مسلمانوں کي علمي مرکزيت صديوں سے بحث و گفتگو کا موضوع بني ہو ئي ہےاور يہ سوال ہميشہ پيش آتارہا ہے کہ مسلمانوں کے لئے وہ کونسي ہستياں ہيں جو علمي لحاظ سے مرکزيت اور مرجعيت رکھتي ہيں۔
مسلمان جس قدر صدر اسلام کے زمانے سے دور ہوتے جارہے ہيں اس بحث کي اہميت ميں بھي اضافہ ہوتاجارہا ہے اسي طرح ان کے مابين اتحاد کي ضرورت بھي روز بروز زيادہ محسوس ہوتي جارہي ہے ۔قرآن کريم اور سيرت رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اسلامي اتحاد کے اساسي اور حقيقي محور ہيں۔
لھذا ايسے علمي مرجع ومرکز کا تعين ضروري ہے جو قرآن وسنت کي تفسير کرسکے اور ان کے معاني سے نقاب ہٹاسکے اور اپني مستحکم رائے سے فقہي اور کلامي اختلافات کو ختم کرسکے۔ زير نظر تحقيق ميں ہم اس علمي مرجعيت کا مصداق اہل بيت رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو فرض کرتے ہوئے بحث کا آغاز کرتے ہيں ۔اس انحصار کا فائدہ يہ ہےکہ ہماري بحث واضح اور شفاف حدود ميں پيش کي جائے گي۔اور پراکندگي نيز تشتت آراء سے بھي محفوظ رہيں گے۔ يہ بتانا بھي ضروري ہے کہ ہماري بحث مستحکم اور متقن دليلوں پر استوارہے۔
يہ دليليں اس وقت پيش کي جائيں گي جب قرآن و سنت کي نظر ميں علمي مرجعيت کا تذکرہ کيا جائے گا۔کيونکہ قرآن وسنت پر کسي اسلامي فرقے کو اختلاف نہيں ہے اورسب ان پر متفق ہيں اور ان ہي سے استدلال کرتے ہيں۔بنابريں اس بحث سے ہمارا ہدف اہل بيت رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي علمي مرجعيت و مرکزيت ثابت کرنا ہے ۔
ہم نے اپني اس کاوش ميں اہل سنت کي کتب حديث، فقہ، و تاريخ سے شيعہ کتب سے زيادہ استفادہ کيا ہے ۔کيونکہ شيعہ اہل بيت عليھم السلام کي مرجعيت علمي ميں کسي طرح کا شک نہيں کرتے يہ ان کے نزديک ايک مسلمہ اصل ہے ۔ہماري اس بحث کے وہ لوگ مخاطب ہيں جنہيں اس اصل ميں شک وترديد ہے ۔ہم اپني بحث کو مکمل علمي معيارات پرپيش کررہے ہيں تاکہ ايسا نتيجہ پيش کريں کہ جس پر ہرمنصف انسان اتفاق کرے گا۔
اھل بيت رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي علمي مرکزيت کي اساس پر اسلامي اتحاد
بسم اللہ الرحمن الرحيم
مسلمانوں کي علمي مرکزيت صديوں سے بحث و گفتگو کا موضوع بني ہو ئي ہےاور يہ سوال ہميشہ پيش آتارہا ہے کہ مسلمانوں کے لئے وہ کونسي ہستياں ہيں جو علمي لحاظ سے مرکزيت اور مرجعيت رکھتي ہيں۔
مسلمان جس قدر صدر اسلام کے زمانے سے دورہوتے جارہے ہيں اس بحث کي اہميت ميں بھي اضافہ ہوتاجارہا ہے اسي طرح ان کے مابين اتحاد کي ضرورت بھي روز بروز زيادہ محسوس ہوتي جارہي ہے ۔قرآن کريم اور سيرت رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اسلامي کے اتحاد کے اساسي اور حقيقي محور ہيں۔لھذا ايسے علمي مرجع ومرکز کا تعين ضروري ہے جو قرآن وسنت کي تفسير کرسکے اور ان کے معاني سے نقاب ہٹاسکے اور اپني مستحکم رائے سے فقہي اور کلامي اختلافات کو ختم کرسکے۔
زير نظر تحقيق ميں ہم اس علمي مرجعيت کا مصداق اہل بيت رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو فرض کرتے ہوئے بحث کا آغاز کرتے ہيں ۔اس انحصار کا فائدہ يہ ہےکہ ہماري بحث واضح اور شفاف حدود ميں پيش کي جائے گي
۔اور پراکندگي نيز تشتت آراء سے بھي محفوظ رہيں گے ۔يہ بتانا بھي ضروري ہے کہ ہماري بحث مستحکم اور متقن دليلوں پر استوارہے۔ يہ دليليں اس وقت پيش کي جائيں گي جب قرآن و سنت کي نظر ميں علمي مرجعيت کا تذکرہ کيا جائے گا۔کيونکہ قرآن وسنت پر کسي اسلامي فرقے کو اختلاف نہيں ہے اورسب ان پر متفق ہيں اور ان ہي سے استدلال کرتے ہيں۔
بنابريں اس بحث سے ہمارا ہدف اہل بيت رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي علمي مرجعيت و مرکزيت ثابت کرنا ہے ۔ہم نے اپني اس کاوش ميں اہل سنت کي کتب حديث، فقہ، و تاريخ سے شيعہ کتب سے زيادہ استفادہ کيا ہے ۔کيونکہ شيعہ اہل بيت عليھم السلام کي مرجعيت علمي ميں کسي طرح کا شک نہيں کرتے يہ ان کے نزديک ايک مسلمہ اصل ہے ۔ہماري اس بحث کے وہ لوگ مخاطب ہيں جنہيں اس اصل ميں شک وترديد ہے ۔ہم اپني بحث کو مکمل علمي معيارات پرپيش کررہے ہيں تاکہ ايسا نتيجہ پيش کريں کہ جس پر ہرمنصف انسان اتفاق کرے گا۔
اس مشترکہ مقصد ميں کاميابي سے مسلمانوں کے تاريخي اختلافات حل ہوسکتے ہيں اور ايسا مشترکہ ميدان فراہم ہوسکتا ہےجسميں مسلمان دورحاضراور مستقبل ميں ايک پليٹ فارم پر جمع ہوسکتے ہيں۔اسکے علاوہ اسلامي معارف کے ايک عظيم حصےکوضايع ہونے سے بچايا جاسکتا ہے جس کو مسلمانوں کي اکثريت نظرانداز کرديتي ہے اور اس سے فائدہ نہيں اٹھاتي جبکہ وہ معارف کا ٹھاٹھيں مارتا سمندر ہے ۔
قرآن و سنت کي نظر ميں مسلمانوں کي علمي مرجعيت
