اردو
Thursday 28th of November 2024
0
نفر 0

امت مسلمہ کی سعادت کا وقت قریب ہے

ماضی اور عصر حاضر کی تاریخ میں اتنا  بڑا فرق ! کل مسلمان حاکم تھا اور اپنی رعیت کا ذمہ دار بھی ، آج حکومت وبادشاہی تو ہے ،رعیت تو ہے لیکن اس پر حکومت یہود و نصاری کر رہے ہیں !اور انکی رعیت کے ذمہ داریہ نہیں بلکہ یہودونصاری ہیں !دنیا میں آج تقریبا ڈیڑھ ارب کی آبادی کے باوجود یہ کافر ومشرک کے محتاج اور اسیر ہیں !آخر کیوں ؟ کل دنیا میں لوگوں کی زبان پر انکی شجاعت ، حشمت ،عزت ، غیرت اور جنگ وجہاد کے چرچے تھے ، نیزہ ، تیرو تبر ،خنجر وشمشیر سے کھیلنے والی قوم آج اتنی بزدل ہو گئی کہ یہود ونصاری کی موت کی دہمکیوں اور انکی للکار پر لبوں پر مہر سکوت لگائے خاموشی سے انکی غلامی اختیار کربیٹھی ! ہندوستان سے پاکستان ،افغانستان سے عربستان ،عراق سے فلسطین ،بحرین سے یمن قیروان سے قاہرہ وغیرہ تک جہاں ،جس جگہ اور جس گوشہ میں بھی مسلمان آباد ہیں وہاں انکے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے !زمانے میں لوگوں کو جانوروں کے نیست ونابود ہوجانے پرافسوس کرتے ہوے دیکھا گیا ہے لیکن انہیں انسانوں کے بے گناہ قتل ہوجانے پرافسوس نہیں ہوتا انکی نگاہ میں انسان کی کوئی اہمیت نہیں ہے !روزانہ ہرہرسکنڈمیں ہزاروں بے جرم وخطا افراد کو قتل کیاجارہا ہے !اور نہ فقط انکی جان ،انکے اسباب ومال ،گھر،دھن ودولت کولوٹاجارہا ہے !اور اسی پر ہی اکتفا نہیں کیاگیا ! بلکہ حدتو یہ ہے کہ اب انکی ناموس کی عزت وآبروپر بھی وحشیانہ حملے ہونے لگے اور انھیں برسرعام بے عزت کیا جانے لگا!جس کی زندہ مثال عراق ، افغانستان ،بحرین ،یمن اور لیبیا وغیرہ جیسی سرزمینیں ہیں !دنیا کاگھٹیا سے گھٹیا انسان بھی اپنی ناموس پر نگاہ بد کو برداشت نہیں کرسکتا اسے بھی اپنی ناموس کی عزت پیاری ہوتی ہے یہ اسکی عزت وآبرو پر اپنی جان تک کی بازی لگادیتاہے اور اگر کوئی اسکے دامن پر ظلم کے شکن دیکھتاہے تو غیض وغضب میں ظالم پرٹوٹ پڑتاہے اور یہ حالت نہ فقط انسان میں پائی جاتی ہے بلکہ اسکا مشاہدہ تو جانوروں میں بھی کیا گیا ہے کہ وہ حتی الامکان اپنی ناموس کی حفاظت کرتے ہیں لیکن آج کے مسلمانوں کو کیاہوگیا ہے کہ سر زمین وحی سے اسلامی اقدار اور بنات اسلام کی عزت وآبرو کو پامال کرنے کی غرض سے فوجیوں کی شکل میں انسان نما درندے بھیجے جا رہے ہیں ! جنہیں نہ اپنے دینی بھائیوں کی آہیں سنائی دیتی ہیں اور نہ ہی ناموس کی مظلومیت اور اسکی چیخ وپکار!آج کرہ ارض بالخصوص بحرین و یمن ،سعودی عرب و لیبیا و...جیسی سرزمین ہے جو مسلمانوں کے خون سے رنگین ہے !اور اس خون ناحق کے ذمہ دار صرف اور صرف وہ  افراد ہیں جنکے ہاتھوں میں اسلام کی باگ ڈورہے ۔جنکی جرأت اتنی بڑھ گئی ہے کہ برسر عام مسلمانوں کی ہتک حرمت میں سرگرم عمل نظر آرہے ہیں اور پوری امت مسلمہ اس طرح خاموش ہے جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو !

درواقع اگر بحرین و یمن ،لیبیا و تیونس ،سعودی عرب اور مصر کی عوم ان کے خلاف کھڑی نہ ہوتی تو ان مکاروں ، عیاشوں اور اسلام کے جھوٹے  دعویداروں کے مکروہ چہرہوں سے ان کے جھوٹ کا نقاب کبھی نہ اترتا کہ یہ کس قدر نالائق اور بد صفات و بد کردار افراد ہیں ایک طرف وہ ہیں جو اپنی عوام کا خون چوس کر دشمنان اسلام کی کنبہ پروری کر رہے ہیں تو دوسری طرف وہ افراد ہیں جو بیت اللہ کے ہدایہ ونذورات سے یہود ونصاری کی پر ورش کر رہے ہیں اور ان کے اشارہ پر کٹ پتلی کی طرح ناچ رہے ہیں !اور ان کی رعایاہے جو اپنے حقوق کی حق تلفی پر گھٹ گھٹ کردم توڑرہی ہے!اگر اپنے حق کے لئے زبان کھولتی ہے تو انہیں باغی کہہ کر قتل کر دیا جا تا ہے یا پھر آپسی خانہ جنگی(فرقہ واریت ،شیعہ و سنی ) کی آگ روشن کر دی جاتی ہے جس کی تپش میں بچے ، جوان بوڑھے ،مرد و عورتیں سبھی جھلس رہے ہیں ۔ واقعاً!کتنا پردردہے یہ منظر ہے اور کتنی دردناک ہے یہ کہانی کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ  :

پڑھتا ہوں تو کہتی ہے یہ خالق کی کتاب            ہیں مثل یہودی  یہ سعودی بھی عذاب

اس قوم کے بار ے میں قمر کیا لکھے!!!!!        کعبہ کی کمائی سے جو پیتی ہے شراب

آج دنیا میں باطل ،فاسق اور فاجر حکمران، مسلمانوں کے مال ودولت اور انکی سر زمین پر قابض ہوگئے یعنی مال مفت دل بے رحم !مال کسی کا ، دولت کسی کی ذروجواہر کسی کے ،زمین وزمان کسی کے اور حکومت کسی اور کی !!اتنے مسلم ممالک اور اتنے مسلمان !لیکن انکی حالت پرتبصرہ کیا جاتا ہے تو بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اب انکے ہاتھ سے انکی حکومت واقتدار، دولت وزرسب کچھ نکل چکے ہیں !کل یہودونصاری انکے اشارہ پر چلا کرتے تھے آج یہ یہودونصاری کے اشاروں پر کٹھ پتلی کی طرح ناچ رہے ہیں جس طرح وہ چاہتے ہیں ویسا ہی یہ فعل انجام دیتے ہیں جسکی زندہ مثال حاکمان اسلام خصوصاً شاہان عرب ہیں۔صاحبان عقل سلیم یہ دیکھ کر حیرت سے انگشت بدنداں ہیں کہ اے کاش !اگر یہی فوج کشی ،اور یہی عرب حکام کی آپسی بھائی چارگی اور ہمبستگی فلسطین کے لئے ہوتی تو نہ جانے بیت المقدس کب کا یہودیوں کے چنگل سے آزاد ہو جا تا !لیکن افسوس صدافسوس !

