اردو
Saturday 4th of May 2024
0
نفر 0

جعفر صادق بانی مکتب عرفان

کچھ مسلمان عرفا اور مورخین کا کہنا ہے کہ امام جعفر صادق نے اپنے والد گرامی محمد باقر کے حلقہ درس میں عرفان کی تعلیم بھی حاصل کی تھی ۔

" تذکرة الاولیا ء " کا مصنف شیخ عطار اسی گرو کے لوگوں سے ہے جب کہ پہلی صدی ہجری میں عرفان کا وجود ہی نہ تھا اور اگر تھا بھی تو اس نے مکتب کی شکل اختیار نہیں کی تھی شاید عرفانی تفکرات اس زمانے میں موجود ہوں اور بعض اسلامی مفکرین اسے زبان پر لائے ہوں ۔

لیکن پہلی صدی ہجری میں کوئی عرفانی مکتب موجود نہ تھا جس میں خاص طور پر عرفان کی قسم پر بحث کی جائے اور ایک پیریا مرشد یا غوث ایسا پایا جاتا ہو جو اپنے مریدوں کو اردگرد جمع کرے اور انہیں عرفان کی تعلیم دے ۔ دوسرا یہ کہ عرفان افکار کی تجلی کی ایک قسم ہے جس میں کلاس کی مانند نہیں پڑھا جاتا ۔ اور مرشد یا قطب اپنے مریدوں کو درس نہیں دیتا بلکہ ان سے عمل چاہتا ہے اور کہتے ہیں کہ درس عشق کو قلم ‘ کاغذ اور نوٹ بک کے ذریعے نہیں سیکھا جا سکتا ۔ (بشوئی اوراق اگر ہمدرس مائی ۔ کہ درس عشق در دفتر نباشد ) عرفان دوسری صدی سے وجود میں آیا یا اس زمانے میں مکتب کی صورت اختیار کر گیا اور اس سے قبل مکتب نہ تھا جیسا کہ ہمیں معلوم ہے تذکرة الاولیا چند مشہور کتابوں میں سے ایک ہے اور بعض فضال کے نزدیک اسلامی دنیا کی معتبر کتابوں میں سے ایک ہے لیکن اس کتاب میں بعض ایسی باتیں بیان کی گئی ہیں جن کے غلط ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔

مثلا یہ بات کہ با یزید بسطامی ‘ جو ایک مشہور عارف ہو گزرا ہے اس نے امام جعفر صادق کے حضور میں درس تلمذ تہہ کیا ہے ۔ یعنی ان کا شاگرد ہو گزرا ہے اس نے امام جعفر صادق سے عرفان بھی سیکھا تھا ۔ تذکرة الاولیاء کے مطابق جب وہ علوم حاصل کر چکا اور عرفان میں داخل ہوا تو اس نے عارف کامل بننے کیلئے ضروری سمجھا کہ دنیا کے بڑے عرفا کی خدمت میں پہنچے ۔ لہذا وہ بسطام سے نکل پڑا اور تیس سال تک بھوک کو برداشت کرنے اور دوسری تکالیف اٹھانے کے بعد دنیا کے بڑے عرفا کی خدمت میں حاضر ہوا ۔

اس دوران میں اس نے ایک سو تیرہ عرفا کا قرب حاصل کیا جس میں سب سے آخری جعفر صادق تھے با یزید بسطامی ہر روز جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ان کی باتیں غور سے سنتا ان کے نصائح پلے باندھتا اور پوری دل جمعی کے ساتھ ان کی تعلیم سنتا ۔ ایک دن جعفر صادق نے اسے کہا " اے یزید ‘ وہ کتاب جو تمہارے سر کے اوپر طاق میں ہے مجھے لا کر دو " بایزید نے کہا آپ کس طاق کے بارے میں فرماتے ہیں ۔

جعفر صادق نے فرمایا ایک زمانہ ہو گیا ہے تم یہاں آئے ہو اور ابھی تک تم نے طاق نہیں دیکھا با یزید بسطامی نے کہا میں نے آپ کے علاوہ یہاں کسی کو نہیں دیکھا کیونکہ صرف آپکو دیکھنے کیلئے آتا ہوں جعفر صادق نے یہ بات سن کر فرمایا اے با یزید تمہاری تعلیم کا عرصہ پورا ہو گیا ہے اور اب تم بسطام واپس جا سکتے ہو وہاں جا کر لوگوں کو تعلیم دو ۔ با یزید اپنی جگہ سے اٹھا اور واپس بسطام پہنچ کر لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے میں مشغول ہو گیا شاید تذکرة الاولیاء کے مصنف نے اس روایت کو درست مجھ کر لکھا ہے لیکن بائیو کرونولوجی یعنی واقعہ کا تاریخ کے لحاظ درست ہونا ) کی رو سے صحیح نہیں ہے اور اگر تذکر‘ الاولیا ء کے مصنف نے اسے خود نہیں گھڑا تو صرور یہ کسی دوسرے مصنف کی جعلی روایت ہے جس نے اسے بغیر تحقیقی کے نقل کیا ہے کیونکہ امام جعفر صادق دوسری صدی ہجری کے پہلے نصف حصے میں پڑھاتے تھے اور ا