علمي مرجعيت سے مراد جيسا کہ اشارہ کياگيا وہ نقطہ مشترکہ ہے جس پر مسلمانوں کا اتفاق ہواور جو ان کے اختلافات خاص طورسے فقہي اور اعتقادي اختلافات کو ختم کرسکے ۔يہ مرجعيت قرآن و سنت کے حقائق کواس طرح بيان کرتي ہےکہ جس سے مسلمانوں ميں کوئي اختلاف پيدانہيں ہوتا۔چونکہ قرآن کريم اورسنت نبوي علي صاحبھا آلاف التحيۃ والثنا پر مسلمانون کا بھرپور اتفاق ہے آئيے خود ان ہي سےمعلوم کرتے ہيں کہ اس مرجعيت کي نشانياں کيا ہيں اور اس کو کيسے پہچانا جائے گا۔يہاں پر ہم حجيت ادلہ کي اصولي بحث نہيں کريں گے کيونکہ ہم نے اصول بناياہےکہ کسي بھي قيمت پرمتفقہ اصولوں خاص طورسے احاديث ونصوص کي دلالت وحجيت سے متعلق اصولوں سے خارج نہيں ہونگے ۔ہم نے مرجعيت علمي کے بارےميں قرآني آيات اور سنت نبوي کا استقراءکرکے يہ نتيجہ اخذ کيا ہےکہ ان نصوص ميں اھل بيت رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي مرجعيت علمي کے علاوہ کسي اور مرجعيت علمي کي طرف بات نہيں کي گئي ہے ۔گرچہ بعض ضعيف روايات موجود ہيں جن پر مسلمانوں کو اختلاف ہے لھذا ہم ان کا سہارا نہيں ليں گے اور ان نصوص پر تکيہ کريں گے جن پرسارے مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔
ہم نے اپني بحث کے لئے جو حدود معين کي ہيں ان کي اساس پر ادلہ کتاب وسنت پر ايک نظرڈالتے ہيں تاکہ بحث طولاني اور ملال آور نہ ہواور ہم اپنے مقصد سے نزديک بھي ہوتے جائيں ۔
سب سے پہلے ان آيات کتاب مجيد کا تذکرہ کرتے ہيں جن کي تفسير سنت نبوي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے کي گئ ہے ۔
قرآن کريم ميں اھل بيت رسول اکرم صلي اللہ و عليہ وآلہ وسلم کي علمي مرجعيت ۔
1۔آيت ذکر ۔
فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون ۔(النحل 43-انبياء 7)
اگر نہيں جانتے ہوتو اھل ذکر سے سوال کرو۔
ابن جرير طبري کي تفسير ميں ان کي سند سے جابر جعفي سے نقل ہے کہ جب يہ آيت نازل ہوئي تو حضرت علي عليہ السلام نے فرمايا "نحن اھل الذکر "ہم اھل ذکر ہيں ۔
حارث کہتے ہيں کہ :
سالت عليا عن ھذہ الآيۃ "فاسئلوا اھل الذکر "فقال واللہ انا نحن اھل الذکر نحن اھل الذکر نحن اھل العلم و نحن معدن التاويل و التنزيل
ميں نے علي عليہ السلام سے اس آيت کے بارےميں سوال کيا کہ فاسئلوا اھل الذکر سے کون مراد ہيں آپ نے فرمايا خداکي قسم ہم اھل ذکر ہيں ہم اھل ذکر ہيں ہم اھل علم ہيں اور ہم معدن تاويل وتنزيل ہيں ۔
راسخون في العلم ۔
ومايعلم تاويلہ الااللہ والراسخون في العلم
قرآن کي تاويل کو خدا اور راسخون في العلم کےسوا کوئي نہيں جانتا ۔
حضرت علي عليہ السلام نے ايک خطبہ ميں ارشاد فرمايا ہےکہ :اين الذين زعموا انھم الراسخون في العلم دوننا،کذبوا بغياعليناان رفعنا اللہ ووضعھم واعطانا وحرمھم وادخلنا و اخرجھم بنا يستطعي الھدي و يستجلي العمي
کہاں ہيں وہ لوگ جو يہ سوچتے ہيں کہ وہ ۔نہ ہم۔حاملان علم قرآن ہيں۔جھوٹ اور ستم سے جو ہم پرروارکھا ہواہے ۔خدا نے ہميں رفعت عطا کي ہے اور انہيں نيچا کيا ہے ہميں عطا کيا ہے اور انہيں محروم رکھا ہے ہميں اپنے کنف عنايت مين ليا ہے اور انہيں اس سے دور رکھا ہے ۔لوگ ہمارے سہارے راہ ہدايت پر چلتےہيں اور تاريک دل ہم سے نور حاصل کرتے ہيں ۔
3۔علم کتاب کس کےپاس ہے؟
و يقول الذين کفروا لست مرسلاقل کفي باللہ شہيدا بيني وبينکم و من عندہ علم الکتاب
اور يہ کافر کہتےہيں کہ آپ رسول نہيں ہيں توکہ ديجئے کہ ہمارے اور تمہارے درميان رسالت کي گواہي کے لئے خداکافي ہے اور وہ شخص کافي ہے جس کے پاس پوري کتاب کا علم ہے ۔
ابو سعيد خدري کہتے ہيں کہ ساءلت رسول اللہ عن ھذہ الآيۃ قال ذاک اخي علي ابن ابيطالب
ابو سعيد خدري کہتے ہيں کہ ميں نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے اس آيت کےبارےميں سوال کيا توآپ نے فرمايا "وہ ميرے بھائي علي ابن ابيطالب ہيں "۔
4۔آيت تطہير ۔
انما يريد اللہ ليذھب عنکم الرجس اھل البيت و يطھرکم تطھيرا۔
بس اللہ کا ارادہ يہ ہےکہ اے اھل بيت تم سے ہربرائي کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکيزہ رکھے جو پاک و پاکيزہ رکھنے کا حق ہے۔
رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اس آيت کي تفسير ميں فرمايا ہےکہ "انا واھل بيتي مطھرون من الذنوب ۔ميں اور ميرے اھل بيت گناہوں سے پاک ہيں ۔
آپ نے ايک اور جگہ ارشاد فرمايا ہے"انا وعلي والحسن و الحسين و تسعۃ من ولد الحسين مطھرون معصومون۔
ميں علي حسن اور حسين اور حسين کي اولاد ميں نو افراد مطھرو معصوم ہيں ۔
آيت تطھير اھل بيت رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کےحق ميں خاص الخاص عنايت خداوندي کوبيان کرتي ہے اور يہ تاکيد کرتي ہےکہ اھل بيت عليھم السلام ہر طرح يک لغزش و انحراف سے دورہيں تاکہ انسان ان کي اتباع کرسکے اور اپنے اختلافات حل کرنے کے لئے ان سے رجوع کرسکے ۔
5 ۔اجر رسالت ۔
قل لااسئلکم عليہ اجرا الاالمودہ في القربي ۔
آپ کہ ديجيے ميں اپني تئيس سالہ رسالت کے عوض کچھ نہيں چاہتامگر يہ کہ تم ميرے قريبي افراد سے محبت کرو۔
