اردو
Tuesday 30th of April 2024
0
نفر 0

فدک حضرت زہرا کی ملکیت

مقدمہ: دنیا کا یہ قانون ہے کہ جب کسی قوم کا کوئی قائدیا ان کا کوئی ہر دلعزیز شخصیت دار فانی کو وداع کر جاتی ہے اور قوم کا ہر فرد اسی کے لواحقین ،پسماندگان اور حتی کہ اس کے زندگی میں استعمال ہونے والے لوازمات تک کا احترام کرتے ہوئے اسے محفوظ رکھتی ہے

اور خصوصاً اگر اس مفقود رہبر نے کسی کے بارے میں سفارش کی ہو تو اس کی ہر خواہش پوری کرنے  اور اسے کسی طرح کی بھی تکلیف پہنچنے سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ اس یاد گار کے ذریعے اپنے اس پسندیدہ شخصیت کی یاد تازہ کر سکے۔لیکن ہم تاریخ اسلام میں ایک ایسا تاریک باب کا ملا حظہ کرتے ہیں جہاں مسلمانوں نے اپنے پیارے رسول کی اکلوتی یاد گار کے ساتھوہ نا روا سلوک کئے جو خود ان کے بقول روشن دن کو تاریک رات میں بدل دے انہی مظالم میں سے ایک جو مسلمانوں نے ان پر کئے ایک حادثہ غصب فدک ہے ۔فدک جو رسول اسلام نے اپنی خاص ملکیت سے نکال کر اپنی بیٹی کو بطور ہدیہ عطا کیا تھا ۔ہم ذیل کے ابحاث میں اسی موضوع پر ایک مختصر گفتگو کرنے کی کوشش کریں گے۔

فدک کی وجہ تسمیہ :انسان جب کسی جگہ کا مشاہدہ کرتا ہے یا اس کے متعلق کسی کتاب کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ سوال ضرور ابھرتا ہے کہ یہ جگہ کس نام سے موسوم ہے اور کیوں ہے؟اس لئے میں نے اس مقالے میں سب سے پہلے فدک کی وجہ تسمیہ اس کا محل وقوع کو بیان کیا ہے۔

فدک کو فدک اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس سر زمین کو فدک ابن حام نے آباد کیا ہے فدک خیبر کے نزدیک ایک خوب صورت بستی ہے جو آب وہوا کے اعتبار سے سر سبز وشاداب اور قابل دید ہے اس کی زمیں سرخیز تھی پہاڑوں کا سینہ چیر کر پھوٹنے والے چشموں نے اسے کچھ زیادہ ہی حیات بخش بنا رکھا تھا ۔چھرنوں سے پیدا ہونے والی آوازیں کسی خاص راز کی طرف اشارہ کر رہی تھیں اسی وجہ سے اس فدک کی سر سبز وشادابی پورے علاقے میں مشہور تھی ،مدینہ سے اس کا فاصلہ ایک سو چالیس کلو میٹر اور خیبر سے ایک منزل کے اصلے پر واقع ہے اس وقت یہ حجاز کے علاقوں میں یہودیوں کا مرکز شمار ہوتا ہے۔

حدود فدک :

خدا وند عالم نے اپنے حبیب حضرت رسول اللہ کو فدک پر فتح یابی عطا کرنے کے بعد حکم دیا کہ اس کو اپنے قرابتداروں کو دے دیں۔رسول اسلام  نے دریافت کیا کہ قرابت دار کون ہے ؟حکم ہوا کہ فدک جناب فاطمہ زہراکو دے دیا جائے۔لہذا رسول اللہ  نے فدک فاطمہ  کو عطا کر دیا جس کی حد ود اربعہ اس طرح ہے کہ اس کی ایک حد جبل احد دوسری عریش مصر اس کی تیسری اور چوتھی حد سیف البحراور دومۃ الجندل ہے اور یہ  سارے وہ علاقے ہیں جن پر نہ گھوڑے دوڑ ہائے گئے اور نہ ہی جنگ وجدال ہوئی ہے

(۔۱)اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ فدک کا حقیقی حق دار حضرت زہرا  اور  ان اولاد اطہار ہیں ۔

فدک جناب زہر ا کے پاس :