ضبط کرتا ہوں تو ہر زخم لہو دیتا ہے

شکوہ کرتا ہوں تو اندیشہ رسوائی ہے

مسلمانوں کو کیا ہو گیا ہے !مسلم سماج آج بجا ئے ترقی کے تنزلی کی راہ پر گامزن کیوں ہے ؟!کیوں ان پر دشمنوں کا غلبہ بڑھتا جا رہا ہے !؟اس بدبختی کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ انھوں نے اپنا رابطہ اسلام اور قرآن سے منقطع کرلیا ورنہ جس قوم کے پاس قرآن جیسی باعظمت کتاب موجودہو جس میں تمام درد و غم کے علاج کا نسخہ بتایا گیا ہو وہ آج اس حال میں ہے کہ دشمن ان پر ہنس رہا ہے !یہ حالت در حقیقت آئین اسلام پر عمل نہ کرنے کی بنا پر ہے  اس لئے یہ ہر جگہ گرفتار بلا ہیں اور اگر یہی حالات رہی تو آئندہ بھی گرفتاررہیں گے اور انکے دشمن انھیں  جیتے جی زندہ در گور کردیں گے کیونکہ قرآن مجید کا یہ اٹل فیصلہ ہے کہ : ان اللّٰہ یغیر ما بقوم حتی یغیر بانفسھم۔  یعنی:''جو قوم خود سے اپنی حالت نہیں بدلتی خدااسے اسی حالت پر چھوڑ دیتا ہے''

کل تک جس قوم کے پیشواؤںنے دنیا میںترقی اور سعادت معکوس کی تھی آج اسی قوم کے مطلق العنان بد کردار اور بدصفات شہنشاہ اور ان کی جھوٹی شہنشاہیت نے عالم انسانیت کو متحیر کر رکھا ہے اوران کے ظلم و جور پر دنیا حیران و ششدر ہے !حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام نے بارہا اس امرکی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ قوموں کی تباہی میں ظلم و جور کا اہم کردار رہا ہے۔

آپ فرماتے ہیں : ''الظلم یزل القدم ویسلب النعم ویہلک الامم'' ظلم ظالم کو متزلزل ،نعمتوں کو سلب اور امتوں کو ہلاک کر دیتا ہے۔ (میزان الحکمہ ج٥ ص ٥٩٥)

اور یہ ظلم و بربریت کی داستان ایک پرانی داستان ہے جوہر دور کے فرعون و ہامان ،شداد و نمرود وغیرہ نے اپنی مطلق العنان حکومت کے زیر سایہ زندگی بسر کرنے والی مظلوم عوام الناس کے خون سے اپنی شہنشاہیت کی تاریخ رقم کی اور ان کے حقوق کو پامال اور ان کے مفادات کا گلا گھونٹتے رہے اور یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے یزید بن معاویہ تک پہنچا جس کے نتیجہ میں معرکہ ٔ  کربلا سر ہو ئی اور پھر فضا ئے عالم میں ''فانّ حزب اللّٰہ ھم الغالبون '' کی صدائیں گونجی تو مظلوم و مقہور عوام کو باطل سے نبرد آزمائی کا ایک نیا حوصلہ اور جذبہ ملا ، لوگ ظلم و جور کے خلاف مظاہرے اور اپنے حقوق کی پامالی پر استغاثہ بلند کرنے لگے !لیکن ہر دور کی شاطر فرعونیت اور یزیدیت نے اس فریاد اور استغاثہ کو صدا بصحرا کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کئے کبھی منافقت کا جال بچھایا ،کبھی دولت و ثروت کے ذریعہ لوگوں کو خریدا اور کبھی فرقہ واریت کاڈھونگ رچا کر ایک انسان کے ہاتھ دوسرے انسان کا قتل کروایا ۔ اور....جب اس منصوبہ میں بھی انہیں کامیابی میسر نہ ہو ئی تو پھر شخصیت کوشی (Terror)یعنی :قائدین انقلاب کو قتل کروانا شروع کیا!اور اس طرح وہ اپنے اعمال خبیثہ پر مغرور تھے اور اس خواب و خیال میں تھے کہ ان کی یہ متزلزل حکومت دائمی ہے اور وہ ہمیشہ رہنے والی ہے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ جو انسان حق کی حمایت سے کنارہ کشی کرتا ہے اور ظلم و جور کو اپنا شیوہ بنا لیتا ہے یا باطل کی منہ زوری دیکھنے کے بعد بھی غفلت کی نیند سو جا تا ہے ۔اس کی یہ نیند موت کے مترادف ہوتی ہے اور تاریخ اسے کسی کوڑے دان کے حوالہ کر دیتی ہے ۔جہاں اس کا نام لینے والا بھی نہیں پیدا ہو تا ہے !جس کی زندہ مثال تاریخ انسانیت میں بھری پڑی ہے۔ ابوسفیان سے یزید بن معاویہ، ہٹلیر ...سے صدام اور جارج بش و...تک کے حالات کا ملاحظہ کیجئے یہ کیا تھے اور یہ کیا ہو گئے !؟ کہاں گیا ان کا تخت و تاج اور کہاں ہے ان کی حکومت ِ پائدار و نامدار ؟! اب کو ئی نامراد بھی ان کا نام نہیں لیتا !اور اب جو ان کے رفقائے کار تخت حکومت پر رنگ ریلیاں مچا رہے ہیں انہیں بھی تختۂ دار آواز دے رہا ہے ! جیسا کہ راقم الحروف نے گزشتہ مطالب میں اس امر کی طرف ایک ہلکا سا اشارہ کیا ہے کہ آج کائنات انسانیت پر مسلط افراد بالخصوص اسلامی ممالک اور سماج کے بے دین ،بد کردار ،فاسق و فاجر ، ظالم اور عیاش ، اسلام دشمن عناصر حاکموں کا حال دیکھئے جو اپنے آقاؤں (امریکہ و اسرائیل ) سے مرعوب ہو کر اپنی رعایاکے حقوق کو پامال کر رہیں اور ان پر ظلم وبربریت کے پہاڑ ڈھا رہے ہیں ! لیکن ان ظالم و جابر اسلام، دشمن عناصر حکام کی متحدہ کاوشیں بے سود و بے فائدہ ہے ۔ اوراب ان کی کشتیٔ مرادہچکولے کھا رہی ہے اور بہت جلد غرق بہ آب ہونے والی ہے لہذا وہ اپنی تمام قوت و توانائیوں کو بروئے کار لا رہے ہیں ۔

