اسلامي جمہوريہ ايران ميں خاتون سے توقع يہ ہوتي ہے کہ وہ عالمہ ہو، سياسي شعور رکھتي ہو، سماجي سرگرمياں انجام دے، تمام شعبوں ميں سرگرم عمل ہو- گھر ميں مالکہ کا رول ادا کرے، شوہر اور بچوں کي نگہداشت اور اولاد کي تربيت کا ذمہ سنبھالے- گھر کے باہر عفت و طہارت و پاکدامني کا مظہر ہو- ايران کے معاشرے ميں اسلامي نظام ايسي خاتونوں کو ديکھنا چاہتا ہے- يعني خاتون گھر کے اندر بچوں کي پرورش کرنے والي اور شوہر کے لئے سکون و چين کا سامان فراہم کرنے والي اور شوہر کے وجود سے سکون حاصل کرنے والي ہو، گھر کے باہر کي فضا ميں اپني پاکدامني و عفت کي حفاظت کرتے ہوئے تمام سياسي، علمي، سماجي اور ديگر شعبوں ميں موجود رہے- اگر يہ ہدف پورا کرنا ہے تو اس کي اوليں شرط حجاب ہے- حجاب کے بغير يہ ممکن نہيں ہے- حجاب کے بغير خاتون وہ بے فکري اور اطمينان خاطر حاصل نہيں کر سکتي جس کے ذريعے وہ ان منزلوں کو طے کر سکے-
اسلامي معاشرے ميں اور مسلمانوں کي زندگي کے اصلي بہاؤ ميں مسلمان خاتون کي خاص حرمت و وقار ہے اور اس کا مظہر حجاب ہے- جو (خاتون) حجاب ميں ملبوس رہتي ہے، اس کا احترام کيا جاتا ہے- قديم زمانے ميں بھي وہ خاتونيں زيادہ معزز اور قابل احترام ہوتي تھيں جو با حجاب رہتي تھيں- حجاب وقار کي علامت ہے- حجاب پہننے والي خواتين کا خاص احترام کيا جاتا ہے- اسلام تمام خاتونوں کے لئے اسي حرمت و عزت کا خواہاں ہے-
اسلامي حدود
سماجي سرگرميوں کے سلسلے ميں اسلام نے کچھ حدود معين کي ہيں جن کا تعلق خاتون يا اس کي سرگرميوں کي اجازت سے نہيں ہے بلکہ يہ مرد اور خاتون کے اختلاط سے سے مربوط ہيں- اسلام اس سلسلے ميں بہت محتاط ہے- اسلام کا کہنا ہے کہ ہر جگہ اور ہر مقام پر، سڑک پر، ادارے کے اندر، دوکان کے اندر مرد اور خاتون کے ما بين ايک حد بندي ہوني چاہئے- مسلمان مرد و خاتون کے بيچ حجاب اور ايک معينہ حدبندي رکھي گئي ہے- خاتون اور مرد کا ملنا جلنا، مردوں کے آپسي اختلاط اور خاتونوں کے باہمي اختلاط کي مانند نہيں ہے- اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہئے- مرد بھي اس کا لحاظ کريں اور خاتونيں بھي اس کي پابند رہيں- مرد اور خاتون کے روابط اور ملنے جلنے کے سلسلے ميں اگر اس احتياط کو ملحوظ رکھا جائے تو سماجي ميدان ميں جو کام اور جو امور مرد انجام ديتے ہيں خاتونيں بھي، اگر ان کے پاس جسماني توانائي دلچسپي اور فرصت ہے، انجام دے سکتي ہيں-
source : http://www.tebyan.net