ن کی تاریخ وفات بھی ۱۴۸ ہجری ہے جبکہ با یزید بسطامی تیسری صدی ہجر میں گزرے ہیں اور ان کی تاریخ وفات ۲۶۱ہجری لکھی گئی ہے

بایزید بسطامی کی تاریخ وفات کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ تیسری صدی ہجری میں ہو گزرے ہیں ۔ اور اسی وجہ سے وہ امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکتے تھے لیکن عرفانی تعلیمات کی امام جعفر صادق کے دروس میں موجودگی سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ۔

امام جعفر صادق کے دروس میں عرفان کے وجود سے ان کی روحانی شخصیت ہمارے لئے پر کشش بن جاتی ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ ذوق کے لحاظ سے آپ گو نا گوں تجلیات کے مالک تھے جس عرفان کی ۔۔۔۔۔ دوسری صدی ہجری میں مشرق میں ابتداء ہوئیا ور اب تک موجود ہے وہ ایک ایسی چیز ہے جو تخیل فکر اور اپنے آپ میں گم ہونے سے زیادہ آگے نہیں بڑھتا ۔

اگرچہ عرفان کے اثرات عارف پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اسے خوش اخلاقی و مہربان بنا دیتے ہیں لیکن خود عرفان ایک روحانی خلیہ ہے جسکا مادی اور سائنسی علوم سے کوئی تعلق نہیں ہے ایی صورت میں جبکہ امام جعفر صادق ایک سائنس دان تھے اور مسلمانوں میں پہلے انسان تھے جنہوں نے تیھوری کو عملی صورت دی اور کسی بھی فزکس اور کیمیاء کے نظریہ کو جب تک خود پرکھ نہ لیا ۔ قبول نہیں کیا اس طرح انہوں نے ٹیسٹ کے ذریعے کسی بھی نظریئے کے درست ہونے پر یقین کیا آج کے فزکس دان یا کیمیا دن جن میں سے ایک جعفر صادق بھی تھے کو عرفان سے کوئی دلچسپی نہ ہونا چاہیے تھیکیونکہ فزکس اور کیمیا کے تجربات کے ذریعی اسے نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ عرفان اپنے نفس کو کنٹرول کرنے کے بڑی مشق کے بعد حاصل ہوتا ہے جعفر صادق جو مسلمانوں میں پہلے فزکس دان اور کیمیا دان تھے اصولا انہیں عرفان سے رغبت نہیں ہونا چاہیے تھی لیکن وہ اس قدر عرفان سے دل چسپی رکھتے تھے کہ زمحشری جو ایک مشحور عالم تھا اپنی کتاب " ربیع الابرار " میں امام جعفر صادق کے علمی درجے کی غیر معمولی توصیف کرنے کے بعد آپ کو عرفان میں سب سے آگے سمجھتا ہے ۔

تذکرة الاولیاء کا مصنف " عطار " جو خود مشہور عارف ہے جعفر صادق کو عرفان کی ابتداء کرنے والوں میں سے قرار دیتا ہے " تذکرة الاولایاء ‘ ‘کی بعض روایات تاریخی لحاظ سے مرتب نہیں اور کتاب کا مصنف تصنیف کے جذبے سے سر شار اور عرفا کا عاشق تھا لہذا اس نے بعض کے بارے میں نا دانستہ طور پر مبالغے سے کام لیا ہے اگر وہ غور کرتا تو ہر گز مبالغے سے کام نہ لیتا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مبالغے سے کلام کی وقعت کم ہو جاتی ہے اور اگر تاریخ میں مبالغے سے کام لیا جائے تو اسے تاریخ نہیں کہا جائے گا جو قلم ز محشری کے ہاتھ میں تھا ہم اسے ایک مورخ کا قلم کہہ سکتے ہیں اور جو قلم تذکرة الاولیاء کے مصنف کے ہاتھ میں ہے اسے ایک عاشق کا قلم شمار کر سکتے ہیں ۔