عبداللہ ابن عباس سے روايت ہےکہ جب رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے اس آيت کے بارےميں پوچھا گيا کہ "من ھم القربي " قال " علي فاطمہ و ابناھما" ميرے قريبي افراد علي و فاطمہ اور ان کے دوبيٹے ہيں ۔
سعيد بن جبير کہتےہيں کہ اھل قربي سے مراد رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کيے اھل بيت ہيں
يہ آيت دلوں اور عقلوں کو اھل بيت رسول اکرم صلي للہ عليہ وآلہ وسلم سے جوڑديتي ہے اور تاکيد کرتي ہےکہ اھل بيت کي محبت ہي اجررسالت ہے اور ان کودوست رکھنا ۔کم از کم علمي لحاض سے۔حقيقي مودت ہے ۔
قرآن کريم ميں آيک اور ايت ہے جس سے ہم يہ استدلال کرسکتےہيں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي اتباع اور محبت ميں ملازمہ پاياجاتا ہے يہ آيت ہے :
"ان کنتم تحبون اللہ فاتبعوني يحببکم اللہ ۔اے رسول کہ دين اگر تم مجھے چاہتے ہوتو ميري پيروي کرو تاکہ خدا بھي تمہيں دوست رکھے۔
سنت نبوي ميں اھل بيت کي روسے اھل بيت کي علمي مرجعيت ۔
1۔حديث کساء
حديث کساء آيت تطھير کي تفسيرکرتي ہے اور يہ بيان کرتي ہےکہ آيت تطھير ميں اھل بيت سے کوني ہستياں مراد ہيں۔ ابن عباس روايت کرتےہيں کہ "اخذ رسول اللہ ثوبہ فوضعہ علي علي و فاطمہ و حسن وحسين و قال انما يريد اللہ ليذھب عنکم الرجس اھل البيت و يطھرکم تطہيرا
رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اپني عباعلي و فاطمہ حسن حسين پرڈال دي اور فرمايا"خدا نے ارادہ کيا ہے تم سے اے اھل بيت ہرطرح کے رجس کو دوررکھے گاجسطرح دوررکھنے کا حق ہے ۔
ام سلمہ کہتي ہيں کہ جب يہ آيت نازل ہوئي تو رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے علي فاطمہ حسن و حسين کو اپنے پاس بلايا اور ان پر خيبري عباڈال دي اور فرمايا اللھم ھولاءاھل بيتي اللھم اذھب عنھم الرجس وطھرھم تطھيرا۔
خدا يا يہ ميرے اھل بيت ہيں انہيں ہربرائي سے دوررکھ اور پاک وپاکيزہ کرجسے پاک کرنے کاحق ہے ۔
اس کےبعد ام سلمہ کہتي ہيں ميں نے آپ سے سوال کيا کہ الست منھم کيا ميں ان ميں شامل نہيں ہوں ۔آپنے فرمايا تم نيک خاتوں ہو۔
اس حديث کو عطاابن يسار ،ابو سعيد خدري ، ابوھريرہ ، حکيم ابن سعد ، شہر اب حوشب ،عبداللہ ابن مغيرہ ،عطاء ابن ابي رياح، عمرہ ابن افعي ، حضرت علي ابن الحسين زين العابدين عليھما السلام نے ام سلمہ سے روايت کي ہے ۔
اس حديث کو صفيہ بنت شيبہ اورعوام ابن حوشب نے تميمي اور ابن عمير نے ام المومنين عايشہ سے اس طرح نقل کيا ہے ۔
"خرج النبي غداہ و عليہ مزط مرحل من شمراسود فجاء الحسن ابن علي فادخلہ ،ثم جاء الحسين فدخل معہ ثم جاءت فاطمہ فادخلھا، ثم جاء علي فادخلہ ثم قال انمايريد اللہ ليذھب عنکم الرجس اھل البيت و يطھرکم تطھيرا۔
ايک دن پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ايسے عالم ميں جبکہ آپ سياہ اون سے منقش لباس زيب تن کئے ہوئے تھے باہر تشريف لائےاس کے بعد حسن ابن علي وارد ہوئے آپ نے انہيں اپني ردا ميں جگہ دي اور اس کے بعد حسين ابن علي آئے آپ نے انہيں بھي اپني ردا ميں جگہ دي اس کےبعد فاطمہ آئيں آپ نے انہيں بھي اپني ردا ميں جگہ دي اور اسکے بعد علي آئے آپ نے انہيں بھي اپني ردا ميں داخل کرليا اس کےبعد فرمايا :انما يريد اللہ ليذھب عنکم الرجس اھل البيت ويطھرکم تطہيرا۔
بہت سے صحابہ نے حديث کساء کي روايت کي ہے انميں ابوسعيد خدري ،ابو برزہ ، ابوالحمراء، ابو ليلي انصاري ، انس بن مالک ،براء بن عازب ، ثوبان ، جابر ابن عبداللہ انصاري ، زيد بن ارقم ، زينب بنت ابي سلمہ ،سعد بن ابي وقاص صبيح مولي ام سلمہ، عبداللہ ابن جعفر، عمرابن ابي سلمہ ،عمرابن خطاب وغيرہ ۔
ان راويوں کي روايات سے معلوم ہوتا ہےکہ اھل بيت سے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي مراد علي و فاطمہ حسن وحسين عليھم السلام ہيں اور ان روايات کي اسناد صحاح ستہ اور اھل سنت کے ديگر جوامع حديث سے نقل کي گئي ہيں ۔
2:حديث ثقلين :
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا ہے کہ "اني تارک فيکم ما ان تمسکتم بہ لن تضلوا بعدي،احدھما اعظم من آخر کتاب اللہ حبل ممدود من السماء الي الارض وعترتي اھل بيتي ،ولن يفترقا حتي يردا علي الحوض ،فانظروکيف تخلفوني فيھما۔
ميں تمہارے درمياں ايسي چيزيں چھوڑے جارہا ہوں کہ ميرے بعد گمراہ نہ ہوگے، ان ميں ايک جو دوسرے سے بڑي ہے کتاب خدا ہے وہ ايسي مضبوط رسي ہے جسے آسمان سے زميں پربھيجاگياہے۔دوسري ميري عترت اور ميراخاندان ہے يہ دونوں ايک دوسرے سے جدا نہيں ہونگے يہاں تک کہ ميرے پاس حوض پروارد ہوجائيں،پس ہوشياررہنا کہ ميرے بعد ان کے ساتھ کيسا سلوک کرتے ہو۔
يہ حديث ان الفاظ ميں بھي وارد ہوئي ہے ۔"اني قد ترکت فيکم الثقلين احدھما اکبر من الآخر :کتاب اللہ تعالي وعترتي ، فانظروا کيف تخلفوني فيھما،لن يفترقا حتي يردا علي الحوض ۔
