اردو
Thursday 5th of December 2024
0
نفر 0

حضرت فاطمہ زہرا [س] کا صحیفہ

روایات اہل بیت علیہم السلام  میں مصحف کا نام آیا ہے جو کہ حضر ت زہر ا سلام اللہ علیہا سے منسوب ہے : بطور نمو نہ ”محمد بن مسلم امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ:حضرت فاطمہ (س) نے اپنے بعد ایک مصحف چھو ڑا ہے جو کہ قرآن نہیں ہے :شیعوں کے منابع حدیث میں اس طرح کی روایتوں کا وجو د باعث بنا کہ بعض غرض مند اور نادان لو گ شیعوں پر یہ الزام لگا ئیں کہ ان کے پاس اس قرآ ن کے علاوہ بھی جو کہ مسلمانوں کے درمیان رائج ہے کوئی دوسرا قرآن ہے۔اس لئے کہ لفظ مصحف قرآن کریم کے لئے مخصوص ہے اور مصحف فاطمہ کا مطلب ہوا:فاطمہ کا قرآن بعض دوسری روایتوں میں اس طرح نقل ہوا ہے کہ وہ ”مصحف فاطمہ “تمہارے قرآن کے مانند اور اس کے تین گنا ہے لہذا کہتے ہیں کہ :شیعوں کا اعتقاد یہ ہے کہ مو جو دہ قرآن اصل قرآن نہیں ہے اور اس کا زیادہ تر حصہ حذف ہو گیا ہے : لیکن در اصل کہنے والوں نے احادیث پر مجمو عی طور سے تو جہ نہیں کیا ہے اس لئے کہ خو د اہل بیت علیہم السلام  ”مصحف فاطمہ “ کی روایتوں کے ذیل میں اس نکتہ پر روشنی ڈال چکے ہیں کہ یہ مصحف قرآن نہیں ہے اور یہاں تک کہ آیت بھی قرآن کی اس میں شامل نہیں ہے : لیکن بہر حال اس غلط نتیجہ گیری کے باو جود ،اس کے علا وہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ مختصر طور پرحقیقت مطلب پر روشنی ڈالی جائے۔

مصحف کامعنی

مصحف کا معنی لغت میں ہے ایک کا غذپرلکھی ہو ئی چیزوں کا مجمو عہ یا کئی اوراق کا مجمو عہ جو کہ ایک جلدکی شکل میں ہوں۔جو ہر ی لکھتے ہےں : ”المصحف ہو الجامع للصحف ا لمکتو بة بین الد فتین“ مصحف اسے کہتے ہیں کہ جو مکتوبات اور تحریروں کا مجمو عہ جسے بین دفتین رکھ دیا گیا ہو/\نتیجہ یہ کہ لغت عرب میں مصحف کلی طور پر جلد شدہ کتاب کو کہا جاتا ہے اور صرف قرآن کے لئے مخصوص نہیں ہے ۔(۱)

مصحف کا لفظ نزول قرآن کے بعد  

بیشک مصحف کا لفظ نزول قرآن کے بعد بہت زیادہ استعمال ہو ا ہے اسی لئے قرآن کے لئے مشہور ہو گیا ہے ،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا لغوی معنی ختم ہو چکا ہے ،بلکہ یہ لفظ دوسرے معنوں میں بھی ،قرآن کے علاوہ استعمال ہو ا ہے ۔