بہر حال اسلامی عرفا اور مورخین میں سے بعض کا عقیدہ ہے کہ جعفر صادق اسلامی دنیا کے پہلے عارف یا پہلے عرفا میں سے ایک ہیں اگر ایسا ہے تو کیا جعفر صادق جیسا عارف ایسے طلباء کو جو مسلمان نہ تھے اپنے درس میں بیٹھنے اور درس حاصل کرنے کی اجازت دے سکتا ہے کیونکہ چند کتابیں اس بات کی گواہ ہیں کہ کچھ ایسے طلباء بھی امام جعفر صادق کے درس میں شریک ہوتے تھے جو صابئی تھے ۔ صابئین ایک ایسی قوم تھے جن کا مذہب یہودی اور عیسائی مذہب کی درمیانی صورت تھی اور توحید پرست شمار ہوتے تھے ۔

کچھ صابئین مشرک بھی تھے اور جب اسلام پھیلا تو وہ گروہ جو مشرک تھا اپنے آپ کو توحید پرست کہلانے لگا تاکہ مسلمانوں کے ہمراہ زندگی گزار سکیں کیونکہ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے مسلمان ان فرقوں کے لوگوں کو جو توحید پرست ہوتے تھے اہل کتاب کہتے تھے ان کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچاتے تھے ۔

صابئین کی سکونت صران میں تھی جو جنوبی بین النہرین کے مغرب میں واقع ہے قدیم یورپی تاریخ میں جس کا نام "کارہ " ہے صابئین کا وہ گروہ جو موحد تھا انکے ہاں رواج تھا کہ بچے کو پیدائش کے بعد غسل دیتے اور اس کا نام رکھتیتھے ان کی اصطلاح میں اس عمل کو تعمید کہا جاتا ہے ۔

بعض یورپی محققین جن کا نظریہ دائرةالمعارف الاسلامی کتاب میں منعکس ہوا ہے ان کا کہنا ہے کہ صبائی ‘ صبع سے مشتق ہے (یعنی صاد ۔ با ۔ عین ) جس کے معنی پانی میں غوطہ لگانا یا غسل کرنا ہے کیونکہ صبائی پادری کے پروکار ‘ نومولود کو تعمید کے دوران پانی میں غوطہ دیتے تھے ۔ زمانے کے ساتھ ساتھ لفظ صابئی سے عین گر گیا اور اس کی موجودہ شکل بن گئی ۔

وہی یورپی محققین کہتے ہیں ‘ صبائین ‘ یحیی کو جو معمد (یعنی غسل دینے والا کے نام سے مشہور ہے اپنا پیغمبر جانتے ہیں ۔

تذکرة الاولیاء کا مصنف کہتا ہے کہ تمام فرقے امام جعفر صادق کے در س میں حاضر ہوتے تھے ۔ شیخ ابوالحسن خرقانی کہتا ہے مسلمان اور کافر جعفر صادق کے درس میں حاضر ہوتے تھے ان کے علم و فضل کے دستر خوان سے بہرہ مند ہوتے تھے ۔

ہمیں نہیں معلوم کہ کس طرح جعفر صادق جیسا عارف انسان غیر مسلم طلباء کو اپنے درس میں حاضر ہونے کی اجازت دے سکتا تھا ۔ یا یہ کہ چونکہ وہ ایک وسیع النظر انسان تھے اور علم کو سب کیلئے چاہتے تھے ۔ اس لئے انہوں نے موافقت کی کہ جو کوئی بھی علم دوست ہو ان کے حلقہ درس میں حاضر ہو سکتا تھا اگرچہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو یہ بات تسلیم شدہ ہے جعفر صادق کے شاگردوں میں سے بعض ایسے بھے تھے جو صابئی تھے اور بعض یورپی محققین جن کے نظریات دائرة المعارف الاسلامی میں ثبت ہیں ۔ نے لکھا ہے کہ جابر بن حیان جو جعفر صادق کے مشہور شاگردوں میں سے ایک تھا وہ صابئی قوم سے تعلق رکھتا تھا ۔ صابئی طلباء جو جعفر صادق کے حلقہ درس میں حاضر ہوتے تھے۔ نہایت ذی فہم ہوتے اور تحصیل علم کیلئے کافی تکالیف اٹھاتے تھے انہوں نے علمی میدان میں خاصی پیش رفت کی ‘ گویا جعفر صادق کا حلقہ درس ان کیلئے ایک ایسی یونیورسٹی بن گیا تھا جس نے صابئی لوگوں کے علم و ثقافت کی بنیاد ڈالی ۔

جب ہم صابئی قوم کی جعفر صادق سے پہلے اور بعد کے دور کی تاریخ کا موازنہ کرتے ہیں تو ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ موازنہ گویا ظلمت کے ساتھ نور کا موازنہ ہے ۔

