مقدمہ:
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اﷲ علیہا ) کی شخصیت کو پہچاننا اور ان کی شخصیت کا عرفان حاصل کرنا خصوصاً شیعہ خواتین کے لیے ، بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے دینی تعلیمات کو بہتر درک کرنے ، تاریخ اسلام کے نشیب و فراز کو پہچاننے اور اسلام کی تمام تر خوبیوں کو حاصل کرنے کی راہ میں بہت معاون ہے ۔ آج تک دنیا کے مفکرین خصوصاً مسلمان مفکرین نے یہ کوشش کی ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالیں تاکہ مسلمان انکے مناقب و مراتب سے آشنا ہوسکیں لیکن ان کی یہ تمام کوششیں معصومین کے نورانی و وحیانی بیانات و کلام کے بغیر نا ممکن ونا مکمل سی ہیں ۔ کیوں کہ معصومین کی احادیث و اقوال زرّین سے چشم پوشی کرتے ہوئے کو ئی بھی مسلمان مفکر یا مورخ حضرت فاطمہ زہرا کی بلند پایہ شخصیت کا اندازہ نہیں لگا سکتا اسی لیے ان کی ساری کوششیں ناکام اور بے فائدہ ہیں ۔.
میں نے اپنے اس مختصر سے مقالہ میں کوشش کی ہے کہ حضرات معصومین کی کچھ احادیث کو جو شیعہ و سنّی دونوں کے نزدیک قابل قبول اور مورد تائید ہیں تحریر کروں تا کہ صحیح معنوں میں حضرت فاطمہ زہرا کی بلند پایہ شخصیت کا عرفان حاصل کیا جاسکے۔
١۔ حضرت فاطمہ زہرا رسول خدا ۖکے کلام کی روشنی میں
ایک باپ سے زیادہ اپنے فرزند اور اولاد کی تعریف کون بیان کرسکتا ہے ؟ وہ اس بات پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ دوسروں کے سامنے اپنے فرزند کو پہچنوا سکے ۔ ایک ایسا باپ جو خود اپنی زندگی میں بے نظیر ہے ۔ جس کا قول و عمل اور کردار صداقت کی معراج پر ہے کبھی بے کار کی باتوں میں دلچسپی نہیں رکھتا ۔ وہ کائنات کے اسرا ر و رموز سے آگاہ ، علم کا ٹھا ٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو اولین و آخرین کے سر چشمہ علوم یعنی خدائے وحدہ لا شریک سے ہمیشہ رابطہ میں ہے ۔ کتنا اچھا ہو گا کہ حضرت فاطمہ زہرا کی تعریف و توصیف اور منزلت کواس عظیم المرتبت باپ کی زبانی ذکر کریں جو خود خداوند عالم کے نزدیک کائنات میں سب سے زیادہ عزیزو محبوب ہیں ۔
حضرت فاطمہ زہرا تمام عورتوں کی سردار
پیغمبر اسلام ۖ یعنی امت اسلامی کے رہبر و پیشوا آپ کی تعریف میں فرماتے ہیں : فاطمہ زہرا اس امت کی عورتوں کی سردار ہیں (١)در حقیقت حضرت زہرا پیغمبر اکرم ۖ کے اس فرمان کی روشنی میں مسلمان خواتین کی سردار ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا انسان کامل
رسول خدا سے نقل ہے کہ آپ نے فرمایا : مردوں میں بہت سوں نے کمال کی بلندی کو حاصل کیا لیکن صنف نسواں میں چار عورتوں کے علاوہ کسی نے بھی انسان کامل کے مقام کو حاصل نہیں کیا ان چارخواتین میں ایک آسیہ بنت مزاحم ہمسر فرعون ، دوسری حضر ت مریم بنت عمران، تیسری خدیجہ بنت خویلد اور چوتھی حضرت فاطمہزہرا بنت محمدۖ ہیں(٢).دوسرے لفظوں میں پیغمبر اسلام ان چاروں کو تمام عورتوں کے لئے زندگی کے ہر مرحلہ میں ، روز اول سے آنے والی تمام خواتین کے لئے نمونہ عمل کی صورت میں پہچنوا رہے ہیں تاکہ عورتیں اپنی زندگی کے تمام امور میں ان کی تأسی و پیروی کرکے کمال کی بلندیوں کو حاصل کرسکیں۔
حضرت فاطمہ زہرا نسان کی شکل میں حور ہیں
پیغمبر اکرم ۖ ہر انسان سے بہتر زمین و آسمان کی حقیقتوں سے آگاہ ہیں ۔ اسماء بنت عمیس کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا :اے اسماء صحیح معنوں میں فاطمہ زہرا وہ حور جنت ہیں جسے خدانے انسان کی شکل میں خلق کیا ۔ (٣) ایک دوسرے مقام پر آپ فرماتے ہیں: فاطمہ زہراوہ حور بہشت ہیں جو انسانوں کی شکل میں ہیں(٤) پیغمبر اسلام ۖ کی یہ تعبیر ان تعبیروں میں سے ایک بہترین تعبیر ہے جو شخصیت حضرت فاطمہ زہرا کو اور زیادہ نمایاں کرتی ہے ان کی عصمت و طہارت اور ہر طرح کے عصیان و خطاء سے پاک ہونے کا اعلان کر رہی ہے کیونکہ حور کا تقاضہ ہے کہ وہ جسم و روح کی خوبصورتی اور صداقت و خوشروئی و ...سے مزین ہو ۔ دوسری جہت سے عصمت کی سند بھی ہے یعنی گناہوں سے دوری ۔ کیوں کہ حور بہشت کی مخلوق ہے جہاں گناہ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
حضرت فاطمہ زہرا بہشت کی خوشبووں سے معطر ہیں
خاتم الانبیائۖفرماتے ہیں : جب بھی میں بہشت کا مشتاق ہوتا ہوں تو فاطمہ زہرا کا بوسہ لے لیتا ہوں(٥) ۔آنحضرتۖنے یہ حدیث ارشار فرمانے کے بعد بھی جنت کی خوشبوکی آرزو کی تو حضرت فاطمہ زہرا کا بوسہ لیا (٦)
حضرت فاطمہ زہرا کمال حسن ونیکی