جناب فاطمہ اور ابو بکر کے درمیانی اہم ترین نزاع واختلافات میں سے ایک فدک کا معاملہ تھا ،حضرت فاطمہ مدعی تھی کہ رسول خدا ؐ نے اپنی زندگی میں انہیں بخش دیا تھا لیکن ابو بکر اس کا انکار کرتا تھا ۔ ابتدا میں تو جھگڑا ایک عادی شمار ہوتا تھا لیکن بعد میں اس نے تاریخ کے ایک ام واقعہ اور حساس کی صورت اختیار کر لی ۔ کہ جس کے آثار اور نتائج کئی سالوں تک اسلامی معاشرہ کے دامن گیر رہے اور ابھی بھی ہے ۔اس نزاع میں حق کو اچھی طرح واضح اور روشن کرنے کے لئے چند مطالب کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے ۔

پہلا مطلب :اعتراض :کیا پیغمبر  کو حکومت کے اموال اپنی بیٹی کو بخش دینے کا حق تھا یا نہیں؟

ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ غنائم اور دوسرے   حکومت کے خزانے تمام مسلمانوں کے ہوتے ہیں اور حکومت کی زمین کو حکومت کی ملکیت میں ہی رہنا چاہے لیکن ان کی آمدنی کو عام ملت کے منافع اور مصالح  پر خرچ کرنا چاہےلہذا پیغمبر ؐکے لئے جو ہر خطا ولغزش سے معصوم تھے  ممکن ہی نہ تھا کہ وہ فدک کو جو خالص آپ کا ملک تھا اور اپنی بیٹی زہرا ؑکو بخش دیتے۔

لیکن اس  کا اعتراض کا جواب اس طرح دیا جا سکتا ہےکہ انفال اور اموال حکومت کی بحث ایک بہت وسیع اور عریض بحث ہے جو ان اوراق میں تفصیل کے ساتھ تو بیان نہیں کی جا سکتی لہذا ہم اپنے مقالے میں اس پر ایک سرسری نگاہ ڈالیں گے۔اگر ہم یہ تسلیم بھی کر لیں کہ فدک بھی غنائم اور عمومی اموال میں سے ایک تھا اور اس کا تعلق نبوت اور امامت کے منصب سے تھا یعنی اسلامی حاکم شرع سے تعلق رکھتا تھا،یہ ان اموال میں سے تھا جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا اور نصوص اسلامی اور پیغمبر کی سیرت کے مطابق اس قسم کے اموال جو بغیر جنگ کے ہاتھ آئے یہ پیغمبر کے خالص مال شمار ہوتے ہیں البتہ خالص اموال کو بھی یہ کہا جائے کہ آپ کا شخصی مال نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کا تعلق بھی حاکم اسلامی اور حکومت سے ہوتا ہے تب بھی اس قسم کے اموال کا ان عمومی اموال سے جو حکومت سے متعلق ہوتے ہیں بہت فرق ہوا کرتا ہے۔

کیوں کہ اس قسم کے مال کا اختیار پیغمبر کے ہاتھ میں ہے اور آپ اس قسم کے اموال میں تصرف کرنے میں محدود  نہیں ہوا کرتے بلکہ آپ کو اس قسم کے اموال میں بہت وسیع اختیارات حاصل ہوا کرتے  ہیں اور اس کے خرچ کرنے میں آپ اپنی مصلحت اندیشی اور صوابدید کے پابند اور مختار ہوتے ہیں۔یہاں تک اگر عمومی مصلحت اس کا اتقاضا کرے تو آپ اس کا کچھ حصہ ایک شخص کو یا کئی افراد کو دے بھی سکتے ہیں تا کہ وہ اس کے منافع سے بہرہ مند ہوں اس قسم کی تصرفات کا کرنا اسلام میں کوئی اجنبی اور پہلا تصرف نہیں ہو گا بلکہ رسول خدا ؐ نے اپنی اراضی خالص سے کئی افراد کو چند زمین  کے قطعات دئیے تھے کہ جسے اصطلاح میں اقطاع کہا جاتا ہے۔

بلاذری نے لکھا ہے کہ پیغمبر خدا نے زمین کے چند قطعات بنی نضیر،ابو بکر۔عبد الرحمن ابن عوف اور جناب ابو  دجانہ وغیرہ کو عنایت فرما دیئے تھے(۲)۔

ایک جگہ اور اسی بلاذری نے لکھا ہے کہ رسول خدا نے بنی نضیر کی زمینوں میں سے  ایک قطعہ زمین اس کے اندرموجود کجھور کی درختوں کے ساتھ زبیر بن عوام کو دے دیا تھا(۳)۔