لفظ مصحف قرآن اور احا دیث میں

قرآن دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ لفظ مصحف خود قرآن کے معنی میں استعمال نہیں ہو ا ہے ،جب کہ قرآن کے لئے بہت سے نام ہیں اور بعض نے پچاس تک گنایا ہے ،احادیث میں بھی دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم  [ص]نے لفظ مصحف کو علم ”نام“ کے عنوان سے قرآن کے لئے استعمال نہیں کیاہے۔تاریخ میں ہے کہ سب سے پہلی مرتبہ جب یہ لفظ خدا کی کتاب کے لئے استعمال ہو اہے تو وہ خلافت ابو بکر کے دور میں تھا۔سیوطی نقل کرتے ہےں کہ ”لما جمع ابو بکر القرآن قال سموہ فقال بعضہم :سمو ہ انجیلا فکر ہوہ ،و قال بعضہم : سموہ السفر فکر ہو ہ من یہو د ۔فقال ابن مسعود: رایت بالحبشہ کتابا ید عونہ المصحف فسموہ بہ“جب ابو بکر نے قرآن کی جمع آوری کیا تو اس نے حکم دیا کہ اس کا نام رکھا جائے :بعض نے اس کا نام انجیل رکھا لیکن اس نا م کو نا پسند کیا گیا ۔دوسرے گروہ نے اس کا نام ”سفر“رکھا پھر بھی یہو دیوں کی وجہ سے اسے بھی نا پسند کیا گیا لیکن ابن مسعود نے کہا : میں نے حبشہ میں ایک کتاب دیکھی ہے جسے مصحف کہتے تھے ،پھر قرآن کا نام ”مصحف “رکھا گیا ۔ڈاکٹر امتیاز احمد کتاب (دلائل التو ثیق المبکر للسنۃو الحد یث)میں لکھتے ہیں کہ ”لفظ مصحف صرف قرآن کے لئے استعما ل نہیں ہو ا ہے بلکہ بہت سی جگہوں پر ہے کہ کتاب کے معنی میںاستعمال ہو ا ہے کہ اس کے بعد وہ اس بات کے ثبوت میں کئی دلیلیں پیش کرتے ہیں :ڈاکٹر نا صر الدین اسد لکھتے ہیں کہ بہت مقامات پر جمع کئے گئے نو شتوں کے لئے لفظ مصحف استعمال کیا گیا ہے جس میں عام طور پر مقصود کتاب ہے صرف قرآن ہی نہیں“۳۔۔استاد بکر بن عبد اللہ کتاب ”معرفۃ النسخ و الصحیفۃ الحدیثیۃ “ میں لکھتے ہیں ”لفظ مصحف ان اصطلا حوں کے گروہ میں شامل ہے جو ان نو شتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن میں سنت تدوین کی گئی ہو “

مصحف لسان تابعین میں 

جس طرح لفظ مصحف صحابہ کی زبان میں غیر قرآن کے لئے استعمال ہو ا ہے اسی طرح ۔زبان تا بعین میں بھی استعمال ہو ا ہے۔ سیر ین نقل کرتے ہیں ”پیغمبر اکرم  [ص] کی وفات کے بعد حضرت علی  علیہ السلام نے قسم کھایا تھا کہ ردا نہیں اوڑھیں گے مگر جمعہ کے دن : یہاں تک کہ قرآن کو ایک مصحف میں جمع کرلیں ۔ربیع بن مہران سے بھی نقل ہوا ہے کہ اس نے کہاہے کہ ابی بکر کی خلافت میں مسلمانوں نے قرآن کو ایک مصحف میں جمع کرلیاتھا۔

مصحف فا طمہ (س) کا لکھنے والا کون ؟

مجموع روایات سے پتہ چلتا ہے کہ مصحف فاطمہ(س)کے کا تب اور لکھنے والے ۱۔حضرت علی ابن ابی طالب  علیہ السلام تھے۔۲حماد بن عثمان نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے مصحف فاطمہ کے بارے میں سوال کیا حضرت نے جواب میں فرمایا کہ امیر المو منین علی  علیہ السلام حضرت فاطمہ  علیہا السلام سے جو سنتے تھے اسے لکھتے جا تے تھے یہاں تک کہ وہ ایک مصحف کی شکل میں تیا ر ہو گیا۔ابو عبیدہ بھی امام صادق سے نقل فرماتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا علی  علیہ السلام اسے لکھتے جاتے تھے اور یہ وہی مصحف فاطمیہ (س)ہے۔۳علی بن ابی حمزہ امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ امام نے فرمایا ہمارے پاس مصحف فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حضرت علی  علیہ السلامکی تحریر ہے۔