پیغمبر خدا ۖ حضرت فاطمہ زہرا کی شخصیت کو پہچنواتے ہوئے فرماتے ہیں : اگر تمام طرح کی نیکیوں اور حسن و جمال کو کسی ایک پیکر میں دیکھا جائے تو یقینا وہ صرف حضرت فاطمہزہرا کا وجود مطہر ہے جس میں دونوں چیزیں بطور اتم موجود ہیں۔ میری بیٹی فاطمہ زہرا لوگوں میں کرامت و شرافت کے اعتبار سے سب سے بہتر ہے ۔(٧)
پیغمبر خدا ۖکی یہ حدیث حضرت فاطمہ زہرا کے بے شمار کمالات کو بیان کررہی ہے ۔ یعنی حضرت فاطمہ زہرا میں ہر طرح کی نیکی و خوبی ،اخلاق و تواضع ، خوش خلقی وملنساری اور کمالات انسانی کے تمام مدارج پائے جاتے ہیں ۔ ہر وہ چیز جو دین اسلام کے کمال کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے آپ میں موجود ہیں ۔
حضرت فاطمہ زہرا ہدایت کا چمکتا ہوا ستارہ
رسول اسلام ۖ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ سورج کے سراغ میں رہو ، جب سورج غروب ہو جائے تو شب میں چاند کے سراغ میں رہو ، جب چاندڈوب جائے تو زہرہ ستارہ کے سراغ میں رہو ، اور جب زہرہ بھی دکھائی نہ دے (چھپ جائے ) تو فرقدین کے سراغ میں رہو۔ اصحاب نے پوچھا : اللہ کے رسول : سورج سے مراد کون ہے ؟ فرمایا : میں ۔ انہوں نے کہا : چاند سے مراد ؟ فرمایا : علی ، عرض کیا : زہرہ سے مراد کون ہے ؟ فرمایا : حضرت فاطمہ زہرا ۔ پھر پوچھا : فرقدین سے مراد کون ہے ؟ فرمایا حسن و حسین (٨)۔
حضرت فاطمہ زہرارسول خدا کی پارہ تن ا
اس سلسلے میں رسول خدا ۖ سے بہت زیادہ روایتیں نقل ہوئی ہیں جو اس مضمون کو بیان کرتی ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا (س) رسول خدا ۖجسم کا ایک ٹکرا ہیں جس نے بھی فاطمہ زہرا (س ) کو اذیت پہچائی رسول کو اذیت پہچائی اور جس نے فاطمہ زہرا (س) کو خوشحال کیا اس نے رسول کو خوش کیا (٩) یہ تمام حدیثیں اس بات پر دلالت کر رہی ہیں کہ رسول خداۖ کو کس حد تک حضرت فاطمہ زہرا (س) سے قلبی و عاطفی لگاؤ تھا ۔ دوسرے لفظوں میں یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا (س) خداوند متعال کی وہ فرمانبردار کنیز ہیں جو خداو رسول کی اطاعت گزاری میں اس قدر مستحکم و خالص ہیں کہ ایک قدم بھی حق کے راستے سے دور نہیں ہیں ۔ اطاعت و پیروی اس درجہ پر فائز ہے کہ ان کی خوشنودی و رضا ، رسول کی رضا ہے اور ان غضب رسول کا غضب ہے ۔اسی وجہ سے رسول اللہۖ نے فاطمہ زہرا (س ) کو پارہ تن سے تعبیر کیا ہے یعنی فاطمہ زہرا (س) رسول کے جسم کا ایک ٹکڑا ہیں ۔حضرت فاطمہ زہرا (س) کی اذیت کو اپنی اذیت اور ان کی خوشی کو اپنی خوشی بتا کر مسلمانوں کو پہچنوانا چاہتے ہیں تاکہ لوگ ان کی عظمت و منزلت سے آگاہ ہوجائیں۔
حضرت فاطمہ زہرا (س ) قلب رسول ۖکی خوشحالی کا سبب
پیغمبر خدا ۖنے فرمایا : فاطمہزہرا (س) میرے قلب کی فرحت و خوشی ہے اس کے فرزند میوہ قلب ، شوہر میری آنکھوں کا نور اور آئمہ طاھرین( جو کہ آل کی نسل سے ہیں ) خدا کے امین ہیں، یہ خالق و مخلوق کے درمیان وہ ریسمان ہے جو انسان کو خدا سے جوڑتی ہے ۔ جو بھی ان سے متمسک رہے گا نجات پائے گا ۔ اور جو بھی ان سے دوری اختیار کرے گا وہ گمراہ ہو جائے گا . (١٠)
فرمان رسول کے مطابق حضرت فاطمہزہرا (سلام اﷲ علیہا ) کا پورا وجود رسول اسلام ۖ کی خوشحالی کا سبب ہے .( البتہ یہ حدیث ایک جہت سے حدیث ثقلین کی تفسیر بھی بیان کررہی ہے جو اہل علم و عمل کے لئے قابل فکرہے ۔)
حضرت فاطمہ زہرا (س) سے دوستی و دشمنی ، رسول سے دوستی و دشمنی ہے ۔
رسول اکرمۖ نے متعدد مقامات پر حضرت فاطمہزہرا (س)کے حقیقی مقام و منزلت کی طرف اشارہ کیا ہے ، اور حضرت فاطمہ زہرا (س) اور ان کے شوہر حضرت علی اور آپ کے فرزند امام حسن و امام حسین سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں .جو شخص بھی تم سے دشمنی رکھتا ہے میں بھی اس سے دشمنی رکھتا ہوں اور جو بھی تم لوگوں سے محبت و دوستی رکھتا ہے میں بھی اس سے محبت و دوستی رکھتا ہوں (١١). لہذا حضرت فاطمہ زہرا (س ) ، حضرت علی اور اماموں سے دوستی ، پیغمبر خداۖسے دوستی ہے اور ان سے دشمنی ، پیغمبر خداۖ سے دشمنی کے مترادف ہے ۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) انسان بے نظیر۔
حضرت فاطمہ زہرا (س ) کا مقام و مرتبہ اتنا زیادہ بلند ہے کہ اس کائنات میں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی جیسا کہ خود پیغمبر اسلام ۖ نے فرمایا کہ : اگر علی نہ ہوتے تو فاطمہ زہرا (س) کا کوئی کفو نہیں ملتا ۔ (١٢)
حضرت فاطمہ زہرا (س) کی ناراضگی خدا کی ناراضگی
