تیسری فصل
روح اور معاد کی حقیقت
گفتار اول: حقیقت روح اور اس کا مجرد ھونا
یہ بات ایک مسلم حقیقت ھے کہ انسان تیری روح جو تیرے پہلو کے درمیان ھے وہ تجھ سے تمام اشیاء سے زیادہ قریب ھے اور تمام چیزوں کی نسبت تجھ سے زیادہ چسپیدہ ھے لیکن اس کے باوجود اس کی حقیقت معلوم نھیں ھے، عقل بشر اس کی حقیقت اور ماھیت کا پتہ لگانے سے عاجز ھے۔روح کے سلسلہ میں فلاسفہ اور متکلمین حضرات کے نظریات میں اختلاف پایا جاتا ھے کہ روح ایک ”عرض“ ھے یا ”جوہر“[1]، اسی طرح روح کی پیدائش کے سلسلہ میں بھی اختلاف ھے کہ آیا یہ ”قدیم“ ھے یا ”حادث“، اسی طرح روح اور بدن میں کیا رابطہ ھے اور روح بدن کے کس حصہ میں رہتی ھے، اور آیا انسان کے مرنے کے بعد بھی روح ھمیشہ کے لئے باقی رہتی ھے، اور روح کی سعادت و خوشبختی یا بدبختی کی حقیقت کیا ھے؟ اس کے علاوہ اور دوسری بحثیں ھیں۔ [2]
قارئین کرام! ھم یہاں ان مختلف اقوال کو (اختصار کی بنا پر) بیان نھیں کرسکتے ھیں ، صرف روح کے معنی قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کرکے آگے بڑھتے ھیں، اور یہ بھی بیان کریں گے کہ ”روح“ماھیت مادہ اور اس کے صفات سے مجرد ھے، اور یہ روح مرنے اور جسم کے پارہ پارہ ھونے کے بعد ھمیشہ کے لئے مستقل ھوجاتی ھے، کیونکہ روح کی حقیقت سمجھنے کے لئے ان چیزوں کا بیان کرنا ضروری ھے:
روح ، قرآن و حدیث کی روشنی میں
بحد نہایت روح کے معنی کے سلسلے میں یہ بات کھی جاسکتی ھے کہ ”روح وہ شیٴ ھے جس کے ذریعہ جسم قائم رہتا ھے، اور احساس،حرکت اور ارادہ کی تقویت حاصل ھوتی ھے اور لغت میں اس کو مذکر اور موٴنث کھاگیا ھے۔ [3]
قرآن مجید کی مکی اور مدنی آیات میں اس معنی اور اس کے علاوہ دیگر معانی کی طرف اشارہ کیا گیا ھے، ھم ذیل میں معنی کی ترتیب سے قرآن میں بیان ھونے والے موارد کو ذکر کرتے ھیں ، اسی طرح احادیث میں بیان ھونے والے معنی کو بھی بیان کرتے ھیں:
۱۔ روح وہ چیز ھے جو زندگی کا سبب بنتی ھے جیسا کہ ارشاد رب العزت ھوتا ھے:
<وَیَسْاٴَلُونَکَ عَنْ الرُّوحِ قُلْ الرُّوحُ مِنْ اٴَمْرِ رَبِّی وَمَا اٴُوتِیتُمْ مِنْ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِیلًا> [4]
”تمہار ا پروردگار (اس سے ) خوب واقف ھے) اور (اے رسول ) تم سے لوگ روح کے بارے میں سوال کرتے ھیں تم (ان کے جواب میں )کہدو کہ روح (بھی) میرے پروردگار کے حکم سے (پیدا ھوئی ھے )اور تم کو بہت ھی ٹھوڑاسا علم دیا گیا ھے“۔
اس سلسلے میں مفسرین قرآن نے چند نظریات بیان کئے ھیں [5] جن میں سب سے واضح ترین نظریہ یہ ھے کہ روح وہ چیز ھے جس کے ذریعہ بدن قائم و باقی رہتا ھے ، اور اسی معنی پر قرآن و احادیث اہل بیت علیھم السلام سے تائید ملتی ھے۔ [6]
جیسا کہ ابو بصیر نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ھے کہ میں نے اس
آیت<وَیَسْاٴَلُونَکَ عَنْ الرُّوحِ۔۔۔ >کے بارے میں سوال کیاکہ روح کیا چیز ھے؟ تو آپ نے فرمایا:وھی جو حیوانوں اور انسانوں میں ھوتی ھے؟ تو میں نے کہا: وہ کیا چیز ھے؟ تو آپ نے فرمایا:
”ھی من الملکوت من القدرة“۔ [7]
”یہ (روح) ملکوت کی قدرت سے ایک چیز ھے“۔
آیہ شریفہ <قُلْ الرُّوحُ مِنْ اٴَمْرِ رَبِّی ۔۔۔> کے سلسلے میںمفسرین قرآن نے متعدد معنی نقل کئے ھیں جن میں سے ھم چند اقوال بیان کرتے ھیں:
۱۔ پیغمبر اکرم (ص)سے روح کی حقیقت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آنحضرت نے اس آیت <قُلْ الرُّوحُ مِنْ اٴَمْرِ رَبِّی>کے ذریعہ جواب دیا اور فرمایا کہ روح امر خدا کی قسم ھے ، اس کے بعد امر خدا کے بارے میں اس آیت کی تلاوت فرمائی:
< إِنَّمَا اٴَمْرُہُ إِذَا اٴَرَادَ شَیْئًا اٴَنْ یَقُولَ لَہُ کُنْ فَیَکُونُ فَسُبْحَانَ الَّذِی بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْءٍ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ>(۸۳) [8]
”اس کی شان تو یہ ھے کہ جب کسی چیز کو (پیدا کرنا) چاہتا ھے تو وہ کہہ دیتا ھے کہ ھوجا تو وہ(فوراً)ھوجاتی ھے تو وہ خدا (ہر نقص سے ) پاک وصاف ھے جس کے قبضہ ٴ قدرت میں ہر چیز کی حکومت ھے اور تم لوگ اسی کی طرف لوٹ کر جاوٴگے “۔
پس معلوم یہ ھے ھوا کہ ”امر خدا“ملکوت کی قدرت میں سے ایک چیز ھے اور امر خدا یہ ھے کہ جب کسی چیز کے لئے کہتا ھے ”کُن“ (یعنی ”ھوجا“) تو وہ چیز ھوجاتی ھے،اور اس کو بغیر کسی دوسرے واسطوں کے جن کے ذریعہ کوئی چیز وجود میں آتی ھے، اور بغیر کسی زمان و مکان کی قید و شرط کے زندگی مل جاتی ھے ، اس بات پر خداوندعالم کا یہ فرمان دلالت کرتا ھے:
< وَمَا اٴَمْرُنَا إِلاَّ وَاحِدَةٌ کَلَمْحٍ بِالْبَصَر> [9]
”اور ھمارا حکم تو بس آنکھ کے جھپکنے کی طرح ایک بات ھوتی ھے “۔
پس واضح یہ ھوا کہ آیہ کریمہ روح کی حقیقت کو امر خدا کی اقسام سے بیان کرتی ھے۔ [10] ۲۔ پیغمبر اکرم (ص)سے روح کی حقیقت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے اس آیت کے ذریعہ جواب دیا:< الرُّوحُ مِنْ اٴَمْرِ رَبِّی ۔۔۔> یعنی جس چیزسے خداوندعالم اپنے علم کے ذریعہ اثر کرتا ھے، اور کوئی شخص بھی اس روح کی حقیقت کو نھیں جانتا۔ [11]
۳۔ پیغمبر اکرم (ص)سے روح کی حقیقت کے بارے میں سوال کیا گیا کہ روح
قدیم ھے یا حادث ھونے والی ھے تو آیت نے جواب دیا < الرُّوحُ مِنْ اٴَمْرِ رَبِّی۔۔۔> یعنی خدا کے فعل اور اس کی خلق ھے ، پس آنحضرت (ص)نے روح کو حادث مراد لیا، جو خدا کے فعل اور اس کی ایجاد ھے“۔ [12]
گزشتہ آیت میں کئے گئے روح کے معنی ،حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت خداوندعالم کے اس قول کے ھم معنی ھے:
< فَإِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحِی> [13]
”تو جس وقت میں اس کو ہر طرح سے درست کر چکوں اور اس میں اپنی (طرف سے) روح پھونک دوں“۔
اسی طرح خداوندعالم حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ھے:
<فَنَفَخْنَا فِیْھَا مِنْ رُّوحِنَا وَجَعَلْنَا ھَا وَ ابْنَھَا آیَةً لِّلْعَالَمِینَ > [14]
”تو ھم نے ان( کے پیٹ) میں اپنی طرف سے روح پھونک دی اور ان کو اور ان کے بیٹے (عیسیٰ )کو سارے جہان کے واسطے (اپنی قدرت کی)نشانی بنائی “۔
نیز ارشاد خداوندعالم ھوتا ھے:
< اِٴنَّمَا الْمَسِیحُ عِیسَیٰ ابْنُ مَرْیَمَ رَسُولُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہُ اٴَلْقَاھَا اِٴلَیٰ مَرْیَمَ وَ رُوحٌ مِنْہُ> [15]
”مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح(نہ خدا تھے نہ خدا کے بیٹے پس) خدا کے ایک رسول اور اس کے ایک کلمہ(حکم )تھے جسے خدا نے مریم کے پاس بھیج دیا تھا (کہ حاملہ ھوجا)اور خدا کی طرف سے ایک جان تھے “۔
ان تمام آیات میں روح کے معنی ایک مخفی قدرت کے کئے گئے ھیں جس کے ذریعہ زندگی ملتی ھے، اور اسی روح کے ذریعہ موجودات میں حیات پیدا ھوتی ھے، بتحقیق خداوندعالم نے حضرت آدم و عیسیٰ (علیھما السلام) کی روح کو ذکر (نشانی) کے عنوان سے بیان کیاھے، کیونکہ ان دونوں انبیاء کی خلقت دوسری مخلوق کی نسبت کے علاوہ ھے، اور خداوندعالم نے ”روح“ کی اضافت اپنی طرف کی ھے ”رُوحِی“(یعنی میری روح) کھا، البتہ یہ اضافہ تشریفی ھے جس کے معنی ”کرامت، عظمت اور جلالت سے مخصوص“ کے ھیں، جیسا کہ خداوندعالم نے خانہ کعبہ کی اپنی طرف نسبت دی ھے، ارشاد ھوتا ھے: <طَہِّرَ بَیَتِیَ۔۔۔> [16]
۲۔روح جناب جبرئیل کو بھی کھاجاتا ھے، ارشاد الٰھی ھوتا ھے:
<فَاٴَرْسَلْنَا إِلَیْہَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا> [17]
”تو ھم نے اپنی روح (جبرئیل ) کو ان کے پاس بھیجا تو وہ اچھے خاصے آدمی کی صورت بن کر ان کے سامنے آکھڑا ھوا (وہ اس کو دیکھ کر گھبرائیں)“۔
اس آیت میں روح سے مراد جناب جبرئیل ھے۔ [18]
خداوندعالم نے جناب جبرئیل کی توصیف امانت و طہارت سے کی ھے، ارشاد الٰھی ھوتا ھے:
<نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الْاٴَمِینُ عَلَی قَلْبِکَ> [19]
”(خدا ) کا اتارا ھوا ھے جسے روح الامین (جبرائیل )صاف عربی زبان میں لے کر تمہارے دل پر نازل ھوئے ھیں“۔
نیز ارشاد الٰھی ھوتا ھے:
< قُلْ نَزَّلَہُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّکَ > [20]
”(اے رسول)تم صاف کہدو کہ اس (قرآن)کو تو روح القدس (جبرائیل ) نے تمہارے پرور دگار کی طرف سے حق نازل کیا ھے“۔
مذکورہ آیت کے بارے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ھے کہ آپ نے فرمایا: ”ھو جبرئیل، والقدس الطاہر“ [21]روح کو خدا نے اپنی طرف نسبت دی ھے جو شرافت اور تعظیم کی بناپر ھے۔ [22]
۳۔ روح کے معنی مخلوق اعظم ملائکہ ھیں:بہت سی آیات و احادیث سے معلوم ھوتا ھے کہ روح سے مراد ملائکہ ھیں جو خدا کے نزدیک صاحب عظمت ھیں، جن کو خداوندعالم نے اپنے بعض اھم کام جیسے غیبی مسائل اور وحی کی ذمہ داری سونپی ھے، چاھے وہ ایک فرشتہ ھو یا ملائکہ ھوں، چاھے دنیاوی امور ھوں یاآخرت سے متعلق، ارشاد خداوندی ھوتا ھے:
<یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوحُ وَالْمَلاَئِکَةُ صَفًّا لَا یَتَکَلَّمُونَ > [23]
”جس دن جبرائیل اور فرشتے (اس کے سامنے)پرباندھ کر کھڑے ھوں گے(اس دن) اس سے کوئی بات نہ کر سکے گا“۔
نیز ارشاد ھوتا ھے:
<تَنَزَّلُ الْمَلاَئِکَةُ وَالرُّوحُ فِیْھَا بِاِٴذْنِ رَبِّھِمْ مِن کُلِّ اٴَمْرٍ> [24]
”اس (رات) میں فرشتے اور جبرائیل (سال بھر کی) ہر بات کا حکم لے کر اپنے پروردگار کے حکم سے نازل ھو تے ھیں“۔
اور احادیث میں اس مخلوق کو ملائکہ میں خلق اعظم سے یاد کیا گیا ھے۔ [25]
(یا ملک اعظم جبرئیل و میکائیل جو رسول الله ﷺاور آئمہ علیھم السلام کے ساتھ میں تھے [26]
ابو بصیر حضرت امام صادق علیہ السلام سے آیہ شریفہ :< وَکَذَلِکَ اٴَوْحَیْنَا إِلَیْکَ رُوحًا مِنْ اٴَمْرِنَا> [27] کے سلسلہ میں روایت فرماتے ھیں:
”خلق من خلق الله، اٴعظم من جبرئیل و میکائیل، کان رسول الله(ص) یخبرہ و یسدّدہ وھو مع الائمة بعدہ۔“ [28]
”(امر خدا) خدا کی ایک مخلوق ھے، جو جناب جبرئیل و میکائیل سے بھی عظیم ھیں، اور یہ رسول اللہ (ص)کے ساتھ تھا، جس کے ذریعہ آپ کو خبریں ملتی تھی اور آپ کی مدد ھوتی تھی، یہ امر خدا آنحضرت (ص)کے بعد ائمہ کے ساتھ ھے۔“
۴۔ روح کے معنی ایمان کے ھیں،جیسا کہ خداوندعالم فرماتا ھے:
< وَاٴَیَّدَہُمْ بِرُوحٍ مِنْہُ> [29]
”اور خاص اپنے نور سے ان کی تائید کی “۔
مذکورہ بالا آیت کے بارے میں امام باقر و امام صادق علیھما السلام سے روایت ھے کہ ”اس آیت میں روح سے مراد ایمان ھے۔“ [30]
ابو بکیر سے روایت ھے : ”میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے رسول اکرم سے منقول اس حدیث کے بارے میں سوال کیا: ”إذا زنا الزانی فارقہ روح الایمان؟“، امام علیہ السلام نے فرمایا:اس سے مراد خداوندعالم کا یہ قول ھے:<وَاٴَیَّدَہُمَ بِرُوَحٍ مِنْہُ> ذلک الذی یفارقہ“ [31]۔یعنی مذکورہ آیت میں جس روح کے ذریعہ مدد کی جاتی ھے اس سے مراد وھی روح ھے۔ ا سی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھی روایت منقول ھے۔ [32]
اسی طرح روح کے سلسلے میں یہ بھی کھاگیا ھے کہ قرآنی آیات سے یہ بات ظاہر ھوتی ھے کہ مومنین کے لئے اس روح کے علاوہ جس میں مومن اور کافر سبھی شریک ھیں ؛ اس کے علاوہ ایک روح اور بھی ھے جس کے ذریعہ مومنین کو ایک دوسری حیات ملتی ھے جس کے ذریعہ ان کو شعور اورقدرت ملتی ھے، چنانچہ اسی کی طرح درج ذیل آیت اشارہ کرتی ھے:
< اٴَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاٴَحْیَیْنَاہُ وَجَعَلْنَا لَہُ نُورًا یَمْشِی بِہِ فِ النَّاسِ کَمَنْ مَثَلُہُ فِی الظُّلُمَاتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِنْہَا> [33]
”پھر ھم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لئے ایک نور بنا یا جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں بے تکلف چلتا پھرتا ھے اس شخص کا سا ھو سکتا ھے جس کی یہ حالت ھے کہ (ہر طرف سے) اندھیروں میںپھنسا ھوا ھے کہ وہاں سے کسی طرح نکل نھیں سکتا ھے“۔
۵۔ روح کے معنی کتاب اور نبوت کے بھی ھیں، جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:
< یُنَزِّلُ الْمَلاَئِکَةَ بِالرُّوحِ مِنْ اٴَمْرِہِ عَلَی مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ> [34]
”وھی اپنے بندوں میں سے جس کے پاس چاہتا ھے وحی دے کر فرشتوں کو بھیجتا ھے ‘ ‘۔
نیز ارشاد ھوتا ھے:
< یُلْقِی الرُّوحَ مِنْ اٴَمْرِہِ عَلَی مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ > [35]
”وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ھے اپنے حکم سے وحی نازل کرتا ھے “۔
پہلی آیت کے بارے میں امام باقر علیہ السلام سے مروی ھے کہ روح سے مراد ”کتاب اور نبوت ھے“۔ [36]
کھاگیا ھے کہ یہاں(مذکورہ آیت میں) روح کا اطلاق : نبوت، دین اور وحی وغیرہ پر بھی ھوتا ھے، جن کے ذریعہ سے انسان روح اور عقل کو حیات ملتی ھے، کیونکہ انسان ان کے ذریعہ سے خداوندعالم، اس کی کتابوں ، اس کے انبیاء اور ملائکہ کی معرفت و شناخت حاصل کرتا ھے، اور روح کے ذریعہ یہ تمام معارف اور تعلیمات حاصل ھوتی ھیں۔ [37]
روح کا مجرد ھونا