بلاذری مزید لکھتے ہیں کہ رسول خداص نے زمین کا ایک قطعہ کہ جس میں پہاڑ اور معدن تھاجناب بلال کو دے دیا(۴)۔

پس اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیےکہ حاکم شرع اسلامی کو حق پہنچتا ہے کہ زمین خالص سے کچھ مقدار کسی کسی معین آدمی کو بخش دے تاکہ وہ اس کے منافع سے استفادہ کرے ،پیغمبر  نے بھی بعض افراد کے حق میں ایسا عمل انجام  دیا ہے۔

ان شرعی قوانین کی بناپر کوئی مانع موجودنہیں کہ رسول خدا فدک کی اراضی کو جناب زہرا کو بخش دےصرف اتنا مطلب رہ جائے گا کہ آیا رسول خدا  نے فدک فاطمہ ؑکو بخشا تھا یا نہی؟تو اس بات کو ثابت کرنے کے لئے پیغمبر کی وہ اخبار اور روایات جو ہم تک پہنچی ہیں کافی ہےکہ آپ نے فدک جناب فاطمہ کو بخش دیا تھا نمونے کے طور پرچند ہم یہاں مختصراً پیش کرتے ہیں ۔ابو سعید خزری رویت کرتے ہیں کہ جب آیت"وات ذالقربی حقہ"(۵)نازل ہوئی تو رسول خدا نے جناب فاطمہ سے فرمایا کہ فدک تمہارا مال ہے۔(۶)

عطیہ نے روایت کی ہےجب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول خدا نے جناب فاطمہ کو اپنے پاس بلایا اور فدک آپ کو دے دیا۔(۷)

امام سجاد  فرماتے ہیں کہ رسول خدا نے فدک جناب فاطمہ کو د ےدیا تھا۔(۸)

امام جعفر صادق نے فرمایا  ہےکہ  جب یہ آ یت نازل ہوئی تو پیغمبرص نے فرمایا کہ مسکین تو میں جانتا ہوں یہ "ذی القربی"کون ہیں؟جبرایئل نے عرض کی یہ آپ کے اقرباء ہیں پس رسول خدا نے امام حسن  امام حسین  اور حضرت فاطمہ کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ اللہ تعالی نے دستور اور حکم دیا ہے کہ میں تمہارا حق تمہیں دے دوں  اس لئے میں فدک تمہارے نام کرتا ہوں ۔(۹)

ابان بن تغلب نے کہا ہے کہ میں نے امام  جعفر صادق  کی خدمت میں عرض کی آیا رسول خداص نے فدک جناب فاطمہ کو دیا تھا ؟

آپ نے فرمایا :فدک تو خدا کی طرف سے جناب فاطمہ کے لئے معین ہوا تھا۔(۱۰)

حق فاطمہ  کا ثبوت:

۱۔قانون ید: جو کہ قاعدہ ید سے مشہور ہے  اور ملکیت کی ایک دلیل ہے۔

۲۔ہدیہ وعطیہ پیغمبر ص:یعنی رسول اسلام  نے فدک جناب فاطمہ کو ہبہ کر دیا تھا۔

۳۔ارث کا ذریعہ:

اب ہم مختصر  طریقے سے ان تین طریقوں کے ذریعے فدک پر حضرت زہرا کے قبضے میں ہونا مسلم ہے چونکہ آپ اس کے ذریعے ہونے والی در آمد کو اپنے ارادہ واختیار سےخرچ کرتی تھیںاور اپنی طرف سے نمائندوں اور وکیلوں  کو اس پر مقرر کرتی تھیں جن کو خلیفہ وقت نے ہٹانے کے بعد فدک کی سر زمین پر اپنے کارندے تعینات کر کے غاصبین فدک کا گواہ طلبی کرنا رسول اسلام  کی اس حدیث

"البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر"کے سراسر خلاف ہے اس لئے کہ دلیل وبرہان اور گواہ اس شخص کو قائم کرنا پڑتا ہےجو موجودہ قضیہ کے بر خلاف ادعا کرے اور جو شخص اس ادعا کو بے بنیاد قرار دے اور اس کا منکر ہو جائےتو اسے صرف قسم کھانی پڑتی ہے۔

اس لحاظ سے جن لوگوں نے یہ ادعا کی ہے کہ فدک فاطمہ  کا حق نہیں ہے بلکہ تمام مسلمانوں کا حق ہے انہیں چاہیے تھا کہ پہلے دلیل وبرہان سے ثابت کرتے اور گواہوں کو پیش کرتے تب فدک جناب فاطمہ سے واپس لیتے نہ یہ کہ جناب فاطمہ  سے گواہی طلبی کر کےاپنی جہالت کا ثبوت دیتے چونکہ آپ سے گواہ طلبی کرنا مزکورہ حدیث کی سراسر مخالفت ہے۔