رسول اکرم ۖ نے متعدد مرتبہ فرمایا کہ : خدا بھی اس وقت ناراض ہوتا ہے جب فاطمہ زہرا (س)ناراض ہوتی ہیں اور راضی ہوتا ہے، جب فاطمہ زہرا (س) راضی ہوتی ہیں (١٣)۔ ایک دوسری حدیث میں امیرالمومنین سے نقل ہے کہ رسول خدا ۖنے فاطمہ زہرا (س) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : خدا وند تمہارے غضب کے سبب غضب میں آتا ہے اور تمہاری خوشی سے خوش ہوتا ہے(١٤) یعنی حضرت فاطمہ زہرا (س) نے خدا کی عبودیت و بندگی میں اس مقام کو حاصل کرلیا ہے کہ صرف خدا کے لئے غصہ و ناراض ہوتی ہیں اور صرف خدا کے لئے راضی و خوش ہوتی ہیں . ان کی رضا و غضب خدا کی رضا و غضب کی بنیاد پر ہے نہ کہ اپنے نفس کی پیروی کے سبب۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اﷲ علیہا ) کلام آئمہ کی روشنی میں ۔
چودہ سو سال گذرجانے کے بعد بھی حضرت فاطمہ زہرا (س) کی زندگی اور پر فضیلت شخصیت آج تک تمام مسلمانوں کے توجہ کی حامل رہی ہے ۔ شیعہ و سنی سبھی انہیں اچھے نام و القاب سے یاد کرتے ہیں اور انہیں خاندان وحی کا افتخار شمار کرتے ہیں ۔ مسلمان عورتیں بالخصوص شیعہ خواتین ان کی پیروی کرتے ہوئے ان کے صفات کو اپناکر اپنی زندگی سنوارتی ہیں ۔ اہل قلم حضرات نے متعدد کتابیں ان کی شخصیت کے تعارف میں تحریر کی ہیں اور ابھی بھی تحریر کررہے ہیں ، مقررین و خطباء حضرات نے بھی شہزادی کونین کے بارے میں بہت سی تقریریں خطاب کی ہیں۔ ان تمام اہل قلم و اہل زبان حضرات میں جنہوں نے حضرت فاطمہ زہرا (س)کے صفات بیان کئے ہیں ائمہ طاہرین کہیں زیادہ ان کی معرفت رکھتے ہیں۔ کیوں کہ حضرات معصومین حضرت فاطمہ زہرا (س) کی نسل سے ہیں لہذا یہ ہر انسان سے بہتر ، شخصیت حضرت فاطمہزہرا (س) کا تعارف کراسکتے ہیں ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر معصومین کے ارشادات ہمارے پاس نہ ہوتے جو انہوں نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کی عظمت و منزلت اور شخصیت کو اجاگر کرنے کے لئے بیان کئے ہیں تو بہت مشکل تھا کہ ہم ان کی تھوڑی بھی معرفت حاصل کرسکتے ۔ ذیل میں ہم حضرات معصومین کے چند نورانی کلام کو ذکر کررہے ہیں :
معرفت رسولۖ اور حضرت فاطمہ زہرا (س)
امام باقر نقل فرماتے ہیں : حضرت علی کو مال غنیمت کا کچھ حصہ ملا تو اپ نے اسے حضرت فاطمہ زہرا (س ) کی خدمت میں پیش کیا حضرت فاطمہ زہرا (س) اسے لیکر بازار گئیں اور اس سے دو چاندی کے کڑے اور ایک پردہ خریدا۔ اسے لیکر گھر تشریف لے آئیں کڑوں کو ہاتھوں کی زینت بنایا اور پردہ کو گھر کے در وازے پر آویزان کردیا ۔ رسول خدا ۖاس واقعے سے پہلے ہی سفر پر روانہ ہو چکے تھے۔ سفر سے واپسی پر آپ مسجد میں تشریف لے آئے ہمیشہ کی طرح آج بھی سفر سے واپسی کے بعد خانہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کا قصد کیا ۔ حضرت فاطمہ زہرا (س ) بھی اپنے بابا کی آمد سے باخبر تھیں لہذا مسرت و خوشی کی انتہا نہ تھی اپنے بابا کے والہانہ استقبال کے لئے دوڑیں لیکن جب رسول اکرمۖ کی نظر چاندی کے کڑوں اور پردے پر پڑی ( جو خانہ حضرت فاطمہ زہرا پر آویزاں تھا ) تو واپس پلٹ آئے ۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) کی آنکھیں اشکبار و غمگین ہوگئیں آپ نے فرمایا میرے بابا نے آج تک میرے ساتھ ایسا نہیں کیا ۔ حسنین کو بلایا اور پر دے کو نیچے اتارا، دونوں کڑوں اور پردہ کو امام حسن امام حسین کو دیکر فرمایا : اسے بابا کی خدمت لے جاؤ اور میرا سلام عرض کرنا ۔
امام حسن وامام حسین رسول خداۖ کی خدمت میں حاضرہوئے اور ماں کے پیغام و امانت کو پیش کیا پیغمبر اسلام ۖنے دونوں حضرات کو آغوش میں لیا، بوسہ لیا اور انہیں اپنے زانوؤں پر بٹھایا ۔
پھر آپۖنے فرمایا : دونوں کڑوں کو چھوٹے چھوٹے حصہ میں تقسیم کرو اور جب اس کے چھوٹے چھوٹے کئی حصے ہوگئے تو آپ ۖنے اسے ان مسلمانوں کے درمیان( جوکہ مہاجرتھے )تقسیم کردیا ۔ اور پردے کو فقراء میں ( جن کے پاس بدن چھپانے کے لئے کپڑے نہیں تھے) بانٹ دیا ۔ پھر فرمایا : خدا فاطمہ زہرا (س) پر اپنی رحمت نازل فرمائے اس پردے کے بدلے میں جنت کے لباس اور دونوں کڑوں کے عوض بہشت کی زینتوں کو عطا فرمائے .(١٥)
حضرت فاطمہ زہرا (س) کا علم ۔