روح سے مراد وہ شئے ھے جس کی طرف انسان لفظ : ”انا“ کے ذریعہ اشارہ کرتا ھے، یا جس کو نفس ناطقہ کھاجاتا ھے۔ [38]روح کے مجرد ھونے کا مطلب یہ ھے کہ روح کے لئے کوئی قابل تقسیم اور زمان و مکان رکھنے والامادی عنصر نھیں ھے۔ [39] اور روح کا حکم بدن اور اس کے دوسرے حصوں کی ترکیبات کے علاوہ ھے۔ [40]
قارئین کرام! یہ مسئلہ (روح کا مجرد ھونا) اس کے ھمیشہ باقی رہنے سے متعلق ھے، چنانچہ یہ ایک اھم فلسفی مسئلہ ھے جس کے بارے میں قدیم زمانہ سے فلاسفہ حضرات کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا ھے، بعض کہتے ھیں کہ روح مجرد ھے اور بعض کہتے ھیں کہ روح مجرد نھیں ھے، کیونکہ یہ مسئلہ ان مسائل میں سے ھے جو سب سے زیادہ انسان کے دل سے قریب اور متعلق ھے کیونکہ یہ مسئلہ عالم حس سے منقطع ھونے کے بعد انسان کی آرزوں کے لئے جائے اطمینان قرار پاتا ھے۔مادی لوگ روح کے ھمیشہ باقی رہنے کے منکر ھیں لیکن روح کو مجرد ماننے والے روح کے ھمیشہ باقی رہنے کے قائل ھیں، ھم ذیل میں دونوں نظریات بیان کرتے ھیں:
۱۔ مادی افراد: روح کی اقسام اور روح کا جسم میں مقام کہاں ھے، اس سلسلہ میں مادی لوگوں کے نظریات میں اختلاف ھے، [41] لیکن تمام اس بات پر متفق ھیں کہ انسان اپنی خاص ھیکل و محسوس شکل میں مستقل وجود نھیں رکھتا یعنی اس مادہ سے جس کو روح کہتے ھیں اس سے الگ نھیں ھے بلکہ یہ روح جسم کی خاصیت ھے، انسان روح کے تمام دئے گئے احکام پر عمل کرتا ھے، اور عقل و شعور اور ارادہ و فکر یہ تمام اعضاء کے وظائف ھیں جس طرح بدن کے دوسرے وظائف ھوتے ھےں، اسی طرح مادیوں کے نزدیک فکری اور معرفتی آثار عصبی و عقلی خلیوں کی فعالیت کے نتائج ھیں، یہ تمام آثار اور روحی نشاط عقل و عصبی سسٹم کی بنا پر ظاہر ھوتے ھیں۔ یہ روح جسم کے مرنے سے مرجاتی ھے، اور جب انسان مرجاتا ھے تو اس کی شخصیت بھی مرجاتی ھے اور اس کا بدن نابودھوجاتا ھے، اور اس کے تمام عقلی، نفسانی اور روحی کمالات کا خاتمہ ھوجاتا ھے۔ [42]
آج کا مادی فلسفہ روحی تمام ان آثار سے جاہل ھے جو قانون مادہ کی کسوٹی پرپورے نھیں اترتے، اور مادی فلاسفہ کہتے ھیں کہ روح اور اس کے تمام آثار علم و شعور کی ایک قسم ھے، ان کا روح کے لئے کوئی وجود نھیں ھے جس کو انسانی مادی جسم سے الگ کیا جاسکے، بلکہ روح انسان کی ذات سے متعلق ھوتی ھے اور علم کی بنا پر اپنی ذمہ داری کو انجام دیتی ھے ، اور افکار اور خواہشات مادی کارکردگی کی بنا بر حاصل ھوتے ھیں، جیسے لوھے کے دو ٹکڑوں کو رگڑنے سے حرارت اور گرمی پیدا ھوتی ھے،یہ تمام نتائج جنھیں انسان حاصل کرتا ھے یہ عالم خارجی میں عکس العمل کا نام ھے، جیسا کہ ”بافلوف“ ری ایکشن کے سلسلے میں کہتا ھے: انسان کا ظرف اور جو چیزیںاس سے ظاہر ھوتی ھیں یہ سب مادہ کو عالی طریقہ سے منظم کرنے کا نتیجہ ھے۔
اہل جدل مادی حضرات اس تصور کا انکار کرتے ھیں کہ روح مادہ سے جدا ایک مستقل شیٴ ھے بلکہ ان کا عقیدہ ھے کہ روح ایک مادہ کی اعلیٰ شکل ھے اور یہ ایک عمل و اجتماعی نشاط کا نتیجہ ھے۔ [43]
مادی فلاسفہ نے روح کے انکار کے سلسلے میں ایسے بے بنیاد دلائل بیان کئے ھیں، جن سے ان کا مدعیٰ ذرا بھی ثابت نھیں ھوتا۔ [44]
۲۔ روح کو مجرد ماننے والے: اکثر گزشتہ امتیں بھی روح کو مجرد اور ھمیشہ باقی رہنے والی شئے مانتی ھیں، جیسے ہندو، مصری، چینی، یونانی، زرتشت، اسی طرح ان کے فلاسفہ اور شعراء بھی روح کو مجرد مانتے تھے، ”سقراط“ اور ”افلاطون“ کا بھی یھی عقیدہ تھا کہ روح جوہر مجرد ھے اور ھمیشہ سے باقی ھے (اور باقی رھے گی)، جس وقت بچہ شکم مادر میں ھوتا ھے اسی وقت سے اس میں روح آجاتی ھے، اور انسان کے مرنے کے بعد اپنی پہلی جگہ پر لوٹ جاتی ھے۔ افلاطون کا عقیدہ ھے کہ انسان میں دو طرح کی روح ھوتی ھیں: ایک عاقلہ روح ، جو ھمیشہ باقی رہتی ھے،یہ دماغ میں رہتی ھے، دوسری غیر عاقلہ ھوتی ھے اور نہ ھی ھمیشہ کے لئے باقی رہتی ھے، اس کی بھی دو قسمیں ھیں، ایک غضبی، جو انسان کے سینہ میں رہتی ھے دوسری شھوتی روح جس کا مقام انسان کا شکم ھوتا ھے۔
ارسطو کا عقیدہ یہ ھے کہ انسان کی روح بدن کے ساتھ ساتھ پیدا ھوتی ھے، جس وقت انسان کا بدن (شکم مادر میں) کامل ھوتا ھے تو اس میں روح پیدا ھوتی ھے، ایسا نھیں ھے کہ انسان کی روح پہلے سے موجود ھو اور اس کے بدن میں آجاتی ھے، ارسطو نے بدن میں پائی جانی والی روح کی تین قسم کی ھیں: روحِ عاقلہ ( نفس ناطقہ)، یہ روح مجرد ھے، دوسری روح احساسی یا روح حیوانی کھی جاتی ھے اور تیسری روح غذائی ھے۔ دوسری اور تیسری قسم کی روح مجرد نھیں ھیں۔ [45]
”ڈی کرٹ“ ( ت: ۱۵۶۰)کا کہنا ھے کہ روح ،جسم سے الگ ھوتی ھے ، روح و جسم کی اپنی الگ الگ خصوصیتیں ھوتی ھےں ، روح کو ایک جوہر سمجھا گیا ھے جس کی خاص خصوصیت غور و فکر کرنا ھوتا ھے، اسی طرح روح کے حصے نھیں کئے کیا جاسکتے اور نہ ھی اس کی قسمیں بنائی جاسکتی ھیں،روح اور اس کے اجزاء میں جنس کا تصور نھیں ھے اور جسم کو ایک جوہر سمجھا گیا ھے جس کی خصوصیت مدد کرنا ھے، جسم کے حالات میں سے صورت اور حرکت ھے، اور یہ جسم قابل تقسیم ھے اور اس میں تغییر و تبدیلی آتی رہتی ھے۔ [46]
روح کے سلسلے میں مغربی قدیم اور جدید فلاسفہ کے مختلف اقوال ھیں، ھم صرف انھیں پر اکتفاء کرتے ھیں۔
لیکن مسلم فلاسفہ ،منجملہ :شیخ صدوق ۺ کہتے ھیں: روح کے سلسلے میں ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ روح جسم کی جنس سے نھیں ھے بلکہ یہ ایک دوسری مخلوق ھے [47]، جیسا کہ ارشاد الٰھی ھوتا ھے:
< ثُمَّ اٴَنشَاٴْنَاہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللهُ اٴَحْسَنُ الْخَالِقِینَ> [48]
”پھر ھم نے اس کو (روح ڈال کر )ایک دوسری صورت میں پیدا کیا (سبحان اللہ) خدا با برکت ھے جو سب بنا نے والوں سے بہتر ھے“۔
جب انسان مرجاتا ھے تو یہ روح اس کے بدن سے نکل جاتی ھے لیکن باقی رہتی ھے، اور بعض پر نعمتیں نازل ھوتی ھیں اور بعض پر عذاب نازل ھوتا ھے، یہاں تک کہ (روز قیامت) خداوندعالم ان روحوں کو ان کے جسموں میں پلٹادے گا۔ [49]
علامہ نصیر الدین طوسیۺ فرماتے ھیں: نفس ایک جوہر مجرد ھے، علامہ حلیۺ اس جملہ کی یوںتشریح فرماتے ھیں: نفس کی ماھیت اور حقیقت کے سلسلے میں علماء کے درمیان اختلاف ھے کہ آیا وہ جوہر ھے یا نھیں؟ اور جو لوگ جوہر کہتے ھیں ان کے درمیان بھی اختلاف ھے کہ آیا مجرد ھے یا نھیں؟ علماء علم کلام کے قدماء جیسے امامیہ میں سے نوبخت، شیخ مفید، اور اشاعرہ مذہب میں سے غزالی کے نزدیک یہ مشھور ھے کہ روح مجرد ھے جسم اور جسمانی نھیں ھے [50] اور روح کا جسم کے ساتھ رابطہ تدبیر اور تصرف جیسا ھوتا ھے۔۔۔
اسی نظریہ کو اشاعرہ میں سے راغب اصفہانی، فخر الدین رازی اور معتزلہ سے معمر بن عباد سلمی نے اختیار کیا ھے، اور امامیہ میں سے اسی نظریہ کی علامہ حلّی ۺ اور شیخ بہائی وغیرہ (شیعہ علماء) نے بھی تائید کی ھے، [51] اور بعض علماء متاخرین نے اس بات کا دعویٰ کیا ھے کہ روح کا مجرد ھونا بہت سی احادیث سے ثابت ھے۔ [52]
ابن سیناصرف قوہٴ عاقلہ کو مجرد مانتے تھے لیکن صدر المتاٴلھین شیرازی کاعقیدہ ھے کہ انسان کی تمام حیاتی قوتوں کے لئے ایک مادی جہت ھوتی ھے اور دوسری جہت حالت تجرد ھوتی ھے، انسان کی تمام مادی قوتوں کے ساتھ مجرد قوتیںیہاں تک کہ جب انسان مرجاتا ھے توبھی اس سے عقل تنھاھونے کے باوجود جدا نھیں ھوتی، یھی نھیں بلکہ عقل و خیال قوہٴ ذاکرہ، باصرہ، اور سامعہ یہ سب بھی جدا نھیں ھوتیں [53]
روح کے مجرد ھونے کے دلائل:
بہت سے فلاسفہ اور علماء علم کلام نے دلائل قائم کئے ھیں کہ روح بدنی صفات اور اعراض سے مجرد ھے اورموت سے نھیں مرتی بلکہ ھمیشہ باقی رہتی ھے اور اس پر یا نعمتیں نازل ھوتی رہتی ھیں یا عذاب نازل ھوتا رہتا ھے، ھم یہاں پر چند دلائل بیان کرتے ھیں:
۱۔ قرآنی آیات:
وہ قرآنی آیات جو دلالت کرتی ھیں کہ شہداء کرام ، صدیقین کی ارواح مقدسہ بدن کے پارہ پارہ ھونے سے نھیں مرتی بلکہ ان کی روح پر خداوندعالم کی طرف سے نعمتیں نازل ھوتی رہتی ھیں، ارشاد خداوندی ھوتا ھے:
< وَلاَتَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللهِ اٴَمْوَاتٌ بَلْ اٴَحْیَاءٌ وَلَکِنْ لاَتَشْعُرُونَ> [54]
”اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے انھیں کبھی مردہ نہ کہنا بلکہ وہ (لوگ)زندہ ھیںمگر تم (ان کی زندگی کی حقیقت کا)کچھ بھی شعور نھیں رکھتے “۔
نیز ارشاد ھوتا ھے:
<وَلاَتَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ اٴَمْوَاتًا بَلْ اٴَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ> [55]
”اور جو لوگ خدا کی راہ میں شھید کئے گئے ھیں انھیں مردہ نہ سمجھنا بلکہ وہ لوگ جیتے (جاگتے موجود) ھیں اپنے پرور دگار کے ہاں سے(وہ طرح طرح کی)روزی پاتے ھیں“۔
ایضاً:
<یاَ اٴَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةّ ارْجِعِي اِٴلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَرْضِیَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَ ادْخُلِي جَنَّتِي> [56]
”(اور کچھ لوگوں سے کھے گا)اے اطمینان پانے والی جان اپنے پروردگار کی طرف چل تو اس سے خوش وہ تجھ سے راضی تو میرے (خاص)بندوں میں شامل ھوجا ،اور میرے بہشت میں داخل ھو جا “۔
پس ان مذکورہ آیات کے پیش نظر ثابت ھوتا ھے کہ انسان کبھی کبھی جسم کے ساتھ زندہ رہتا ھے ، جس کا لازمہ یہ ھے کہ انسان کی حقیقت اس بدن کے علاوہ ھے۔ [57]
۲۔ بعض قرآنی آیات دلالت کرتی ھیں کہ کفار اپنے اسی جسم کے ساتھ اپنی اپنی قبروں میں عذاب میں ھوتے ھیں، جیسا کہ ارشاد الٰھی ھوتا ھے:
< وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ > [58]
”اور فر عونیوں کو برے عذاب نے (ہر طرف سے)گھیر لیا(اور اب تو قبر میں دوزخ کی) آگ ھے کہ وہ لو گ(ہر)صبح و شام اس کے سامنے لاکرکھڑے کئے جاتے ھیں اور جس دن قیامت بر پا ھو گی “۔
نیز ارشاد رب العزت ھوتا ھے:
< مِمَّا خَطِیئَاتِہِمْ اٴُغْرِقُوا فَاٴُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ یَجِدُوا لَہُمْ مِنْ دُونِ اللهِ اٴَنْصَارًا۔> [59]
”(آخر ) وہ اپنے گناھوں کی بدولت (پہلے تو)ڈوبائے گئے پھر جہنم میں جھونکے گئے تو ان لوگوں نے خدا کے سوا کسی کو اپنا مدد گار نہ پایا“۔
پس کفار پر موت کے بعد عذاب ھوتا رہتا ھے، جس سے یہ بات ثابت ھوتی ھے کہ انسان کی حقیقت اس بدن کے علاوہ ھے [60]
۳۔ بعض قرآنی آیات جن میں انسانی جسم کے مختلف مراحل کا ذکر کیا گیا ھے، جیسا کہ ارشاد الٰھی ھوتا ھے:
< وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِنْ سُلاَلَةٍ مِنْ طِینٍ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَةً فِی قَرَارٍ مَکِینٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا> [61]
”اور ھم نے آدمی کو گیلی مٹی کے جو ہر سے پیدا کیا ،پھر ھم نے اس کو ایک محفوظ جگہ (عورت کے رحم میں) نطفہ بنا کر رکھا پھر ھم ھی نے نطفہ کو جماھوا خون بنا یا پھر ھم ھی نے منجمد خون کو گوشت کا لوتھڑا بنایا ،پھر ھم ھی نے (اس) لوتھڑے میں ہڈیاں بنائیں ‘پھر ھم ھی نے ہڈیوں پر گوشت چڑھایا “۔
مذکورہ آیت سے معلوم ھوتا ھے کہ انسان سوائے جسم کے کچھ نھیں ھے یہ جسم مختلف مراحل سے گزرا ھے اور جب خداوندعالم نے اس بدن میں روح پھونکنا چاھی تو فرمایا:
<ثُمَّ اٴَنشَاٴْنَاہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللهُ اٴَحْسَنُ الْخَالِقِینَ > [62]
یعنی ھم نے اس جامد جسم کو ایک دوسرے با شعور و علم و فکر والے جسم میں تبدیل کردیا، یہ اس بات کی وضاحت ھے کہ روح جس جسم سے متعلق ھوتی ھے وہ اس جسم سے الگ چیز ھے جو مختلف مراحل سے گزرا ھے، پس آیت دلالت کرتی ھے کہ روح بدن کے علاوہ ایک دوسری شئے ھے۔< [63]
اسی طرح خلقت انسان کے بارے میں خداوندعالم کا یہ فرمان:
<وَبَدَاٴَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِنْ طِینٍ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہُ مِنْ سُلاَلَةٍ مِنْ مَاءٍ مَہِینٍ ثُمَّ سَوَّاہُ وَنَفَخَ فِیہِ مِنْ رُوحِہِ> [64]
”اور انسان کی ابتدائی خلقت مٹی سے کی پھر اس کی نسل (انسانی جسم کے) خلاصہ یعنی (نطفہ کے سے) ذلیل پانی سے بنائی پھر اس (کے پتلے ) کو درست کیا اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی اور تم لوگوں کے (سننے کے) لئے کان اور (دیکھنے کے لئے) آنکھیں اور (سمجھنے کے لئے )دل بنائے (اس پر بھی) تم لوگ بہت کم شکر کرتے ھو “۔
یا جناب آدم علیہ السلام کی خلقت کے بارے میں ارشاد فرمایا:
<فَإِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحِی> [65]
”تو جب میں اس کو درست کرلو ںاور اس میں اپنی (پیدا کی ھوئی ) روح پھونکدوں “۔
پس خداوندعالم نے اعضاء اور جسم کی خلقت اور روح پھونکنے کے درمیان فرق قائم کیا ھے لہٰذا یہ فرق کرنا اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ روح کی حقیقت جسم کی حقیقت کے علاوہ کوئی اور شئے ھے۔ [66]
۴۔ بعض آیات الٰھی میں اس فرق کو بیان کیا گیا ھے کہ انسان کے مادی اجزاء ختم ھوجاتے ھیں اورکچھ اجزاء باقی رہتے ھےں، جیسا کہ ارشاد الٰھی ھوتا ھے:
<اللهُ یَتَوَفَّی الْاٴَنْفُسَ حِینَ مَوْتِہَا وَالَّتِی لَمْ تَمُتْ فِی مَنَامِہَا فَیُمْسِکُ الَّتِی قَضَی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاٴُخْرَی إِلَی اٴَجَلٍ مُسَمًّی> [67]
