اردو
Saturday 23rd of November 2024
0
نفر 0

کیا خداوندعالم کسی چیز میں حلول کرسکتا ہے؟

۱۵۔ کیا خداوندعالم کسی چیز میں حلول کرسکتا ہے؟

بعض عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ خداوندعالم ”عیسیٰ مسیح“ میں حلول کئے ہوئے ہے، اور بعض صوفی لوگ بھی اپنے پیرو مرشد کے بارے میں یہی نظریہ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خداوندعالم ان میں حلول کئے ہوئے ہے۔

کتاب ”کشف المراد“ میں علامہ حلّی علیہ الرحمہ کے قول کے مطابق اس عقیدہ کے باطل و بے بنیاد ہونے میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ نہیں ہے، کیونکہ حلول سے جو چیز تصور کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک موجود دوسرے موجود کے ذریعہ قائم ہو، (مثال کے طور پر کہاجا ئے کہ گلاب کے پھول میں خوشبو حلول کئے ہوئے ہے) ، مسلم طور پر خداوندعالم کے سلسلہ میں یہ معنی قابل تصور نہیںہیں، کیونکہ اس کا لازمہ مکان، نیاز اور ضرورت ہے جو ”واجب الوجود“کے لئے ”غیر ممکن“ ہے، اور جو لوگ خداوندعالم کے حلول کے معتقد ہیں آخر کار وہ شرک میں گرفتار ہوکر دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں۔

تصوّف اور اتحاد و حلول کا مسئلہ

مرحوم علامہ حلّی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ”نہج الحق“ میں فرماتے ہیں کہ کسی دوسری چیز میں خداوندعالم کااس طرح سے حلو ل کرنا کہ دونوں شئی ایک چیز بن جائیں، یہ عقیدہ باطل ہے،اور اس کا باطل و بے بنیاد ہونا بالکل واضح ہے، اس کے بعد فرماتے ہیں: ”اہل سنت کے صوفیہ فرقہ نے اس سلسلہ میں قرآن و حدیث کی مخالفت کی ہے، اور کہتے ہیں کہ خداوندعالم، عرفاء کے بدن میں حلول کرجاتا ہے!! یہاں تک کہ ان میں سے بعض لوگ کہتے ہیں: خداوندعالم عین موجودات ہے، اور ہر موجود خدا ہے، (وحدت مصداقی وجود کے مسئلہ کی طرف اشارہ ہے) ، اس کے بعد علامہ موصوف فرماتے ہیں: یہ عقیدہ عین کفر و دہریت ہے، خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اہل بیت علیہم السلام کی برکت سے اس باطل عقیدہ سے دور رکھا ہے“۔

علامہ موصوف ”حلول“ کی بحث میں فرماتے ہیں:”یہ ایک مسلّم مسئلہ ہے کہ اگر کوئی چیز کسی چیز میں حلول کرنا چاہے تو اس کو ”محل“ کی ضرورت ہوتی ہے اور چونکہ خداوندعالم واجب الوجود ہے اور اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، لہٰذا اس کا کسی چیز میں حلول کرنا غیر ممکن ہے“ اس کے بعد فرماتے ہیں: ”اہل سنت کے صوفیہ فرقہ نے اس سلسلہ میں مخالفت کی ہے، اور خداوندعالم کے حلول کو، عرفاء کے بدن میں ممکن شمار کرتے ہیں“ اس کے بعد علامہ موصوف ان لوگوں کی بہت زیادہ مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ہم نے خود صوفیہ کے ایگ گروہ کو حضرت امام حسین علیہ السلام کے روضہٴ مبارک میں دیکھا ہے کہ ایک شخص کے علاوہ سب نے نماز مغرب پڑھی، اس کے بعدسبھی نے نماز عشاء پڑھی سوائے اسی ایک شخص کے، چنانچہ وہ یونہی بیٹھا رہا!!

ہم نے سوال کیا کہ اس نے نمازکیوں نہیں پڑھی؟ تو جواب دیا کہ اس کو نماز کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تو خدا سے پیوستہ ہے! کیا یہ بات جائز ہے کہ خدا اور اس کے درمیان کوئی چیز پردہ بن جائے، نماز ان کے اور خدا کے درمیان ایک پردہ ہے!(1)

یہی معنی ”مثنوی “کی پانچویں جلد میں ایک دوسری طرح پیش کئے گئے ہیں: جب تم منزل مقصود پر پہنچ جاؤ تو وہی حقیقت ہے، اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے:

                                

(1) نہج الحق ، ص۵۸ و۵۹

لَو ظَھرتْ الحقائقُ بَطَلَتِ الشّرائعُ

جب حقائق ظاہر ہوجاتے ہیں تو شریعتیں باطل ہوجاتی ہیں“۔

اس کے بعد شریعت کو علم کیمیا سے مشابہ قرار دیا ہے ( جس علم کے ذریعہ تانباکو سونے میں تبدیل کیا جاتا ہے) اور کہا ہے: جو چیز اصل میں ہی سونا ہے ، یا سونا بن چکا ہے تو اسے علم کیمیا کی کیا ضرورت ہے؟! جیسا کہ کہتے ہیں: ”طَلبُ الدَلیلِ بعدَ الوُصُولِ إلیٰ المدلولِ قبیحٌ!“(1)