امام باقر نے فرمایا : ایک دن حضرت علی آپ کی خدمت میں تشریف لائے اس حالت میں کہ آپ بہت زیادہ غم و اندوہ میں تھے حضرت فاطمہ زہرا (س ) نے غمگین و مغموم ہونے کا سبب دریافت کیا ۔ آپ نے فرمایا آج رسول اکرمۖ نے مجھے سے ایسا سوال کہ اس کا جواب میرے پاس نہیں تھا حضرت فاطمہ زہرا (س) نے رسول خداۖکے اس سوال کے متعلق معلوم کیا . امیرالمومنین نے فرمایا : پیغمبر ۖنے مجھ سے پوچھا عورت کا کیا مطلب ہے ؟ میں نے کہا یعنی چھپائی جانے والی چیزیں ۔ پھر پوچھا : وہ کون سا موقع ہے جب ایک عورت اپنے پروردگار سے زیادہ قریب ہوتی ہے میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا ۔حضرت فاطمہ زہرا (س) نے فرمایا پیغمبر خدا ۖکے پاس جائیے اور کہئے کہ ایک عورت اپنے پروردگار سے اس وقت زیادہ قریب ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر میںرہتی ہے ۔ حضرت علی محضر پیغمبر اکرم ۖمیں شرفتاب ہوئے اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کے جواب کو بیان فرمایا ۔ آنحضرت نے پوچھا اے علی ! تم کو یہ جواب کس نے بتا یا ؟ حضرت علی نے جو کچھ بھی ان کے اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کے درمیان گفتگو ہوئی تھی بیان فرمایا ۔ رسول اکرم ۖ نے حضرت علی کی بات کو سننے کے بعد فرمایا : بالکل صحیح جواب ہے اور واقعی طور پر ففاطمہ زہرا (س) میرا ٹکڑا ہے.(١٦)
صدر اسلام کے سماجی و معاشرتی حالات اور اس سے مربوط آیات کو توجہ کرتے ہوئے یہ نکتہ ابھر کر سامنے آتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا (س ) کا اس کلام '' عورت کا اپنے گھر میں رہنا '' سے مطلب ایک عورت کو اپنے آپ کو دکھاوے اور نامحرم سے جلوہ نمائی سے پرہیز کرنا ہے ۔ یعنی بغیر کسی ضروری کام کے اپنے گھر سے قدم باہر نہ نکالے اگر کسی کے سامنے آگے تو اسے جلوہ نمائی اور غیر اخلاقی باتوں سے اجتناب کرنا چایئے ۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) بہترین حجاب کا نمونہ
امام سجاد فرماتے ہیں : ایک نا بینا شخص نے حضرت فاطمہ زہرا (س) سے آپ کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگی آپ نے اپنے آپ کو اس کی نگاہوں سے پوشیدہ کرلیا ۔ پیغمبر اسلامۖ وہیں تشریف فرما تھے اور اس ماجرے کو دیکھ رہے تھے فرمایا : فاطمہ زہرا (س) تم نے کیوں اپنے آپ کواس سے چھپا لیا جب کہ وہ تم کو نہیں دیکھ رہا ہے ؟ حضرت فاطمہ زہرا (س) نے فرمایا : اے اللہ کے رسول ۖ ٹھیک ہے وہ مجھے نہیں دیکھ رہا ہے لیکن میں تو اسے دیکھ رہی ہوں اور میری خوشبواس کے مشام تک پہونچ رہی ہے ۔ پیغمبر خدا نے آپ کی تعریف کی اور فرمایا گواہی دیتا ہوں کہ تم میرے وجود کا ایک ٹکڑا ہو .(١٧)
امیرالمومنین سے بھی اسی سیاق و مضمون کی خبر نقل ہوئی ہے(١٨) . ایک روایت میں ہے کہ امیر المومنین حضرت فاطمہ زہرا (س) سے سوال کیا کہ بہترین عورتیں کون ہیں ؟ حضرت فاطمہ زہرا (س )نے جواب میں فرمایا : وہ عورتیں جو مردوں کو نہ دیکھیں اور مرد بھی انہیں نہ دیکھیں(١٩) حضرت فاطمہ زہرا (س) نے اس نابینا سے ملاقات کے وقت دو نکتہ کی طرف اشارہ کیا : پہلا : یہ کہ حجاب ، عفت و پاکدامنی اس چیز پر منحصر نہیں ہے کہ ہم اپنے آپ کو نامحرم کی تیر مارتی ہوئی نگاہوں سے دور رکھیں بلکہ اپنی آنکھوں کو ایک نامحرم مرد پر پڑنے سے بچانا اور اپنی نگاہوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا بھی عفت وپاکدامنی کے مقدمات و لوازمات میں شامل ہے ۔ دوسرا نکتہ : عطر یا لوازمات زینت کے سلسلے میں بیان کیا ہے کہ بہترین عورت وہ ہے جو اپنی آنکھوں کو آلوگی اور نامحرم پر پڑنے سے بچائے ۔ اس طرح اپنے آپ کو ایک نامحرم کے سامنے خودنمائی و خودآرائی سے محفوظ رکھے ۔
حضرت زہرا (س) سے پیغمبر کی محبت ۔
امام باقر فرماتے ہیں : رسول خداۖ جب بھی کہیں سفر کا قصد کرتے تھے تو اپنے تمام اہل خاندان والوں کو وداع کہتے تھے اور سب سے ملنے کے بعد حضرت فاطمہ زہرا (س) سے خدا حافظی کرتے تھے۔ ہمیشہ پیغمبر کو خدا حافظ کہنے میں آخری فرد حضرت زہرا ہوتی تھیں اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے آنحضرت کے قدم مبارک خانہ حضرت زہرا (س ) پر پڑتے تھے ( ٢٠) پیغمبر خداۖکا یہ عمل ایک طرف تو حضرت زہرا (س ) کی شان و عظمت کو اسلامی معاشرہ میں بیان کر رہا ہے دوسری طرف آپ سے بے لوث محبت و الفت پر بھی حکایت کررہا ہے ۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) کائنات میں سب سے زیادہ گریہ کرنے والوں میں سے ایک ۔