ہدیہ وعطیہ پیغمبر اسلام  :

رسول اسلام نے فدک جناب فاطمہ کو ہبہ کیا تھا قرآن وسنت سے یہ بات واضح ہے کہ فدک رسول اکرم کی خالص ملکیت تھی اور آپ نے اس آیت "وات ذالقربی حقہ"(۱۱)کے نزول پر فاطمہ کو عطیہ کر دیا تھا لہذا طبیعی طور پر فدک آپ کا حق تھابطور مثال چند حوالے ملاحظہ کریں۔

حلبی نے تحریر کیا ہے کہ جب فدک چھین لیا گیا تو دختر رسول  ابو بکر کے پاس گئے اور فرمایا:فدک میرے باپ کا عطیہ ہے جسے انہوں نے اپنی زندگی میں میرے حوالے کر دیا تھاابو بکر نے اس  حقیقت سے انکار کیا  اور گواہ طلب کر ڈالے جناب فاطمہ  نے جس وقت یہ دیکھا کہ خلیفہ مجھ سے آئین اسلام کے برخلاف گواہ طلب کر رہا ہے تو حضرت علی ؑ کو ابو بکر کے پاس لے گئیں جن کے سامنے رسول اسلام  نے ہبہ نامہ تحریر کیا تھا۔

حضرت علی علیہ اسلام نے گواہی دی کہ فاطمہ  صحیح کہتی ہیں کہ یہ ہبہ نامہ  خودرسول اسلام  نے تحریر کیا ہے ابو بکر نے کہا کیا فدک واپس لینے کے لئےصرف ایک مرداور ایک عورت کی گواہی قابل قبول ہے؟اسی طرح دوسری جگہ پر نقل ہوا ہے کہ ابو بکر نے کہا اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لئےگواہ لے کر آؤانہوں نے ام ایمن کو بطور گواہ پیش کیا ام ایمن نے کہا اے ابو بکر میں اس وقت گواہی نہ دوں گی جب تک تم رسول اسلام  کی اس حدیث کہ"ام ایمن ایک جنتی خاتون ہے"پر اظہار نظر نہ کر دو۔ابو بکر نے کہا یہ حدیث صحیح ہے۔

اس کے بعد ام ایمن نے کہا :میں گواہی دیتی ہوں کہ خدا نے رسول اللہ پر وحی نازل کی  فات ذالقربی حقہ"(۱۲)تو فدک رسول اللہ  نے فاطمہ کو بخش دیا اس کے بعد حضرت علی  نے بھی اس طرح کی گواہی دی اور ابو بکر نے فدک جناب فاطمہ کو واپس کرنے کے لئے حکم نامہ تحریر کر دیا ابھی آپ وہاں سے واپس نہیں آئی تھیں کہ عمر بن خطاب آگئےاور پوچھا یہ تحریر نامہ کیسا ہے ؟ابو بکر نے مکمل حالات سے آگاہ کیا اور کہا:

فدک کو واپس کر دیا ہے چوں کہ رسول اسلام  فدک فاطمہ  کے حوالے کر گئے تھے جس پر ام ایمن اور حضرت علی  نے گواہی دی ہے،عمر آگے بڑھے تحریر نامہ لیا اور ابو بکر کے سامنے اس کی تحریر پر تھوکا اور پھاڑ دیا ابو بکر نے کچھ نہیں کہا،حضرت فاطمہ روتی ہوئی واپس گھر آگئیں۔(۱۳)

حضرت امام جعفر صادق  فرماتے ہیں :جناب فاطمہ  حضرت علی  کی پیش نہاد پر ابو بکر کے پاس گیئں اور فرمایا:اے ابو بکر تم میرے باپ کی مقدس جگہ پر بیٹھے ہوئے ہو اور اپنے آپ کو ان کا جانشین گردانتے ہو اگر فدک بذات خود تمہاری ملکیت ہوتا اور میں اس کا مطالبہ کرتی تو تمہارے لئے ضروری نہ تھا کہ مجھے واپس کرتے۔ابو بکر نے کہا تم بالکل ٹھیک کہتی ہو اور اسے واپس کرنے کے لئے حکم نامہ تحریر کر دیا راستے میں عمر ا بن خطاب ملے اور فاطمہ کے ہاتھ میں خط دیکھ کر اس کے بارے میں استفسار کیا آپ نے فرمایا ابو بکر نے فدک واپس کرنے کے لئے نوشتہ دیا ہے عمر نے خط لینا چاہا لیکن آپ نےخط دینے سے انکار کر دیا جس پر عمر نے جناب فاطمہ کے چہرے پر سیلی لگائی اور خط لے کر پارہ پارہ کر دیا۔(۴۱)

