قريش کے قبيلوں کو ايک ساتھ مل کرحملہ کر کے کا ميابي کا امکان نھيں تھا لہٰذا انھوں نے خندق کے پاس کي ايک تنگ جگہ تلاش کي اور اس ميں گھوڑوں کو ڈال کر خندق پار گئے، ان ميں عمرو بن عبد ود بھي تھا جوجاھليت ميں قريش اور کنانہ کا شھسوار شمار ھوتا تھا ،جو ہتھياروں سے اس طرح ليس تھا گويا ايک قلعہ ھو وہ اپني طاقت کي وجہ سے جھوم رھا تھا ،جب مسلمانوں نے اس کو ديکھا تو اُن پر خوف طاري ھو گيااور عمرو ان کے سامنے ٹھلنے لگا ،اُس نے مسلمانوں کوتحقيرسے بلند آواز ميں کھا :اے محمد(صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کے ساتھيو!کيا تم ميں کو ئي ميرا مقابلہ کرنے والا ھے ؟
مسلمانوں کے دل دھل گئے ،اُن پر خوف طاري ھو گيا ،اس نے دوبارہ مبارز طلب کيا!کيا تم ميں کو ئي ميرا مقابلہ کر نے والا ھے ؟
کسي نے کو ئي جواب نھيں ديا،ليکن اسلام کے بھا در امام امير المو منين (ع) نے عرض کيا :
”اَنَالَہُ يَارَسُوْ لَ اللّٰہ“ -
”يارسول اللہ ميں اس کا مقابلہ کر وں گا “-
رسول اللہ (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے اپنے چچا زاد بھا ئي کے سلسلہ ميں کچھ خوف کھا تے ھوئے فرمايا :”اِنَّہُ عَمْرُو!“ ”يہ عمرو ھے “-
امام(ع) پيغمبر کے حکم کي تعميل کر تے ھوئے بيٹھ گئے ،عمرو نے مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ھوئے پھر اس طرح مبارز طلب کيا : اے محمد (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم)کے اصحاب ،تمھاري وہ جنت کھاں ھے جس کے متعلق تم يہ گمان کرتے ھو کہ قتل ھونے کے بعد اس ميں جا ؤ گے ؟کيا تم ميں سے کو ئي اس ميں جانا چا ہتا ھے ؟
مسلمانوں ميں خاموشي چھا ئي ھو ئي تھي ،امام(ع) نبي سے اجازت لينے پرمصرتھے ، نبي(صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کے پاس بھي اذن دينے کے علاوہ اور کو ئي چارہ نھيں تھا ،آ نحضرت(صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے امام(ع) کو شرف و عظمت کاعظيم الشان تمغہ ديااور فرمايا : ”بَرَزَالْاِيْمَانُ کُلُّہُ اليٰ الشِّرْکِکُلِّہِ”کل ايمان، کل شرک کا مقابلہ کر نے کے لئے جا رھا ھے “ -
يہ خورشيد کي مانند روشن و منورتمغہ ھے آنحضرت(صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے حسين (ع) کے پدر بزرگوار کوکل اسلام کي شکل ميں مجسم کيا اورعمرو کوکل شرک ميں مجسم فرمايا ،اس کے بعد نبي اکرم(صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے اپنے ھاتھو ں کو آسمان کي جانب بلند کرکے گڑگڑاکريو ں اپنے چچا زاد بھا ئي کي حفاظت کے لئے دعا فر ما ئي :”خدايا تو نے مجھ سے حمزہ کو احد ميں لے ليا ،بدر ميں عبيدہ کو ، آج کے دن علي(ع) کي حفاظت فرما---پروردگار !مجھے اکيلا نہ چھوڑدينا کہ تو تمام وارثوں سے بہتر وارث ھے “-
امام (ع) عمرو بن عبد ود سے بغير کو ئي خوف کھائے ھوئے اس سے جنگ کے لئے روانہ ھوئے آپ (ع) نے بے نظير عزم و ثبات کا مظاھرہ کيا اور عمرو ،اُس جوان سے بہت ھي متعجب ھواجس کو اُس (عمرو ) کي کو ئي پروا ھي نھيں تھي -عمرو نے کھا : تم کون ھو ؟
امام (ع) نے اس کا مذاق اڑاتے ھوئے جواب ديا :”ميں علي بن ابي طالب ھوں “-
عمرو نے امام (ع) سے شفقت و مھربا ني کا مظاھرہ کرتے ھوئے کھا: ”تمھارا باپ ميرادوست تھا-
اما م کو اس کي صداقت کا يقين نہ ھوا اور اس سے فرمايا :اے عمرو !تونے اپني قوم سے يہ عھد کيا ھے کہ اگر قريش کا کو ئي شخص تجھ سے تين شرطيں کر ے گا تو ،تو ان ميں سے ايک شرط کو قبول کرلے گا ؟-
عمرو بن عبد ود :ھاں يہ ميرا عھد ھے -
امام(ع) :ميں تجھ کو اسلام کي دعوت ديتا ھوں -
عمرو ھنسا اور اس نے امام (ع) کا مذاق اڑاتے ھوئے کھا : کيا ميں اپنے آباء و اجداد کے دين کو چھوڑ دوں ؟ ان باتوں کو چھوڑ ئے -
امام (ع): ميں تجھ سے ھاتھ اٹھا ئے ليتا ھوں ، تجھ کو قتل نھيں کرتا ، تو پلٹ جا؟---
عمرو نے اس جوان کي اس جرات و ھمت پر غضبناک ھو کر کھا :اب آپ (ع) مجھ سے بھاگ جانے کي بات کر رھے ھيں !