ميں تمہارے درمياں دوگرانبھا چيزيں چھوڑے جارہا ہوں کتاب خدا اور اپني عترت ،ان ميں ايک دوسرے سے بڑي ہے خبردار ميرے بعد تم ان کےساتھ کيسا سلوک کرتے ہو۔وہ ايک دوسرے سے جدا نہيں ہونگے مگر يہ کہ ميرے پاس حوض پر وارد ہوجائيں۔
حديث ثقلين ميں اھل بيت عليھم السلام کو قرآن کا ھمسر قرارديا گيا ہے۔يہ حديث تينتيس صحابيوں سے مروي ہے جنميں ابو ايوب انصاري ،ابوذر غفاري، ابو سعيد خدري، ابو شريح خزاعي، ابو قدامہ انصاري، ابو ھريرہ ، ام سلمہ، انس بن مالک، خزيمہ ذو الشھادتين ،سعد ابن ابي وقاص، زيد ابن ثابت، سلمان فارسي ، عبدالرحمن ابن عوف ، عبداللہ ابن عباس ، عمرابن خطاب اور عمرابن عاص شامل ہيں۔
حديث ثقلين کے بارےميں اھل سنت کے بعض علماء نے کہا ہےکہ اس حديث ميں مرجعيت سے مراد فقہي مرجعيت ہے۔محمد ابو زھرہ کا کہنا ہے کہ "لايدل علي امامۃ السياسۃ وانہ ادل علي امامۃ الفقہ والعلم ۔23۔ہم يہاں پر حديث کي دلالت کےبارےميں بحث نہيں کريں گے اور اھل بيت کي علمي امامت ہي پراکتفا کريں گے جس پر فريقين کا اتفاق ہے ۔
اس حديث کے بارےميں ابو احمد يعقوب کا کہنا ہے کہ انہوں نے حديث ثقلين کي اھل سنت کي اہم ترين کتابوں ميں ايک سو پچاسي مصادر سے تخريج کي ہے ۔اور ان تمام حديثوں ميں کتاب اللہ والعترہ کا کے الفاظ موجودہيں اور ان کتابوں ميں يہ بھي صراحت کي گئ ہے کہ عترت سے مراد رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے اھل بيت ہيں ،جن کے نام حديث کساء اور حديث ثقلين سميت مختلف مقامات پر مختلف احاديث ميں بيان کئے گئے ہيں۔
3۔حديث رفع اختلاف ۔
انس بن مالک کہتے ہيں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے حضرت علي سے فرمايا"انت تبين لامتي ما اختلفوا فيہ بعدي "
"اے علي ميرے بعد امت ميں پيداہونے والے اختلافات کو تم حل کروگے۔
4۔حضرت علي امت کي عالم ترين فرد ۔
سلمان فارسي کہتے ہيں کہ :قال الرسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اعلم امتي من بعدي علي ابن ابي طالب ۔
آپ نے فرمايا ہےکہ ميرے بعد اس امت ميں سب سے زيادہ علم والے علي ابن ابي طالب ہيں ۔
مسلم اول۔
حضرت رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليھا سے فرمايا:ام ترضين اني زوجتک اول المسلميں اسلاما و اعلمھم علما۔ ۔
کيا تو خوش ہيں ہوکہ ميں نے تمہاري شادي ايسے شخص سے کي ہے جو سب سے پہلا مسلمان اور امت ميں سب سے زيادہ علم رکھنے والا ہے ۔
امان امت :
عبداللہ ابن عباس کہتے ہيں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا:النجوم امان لاھل الارض من الغرق و اھل بيتي امان لامتي مي الاختلاف ۔
ستارے اھل زميں کو غرق ہونے سے بچاتے ہيں اور ميرے اھل بيت امت کو اختلاف سے امان ميں رکھيں گے ۔
حديث سفينہ
ابوذر غفاري کہتےہيں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا :الا ان مثل اھل بيتي فيکم کسفينۃ نوح في قومہ فمن رکبھا نجا،ومن تخلف عنھا غرق۔
جان لو کہ تمہارے درمياں ميرے اھل بيت کي مثال کشتي نوح کي ہے جو اس پر سوار ہوگا نجات پاجائے گا اور جو پيچھے رہ جائے گا غرق ہوجائے گا۔
اھل بيت عليھم السلام سب سے زيادہ کتاب وسنت کا علم رکھتے ہيں۔
حضرت اميرالمومنين علي عليہ السلام فرماتے ہيں۔
انا نحن اھل البيت اعلم بماقال اللہ ورسولہ۔
ہم اھل بيت کتاب خدا اور سنت رسول سے سب سے زيادہ واقف ہيں ۔
شجر نبوت:
حضرت اميرالمومنين علي عليہ السلام فرماتے ہيں:
نحن شجرہ النبوہ ومحط الرسالۃومختلف الملائکہ و معادن العلم و ينابيع الحکم ۔
ہم اھل بيت شجرہ نبوت، مقام رسالت، منزل ملائکہ،معدن علم ودانش اور حکمت کا سرچشمہ ہيں۔
رسول االلہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے جانشين بارہ ہيں۔
جابر ابن سمرہ نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے روايت کي ہے:لايزال الدين قائما حتي تقوم الساعۃ اويکون عليکم اثني عشرخليفۃ کلھم من قريش۔
يہ دين اس وقت تک جاري رہے گا جب تک کہ قيامت نہيں آجائے گي اور بارہ خليفہ جو سب قريش سے ہونگے تم پرحکومت کريں کے ۔
عبداللہ ابن مسعود کہتے ہيں کہ اصحاب نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے خلفاء کے عدد کےبارےميں سوال کيا توآپنے فرمايا:اثني عشرکعدہ نقباء بني اسرائيل ۔وہ بارہ خليفہ ہونگے نقباء بني اسرائيل کے عدد کے برابر۔
اھل سنت اور اھل تشيع کي کتابوں ميں بہت سي حديثيں ہيں جو الفاظ ميں مختصر سے اختلاف کےساتھ اسي معني کي طرف اشارہ کرتي ہيں۔ بنابريں مسلمانوں کا اتفاق ہےکہ رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے خلفاء يا نقباء يا امراء يا ائمہ بارہ ہيں اور سب کے سب قريش سے ہيں اور ان کا تعين رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي صريح احاديث سے ہوا ہے ۔بني اسرائيل کے نقباء سے خلفاء کو تشبيہ دينے کا مقصد بھي ان کے عدد کا تعين کرنا ہے ۔اس کےعلاوہ يہ احاديث قيامت تک دين کے باقي رہنے نيز قيامت تک امامت کے جاري رہنے پر تاکيد کرتي ہيں۔صحيح مسلم ميں بھي اسي مضمون کي ايک روايت ہے ۔