”خدا ھی ان لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں (اپنی طرف) کھینچ کر بلاتا ھے اور جو لوگ نھیں مرے (ان کی روحیں) ان کی نیندمیں (کھینچ لی جاتی ھے )بس جن کے بارے میں خدا موت کا حکم دے چکا ھے ان کی روحوں کو روکے رکھتا ھے اور باقی (سونے والوں کی روحوںکو)پھر ایک مقرر وقت کے واسطے بھیج دیتا ھے “۔
یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ انسان روح اور جسم کا نام ھے، اور روح حکم خدا سے بدن پر حکومت اور اس میں تدبیر کرتی ھے ،اور موت روح و بدن کے درمیان موجود رابطہ کے ختم ھوجانے کانام ھے، اور یہ روح موت کے بعد اپنے خالق کی طرف پلٹ جاتی ھے، اور خداوندعالم اس روح کو سوتے وقت اور موت کے وقت قبض کرلیتا ھے اور اگر کسی کی موت آجاتی ھے تو وہ روز قیامت تک خدا کے پاس باقی رہتی ھے، اور پھر روز قیامت اس کے جسم میں واپس چلی جائے گی۔
کھاجاتا ھے کہ جو نفس سوتے وقت جو (روح) انسان سے جدا ھوتا ھے وہ وھی نفس ھے جس کی بنا پر عقل و تمیز ھوتے ھیں،لیکن جب عقل و تمیز زائل ھوجاتے ھیں تو نفس باقی رہتا ھے،لیکن وہ نفس (روح) جو موت کے وقت وفات پاتا ھے وہ نفسِ حیات ھوتا ھے جس حیات کے نکلنے سے نفس (سانس) بھی نکل جاتا ھے ، پس جب انسان سوتا ھے تو اس کے ساتھ روح باقی رہتی ھے لیکن جب موت کے وقت روح قبض ھوتی ھے تو بدن سے روح نکل جاتی ھے۔ [68]
پس جب انسان کو موت آتی ھے تو قرآنی لحاظ سے تو اس کی شخصیت، انسانیت کا معیار اور انسان کی حقیقت باقی رہتی ھے اور یہ وھی روح ھے، جس کو حقیقت ارادی کھاجاتا ھے اور یہ جسم کے پارہ پارہ ھونے کے بعد بھی باقی رہتی ھے۔ [69]
قارئین کرام! یہ تمام مذکورہ آیات جن میں عہد و پیمان اور ارسال (رُسل) کے بارے میں بیان کیا گیا ھے ؛ان سے معلوم ھوتا ھے کہ نفس اور بدن میں مغایرت پائی جاتی ھے [70](یعنی دو الگ الگ چیزیں ھیں) کیونکہ بعض خصوصیات میں فقط روح موثر ھوتی ھے ، اور اگر انسان کی حقیقت مادی ھوتی تو عہد و میثاق اور ارسال و امساک کے کوئی معنی نھیں ھوں گے۔
۵۔ ارشاد خداوندی ھوتا ھے:
< وَیَسْاٴَلُونَکَ عَنْ الرُّوحِ قُلْ الرُّوحُ مِنْ اٴَمْرِ رَبِّی > [71]
”اور پیغمبر یہ آپ سے روح کے بارے میں دریافت کرتے ھیں تو کہہ دیجئے کہ یہ میرے پروردگار کا ایک امر ھے “۔
< إِنَّمَا اٴَمْرُہُ إِذَا اٴَرَادَ شَیْئًا اٴَنْ یَقُولَ لَہُ کُنْ فَیَکُونُ> [72]
”اسکا امر صرف یہ ھے کہ کسی شی کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کرلے کہ ھو جا اور وہ شے ھوجاتی ھے “۔
امر سے مراد ”کُن“ کہنا ھے جس کی طرف خداوندعالم نے اپنے اس قول میں ارشارہ فرمایا ھے:
< إِنَّمَا اٴَمْرُہُ إِذَا اٴَرَادَ شَیْئًا اٴَنْ یَقُولَ لَہُ کُنْ فَیَکُون۔> [73]
” اس کی شان تو یہ ھے کہ جب کسی چیز کو (پیدا کرنا) چاہتا ھے تو وہ کہہ دیتا ھے کہ ھو جا تو (فوراً) ھو جاتی ھے“۔
اس کا مطلب یہ ھے کہ امر خدا (جس میں سے ایک روح بھی ھے)کا وجود دفعی (ایک دم) ھے اور تدریجی نھیں ھے، پس یہ امر خدا زمان و مکان کے شرائط کے بغیر ھی ھوتا ھے، اس سے یہ بھی معلوم ھوجاتا ھے کہ روح جو امر خدا کی ایک قسم ھے جسمانی اور مادی
نھیں ھے، کیونکہ مادی جسمانی موجودات کے عام احکام میں سے ھے کہ رفتہ رفتہ پیدا ھوتے ھیں، یعنی ان کا وجود تدریجی ھوتا ھے اور زمان و مکان سے مقید ھوتے ھیں،پس معلوم یہ ھوا کہ روح مادی اور جسمانی شئے نھیں ھے۔ [74]
۲۔ احادیث کے ذریعہ استدلال
اگرچہ اس سلسلے میں بہت سی احادیث موجود ھیں لیکن ھم ان میں سے چند ایک بیان کرتے ھیں:
۱۔حضرت رسول اکرم (ص)نے فرمایا:
”من صلی عليَّ عند قبری سمعتہ ،ومن صلی عليَّ من بعید بلغتہ “۔
وقال (ص):”ومن صلی عليَّ مرة صلیت علیہ عشرا ،ومن صلی عليَّ عشرا صلیت علیہ مائة فلیکثر امروٴ منکم الصلاة عليَّ اٴو فلیقل“۔ [75]
”جو شخص میری قبر کے پاس مجھ پر درود و سلام بھیجے تو میں اس کو سنتا ھوں، اور جو شخص دور سے بھی مجھ پر درود و سلام بھیجے تو
میں بھی جواب بھیجتا ھوں“۔
اسی طرح آنحضرت (ص)نے فرمایا:
جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود و سلام بھیجے تو میں اس پر دس مرتبہ درود و سلام بھیجوں گا، اور جو شخص مجھ پر دس مرتبہ درود و سلام بھیجے تو میں اس پر سو (۱۰۰) مرتبہ درود و سلام بھیجوں گا، لہٰذا جو شخص جتنی مرتبہ مجھ پر درود و سلام بھیجے گا اسی طرح ھماری طرف سے درود و سلام ھوگا“۔
پس ان احادیث کے پیش نظر یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ آنحضرت (ص)اس دنیا سے رحلت کے بعد بھی درود و سلام کو سنتے ھیں ، اور یہ ممکن نھیں ھے،مگر اس صورت میں کہ آنحضرت (ص)خدا کی بارگاہ میں زندہ ھوں، اسی طرح ائمہ معصومین علیھم السلام بھی ان پر بھیجے گئے درود و سلام کو سنتے ھیں چاھے سلام کرنے والا نزدیک سے سلام کرے یا دور سے، جیسا کہ ائمہ علیھم السلام سے مروی احادیث صادقہ میں بیان ھوا ھے۔ [76]
۲۔آنحضرت (ص)سے مروی ھے کہ جس وقت آپ بدر کے میدان میں کھڑے ھوئے تو آپ نے مقتول مشرکین کو خطاب کرتے ھوئے فرمایا:
”لقد کنتم جیران سوء لرسول اللہ ،اخرجتموہ من منزلہ و طردتموہ ،ثم اجتمعتم علیہ فحار بتموہ، فقد وجدت ما عدنی ربی حقا، فھل وجدتم ماو عدکم ربکم حقا ، فقیل لہ(ص)ما خطابک لہامٍ قد صدیت؟ فقال رسول(ص) ”فواللہ ما انتم باسمع منھم ،وما بینھم وبین ان تاخذ ھم الملائکة بمقامع الحدید الا ان اعرض بوجھی ھکذا عنھم“۔ [77]
”بے شک تم لوگ رسول اللہ کے برے پڑوسی تھے، تم نے ان کو اپنے گھر سے نکال دیا اور پھر تم نے اس کے ساتھ جنگ کی، بے شک میںنے اپنے پروردگار کے وعدہ کو حق پایا، کیا تم نے بھی اپنے پروردگار کے وعدہ کو حق پایا؟ اس وقت آپ کے ساتھیوں نے کہا: یا رسول اللہ(ص) یہ آپ مردوں سے باتیں کررھے ھیں، تو آنحضرت (ص)نے فرمایا: ” خدا کی قسم تم لوگ ان سے زیادہ نھیں سن رھے ھو ۔ میرے منھ موڑتے ھی ان پر فرشتے عذاب نازل کرنا شروع کردیں گے“۔
ایک روایت میں یہ بھی وارد ھوا ھے :
”ما انتم باسمع لمااقول منھم،ولکن لایستطیعون ان یجیبونی“۔ [78]
” یہ لوگ تمہاری طرح ھی میری گفتگو کو سن رھے ھیں لیکن جواب دینے کی طاقت نھیں رکھتے“۔
۳۔ آنحضرت (ص)ایک طویل خطبہ کے درمیان فرماتے ھیں:
”حتی اذا حمل المیت علی نعشہ ،رفرف روحہ فوق النعش و یقول :یا اھلی ویاولدی ،لا تلعبن بکم الدنیا کما لعبت بی ،جمعت المال من حلہ و غیر حلہ ،فالغنی لغیری و التبعة عليَّ ،فاحذر وا مثل ما حل بی“۔ [79]
”یہاں تک کہ جب انسان کی میت اٹھائی جاتی ھے تو اس کی روح اس کی میت کے اوپر پرواز کرتی ھوئی کہتی ھے: اے میری اولاد اور بچوں ، تم میری طرح دنیا میں مشغول نہ ھوجانا، میں نے حلال و حرام طریقہ سے مال جمع کیا جس سے تم لوگ فائدہ اٹھاؤگے لیکن اس کی آفت میری وبال جان بنی ھوئی ھے، لیکن میرے حال کو دیکھ کر عبرت حاصل کرو“۔
۴۔حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے مروی ھے کہ آپ بصرہ کی جنگ کے بعد جب گھوڑے پر سوار ھوئے اورمقتولین کی صفوں میں پہنچے تو مقتولین میں کعب بن سورة کو دیکھا، کعب کی لاش کو دیکھاتو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: کعب کو بیٹھایاجائے، کعب کو آپ کے پاس بٹھایاگیا تو آپ نے اس سے مخاطب ھوکر فرمایا:
”یا کعب بن سورة ،قد وجدت ما وعدنی ربی حقا ،فھل وجدت ما وعدک ربک حقا؟“۔
اے کعب بن سورة ! میں نے اپنے پروردگار کا کیا ھوا وعدہ حق پایا، کیا تو نے بھی اپنے پروردگار کے وعدہ کو حق پایا؟
اس کے بعد آپ نے فرمایاکہ کعب کو زمین پر لٹادو ، اس کے بعد طلحہ بن عبد اللہ کے ساتھ بھی اسی طرح کی گفتگو کی، تو آپ کے ایک صحابی نے عرض کی یا امیر المومنین ! یہ مردے آپ کی باتوں کو کیسے سن سکتے ھیں؟! تو اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا:
”مہ یا رجل فوالله لقد سمعا کلامی کما سمع اھل القلیب کلا م رسول الله (ص)“۔ [80]
”اے شیخ چب ھوجا، قسم بخدا یہ لوگ میری باتوں کو سن رھے ھیں جس طرح بدر کے میدان میں کلام رسول اللہ (ص)کو کفار و مشرکین نے سنا تھا“۔
۵۔ حبہ عرنی سے مروی ھے کہ میں ظہر کے وقت حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ نکلا، تو آپ وادی السلام میں ایسے کھڑے ھوگئے گویااقوام سے مخاطب ھیں، میں نے عرض کیا یا امیر المومنین! آپ کتنی دیر یہاں کھڑے رھیں گے کچھ دیر آرام بھی تو فرمالیں،تو آپ نے مجھ سے فرمایا: اے حبّہ! یہ مومنین سے گفتگو اور ان کے ساتھ انسیت ھے، تو میں نے عرض کیا یا امیر المومنین کیا واقعاً ایسا ھی ھے تو آپ نے فرمایا:
”نعم،ولوکشف لک لرایتھم حلقاحلقامحتبین یتحادثون۔۔۔“۔ [81]
”ہاں ایسا ھی ھے، اگر تمہارے سامنے سے بھی حجاب اٹھ جائے تو تم دیکھو گے کہ یہ لوگ حلقہ حلقہ بیٹھے ھوئے گفتگو کررھے ھیں“۔
۶۔ ابو بصیر سے مروی ھے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے مومنین کی ارواح کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
”فی حجرات فی الجنة ،یاکلون من طعامھا ،و یشربون من شرابھا، ویقولون:ربنا اقم الساعة لنا،وانجزلنا ماوعدتنا،والحق آخرناباولنا“۔ [82]
”(مومنین کی ارواح) جنت کے حجروں میں ھیں، وہاں وہ کھانا کھاتی ھیں اور پانی پیتی ھیں، اور کہتی ھیں : پالنے والے! قیامت برپا کردے اور اپنے کئے ھوئے وعدہ کو وفا کردے، اور ھمارے بعد والوں کو بھی ھم سے ملادے“۔
۷۔ ابو بصیر سے مروی ھے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کفار و مشرکین کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
”فی النار یعذبون ،یقولون :ربنا لا تقم لنا الساعة ،ولا تنجزلنا ما وعدتنا ولا تلحق آخرنا باولنا“۔ [83]
”(کفار و مشرکین کی روحیں) عذاب خدا میں رہتی ھیں اور کہتی ھیں پالنے والے! قیامت برپا نہ کر، اور اپنے کئے ھوئے وعدہ سے چشم پوشی کرلے، اور ھمارے بعد والوں کو ھم سے نہ ملا“۔
۳۔ عقلی دلائل:
روح کے صفات مادہ سے مجرد ھونے پر علماء کرام سے چند عقلی دلائل بیان کئے گئے ھیں ، جن میں سے یہاں پر بعض کو بیان کیا جاتا ھے:
۱۔ یہ بات واضح رھے کہ انسان کی تمام معلومات مادہ سے مجرد ھوتی ھےں، پس ان سے متعلق علم بھی لامحالہ ان کے مطابق ھوگا،تویہ علم بھی مجرد ھوگا، کیونکہ معلومات مجرد ھے، لہٰذا اس کے محل (جو کہ نفس ھے) کا بھی مجرد ھونا ضروری ھے، کیونکہ مجرد چیز مادی چیز میں نھیں سماسکتی۔
۲۔ مادیات قابل تقسیم ھیں، اور نفس پر عارض ھونی والی شئے ( علم) غیر قابل تقسیم ھے، تو اس کا مقام بھی ( نفس) غیر قابل تقسیم ھونا چاہئے، اس کے بعد تمام علوم کا مقام و محل اگر جسم ھو یا جسمانی ھو تو ان علوم کو تقسیم ھونا چاہئے، لیکن علوم اور ذہنی مطالب کا تقسیم ھونا محال ھے۔
۳۔ انسانی روح، لامتناھی (یعنی جس کی حد نہایت نہ ھو) افعال و ادراک پر قدرت عطا کرتی ھے جیسے لا متناھی عدد کا تصور کرنا، لیکن جسمانی قوت لامتناھی امور پر قادر نھیں ھے، لہٰذا معلوم یہ ھوا کہ روح جسم کے علاوہ ھے۔
۴۔ اگر علم کی جگہ دماغ یا دوسرے آلات تعقل ھوں تو ہر وہ معلوم جو اس کی طرف منسوب ھو وہ اس کا ایک حصہ ھوگا، تو انسان کی علمی قابلیت متناھی (محدود) ھوجائی گے، کیونکہ مادہ کی قابلیت اپنی معلومات کی نسبت محدود ھوتی ھے، جیسے ایک کاپی کو لکھنا شروع کریں تو لکھتے لکھتے وہ بھرجاتی ھے، یا ایک (کامپوٹر کی)سی ڈی آواز یا تصویر سے بھر جاتی ھے، اس کا مطلب یہ ھے کہ اگر انسان ایک لمبی عمر کرے تو اس کا علمی ظرف بھرجائے گا اور ایک ایسا وقت آئے گا کہ اس سے علم حاصل کرنے کی استعداد ختم ھوجائے گی اور یہ محال ھے۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:
”کل وعاء یضیق بما جعل فیہ ،الا وعاء العلم فانہ یتسع بہ“۔ [84]
”ہر ظرف کچھ چیزیں رکھنے سے بھر جاتا ھے سوائے علمی ظرف کے کہ یہ جتنا زیادہ علم ھوگا مزید وسیع ھوتا چلا جاتا ھے“۔
پس معلوم یہ ھوا کہ علم کا ظرف اس کے علم کی مقدار میں ھوتا ھے، لہٰذا اس صورت میں علم کا ظرف غیر مادی ھے۔
۵۔ علم بدیھی یہ ھے کہ ذات انسان میں ایک ثابت حقیقت ھوتی ھے جس کی طرف انسان کی عمر بھر اشارہ کرتا ھے، یہاں تک کہ مرنے کے بعد بھی، جس کو ”انا“ (میں) سے تعبیر کیا جاتا ھے، اگر انسان اسی بدن کا نام ھو تو پھر یہ عرض قابل تبدل و تغیر بن جائے، اور اس کی تمام معلومات اور افکار پر پردہ پڑجائے،اوراحساس ”انا“ ایک باطل اور خاطی احساس قرار پائے،کیونکہ اجزائے بدن قابل تغیر و تبدیلی ھے، کیونکہ ہر روز انسان کے اندر لاکھوں خُلیے مرتے ھیں اور ان کی جگہ نئے خُلیے پیدا ھوتے ھیں، جس کا ماہرین نے حساب کیا کہ ہر دس سال میں انسان کا پورا بدن بدل جاتا ھے، لیکن موت کے بعد یہ بدن ذرہ ذرہ اور نابود ھوجاتا ھے، اور تبدیل ھونے والی چیز باقی نھیں رہتی، پس اس بنا پر انسانی شخصیت کا واحد معیار اور اس کے افکار و معلومات انسان کی روح ھوتی ھے، کیونکہ جسم میں تغیر و تبدیلی آتی رہتی ھے۔
۶۔ انسان کی جسمانی قوتیں زیادہ کام کرنے سے تھک جاتی ھیں اور کمزور ھوجاتی ھیںمثلاً اگر کوئی شخص دیر تک سورج کی طرف دیکھتا رھے تو اس کے بعد دوسری چیزوں کو صاف طریقہ سے نھیں دیکھ پاتا، لیکن نفسانی قوتیں کمزور نھیں ھوتیں بلکہ مزید غور و فکر کی بنا پر طاقتور ھوجاتی ھیں اس کی نشاط میں اضافہ ھوتا رہتا ھے، پس نتیجہ یہ ھوا کہ جب نفسانی طاقت جسمانی طاقت کی طرح زیادہ کارکردگی سے کمزور نھیں ھوتی ، تو پھر اس کو جسمانی اور مادی نھیں ھونا چاہئے بلکہ مجرد ھونا چاہئے۔
