میدان کربلا میں خانوادہ نبوت کے چشم و چراغ حضرت امام حسین علیہ السلام نے 10 محرم الحرام 61 ھ کے دن جو عظیم قربانی پیش کی، چودہ سو سال گزر جانے کے بعد بھی اس قربانی میں بہنے والے پاکیزہ خون کی خوشبو اطراف عالم میں پھیلتی جا رہی ہے۔ شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا خطہ ہو جس میں امام عالی مقام کے آزادی و حریت کے پیغام کی شمع روشن نہ ہو۔ کربلا کے حسین ع نے انسان کو فاسق و فاجر اور ظالم حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ امام علیہ السلام کا قیام اور تحریک ہر مکتب فکر، مذہب و ملت اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے لئے یکساں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ نواسہ پیغمبر ص نے اپنے پاکیزہ خون کی حرارت سے معاشرے کی روح کو زندہ کیا۔
بہت سے دنیاوی بادشاہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے نام، ان کے پیغام اور ان کی باتیں باقی رہ جائیں، اگرچہ اس میں انسانیت کے لئے کوئی پیغام نہیں ہوتا۔ اس کے لئے وہ کندہ شدہ تختیاں اور کتبے نصب کرتے ہیں، لیکن یہ نوشتے کبھی لوگوں کے دلوں اور سینوں پر ثبت نہیں ہوتے، اس کے برعکس خون سے لکھا ہوا پیغام حسین ع ہوائی لہروں کے صفحات پر ثبت ہے اور نام حسین ع لوگوں کے دلوں اور سینوں پر ثبت ہے۔
بعض لوگ واقعہ کربلا کو ایک انسانی جان کے ضیاع کے حوالے سے دیکھتے ہیں اور اس کا حد اکثر مقام یہ ہے کہ ایک ظالم کے ہاتھوں ہمارے امام بے جرم مارے گئے۔ ہم نے یہ کبھی فکر نہ کی کہ وہ شخص زندہ ہے بلکہ اس نے شہید ہو کر اپنے ہر قطرہ خون کو بے انتہا قدر و قیمت بخشی ہے۔ وہ ایسی شخصیت تھی جس نے ایک ایسی لہر پیدا کی، جو صدیوں سے ستم گروں کے محلوں کو لرزاتی چلی آ رہی ہے۔ وہ ایک ایسی ہستی تھی جس کا نام اور آزادی، مساوات، عدالت، توحید، خدا پرستی اور خود فراموشی ایک ہو گئے۔ بھلا وہ کس طرح فنا ہو گیا۔؟ درحقیقت امام عالی مقام نے دین اسلام کی تجدید حیات کی۔
امام حسین ع نے اسلام کی جرات و بہادری کو زندہ کیا۔ مسلمانوں کی روح کو شخصیت،حریت، غیرت اور ہدف عطا کیا۔ ان کے بدن سے سستی و بے حسی کو نکال باہر کیا۔ ان کی روح کو حرکت دی۔ کفر‘، لادینیت، ظلم و ستم سے مبارزہ کرنے کے لئے جرات اور ہمت کو زندہ کیا۔ امام ع نے مسلمانوں کی معنوی شخصیت کو بیدار کیا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ معرکہ حق و باطل میں شہید مظلوم کو انسانی جذبات و احساسات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ بتایا جائے کہ وہ کون سا مقصد تھا کہ جس کے لئے امام ع نے اپنی اور اپنے اعزہ کی جان قربان کی۔؟
علی اکبر ع کی جوانی ایسی نہ تھی کہ کسی معمولی مقصد کی خاطر دے دی جائے۔۔۔عباس علمدار ع کا شباب ایسا نہ تھا کہ کسی معمولی مقصد کی خاطر دے دیا جائے۔۔۔ شش ماہے علی اصغر ع کی ننھی جان ایسی نہ تھی کہ بلاوجہ اس کی قربانی دے دی جاتی، حتٰی کہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی چادر ایسی نہ تھی کہ کسی معمولی مقصد کی خاطر دے دی جاتی۔ یقیناً جس مقصد کے لئے اتنی عظیم قربانیاں دی گئیں وہ کتنا عظیم تر ہو گا۔