جناب فاطمہ زہرا نے فرمایا :تو نے میرے خط کو پھاڑ ڈالا خدا تیرے پیٹ کو چیر ڈالے ۔(۱۵

پس  معلوم ہو گیا کہ فدک خود پیغمبر اسلام نے ہی اپنی زندگی میں اپنی بیٹی کو ہبہ کیا تھا اور خلیفہ اول نے اسے غصب کر لیا لیکن جب انہوں نے اہل بیت ؑ کے خلاف اس اقتصادی ظلم کے خلاف آواز اٹھایئں تو قوانین قضائی اسلام کے خلاف خلیفہ وقت نے آپ سے گواہ طلب کیا،گواہوں کی گواہی پر خلیفہ اوّل فدک کی واپسی کا نامہ بھی تحریر کر چکا تھا لیکن معاملہ ابن خطاب نے آکر پھر سے خراب کر دیا۔

ارث کا ذریعہ:

جناب فاطمہ کا ابو بکر سے ایک نزاع اور اختلاف رسول خدا  کی وراثت کے بارے میں تھا تاریخ اور احادیث کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جناب فاطمہ سرسول خدا ؐ کی وفات کے بعد ابو بکر کے پاس گئیں اور اپنے والد کی وراثت ان سے طلب کیا ابو بکر نے جناب فاطمہ کو وراثت کے عنوان سے کچھ بھی نہ دیا اور یہ عذر پیش کیا کہ پیغمبر میراث نہیں چھوڑتے  اور وہ جو کچھ مال  وہ صدقہ ہے۔

اور اس مطلب کے لئے انہوں نے ایک حدیث  بھی بیان کی جس کے راوی  وہ خود  ہےاور کہا کہ میں نے آپ کے والد سے سنا ہے کہ ہم پیغمبر سونا چاندی زمین اور ملک اور گھر بار میراث میں نہیں چھوڑتے بلکہ ہماری وراثت ایمان اور حکمت علم ودانش اور شریعت ہے میں اس موضوع میں پیغمبر کے دستور اور ان کی مصلحت کے مطابق کام کروں گا۔(۱۶)

قرآن میں قانون وراثت:

قرآن کریم  میں  وراثت کے  متعلق قانون وارد ہوا ہے خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اللہ تمہیں اولاد کے بارے میں سفارش کرتا ہے کہ لآڑکے کا حصہ لڑکی کے دو برابر ہے۔(۱۷)

یہ آیت اورقرآن کی دوسری آیات جو میراث کے بارے  میں نازل ہوئی ہیں ان میں کلیت اور عمومیت ہے اور وہ تمام لوگوں کو شامل ہے اور پیغمبر کو بھی یہی آیت شامل ہے۔پیغمبر بھی ان نصوص کلیہ کی بنا پر  میراث چھوڑنے والے سے میراث حاصل کریں گے اور ان کے اپنے اموال بھی ان وارثوں کو ملیں گے انہی نصوص کلیہ کی بنا پر ہمارے رسول ؐ کے اموال اور ارث کو ان کے وارثوں کی طرف منتقل ہونا چاہیے ۔البتہ اس قانون ارث کے عموم اور کلیات میں کسی قسم کا شک نہیں کرنا چاہیےلیکن یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا کوئی قطعی دلیل ہے جو پیغمبروں کو اس کلی اور عمومی قانون وراثت سے خارج اور مستثنی قرار دے رہا ہے ۔

قرآن کی مخالفت میں ابو بکر کی حدیث:

یہ حدیث جو ابو بکر نے روایت کی سرا سر قرآن کے مخالف ہے کیوں کہ قرآن میں تصریح کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ پیغمبر بھی دوسرے مردوں کی طرح میراث چھوڑتے ہیں جیسا کہ آئمہ طاہرین نے فرمایا ہے جو حدیث قتآن کے مخالف ہو وہ معتبر نہیں ہوا کرتے اسے دیوار پر دے مارنا چاہیے۔

