اردو
Tuesday 23rd of July 2024
0
نفر 0

قیامت پر ایمان ،انسان کے اخلاق و اعمال پر کیا اثر رکھتا ہے ؟

کیونکہ اس میں شک وشبہ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انسانی معاشرہ افراد کی سر گرمی سے زندہ ہے اور افراد کی سر گرمی بھی احتیاج کی حس اور زندگی کی ضرورتوں سے آگاہ ہو نے کے اثر میں وجود میں آتی ہے۔ انسان اپنی بقاء اور اس بقاء کی ضروریات کے بارے میں شدید دلچسپی رکھتا ہے۔ اس لئے اس آرزو کو حاصل کر نے کے لئے ہر ممکن وسائل کو بروئے کار لاکر عزم وارادہ کے ساتھ اپنی انتھک سر گرمیوں کو جاری رکھتا ہے ۔ان اعمال میں سے جو بھی عمل مقصد تک پہنچ جائے ،انسان کی سر گرمی کو شدت بخش کر اس کت عزم وارادہ کو تقویت بخشتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ انسانی معاشرہ جوں ہی اپنے عادی راستہ پر گامزن ہو تا ہے تو ایک قسم کی تر قی حاصل کرکے ہردن اور ہر ساعت اپنی پیش رفت کی حر کت میں تیزتر ہو تا ہے اور اس میں ایک عمیق اورتازہ جوش وجذبہ ظاہر ہو تا ہے اور واضح ہے کہ موت کی یاد،موت کے بعد آخرت کی زندگی کی فکرکو دماغ میں پرورش دینا ،اگر انسان کے عزم وارادہ کو مفلوج نہ کرتے ہوئے معاشرہ کے روز افزوں سر گرمیوں کے پہیئے کو گھومنے سے نہ روکتا ،تو انسان کی سیر وسلوک کی اس زندگی میں کسی قسم کا اثر نہ ہو تا اور اس کے قالب میں ایک نئی روح نہیں پھونکی جاسکتی ۔

جواب : اس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ آسمانی ادیان نے اپنی دعوت کے پروگرام کو کسی حدتک تکلیف کی مسؤ لیت اور اعمال کی پاداش (یعنی روزجزا) پر رکھا ہے اور خاص طور پر (ان میں ) دین مقدس اسلام نے اپنی دعوت کی بنیاد کو تین اصولوں پر استوار کیا ہے ان میں سے تیسرااصول معاد پر اعتقاد ہے۔ چنانچہ اگر کسی شخص کو معاد پر شک ہو تو ،اس کی مثال اس شخص کی جیسی ہے جو توحید یا نبوت کا منکر ہو ،وہ دین کے حدودو میں داخل نہیں ہوا ہے اور مسلمانوں کے زمرہ سے خارج ہے ۔یہاں اسلامی معاد کے اعتقاد کو دی جانے والی اہمیت ۔توحید ونبوت کے اعتقاد کے مانند ۔ واضح ہو تی ہے ۔

اس نکتہ کے پیش نظر کہ اسلام نے اپنی تعلیم وتر بیت کی آرزو کو انسانی فطرت (فطری انسان کو پیدا کر نے کے لئے ) کو احیاء کر نا قرار دیا ہے ، اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام معاد کے اعتقاد کو فطری انسان کے حیاتی ارکان میں سے ایک رکن قرار دیتا ہے کہ اس کے بغیر حقیقی انسان کی شکل ایک بے روح جسم کے مانند ہے جس نے ہر انسانی سعادت وفضیلت کی بنیاد کو کھو دیا ہے ۔

اس میں بھی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ اسلام کے معارف اور قوانین خشک وبے روح مواد نہیں ہیں ،جو لوگوں کی سر گرمی کی غرض سے یا خشک اورخالی تعبداورتقلید کے مقصد سے مرتب ہوئے ہوں بلکہ یہ اعتقادی ،رو حی اور عملی مواد کا ایک مجموعہ ہے جو اپنے اجزا ء میں پائے جانے والے تشکلّ کے کمال اور رابطہ سے انسان کی زندگی کے پرو گرام کے عنوان سے اور انسان کی خلقت کی ضروریات کے پیش نظر مر تب ہوا ہے ،چنانچہ قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات اس مطلب کی بہترین گواہ ہیں :

(یاأیّھا الّذین أمنو ااستجیبوا للّٰہ وللرّسول اذا دعاکم لما یحییکم ...)(انفال؍۲۴)