۷۔ نفسانی قوت میں اضداد (ایک دوسرے کی ضد) پائی جاتی ھیں لیکن جسمانی قوت میں نھیں پائی جاتی مثال کے طور پر جب ھم کہتے ھیں کہ سیاھی سفیدی کی ضد ھے تو ھمارے ذہن میں سیاھی اور سفیدی کی حقیقت تصور ھوتی ھے، اور یہ بات واضح ھے کہ اجسام میں اضداد کا جمع ھونا محال ھے، پس معلوم یہ ھوا کہ نفسانی طاقت میں اضداد پائی جاتی ھیں تو ماننا پڑے گا کہ یہ نفس (روح) جسمانی نھیں ھے بلکہ مجرد ھے۔
۸۔ جسمانی مادہ میں جب کوئی مخصوص شکل و صورت آتی ھے تو جب تک وہ شکل و صورت موجود ھو تو اس وقت تک کوئی دوسری شکل و صورت اس میں نھیں آتی، جب کہ ھم دیکھتے ھیں کہ ذہنی تعقل و تصور میں انسان مختلف چیزوں کی تصویر کواسی اندازہ کے مطابق لمحہ بھر میں تصور کرلیتا ھے اور اس کو انھیں یکے بعد دیگری تصور کرنے کی ضرورت نھیں ھوتی اور نہ ھی، اس تصور سے اس کا ذہن بھرتا ھے، پس اس کی جگہ کا بھی غیر مادی ھونا ضروری ھے۔
۴۔ علمی اور تجربی دلائل:
مغربی دانشوروں نے عالم روح ،اس کے ھمیشہ باقی رہنے اور روح کے مادہ سے الگ ھونے کے سلسلہ میں بہت زیادہ تحقیق کی ھے اور ایک واضح نتیجہ پر پہنچ گئے ھیں، البتہ یہ نتائج کسی فلسفی دلائل کی بنیاد پر نھیں ھےں بلکہ وہ اپنے تجربات کی بنا پر اس نتیجہ پر پہنچے ھیں جس میں ذرہ برابر بھی شک و تردید کی کوئی گنجائش باقی نھیں رہتی، جن کی وجہ سے مادی نظریات کی جڑیں ہل گئی ھیں، اور مادی نظریات کو ایسے ذلیل کردیا ھے کہ شرم کی وجہ سے پانی بھی نھیں مانگ سکتے، یہ انھوں نے ”احضار روح “ اور ”مقناطیسی نیند‘ ‘ (ہپنوتیزم Hypnotism)کے ذریعہ ثابت کیا ھے جو واقعاً عالم ارواح کے سلسلے میں ایک نیا باب ھے جس کی وجہ سے بعض ملحد اور مادی دانشمندوں میں ایک ا نقلاب پیدا کردیا ھے اور وہ عالم غیب اور روح کے ھمیشہ باقی رہنے کے معتقد ھوگئے ھیں۔
اگرچہ یہ دونوں علم (احضار روح اور ”مقناطیسی نیند“ ) قدیم زمانہ میں مشھور تھے جس کو اہل مصر، آرشوری، اہل ہند اور اہل روم جانتے تھے ، لیکن یہ دونوں علم صرف معابد اور مندروں تک ھی محدود رھے ھےں صرف مذہبی روحانی اس سے واقف ھوتے ھیں لیکن ۱۹ویں صدی کے آخر میں یہ دونوں علم امریکہ اور یورپ میں بہت مشھور ھوئے، اور بہت زیادہ شہرت حاصل کرلی،چنانچہ ان دونوں علموں کا یونیورسٹی اور اعلیٰ تعلیمات کے اساتید نے اقرار و اعتراف کیا، جنھوں نے ان دونوں علموں میں ایک نئی جان ڈال دی ، ھم ذیل میں ان دونوں علموں کے بارے میں ایک مختصر سی وضاحت بیان کرتے ھیں:
۱۔ احضار روح
اس علم میں عالم ارواح سے مردوں کی روح کو حاضر کرلیا جاتا ھے ، اور روح انسان کے سامنے حاضر ھوجاتی ھے اس سے باتیں کرتی ھے، روح کو حاضر کرنے والے پر یہ بات اچھی طرح واضح ھوجاتی ھے کہ یہ فلاں صاحب کی روح ھے، اور وہ روح اکثر ایسے مسائل کے بارے میں جواب دیتی ھے جن کا غور و فکر کے بعد ھی جواب دیا جاسکتا ھے اور بعض علماء و ماہرین نے مشکل مسائل کو روحوں کے ذریعہ حل کیا ھے، جیسا کہ خود روح سے اس کے حالات کے بارے میں سوال کیا گیا ھے کہ موت کے بعد اس کو نعمتیں ملیں یا سزا اور عذاب دیا گیا۔
اس انقلاب نے طبیعی ماہرین ، اطباء اور فلاسفہ وغیرہ کو متعجب کردیا ھے، جس کے بعد انھوں نے اس سلسلہ میں مزید تحقیق اور بحث و بررسی شروع کردی اور اس بات سے متفق ھوگئے کہ روح موت کے بعد بھی باقی رہتی ھے، چنانچہ انھوں نے اپنے تجربات اور دلائل کے ذریعہ عالم ارواح کے بارے میں مشاہدات کرلئے تو اس علم کا اعتراف کیا کیونکہ ان تجربات ،دلائل اور مشاہدات کے بعد شک و تردید کی کوئی گنجائش باقی نھیں رہ جاتی۔ جناب وجدی صاحب نے ”دائرة المعارف “ میں ان مشھور و معروف دانشورں کے ناموں کی فہرست بیان کی ھے۔ [85]
یھی نھیں بلکہ اس علم کی تحقیق اور بحث و بررسی کے لئے امریکہ اور برطانیہ میں یونیورسٹی بنائی گئی ھے،جس کی ریاست استاد ”ھیزلب“ امریکائی اور ڈاکٹر ”ھوڈسن“ برطانوی نے کی ھے، اور اس سلسلہ میں ۱۲/سال کی غور و خوض اور تحقیق کرنے کے بعد ۱۸۹۹ء میں یہ نتیجہ پیش کیا کہ ہاں یہ تحقیقات صحیح ھےں،اور مردوں کی روح سے رابطہ کرکے ان سے بہت سی چیزوں کے بارے میں سوال کیا جاسکتا ھے۔
چنانچہ مختلف ممالک کے بہت سے مادی ماہرین اس سلسلہ میں تحقیق و بررسی میں مشغول ھوگئے جس سے انھوں نے یھی نتیجہ نکالا کہ انسان کے پاس ایک روحانی طاقت ھوتی ھے جو مادہ سے خالی ھوتی ھے اور وہ جسم کی موت فنا نھیں ھوتی، اپنی مکمل نشاط کے ساتھ خاکی جسم کے بغیر ھی کارکردگی میں مشغول رہتی ھے، اگرچہ یہ لوگ پہلے اس بات کے منکر تھے لیکن بعد میں روح کے ھمیشہ باقی رہنے کے معترف ھوگئے، ان ماہرین میں سے کچھ نام اس طرح ھیں:
آلفرڈ روسل ڈلس، برٹش یونیورسٹی کے صدر اور استاد کروکس ، برہنگم یونیورسٹی کے صدر اور ماہر طبیعات مسٹر سیراولیفر، ڈاکٹر جورج سکسٹون برطانوی، ڈاکٹر شامبیر، ڈاکٹر ھوڈسن، مشھور و معروف نجومی کامیل فلامریون [86] برطانوی فلسفی مسٹرسیرجون کوکس ، جیولوجی استاد بارکس وغیرہ، اور ان لوگوں کی روح کے سلسلہ میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے جد جہد جاری ھے۔
۲۔ ”مقناطیسی نیند “ ( ہپنوتیزم Hypnotism)
یہ ایک ایسی نیند ھے جس کے بارے میں ماہرین نے تحقیق کی ھے کہ کسی شخص کو ایک گہری نیند میں سلادیا جاتا ھے جس سے اس کا جسم بے حرکت اور بے حس ھوجاتا ھے، سونے والا شخص سلانے والے کی آواز کو سنتا ھے، اس کے ارادہ و افکار کے سامنے تسلیم ھوجاتا ھے اور بغیر کسی چون و چرا کے اس کے حکم کی اطاعت کرتا ھے، اس عجیب و غریب کام کا نتیجہ یہ ظاہر ھوتا ھے کہ اس کی روح جسم سے الگ چیز ھے ، اس کی روح دور دراز کے علاقے میں جاتی ھے، اور ایسے ایسے راز کشف کرتی ھے جو بیداری کی حالت میں بھی معلوم نھیں ھوتے، اور ایسی زبان میں گفتگو کرتی ھے جن کو صاحب روح بھی نھیں جانتا، نیز ایسی چیزوں کے بارے میں خبر دیتی ھے کہ اس کو ذرا بھی اس کی اطلاع نھیں ھوتی۔
فلاسفہ کے بعض گروہ نے اس سلسلہ میں تدریس کرنا شروع کی جس کے عجیب و غریب نتائج برآمد ھوئے جیسا کہ کمبرج یونیورسٹی کے استاد میارس برطانوی ،صاحب کتاب ”انسانی شخصیت“ نے بعض ماہرین کے تجربات اور مشاہدات کو بیان کیا ھے، اور اس کو تحربی مسائل میں قرار دیا ھے جن کی تعلیل وظائف اعضاء کے ذریعہ نھیں کی جاسکتی، بلکہ یہ ثابت کیا ھے کہ انسان مادی جسم کے ساتھ ایک روحانی طاقت بھی رکھتا ھے اور عالم روحانی اور عالم ارضی سے مدد حاصل کرتا ھے اور یھی انسان کی انسانیت اور اس کی کرامت ھے۔
اس علم نے عالم روح میں بہت سے ماہرین کے ذریعہ بہت زیادہ ترقی کی ھے، جنھوں نے اس سلسلہ میں تحقیق و جستجو کی ھے اور جدید علمی نتائج حاصل کئے ھیں، انھیں ماہرین میں سے جیمس برائڈ برطانوی، نولز، شارکو، فیلیپ کارس وغیرہ ھیں [87]
قارئین کرام! ان تمام بیان شدہ دلائل کے پیش نظر واضح ھوجاتا ھے کہ انسان کی شخصیت جس کی طرف”میں“ کے ذریعہ اشارہ کیا جاتا ھے وہ جسم یا اعضاء جسم نھیں ھے کیونکہ انسان کی شخصیت علم و ادراک سے متصف ھوتی ھے جو جسم یا اعضاء جسم کے بدلنے سے نھیں بدلتی، اور نہ ھی جسم کی طرح زمان و مکان کی محتاج ھوتی ھے، بلکہ وہ دوسری خصوصیتوں سے امتیاز پیدا کرتی ھے جن کو جسم اور مادہ کی خصوصیات نھیں کھاجاسکتا جیسا کہ ھم نے بیان کیا ھے۔
لیکن جسم و روح کا رابطہ ،آلات و وسائل کی طرح ھے جس سے انسان کا جسم حرکت کرتا ھے ، روح جسم پر اثر کرتی ھے اور جسم روح پر، خوف و وحشت شادمانی اور خوشی کے آثار جسم پر ظاہر ھوتے ھےں، مثلاً خوف کے وقت انسان کا بدن لرزجاتا ھے اور اس کا رنگ بدل جاتا ھے اسی طرح اگر جسم اور بدن میں کوئی مشکل یا بیماری لاحق ھوجاتی ھے تو اس سے انسان کی فکر اور عقل متاثر ھوتی ھے، اور جسم و روح کے درمیان یہ رابطہ روز قیامت تک جاری رھے گا جبکہ انسان کی روح اس کے بدن میں ڈال دی جائے گی، اور یھی انسان کے اعضاء و جوارح روح کے اعمال پر شاہد ھوں گے، جیسا کہ قرآن مجید کی صریح آیت اس بات پر دلالت کرتی ھیں جن میں سے خداوندعالم کا یہ فرمان:
< یَوْمَ تَشْہَدُ عَلَیْہِمْ اٴَلْسِنَتُہُمْ وَاٴَیْدِیہِمْ وَاٴَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ > [88]
”قیامت کے دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں سب گواھی دیں گے کہ یہ کیا کررھے تھے“۔
اس کے علاوہ جسم و روح کے رابطہ کے بارے میں یقین سے نھیں کھاجاسکتا کہ روح و جسم دونوں ایک ساتھ ھونے کی بنا پر ھے یا دونوں ایک چیز ھیں، یا ان میں سے ہر ایک مستقل طور پر ھے ، یہ چیز تو خداوندعالم ھی جانتا ھے کیونکہ تمام چیزوں کے بارے میں باخبر ھے۔
دوسری بحث: حقیقت ِمعاد
تمام ھی مسلمان قیامت کے سلسلے میں اتفاق نظر رکھتے ھیں، جن میں بعض جید فلاسفہ بھی اسی عقیدہ کے قائل ھیں، البتہ معاد کی کیفیت میں دو طریقہ پر اختلاف نظر رکھتے ھیں:
جسمانی معاد
جسمانی معاد سے مراد یہ ھے کہ خداوندعالم روز قیامت انسانوں کو اسی جسم کے ساتھ محشور کرے گا، قیامت کے یھی معنی اصول دین کی ایک عظیم اصل ھے جس پر عقیدہ اور ایمان رکھنا واجب اور ضروری ھے کیونکہ اس کے ارکان ثابت ھیں، اور اس کا انکار کرنے والا تمام مسلمانوں کے نزدیک بالاجماع کافر ھے۔
قیامت کے وجود پردلیل یہ ھے کہ یہ ممکن ھے، اور صادق الوعد نے اس کے ثبوت کی خبر دی ھے، لہٰذا قیامت پر یقین رکھنا واجب ھے جس کی طرف سب کی بازگشت ھے۔
لیکن اس کے ممکن ھونے کی دلیل تو قیامت کا ممکن ھوناھے ، گزشتہ فصل میں ھم اس سلسلے میں بیان کرچکے ھیں، اورقیامت کے ثبوت کے لئے اخبار اور احادیث تمام انبیاء علیھم السلام نے بیان کی ھیں، جیسا کہ ھمارے نبی صادق الامین حضرت محمد مصطفی (ص)کے دین میں قیامت کے بارے میں اخبار اور حدیث بیان ھوئی ھیں، جیسا کہ قرآن کریم نے اس بات کی وضاحت کی ھے، اور مخالفین کو بہت سی صریح آیات میں واضح الفاظ کے ساتھ جواب دیا ھے، جن میں اس بات کی تاکید کی گئی ھے کہ جب لوگوں کوقبروں سے نکالا جائے گا تو وہ تیزی سے حساب و کتاب کے لئے جائیںگے، چاھے وہ افراد نیک ھوں یا برے ،ارشاد الٰھی ھوتا ھے:
< یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاٴَرْضُ غَیْرَ الْاٴَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ وَتَرَی الْمُجْرِمِینَ یَوْمَئِذٍ مُقَرَّنِینَ فِی الْاٴَصْفَادِ سَرَابِیلُہُمْ مِنْ قَطِرَانٍ وَتَغْشَی وُجُوہَہُمْ النَّارُ لِیَجْزِیَ اللهُ کُلَّ نَفْسٍ مَا کَسَبَتْ> [89]
”اس دن جب زمین دوسری زمین میں تبدیل ھوجائے گی اور آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے اور سب خدائے واحد و قہار کے سامنے پیش ھوں گے اور تم اس دن مجرمین کو دیکھو گے کہ کس طرح زنجیروں میں جکڑے ھوئے ھیںان کے لباس قطران کے ھوںگے اور ان کے چہروں کو آگ ہر طرف سے ڈھانکے ھوئے ھوگی تا کہ خدا ہر نفس کو اس کے کئے کا بدلہ دیدے کہ وہ بہت جلد حساب کرنے والا ھے“۔
اسی طرح پیغمبر اکرم (ص)اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے مروی احادیث متواترہ میں جسمانی معاد کے ثبوت پر واضح طور پر بیان کیا گیا ھے۔
آیات قرآن کریم:
۱۔< اٴَیَحْسَبُ الْإِنسَانُ اٴَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَہُ بَلَی قَادِرِینَ عَلَی اٴَنْ نُسَوِّیَ بَنَانَہُ۔> [90]
”کیا انسان یہ خیال کرتا ھے کہ ھم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکےں گے یقینا ھم اس بات پر قادر ھےں کہ اس کی انگلیوں کے پور تک درست کرسکیں“۔
< وَضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَنَسِیَ خَلْقَہُ قَالَ مَنْ یُحْیِ الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیمٌ قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِی اٴَنشَاٴَہَا اٴَوَّلَ مَرَّةٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ> [91]
”اور ھمارے لئے مثل بیان کرتا ھے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ھے کہتا ھے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتاھے آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ھے وھی زندہ بھی کرے گااو روہ ہر مخلوق کا بہتر جاننے والا ھے“۔
۳۔وہ آیات جو مردوں کو قبر سے نکالے جانے پر دلالت کرتی ھیں، جیسا کہ ارشاد الٰھی ھوتا ھے:
< وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَإِذَا ہُمْ مِنْ الْاٴَجْدَاثِ إِلَی رَبِّہِمْ یَنسِلُونَ قَالُوا یَاوَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا ہَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ إِنْ کَانَتْ إِلاَّ صَیْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا ہُمْ جَمِیعٌ لَدَیْنَا مُحْضَرُونَ فَالْیَوْمَ لاَتُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَلاَتُجْزَوْنَ إِلاَّ مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ > [92]