خلفاء رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو حضرت علي عليہ السلام سے ليکرحضرت مھدي عليہ السلام تک معين کرنے والي روايات بعض صحاح اور مسانيد ميں پائي جاتي تھيں جس سے واضح ہوتا ہےکہ ان کا جعل کرنا محال ہے۔اس کےعلاوہ وہ روايتيں جو اھل سنت سے منقول ہيں وہ ان کے نزديک قابل قبول ثقہ اور صحيح ہيں ۔۔
مجموعي طورپر ان آيات وروايات کي حجيت سے ہميں جو نتيجہ حاصل ہوتاہے وہ يہ ہے کہ اسلامي مذاھب کو اپني خصوصيات سے دستبردارہوئے بغير ايک پليٹ فارم پرمتحد ہوجاناچاہيے ۔
فصل دوم ۔
اہل بيت عليھم السلام کے علم کا سرچشمہ ۔
فصل اول ميں جن روايات کا ہم نے جائزہ ليا ان سے اھل بيت عليھم السلام کي طہارت اور علمي مرجعيت ثابت ہوتي ہے ۔
علامہ محمد تقي حکيم کہتے ہيں ۔
ائمہ اھل البيت عليھم السلام کي زندگي کے حقائق اور ان حديثوں کي دلالت ميں مکمل ہماہنگي پائي جاتي ہے اور دونوں دلالت کرتي ہيں کہ ائمہ عليھم السلام صاحب عصمت اور اعلم زمانہ تھے بالخصوص وہ ائمہ جنہيں نہايت سخت حالات کاسامنا تھاجيسے حضرت امام تقي ،حضرت امام علي نقي اور حضرت امام حسن عسکري عليھم السلام ۔يہ امر اس بات کا بہترين مويد ہے کہ سنت (قول ،فعل اور تقرير)ائمہ عليھم السلام کو بھي شامل ہے اور يہاں پرہم خليل ابن احمد فراہيدي کي عقلي دليل پيش کرسکتے ہيں جو انہوں نے حضرت علي عليہ السلام کي امامت کے بارےميں پيش کي ہے ۔
ان(حضرت علي ) کا سب سے بےنياز رہنا اور سب کا ان (حضرت علي )کا محتاج ہونا ان کي امامت کي دليل ہے ۔يہ استدلال ہم سارے ائم کے لئے پيش کرسکتےہيں کيونکہ تاريخ گواہ ہےکہ ائمہ اھل بيت نے کسي کے سامنے زانوے ادب تہ نہيں کيا ہے۔اور وہ کسي بھي طرح سے کسي کے محتاج نہيں رہے ہيں ۔يہ بات ہميں اس اہم نکتے کي طرف رہنمائي کرتي ہےکہ اگر اھل بيت نے کسي کے سامنے زانوے ادب تہ نہيں کيا تو ان کے علم کا سرچشمہ کيا ہے؟انہوں نے کس سے علم حاصل کيا ہے؟
صحيح روايات اور احاديث کاجائزہ لينے سے واضح ہوتا ہےکہ ائمہ اھل بيت عليھم السلام کے علم کا سرچشمہ ان چار موارد ميں منحصر ہے ۔
1۔قرآن کريم :
متعدد روايات ہيں جو اس بات پرتاکيد کرتي ہيں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ کے اھل بيت ہي ہيں جو قرآن کے حقائق ،معاني اور اھداف سے کما حقہ واقف ہيں ۔ان روايات ميں سے ايک يہ ہےکہ رسو ل اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے "من عندہ علم الکتاب کے بارےميں فرمايا ہےکہ اس سے مراد علي ابن ابي طالب ہيں۔36۔ اسي طرح حضرت علي عليہ السلام فرماتے ہيں کہ "انا ھو الذي عندہ علم الکتاب"ميں ہي ہوں جس کےپاس علم کتاب ہے۔
حضرت امام زين العابدين عليہ السلام کا ارشاد ہے کہ "نحن الذين عندناعلم الکتاب و بيان مافيہ"ہم اھل بيت ہي ہيں جن کے پاس علم کتاب اور اسميں جو کچھ بيان کيا گيا ہے اس کا علم ہے ۔
رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي حديث ہے کہ "علي يعلم الناس من بعدي تاويل القرآن و مالايعلمون "علي ميرے بعد لوگوں کو تاويل قرآن اور جوکچھ نہيں جانتے اس کي تعليم دينگے۔
حضرت اميرالمومنين علي عليہ السلام تاکيد کے ساتھ فرمايا کرتے تھے کہ "سلوني عن کتاب اللہ فانہ ليس ميں آيۃ الا وقد عرفت بليل نزلت ام بنھار في سھل ام جبل "مجھ سے کتاب خدا کےبارےميں سوال کرو ،ميں ہرآيت کے بارےميں جانتاہوں خواہ وہ رات ميں نازل ہوئي ہويا دن ميں، دشت ميں نازل ہوئي ہو يا پہاڑي پر ۔
عبداللہ ابن مسعود نے روايت کي ہےکہ "ان القرآن نزل علي سبعۃ احرف مامنھا حرف الا لہ ظہرو بطن و ان علي ابن ابي طالب عندہ علم الظاہرو الباطن۔
قرآن سات حروفوں پرنازل ہوا ہے اور انميں ايسا کوئي حرف نہيں جسکا ظاہر اور باطن نہ ہواور علي ابن ابي طالب کے پاس ظاہر اور باطن کا علم ہے ۔
حضرت علي عليہ السلام فرماتے ہيں کہ قرآن سے پوچھو،سوال کرو ،آپ کا ارشاد ہے "ذالک القرآن فاستنطقوہ ،ولن ينطق ،ولکن اخبرکم ،الا ان فيہ علم ما ياتي ۔ يہ قرآن ہے اس سے سوال کرو تاکہ وہ تم سے کلام کرے وہ ہرگز کلام نہيں کرے گاليکن ميں ميں تمہيں بتاتاہوں، جان لوکہ قرآن ميں آيندہ کا علم ہے ۔
مذکورہ بالا روايات سے صراحتا يہ بات معلوم ہوتي ہے اھل بيت عليھم السلام کويہ امتياز حاصل ہےکہ انہيں کے پاس علم قرآن ہے اور اگر کسي کو علم قرآن حاصل کرنا ہوتواسے دراھل بيت عليھم السلام پرآنا ہوگا۔
2۔ رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ۔
ذات اقدس رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اھل بيت عليھم السلام کے علم کا دوسرا سرچشمہ ہے اس سلسلے ميں سب زيادہ مشہور حديث جو فريقين کي کتابوں ميں منقول ہے يہ ہے "انامدينۃ العلم وعلي بابھا فمن اراد المدينۃ والحکمۃ فليات الباب " ميں شہر علم ہوں اور علي اس کا دروازہ ہيں۔جو علم اور حکمت کا طالب ہےاسے دروازے سے آنا ہوگا ۔
