اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

کیا انبیاء میں بھول چوک کا امکان ان کی عصمت سے ہم آہنگ ہے؟

سورہ ٔکہف کی مختلف آیات میں یہ بیان ہوا ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام بھول گئے، ایک جگہ پر ارشاد ہوتا ہے کہ جس وقت وہ دونوں (جناب موسیٰ اور ان کے ہم سفر دوست ) دو دریا کے سنگم پر پہنچے تواپنی مچھلی بھول گئے، اور وہ مچھلی عجیب طرح سے دریا میںچلنے لگی!۔

( فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَیْنِہِمَا نَسِیَا حُوتَہُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیلَہُ فِی الْبَحْرِ ) (١)

'' پھر جب دونوں دو دریا کے سنگم تک پہنچ گئے تو اپنی مچھلی بھول گئے اور اس نے سمندر میں اپنا راستہ نکال لیا''۔

لہٰذا دونوں ہی بھول گئے۔

اور دو آیت کے بعد جناب موسیٰ علیہ السلام کے دوست کی زبانی نقل ہوا ہے :

( فَِنِّی نَسِیتُ الْحُوتَ وَمَا َنْسَانِیہُ ِلاَّ الشَّیْطَانُ َنْ َذْکُرَہُ)(٢) 

'']اس جوان نے کہا کہ کیا آپ نے یہ دیکھا ہے کہ جب ہم پتھر کے پاس ٹھہرے تھے[ تو 

(١)سورۂ کہف ، آیت٦١.

(٢) سورۂ کہف ، آیت٦٣.

میں نے مچھلی وہیں چھوڑ دی تھی اور شیطان نے اس کے ذکر کرنے سے بھی غافل کردیا تھا''۔

اگر جناب موسیٰ علیہ السلام کے دوست یوشع بن نون تھے (جیسا کہ مفسرین کے درمیان مشہور ہے) حالانکہ وہ بھی پیغمبر تھے تو معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر بھول طاری ہوسکتی ہے۔

نیز چند آیتوں کے بعد جناب موسیٰ علیہ السلام کی زبانی نقل ہوا ہے کہ جب ان کی ملاقات اس عظیم بندۂ خدا (جناب خضر) سے ہوئی تو ان سے وعدہ کیا کہ ان کے اسرار آمیز اعمال کے بارے میں کوئی سوال نہیں کریں گے، یہاں تک کہ وہ خود اس کے بارے میں وضاحت کریں، لیکن جناب موسیٰ علیہ السلام پہلی مرتبہ بھول گئے، کیونکہ جب جناب خضر اس صحیح و سالم کشتی میں سوراخ کرنے لگے تو جناب موسیٰ نے اعتراض کردیا کہ آپ ایسا کیوں کررہے ہیں؟! تو اس وقت جناب خضر نے ان کاکیاہوا وعدہ یاد دلایا جناب موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ( قَالَ لاَتُؤَاخِذْنِی بِمَا نَسِیتُ)(١) ''موسیٰ نے کہا کہ خیر جو فروگزاشت ہوگئی اس کا مواخذہ نہ کریں''۔

اور یہی بات دوسری اور تیسری مرتبہ بھی تکرار ہوئی۔

کیا ان تمام مذکورہ آیات کے پیش نظر یہ نتیجہ نہیں نکلتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام فراموشی اور بھول طاری ہوسکتی ہے؟ اور کیا بھول چوک عصمت کے منافی نہیں ہے؟

اس سوال کے جواب میں مفسرین نے مختلف راہ حل بیان کی ہیں، بعض مفسرین کہتے ہیں: ''نسیان'' ]بھول[ کسی چیز کے ترک کرنے کے معنی میں ہے اگرچہ اس کو بھلایا بھی نہ جائے، جیسا کہ جناب آدم علیہ السلام کے واقعہ میں پڑھتے ہیں:

(وَلَقَدْ عَہِدْنَا ِلَی آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ...)(٢)

''اور ہم نے آدم سے اس سے پہلے عہدلیا مگر انھوں نے اسے ترک کردیا''۔

(١) سورۂ کہف ، آیت٧٣.        (٢) سورۂ طہ ، آیت١١٥.