’’اے ایمان والو!اللہ ورسول کی آوازپر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس امر کی طرف دعوت دیں جس میں تمہاری زندگی ہے ...‘‘

(فأقم وجھک للدّین حنیفاً فطرت اللّٰہ الّتي فطرالنّاس علیھا ...)(روم ؍۳۰)

’’آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارکش رہیں کہ یہ دین وہ فطرت الہٰی ہے جس پر اس نے انسان کو پید اکیا ہے ...‘‘

اس بناء پر ،دین اسلام تر قی یافتہ معاشروں کے ان ملکی قوانین سے کوئی فرق نہیں رکھتا ،جو معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنیاور اس کے حیاتی منافع کی حفاظت کے لئے وضع کئے گئے ہیں ۔منتہٰی خدائی دین اور انسان کے وضع کئے گئے قوانین کے درمیان پایا جانے والا بنیادی فرق یہ ہے کہ ملکی قوانین ،انسان کی زندگی کے پروگرام کے قانونی ضوابط ہیں ،صرف اس کی چند روز ہ مادی زندگی کو مد نظر رکھتے ہیں اور مشخص قانونی دفعات کو صرف معاشرہ کی اکثریت کی جذباتی ضرورتوں کو قراردیتے ہیں ۔لیکن دین آسمانی ،انسانی زندگی کو ایک ایسی ابدیاور لامتناہی زندگی تشخیص دیتا ہے جو موت سے ہرگز ختم نہیں ہوتی اور ہمیشہ کے لئے ایسے باقی اور پائدار رہتی ہے کہ اس کی دوسری دنیا کی بدبختی اور خوشبختی اس دنیا کے اعمال کی برائیوں اور بھلائیوں کے تناسب سے ہوتی ہے ۔اس لئے دین اسلام انسان کے لئے عاقلانہ زندگی کا پروگرام مرتب کرتا ہے نہ جذباتی زندگی کا ۔

ملکی قوانین کی نظر میں ،معاشرہ میں لوگوں کی اکثریت کی رائے کا نفاذ ضروری ہوتا ہے اور یہ قوانین کے دفعات میں سے ایک دفعہ ہوتی ہے ۔لیکن دین اسلام کی نظر میں معاشرہ میں ایسے قوانین قابل اجرا ہیں جو حق اور عقل کی کسوٹی کے مطابق ہوں ،خواہ اکثریت کی رائے کے مطابق ہوں یا نہ ۔

دین اسلام بیان کرتا ہے کہ فطری انسان (خرافات اورہوس رانیوں سے پاک ) اپنے فطری شعور سے معاد کو ثابت کرتا ہے اور نتیجہ کے طور پر اپنے آپ کو ایک ابدی زندگی کا مالک سمجھتا ہے کہ اسے صرف انسانیت کی خصوصی نعمت یعنی عقل سے زندگی بسر کرنا چاہئے ،اس کو ایک مادّی شخص کی طرح اپنی بنیاد اور معاد سے بے خبر نہیں رہنا چاہئے ،کہ یہ منطق حیوانی منطق میں مشترک ہے اور اس حالت میں انسان مادی لذتوں پر تسلط جمانے کے علاوہ کوئی آرزو نہیں رکھتا ۔قیامت پر ایمان اور معاد پر اعتقاد ایک حقیقت پسند انسان کی فکری،اخلاقی،روحی اور اس کے اجتماعی اور انفرادی اعمال کے تمام ابعاد پر واضح اثر ڈالتا ہے ۔

لیکن اس کی فکر پر اثر ،اس طریقہ سے ہے کہ وہ اپنے آپ کو اورتمام چیزوں کو ۔ جیسے وہ ہیں ۔ حقیقت پسندانہ نگاہ سے دیکھے ۔وہ اپنے آپ کو چند روز کے لئے محدود ایک انسانی موجود مشاہدہ کرتا ہے جو اس ناپائدار دنیا کا ایک جزو ہے ۔وہ اور عا لم ہستی کے دیگراجزا مجموعاًایک ایسے قافلہ کو تشکیل دیتے ہیں جو شب وروز ایک پائدار اورابدی دنیا کی حرکت میں ہے اور خلقت ’’علت فاعلی ‘‘ کے ’’رفع‘‘اور خلقت کی غرض وغایت (قیامت)کے ’’جذب‘‘کے درمیان ہمیشہ مسافرت میں ہو تا ہے ،لیکن اس کے روحی اخلاق میں اس صورت میں اثر ہوتا ہے کہ وہ اپنی واقع بینی اوراپنے اندورونی جذ باتی طرز تفکر کو بدل کر انھیں مقصد کے مناسب اسلوب سے محدود کرے ۔