آج یمن ،بحرین، لیبیا اور سعودی عرب وغیرہ کی عوام کی حالت زار پر ایک اچٹتی نظر ڈالیے کس طرح ان پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے محوئے تماشہ ہیں !لیکن وہ دن دور نہیں ہے کہ دربار حکومت میں بیٹھ کر ''انا ربکم الاعلیٰ ''کا نعرہ لگانے والے ان ظالم و جابر حاکموں کا سر انجام بہت عبرت ناک ثابت ہو گا اور انہیں سانس لینے کا موقع تک نہیں ملے گا !کیونکہ حکمرانِ جور اپنے اعمال کے ذریعہ اس طرح برہنہ ہو چکے ہیں کہ ان کی رعایا خود ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرر ہی ہے اور ان کا معاشرتی نظام درہم برھم ہو کر رہ گیا ہے ۔ہر طرف فضائے عالم میں نعرۂ تکبیر''اللہ اکبر'' ''لبیک یا حسین ''کی صدا ہے جس نے ہر طرف ایک ہلچل سی مچارکھی ہے اورخواب غفلت میں پڑے ہو ئے بے حس مسلمانوں سے یہ کہہ رہی ہے کہ اگر اسلام دشمن عناصر ہمیں کمزور و قلیل سمجھ کر منہ زوری اور اپنی طاقت کی نمایش کر رہا ہے تو وہ یہ یاد رکھے کہ پھر ایک کربلا تیار ہونے والی ہے جہاں عنقریب اس کے غرور و گھمنڈ ،قدرت و طاقت پامائل ہو کر رہ جا ئے گی!اس لئے کہ ہماری سیرت ،ہمارا آئین زندگی اور ہمارا تعلق ان ذوات قدسیہ سے ہے جنہوں نے اپنے حق کی بربادی پر سکوت تو اختیار کر لیا لیکن اسلام کی بربادی پر خاموشی اختیار نہیں کی۔ لہذا !ہم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں  لیکن اسلام پر لگتے ہو ئے ضرب کو ہر گز برداشت نہیں کر سکتے ۔ہمارا عملی اورشرعی فریضہ ہے کہ ہم افسانہائے باستان اور دشمنان اسلام کے ایجاد کردہ فرقہ واریت اور قومی تعصب کو چھوڑ کر آیہ کریمہ: واعتصموابحبل اللّٰہ جمعیا۔۔  کا اتباع کرتے ہو ئے ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور جہاں جس جگہ بھی انسانیت پر، بالخصوص مسلمانوں پر ظلم و ستم ہو رہے ہیں وہ چاہے بحرین کی عوام ہو یا فلسطین کی، یمن کے رہنے والے ہوں یا سعودی عرب کے، تیونس کے مسلمان ہوں یا لیبیا کے ، ساحل آج ہو یا کو ئی اور ملک یہ سارے لوگ قابل حمایت و ہمدردی ہیں ۔اور جو ایسے ماحول میں فتنہ انگیزی کرنے کی سعی ناسعید کر رہیں وہ چاہے حاکمان اسلام ہوں یا سعودی عرب کے درباری مفتی اگرچہ شیخ قرضاوی ہی کیوں نہ ہوں ،سب لائق عتاب ہیں ۔