ايک اور حديث ہے :انادارالعلم وعلي بابھا ۔ يا انا دارالحکمۃ و علي بابھا۔ "ميں علم کا گھر ہوں اور علي اس کا دروازہ ہيں " يا "ميں حکمت کا گھر ہوں اور علي اس کا دروازہ ہيں "۔۔
حاکم بريدہ اسلمي سے روايت کرتے ہيں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے علي ابن ابي طالب (عليہ السلام )سے فرمايا"ان اللہ تعالي امرني ان ادنيک و لااقصيک و ان اعلمک وان تعي و حق علي اللہ ان تعي، فنزل قولہ تعالي وتعيھا اذن داعيہ "آپ فرماتے ہيں خدانے مجھے حکم ديا ہے تمہيں اپنے آپ سے نزديک لاتاجاوں اور تمہيں دورنہ کروں اور تمہيں تعليم دوں اور تم مجھ سے علم حاصل کرو۔اور خدا اس بات کا ضامن ہے کہ تم علم حاصل کرو اور سمجھو ۔اس موقع پر يہ آيت نازل ہوئي "اور محفوظ رکھنے والے کان سن ليں "۔
جب بھي لوگ حضرت علي عليہ السلام سے ان کے علم بےکران کے سرچشمہ کے بارےميں سوال کرتے اور پوچھتے کہانہوں نے کہاں سے علم حاصل کيا ہے تو آپ فرماتے "وما سوي ذالک فعلم علمہ اللہ نبيہ فعلمنيہ و دعا لي بان يعيہ صدري و تضطم عليہ جوانحي ۔آپ فرماتے اس کے علاوہ بھي علم ہے جس کي تعليم خدا نے اپنے رسول کودي تھي اور انہوں نے مجھے عطافرمايا اور ميرے لئے دعا کي کہ ميرا سينہ اس علم سے مالا مال ہوجائے اوروہ ميرے سينے ميں سماجائے۔
بعض روايات سے معلوم ہوتاہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے حضرت علي عليہ السلام کو اپنے علم کا وارث بنايااور حضرت علي عليہ السلام نے حضرات حسنين عليھما السلام کو اس کے بعد ہرامام نے اپنے بعد کے امام کو اس علم کا وارث بنايا۔حضرت اميرالمومنين علي عليہ السلام نے ايک مرتبہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے پوچھا "ماارث منک يا رسول اللہ "تو آپ نے فرمايا "ماورث الانبياء من قبل :کتاب ربھم وسنۃ نبيھم ۔
حضرت علي عليہ السلام نے آپ سے پوچھا ميں آپ سے وراثت ميں کيا پاوں گا، آپ نے فرمايا،تمہيں ميري وراثت ميں وہي چيزيں مليں گي جو انبياء ماسلف چھوڑا کرتے تھے يعني کتاب خدا اور اپني سنت ۔
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے ايک روايت مروي ہےکہ آپ نےفرمايا :ان اللہ علم رسولہ الحلال و الحرام و التاويل و علم رسول اللہ علمہ کلہ عليا"اللہ نے اپنے رسول کو حلال وحرام اور تاويل قرآن کا علم عطا کيا اور آپ نے يہ ساراعلم علي عليہ السلام کو عطافرمايا۔
حضرت امام باقر عليہ السلام فرماتے ہيں کہ اھل بيت کا علم ان کے ذاتي نظريات کا غماز نہيں ہے بلکہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي ميراث ہے ۔آپ فرماتے ہيں ۔لوکنا نفتي الناس براينا و ھوانا لکنا من الھالکين ،ولکنا نفتيھم بآثار من رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم واصول علم عندنا نتوراثھا کابر عن کابر نکنزھا کما يکنزھولاء ذھبھم و فضتھم ۔
اگر ہم لوگوں کو اپني ہوا و ھوس کے مطابق فتوي ديتے تو بے شک ہلاک شدگان ميں شامل ہوجاتے ليکن ہم تعليم رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور جوعلم ہميں ان سے ملا ہے اس کے مطابق لوگوں کو فتوي ديتے ہيں۔ اور جو علم ہمارے پاس ہے وہ بعد والے امام کو وراثت ميں ملتاہے ۔ہم اس علم کو اسي طرح سنبھال کررکھتے ہيں جسطرح لوگ سونا چاندي سنبھال کررکھتے ہيں۔۔
3 ۔امام ماقبل ۔
ائمہ اھل بيت عليھم السلام ميں ہر امام اپنے ماقبل امام سے ہي علم حاصل کرتاہےاور يہ علم ان کي مخصوص ميراث ہے ۔ائمہ معصوميں اپنے علم سے اپنے بعض خاص اصحاب کو بھي ان کي استعداد و صلاحيت کے مطابق کچھ عطافرماتےہيں ۔اس سلسلے ميں بہت سي روايات وارد ہوئي ہيں۔
4۔ ذاتي آگھي اور تجربے ۔
ائمہ طاہرين ميں سے ہرايک کو اپني زندگي ميں خاص تجربوں اور حالات سے گذرنا پڑا ان تجربوں سے ان کي علمي صلاحيت ميں اضافہ ہوتاتھا۔يہ تجربے ان کو انساني زندگي سدھارنے کي راہ ميں حاصل ہوتےتھے ۔ہرامام کے تجربے دوسرے امام کے لئے مشعل راہ ہوتےتھےاور ان کا ھدف بھي ايک ہي ہوتاتھاگرچہ ائم معصومين اپنے زمانے کےلحاظ سے خاص وسائل وذرايع استعمال کيا کرتے تھے ۔
ائمہ اھل بيت عليھم السلام کي زندگي کے اس انساني پہلو پرتوجہ کرنا ان کي طبيعت بشري کو سمجھنے کےلئے نہايت ضروري ہے۔ اھل بيت عليھم السلام کےان پہلووں کو سمجھنے سے يہ يقين ہوتاہےکہ وہ بھي خدا کےبندے تھے تاہم خدا نے انہيں خاص نعمتوں سے نوازا تھا جن سے دوسرے لوگ محروم تھے۔دراصل اھل بيت عليھم السلام کےبارےميں غلو کا سرچشمہ يہي وجہ ہے کہ لوگ ان کے علم اور حقيقي شخصيت کو سمجھنے سے قاصر تھےاوران کي شخصيت سے اس قدر حيران اور مبہوت ہوجاتےتھے کہ غلو ميں گرفتار ہوجاتے۔لوگ اھل بيت عليھم السلام کي ذوات مقدسہ ميں ايسے علوم اورکرامات ديکھتے تھے جو عام انسان کے بس کي بات نہيں تھے لھذا ان کے بارےميں غلو کرنے لگتے تھے ۔ائمہ عليھم السلام نے اپني احاديث و روايات ميں اپني انساني اور بشري حقيقت پرتاکيد کي ہے اور يہ سمجھايا ہےکہ انہيں ذاتا علم غيب حاصل نہيں ہےبلکہ انہيں جوکچھ عطا ہوا ہے بارگاہ ربوبي سے عطاہوا ہے اور رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کےواسطے سے خدا نے انہيں ساري فضيلتيں اور کمالات عطاکئےہيں۔