امام صادق نے فرمایا ہے : پانچ لوگ ایسے ہیں جو بہت زیادہ گریہ کرتے تھے حضرت آدم ، حضرت یعقوب ، حضرت یوسف ، حضرت فاطمہ زہرا (س) اور امام علی بن حسین (٢١)آپ نے اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے : جناب فاطمہ زہرا (س) رسول اکرم ۖکی وفات کے بعد اتنا روئیں کہ مدینے کے رہنے والے پریشان ہو گئے انھوں نے جناب فاطمہ زہرا (س )،سے کہا:'' تم اپنے زیادہ رونے سے ہمیں پریشان کررہی ہو اس کے بعد جناب فاطمہ شہداء کی قبر پر جاتیں اور وہاں بیٹھ کرگریہ فرمایا کرتی تھیں، اتنا روتی تھیں کہ ان سکون مل جاتا تھا ۔ اس کے بعد گھر لوٹ آتی تھیں (٢٢) جناب فاطمہ کا یہ گریہ رسول اکرم ۖکی وفات سے خود آپ کی شہادت تک برقرار رہا ۔ اس میں دو اہم پہلو تھے ایک تو سیاسی پیغامات اور اس کے علاوہ یہ گریہ اس بات کی نشاند ہی کرتا تھا کہ جناب فاطمہ زہرا (س) کو رسول اکرم سے بے حد محبت اور پیار تھا ۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) ہر برائی سے دور
امام صادق فرماتے ہیں : فاطمہ زہرا (س )کے بارگاہ الہی میں نو نام ہیں فاطمہ ، صدیقہ ، مباکہ ،طاہرہ ، زکیہ ، راضیہ ، محدثہ اور زہرا (س) پھر فرمایا : کیا تہیں معلوم ہے کہ فاطمہ کی تفسیر کیا ہے ؟ اصحاب نے کہا ہم نہیں جانتے ، آپ ارشاد فرمایئے ۔ امام نے فرمایا : ( اس کا مطلب ہے ) ہر برائی سے دور ہوئی (٢٣)
اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ جناب فاطمہ زہرا (س )ہر برائی اور عیب سے دور ہیں اور انہوں نے ہمیشہ صرف اچھائیوں کو اپنایا لہذا خدا نے انہیں یہ نام دیا گیا ۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) آسمانوں میں رہنے والوں کے لئے ایک ستارہ ۔
امام صادق سے پوچھا گیا کس وجہ سے جناب فاطمہ زہرا (س )کا نام زہرا رکھا گیا ؟
آپ نے فرمایا : کیونکہ جب وہ محراب عبادت میں کھڑ ی ہوتی تھیں تو ان کا نور ساکنان عرش پرپڑتا تھا اسی طرح جیسے ستاروں کی روشنی زمین والوں پرپڑتی ہے (٢٤)
حضرت فاطمہ زہرا (س) عالمین کی عورتوں کی سردار
مفضل بن عمر کہتے ہیں میں نے امام صادق سے عرض کیا : رسول اللہۖ نے جناب فاطمہ زہرا (س )کی شان میں فرمایا ہے کہ وہ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں . آپ وضاحت فرمایئے کہ کیا وہ اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھیں؟ امام نے فرمایا وہ مریم تھیں جو اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھیں فاطمہ تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں۔(٢٥)
حضرت فاطمہ زہرا (س) ملائکہ سے گفتگو میں
امام صادق فرماتے ہیں : فاطمہ کو محدثہ کہا گیا کیونکہ فرشتے آسمان سے اترتے تھے اور ان سے گفتگو کیا کرتے تھے، جس طرح مریم بنت عمران سے گفتگو کرتے تھے وہ کہتے تھے اے فاطمہ زہرا (س ) ! خدانے آپ کو چنا، پاک کیا اور دنیا کی تمام عورتوں پر فضیلت بخشی ہے۔ اے فاطمہ زہرا (س) !خدا کیلئے قنوت پڑھو، سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ فرشتے ان سے بات کرتے اور وہ بھی فرشتوں سے بات کرتی تھیں، ایک رات فاطمہ(س) نے ان سے کہا : کیا مریم کو تمام عورتوں پر فضیلت نہیں بخشی گئی تھی ؟ فرشتوں نے جواب دیا : مریم اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھیں اور خدانے آپ کو اول سے آخر تک تمام عورتوں کی سرداری پر مقرر فرمایا ہے .(٢٦)
حضرت فاطمہ زہرا (س)کی دعاؤں میں انسان دوستی
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں : میں نے اپنی مادر گرامی کو اس حال میں دیکھا کہ شب جمعہ محراب عبادت میں تھیں اور مستقل رکوع و سجود فرمارہی تھیں یہاں تک کہ سورج نکل آیا میں نے سنا کہ وہ مومن مردوں و عورتوں کا نام لے لے کر ان کے حق میں بہت ساری دعائیں کر رہی تھیں لیکن اپنے لئے کو ئی دعا نہیں کی ۔ میں نے عرض کیا : اے مادر گرامی ! آپ نے دوسروں کے لئے دعائیں کیں لیکن اپنے لئے کو ئی دعا نہیں مانگی ؟!انہوں نے فرمایا : پیارے بیٹے : پہلے پڑوسی پھر گھر والے ۔(٢٧)
فاطمہ زہرا (س) ایک بے مثال خاتون
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : اگر امیر المؤمنین علیہ السلام ان سے شادی نہیں کرتے تو قیامت تک زمین پر ان جیسا کو ئی نہیں ملتا۔(٢٨)
امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں : فاطمہ اور علی علیہما السلام کی شادی کے بعد خدا وند عالم نے پیغمبر اسلام ۖسے کہا : اگر علی کو خلق کرنا مقصود نہ ہو تا تو زمین پر تمہاری بیٹی کے برابر کو ئی نہیں ہو تا ۔(٢٩)
حضرت زہرا (س)بہترین فرمانبردار بیوی کا ایک نمونہ