املا ء کرنے والا کون ہے؟

بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ املا ء کرنے والا خدا ہے ۔ ابو بصیر امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ امام نے فرمایا بیشک ہمارے پاس مصحف فاطمہ (س)ہے اور کس چیز نے ان کو مصحف فاطمہ سے آگاہ کیا ہے؟بیشک وہ ایک نو شتہ ہے کہ جسے خدا نے املا ء کیا ہے اور ان حضرت کو وحی کیا ہے ۔۴بعض روایات میں آیا ہے کہ املا ء کرنے والا فرشتہ تھا۔۵اس کے علاوہ بعض دوسری روایات سے پتہ چلتا ہے کہ املاء کرنے والے جبرئیل تھے ۔ روایات کے ایک دستہ میں املاء کرنے والے رسول خدا کو معرفی کیا گیاہے۔ان روایات کے جمع کرنے کے بعد یہ معنی حاصل ہو تا ہے کہ خدا نے اسے اپنے عام یاخاص فر شتے کے ذریعہ پیغمبر اکرم  [ص] تک پہنچایا ہے اور پیغمبر  نے بھی اس کو حضرت زہرا (س) کے لئے قرائت کیا ہے اور امیر المو منین  علیہ السلام نے اسے لکھا ہے اور اس کا ایک حصہ جبرئیل کے ذریعہ مستقیما حضرت زہرا (س)پر نازل ہو اہے۔ اس کے باوجود کہ اس کی کتابت حضرت امیر المو منین  علیہ السلام کے ہاتھوں ہو ئی ہے لیکن اس کے حضرت فاطمہ (س) کے انتساب کا راز یہ ہے کہ مصحف کے مطالب کا الہام اور اس کی محا فظت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے کی ہے ۔

مصحف فاطمہ کا مضمو ن 

دو باتیں جو قطعی طور پر مصحف فاطمہ کے بارے میں نفی کی گئی ہیں وہ یہ ہیں

۱۔قرآن :

بہت سی روایات جن میں مصحف فاطمہ(س)کا تذکرہ ہو اہے،ان میں صریحی طور پر اس نکتے کو بیان کیا گیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ قرآن نہیں ہے بلکہ قرآن کی ایک آیت بھی اس میں نہیں آئی ہے محمد بن مسلم ،امام صادق  سے نقل فرماتے ہیں حضرت فاطمہ نے ایک مصحف چھوڑا ہے جو کہ قرآن نہیں ہے علی ابن ابی حمزہ عبد صا لح حضرت امام مو سی کا ظم  علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا مصحف فاطمہ ہمارے پاس ہے جس میں ایک آیت بھی قرآن کی آیتوں میں سے نہیں ہے ۴۔

۲۔احکام شرع :

صرف یہ نہیں ہے کہ مصحف فاطمہ (س)میں قرآنی آیتیں نہیں ہیں ،بلکہ یہ مصحف ہر قسم کے احکام حرام وحلال سے بھی خالی ہے امام صادق  علیہ السلامنے فرمایا ہے کہ ”جان لو کہ مصحف فاطمہ (س)میں کوئی حکم حلال و حرام کا نہیں ہے ۔

مصحف فاطمہ کے مطالب 

کسی بھی روایت میں مصحف فاطمہ کے سارے مطالب کی طرف اشارہ نہیں گیا ہے لیکن مجمو ع روایات سے بعض مطالب کا پتہ چلتا ہے ۔

۱۔مقام پیغمبر اکرم  [ص]

ابو عبید ہ امام صادق  علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں فاطمہ (س)اپنے بابا کے بعد ۷۵دن تک زندہ تھیں ،ان دنوں میں اپنے بابا کے فراق میں شدت سے غمگین تھیں ،جبرئیل ہمیشہ ان پر نا زل ہو تے تھے اور انھیں بابا کے سو گ میں تعزیت پیش کرتے تھے اور ان کی دلجو ئی کرتے تھے اور ان کے بابا اور ان کی جلالت اور ان کے مقام کی خبر انھیں دیتے تھے علی  علیہ السلام اس کو لکھتے جاتے تھے اور یہی ہے مصحف فاطمہ۔