امام جعفر صادق سے پہلے صابئی ایک بدوی اور پسماندہ قوم تھے جن کی معلومات بدوؤں کیمعلومات سے زیادہ نہیں ہوتی تھیں ۔ حتی کہ وہ صابئی جو موحد شمار ہوتے تھے ان کی معلومات بھی صحرانشین قبائل سے زیادہ نہیں ہوتی تھیں ۔ لیکن جعفر صادق کے دور کے بعد صابئی قوم ایک ثقافت کی وارث بن گئی اور اس قوم میں اتنے قابل سائنس دان پیدا ہوئے جنہوں نے طب ‘ فزکس و کیمیاء ‘ انجینئرنگ میں ساری دنیا میں نام پیدا کیا اور آج ہم ان کے نام دائرة المعارف جیسی کتابوں میں پڑھتے ہیں ۔

جعفر صادق کی یونیورسٹی کے سبب صابئی پسماندہ قوم ایک متمدن قوم بن گئی اور اس متمدن معاشرے سے ایسے سائنس دان اور ادیب پیدا ہوئے جن کے کارناموں سے دنیا مستفید ہوئی اس کے ساتھ جعفر صادق کی یونیورسآٹی صابئی قوم کے باقی رہنے کا موجب بنی جو قوم اپنے آپ کو نہیں پہچانتی اور اپنی تاریخ سے مطلع نہیں ہوتی اگرچہ اس قوم میں قابل لوگ ہوں لیکن ان کی اپنی ثقافت نہ ہو تو وہ قوم مٹ جاتی ہے ۔

مگر وہ قوم جو تاریخ رکھتی ہو اور اپنے آپ کو پہچانتی ہو اور اس میں قابل افراد بھی پائے جاتے ہوں اور اس کے ساتھ وہ اپنی ثقافت بھی رکھتی ہو تو وہ قوم نہیں مٹتی جس طرح صابئی نہیں مٹے اور ابھی تک باقی ہیں اگرچہ ان کی تعداد پہلے کی مانند نہیں ہے لیکن ابھی تک ان کا کچھ حصہ اپنے قدیم رہائشی قطعات پر زندگی بسر کر رہا ہے۔

شیخ ابوالحسن خرقانی بھی زمحشری اور عطار نیشا پوری کی مانند جعفر صادق کا بہت احترام کرتا ہے اور انہیں اسلامی دنیا میں عرفا کا پیشوا سمجھتا ہے شیخ ابوالحسن خرقانی کو ایک تاریخی محقق بھی تسلیم کر سکتے ہیں کیونکہ انہوں نے عرفان کی بجیاد کے بارے میں تحقیق کی اور اس بات کا کھوج لگایا کہ عرفان اسلام سے قبل بھی مشرق میں موجود تھا ۔ لیکن وہ اسلام سے قبل ایران میں عرفان کی جڑوں کو نہیں ڈھونڈ سکے ۔

کیونکہ شیخ ابوالحسن خرقانی نے زرد شتی مذہب کے بارے میں زیادہ تحقیق نہیں کی ۔ انہیں ایران میں عرفان کی بنیادیں تلاش کرنے کیلئے زردشتی مذہب کو مد نظر رکھنا چاہیے تھا ۔

آج ہمیں معلوم ہے کہ عرفان اسلام سے پہلے ایران میں چند بنیادوں پر استوار تھا اور ان میں سے دو بنیادیں دوسروں سے زیادہ اہمیت کی حامل تھیں ایک وہ عرفان جو زردشتی مذہب سے وجود میں آیا اور دوسرا وہ عرفان جو مکتب اسکندریہ سے ایران میں پہنچا ۔

شیخ ابوالحسن خرقانی زردشتی مذہب کی بنیاد کے بارے میں زیادہ تحقیق نہیں کر سکے کیونکہ انہوں نے اس مذہب کو درخوراعتنا نہیں سمجھا جبکہ چوتھی صپدی کے دوسرے نصف حصے اور پانچویں صدی ہجری کے نصف حصے کے دوران جو شیخ خرقانی کی زندگی کا حصہ ہے اب تک ایران کے بعض خطوں کے لوگ پہلوی ساسانی زبان میں گفتگو کرتے تھے لیکن مسلمان تھے اور کچھ لوگ جو پہلوی زبان میں گفتگو کرتے تھے اور شیخ کی پیدائش کی جگہ کے نزدیک رہتے تھے یہ محال ہے کہ شیخ نے انہیں نہ دیکھا ہو اور انکی زبان نہ سنی ہو ۔ وہ یہودیوں اور عیسائیوں کے مذہب کو اچھی طرح جانتا تھا ۔ لیکن زردشتی مذہب کی ماہیت سے مطلع نہیں تھا ۔ بہر حال اسلام سے قبل عرفان کے بارے میں اس کی تحقیق قابل توجہ ہے ۔