جو شخص اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے خود کو اس ناپائدار عالم ہستی کے تمام اجزاء سے وابستہ جانتے ہوئے اپنے آپ کو طوفان کی خطر ناک لہروں کے پنجوں میں ایک تنکہ کے مانند گرتے اٹھتے عام مقصد کی طرف بڑھتا ہوا پائے ،تو وہ اس خود پسندی ،غرور اور جاہلانہ بغاوتوں کو اپنے دماغ میں پنپنے نہیں دے گا ، وہ خود کو شہوت پرستی ،نفسانی خواہشات اور ہوس رانی کاغلام نہیں بنائے گا ،اوروہ ایک چندروزہ انسانی زندگی کے لئے ضروری چیزوں کے علاوہ بے مقصد تلاش اورکوششوں کا اسیر وگرفتار بن کر خود کو ایک خود کار اور بے ارادہ مشین میں تبدیل نہیں کرے گا ۔اس کے نتیجہ میں انسانی زندگی کے فردی اور اجتماعی بلواؤں میں کافی حدتک کمی واقع ہوتی ہے ،پھر وہ اپنی تلاش و کوششوں کو ایسے کاموں میں ضائع نہیں کرے گا جن کے لئے قربانی دے کر جان ومال سے ہاتھ دھونا پڑ تا ہے ،کیونکہ اگر نیک کام انجام دینے کی راہ میں اس کی جان بھی قربان ہو جائے تو اس نے اس غمناک دنیوی زندگی کو کھو دیا ہے ،لیکن وہ اس طرح اپنی ابدی زندگی اور جانثاری کے نیک نتائج کو پاتا ہے اور ان سے خوشحال ہو گا ،اب اس سے ایک مادی اور معاد سے بے خبر شخص کے مانند اپنی دنیوی ضرورتوں کو پورا کر نے کے لئے فریب دینے والے اور گمراہ کر نے والے خرافات کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔اب وہ نہیں چاہتا ہے کہ اسے اس بات کی تلقین کی جائے کہ معاشرے کے مقدسات ۔آزادی ،قانون اور وطن کے مانند ۔ انسان کے لئے نیک نامی اور پائندگی لاتے ہیں جن کے ذریعہ وہ ایک ابدی اور فخر ومباہات کی زندگی پاسکتا ہے ،جبکہ اگر حقیقتاًانسان مر نے کے بعد نابود ہوتا ہے ،تو مرنے کے بعد زندگی اور فخر،خرافات کے علاوہ کوئی مفہوم نہیں رکھتے!!

یہاں پر،سوال کے آخر پر بیان کی گئی بات کا بے بنیاد ہونا واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ موت اور موت کے بعد والی دنیا کا تصور ،انسان سے نشاط کار اور زندگی کی سر گرمی کو سلب نہیں کرتا ،کیونکہ نشاط کار اور انسان کی سر گرمی احتیاج کی معلول حسّی ہے اور معاد کے تصور سے احتیاج کی حس نابود نہیں ہو تی ہے ۔اس مطلب کا گواہ یہ ہے کہ صدر اسلام کے مسلمان دینی تعلیمات کی بیشتر پیروی کرتے تھے اور ان کے دلوں میں معاد کا تصور دیگر توانائیوں سے زیادہ جلو گر تھا،وہ لاجواب اور حیرت انگیز اجتماعی سر گرمی میں مشغول تھے ۔

معاد پر ایمان کے روحی فوائد میں سے یہ ہے کہ انسان کی روح ہمیشہ اس ایمان سے زندہ ہے وہ جانتا ہے کہ اگر وہ کبھی کسی مظلومیت یا محرومیت سے دوچار ہو ا تو ایک دن آنے والا ہے جب انتقا م لیا جائے گا اور اس کا حق اس سے واپس ملے گا اور وہ جو بھی نیک کام انجام دے گا ایک دن اس کی بہترین صورت میں تجلیل وتعظیم کی جائے گی ۔