ان آیات میں سے جو انبیاء کے ارث چھوڑنے کو بتلاتی ہے ایک یہ ہے۔

ذ کر رحمۃ۔۔۔رب رضیا

ولقد اتینا۔۔۔لھو الفضل المبین

اس آیت میں خدا وند عالم سلیمان کے بارے میں فرماتا ہے کہ آپ جناب داود کے وارث ہوئے اور کلمہ وارث کا ظہور مال کی وراثت میں ہے جب تک اس کے خلاف کوئی قطعی دلیل موجود نہ ہو تب اس سے مراد مال  کی وراثت ہی ہو گیاسی لئے تو حضرت زہرا نے ابو بکر کے مقابلے میں اس آیت سے استدلال کیا ہےجب کہ حضرت زہرا قرآن کے نازل ہونے والے گھر میں تربیت پا چکی تھیں۔

نتیجہ:

جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ فدک کا فاطمہ زہرا کی ملکیت ہونے کا معاملہ کس قدر شفاف تھا لیکن خلیفہ نے آئین قضائی اسلامی کی مخالفت کرتے ہوئے منکر سے گواہی مانگ کر اس قضیے کو اتنا پیچیدہ بنا دیا کہ جسے بعض مسلمان آج تک نہیں حل کر پائے ہیں ۔در حقیقت معاملہ اتنا پیچیدہ نہیں تھا کیوں کہ یہ سر زمین غیر جنگی فتوحات  میں حاصل شدہ زمین تھی جو نصوص اسلامی کے مطابق رسول  اللہ  کی ملکیت تھی ۔

اولاًآپ اسے حضرت زہرا کے نام ہبہ کیا تھا ثانیاًاگر کوئی ہبہ کو نہ مانے اور علی ع،ام ایمن ،حسنین  اور دیگر اصحاب وصحابیات کی گواہی کو ٹھکرا دے تو یہ ارث کے عنوان سے بھی حضرت زہرا کی ملکیت میں آسکتی ہے جیسے کہ ہم نے سابقہ بحث میں اس بات کو مختصر انداز میں ثابت کرنے کی کوشش کی۔

والسلام علی من اتبع الھدی گلزار حسین مہدوی حوزہ علمیہ قم اسلامی جمہوریہ ایران ۱۹ ربیع الثانی ۱۴۳۲ 

۱۔وسائل الشیعہ ج۹/ص۵۲۵ /روایت ۱۲۶۲۹،شیخ حر عاملی۔

۲۔فتوح البلدان ص ۳۱،بلاذری۔

۳۔ایضا ًص۳۴

۴۔ایضاًص۲۷

۵۔سورہ اسراء آیت ۶۲

۶۔کشف الغمہ ج۲ ص۱۰۲،در المنثور ج۴ ص۱۷۷۔

۷۔ایضاً

۸۔ایضاً

۹۔تفسیر عیاشی ج۲ /ص۲۷۶۔

۱۰۔ایضاً

۱۱۔سورہ اسراء آیت ۲۴۔

۱۲۔سورہ روم آیت ۸۳۔

۱۳۔سیرۃ الحلبیہ ج۳ /ص۳۹۱۔

۱۴۔الشافی ص۲۳۶،سید مرتضی علم الہدی۔

۱۵۔وفاۃ الصدیقۃ الزہراس ص۷۸،عبد الرزاق بن محمد مقرم۔

۱۶۔شرح ابن ابی الحدید ج۱۶/ص۱۱۴۔

۱۷۔سورہ نساء آیت ۱۱۔

۱۸۔سورہ مریم آیت ۲تا۶۔

۱۹۔سورہ نمل آیت ۱۵۔۱۶

 


source : http://mahdicenter.com/index.php/elmi-maqalat/maqalat-tullab/31-fadak-e-fatima-sa
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت علی (ع) کی وصیت دوست کے انتخاب کے بارے میں
مصائب امام حسن مجتبی علیہ السلام
نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے دادا
قرآن میں انبیاء کرام کے معنوی جلوے
امام جعفرصادق (ع): ہمارے شیعہ نماز کے اوقات کے ...
حضرت امام علی علیہ السلام کی شان میں چالیس احادیث
امام مہدی(عج) کے فرمان اور دعوی ملاقات میں تضاد
فاطمہ (س) کی معرفت لیلۃ القدر کی معرفت ہے
محافظ کربلا ا مام سجاد عليہ السلام
حسین آؤ کہ آج دنیا کو پھر ضرورت ہے کربلا کی

 
user comment