فرانسیسی مستشرقین کی وسیع تحقیقات جو سترھویں صدی عیسوی سے لیکر موجودہ دور تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ ہندوستان کی قدیم کتابوں کا ترجمہ اور خاص طور پر ادویہ کی کتابیں ثابت کرتی ہیں کہ قدیم ادوار میں ہندوستان اور ایران کے درمیان گہرے فکری اور ثقافتی روابط تھے ۔ اور ہر دو ممالک کی ثقافت پر ان روابط کا گہرا اثر تھا ۔ سترھویں صدی عیسوی کے بعد یورپی مستشرقین نے جان لیا کہ زردشتی مذہب میں ہندی افکار بھی پائے جاتے ہیں اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ زردشتی عرفان نسبتا کچھ زیادہ ہی ہندی افکار سے ملتا جلتا ہے ۔

البتہ زردشتی مذہب اور ہندوؤں کا مذہب دو مختلف چیزیں ہیں ۔زردشتی مذہب میں دو خداؤں اور ہندوؤں میں تین کا وجود ان دو میں فرق ڈالتا ہے زردشت مذہب والوں نے جب ہندوؤں کے افکار کو جانلیا تو وہ جہاں بھی ہوتے ہندوؤں کے تین کے تصور سے پرہیز کرتے ۔ انہوں نے اپنے مذہب کی بنیاد دو کے تصور پر رکھی کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ دنیا کی بنیاد اضداد پر رکھی گئی ہے اور ہر چیز کے دو قطب یعنی منفی اور مثبت ہیں ۔

اگر شیخ ابوالحسن خرقانی اسلام سے قبل کے ادوار کے زردشتی اور مکتب اسکندریہ کے عرفان میں فرق کر سکتے تو وہ آسانی سے سمجھ سکتے تھے کہ زردشتی عرفان تین کے تصور سے وجود میں آیا ہے لیکن وہ عرفان جس کی بنیاد امام جعفر صادق نے رکھی وہ توحیدی عرفان ہے اور اس میں دو یا تین کا ذرا بھی تصور نہیں پایا جتا ‘ اور گہرائی میں جائے بغیر ہی یہ عرفان انسان کو تزکیہ نفس اور روح کی بالیدگی کی جانب لے جاتا

ہے یہ اس قدر بلند ہے کہ نہ تو جعفر صادق کے زمانے میں اور نہ از کے بعد عام لوگوں کی اس تک رسائی ہو سکی ہے جبکہ بعد کے ادوار میں عرفان چند مکاتب کا حامل بن گیا لیکن اس کے باوجود بھی جس عرفان کی جعفر صادق نے بنیاد ڈالی تھی وہ عام لوگوں کی دسترس سے باہر رہا ۔

جعفر صادق کا عرفان نہ تو ہندوؤں اور عیسائیوں جیسا تین خدئاوں کا تصور رکھتا ہے نہ ہی زردشتیوں کی مانند دو خداؤں کے تصور پر مبنی ہے اور نہ ہی بعد کے ادوار میں عرفان میں مبالغہ آرائی کی کیفیت سے دو چار ہے۔

بعد میں جب عرفان مکاتب وجود میں آئے تو ان مکاتب کے بعض بانیوں نے عرفانی فکر میں اس قدر مبالغہ سے کام لیا کہ ان پر کفر کے فتوے لگائے گئے اور یہ بھی دیکھا گیا کہ ان کی مبالغہ آرائی کے نتیجے میں ان کے پیروکار تک بھی ان سے منحرف ہو گئے بعض عرفا تو اپنے آپ کو خداوند کے برابر سمجھنے لگے ۔

از زمحشری کی ان سے نفرت بیجا نہیں تھی البتہ زمحشری ‘ امام جعفر صادق اور انکے پیروکاروں کے علاوہ دوسرے عرفاء سیبھی نفرت کرتا تھا ۔ مرتضی فرہنگ جو ایران کے دانشوروں میں سے ایک ہے ۔ کا کہنا ہے کہ بعض کا عرفان میں نے ایک ایسے پتھر سے زیادہ پایا جو کسی کو نقصان نہ پہنچا سکے ۔ لیکن خود مرتضی فرہنگ بھی عرفانی ذوق رکھتا تھا اس نے اپنی بعض تصانیف میں عرفان کا دفاع بھی کیا ہے لیکن جعفر صادق کا عرفان مبالغے سے مبرا تھا نہ صرف یہ کہ شیعہ مذہب کے عرفا نے اس کی پیروی کی بلکہ اہل سنت و جماعت کے عرفا کے ایک گروہ نے جعفر صادق سے عرفان کا درس حاصل کیا حتی کہ جعفر صادق کے دو سو سال گزر جانے کے بعد عباسی خلفاء کے مرکز بغداد میں سنی المذہب جعفر صادق کی پیروی کرتے تھے ۔اسلام میں عرفان کا یہ بانی ایک عباسی خلیفہ کے ہاتھوں قتل ہو گیا تھا ۔