حضرت اميرالمومنين علي عليہ السلام فرماتےہيں: "علم الغيب الذي لايعلمہ احد الا اللہ وماسوي ذالک فعلم علمہ اللہ نبيہ فعلمنيہ" خدا کے علاوہ کوئي علم غيب کا حامل نہيں ہے ،اس کے علاوہ خدا نے سب کچھ اپنے رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو تعليم فرمايا ہے اور انہوں نے وہ سب کچھ مجھےتعليم فرمايا ہے ۔
حضرت علي عليہ السلام اور ديگر ائمہ طاہرين نے غلو کرنے والوں پرلعنت کي ہے۔البتہ يہ بات ياد رکھني چاہيے کہ خدا نے ائمہ اھل بيت عليھم السلام کو اپني رحمت خاصہ ميں شامل کيا ہے اور مختلف مواقع پرانہيں حقيقت تک پہنچانے کےلئے انہيں الھام کي نمعت سےبھي نوازتاہے ۔اس کے برخلاف ہميں کوئي دليل نہيں ملي ہے ۔
فصل سوم :
امت ميں اھل بيت عليھم السلام کي علمي منزلت ۔
بے پناہ علمي اختلافات گروہ بنديوں اور گوناگوں فقہي وکلامي مکاتب کےباوجود مسلمانوں نے ہميشہ اھل بيت عليھم السلام کي خاص منزلت و مقام کا اعتراف کيا ہے اور اس کا لحاظ رکھا ہے انہيں تمام صحابہ اور تابعين نيز فقہاسے برترو بہتر سمجھاہے۔تاريخ و حديث و فقہ کي کتابيں اس حقيقت کي گواہ ہيں۔ اگر بنواميہ اور بنوعباس کي ظالمانہ اور مکروفريب سے بھري چاليں نہ ہوتيں تو اھل بيت کي يہ منزلت امت اسلام کے دل ميں مستحکم واستوار رہتي ۔اموي اور عباسي حکومتوں نے جو حقيقت سے کوسوں دورتھيں حقيقت کو توڑمڑوڑ کرپيش کرنے کي بھرپور کوشش کي تاکہ اھل بيت عليھم السلام اور ان کي مرکزيت سے لوگوں کي توجہ ہٹاکر دوسروں کي طرف موڑسکيں۔
ہم اختصار سے کام ليتے ہوئے بعض صحابہ، تابعين اور فقہا کي شہادتيں پيش کريں گے ۔ان شہادتوں سے واضح ہوجائے گا کہ اھل بيت عليھم السلام کي شان ميں کتاب و سنت کے نصوص اور مسلمانوں کي منصفانہ رائے ان کي عظمت و بزرگواري سے مکمل مطابقت رکھتي ہيں ۔
خلفاءکے زمانےميں حضرت علي عليہ السلام کي علمي منزلت :
1۔ حضرت ابو بکر کي خلافت کے زمانے ميں :
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي حيات طيبہ کے بعد خلافت راشدہ کا زمانہ آتاہے۔ حضرت ابوبکر نے اس وقت کے پيچيدہ حالات ميں بہت سے مسائل اور سياسي مشکلات اور شرعي مسائل ميں مولائے کائنات سے رجوع کيا ،ابو بکرنے اھل ردہ سے جنگ ميں بھي مولائے کائنات سے صلاح و مشورہ کيا تھا ۔
حضرت عمر ابن خطاب ہر مشکل مسئلے ميں حضرت علي عليہ السلام سے مدد مانگتےتھے خواہ وہ فقہي مسئلہ ہوتايا پھر اجتماعي اور سياسي۔ حضرت علي عليہ السلام کے بارےميں حضرت عمر کے بيانات سے پتہ چلتاہےکہ وہ سب سے زيادہ حضرت علي عليہ السلام کے علم ودانش اور آپ کي منزلت سے آشنا تھے ۔ حضرت عمر نے متعدد مقامات پريہ جملے کہےہيں ۔
1۔ اعوذ باللہ ان اعيش في قوم لست فيھم يا اباالحسن۔۔
اے ابوالحسن ميں خدا سے پناہ مانگتاہوں کہ مجھے ايسي قوم ميں رہنا پڑے جسميں آپ نہ ہوں ۔
2۔لولاعلي لھلک عمر۔
اگر علي نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔
3۔ انت يا علي خيرھم فتوي۔
اے علي آپ مسلمانوں ميں سب سے بہتر فتوي ديتےہيں ۔
4۔ اللھم لاتنزل بي شدہ الا و ابوالحسن الي جنبي۔
خدايا مجھے کسي سخت مشکل ميں نہ ڈالنا مگريہ کہ ابوالحسن ميرے پاس ہوں ۔
5۔ يا ابوالحسن لاابقاني اللہ لشدہ لست لھا ولافي بلد لست فيہ۔
اے علي خدا مجھے ايسي مشکل کے وقت زندہ نہ رکھے جسے حل کرنے کے لئے آپ موجود نہ ہوں اور نہ اس شہرميں رکھے جہاں آپ نہ ہوں ۔
6۔:ياابن ابي طالب فمازلت کاشف کل شبہۃ و موضع کل حکم۔63
اے ابن ابي طالب آپ ہميشہ شبہات کا ازالہ کرنے والے اور احکام بيان کرنے والے ہيں ۔
7۔:اعوذ باللہ من معضلۃ ليس لھا ابو الحسن ۔
ميں خدا سے پناہ مانگتاہوں ايسي مشکل سے جس کے حل کرنے کے لئے ابو لحسن نہ ہوں ۔
8۔:لاابقاني اللہ بعدک يا علي ۔
اے علي تمہارے بعد خدا مجھے زندہ نہ رکھے ۔
حضرت عمر کے ان تمام اقوال سے پتہ چلتاہےکہ حضرت علي عليہ السلام خلفاء کے زمانے کے عقيدتي ،سياسي اور فقہي مسائل کوحل کرنے والے واحد فرد تھے۔اس سلسلے ميں ايک قابل غور واقعہ مسلمانوں کي تاريخ کي ابتداکا تعين کرنا ہے۔عمر ابن خطاب نے جب مسلمانوں کي تاريخ کا مبداء معين کرنے ک ارادہ کيا تو حضرت علي عليہ السلام سے مشورہ ، آپ نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي ہجرت کو مسلمانون کي تاريخ کا مبدا قرارديں ،حضرت عمرنے ان کا يہ مشورہ پسند کيا اور ہجرت کو مسلمانوں کي تاريخ کي ابتدا قرارديا۔ 66۔