خاتم الانبیاء حضرت ختمی مرتبت ۖ اس سلسلے میں فرماتے ہیں :سباب المسلم فسق و قتالہ کفر ۔مسلمانوں پر سبّ کرنافسق ہے اور انھیں ناحق قتل کرنا کفر ہے ۔''لا یقفنّ احدکم موقفاً یقتل فیہ رجل ظلماً فان اللعنة تنزل علی من حفرہ و لم یدفع عنہ ۔''ہرگز تم میں سے  کو ئی ایک بھی اس جگہ خاموش نہ ہرے جہاں کسی شخص کو بے گناہ قتل کیا جارہا ہو۔یقینی طور پر ان لوگوں پر خدا کی لعنت و غضب کا نزول ہے جو وہاں حاضر ہوں اور اس کا دفاع نہ کریں ۔(طبرانی و بیہقی ،بہ سوی تفاہم صفحہ ٢٥٧)

عرفجہ سے راویت ہے کہ :میں نے پیغمبرۖ سے سنا ہے کہ آپۖ نے فرمایا: آیندہ ایک عظیم ہجوم اٹھے گا۔ (اختلافات و تفرقہ بازی کی آگ بھڑکے گی ) لہذا جو بھی اجتماع و اخوت اسلامی کی بنیاد کو متزلزل کرے وہ چاہے جو بھی ہو اسے قتل کر ڈالو۔(صحیح مسلم،کتاب الامارہ حدیث ١٨٥٢)

دین اسلام سلامتی اور کرامت و عزت کا دین ہے ۔ امت مسلمہ کی سعادت کا وقت قریب آچکا ہے لیکن امت مسلمہ کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ محمد ۖ وآل محمد  ۖ خصوصاً مہدی آخر الزمان ،وصی برحق رسول ۖ،قائم آل محمد  سے مکمل طور پر وابستگی اختیار کرے کیونکہ ان سے وابستگی کے بغیر دین و دنیا کی سعادت کا کو ئی امکان نہیں ہے اور نہ ہی کسی قیام کا خاتمہ بخیر ہے لہذا عصر حاضر کے مسلمان بالخصوص اسلامی سماج کے حکمران، اسلام دشمن عناصر (امریکہ و اسرائیل و...)کے آگے گھٹنے ٹیکنے اور سر بسجود ہونے کے بجائے قائم آل محمد  حضرت امام عصر ارواحنا لہ الفداء کے ظہور کی دعا کریں، ان کے پیش کردہ لائحہ عمل کو اپنا کر حرزِجاں بنا ئیں اور اپنی رعایاکے حقوق اور ان کے مفادات کا خاص خیال رکھیں تا کہ انہیں دنیا کے ہر معرکہ میں فتح یابی نصیب ہو اور وہ فتنوں سے محفوظ رہ سکیں ۔(


source : http://www.ahlebait.in
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اخلاق کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
افغانستان میں قرآن کریم کی بے حرمتی، مغرب میں ...
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
مسجد اقصیٰ اسرائیلی نرغے میں
سب سے پہلے اسلام
سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1

 
user comment