لیکن انسان کے فردی اور اجتماعی اعمال میں اس کا اثر اس طرح ہے کہ معاد کا معتقد انسان جانتا ہے کہ اس کے اعمال ہمیشہ تحت نظر اور کنٹرول میں ہیں اورا س کے ظاہر وباطن (مخفی وآشکار )اعمال خدائے داناو بینا کے سامنے واضح ہیں ایک دن آنے والا ہے جب پوری دقت سے اس کا حساب وکتاب کیا جائے گا ۔اور یہ عقیدہ انسان میں ایک ایسا کام انجام دیتا ہے جو ہزاروں مخفی پو لیس کے اہل کار اور مامورین سے انجام نہیں پا سکتا ہے ،کیونکہ وہ سب باہر سے کام کرتے ہیں اور یہ ایک داخلی چوکی دارہے جس سے کوئی رازچھپایا نہیں جاسکتا ہے۔ 

جواب : اس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ آسمانی ادیان نے اپنی دعوت کے پروگرام کو کسی حدتک تکلیف کی مسؤ لیت اور اعمال کی پاداش (یعنی روزجزا) پر رکھا ہے اور خاص طور پر (ان میں ) دین مقدس اسلام نے اپنی دعوت کی بنیاد کو تین اصولوں پر استوار کیا ہے ان میں سے تیسرااصول معاد پر اعتقاد ہے۔ چنانچہ اگر کسی شخص کو معاد پر شک ہو تو ،اس کی مثال اس شخص کی جیسی ہے جو توحید یا نبوت کا منکر ہو ،وہ دین کے حدودو میں داخل نہیں ہوا ہے اور مسلمانوں کے زمرہ سے خارج ہے ۔یہاں اسلامی معاد کے اعتقاد کو دی جانے والی اہمیت ۔توحید ونبوت کے اعتقاد کے مانند ۔ واضح ہو تی ہے ۔

اس نکتہ کے پیش نظر کہ اسلام نے اپنی تعلیم وتر بیت کی آرزو کو انسانی فطرت (فطری انسان کو پیدا کر نے کے لئے ) کو احیاء کر نا قرار دیا ہے ، اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام معاد کے اعتقاد کو فطری انسان کے حیاتی ارکان میں سے ایک رکن قرار دیتا ہے کہ اس کے بغیر حقیقی انسان کی شکل ایک بے روح جسم کے مانند ہے جس نے ہر انسانی سعادت وفضیلت کی بنیاد کو کھو دیا ہے ۔

اس میں بھی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ اسلام کے معارف اور قوانین خشک وبے روح مواد نہیں ہیں ،جو لوگوں کی سر گرمی کی غرض سے یا خشک اورخالی تعبداورتقلید کے مقصد سے مرتب ہوئے ہوں بلکہ یہ اعتقادی ،رو حی اور عملی مواد کا ایک مجموعہ ہے جو اپنے اجزا ء میں پائے جانے والے تشکلّ کے کمال اور رابطہ سے انسان کی زندگی کے پرو گرام کے عنوان سے اور انسان کی خلقت کی ضروریات کے پیش نظر مر تب ہوا ہے ،چنانچہ قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات اس مطلب کی بہترین گواہ ہیں :

(یاأیّھا الّذین أمنو ااستجیبوا للّٰہ وللرّسول اذا دعاکم لما یحییکم ...)(انفال؍۲۴)

’’اے ایمان والو!اللہ ورسول کی آوازپر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس امر کی طرف دعوت دیں جس میں تمہاری زندگی ہے ...‘‘

(فأقم وجھک للدّین حنیفاً فطرت اللّٰہ الّتي فطرالنّاس علیھا ...)(روم ؍۳۰)

’’آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارکش رہیں کہ یہ دین وہ فطرت الہٰی ہے جس پر اس نے انسان کو پید اکیا ہے ...‘‘

اس بناء پر ،دین اسلام تر قی یافتہ معاشروں کے ان ملکی قوانین سے کوئی فرق نہیں رکھتا ،جو معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنیاور اس کے حیاتی منافع کی حفاظت کے لئے وضع کئے گئے ہیں ۔منتہٰی خدائی دین اور انسان کے وضع کئے گئے قوانین کے درمیان پایا جانے والا بنیادی فرق یہ ہے کہ ملکی قوانین ،انسان کی زندگی کے پروگرام کے قانونی ضوابط ہیں ،صرف اس کی چند روز ہ مادی زندگی کو مد نظر رکھتے ہیں اور مشخص قانونی دفعات کو صرف معاشرہ کی اکثریت کی جذباتی ضرورتوں کو قراردیتے ہیں ۔لیکن دین آسمانی ،انسانی زندگی کو ایک ایسی ابدیاور لامتناہی زندگی تشخیص دیتا ہے جو موت سے ہرگز ختم نہیں ہوتی اور ہمیشہ کے لئے ایسے باقی اور پائدار رہتی ہے کہ اس کی دوسری دنیا کی بدبختی اور خوشبختی اس دنیا کے اعمال کی برائیوں اور بھلائیوں کے تناسب سے ہوتی ہے ۔اس لئے دین اسلام انسان کے لئے عاقلانہ زندگی کا پروگرام مرتب کرتا ہے نہ جذباتی زندگی کا ۔