”اور پھر جب صور پھونکا جائے گا تو سب کے سب اپنی قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف چل کھڑے ھوںگے۔ کھےں گے کہ آخریہ ھمیں ھماری خواب گاہ سے کس نے اٹھادیا ھے بیشک یھی وہ چیز ھے جس کا خدا نے وعدہ کیا تھا اور اس کے رسولوں نے سچ کھاتھا۔قیامت تو صرف ایک چنگھاڑ ھے اس کے بعد سب ھماری بارگاہ میں حاضر کردیئے جائیں گے۔پھر آج کے دن کسی نفس پر کسی طرح کا ظلم نھیں کیا جائے گااور تم کو صرف ویسا ھی بدلہ دیا جائے گا جیسے اعمال تم کررھے تھے“۔
نیز ارشاد خداوندی ھوتا ھے:
< مِنْہَا خَلَقْنَاکُمْ وَفِیہَا نُعِیدُکُمْ وَمِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَةً اٴُخْرَی> [93]
”اسی زمین سے ھم نے تمھیں پیدا کیا ھے اور اسی میں پلٹا کر لے جائیں گے اور پھر دوبارہ اسی سے نکالیں گے“۔
۴۔جو آیات اس چیز پر دلالت کرتی ھیں کہ انسان اپنے تمام اعضاء و جوارح کے
ساتھ حساب کے لئے حاضر ھوگا اور انسان کے اعضاء و جوارح اس کے اعمال کی گواھی دیں گے، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:
<الْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلَی اٴَفْوَاہِہِمْ وَتُکَلِّمُنَا اٴَیْدِیہِمْ وَتَشْہَدُ اٴَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ> [94]
”آج ھم ان کے منھ پر مہر لگادیںگے اور ان کے ہاتھ بولےں گے اور ان کے پاؤں گواھی دیںگے کہ یہ کیسے اعمال انجام دیا کرتے تھے“۔
نیز ارشاد خداوندی ھوتا ھے:
< حَتَّی إِذَا مَا جَاءُ وہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاٴَبْصَارُہُمْ وَجُلُودُہُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ > [95]
”یہاں تک کہ جب سب جہنم کے پاس آئےں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور جلد سب ان کے اعمال کے بارے میں ان کے خلاف گواھی دیں گے“۔
۵۔ وہ آیات جن میں جسمانی معاد کی واقعی مثال پیش کی گئی ھے، [96]جیسا کہ جناب عزیر، بنی اسرائیل کے مقتول ، اصحاب کہف اور جناب ابراھیم کے لئے پرندوں کا زندہ ھونا، جیسا کہ ھم نے قیامت کے دلائل میں بیان کیا ھے:
۶۔ وہ آیات شریفہ جو جنت میں لذت نعمت پر دلالت کرتی ھیں کیونکہ جسمانی لذت اعضاء و جوارح کے بغیر حاصل نھیں ھوتی، اسی طرح وہ آیات جو دوزخیوں کے عذاب اور درد و غم پر دلالت کرتی ھیں جو ان کے اعضاء و جوارح سے متعلق ھے، ارشاد الٰھی ھوتا ھے:
<عَلَی سُرُرٍ مَوْضُونَةٍ مُتَّکِئِینَ عَلَیْہَا مُتَقَابِلِینَ یَطُوفُ عَلَیْہِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ بِاٴَکْوَابٍ وَاٴَبَارِیقَ وَکَاٴْسٍ مِنْ مَعِینٍ لاَیُصَدَّعُونَ عَنْہَا وَلاَیُنزِفُونَ وَفَاکِہَةٍ مِمَّا یَتَخَیَّرُونَ وَلَحْمِ طَیْرٍ مِمَّا یَشْتَہُونَ وَحُورٌ عِینٌ کَاٴَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَکْنُونِ> [97]
”موتی اور یاقوت سے جوڑے ھوئے تختو ںپر ایک دوسرے کے سامنے تکیہ لگائے بیٹھے ھوںگے ان کے گرد ھمیشہ نوجوان رہنے والے بچے گردش کررھے ھوںگے۔ پیالے اور ٹونٹی دار کنڑ اور شراب کے جام لئے ھوئے جس سے نہ درد سر پیدا ھوگا اورنہ ھوش و ھواس گم ھوںگے۔اور ان کی پسند کے میوے لئے ھوںگے۔‘اور ان پرندوں کا گوشت جس کی انھیں خواہش ھوگی۔ اور کشادہ چشم حوریں ھوںگی جیسے سربستہ موتی“۔
اسی طرح خداوندعالم اہل دوزخ کے بارے میں ارشاد فرماتا ھے:
< إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بِآیَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِیہِمْ نَارًا کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُہُمْ بَدَّلْنَاہُمْ جُلُودًا غَیْرَہَا لِیَذُوقُوا الْعَذَابَ> [98]
”پس آپ کے پروردگا رکی قسم کہ یہ ہر گز صاحب ایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپ کو اپنے اختلافات میں حَکم نہ بنائیں اور پھر جب آپ فیصلہ کردیں تو اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریں اور آپ کے فیصلے کے سامنے سراپا تسلیم ھوجائیں“۔
احادیث معصومین علیھم السلام
اسی طرح جسمانی معاد کے سلسلے میں بھی بہت سی احادیث موجود ھیں، ان میں سے حضرت علی علیہ السلام ”غرّہ“ نامی خطبہ میں ارشاد فرماتے ھیں:
”حتی اذا تصرمت الامور ،و تقضت الدھور ،و ازف النشور، اخرجھم من ضرائح القبور، و اوکار الطیور،واوجرة السباع، ومطارح المھالک ،سراعا الی امرہ ،مھطعین الی معادہ، رعیلاً صموتاً،قیاماً صفوفاً“۔ [99]
”یہاں تک کہ جب تمام معاملات ختم ھوجائیں گے، اور تمام زمانے بیت جائیں گے اور قیامت کا وقت قریب آجائے گا تو انھیں قبروں کے گوشوں، پرندوں کے گھونسلوں، درندوں کے بھٹوں اور ہلاکت کی منزلوں سے نکالا جائے گا، اس کے امر کی طرف تیزی سے قدم بڑھاتے ھوئے اور اپنی وعدہ گاہ کی طرف بڑھتے ھوئے ،گروہ درگروہ، خاموش، صف بستہ اور ایستادہ۔
اسی طرح علی بن ابراھیم اور شیخ صدوق نے امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ھے کہ امام علیہ السلام نے فرمایا:
”اذا اراد اللهان یبعث الخلق ،امطر السماء علی الارض اربعین صباحا ،فاجتمعت الاوصال،ونبتت اللحوم“۔ [100]
”جب خداوندعالم مخلوقات کو مبعوث کرنا چاھے گا تو زمین پر چالیس روز تک بارش برسائے گا ، پس تمام چیزیں جمع ھوجائیں گی اور گوشت نمو پیدا کرے گا(یعنی مردوں کے بکھرے ھوئے اعضاء و جوارح اس کے بدن میں جمع ھوجائیں گے)۔
جسمانی معاد کی حقیقت
جسمانی معاد کے قائلین حضرات تمام اسلامی فقہاء کرام، علمائے کلام، اہل حدیث اور اہل عرفان ھیں،اور تمام ھی اس بات کے قائل ھیں کہ انسان روز قیامت اپنے اسی بدن کے ساتھ حاضر کیا جائے گا، جیسا کہ خداوندعالم نے بھی قرآن مجید میں بیان کیا ھے، لیکن علماء کے درمیان روح کے سلسلے میں اختلاف ھے بعض علماء کہتے ھیں کہ روح ایک جسمانی شئے ھے جو بدن میں سرایت کئے ھوئے ھے، جیسے پھول میں پانی یا کوئلہ میں آگ، اس بنا پر ان کے نزدیک معاد بدن او رروح کے ساتھ جسمانی ھوگی، ایسا نھیں ھے کہ صرف ان کے مردہ جسم بغیر روح کے حاضر کئے جائیںگے، بلکہ ان کو زندہ کیا جائے گا یہ لوگ روح کو جسم کا ایک حصہ سمجھتے ھیں۔
لیکن بعض علماء روح کو جسم سے مجرد مانتے ھیں، پس ان کے نزدیک معاد روح کے لئے بھی ھوگی اور جسم کے لئے بھی، کیونکہ خداوندعالم روز قیامت ان کی روحوں کو ان کے جسموں میں پلٹادے گا، چنانچہ یہ عقیدہ رکھنے والوں میںسے جید علماء عرفان اور کلام ھیں، جیسے غزالی، کعبی، حلیمی، راغب اصفہانی، اسی طرح شیعہ علماء بھی اسی عقیدہ کے قائل ھیںجیسے شیخ مفیدۺ، ابو جعفر طوسیۺ،سید مرتضیٰۺ، محقق طوسیۺ، علامہ حلّیۺ،ان سب علماء کا عقیدہ ھے کہ روح انسانی مجرد ھے اور روز قیامت انسان کے بدن میں واپس کردی جائے گی۔[101]
قارئین کرام! مستفیض احادیث سے پتہ چلتا ھے کہ روح، بدن کے علاوہ ایک لطیف اور نورانی جوہر ھے اور یہ(مومن) انسان کی روح، انسان کے مرنے کے بعد خوشحال باقی رہتی ھے، اور خداکی طرف سے رزق پاتی ھے، یا (غیر مومن) انسان کی روح عذاب اور درد و غم میں گرفتار باقی رہتی ھے [102]جیسا کہ ھم نے پہلی بحث میں بہت سی آیات و احادیث بیان کی ھیں، ھم یہاں پر حضرت امام صادق علیہ السلام کی صرف ایک حدیث کے بیان پر اکتفاء کرتے ھیں، جو حقیقت معاد کی مکمل طور پر وضاحت کرتی ھے:
ایک زندیق (ملحد) نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے قیامت کا انکار کرتے ھوئے کہا: کیسے قیامت کا تصور کیا جاسکتا ھے جبکہ انسان کا بدن مٹی ھوجاتاھے اور اس کے اعضاء و جوارح ختم ھوجاتے ھیں، مثلاً ایک عضو کسی ملک میں کسی درندہ نے کھالیا ھے، اور بقیہ اعضاء دیگر حیوانات نے چیر پھاڑ ڈالے ھیں، اور کوئی عضو مٹی بن کر دیوار سے لگادیا گیا ھے؟اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا:
”إنّ الروح مقیمة فی مکانہا، روح المحسن فی ضیاء و فُسحة و روح المسیء فی ضیق و ظلمة، والبدن یصیر تراباً کمامنہ خلق، و ما تقذف بہ السباع و الھوام من اٴجوافھامما اٴکلتہ و مزقتہ، کلّ ذلک فی التراب محفوظ عند من لا یعزب عنہ مثقال ذرة فی ظلمات الارض، ویعلم عدد الاٴشیاء و وزنہا۔۔۔ فإذا کان حین البعث مطرت الاٴرض مطر النشور، فتربو الاٴرض، ثمّ تُمخَضوا مخض السقاء، فیصیر تراب البشر کمصیر الذہب من التراب إذا غُسِل بالماء، و الزبد من اللبن إذا مُخِض، فیجتمع تراب کل قالب إلی قالبہ، فینتقل بإذن الله القادر إلی حیث الروح، فتعود الصور بإذن المصوّر کھیئتھاو تلج الروح فیہا، فإذا قد استویٰ لاینکر من نفسہ شیئاً“۔ [103]
”بے شک روح اپنے (مخصوص) مقام پر رہتی ھے، مرد محسن کی روح وسعت اور نور میں رہتی ھے، جبکہ بدکار شخص کی روح تاریکی اور تنگی میں رہتی ھے، اور انسان کا بدن مٹی بن جاتا ھے جیسا کہ اس کی خلقت مٹی سے ھوئی تھی، اور جو اعضاء بدن درندوں اور حیوانوں کے حوالہٴ شکم ھوگئے ھیںیہ تمام مٹی میں اپنے اس پروردگار کے پاس محفوظ رہتے ھیں جس زمین کی تاریکی میں بھی کوئی ذرہ پوشیدہ نھیں ھے، وہ خدا تمام چیزوں کی تعداد حتی کے اس کے وزن کو بھی جانتا ھے۔۔۔۔ جب خداوندعالم معاد کا ارادہ فرمائے گا تو نشور(یعنی دوبارہ زندگی) کی بارش برسائے گا،جس سے زمین پھول جائے گی اور مکھن کی طرح سب چیزوں کو باہر نکال دے گی ، انسان کی مٹی ایسی ھوجائے گی جس سے مٹی سے سونے کو دھوکر صاف کردیا جائے اور جس طرح دودھ بلوکر گھی الگ کردیا جاتا ھے، اس وقت تمام چیزوں کی مٹی ان کے بدن میں پہنچ جائے گی، اس وقت خداوندعالم کے حکم سے وہ روح کی طرف بڑھےں گے، دوبارہ صور پھونکا جائے گا اور ان میں روح واپس آجائے گی، اور جب حساب و کتاب ھوگا تو کوئی اپنے نفس کا انکار نھیں کرپائے گا۔
دوسرا قول: معادِ روحانی
اکثر فلاسفہ کایہ عقیدہ ھے کہ معاد روحانی ھے، کیونکہ انھوں نے اس بات کو ممکن نھیں مانا ھے انسان کا بدن ختم ھونے کے بعد دوبارہ اسی حالت میں پلٹ جائے، چنانچہ کہتے ھیں کہ بے شک بدن اپنی صورت اور اعراض کے ساتھ معدوم (نابود) ھوجاتا ھے اور روح و جسم کا رابطہ ختم ھوجاتا ھے، لہٰذا دوبارہ وھی بدن نھیں لوٹ سکتا، کیونکہ ”المعدوم لایعاد“ (معدوم ھونے والی شئے دوبارہ نھیں لوٹ سکتی)، لیکن روح انسانی غیر قابل فنا جوہر ھے [104] اسی وجہ سے ان لوگوں نے معاد کو صرف روحانی قرار دیا ھے، کیونکہ اس کو فنا نھیں ھوتی۔
لیکن جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ قرآنی آیات اور احادیث نبوی اس سے ھم آہنگ نھیں ھے، کیونکہ قرآن مجید اور سنت نبوی (ص)میں اس بات کی وضاحت ھوئی ھے کہ انسان روز قیامت اپنے اسی بدن کے ساتھ محشور کیا جائے گا، لیکن بعض وہ مسلمان فلاسفہ جو معاد روحانی کے قائل ھیں انھوں نے ثواب و عقاب کو بھی روحانی لذت یاروحانی اور عقلی عذاب مراد لیا ھے، انھوں نے دلائل شرعیہ (قرآن و احادیث) کے ظواہر کی تاویل و توجیہ کی ھے تاکہ ان کے عقلی قاعدہ سے مطابقت کرلے، لہٰذا انھوں نے ان قرآنی آیات کی بہت سی تاویل کرڈالی جو جنت یا دوزخ میں محسوس ثواب و عقاب پر دلالت کرتی ھیں،انھوں نے عذاب و ثواب کو روحانی یا عقلی عذاب و ثواب کے لئے حسّی مثال کے عنوان سے مانا ھے، کیونکہ عوام الناس کا ذہن امور حسی کو درک کرتا ھے عقلی اور فلسفی امور کو سمجھنا مشکل ھوتا ھے، تاکہ عوام الناس محسوس عذاب و ثواب سمجھ کر خداوندعالم کی اطاعت و فرمانبرداری کریں۔
شیخ الرئیس ابن سینا کے سلسلے میں مشھور ھے کہ وہ معاد جسمانی کے منکر تھے اور روحانی معاد کے قائل تھے [105] یہاں تک غزالی نے اپنی کتاب ”تہافت الفلاسفہ“ میں ابن سینااور بعض دوسرے فلسفی علماء کے کفر کا فتویٰ دیا کیونکہ ان لوگوں نے معاد جسمانی کے انکار کیا ھے [106]
لیکن حق اور انصاف یہ ھے کہ ابن سینا نے اپنی معروف کتابوں میں معاد جسمانی کا صاف طور پر انکار نھیں کیا ھے، بلکہ ھم دیکھتے ھیں ان کی کتاب ”الشفاء“ جو کہ ان کی سب بڑی کتاب ھے اس میں جسمانی معاد کو قبول کیا ھے اور اسی قول کو حق جانا ھے، جس میں کسی طرح کا کوئی شک نھیں ھے۔
محقق دوانی ”عقائد العضدیہ“ کی شرح میںتحریر کرتے ھیں: شیخ الرئیس ابو علی نے اپنی کتاب ”معاد“ میں جسمانی معاد کا انکار کیا ھے اور اس میں مبالغہ سے کام لیا ھے اور اپنے زعم میں جسمادنی معاد کی نفی پر دلیل قائم کی ھے، چنانچہ وہ کتاب ”النجاة و الشفاء“ میں تحریر کرتے ھیں : معلوم ھونا چاہئے کہ معاد سے وھی مراد ھے جس کو شریعت میں بیان کیا گیا ھے، اور معاد کے اثبات کے لئے سوائے آیات قرآنی کے کوئی دوسرا راستہ نھیں ھے، لیکن روز قیامت ثواب و عذاب کیسے ھوگا اس کا معلوم ھونا ضروری نھیں ھے ، شریعت اسلام میں ھمارے سید و سردار حضرت محمد مصطفی (ص)نے تفصیل بیان کی ھے جو بدن سے مناسب ھے، اور اسی کو عقل اور قیاس برہانی سے درک کیا جاتا ھے، اور اسی کی تصدیق رسول اکرم نے فرمائی ھے، اور یھی سعادت و شقاوت انسانی نفس کے لئے ثابت ھیں، اگرچہ اس وقت ھماری عقلیں اس کے تصور سے قاصر ھیں ۔ [107]
استاد فتح اللہ خلیفة نے اپنے درس کے دوران ابن سینا کے لئے ثابت کیا ھے کہ وہ معاد جسمانی کے قائل ھیں اور اس میں کسی طرح کا کوئی شک وشبہ نھیں ھے۔ [108]