منزل مقصود تک پہنچنے کے بعد دلیل طلب کرنا قبیح اور برا ہے“۔

کتاب ”دلائل الصدق“ شرح ”نہج الحق“ میں بھی ”صاحب مواقف“ سے نقل کیا گیا ہے کہ نفی ”حلول“ اور ”اتحاد“ کے سلسلہ میں مخالفوں کے تین گروپ ہیں، اس کے بعد دوسرے گروہ کے بعض صوفیوں کا نام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی باتیں حلول و اتحاد کے بارے میں مردد ہیں، ( حلول سے مراد خداوندعالم کا کسی چیز میں نفوذ کرنا ہے، اور اتحاد و وحدت سے مراد خدا اور دوسری چیزوں کا ایک ہوجانا ہے)

اس کے بعد موصوف مزید فرماتے ہیں: ہم نے بعض ”صوفیہ وجودیہ“ کو دیکھا ہے جو حلول و اتحاد کا انکار کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ دونوں الفاظ خدا اور مخلوق میں مغایرت (جدائی) کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ہم اس چیز کے قائل نہیں ہیں! بلکہ ہماراکہنا یہ ہے :

لَیسَ فِی دارِالوجودِ غیرہُ دیّار“، (وجود کی وادی میں اس کے علاوہ کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے“!)

اس موقع پر صاحب مواقف کہتے ہیں کہ یہ عذر،گناہ سے بھی بدتر ہے۔(۲)

                                   

(1) دفترپنجم مثنوی ص۸۱۸،طبع سپہر ، تہران

(۲) دلائل الصدق ، جلد اول، صفحہ ۱۳۷

البتہ اس سلسلہ میں صوفیوں کی بہت سی بے تُکی باتیں ہیں جو نہ اصول و منطق سے ہم آہنگ ہیں اور نہ ہی شریعت کے موافق۔

بہر حال دو چیزوں کے درمیان حقیقی ”اتحاد “ محال اور ناممکن ہے جیساکہ ”علامہ مرحوم“ نے بیان فرمایا ہے چونکہ یہ بات بالکل تضاد اورٹکراؤ پر مشتمل ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ دو چیزیں ایک ہوجائیں، اس کے علاوہ اگر کوئی خدا کا دوسری مخلوق بالخصوص عارفوں سے اتحاد کے عقیدہ کا قائل ہو، تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ خداوندعالم میں ممکنات کے صفات پائے جائیں جیسے زمان و مکان اور تغیر وغیرہ۔

اور اسی طرح خداوندعالم کا دوسری چیزوں میں ”حلول“ کا لازمہ بھی زمان و مکان ہے جبکہ یہ چیزیں خداوندعالم کے واجب الوجود ہونے سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔(1)

اصولی طور پر خود صوفی بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اس طرح کی باتوں کو عقلی دلائل کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جاسکتا، اور غالباً اپنے راستہ کو عقلی راستہ سے الگ کرلیتے ہیں، اور اس سلسلہ میں اپنی مرضی جس کو ”راہ دل“ کہتے ہیں اس کے ذریعہ اپنے عقائد کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، اور مسلّم طور پر اگر کوئی عقلی منطق کو نہ مانے تو اس سے اس طرح کی ضد و نقیض باتوں کے علاوہ اور کوئی امید بھی نہیں کی جاسکتی۔

یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ تاریخ میں بڑے بڑے علمائے کرام نے ان لوگوں سے دوری اختیار کی ہے، اور ان کو اپنے سے دور رکھا ہے۔

قرآن کریم نے بہت سی آیات میں عقل و برہان اور غور وخوض کے بارے میں توجہ دلائی ہے اور اسی کو ”معرفة اللہ“ کا راستہ بتایا ہے۔(۲)

                              

(1) قابل توجہ بات یہ ہے کہ حلول واتحاد کے باطل ہونے کے سلسلہ میں علامہ حلی علیہ الرحمہ نے شرح تجرید الاعتقاد میں مفصل استدلال کے ساتھ بیان کیا ہے، (کشف المراد، صفحہ۲۲۷،باب انہ تعالیٰ لیس بحال فی غیرہ ونفی الاتحاد عنہ)

(۲) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۴، صفحہ ۲۶۷ ، ۲۸۱

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیا اسلام سے پہلے لفظ " اللہ" کا استعمال ہوتا ...
افسانه غرانیق کیا هے؟
کیا شب قدر اختیار کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے؟
جناب قمر بنی ہاشم کے لیے بجائے ولادت کے طلوع کا ...
آدم عليہ السلام كونسى جنت ميں تھے
توحید ذات، توحید صفات، توحید افعال اور توحید ...
انسان کو پیش آنے والی پریشانیوں اور مصیبتوں کا ...
گھر کو کیسے جنت بنائیں؟ دوسرا حصہ
علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
بلی اگر کپڑوں سے لگ جائے تو کیا ان کپڑوں میں نماز ...

 
user comment