یہ بات مسلم ہے کہ جناب آدم علیہ السلام ممنوعہ درخت کا پھل کھانے کے بارے میں عہد الٰہی کو نہیں بھولے لیکن چونکہ اس کی نسبت بے اعتنائی کی لہٰذا ''نسیان'' ]بھول[ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔

بعض مفسرین کہتے ہیں کہ ''بھولنے والے'' در حقیقت جناب موسیٰ علیہ السلام کے دوست تھے نہ خود جناب موسیٰ، اور ان کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ نبی تھے یا نہیں، کم از کم قرآن مجید کی رُو سے یہ بات ثابت نہیں ہے، اس کے علاوہ انھیں آیات میں بیان ہوا ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کے دوست نے مچھلی کو دریا میں گرنے، اس کے زندہ ہونے اور اس کے چلنے کو دیکھا، انھوں نے سوچا کہ جناب موسیٰ علیہ السلام سے اس ماجرے کو بیان کرے لیکن وہ بھول گئے، لہٰذا یہاں پر بھولنے والے جناب مو سیٰ کے ساتھی ہی تھے، کیونکہ صرف انھوںنے اس واقعہ کو دیکھا تھا، اور اگر آیت میں ''نسیا'' کا لفظ آیا ہے جس میں دونوں کی طرف بھول کی نسبت دی گئی ہے تو یہ نسبت ایسی ہی ہے جیسے مزدور کے کام کو ٹھیکیدار کی طرف نسبت دیتے ہیں اور ایسا بہت رائج ہے ،]مثلاً عمارت میں کام کرنے والے مزدور ہوتے ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ فلاں انجینئر نے یہ عمارت بنائی ہے وغیرہ وغیرہ[

ممکن ہے کوئی یہ کہے :یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان اتنے اہم مسئلہ ]یعنی مچھلی کا زندہ ہوجانے[ کو بھول جائے، تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کے دوست نے اس سے اہم معجزات دیکھے تھے، اس کے علاوہ اس عجیب و غریب سفر میں اس سے کہیں زیادہ اہم مسائل کی جستجو کی جارہی تھی، اسی وجہ سے اس واقعہ کوبھول جانا جائے تعجب نہیں ہے۔

اور جیسا کہ بھلانے کی نسبت شیطان کی طرف دی گئی ہے،تو اس کی وجہ ممکن ہے یہ ہو مچھلی زندہ ہونے کا واقعہ اس عالم ]خضر[ کے ملنے سے تعلق رکھتا ہو جن سے جناب موسیٰ علیہ السلام کو علم حاصل کرنا تھا، اور چونکہ شیطان کا کام بہکانا ہے جو ہمیشہ یہی چاہتا ہے کہ کوئی بھی اپنے پاک و پاکیزہ مقصد تک نہ پہنچ سکے، یا دیر سے پہنچے، لہٰذا اس نے جناب موسیٰ کے دوست کو بھلادیا ہو۔

پیغمبر اکرم  ۖ سے بعض احادیث میں بیان ہوا ہے کہ جس وقت مچھلی زندہ ہوکر دریا میں کود پڑی، اور پانی میں چلنے لگی ، اس وقت جناب موسیٰ علیہ السلام سورہے تھے، اور ان کے دوست (جو اس واقعہ کو دیکھ رہے تھے) انھوںنے جناب موسیٰ کو بیدار کر نا نہیں چا ہا ،تا کہ ان سے واقعہ بیان کر ے لیکن جب جناب موسیٰ بیدار ہوگئے تو وہ بھول گئے، اور جناب موسیٰ علیہ السلام سے نہ بتاسکے، جس کی بنا پر ایک روز و شب اپنے راستے پر چلتے رہے، اس کے بعد ان کے دوست کو یاد آیا تو انھوںنے جناب موسیٰ علیہ السلام سے وہ واقعہ بیان کیا، تو انھیں مجبوراً اسی جگہ آنا پڑا کہ جہاں پر مچھلی پانی میں  گری تھی۔(١)

اور بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام بھول چوک سے معصوم ہوتے ہیں، لیکن وہ بھول چوک جو لوگوں کی ہدایت سے متعلق ہو، لیکن ایسی بھول چوک جو ان کے روز مرہ کے ذاتی کاموں سے متعلق ہو اور جو نبوت، تعلیم و تربیت اور تبلیغ سے متعلق نہ ہو ، تو ایسی بھول ان کی عصمت کے لئے منافات نہیں رکھتی، اور مذکورہ آیات میں جو بھول بیان ہوئی ہے وہ اسی طرح کی ہے۔ (٢)

(١) تفسیر مراغی ،جلد ١٥، صفحہ ١٧٤.

(٢) تفسیر پیام قرآن ، جلد ٧، صفحہ ١٢٦.


source : http://www.shianet.in
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
صحابہ کے عادل ہونے کے متعلق تحقیق
گھریلو کتے پالنے کے بارے میں آیت اللہ العظمی ...
کیا عصمت انبیاء جبری طور پر ہے؟
کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ...
تقیہ کتاب و سنت کی روشنی میں
عالم ذرّ کا عہد و پیمان کیا ہے؟
کیا نماز جمعہ کو واجب تخییری ہونے کے عنوان سے ...
ہم شب قدر میں قرآن سر پر کیوں رکھتے ہیں ؟
کیا حدیث" اما الحوادث الواقعہ" کی سند میں ...

 
user comment