جو لوگ مکتبی اور نظریاتی زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور اپنے عمل و کردار کو مذہب کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنی انفرادی، اجتماعی، عبادی اور سیاسی زندگی کو شرعی اصولوں پر استوار کریں۔ اس لحاظ سے عاشورہ ایسے قیام کا نام ہے جس میں فقہی نقطہ نظر سے ہر عمل انجام پایا ہے۔ کہاں پر زخمی ہونا ہے؟۔۔۔کہاں پر قید ہونا ہے؟۔۔۔کہاں پر شہید ہونا ہے؟۔۔۔کہاں خاموش رہنا ہے؟۔۔۔اور کہاں امر بالمعروف اور نہی از منکر کرنا ہے؟۔۔۔ یہ تمام کربلا میں شرعی اصولوں کے مطابق انجام پایا ہے۔ مذہب کی تشریح اور عقائد کا بیان امام ع کی ذمہ داری ہے۔ امام ع اپنے کلام اور عمل سے صحیح اعتقادات کی طرف رہنمائی اور انحرافات سے مقابلہ کرتے ہیں۔
یہ کہ عقیدہ توحید کیا ہے۔؟ قیامت انسان کی عملی زندگی پر کیا اثر ڈالتی ہے۔؟ سیرت انبیاء کسے کہتے ہیں۔؟ امامت کس طرح رسالت کا تسلسل ہے۔؟ اہل بیت کون ہیں اور ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔؟ امت کے امام ع کے برابر کیا فرائض ہیں؟ یہ سارے ایسے نکات ہیں جو عاشورہ کے پیغامات ہیں۔ اگر اس زاویے سے عاشورہ میں غور کیا جائے تو عاشورہ ایک درس کی کلاس ہے، جس میں ہم امام ع اور ان کے اصحاب باوفا سے سبق حاصل کرتے ہیں۔ یہاں تک کے امام ع اور اہل بیت ع کے خطبات اور شہادت سے پہلے آپ کے اصحاب کے رجز سب کے سب اپنے اندر پیغام لئے ہوئے ہیں۔
واقعہ کربلا ایک اتفاقی حادثہ نہیں تھا۔ بلکہ اس کے اسباب و علل تھے۔ اس وقت حسین ابن علی ع کے سامنے دو راستے تھے۔ ذلت کے ساتھ بیعت یا شہادت تک مسؤلیت کی ادائیگی۔ آپ نے مسئولیت کی ادائیگی کو مقدم سمجھا، چاہے اس راستے میں انہیں اپنی جان بھی کیوں نہ قربان کرنا پڑے۔ چنانچہ آپ نے اپنے بھائی محمد ابن حنفیہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا۔
’’میں نے یوں ہی قیام نہیں کیا۔ نہ فساد اور ظلم و ستم میرا مقصد ہے۔ میں تو صرف اس لئے نکلا ہوں کہ اپنے نانا کی امت کی اصلاح کروں۔ میں چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف اور نہی از منکر کو انجام دوں اور یوں اپنے نانا اور اپنے بابا کی سیرت کی پیروی کروں۔ اب اگر کوئی میری دعوت کو حق سمجھ کر قبول کرلے تو اس نے اللہ کا راستہ اختیار کیا اور اگر میری دعوت کو مسترد کردے تو میں صبر کروں گا، یہاں تک کہ میرے اور ان افراد کے درمیان اللہ فیصلہ کرے اور یقیناً اللہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔‘‘
اگر بالفرض امام علیہ السلام سے بیعت کا مطالبہ نہ کیا جاتا تو کیا آپ خاموش اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے۔؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ امام علیہ السلام کا ارباب اقتدار سے اختلاف محض یزید کی بیعت تک محدود نہیں تھا۔ اگر ارباب اقتدار بیعت کے سلسلے میں خاموش بھی رہتے تو بھی امام علیہ السلام خاموش نہ رہتے، کیونکہ یزید اور بنو امیہ ظلم و ستم، معاشرتی برائیوں اور اسلامی احکام میں تبدیلی چاہتے تھے۔ یہ وہ بڑی برائیاں تھیں جن کی اصلاح امام اپنی شرعی ذمہ داری سمجھتے تھے۔