ملکی قوانین کی نظر میں ،معاشرہ میں لوگوں کی اکثریت کی رائے کا نفاذ ضروری ہوتا ہے اور یہ قوانین کے دفعات میں سے ایک دفعہ ہوتی ہے ۔لیکن دین اسلام کی نظر میں معاشرہ میں ایسے قوانین قابل اجرا ہیں جو حق اور عقل کی کسوٹی کے مطابق ہوں ،خواہ اکثریت کی رائے کے مطابق ہوں یا نہ ۔

دین اسلام بیان کرتا ہے کہ فطری انسان (خرافات اورہوس رانیوں سے پاک ) اپنے فطری شعور سے معاد کو ثابت کرتا ہے اور نتیجہ کے طور پر اپنے آپ کو ایک ابدی زندگی کا مالک سمجھتا ہے کہ اسے صرف انسانیت کی خصوصی نعمت یعنی عقل سے زندگی بسر کرنا چاہئے ،اس کو ایک مادّی شخص کی طرح اپنی بنیاد اور معاد سے بے خبر نہیں رہنا چاہئے ،کہ یہ منطق حیوانی منطق میں مشترک ہے اور اس حالت میں انسان مادی لذتوں پر تسلط جمانے کے علاوہ کوئی آرزو نہیں رکھتا ۔قیامت پر ایمان اور معاد پر اعتقاد ایک حقیقت پسند انسان کی فکری،اخلاقی،روحی اور اس کے اجتماعی اور انفرادی اعمال کے تمام ابعاد پر واضح اثر ڈالتا ہے ۔

لیکن اس کی فکر پر اثر ،اس طریقہ سے ہے کہ وہ اپنے آپ کو اورتمام چیزوں کو ۔ جیسے وہ ہیں ۔ حقیقت پسندانہ نگاہ سے دیکھے ۔وہ اپنے آپ کو چند روز کے لئے محدود ایک انسانی موجود مشاہدہ کرتا ہے جو اس ناپائدار دنیا کا ایک جزو ہے ۔وہ اور عا لم ہستی کے دیگراجزا مجموعاًایک ایسے قافلہ کو تشکیل دیتے ہیں جو شب وروز ایک پائدار اورابدی دنیا کی حرکت میں ہے اور خلقت ’’علت فاعلی ‘‘ کے ’’رفع‘‘اور خلقت کی غرض وغایت (قیامت)کے ’’جذب‘‘کے درمیان ہمیشہ مسافرت میں ہو تا ہے ،لیکن اس کے روحی اخلاق میں اس صورت میں اثر ہوتا ہے کہ وہ اپنی واقع بینی اوراپنے اندورونی جذ باتی طرز تفکر کو بدل کر انھیں مقصد کے مناسب اسلوب سے محدود کرے ۔