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : حضرت زہرا (س) نے حضرت علی سے عہد کیا کہ وہ گھر کے اندر کا سارا کام ( مثلاً آٹا گوندھنا ،روٹی بنانااور جھاڑو دینا) خود انجام دیں گی ۔اسی طرح حضرت علی نے بھی گھر کے باہر کے امور کی ذمہ داری اپنے اوپر لی ( مثلاً لکڑیاں لانا اور نان و نفقہ کا انتظام کرنا وغیرہ)۔
ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے حضرت زہرا (س ) سے پو چھا : کیا گھر میں کھانے کی کوئی چیز ہے ؟
آپ نے فرمایا : نہیں !اس کی قسم جس نے آپ کے حق کو عظمت بخشی ،تین دن ہو گئے کہ اس گھر میں کچھ بھی کھانے کے لئے نہیں ہے تا کہ میں آپ کی خدمت کر سکوں ۔
حضرت علی نے فرمایا : آپ نے مجھے اس سے آگاہ کیوں نہیں کیا !؟ آپ نے فرمایا : رسول خدا ۖنے منع فرمایا تھا کہ میں آپ سے کچھ طلب کروں ۔انہوں نے فرمایا تھا کہ علی سے کسی چیز کا مطالبہ نہ کرنا ۔اگر وہ خود تمہیں کچھ دیں تو قبول کر لینا ورنہ کسی چیز کی درخواست مت کرنا ۔(٣٠)
اس روایت سے چند اہم نکات ازداوجی زندگی کے ابھر کر سامنے آتے ہیں :
١۔وظائف و امور زندگی کی تقسیم بندی ۔جو کہ آپ نے حضرت علی سے کی اور سارے گھر کی ذمہ داری خود قبول کر لی ۔
٢۔ شوہر کے حقوق سے آشنائی اور اپنے وظیفہ کو اس کی نسبت انجام دینا ۔جو کہ اس جملہ (قسم اس کی جس نے آپ کے حق کو عظمت بخشی)سے ظاہر ہے ۔
٣۔گھر کے معاشی امور میں اپنے شوہر کا ساتھ دینا (چاہے اس کے لئے مشکلات و پریشانیوں کا ہی سامنا کیوں نہ کرنا پڑے )
حضرت زہرا اور گھر کے کاموں میں زحمت اٹھانا
ابن اعید کہتے ہیں : حضرت علی علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا : کیا میں تمہیں اپنے اور فاطمہ زہرا (س) (دختر پیغمبر ۖجو کہ گھر کی ایک اہم رکن تھیں، جنہوں نے گھر کی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیا )کے متعلق کچھ بتاؤں ؟!پھر آپ فرماتے ہیں : حضرت فاطمہ زہرا (س) اتنا زیادہ چکیاں چلاتی تھیں کہ آپ کے ہاتھوں ٰمیں چھالے پڑجاتے تھے ،اس قدر مشک میں پانی لایا کرتی تھیں کہ آپ کی گردن پر اس کے نشان پڑ گئے تھے ،اتنا زیادہ گھر میں جھاڑو دیا کرتی تھیں کہ آپ کے کپڑوں کا رنگ متغیر ہو گیا تھا اور اس قدر چولہے میں آگ جلاتی تھیں کہ اس (دھوئیں) کے سبب آپ بیمار ہو گئی تھیں ۔(٣١)
حضرت زہرا سلام اللہ صدیقۂ شہیدہ
امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں : بیشک حضرت فاطمہ زہرا صدیقہ اور شہیدہ ہیں ۔(٣٢)
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت زہرا (س) شہادت پر فائز ہو ئیں ۔ اس کے علاوہ لفظ صدیقہ آپ کی صداقت اور سچائی پر دلالت کرتا ہے کہ آپ قول و عمل ،اعتقاد و ایمان میں سب سے زیادہ صادق تھیں ۔
٣۔حضرت زہرا(س) خود اپنے کلام کی روشنی میں
حضرت فاطمہ زہرا (س)کی شخصیت کے متعلق زبان کھولنا کو ئی آسان کام نہیں ہے لیکن خود ان کے کلام کی روشنی میں آپ کی شخصیت و فضیلتوں کے مختلف زاویہ کو اجاگر کیا جا سکتا ہے ۔یہ بھی خدا کا ہم پر ایک لطف ہے کہ ہم خود ان کے کلام گہر بار کی روشنی میں بی بی دو عالم کے اوصاف کو پیش کررہے ہیں :
آپ کو سلام کرنے کے عوض بہشت
روای کہتا ہے : میں حضرت زہرا (س)کی خدمت میں شرف یاب ہو ا اور سلام عرض کیا ۔آپ نے جواب میں فرمایا : میرے بابا نے اپنی زندگی میں مجھ سے فرمایا تھا : جو بھی تین دن تک مجھ پر اور تم (اہلبیت )پر سلام بھیجے اس پر جنت واجب ہے ۔روای کہتا ہے : میں نے حضرت زہرا سے عرض کیا کہ کیا یہ فضیلت صرف پیغمبر خد اۖ اور آپ کی زندگی تک مخصوص ہے ؟یا آپ اور آپ کے بابا کے بعد بھی یہ فضیلت باقی رہے گی ؟! آپ نے فرمایا : کو ئی فرق نہیں ہے چاہے ہماری حیات میں کو ئی ہم پر سلام بھیجے یا ہماری حیات کے بعد ۔(٣٣)
حضرت زہرا کی رضا میں خدا کی رضا
جس وقت حضرت علی علیہ السلام حضرت زہرا سے عقد کے سلسلہ میں پیغمبر اسلام ۖکی خدمت میں حاضر ہوئے، پیغمبرۖنے حضرت زہرا سے کچھ مشورہ کیا اور فرمایا : میری بیٹی فاطمہ ! تمہارے چچا کے فرزند علی بن ابی طالب تم سے عقد کرنا چاہتے ہیں ۔تمہارا کیا جواب ہے ؟
آپ نے فرمایا : میری خوشی ہر اس چیز میں ہے جس پر خدا اور اس کا رسول ۖ میرے حق میں راضی ہو ۔(٣٤)
حضرت زہرا(س)کی قناعت پسندی ۔
آپ نے اپنے شوہر نامدار حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا : میں اپنے متعلق پروردگار عالم سے شرم کرتی ہوں کہ کسی ایسی چیز کا آپ سے سوال کروں جسے آپ پورا نہ کر پا ئیں ۔(٣٥)
حضرت زہرا کی نظر میں دنیا کی محبوب اشیاء