سید الشہداء ع حاکم وقت کو ان صفات سے بے بہرہ دیکھتے ہیں، جن سے ایک مسلمان حکمران کو متصف ہونا چاہیے اور الہی نمائندہ کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرنے والے کو مسترد کرتے ہیں۔ چنانچہ اپنے ایک خطبے میں فرماتے ہیں’’اے لوگو! رسول خدا ص نے فرمایا! اگر کوئی شخص کسی ظالم حاکم کو دیکھے جو ظالم و ستمگر ہو کہ اللہ کے حرام کئے ہوئے کو حلال بنا رہا ہو، خدا سے کئے ہوئے عہد و پیمان توڑ رہا ہو، رسول اللہ کی سنت کی مخالفت کرتا ہو اور اللہ کے بندوں کے ساتھ ظلم و ستم سے پیش آتا ہو اور (یہ شخص) ایسے حاکم کو دیکھنے کے باوجود اپنے عمل یا اپنے قول سے اس کی مخالفت نہ کرے تو اللہ کو حق ہے کہ اس (خاموش اور بے عمل) شخص کو اسی ظالم کے ہمراہ عذاب میں مبتلا کرے۔ اے لوگو! جان لو۔۔۔ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی‘، رحمن کی اطاعت کو ترک کر دیا۔ فتنہ و فساد کو رواج دیا ہے۔ اللہ کی حدود کو معطل کیا ہے۔ میں ان مفسدوں کے مقابلے میں اسلامی معاشرے کی رہبری کا زیادہ حقدار ہوں اور ایسے حالات میں ایک مسلمان کا فریضہ یہ ہے کہ خاموش نہ بیٹھے۔‘‘
حکومت وقت کی کوشش تھی کہ ایک منصوبے کے تحت لوگوں کو جاہل رکھا جائے اور کسی صورت میں بھی وہ علم و معرفت اور اسلامی ثقافت سے آگاہ نہ ہونے پائیں۔ خصوصاً علوم و معارف اہل بیت ع تک رسائی کا دروازہ مکمل طور پر بند کر دیا جائے اور لوگوں کو حقیقت اسلام سے جتنا دور رکھا جائے گا اتنا ہی جابر حکمران اپنے اقتدار کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ چنانچہ حکومت وقت نے امت اسلامیہ کی عمومی جہالت سے کافی ناجائز فائدہ اٹھایا۔ ایک طرف نماز، روزہ اور حج کا فریضہ بھی انجام دیا جا رہا تھا مگر یہ اعمال روح سے خالی تھے۔ خلافت اسلامیہ کا مقدس منصب دشمن اسلام کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ اسلام کے اصلی خدوخال مسخ کئے جا رہے تھے اور مخالف اسلام نظریات کی ترویج عروج پر تھی۔ ایسے حالات میں امام علیہ السلام نے لوگوں کو حق سے روشناس کرایا۔ علم و معرفت اور اسلام کا حقیقی چہرہ دوبارہ نمایاں کیا اور سنت نبوی کا پھر سے احیاء کیا۔
امام حسین ع اور آپ کے جانثار ساتھیوں کا دستور تھا حتٰی کہ روز عاشورہ کو بھی نماز کو ہر چیز سے زیادہ اہمیت دی۔ نماز کا وقت آیا تو عارضی جنگ بندی کر دی۔ آ پ کے صحابی ابو سمامہ صیداوی نے عرض کیا مولا نماز کا وقت ہے۔ دل چاہتا ہے کہ آپ کی اقتداء میں نماز ادا کر کے اپنے پروردگار سے ملاقات کروں، تو امام نے فرمایا ’’تم نے نماز یاد دلائی، خدا تمہیں ان نماز گزاروں میں سے قرار دے جو خدا کا ذکر کرتے ہیں۔ مزید فرمایا کہ بارالہا! ہم تیری قضا و قدر کے سامنے صابر و شاکر ہیں۔‘‘
دور حاضر بھی کربلا کا منظر پیش کرتا دکھائی د ے رہا ہے۔ افغانستان ہو یا کشمیر۔۔۔عراق ہو یا صومالیہ۔ ہر خطے میں اسلامی دنیا یزیدی فکر کے حامل دشمنان اسلام کے ظلم و تشدد اور وحشت و بربریت کا شکار ہے۔ ملت اسلامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ کربلا کے درس حریت سے استفادہ کرتے ہوئے خالق حقیقی پر کامل ایمان کے ساتھ دین اسلام کا چہرہ مسخ کرنے والی قوتوں کے خلاف برسرپیکار ہوں اور اس قرآنی حکم کو ذہن میں رکھیں کہ ’’غم نہ کرو۔۔۔ڈرو نہیں ۔۔۔ بے شک تم ہی سب سے برتر و غالب ہو۔۔۔اگر تم مومن ہو تو‘‘۔
source : http://www.urdu.shiitenews.com