جعفر صادق کا عرفان ‘ خداوند تعالی پر توکل اور اس کے احکامات کی پروی ہے آپ نے اس کے ساتھ ساتھ دنیوی امور میں بھی غفلت نہیں برتی تاکہ زندگی کا نظم و ضبط تعطل کا شکار نہ ہو ۔ " عطار نیشا پوری " تذکرة الاولیاء میں لکھتا ہے کہ با یزید بسطامی تیس سال تک بڑے بڑے عرفا کی حضور میں حاضری کیلئے بیابانوں میں ٹھوکریں کھاتا اور بھوک برداشت کرتا رہا ۔ آخر کار وہ جعفر صادق کے حضور میں حاضر ہوا اسے اس بات کا علم نہیں تھا کہ جعفر صادق با یزید کے ترک دنیا پر اور تیس سال بیابان میں بھوک برداشت کرنے پر خوش نہیں ہیں اگر با یزید بسطامی کی جعفر صادق کے حضور میں حاضر ہونے کی روایت صحیح ہے تو عرفان کے بانی نے اسے ضرور تنبیہہ کی ہو گیاور کہا ہو گا کہ کیوں تیس سال زندگی بیابانوں میں بسر کی اور بیوی فرزندوں کے بارے میں اپنے فرائض سے غافل رہے کیونکہ جعفر صادق عرفان دنیا کے ترک کرنے کے حق میں نہیں اور کہتا ہے کہ ہر ایک کو چاہیے کہ اپنے دنیوی امور کو اخروی امور کے ساتھ منظم کرے ۔

جعفر صادق کے بعد عرفانی مکاتب نے انا للہ و انا الیہ راجعون سے یہ مراد لیا ہے کہ آدمی مرنے کے بعد خدا سے وابستہ ہو جاتا ہیا ور خدا بن جاتا ہے وہ زندگی کے دوران خدا کیوں نہیں بن سکتا مرنے کے بعد آدمی کے خدا بن جانے کے عقیدے سے یہ نظریہ پیدا ہوا کہ چونکہ آدمی خدا بن کر زندہ جاوید اور تمام چیزوں سے آگاہ ہو جاتا ہے لہذا اس دنیا کے حالات کو اچھی طرح دیکھ سکتا ہے وہ اپنے قرابت داروں کو دیکھتا اور انکی مشکلات کو حل کر سکتا ہے ۔ مرنے کے بعد زندگی کا عقیدہ صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ یہ عقیدہ تمام قدیم مذاہب میں پایا جاتا ہے ہم گذشتہ مذاہب میں سے دو مذاہب کے عالوہ کسی تیسری مذہب کو نہیں پاتے جس میں مرنے کے بعد زندگی کا تصور نہ ہو ۔ حتی کہ وہ مذاہب جن میں مردے کو جلاتے اور اس کے باقیات دریا میں بہاد دیتے تھے ۔ ان کا بھی عقیدہ تھا کہ وہ مردہ دوسری دنیا میں زندہ ہے صرف مانوی مذہب اور باطنی فرقہ جو اسماعیلی فرقے کی ایک شاخ ہے ان دو کا عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد آدمی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جاتا ہے ان دونوں کے پیروکار آخرت پر بھی ایمان نہیں رکھتے تھے ۔

لیکن حسن بن صباح کے بعد باطنی فرقے کے پیشوا متوجہ ہوئے کہ ان کے پیروکاروں کو مرنے کے بعد معاد کی زندگی جزا اور سزا کا معتقد ہونا چاہیے ۔ تاکہ وہ ان میں سے ہر ایک کے اندر ایک پولیس ہو جو اسے برے کاموں کے ارتکاب سے منع کرے ان دونوں فرقوں کے علاوہ تمام ادیان میں وحدانی یا باطنی پولیس کا وجود موجود تھا اور وہ معاد کے قائل تھے ۔

ان میں سے بعض میں مثلا قدیم مصر میں عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد انسان کے اعمال کی جزاو سزا ملنا شروع ہو جاتی ہے اور بعض میں ان کی زندگی کی موت اور اس دوسری دنیا میں اعمال کی سزا و جزا میں فاصلہ پایا جاتا ہے یہاں تک کہ وحشی قبائل میں بھی مرنے کے بعد کی زندگی کا عقیدہ موجود ہے ۔ اور وہ بھی اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں ہوتا ۔