امام (ع) نے اس کے اپنے نفس سے کئے ھوئے عھد کي تيسري بات بيان کرتے ھوئے فرمايا : اپنے گھوڑے سے نيچے اتر آ؟“
عمرو اس جوان کي اس ھمت و جرات اور اپني شخصيت کے لئے اس چيلنج اور اپني اھانت پر بہت زيادہ حيرت زدہ ھوا، وہ اپني سواري سے نيچے اتر آيااور اس نے اپني تلوار سے امام کے سر پر وار کيا امام (ع) نے اس کو اپني ڈھال پر روکا تو وہ ڈھال کو کاٹ کر آپ کے سر تک پھنچي جس سے آپ کا سرشگافتہ ھو گيا ، مسلمانوں کو امام کے اپنے رب حقيقي کي بارگاہ ميں جانے کا يقين ھو گيا ،ليکن اللہ نے امام (ع)کي نصرت و مدد کي آپ (ع) نے عمرو کو ايسي ضرب لگا ئي کہ قريش کا يہ بھادر تلملا کے رہ گيا اور کفر و شرک کا يہ نمائندہ اپنے ھي خون ميں ذبح کئے ھوئے حيوان کي طرح لوٹنے لگا -
امام اور مسلمانوں نے نعرئہ تکبير بلند کيا ،شرک کي کمر ٹوٹ گئي ،اس کي طاقتيں سست ھو گئيں ، اسلام کو امام المتقين کے ھاتھوں يقيني کا ميابي ملي ،نبي نے تاريخ ميں ھميشہ کي خاطر امام (ع) کے لئے يہ جملہ ارشاد فرمايا :”خندق کے دن علي بن ابي طالب کي ضربت ميري امت کے قيامت کے دن تک کے اعمال سے افضل ھے “
جليل القدر صحابي حذيفہ بن يمان کا کھنا ھے :جنگ خندق ميںمولائے کا ئنات کے ھاتھوں عمرو کي ھلاکت اگر تمام مسلمانوں کے درميان تقسيم کر دي جا ئے توسب کے شامل حال ھو گي -
اس وقت نبي اکر م(صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) پر يہ آيت نازل ھو ئي :< وَکَفيٰ اللّٰہُ المُومِنِيْنَ الْقِتَالَ >-
”اور اللہ نے مو منين کو جنگ کي دشواري سے محفوظ رکھا“-
ابن عباس اپني تفسير ميں بيان کرتے ھيں : ”اللہ نے مو منين کوجنگ سے علي(ع) کے جھادکے ذريعہ بچاليا “-
امام(ع)نے قريش کے دوسرے بھادر نوفل بن عبد اللہ کو قتل کيا جس سے قريش کو شکست فاش ھو ئي اور نبي اکرم(صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے فرمايا :”الآن نغزوھم ولايغزوننا“-
”اب ھم ان سے جنگ کريں گے اور انھيں ھم سے جھاد کي اجازت نہ ھو گي“-
قريش گھاٹا اٹھاکر پلٹ گئے ،ان کو شکست فاش ھو ئي اور مسلمانوں کا اس جنگ ميں کو ئي نقصان نھيں ھوا -
source : www.tebyan.net