جس طرح سے بعض لوگوں کا گمان ھے کہ غزالی بھی معاد جسمانی کے منکر ھیں جب کہ حق انصاف یہ ھے کہ وہ جسمانی معاد کے قائل تھے بہر حال شارح مقاصد کہتے ھیں:امام غزالی نے روحانی معاد کی تحقیق اور روح سے متعلق ثواب و عقاب کی قسموں کے بارے میں ایک حد تک مبالغہ سے کام لیا ھے، جس کی وجہ سے بہت سارے اعتراض و اوہام نے جنم لے لیا ھے یہاں تک کہ بعض عوام الناس کی زبانوں سے امام غزالی کی نسبت یہ بیان سنا گیا کہ آپ جسمانی معاد کے منکر تھے، حالانکہ امام غزالی نے اپنی کتاب
”الاحیاء“ اور دیگر کتابوں میں اس بات کی تصریح کردی ھے کہ جسمانی معاد ھے اور اس کا منکر کافر ھے اور بعض کتابوں میں اس بات کی تشریح اس بنا پر نھیں کی ھے کہ وہ جسمانی معاد کو ایک ظاہر و روشن مسئلہ سمجھتے تھے جس کی وضاحت کرنے کی ضرورت نھیں ھے۔ [109]
جسمانی معاد کا انکار
تمام انبیاء و مرسلین علیھم السلام کی قوم نے جب عقیدہٴ معاد کاانکار کیا تو سبھی نے اپنے قوم کو سمجھایا ھے، اور قیامت کے سلسلے میں دلائل قائم کئے ھیں، اور اس سلسلے میں بہت سے مصائب اور ناروا تھمتیں برداشت کی ھیں، ارشاد الٰھی ھوتا ھے:
<وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا ہَلْ نَدُلُّکُمْ عَلَی رَجُلٍ یُنَبِّئُکُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّکُمْ لَفِی خَلْقٍ جَدِیدٍ اٴَفْتَرَی عَلَی اللهِ کَذِبًااٴَمْ بِہِ جِنَّةٌ۔> [110]
”اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کا کہنا ھے کہ ھم تمھیں ایسے آدمی کا پتہ بتائیں جو یہ خبر دیتا ھے کہ جب تم مرنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے ھوجاؤ گے تو تمھیں نئی خلقت کے بھیس میں لایا جائے گا “۔
جبکہ معاد کے سلسلے میں وحی اور عقل کے ذریعہ واضح طور پر دلائل بیان کئے گئے ھیں، یہاں تک کہ خداوندعالم نے معاد کے سلسلہ <لاریب فیہ> کھاھے(یعنی اس میں کوئی شک نھیں ھے) جیسا کہ خداوند عالم نے جناب ابراھیم علیہ السلام کے لئے پرندوں کو زندہ کیا، مقتول بنی اسرائیل کو دوبارہ زندہ کیا، جناب عُزیر اور اصحاب کہف کو زندہ کیا وغیرہ وغیرہ یہ تمام زندہ مثالیں ھیں تاکہ انسان یہ بات ذہن نشین کرلے کہ قدرت خدا اس بات پر قادر ھے کہ وہ انسان کو دوبارہ بھی زندہ کرسکتا ھے، پس معلوم یہ ھوا جو لوگ معاد کا انکار کرتے ھیں ان کی شدت کے ساتھ مذمت کرتی ھے۔
گزشتہ اقوام معاد کو انکار کیا کرتے تھے لیکن ان کے پاس ایسی کوئی دلیل نھیں تھی جو حقیقت اور برہان کے مطابق ھو، بلکہ ان کا انکار معاد کرنا صرف وھم و گمان کی بنا پر ھوتا تھا، جبکہ وھم و گمان ،انسان کو حق تک نھیں پہنچاسکتا، ارشاد الٰھی ھوتا ھے:
< وَقَالُوا مَا ہِیَ إِلاَّ حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَا إِلاَّ الدَّہْرُ وَمَا لَہُمْ بِذَلِکَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ ہُمْ إِلاَّ یَظُنُّونَ> [111]
”اور یہ لوگ کہتے ھیں کہ یہ صرف زندگانی دنیا ھے اسی میں مرتے ھیں اور جیتے ھیں اور زمانہ ھی ھم کو ہلاک کردیتا ھے او رانھیں اس بات کا کوئی علم نھیں ھے کہ یہ صرف ان کے خیالات ھےں اور بس“۔
گزشتہ اقوام صرف وجود معاد کو بعید سمجھتے تھے جس کی کوئی علمی ارزش نھیں ھے، بلکہ یہ توان کی نافھمی پر خود دلیل ھے کہ وہ حق و حقیقت تک پہنچنے کے لئے دلیل اور برہان کو سمجھنے سے قاصر تھے اور خداوندعالم کی موجود نعمتوں اور ملک عظیم کو نھیں سمجھ پاتے تھے۔
گزشتہ اقوام کے نردیک قیامت کے انکار کی اصل وجہ دنیاوی مقاصد اور شھوت پرستی وغیرہ جیسے بُرے مقاصد میں رکاوٹ تھی (کیونکہ قیامت کا عقیدہ دنیاوی مقاصد اور شھوت پرستی میں روکاٹ بنتا تھا)تاکہ ایمان و تقویٰ کے قید سے آزاد رہکر ہر برائی اور شھوت میں غرق رھیں،کیونکہ اگر ایمان قبول کرتے ھیں تو قیامت پر بھی عقیدہ رکھنا لازم تھا لہٰذا ان عقائد کو چھوڑ کر ہر برائی اور ظلم و جور کو اپنے لئے روا جانتے تھے،:
< بَلْ یُرِیدُ الْإِنسَانُ لِیَفْجُرَ اٴَمَامَہُ یَسْاٴَلُ اٴَیَّانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ> [112]
”بلکہ انسان یہ چاہتا ھے کہ اپنے سامنے برائی کرتا چلا جائے۔وہ یہ پوچھتا ھے کہ یہ قیامت کب آنے والی ھے“۔
اسی وجہ سے ھم دیکھتے ھیں کہ وہ ظالم و جابر جنھوں نے دنیا میں ظلم و جور اور برائیاں پھیلائیں وہ لوگ اپنی ھوا و ھوس اور شھوت پرستی میں غرق رھے، لہٰذا انھوں نے روز قیامت کا اقرار نھیں کیا یھی نھیں بلکہ اپنی برتری اور فضیلت کو ثابت کرنے کے لئے قیامت کو بعید از عقل جانا، جیسا کہ جناب ھود علیہ السلام کی قوم کے بارے خداوندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے:
< وَقَالَ الْمَلَاٴُمِنْ قَوْمِہِ الَّذِینَ کَفَرُوا وَکَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْاٴَخِرَةِ وَاٴَتْرَفْنَاہُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا مَا ہَذَا إِلاَّ بَشَرٌ مِثْلُکُمْ یَاٴْکُلُ مِمَّا تَاٴْکُلُونَ مِنْہُ وَیَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ وَلَئِنْ اٴَطَعْتُمْ بَشَرًا مِثْلَکُمْ إِنَّکُمْ إِذًا لَخَاسِرُونَ اٴَیَعِدُکُمْ اٴَنَّکُمْ إِذَا مِتُّمْ وَکُنتُمْ تُرَابًا وَعِظَامًا اٴَنَّکُمْ مُخْرَجُونَ ہَیْہَاتَ ہَیْہَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ إِنْ ہِیَ إِلاَّ حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِینَ إِنْ ہُوَ إِلاَّ رَجُلٌ افْتَرَی عَلَی اللهِ کَذِبًا وَمَا نَحْنُ لَہُ بِمُؤْمِنِینَ > [113]
”ان کی قوم کے ان رؤساء نے جنھوں نے کفر اختیار کیا تھا اور آخرت کی ملاقات کا انکار کردیا تھا اور ھم نے انھیں زندگانی دنیا میں عیش وعشرت کا سامان دےدیا تھا وہ کہنے لگے کہ یہ تو تمہارا ھی جیسا ایک بشر ھے جو تم کھاتے ھو وھی کھاتا ھے اور جو تم پیتے ھو وھی پیتا بھی ھے۔ اور اگر تم نے اپنے ھی جیسے بشر کی اطاعت کرلی تو یقینا خسارہ اٹھانے والو ںمیں سے ھوجاؤ گے۔ کیا یہ تم سے اس بات کا وعدہ کرتا ھے کہ جب تم مرجاؤ گے او رخاک اور ہڈی ھوجاؤگے تو پھر دوبارہ نکالے جاؤ گے حیف صد حیف تم سے کس با ت کا وعدہ کیا جارھاھے۔ یہ تو صرف ایک زندگانی دنیا ھے جہاں ھم مرےں گے او رجئیں گے اور دوبارہ زندہ ھونے والے نھیں ھےں۔ یہ ایک ایسا آدمی ھے جو خدا پر بہتان باندھتا ھے اور ھم اس پر ایمان لانے والے نھیں ھیں“۔
خداوندعالم نے اس بات کی تاکید کی ھے کہ یہ لوگ مستکبرھیں حق کے سامنے اپنا سر تسلیم کرنے والے نھیں ھیں اور نہ ھی دلیل و برہان کو قبول کرتے ھیں:
< فَالَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُہُمْ مُنکِرَةٌ وَہُمْ مُسْتَکْبِرُونَ> [114]
”تو جو لوگ آخرت پر ایمان نھیں رکھتے ان کے دل ھی (اس وضع کے ھیں کہ ہر بات کا) انکار کرتے ھیں اوروہ برے مغرور ھیں “۔
اسی طرح حضرت ختمی مرتبت محمد مصطفی (ص)کے ھم عصر جاہلوں نے آپ کی نبوت کا انکار کیا کیونکہ وہ بھی قیامت کے وجود کو اپنے وھم و گمان کی بنا پر بعید از عقل جانتے تھے، اور وہ کسی بھی دلیل اور برہان کو نھیں مانتے تھے:
< بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْاٴَوَّلُونَ قَالُوا إِِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا اٴَء نَّا لَمَبْعُوثُونَ لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا ہَذَا مِنْ قَبْلُ إِنْ ہَذَا إِلاَّ اٴَسَاطِیرُ الْاٴَوَّلِینَ> [115]
”بلکہ جو اگلے لوگ کہتے آئے ویسی ھی باتیں یہ بھی کہنے لگے ‘کہنے لگے کہ جب ھم مر جائیں گے اور (مر کر)مٹی (کا ڈھیر) اور ہڈیاں ھو جائیں گے تو کیا پھر دوبارہ (قبروں سے زندہ کرکے نکالے جائیں گے اس کا وعدہ تو ھم سے اور ھم سے پہلے ھمارے باپ داداوٴںسے بھی کیا جاچکا ھے یہ تو بس اگلے لوگوں کے ڈھکوسلے ھیں “۔
اسی وجہ سے قرآن مجید کی آیات نازل ھوئیں تاکہ سختی کے ساتھ ان کی تردید کرےںاور تین وجوہات سے ان کے شبہات کا جواب دیں:
پہلی جہت: عقل و وجدان کے مطابق دلائل و براھین قائم کئے، اور قیامت کے ضروری ھونے اور خداوندعالم کے وعدہ کے محقق ھونے کو ثابت کیا، تاکہ انکار کرنے والے کے ذہن سے قیامت کے بعید ھونے والے شبہہ کو دور کردیں،اور ان کے لئے بہترین دلائل بیان کئے، ان براھین میں برہان مماثلہ، برہان قدرت، برہان حکمت اور برہان عدالت ھے جنھیں ھم ”دلائل معاد“ میں مع مثال بیان کرچکے ھیں۔
دوسری جہت: انسانی حقیقت کو بیان کیاکیونکہ جاہلیت کے مشرکین،معاد جسمانی کا انکار کرتے تھے، جیسا کہ قرآن کریم نے ان کے انکار کو نقل کیا ھے:
<یَقُولُونَ اٴَءِ نَّا لَمَرْدُودُونَ فِی الْحَافِرَةِ اٴَ ءِ ذَا کُنَّا عِظَاماً نَخِرَةً قَالُوا تِلْکَ اِٴذاً کَرَّةٌ خَاسِرَةٌ> [116]
”کفار کہتے ھیں کہ کیا ھم الٹے پاوٴں(زندگی کی طرف)پھر لوٹیں گے ‘کیا جب ھم کھوکھلی ہڈیاں ھو جائیں گے ۔کہتے ھیں کہ یہ لوٹنا تو بڑ ا نقصان دہ ھے “۔
< وَقَالُوا اٴَءِ ذَا کُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا اٴَء نَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِیدًا> [117]
”اور یہ لو گ کہتے ھیں کہ جب ھم (مر نے کے بعد سڑ گل کر) ہڈیاں رہ جائیں گے اور ریزہ ریزہ (ھو جائیں گے)تو کیا از سر نو پیدا کر کے اٹھا ئے جائیں گے“۔
< وَقَالُوا اٴَءِ ذَا ضَلَلْنَا فِی الْاٴَرْضِ اٴَءِ نَّا لَفِی خَلْقٍ جَدِیدٍ> [118]
”اور یہ لو گ کہتے ھیں کہ جب ھم زمین میں ناپید ھو جائیں گے تو کیا ھم پھر نیا جنم لیں گے “۔
ان کے جواب میں خداوندعالم نے حقیقت انسان کو بیان کیا اور مثال دی کہ ملک الموت تمہاری روح کو قبض کرلے گا:
< قُلْ یَتَوَفَّاکُمْ مَلَکُ الْمَوْتِ الَّذِی وُکِّلَ بِکُمْ ثُمَّ إِلَی رَبِّکُمْ تُرْجَعُونَ > [119]
”(اے رسول ) کہہ دو کہ ملک الموت جو تمہارے اوپر تعینات ھے وھی تمہاری روحیں قبض کرے گا اس کے بعد تم سب کے سب اپنے پرور دگار کی طرف لوٹا ئے جاوٴگے“۔
یعنی تم لوگ موت کے ذریعہ معدوم (نابود) نھیں ھووٴگے اور نہ ھی زمین میں مٹی بن کر ختم ھوجاؤگے کیونکہ ملک الموت تمہاری روح کو قبض کرے گا جو اس کے قبضہ میں رھے گی اور ناپید نھیں ھوگی، اور پھر تمھیں خدا کی بارگاہ میں محشور کیا جائے گا تاکہ تمہارا حساب و کتاب ھوسکے تو تمہاری روحوں کو تمہارے بدن میں لوٹایا دیا جائے گااور تم ”تم“ بن جاؤگے [120]
تیسری جہت: روز قیامت کے انکار پر منکرین کو شدید عذاب سے ڈرایا گیا ھے، جیسا کہ ارشاد الٰھی ھوتا ھے:
< وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُہُمْ اٴَءِ ذَا کُنَّا تُرَابًا اٴَءِ نَّا لَفِی خَلْقٍ جَدِیدٍ اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا بِرَبِّہِمْ وَاٴُوْلَئِکَ الْاٴَغْلَالُ فِی اٴَعْنَاقِہِمْ وَاٴُوْلَئِکَ اٴَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیہَا خَالِدُونَ> [121]
”اور اگر تمھیں (اس بات پر ) تعجب ھوتا ھے تو ان کفار کا یہ قول تعجب کی بات ھے کہ جب ھم (سڑگل ) کر مٹی ھوجائیں گے تو کیا ھم (پھر دوبارہ) ایک نئے جنم میں آئیں گے ۔یہ وھی لوگ ھیں جنھوں نے اپنے پرو ر دگار کے ساتھ کفر کیا ۔اور یھی لوگ ھیں جن کی گردنوں میں (قیامت کے دن) طوق پڑے ھوں گے اور یھی لوگ جہنمی ھیں کہ یہ اس میں ھمیشہ رھیں گے“۔
نیز ارشاد خداوندی ھوتا ھے:
< وَاٴَنَّ الَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ اٴَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَابًا اٴَلِیمًا> [122]
”اور یہ بھی کہ بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نھیں رکھتے ھیں ان کے لئے ھم نے بہت بڑ ا درد ناک عذاب تیا ر کر رکھا ھے “۔
ایضاً:
<وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبِینَ الَّذِینَ یُکَذِّبُونَ بِیَوْمِ الدِّینَ وَمَا یُکَذِّبُ بِہِ اِٴلاَّکُلُّ مُعْتِدٍ اٴَثِیمٍ> [123]
”اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ھے جو لوگ روز جزا کو جھٹلاتے ھیں، اور اس کا انکار صرف وھی کرتے ھیں جوحد سے گزرجانے والے گناہگار ھیں “۔
جسمانی معاد پر کئے گئے اعتراضات اور ان کے جوابات
جسمانی معاد کے سلسلے میں قدماء او رمتاخرین فلاسفہ نے بہت سے اعتراض کئے ھیں، جن کی بازگشت یا صفات خداوندی کی صحیح پہچان نہ ھونا ھے، خصوصاً ان لوگوں نے لامحدود قدرت خدا اور ہر شیٴ پر محیط اس کے علم کو نھیں سمجھا ھے، یا ان اعتراض کی بازگشت عالم آخرت کے صفات اور اس بدن کے خصائص سے جاہل ھونا ھے جو روز قیامت معبوث کیا جائے گا، چونکہ انھوں نے اس عالم (آخرت) اور اس بدن (جو کہ روز قیامت پلٹایا جائے گا)کو اس مادی عالم(دنیا)اور مادی بدن اور یہاں کے قوانین و نظریات سے مقایسہ کیا ھے، لیکن ان کا مقایسہ کرنا صحیح نھیں ھے، کیونکہ عالم آخرت ،عالم دنیا سے اپنی تمام ابعاد و جوانب اور خصائص کے لحاظ سے مختلف ھے، کیونکہ عالم آخرت میں نظام کائنات بدل جائے گا، اور بساط منظومہ شمسی کو لپیٹ دیا جائے گایہ زمین ایک دوسری زمین میں تبدیل ھوجائے گی، لیکن یہ انسان یھی انسان رھے گا اور ایک ایسی زندگی ملے گی کہ اس کے بعد کبھی فنا نھیں ھوگی۔
جیسا کہ آپ حضرا ت نے ملاحظہ کیا کہ قرآن کریم اور سنت نبوی (ص)دلالت کرتی ھیں کہ انسان کا بدن معدوم اور فنا نھیں ھوتا بلکہ ایک دن محشور کیا جائے گا اور اس کی روح اس کے بدن میں لوٹا دی جائے گی، تو وہ انسان بذات خود یھی انسان ھوگا، تاکہ روز جزاء اپنے اعمال کی جزا یا سزا پاسکے، لہٰذا ان تمام باتوں کے پیش نظر معاد کے سلسلے میں اعتراضات کرنا جہالت کی نشانی ھے، لیکن پھر بھی ھم چند اعتراضات بیان کرکے ان کے جوابات پیش کرتے ھیں:
پہلا اعتراض: آکل و ماکول [124]
یہ ایک قدیمی اعتراض ھے، جس کو افلاطون او ردوسرے قدماء اور متاخرین نے (مسلم و غیر مسلم) مختلف عبارتوں کے ذریعہ بیان کیا ھے، جن میں اھم عبارت یہ ھے کہ اگر انسان کسی دوسرے انسان کی غذا بن جائے[125] اور اس کے تمام اعضاء کھالے تو پھر ان دونوں میں سے ایک ھی کو محشور کیا جائے گا، کیونکہ پہلے انسان کے اجزاء باقی ھی نھیںر ھے جن سے اس کے اعضاء خلق ھوئے تھے،پس روز قیامت محشور ھونے والا بدن دونوں وجود میں سے کس روح کے ساتھ متعلق ھے؟اگر بدنِ محشور صرف آکل کی روح سے متعلق ھو اور وہ آکل کافر ھو اور ماکول مومن تو اس صورت میں آکل جو کافر ھے اس کو عذاب دینے کے ساتھ مومن کو بھی عذاب دینا لازم آتا ھے اور اگر ماکول کا بدن محشور ھوگا جو مومن ھے تو مومن کو ثواب دینے کی صورت میں کافر کو بھی ثواب دینا لازم آتا ھے کیونکہ مومن کا بدن آکل کا جز بن چکا ھے۔
جواب :
اس اعتراض کا جواب چند طریقے سے دیا جاسکتا ھے:
۱۔ خداوندعالم ہر چیز کا عالم ھے، اور اس کا علم ہر ممکن شئے پر محیط ھے، کائنات کے ذرہ ذرہ کو جانتا ھے، انھیں میں آکل و ماکول کے اجزاء بھی ھیں، لہٰذا خداوندعالم اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کے ذریعہ انسان کے تمام اعضاء کو جمع کردے گا، اور اس میں روح ڈال دے گا، چاھے انسان کا بدن کتنا ھی بدل جائے، اس میں نقص پیدا ھوجائے یا بالکل ھی فنا ھوجائے، ارشاد الٰھی ھوتا ھے:
< قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِی اٴَنشَاٴَہَا اٴَوَّلَ مَرَّةٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ > [126]
”(اے رسول)تم کہدو کہ اس کو وھی زندہ کردے گا جس نے ان کو (جب یہ کچھ نہ تھے)تو پہلی مرتبہ زندہ کر دکھایا وہ ہر طرح کی پیدائش سے واقف ھے“۔
نیز خداوندعالم نے معاد کا انکار کرنے والوں کے اسی اعتراض کے جواب میں فرمایا:
< اٴَءِ ذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا ذَلِکَ رَجْعٌ بَعِیدٌ قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاٴَرْضُ مِنْہُمْ وَعِنْدَنَا کِتَابٌ حَفِیظٌ> [127]
”بھلا جب ھم مر جائیں گے اور (سڑ گل کر) مٹی ھو جائیں گے تو پھر یہ دوبارہ زندہ ھونا (عقل سے) بعید (بات) ھے ا ن کے جسموں سے زمین جس چیز کو (کھاکھا کر) کم کرتی ھے وہ ھم کو معلوم ھے اور ھمارے پاس تو تحریری یاد داشت کتاب( لوح) محفوظ (موجود )ھے“۔
نیز ارشاد الٰھی ھوتا ھے:
< قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْاٴُولَی قَالَ عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی فِی کِتَابٍ لاَیَضِلُّ رَبِّی وَلاَیَنسَی> [128]
”فرعون نے پوچھا بھلا اگلے لوگوں کا حال (تو بتاوٴ کہ ) کیا ھواموسیٰ نے کھاان باتوں کا علم میرے پرور دگار کے پاس کتاب (لوح محفوظ )میں (لکھا) ھواھے پرور دگار نہ بہکتا ھے اور نہ بھولتا ھے “۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام حشر کے بارے میں فرماتے ھیں:
”حتی اذا تصرمت الامور ،و تقضت الدھور ،و ازف النشور، اخرجھم من ضرائح القبور،و اوکار الطیور،واوجرة السباع ،ومطارح المھالک ،سراعا الی امرہ ،مھطعین الی معادہ۔۔۔“۔[129]
”یہاں تک کہ جب تمام معاملات ختم ھوجائیں گے، اور تمام زمانے بیت جائیں گے اور قیامت کا وقت قریب آجائے گا تو انھیں قبروں کے گوشوں، پرندوں کے گھونسلوں، درندوں کے بھٹوں اور ہلاکت کی منزلوں سے نکالا جائے گا، اس کے امر کی طرف تیزی سے قدم بڑھاتے ھوئے اور اپنی وعدہ گاہ کی طرف بڑھتے ھوئے ،گروہ درگروہ، خاموش، صف بستہ اور ایستادہ۔
لہٰذا حضرت علی علیہ السلام کا فرمان اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ انسانوں کو روز قیامت محشور کیا جائے گا چاھے ان کو درندوں اور پرندوں ھی نے کھالیا ھو۔
۲۔ حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ایک حدیث میں بیان ھوا ھے کہ آپ نے فرمایا:جب جناب ابراھیم علیہ السلام نے دریا کے کنارے ایک میت دیکھی جس کو دریائی اور خشکی کے درندہ کھارھے تھے ، اور ایک دوسرے پر حملہ کررھے ھیں تاکہ خود کھائیں اس وقت جناب ابراھیم علیہ السلام کو تعجب ھوا اور عرض کی :
< وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیمُ رَبِّ اٴَرِنِی کَیْفَ تُحْیِي الْمَوْتَی ،(اے میرے پرور دگار تو مجھے بھی دکھا دے کہ تو مردہ کو کیونکر زندہ کرتا ھے ؟) تو اس وقت آواز قدرت آئی:
قَالَ اٴَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَی وَلَکِنْ لِیَطْمَئِنَّ قَلْبِی قَالَ فَخُذْ اٴَرْبَعَةً مِنْ الطَّیْرِ َ۔۔> [130]
(خدا نے فرمایا کیا تمھیں (اس کا) یقین نھیں ،ابراھیم نے عرض کی (کیوں نھیں) مگر آنکھ سے دیکھنا اس لئے چاہتاھوں کہ میرے دل کو اطمینان ھوجائے فرمایا (اچھااگر یہ چاہتے ھو) تو چار پرندے لو،تو جناب ابراھیم علیہ السلام نے مور، مرغ، کبوتر او رکوّے کو پکڑا ، آواز قدرت آتی:
فَصُرْہُنَّ إِلَیْک،یعنی ان کو ذبح کرلو اور ان کے گوشت کو آپس میں مخلوط کرلو اور ان کو دس پہاڑوں پر رکھدو، لیکن ان کی چونچوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لو، اور پھر ان کو بلاؤ تو وہ بہت تیز دوڑتے ھوئے تمہارے پاس آئےں گے، چنانچہ جناب ابراھیم علیہ السلام نے ایسا ھی کیا کہ ان پرندوں کے گوشت کو دس پہاڑوں پر رکھ دیا اور ان کوآواز دی، چنانچہ سب کا گوشت اور ہڈی وغیرہ جدا جدا ھوکر جناب ابراھیم علیہ السلام کے پاس آگئے، اس وقت جناب ابراھیم علیہ السلام نے کہا:
<<إِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ > [131]
خدا بیشک غالب و حکمت والا ھے“۔
کھاجاتا ھے کہ یہ حدیث اس بات کے اوپر اشارہ ھے کہ خداوندعالم ماکول کے اجزاء کو آکل (کھانے والے) کے بدن میں محفوظ رکھتا ھے، اور انھیں کو روز حشرماکول کے بدن میں پلٹا دے گا، جیسا کہ چارپرندوں کے مخلوط اور ایک دوسرے میں ملے ھوئے گوشت کو ان کو جسموں تک پہنچادیا۔[132]
۳۔ اس اعتراض کا جواب متکلمین اور فلاسفہ نے بھی دیا ھے، جس کا خلاصہ یوں ھے کہ روز قیامت انسان کو اصلی اعضاء میںزندہ کیا جائے گا، جن کے ذریعہ اس کی شروع میں خلقت کی گئی ھے، اور یہ اعضاء اول عمر سے آخر عمر تک باقی رہتے ھیں، مطلق طور پر تمام اعضاء کے ذریعہ روز قیامت انسان کو زندہ نھیں کیا جائے گا، اور ماکول کے وہ اعضاء کھانے والے کے بعد باہر نکل آتے ھیں، لہٰذا کھانے والے کا اعادہ لازم نھیںرہتا بلکہ خود ماکول کا اعادہ کیا جائے گا، [133] کیونکہ خداوندعالم نے ان اعضاء کو محفوظ کرلیا ھے لہٰذا ان کو کسی دوسرے کے بدن کا حصہ قرار نھیں دیتا۔
اسی جواب سے محقق طوسی رحمة اللہ علیہ نے اتفاق کرتے ھوئے کتاب ”شرح تجرید“ میں فرمایا:”ولا یجب إعادة فواضل المکلف“۔علامہ حلّی رحمة اللہ علیہ اس کی شرح کرتے ھوئے فرماتے ھیں:مکلف کے سلسلے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ھے، چنانچہ بعض کہتے ھیںکہ مکلف نفس مجرد ھے (یعنی انسان کی روح پر تکلیف و فرائض واجب کئے گئے ھیں) اور محققین کی ایک جماعت کہتی ھے کہ مکلف انسان کے وہ اصلی اعضاء ھیں جن میں کوئی کمی و زیادتی نھیں ھوتی، اورکمی و زیادتی ان اعضاء میں ھوتی ھے جو اصلی اعضاء سے ملحق ھوتے ھیں، لہٰذا روز قیامت میں انھیں اصلی اعضاء کو لوٹانا ضروری ھے یا روح کو ان اصلی اعضاء کے ساتھ، لیکن ان اصلی اعضاء کے ساتھ ملے ھوئے اجزاء کو بعینہ لوٹانا ضروری نھیں ھے۔ [134]
دوسرا اعتراض: اعادہ معدوم
کہتے ھیں: اعادہ معدوم محال ھے [135] کیونکہ اس کا ملازمہ یہ ھے کہ ایک وجود میں عدم حلول کرجائے، یعنی جوخود ایک چیز میں موجود ھے اس میں عدم آجائے، اگر ایسا ھو تو ایک چیز دو چیز بن جائے گی، دوسرے الفاظ میں یہ کھاجائے کہ موت انسان کی فنا ھے، اگر دوبارہ اس کو زندہ کیا جائے تو یہ پہلے والے انسان کے علاوہ دوسرا انسان ھوگا، اور یہ عدم کے بعد دوسری خلقت ھے، اسی کو لوٹا یا نھیں گیاھے، اور مبداء و معاد کے درمیان کوئی رابطہ نھیں ھے
جواب:
۱۔ قارئین کرام! فلاسفہ کے لحاظ سے معاد کے معنی یا فنا کے بعد وجود کا نام ھے یا اجزاء منتشر ھونے کے بعد ان کو جمع کرنے کے معنی میں ھے، اور فناء کے بعد کسی چیز کے موجود ھونے کو فلاسفہ محال مانتے ھیں، لیکن ”لافوزی“ (ت ۱۷۹۴ء) نے مادہ کے سلسلے میںجو قانون مادہ معین کیا ھے وہ فلاسفہ کے گزشتہ نظریہ کو باطل کرتا ھے، کیونکہ وہ اس بات کی صراحت کرتا ھے کہ مادہ فنا نھیں ھوتا ھے صرف اس کی صورت میں تبدیلی و تغیر پیدا ھوتا ھے جو اس پر عارض ھوتی ھے،جیسا کہ فلاسفہ کے نزدیک وجود پر عدم طاری نھیں ھوتا اسی طرح مادہ پر عدم طاری نھیں ھوتا، لیکن بعض فلاسفہ اور متکلمین نے اعادہ معدوم کو جائز مانا ھے، چنانچہ بعض فلاسفہ کہتے ھیں: معدوم کا دوبارہ وجود میں آنا محال نھیں ھے، نہ ذات کے لحاظ سے اور نہ اس کے لوازم کے لحاظ سے، ورنہ اگر معدوم کا دوبارہ موجود ھونا محال ھوتا تو اول ھی سے موجود نہ ھوتا، شروع میں کسی چیز کو بنانا مشکل ھوتا ھے لیکن اس کو دوبارہ بنانا پہلے کی نسبت آسان ھوتا ھے، جیسا کہ معتزلی علماء نے ”احوال و ذوات اشیاء“ کا اثبات کیا ھے، چنانچہ کہتے ھیں کہ معدوم بھی ایک چیز ھوتی ھے، جب وہ موجودمعدوم ھوجاتا ھے، تو اس کی مخصوص ذات باقی رہتی ھے، لہٰذا اس کو دوبارہ لوٹانا ممکن ھے، کیونکہ اس کی ذات باقی ھے یہاں تک کہ عدم کی حالت میں بھی، لیکن کبھی اس پر وجود طاری ھوتا ھے اور کبھی عدم۔
اب رھی بات معاد کے دوسرے معنی کی کہ متفرق اعضاء کو دوبارہ ملانے کا نام معاد ھے، بعض مسلم فلاسفہ نے معاد جسمانی کا اقرار کرتے ھوئے کہا: معاد جسمانی اعادہ معدوم نھیں ھے بلکہ متفرق اعضاء کو جمع کرنے کا نام معاد ھے، جسموں کا نابود ھونا معدوم ھونا نھیں ھے بلکہ اعضاء متفرق اور دوسری چیزوں سے مل جاتے ھیں، لہٰذا ان اجزاء کو ایک جگہ جمع کرنا ممکن ھے، کیونکہ خداوندعالم ان اجزاء کو جانتا ھے اور ان کے جمع کرنے پر بھی قادر ھے، کیونکہ اس کا علم ہر ذرہ ذرہ پر محیط ھوتا ھے اور اس کی قدرت تمام ممکنات پر ھے۔ [136]
۲۔جیسا کہ ھم گزشتہ اعتراض کے جواب میں عرض کر چکے ھیں کہ بعض فلاسفہ اور متکلمین نے اس بات کی وضاحت کی ھے کہ انسان کے اصلی اعضاء میں نہ کوئی کمی ھوتی ھے اور نہ کوئی زیادتی، اور نہ ھی وہ فنا ھوتے ھیں، اسی مطلب پر حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی حدیث بھی دلالت کرتی ھے، جیسا کہ کتاب ”کافی“ میں عمار بن موسی نے امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ھے کہ امام علیہ السلام سے ایک ایسی میت کے بارے میں سوال کیا گیا جس کا بدن بوسیدہ ھوگیا تھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا:
”نعم حتی لا یبقی لحم ولا عظم الا طینتہ التی خلق منھا ،فانھا لا تبلی ،تبقی فی القبر مستدیرہ حتی یخلق منھا کما خلق اول مرة“۔ [137]
”ہاں انسان کا گوشت اور ہڈی باقی نھیں رہتے، لیکن اس کی طینت باقی رہتی ھے اور وہ بوسیدہ نھیں ھوتی، وہ قبر میں بھی باقی رہتی ھے، یہاں تک کہ اسی طینت کے ذریعہ انسان دوبارہ خلق کیا جائے گا جس طرح سے پہلی مرتبہ خلق کیا گیا ھے۔“
۳۔اگر ھم اعادہ معدوم کے محال ھونے کو قبول بھی کرلیں ، لیکن خداوندعالم نے انسان کو اس حال میں خلق کیا کہ ”لم یکن شیئاً مذکورا“ (یعنی انسان قابل ذکر بھی نھیں تھا) وھی خدا اس کو دوبارہ بھی لوٹا سکتا ھے اگرچہ وہ قابل ذکر بھی نہ ھو، چنانچہ ھم نے اس ”برہان قدرت“ کو دلائل قیامت میں بیان کیا ھے۔
۴۔ انسان کی شخصیت صرف روح ھوتی ھے اور وہ خدا کے نزدیک باقی رہتی ھے اور معدوم نھیں ھوتی،اور دوسرا وجود بدن کی خلقت اور روح سے رابطہ ھے، پس اس صورت میں یہ وھی انسان ھوگا نہ کہ اس کے مثل یا اس کے علاوہ، کیونکہ ان دونوں کے درمیان ماھیت (اور حقیقت )مشترک ھے۔
تیسرا اعتراض: تعدد ابدان
کہتے ھیں: دنیا میں انسان کے خُلیے تبدیل ھوتے رہتے ھیں، آج کی سائنس کہتی ھے کہ دس سال میں انسان کی تمام مادی ترکیب بدل جاتی ھیں، مثلاً اگر انسان ساٹھ سال کی عمر میں مرتا ھے تو اس کے بدن کی چھ مختلف ترکیبیں تھیں، تو اگر انسان کو انھیں چھ ترکیبوں کے ساتھ محشور کیا جائے گا تو پھر ایک انسان کے چھ بدن محشور کرنے لازم آئےں گے، او راگر ان میں سے ایک بدن محشور کیا جائے گا تو یہ عدل الٰھی کے خلاف ھے، کیونکہ یھی ایک بدن ان تمام اعمال کے لحاظ سے ثواب یا عذاب دیکھے گا جواس نے تمام عمر میں (مختلف بدن کے ساتھ) انجام دئے ھیں۔
جواب:
دنیا میں انسان کی زندگی خود ھی اس اعتراض کا جواب دیتی ھے کہ اگرچہ سائنس نے ثابت کیا ھے کہ انسان کا بدن دس سال میں بدل جاتا ھے، لیکن پھر بھی اس کی اپنی ایک شخصیت باقی رہتی ھے مثلاً اگر کسی شخص نے جوانی کے عالم میں کسی شخص کو قتل کرڈالا ھو، (اور وہ فرار ھوگیا ھو) تو اس کوبوڑھاپے میں بھی سزا دیتے ھیں ، کیونکہ قتل اسی نے کیا تھا، اور کوئی اس کو خلاف عدل و انصاف نھیں کہتا، یا کوئی یہ نھیں کہتا کہ وہ قاتل یہ نھیں ھے، لہٰذا اسی طرح قیامت کا حساب و کتاب اور جزا یا سزا ھے، جبکہ انسان کی روح اس کے جسم میں دوبارہ ڈال دی جائے گی تو بدن ، وھی بدن ھے ، چاھے وہ جوان محشور کیا جائے یا بوڑھا۔