۲۔ذریۃ زہرا سلام اللہ علیہا کا مستقبل

مذکورہ صحیح روایت میں آیا ہے ،اور اسے خبر دیتے تھے اس مظالم سے جو ان کی ذریت پر ہو نے والے ہیں اس کے علاوہ حمادبن عثمان کی حدیث میں امام صادق علیہ السلام  سے نقل ہے کہ حضرت نے فرمایا ہو شیار ہو اس میں ”مصحف فاطمہ “کو ئی حلال و حرام نہیں ہے بلکہ اس میں ان باتوں کا علم ہے جو آیندہ میں ہو نے والی ہیں ۔

۳۔ حوادث کا علم

ایک حدیث میں امام صادق  علیہ السلام  سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایامصحف فاطمہ تو اس میں ان امور کا ذکر ہے جو آیندہ میں ہو نے والے ہیں ۳۔

۴۔انبیاء و اوصیا ء کے نام

ایک روایت میں امام سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا کوئی بھی نبی یا و صی نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا نام ایک کتاب میں ہے جو میرے پاس ہے یعنی مصحف فاطمہ ۲،

۵۔باد شا ہوں اور ان کے باپ دادا کا نام

گذشتہ روایت میں امام صادق علیہ السلام  سے اس طرح نقل ہوا ہے کہ ”اور مصحف فاطمہ تو اس میں آنے والے امور کا علم ہے اور اس میں قیامت تک حکومت کرنے والے لو گوں کا نام ہے۔دوسری حدیث میں ان کے ناموں اور ان اباء واجداد کے نا موں کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

 

حوالے جات:

۱۔بصائر الدرجات،ص۱۵۵،ح۱۴۔

۲۔صحاح اللغہ ،ج۴،ص۱۳۸۴،تاج العروس ،ج۶،ص۱۶۱،لسان العرب ،ج۹،ص۱۸۶۔

۳۔الاتقان ،ج۱،ص۵۳۔

۴۔دلائل التوثیق المبکرللسنۃ والحدیث ترجمہ ڈاکٹر عبد المعطی،ص۲۶۸۔

۵۔مصادر الشعر الجاہلی ،ص۱۳۹۔

۶۔معرفۃ النسخ،ص۲۸۔

۷۔المصاحف،ص۱۰۔

۸۔وہی ،ص۹۔

۹۔اصول کافی ،ج۱،ص۲۴۰،ح۲۔

۱۰۔وہی ،ص۲۴۱،ص۵۔

۱۱۔بصائر الدرجات،ص۱۵۲،ص۳۔

۱۲۔اصول کافی ،ج۱،ص۲۴۵،ص۲۔

۱۳۔وہی ،ج۱،ص۲۴۱،ح۵۔

۱۴۔بصائر الدرجات،ص۱۵۷،ح۱۔

۱۵۔وہی ،ص۱۵۵،ح۱۴۔

۱۶۔وہی،ص۱۵۴،ح۸۔

۱۷ ۔اصول کافی،ج۱،ص۲۴۰،ح۲۔

۱۸۔وہی ،ص۲۴۱،ح۵۔

۱۹۔بحار الانوار،ج۲۶،ص۱۸،ح۱۔

۲۰۔اصول کافی ،ج۱،ص۲۴۰،ح۲۔


source : http://ahlulbaytportal.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

رسول اکرم کا طریقہ حکومت – دوسرا حصه
فاطمہ (س) کی معرفت لیلۃ القدر کی معرفت ہے
شیعیان علی جنتی مخلوق
خدیجہ(ع) کی دولت اور علی (ع) کی تلوار
نبی (ص) کی ذات محور اتحاد
امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت
امام زمانہ عج کی نیابت عام، مرجعیت تقلید سے ولایت ...
فضائل فاطمہ (س) قرآن کی زبانی
میراث فاطمہ علیہا السلام اور حدیث لا نورث کے بارے ...
حضرت علی (ع) سے شادی

 
user comment