ڈاکٹر لای وینک اسٹون جو دریائے نیل کے منابع کا دریافت کرنے والا ہے جس نے انیسویں صدی عیسوی میں اپنے سیاحت نامیا ور انکشافات کے مجموعے کو انگلستان کی شاہی حکومت کی جغرافیہ کی تنظم کو تحفتہ پیش کیا جتنے عرصہ وہ مرکزی افریقہ میں رہا ‘ وہ ہر قبیلہ میں گیا اور اس نے مشاہدہ کیا کہ قبائل کے لوگ اپنے مردہ اجداد کی زندگی کے معتقد ہیں اور ان میں بعض قبیلے امور زندگی میں اپنے مردہ اجداد کے ارادہ کو موثر سمجھتے ہیں ۔ اور افریقہ کے قابل میں سے کچھ لای وینک اسٹون نے مرکزی افریقہ میں دیکھا اور سنا اور اسی طرح دوسری لوگوں نے دوسری علاقوں میں مشاہدہ کیا کہ کوئی قبیلہ جتنا پسماندہ ہو گا اس کا عقیدہ مرنے کے بعد کی زندگی کے بارے میں اتنا ہی پختہ ہو گا اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جو قومیں ترقی یافتہ اور متمدن ہیں ان میں موت کے بعد کی زندگی کا نظریہ نہیں پایا جاتا بلکہ آج ایک امریکی اور فرانسیسی بھی موت کے بعد زندگی کا قائل ہے لیکن اس کا عقیدہ سیاہ فام سے مختلف ہے ۔

سیام فام اس بات کا قائل ہے کہ موت کے بعد کی زندگی اور اس دنیا کی زندگی میں ذرا بھی فرق نہیں ہو گا جبکہ ایک امریکی یا فرانسیسی یہ گمان کرتا ہے کہ موت کے بعد کی زندگی میں بھی وہ اسی طرح غذا کھائے گا ‘ لباس پہنے گا اور پکچر دیکھنے کیلئے سینما جائے گا اسی لئے بعض مفکرین کہتے ہیں کہ موت کے بعد زندگی کا عقیدہ انسان کے فطری عقائد میں سے ایک ہے اگرچہ بیالوجی کے مظاہر اور اعضائے انسانی کے ٹائم ٹیبل کے نظام سے اس کا کوئی تعلق نہین مثلا جیسا کہ بھوک اور پیاس جانداروں کی زندگی کا خاصہ ہے ۔

بہر کیف چونکہ موت کے بعد زندگی کا عقیدہ قدیم ترین اداوار میں بھی موجود تھا اور شاید یہ عقیدہ اسلام سے نسل در نسل انسانوں تک پہنچتا رہا ہو کہ اتنا پختہ ہو گیا کہ انسانی فطرت کا حصہ بن گیا اور صرف وہ آدمی جو معاشرے میں نہ رہا ہو اور متمدن یا وحشی تہذیب کے عقائد اس تک نہ پہنچے ہوں اس عقیدے سے مبرا ۔۔۔۔ ہو سکتا ہے تمام مذاہب جو موت کے بعد زندگی کے معتقد ہیں ان میں معاد کی بنیاد اسی فطری عقیدے پر رکھی گئی ہے ہر وہ مذہب جس میں معاد پر اعتقاد پایا جاتا ہے اس نے اس فطری عقیدے سے فائدہ اٹھا کر انسانوں میں وجدانی یا باطنی پولیس پیدا کی ہے قدیم مصر میں یہ عقیدہ تھا کہ اگر کوئی شخص دوسرے کا مال چوری کرے گا تو دوسری دنیا (مغربی دنیا ) میں وہ ہمیشہ کیلئے تاریکی میں زندگی بسر کرے گا اور سورج کی روشنی اس تک نہیں پہنچے گی حتی کہ وہ ایک چراغ سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکے گا ۔