فیلسوف بزرگوار ملاصدراۺ کہتے ھیں: حق و انصاف یہ ھے کہ روز قیامت بعینہ انسان کا وھی بدن محشور کیا جائے گا جن اجزاء کے ساتھ اس کو موت آئی ھے، نہ کہ اس کے مثل، چنانچہ اگر کوئی اس کو دیکھے گا تو کھے گا کہ یہ شخص بعینہ وھی شخص ھے جو دنیا میں تھا، پس اگر کوئی شخص جسمانی معاد کا انکار کرے تو گویا اس نے شریعت کا انکار کیا، اور جو شریعت کا انکار کرے وہ عقلی اور شرعی طور پر کافر ھے۔ [138]
خلاصہ یہ ھوا کہ ہر انسان پر یہ عقیدہ رکھنا واجب ھے کہ خداوندعالم انسان کوروز قیامت حساب و کتاب کے لئے محشور کرے گا، لیکن خصوصیات اورکیفیت کیا ھوگی، حساب و کتاب کیسے ھوگا، جنت و دوزخ کیسی ھوںگی؟ تو علماء کہتے ھیں ان چیزوں کا تفصیلی طور پر علم حاصل کرنا واجب نھیں ھے، بلکہ اجمالی اور مختصر طور پر عقیدہ رکھنا واجب ھے (کہ انسان کو روز قیامت حساب و کتاب کے لئے دوبارہ زندہ کیا جائے گا)، ھم نے اس کتاب میں مختلف اقوال و مختلف دلائل ذکر کردئے ھیں تاکہ قارئین کرام اس سلسلہ میں غور وفکر کریں چنانچہ جو کچھ ھم نے ذکر کیا ھے وہ صرف بحث و تحقیق کے لئے ھے،(اورقیامت کے سلسلے میں کوئی کسی طرح کا شک و شبہ ھو تو وہ دور ھوجائے اور اعتراض کرنے والوں کا جواب بھی دیا جاسکے۔)
----------------------------------------
[1] عرض اس چیز کو کہتے ھیں جو اپنے وجود کے لئے کسی دوسرے موضع (جگہ)کا محتاج ھوتا ھے (جیسے سیاھی کہ کسی کپڑے یا دیوار وغیرہ پر ھی پر وجود میں آتی ھے)اور جوہر اس چیز کو کہتے ھیں کہ جوبذات خود موجود ھوتا ھو جیسے قلم و دوات وغیرہ، رجوع فرمائیں: تجرید اعتقاد /نصیر الدین الطوسی :۱۴۳۔مکتب الاعلام الاسلامی ،دستور العلماء ۳القاضی الاحمد نگری۱: ۱۹۸ و۳۱۸۔ موٴسسہ الاعلامی ۔بیروت، المقابسات / ابو حیان :۲۵۹۔دار الادب ۔بیروت۔
[2] رجوع کریں :الروح / ابن القیم :۲۱۹و ۱۵۸و ۱۵۹۔دارالقلم ۔بیروت ،تفسیر رازی ۲۱:۴۰۔۵۳، روح المعانی / الالوسی ۱۵:۱۵۵۔داراحیاء التراث العربی ۔بیروت بحار الانوار ۶۱:۱۔۱۵۰،دائرة المعارف القرن العشرین /محمد فرید وجدی ، ج۴:۳۴۰۔۳۴۶۔دارالفکر۔بیروت۔
[3] لسان العرب / ابن منظور ۔روح ۔۲:۴۶۳۔۴۶۴۔
[4] سورہٴ اسراء آیت۸۵۔
[5] تفسیر رازی ۲۱:۳۸ ،روح المعانی / الالوسی ۱۵:۱۵۲،مجمع البیان / الطبرسی ۶:۶۷۵۔دارالمعرفة ۔ بیروت ،میزان / طباطبائی ۱۳/ ۱۹۹۔
[6] راجع :مجمع البیان / الطبرسی ۶:۶۷۴،روح المعانی / الالوسی ۱۵:۱۵۲۔
[7] تفسیر العیاشی ۲:۳۱۷/۱۶۳۔المکتبہ العلمیہ الاسلامیہ ۔تہران۔
[8] سورہٴ یس آیت۸۲۔۸۳۔
[9] سورہٴ قمر آیت۵۰۔
[10] المیزان /علامہ طباطبائی ،ج۱ص۳۵۱وج ۱۲ص۲۰۶وج۱۳ص۱۹۸۔
[11] الکشاف / الزمخشری ۲:۶۹۰۔نشر ادب الحوزہ ،مجمع البیان ی/ الطبرسی ج۶ص۶۷۵۔
[12] تفسیر رازی۲۱:۳۸، مجمع البیان / الطبرسی ۶:۶۷۵۔
[13] سورہٴ حجر آیت۲۹۔
[14] سورہٴ انبیاء آیت۹۱۔
[15] سورہٴ نساء آیت۱۷۱ ۔
[16] تصحیح الاعتقاد /شیخ مفید ص۳۲۔نشر موٴتمر شیخ مفید ۔قم مفردات الراغب ۔روح۔:۲۰۵،روح المعانی / الآلوسی ۱۵:۱۵۶والایہ من سورہ ٴ حج ۲۶۔
(۲)کامل آیت اس طرح ھے:<وَإِذْ بَوَّاٴْنَا لِإِبْرَاہِیمَ مَکَانَ الْبَیْتِ اٴَنْ لاَتُشْرِکْ بِی شَیْئًا وَطَہِّرْ بَیْتِی لِلطَّائِفِینَ وَالْقَائِمِینَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ > (سورہٴ حج آیت۲۶۔)
”جب ھم نے (ابر کے ذریعہ سے) ابراھیم کے واسطے خانہ کعبہ کی جگہ ظاہر کر دی (اور ان سے کھاکہ ) میرا کسی چیز کو شریک نہ بنانا اور میرے گھر کو طواف اور قیام اور رکوع اور سجود کرنے والوں کے واسطے صاف ستھرا رکھنا“۔
[17] سورہٴ مریم آیت۱۷۔
[18] تفسیر القمی ۲:۴۸۔دارالکتاب قم۔
[19] سورہٴ شعراء آیت۱۹۳۔۱۹۴۔
[20] سورہٴ نحل آیت۱۰۲۔
[21] تفسیر قمی ج ۱ص ۳۹۰۔
[22] تفسیر میزان / طباطبائی ج۱۴ص۳۶۔
[23] سورہٴ نباء آیت۳۸۔
[24] سورہٴ قدر آیت۴۔
[25] بصائر الدرجات / الصفار :۴۸۴/۴موٴسسہ الاعلمی تہران۔
[26] تفسیر القمی ۲:۴۰۲۔
[27] سورہٴ شوریٰ ۵۲۔”اور اسی طرح ھم نے اپنے حکم کی روح (قرآن میں)تمہاری وحی کے ذریعہ بھیجی“۔
[28] اصول کافی، شیخ کلینی، ج ۱:۲۱۴/۱۔
[29] سورہٴ مجادلہ آیت ۲۲۔
[30] اصول کافی،شیخ کلینی ۲:۱۲حدیث۱،و۱۳/۵۔
[31] اصول کافی، شیخ کلینی، ج ۲:۲۱۳/۱۱۔
[32] قرب الاسناد / الحمیری :۱۷ ۔مکتبہ نینوا، تہران۔
[33] سورہٴ انعام آیت۱۲۲۔ تفسیر میزان / طباطبائی ۱۹:۱۹۷۔
[34] سورہٴ نحل آیت ۲۔
[35] سورہٴ غافر آیت۱۵۔
[36] تفسیر القمی ۱:۳۸۲۔
[37] تفسیر رازی ۲۱:۳۸، روح کی اصطلاحات کے سلسلے میںرجوع کریں،انباء بما فی کلمات القرآن من اضواء / الکرباسی ۳:۱۱۳۔مطبعہ الاداب ۔النجف ،مفردات الراغب ۔روح:۲۰۵،المصباح المنیر/ الفیومی ۔روح ۔۱:۲۹۵،لسان العرب ۔روح ۔۲:۴۵۵۔نفس ۔۶:۲۳۳۔
[38] الاربعین /شیخ بہائی :۴۹۹۔جامعہ مدرسین ۔قم۔
[39] تفسیر میزان / طباطبائی ۱:۳۶۴،المعاد / المطہری :۲۲۴۔موٴ سسہ ام القری۔
[40] تفسیر میزان / طباطبائی ۱:۳۵۰۔
[41] بحار الانوار ۶۱:۷۳۔۷۷عن شرح المواقف والصحائف الالھیہ ۔
[42] رجوع فرمائیں: دائرة معارف القرن العشرین / وجدی ۴:۳۳۰،الادلة الجلیة فی شرح الفصول النصیریہ / عبد اللہ نعمة :۸ ۷ ۱۔
[43] الادلة الجلیة فی شرح الفصول النصیریہ / عبد اللہ نعمة :۱۸۴۔۱۸۵۔
[44] تفسیر رازی ۲۱:۵۲۔۵۳،تفسیر میزان /طباطبائی ۱:۳۶۵۔۳۷۰،دائرہ معارف القرن العشرین / وجدی ۴:۳۳۲،التفسیر الامثل ۹:۱۰۵۔۱۰۷ ۔موٴسسہ البعثہ ،بیروت ۔
[45] معاد / شھید مطہری :۱۷۸۔۱۶۹۔موٴ سسہ ام القری ،روح المعانی / آلوسی ۱۵:۱۵۷،دائرہ معارف القرن العشرین / وجدی ۴:۳۲۴۔۳۲۶۔
[46] دائرہ معارف القرن العشرین / وجدی ۴:۳۲۷۔
[47] سورہٴ مومنون آیت۱۴۔
[48] اعتقادات،شیخ صدوقۺۺ۵۰۔
[49] اعتقادات،شیخ صدوقۺۺ:۴۷۔
[50] کشف المراد فی شرح تجرید اعتقاد / علامہ حلّیۺ،ص۱۹۵۔
[51] المسائل السرویہ /شیخ مفید :۵۹۔موٴ تمر شیخ مفید ۔قم،الاربعین ۳ البہائی :۴۹۹۔۵۰۰،بحار الانوار / علامہ مجلسیۺ۶۱:۱۳و۷۵۔۷۶،تفسیر رازی ۲۱:۴۵،روح البیان / الالوسی ۱۵:۱۵۶،دائرہ معرف القرن العشرین / وجدی ۴:۳۳۸۔
[52] حق الیقین / عبداللہ شبر ۲:۴۸۔
[53] معاد /علامہ مطہری :۱۶۹۔۱۷۰،فلسفتنا/ شھید صدرۺ:۳۳۵۔دار التعارف ،بیروت ۔
[54] سورہٴ بقرة آیت۱۵۴۔
[55] سورہٴ آل عمران آیت۱۶۹۔
[56] سورہٴ فجر آیت۲۶۔۳۰۔
[57] المیزان ، علامہ طباطبائی ۱:۳۵۰،تفسیر رازی ۲۱:۴۰۔۴۱۔
[58] سورہٴ غافر آیت۴۵۔۴۶۔
[59] سورہٴ نوح آیت۲۵۔
[60] تفسیر رازی۲۱:۴۲۔
[61] سورہٴ مومنون آیت۱۲۔۱۴۔
[62] سورہ مومنون آیت ۱۴۔
[63] تفسیر رازی ، ج۲۱ص ۵۱، تفسیر المیزان، علامہ طباطبائی ج ۱ص ۳۵۲۔
[64] سورہٴ سجدة آیت۷۔۹۔
[65] سورہٴ حجر آیت۲۹،سورہٴ ص آیت۷۲۔
[66] تفسیر رازی ۲۱:۵۱۔
[67] سورہٴ زمر آیت۴۲۔
[68] مجمع البیان /علامہ طبرسیۺ،ج ۸ص۷۸۱۔
[69] کاشف ، علامہ مغنیہ ۶:۴۱۹۔دار العلم للملایین ۔بیروت ۔
[70] المیزان ، علامہ طباطبائی ۱:۳۵۱۔
[71] سورہٴ اسراء آیت۸۵۔
[72] سورہٴ یس آیت۸۲۔
[73] سورہٴ یٰس آیت۸۲۔
[74] تفسیر میزان / طباطبائی ۱:۳۵۱۔۳۵۲۔
[75] تصحیح اعتقاد ، شیخ مفیدۺ :۹۱۔۹۲۔موٴتمر شیخ مفید۔
[76] تصحیح اعتقاد ، شیخ مفید :۹۱تا۹۲۔
[77] تصحیح اعتقاد ، شیخ مفید :۹۲۔
[78] السیرة النبویہ /ابن ہشام ۲:۲۹۲۔مصطفی البابی الحلبی ۔مصر ۔
[79] تفسیر رازی ۲۱:۴۱۔
[80] تصحیح اعتقاد، شیخ مفید :۹۳۔
[81] کافی / کلینی ۳:۲۴۳/۱۔
[82] کافی / کلینی ۳:۲۴۵/۴۔
[83] کافی / کلینی ۳:۲۴۵/۱۔
[84] نہج البلاغہ / تحقیق صبحی الصالح :۵۰۵/ الحکمہ (۲۰۵)
[85] دائرة المعارف القرن العشرین /وجدی،ج ۴،ص۳۷۷۔۳۷۸۔
[86] اس کی ” المجھول والمسائل الروحیہ “ نامی کتاب بھی ھے جس میں درج ذیل چند نظریات بھی بیان کئے گئے ھیں:
۱۔ روح ،جسم سے ایک مستقل موجود ھے۔
۲۔ روح کے سلسلہ میں اب تک بہت سی چیز نامعلوم ھیں۔
۳۔ روح بدن کے بغیر ھی موثر کرسکتی ھے یا موثر ھوسکتی ھے ۔
[87] رجوع کریں : اصول العقائد فی الاسلام ، تالیف لاری ۴:۸۹و۹۲۔۹۴۔الدار الاسلامیہ ۔بیروت ۔ الحیاة بعد الموت /رضا المطوّف السماوی: ۲۹۷۔۳۱۵۔ دارالزہراء۔ بیروت ، دائرہ معارف القرن العشرین / وجدی ۴:۳۶۵۔۲۴۰۰ ۱۰:۴۰۰۔۴۰۹۔
[88] سورہٴ نور آیت۲۴۔
[89] سورہٴ ابراھیم آیت۴۸۔۵۱۔
[90] سورہٴ قیامة آیت۳۔۴۔
[91] سورہٴ یس آیت۷۸۔۷۹۔
[92] سورہٴ یٰس آیت ۵۱۔۵۴۔
[93] سورہٴ طہ آیت ۵۵۔
[94] سورہٴ یٰس آیت۶۵۔
[95] سورہٴ فصلت آیت ۲۰۔
[96] درج ذیل آیات کی طرف اشارہ ھے < فَقُلْنَا اضْرِبُوہُ بِبَعْضِہَا کَذَلِکَ یُحْیيِ اللهُ الْمَوْتَی وَیُرِیکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ> (سورہٴ بقرة ۷۳)
< اٴَوْ کَالَّذِی مَرَّ عَلَی قَرْیَةٍ وَہِیَ خَاوِیَةٌ عَلَی عُرُوشِہَا قَالَ اٴَنَّی یُحْیِی ہَذِہِ اللهُ بَعْدَ مَوْتِہَا فَاٴَمَاتَہُ اللهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہُ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اٴَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ وَانظُرْ إِلَی حِمَارِکَ وَلِنَجْعَلَکَ آیَةً لِلنَّاسِ وَانظُرْ إِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنشِزُہَا ثُمَّ نَکْسُوہَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُ قَالَ اٴَعْلَمُ اٴَنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیمُ رَبِّ اٴَرِنِی کَیْفَ تُحْیيِ الْمَوْتَی قَالَ اٴَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَی وَلَکِنْ لِیَطْمَئِنَّ قَلْبِی قَالَ فَخُذْ اٴَرْبَعَةً مِنْ الطَّیْرِ فَصُرْہُنَّ إِلَیْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَی کُلِّ جَبَلٍ مِنْہُنَّ جُزْء اً ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاٴْتِینَکَ سَعْیًا وَاعْلَمْ اٴَنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیم> (سورہٴ بقرہ ۲۵۹۔۲۶۰)
< سَیَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَابِعُہُمْ کَلْبُہُمْ وَیَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُہُمْ کَلْبُہُمْ رَجْمًا بِالْغَیْبِ وَیَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُہُمْ کَلْبُہُمْ قُلْ رَبِّی اٴَعْلَمُ بِعِدَّتِہِمْ مَا یَعْلَمُہُمْ إِلاَّ قَلِیلٌ فَلاَتُمَارِ فِیہِمْ إِلاَّ مِرَاءً ظَاہِرًا وَلاَتَسْتَفْتِ فِیہِمْ مِنْہُمْ اٴَحَدًا وَلاَتَقُولَنَّ لِشَیْءٍ إِنِّی فَاعِلٌ ذَلِکَ غَدًا إِلاَّ اٴَنْ یَشَاءَ اللهُ وَاذْکُرْ رَبَّکَ إِذَا نَسِیتَ وَقُلْ عَسَی اٴَنْ یَہْدِیَنِی رَبِّی لِاٴَقْرَبَ مِنْ ہَذَا رَشَدًا وَلَبِثُوا فِی کَہْفِہِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِینَ وَازْدَادُوا تِسْعًا> (سورہٴ کہف۲۲۔۲۵۔)
[97] سورہٴ واقعہ آیت۱۵۔۲۳۔
[98] سورہٴ نساء آیت۶۵۔
[99] نہج البلاغہ/صبحی الصالح:۱۰۸۔خطبہ نمبر (۸۳)۔ترجمہ ص ۱۳۵، علامہ جوادیۺ۔
[100] امالی صدوق :۲۴۳/۲۵۸موٴ سسہ البعثة ۔قم ،حق الیقین / عبداللہ شبر ۲:۵۴،بحار الانوار / علامہ مجلسیۺ۷:۳۳/۱عن الامالی و ۷:۳۹/۸ عن اتفسیر علی بن ابراھیم ۔
[101] الا سفار / صدر المتالھین ۹:۱۶۵،المبدا و المعاد / صدر المتالھین :۳۷۵۔
[102] حق الیقن/عبد اللہ شبر ۲:۳۸۔۳۹۔
[103] الاحتجاج ۳ الطبرسی :۳۵۰۔
[104] الاسفار / صدر المتالھین ۹:۱۶۵،شرح الموقف ۳ الجرجانی ۸:۲۹۸۔۳۰۰۔
[105] الاضحویہ فی المعاد ی/ ابن سینا :۱۲۶۔ الموٴ سسہ الجامعہ ۔بیروت۔
[106] تھافت الفلاسفہ / الغزالی :۲۳۵۔۲۵۳۔بیروت ۔۱۹۳۷۔
[107] الشفا ء ۔الالھیات / ابن سینا :۴۲۳۔القاہرہ بحار الانوار / علامہ مجلسیۺ،ج۷ص۵۰۔
[108] ابن سینا و مذھبہ فی النفس / فتح اللہ خلیفة :۱۱۷،بیروت ،۱۹۷۴۔
[109] بحار الانوار / علامہ مجلسیۺ۷: ۵۲۔
[110] سورہٴ سباء آیت ۷۔۸۔
[111] سورہٴ جاثیة آیت۲۴۔
[112] سورہٴ قیامة آیت۵۔۶۔
[113] سورہٴ مومنون آیت۳۳۔۳۸۔
[114] سورہ نحل آیت۲۲۔
[115] سورہٴ مومنون آیت۸۱۔۸۳۔
[116] سورہٴ نازعات آیت۱۰۔۱۲۔
[117] سورہٴ اسراء آیت۴۹ و۹۸۔
[118] سورہٴ سجدة آیت ۱۰۔
[119] سورہٴ سجدة آیت۱۱۔
[120] تفسیر المیزان / علامہ طباطبائی ،ج۱۱ص۲۹۹۔
[121] سورہٴ رعد آیت۵۔
[122] سورہٴ اسراء آیت ۱۰۔
[123] سورہٴ مطففین آیت ۱۰۔۱۲۔
[124] یعنی کھانے والا اور کھائی جانے والی چیز۔
[125] مثلاً انسان مرنے کے بعد مٹی بن جائے، اور مٹی ،پھلوں یا سبزیوں میں تبدیل ھوجائے اور ان سبزیوں اور پھلوں کو انسان کھالے۔
[126] سورہٴ یس آیت۷۹۔
[127] سورہٴ ق آیت۳۔۴۔
[128] سورہٴ طہ آیت ۵۱۔۵۲۔
[129] نہج البلاغہ / صبحی الصالح :۱۰۸خطبہ نمبر (۸۳)۔ترجمہ،علامہ جوادی ۺ ص ۱۳۵ ۔
[130] سورہٴ بقرہ آیت۲۶۰۔
[131] تفسیر قمی،ج۱،ص۹۱۔
[132] بحار الانوار / علامہ مجلسیۺ،ج۷،ص۳۷۔
[133] شرح المواقف ۳ الجرجانی ۸:۲۹۶۔مطبعہ السعادہ ۔مصر ،المبداء والمعاد / صدر الدین الشیرازی ۳۷۶۔
[134] کشف المراد /علامہ حلیۺ :۴۳۱۔۴۳۲۔
[135] معدوم (یعنی نابود) ھونے والی چیز کا دوبارہ پہلی والی چیز بننا محال اور ناممکن ھے۔
[136] شرح ا لمواقف / الجر جانی ،ج۸،ص۲۸۹۔۲۹۴۔مطبعہ السعادہ ۔مصر ۔ الادلہ الجلیہ فی شرح الفصول النصیریہ / عبد اللہ نعمة :۲۱۲۔۲۱۳۔
[137] اصول کافی / شیخ کلینی ،ج۳،ص۲۵۱/۷،بحار الانوار،ج ۷،ص۴۳، حدیث ۲۱۔
[138] المبداء والمعاد /ملا صدرا:۳۷۶۔
source : http://www.alhassanain.com