حضرت زہرا نے فرمایا : تمہاری دنیا سے میں فقط تین چیزوں کو چاہتی ہوں :خدا کی راہ میں انفاق ،کتاب خدا کی تلاوت اور اپنے بابا رسول خداۖ کے چہرے کی طرف دیکھنا ۔(٣٦)
حضرت زہرا کا امتیاز ''رسول خدا ۖسے خطاب کرنے میں ''
حضرت فاطمہ زہرا فرماتی ہیں : جس وقت یہ آیۂ مبارکہ :لا تجعلوا دعا الرّسول بینکم کدعا بعضکم بعضاً۔رسول خداۖ کو جس طرح دوسروں کو خطاب کرتے ہو ، نہ بلاؤ ۔ (٦٣) نازل ہو ئی تو مجھے خوف ہو ا کہ اس کے بعد اب رسول خدا ۖ کو لفظ'' پدر''سے خطاب کروں ،جس طرح دوسرے افراد لفظ ،''یا رسول اللہ ''سے خطاب کرتے ہیں میں بھی خطاب کروں ،پیغمبر ۖ نے مجھ سے اپنے چہرہ کو موڑ لیا اور فرمایا : بیٹی ! یہ آیہ مبارکہ تمہارے لئے اور تمہارے خاندان و نسل کے لئے نازل نہیں ہو ئی ہے ،تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ،بلکہ یہ آیت ان جفا کاراور بد بخت اہل قریش کے لئے نازل ہو ئی ہے جو خود خواہ و متکبر ہیں ۔تم مجھے لفظ ''بابا''سے ہی خطاب کرو کیونکہ یہ خطاب مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور خد ا بھی خوش ہوتا ہے ۔(٣٧)
حضرت زہرا (س)! اہل بیت پیغمبرۖ میں سے ایک ۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) سے روایت ہے کہ : ایک دن میں رسول خدا کی احوال پرسی کے لئے ان کی خدمت میں شرفیاب ہو ئی ،رسول خدا ۖ نے میرے بیٹھنے کے لئے اپنی چادر بچھا دی ،کچھ دیر کے بعد حسن تشریف لائے ،پیغمبرۖ نے حسن کو اس چادر پر بٹھا یا ،پھر حسین وارد ہو ئے اور اسی چادر پر بیٹھ گئے ،اس کے بعد علی تشریف لے آئے وہ بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئے ، پھر رسول اکرمۖ نے ایک دوسری چادر کو ہمارے سروں پر ڈال دیا اور فرمایا : خدا یا ! یہ میرے اہل بیت اطہار علیہم السلام ہیں اور میں بھی انہیں کا ایک حصہ ہوں ،بار الہا !جس طرح سے میں ان سے راضی ہوں تو بھی ان سے راضی ہو۔(٣٨)
حضرت زہرا شفیعہ روز قیامت ۔
حضرت زہرا (س ) پیغمبر اکرم ۖکی گنہگار امت کی شفاعت کے سلسلے میں فرماتی ہیں : جس وقت میدان محشر میں میں آؤنگی تو اپنے بابا کی گنہگار امت کی شفاعت کرونگی ۔
نتیجہ ٔ بحث :
پیغمبر اکرم ۖ حضرت فاطمہ زہرا (س) کو مسلمان عورتوں کو سردار بتایا ہے،انہیں ایک کامل خاتون قرار دیا کہ یہ انسانوں کی شکل میں حورِ بہشت ہیں ، وہ جنت کی خوشبو سے معطر ہیں اور اگر تمام نیکیوں کو کسی ایک شخص میں دیکھا جا ئے تو وہ صرف حضرت فاطمہ ہیں ۔بلکہ فاطمہ زہرا (س) اس شخص ِ کامل سے بھی بہتر ہیں ۔ آپ ہدایت کا ایک چمکتا ہوا ستارہ ہیں اور رسول خدا(س) نے آپ کو اپنا ٹکڑا قرار دیا ہے۔آپ قلب ِ رسولۖکی خوشی کا باعث ہیں آپ کے فرزند ریحانۂ قلب رسول ۖ ہیں اور آپ کے شوہر علی رسول ۖکی آنکھوں کا نور ہیں ۔حضرت زہرا سے دوستی و دشمنی رسول خدا ۖ سے دوستی و دشمنی ہے اور فاطمہ کی خوشی اور غضب خدا کی خوشی و غضب ہے ۔
حضرات معصومین علیہم السلام نے بھی پیغمبرۖ کے سلسلہ میں ان کی عمیق معرفت ،علم و آگاہی اور بلند مقام و منزلت کے متعلق فرمایا ہے ،اور انہیں حجاب کا بہترین پہچنوانے والا بتایا ہے ۔معصومین علیہم السلام کی تصریح اور توضیح کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا(س)رسول خدا ۖکے نزدیک سب سے زیادہ محبوب تھیں اور وہ بھی نبی اکرم ۖ سے بے حد محبت کرتی تھیں ۔
آپ تمام طرح کی برائیوں سے پاک تھیں جس وقت محراب عبادت میں کھڑی ہو تی تھیں تو آپ کے جسم اطہرسے ایک ایسا نور ساطع ہو تا تھا کہ عرش نشیں فرشتے بھی اس کی تاب نہیں لا پا تے تھے ۔آپ زمین کی تمام عورتوں کی سیدو سرادر ہیں ایسی بے مثال کہ اپنی دعاؤں میں بھی کسی انسان کو فراموش نہیں کرتی تھیں ، اپنے شوہر کے احترام میں کبھی کو تاہی نہیں کی اور گھر کے اندر کی تمام ذمہ داریوں کو ہمیشہ بخوبی انجام دینے میں کوشاں رہتی تھیں ۔
حضرت شہزادی کونین(س)نے اپنی مرضی اور رضا پر ہمیشہ خدا کی رضا کو مقدم رکھا ۔غربت و افلاس میں بھی خدا کی رضا کو ہاتھ سے جانے نہ دیا ۔پیغمبر اکرم ۖ سے والہانہ محبت کرنے والی نے اپنے آپ کو ہمیشہ اہل بیت کے عنوان سے پہچنوایا اس طرح کہ قیامت کے دن لوگوں کی شفاعت کرنے کا حق خدا نے آپ کو بخشا ہے ۔آپ نے دنیا سے کبھی دل نہیں لگایا مگر اس کی تین چیزوں کو :راہ خدا میں انفاق ،کتاب خدا کی تلاوت اور رسولۖکے چہرہ کی طرف دیکھنا ۔
منابع و مآخذ
١۔ حسینی فیروزآبادی، سید مرتضٰ؛ فضائل الخمسة، ج٣، ص١٣٧، طبع الثالثہ، بیروت، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، ١٣٩٣ق.