&#زرد شتی مذہب میں عقیدہ تھا کہ دوسری دنیا میں چنوند (بروزن در بند ) ایک پل ہے جو گنہگار ہو گا وہ اس پل پر سے نہیں گزر سکے گا اور وہیں گر جائے گا ۔ مشرق کے عرفانی مکتب فکر نے مسلمانوں کے موت کے بعد زندگی کے فطرت اور مذہبی عقیدہ سے فائدہ اٹھایا اور اپنے پیروکاروں کی روح کی پرورش کیلئے راستہ ہموار پایا بس انہیں اس بات کی ضرورت پیش نہ آئی کہ وہ اپنے پیروکاروں کی روح کی پرورش ابتداءسے کریں اور اس ابتداء میں ایک عرصہ صرف کریں پھر کہیں جا کر ان کے پیروکار اس بات کو سمجھیں کہ آدمی موت کے بعد زندہ رہتا ہے اور انہیں ایسے کاموں کی طرف شوق دلائیں جن کی وجہ سے وہ مرنے کے بعد اعلی مقام پر فائز ہو سکیں ۔ یہ کام عرفان کی پہلی سیڑھی تھی لیکن عرفاء دوسری صدی ہجری کے خاتمہ پر اس سے بلند مرتبے تک پہنچ گئے اور عرفان کی بنیاد اس پر رکھی کہ انسان اسی دنیا میں بلند ترین مرتبے تک پہنچ گئے اور عرفان کی بجیاد اس پر رکھی کہ انسان اسی دنیا میں بلند ترین مرتبے تک پہنچ گئے اور عرفان کی بنیاد اس پر رکھی کہ انسان اسی دنیا میں بلند ترین مرتبے تک پہنچ جائے اور جو چیز اس فکر کو وجود میں لائی وہ موت کے بعد زندگی کا عقیدہ تھا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر مسلمان یا دوسری اقوام موت کے بعد زندگی کی معتقد نہ ہوتیں تو عرفان وجود میں نہ آتا اس لئے کہ عرفان کے وجود میں آنے کا کوئی راستہ نہ تھا ۔ عارفوں نے کہاہے یہ انسان جو مرنے کے بعد بدون شک و تردید زندہ رہتا ہے اور موت لباس کی تبدیلی کے علاوہ کچھ بھی نہیں پھر کیوں نہ انسان اسی دنیا میں روح کی تکمیل کے اعلی ترین مرتبے تک نہ پہنچے اور اپنے آپکو ملکوت تک نہ پہنچائے چہ جائیکہ وہ صبر کے تاکہ موت کے بعد کامل انسان کے اعلی مرتبے پر فائز ہو ۔

عرفان کے متعدد مکاتب فکر کا آخری ہدف یہ رہا ہے کہ انسان اسی دنیا کی زندگی میں اپنے آپکو ملکوت تک پہنچائیا ور جب ہم عرفان کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ عرفان کا مقصد یہ ہے کہ انسان اسی دنیا میں اور موت سے پہلے اپنے آپ کو خدائی مرتبے تک پہنچائے لیکن جعفر صادق کے عرفان میں یہ موضوع نہیں پایا جاتا اور انہوں نے کہا کہ انسان کو اس دنیوی زندگی میں خدائی کے مرحلے تک پہنچ جانا چاہیے ۔ یہ عقیدہ جعفر صادق کے بعد کے عرفانی مکاتب فکر کی پیدوار ہے اور دو چیزیں عرفانی مکاتب فکر میں اس عقیدہ کو وجود میں لائیں ایک یہ کہ آدمی موت کے بعد بھی زندہ رہے گا اور دوسرا وحدت وجود کا نظریہ ۔

وحدت وجود کا نظریہ جو جعفر صادق کے بعد مشرق میں دو بڑے عرفانی مکاتب فکر کی بنیاد بنا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نظریہ مشرق کی پیدوار ہے اور ہندوستان و ایران سے اٹھا اور پھر مشرق سے یورپ گیا وہاں اس نظریئے کے بہت سے حامی پیدا ہوئے ۔

جعفر صادق وحدت وجود پر یقین نہیں رکھتے تھے اور مخلوق کو خالق سے جدا سمجھتے تھے جو لوگ وحدت وجود کے حامی تھے وہ کہتے تھے کہ خدا اور جو کچھ اس نے خلق کیا ہے ا میں کوئی فرق نہیں مگر یہ کہ صرف حالت کا فرق ہے یعنی شکل و لباس وغیرہ کا تفاوت ہے ۔

عام جامد اشیاء درخت ‘ دوسرے جاندار یہی خدا ہے کیونکہ شروع میں خدا کے علاوہ کچھ نہ تھا اور چونکہ جہان کا آغاز و انجام نہیں ہے یہ چیزیں بھی خدا کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتیں اور چونکہ خدا کے علاوہ کوئی چیز نہ تھی اور نہ ہے ۔ لہذا جمادات درختوں اور جانوروں کا خمیر خدا نے اپنی ذات سے اٹھایا ہے پس اسی لئے خداوند عالم اور جو کچھ اس نے پیدا کیا ہے ماہیت کے لحاظ سے ان دو میں کوئی فرق نہیں ہے ۔


source : http://www.shianet.in
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ہدف کے حصول ميں امام حسين کا عزم وحوصلہ اور شجا عت
حضرت علی علیہ السلام کا علم شہودی خود اپنی زبانی
زندگی نامہ حضرت امام حسین علیہ السلام
تحریک عاشورا کے قرآنی اصول
پہلا باب فضائلِ علی علیہ السلام قرآن کی نظر میں
غديرخم اور حضرت علي عليه السلام کي منزلت
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے خطوط بادشاہوں ...
اقوال حضرت امام زین العابدین علیہ السلام
امام جعفر صادق (ع) کی حدیثیں امام زمانہ (عج) کی شان ...
صحیفہ امام حسن علیہ السلام میں آنحضرت کی دعائیں

 
user comment