ہے اور وہ سب ہمارے عبادت گزار تھے-
پس وحي کا سرچشمہ خدا ہے اور خدا ہي رسولوں کي طرف توحيد کي نشانيوں اور اپني عبادت کے طريقوں کي وحي کرتا ہے اور انہيں ائمہ قرار ديتا ہے وہ اس کے حکم سے شريعت کي اس تفصيل کے ساتھ جو کہ ان کے پاس وحي کے ذريعہ پہنچي ہے لوگوں کو نيک کام انجام دينے، نماز قائم کرنے اور زکات دينے کي ہدايت کرتے ہيں عبادت ميں يہي غيروں کے لئے نمونہ ہيں اور يہي خدا کے اسلام کا زندہ مرقع ہيں -
حوالہ جات:
1-شوريٰ:3-
2-يوسف: 1ظ 9-
3- انبيائ: 25-
source : http://www.tebyan.net