حضرت عمر نے جب ايران کو فتح کرنے کاارادہ کياتو اس بارےميں بھي حضرت علي عليہ السلام سے مشورہ کيا ۔
3۔:تيسرے خليفہ کے دور ميں بھي حضرت علي عليہ السلام ہي متعدد مسائل حل فرمايا کرتےتھے ،تاريخ و حديث کي کتابيں ان واقعات سے بھري پڑي ہيں۔
4:۔حضرت عائشہ ام المومنين اور علم علي عليہ السلام کا اعتراف
ام المومنين عائشہ بھي جب ان سے احکام شرعي پوچھے جاتے تو لوگوں کو حضرت علي عليہ السلام کي طرف رجوع کرنے کو کہتيں اور فرماتيں عليک بابن ابي طالب لتساءلہ۔68۔ آپ سائل سے کہتيں جاواس سوال کو ابن ابي طالب سے پوچھو۔
يا پھر فرماتيں ائت عليا فانہ اعلم بذالک مني۔
جاو علي سے پوچھو وہ مجھ سے زيادہ جانتےہيں ۔
5۔علي ابن ابي طالب اور سعدبن ابي وقاص ۔
حاکم نے اپني سند سے قيس ابن ابي حازم سے روايت کي ہےکہ ايک شخص حضرت علي عليہ السلام کي شان ميں گستاخي کررہاتھا، سعد ابن ابي وقاص نے اسکي ملامت کي اور کہا الم يکن اول من اسلم؟او لم يکن اول من صلي مع رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ؟او لم يکن اعلم الناس؟
کيا علي اسلام لانے والے پہلے شخص نہيں ہيں؟کياوہ پہلے شخص نہيں ہيں جنہوں نے رسول اللہ کے ساتھ نماز اداکي اور کيا وہ سب سے زيادہ عالم نہيں ہيں؟
تاريخ گواہ ہےکہ حضرت علي عليہ السلام کا مشہور ترين لقب "امام " ہے ۔
قارئين کرام جس طرح سے ہم نے حضرت علي عليہ السلام کے علمي مرجع ومرکز ہونے کے بارےميں تاريخي شواہد پيش کئے ہيں اسي طرح آپ کي ذريت يعني حضرت امام حسن عليہ حضرت امام حسين حضرت امام زين العابدين اور ديگر تمام ائمہ اھل بيت عليھم السلام کے علمي مرجعيت اور مرکزيت کےبارےميں ناقابل انکار تاريخي شواہد ہيں۔
ائمہ مذاھب کے نزديک اھل بيت کي علمي عظمت
مختلف اسلامي مذاھب کے ائمہ اور بزرگ فقہاء نے اھل بيت عليھم السلام بالخصوص حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے تعليم حاصل کي ہے ۔حافظ بن عقدہ نے چار ہزار فقہاء اور محدثين کے نام ذکرکئےہيں جنہوں نے آپ سے روايت حديث کي ہے يا آپ کے سامنے زانوے ادب تہ کيا ہے۔۔
حافظ بن عقدہ نے ان فقہاء ومحدثين کي کتابوں کےنام بھي ذکرکئےہيں ان لوگوں ميں مالک بن انس اصبحي ، ابوحنيفہ نعمان بن ثابت،يحي بن سعيد، ابن جريح،سفيان ثوري ، شعبہ ابن الحجاج، عبداللہ ابن عمرو ، روح ابن قاسم ، سفيان ابن عينيہ، اسماعيل ابن جعفر، ابراھيم ابن طحان اوربہت سے ديگر افراد شامل ہيں ۔
ابو حنيفہ کايہ قول کہ " لولا السنتان لھلک النعمان"79 ان دوبرسوں کي طرف اشارہ جب انہوں نے امام جعفرصادق عليہ السلام کے درس ميں شرکت کي تھي ۔ابو حنيفہ کے اس قول سے پتہ چلتا ہے کہ ائمہ اھل بيت عليھم السلام کس قدر اپنے زمانوں کي علمي فضا پرحاوي اور اثرگذارتھے۔
مالک بن انس کہتےہيں کہ :
مارات عين ولا سمعت اذن ولاخطر علي قلب بشر افضل من جعفرابن محمد الصادق علما و عبادۃ و ورعا۔
نہ کسي آنکھ نے يہ ديکھا ہے نہ کسي کان نے سنا ہے اورنہ کسي نے يہ تصورکيا ہےکہ جعفرابن محمد صادق سے کوئي علم عبادت و ورع ميں افضل ہوسکتاہے۔
الازھر يونيورسٹي کے معروف استاد اور عالم دين شيخ محمد ابو زھرہ حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام کي علمي مرجعيت کوان الفاظ ميں بيان کرتےہيں "کان ابو حنيفہ يروي عن الامام الصادق ويراہ اعلم الناس باختلاف الناس و اوسع الفقہاء احاطۃ وکان مالک يختلف اليہ دارسا وراويا ومن کان لہ فضل الاستاذيہ علي ابي حنيفہ و مالک فحسبہ ذالک فضلاولايمکن ان يوخر عن نقص ولا يقدم عليہ غيرہ عن فضل ۔وھوفوق ھذا حفيد علي زين العابدين الذي کان سيد اھل المدينۃ في عمرہ فضلا و شرفاو دينا و علما وقد تتلمذ لہ ابن شہاب الزھري و کثيرون من التابعين وھو ابن محمد الباقرالذي بقر العلم و وصل الي لبابہ فھو ممن جمع اللہ تعالي لہ الشرف الذاتي و الشرف الاضافي بکريم النسب والقرابۃ الھاشميہ والعترۃ المحمديۃ ۔
ابو حنيفہ امام صادق سے روايت کياکرتےتھے اور انہيں لوگوں کے اختلافات سے سب سے زيادہ واقف کار اور فقہاء ميں سب سے زيادہ عالم سمجتھےتھے ۔مالک بھي ان کےپاس کبھي نقل روايت توکبھي حصول علم کے لئے آيا کرتےتھے اور جس کو ابو حنيفہ اور مالک پرفضل استادي حاصل ہويہ فضل اس کےلئے کافي ہےوہ کسي سے پيچھے ہيں رہ سکتے اورنہ فضيلت ميں ان پرکسي کو برتري حاصل ہوسکتي ہے ۔سب سے زيادہ صاحب فضل علي ابن الحسين زين العابدين کے پوتےہيں جواھل مدينہ کے سردار اور فضل شرف ودين وعلم ميں سب سے آگے تھے ابن شہاب زھري اور بہت سے تابعين نے ان کے سامنے زانوے ادب تہ کيا ہے۔وہ محمد باقر کے بيٹےہيں جنہوں نے علم کا سينہ چاک کيا اور اسکي حقيقت تک رسائي حاصل کي ۔خدا نے انہيں نسبي اور ذاتي شرف عطاکيا ہے وہ بني ہاشم اور عترت پيغمبرصلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے ہيں ۔
source : www.taqrib.info