جو شخص اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے خود کو اس ناپائدار عالم ہستی کے تمام اجزاء سے وابستہ جانتے ہوئے اپنے آپ کو طوفان کی خطر ناک لہروں کے پنجوں میں ایک تنکہ کے مانند گرتے اٹھتے عام مقصد کی طرف بڑھتا ہوا پائے ،تو وہ اس خود پسندی ،غرور اور جاہلانہ بغاوتوں کو اپنے دماغ میں پنپنے نہیں دے گا ، وہ خود کو شہوت پرستی ،نفسانی خواہشات اور ہوس رانی کاغلام نہیں بنائے گا ،اوروہ ایک چندروزہ انسانی زندگی کے لئے ضروری چیزوں کے علاوہ بے مقصد تلاش اورکوششوں کا اسیر وگرفتار بن کر خود کو ایک خود کار اور بے ارادہ مشین میں تبدیل نہیں کرے گا ۔اس کے نتیجہ میں انسانی زندگی کے فردی اور اجتماعی بلواؤں میں کافی حدتک کمی واقع ہوتی ہے ،پھر وہ اپنی تلاش و کوششوں کو ایسے کاموں میں ضائع نہیں کرے گا جن کے لئے قربانی دے کر جان ومال سے ہاتھ دھونا پڑ تا ہے ،کیونکہ اگر نیک کام انجام دینے کی راہ میں اس کی جان بھی قربان ہو جائے تو اس نے اس غمناک دنیوی زندگی کو کھو دیا ہے ،لیکن وہ اس طرح اپنی ابدی زندگی اور جانثاری کے نیک نتائج کو پاتا ہے اور ان سے خوشحال ہو گا ،اب اس سے ایک مادی اور معاد سے بے خبر شخص کے مانند اپنی دنیوی ضرورتوں کو پورا کر نے کے لئے فریب دینے والے اور گمراہ کر نے والے خرافات کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔اب وہ نہیں چاہتا ہے کہ اسے اس بات کی تلقین کی جائے کہ معاشرے کے مقدسات ۔آزادی ،قانون اور وطن کے مانند ۔ انسان کے لئے نیک نامی اور پائندگی لاتے ہیں جن کے ذریعہ وہ ایک ابدی اور فخر ومباہات کی زندگی پاسکتا ہے ،جبکہ اگر حقیقتاًانسان مر نے کے بعد نابود ہوتا ہے ،تو مرنے کے بعد زندگی اور فخر،خرافات کے علاوہ کوئی مفہوم نہیں رکھتے!!

یہاں پر،سوال کے آخر پر بیان کی گئی بات کا بے بنیاد ہونا واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ موت اور موت کے بعد والی دنیا کا تصور ،انسان سے نشاط کار اور زندگی کی سر گرمی کو سلب نہیں کرتا ،کیونکہ نشاط کار اور انسان کی سر گرمی احتیاج کی معلول حسّی ہے اور معاد کے تصور سے احتیاج کی حس نابود نہیں ہو تی ہے ۔اس مطلب کا گواہ یہ ہے کہ صدر اسلام کے مسلمان دینی تعلیمات کی بیشتر پیروی کرتے تھے اور ان کے دلوں میں معاد کا تصور دیگر توانائیوں سے زیادہ جلو گر تھا،وہ لاجواب اور حیرت انگیز اجتماعی سر گرمی میں مشغول تھے ۔

معاد پر ایمان کے روحی فوائد میں سے یہ ہے کہ انسان کی روح ہمیشہ اس ایمان سے زندہ ہے وہ جانتا ہے کہ اگر وہ کبھی کسی مظلومیت یا محرومیت سے دوچار ہو ا تو ایک دن آنے والا ہے جب انتقا م لیا جائے گا اور اس کا حق اس سے واپس ملے گا اور وہ جو بھی نیک کام انجام دے گا ایک دن اس کی بہترین صورت میں تجلیل وتعظیم کی جائے گی ۔

لیکن انسان کے فردی اور اجتماعی اعمال میں اس کا اثر اس طرح ہے کہ معاد کا معتقد انسان جانتا ہے کہ اس کے اعمال ہمیشہ تحت نظر اور کنٹرول میں ہیں اورا س کے ظاہر وباطن (مخفی وآشکار )اعمال خدائے داناو بینا کے سامنے واضح ہیں ایک دن آنے والا ہے جب پوری دقت سے اس کا حساب وکتاب کیا جائے گا ۔اور یہ عقیدہ انسان میں ایک ایسا کام انجام دیتا ہے جو ہزاروں مخفی پو لیس کے اہل کار اور مامورین سے انجام نہیں پا سکتا ہے ،کیونکہ وہ سب باہر سے کام کرتے ہیں اور یہ ایک داخلی چوکی دارہے جس سے کوئی رازچھپایا نہیں جاسکتا ہے۔ 


source : http://www.ahl-ul-bayt.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

صراط مستقیم کیا ہے ؟
خداوند متعال نے سب انسانوں کو مسلمان کیوں نھیں ...
امام حسین علیہ السلام کون ہیں؟
کیاامام زمانه کے زنده هونے پر عقلی دلائل موجود ...
کیا خداوندعالم کسی چیز میں حلول کرسکتا ہے؟
فلسفہ اور اسرار حج کیا ہیں؟
قمہ زنی(خونی ماتم) کے پیچھے کس کا مخفی ہاتھ ہے؟
عاشورائے حسینی کا فاتح کون؟
کیا قرآن مجید میں " پل صراط" کی طرف اشاره ھوا ھے؟
مذہب شيعہ باب مدينة العلم امام علي (ع) کے زمانے سے

 
user comment