٢۔ ثعلبی، احمد، الکشف و البیان، (تفسیر ثعلبی)، تحقیق ابو محمد بن عاشور، ج٩، ص٣٥٣، بیروت دار احیاء التراث العربی، ٤٢٢ق.
٣۔ ابن معازلی شافعی، علی بن محمد؛ مناقب الامام علی بن ابی طالب، ص٢٩٦١، طبع الثالثہ، بیروت دار الاضوائ، ١٤٢٤ق، حدیث ٤١٦.
طبری، محمد بن جریر بن رستم (صغیر)؛ دلائل الامامة، ص١٤٨، تحقیق: قسم الدراسات الامامیة، قم: موسسۂ بعثت، ١٤١٣ق.
٤۔ قندوزی حنفی، شیخ سلیمان؛ ینابیع المودة، تحقیق: علاء الدین اعلمی، ج٢، ص٢١٨، بیروت: مووسة الاعلمی للمطبوعات، ١٤١٨ق.
٥۔ طبری، محمد بن جریر بن رستم (صغیر)؛ دلائل الامامة، ص١٤٨، تحقیق: قسم الدراسات الامامیة، قم: موسسۂ بعثت، ١٤١٣ق.
٦۔ امینی نجفی، عبد الحسین احمد، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب؛ تحقیق: مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیة، ج٣، ص٣٣، قم: مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیة، ١٤١٦ق.
٧۔ ابن احمد مکی، موفق؛ مقتل الحسین خوارزمی، تحقیق: محمد سماوی، ج١، ص١٠٠، قم: انوار الھدیٰ، ١٤١٨ق.
جوینی خراسانی، ابراہیم بن محمد، فرائد السمطین، تحقیق: محمد باقر محمودی، ج٢، ص٦٨، بیروت: موسسة المحمودی للطباعة و النشر ١٤٠٠ق.
٨۔ جوینی خراسانی، ابراہیم بن محمد، فرائد السمطین، تحقیق: محمد باقر محمودی، ج٢، ص١٧،حدیث ٣٦١، بیروت: موسسة المحمودی للطباعة و النشر ١٤٠٠ق.
حسکانی، حاکم؛ شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق: محمد باقر محمودی، ج١، ص٥٩، حدیث٩١، بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات، ١٩١٣ق.
٩۔ مسلم بن الحجاج القشیری، صحیح مسلم، ص٩٩٣، حدیث ٢٤٤٩، اخراج: فریق بیت الافکار الدولیہ؛ ریاض: بیت الافکار، ١٤١٩ق.
بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ص٦٨٤، حدیث ٣٧٦٧، گردآوری: محمد محمود، طبع الثانیہ، بیروت: دار الکتب العلمیة، ١٤٢٣ق.
ترمذی، محمد بن عیسیٰ بن سورہ، سنن الترمذی؛ ص١٠٠٦، حدیث ٣٨٧٦، بیروت: دار احیاء التراث العربی؛ ١٤٢١ق.
سیوطی، جلال الدین، الثغور الباسمة فی فضائل السیدة فاطمة، ص٤٥، تحقیق: محمد سعید الطریحی، بیروت: دار العلوم، ١٤٠٨ق.
ابن حجر عسقلانی، الاصابة فی تمییز الصحابة، تحقیق: عادل احمد عبد الموجود، ج٨، ص٢٦٥، بیروت: دار الکتب العلمیة، ١٤١٥ق.
١٠۔ ابن احمد مکی، موفق؛ مقتل الحسین خوارزمی، تحقیق: محمد سماوی، ج١، ص٩٩، حدیث٢١، قم: انوار الھدیٰ، ١٤١٨ق.
١١۔ ترمذی، محمد بن عیسیٰ بن سورہ، سنن الترمذی؛ ص١٠٠٧، حدیث ٣٨٧٩، بیروت: دار احیاء التراث العربی؛ ١٤٢١ق.
ابن احمد مکی، موفق؛ مقتل الحسین خوارزمی، تحقیق: محمد سماوی، ج١، ص١٠١، حدیث٢٦، قم: انوار الھدیٰ، ١٤١٨ق.
ابن حجر عسقلانی، الاصابة فی تمییز الصحابة، تحقیق: عادل احمد عبد الموجود، ج٨، ص٢٦٦، بیروت: دار الکتب العلمیة، ١٤١٥ق.
ابن اثیر جزری، اسد الغابة فی معرفة الصحابة، ج٦، ص٢٢٨، بیروت: دار الفکر، ١٤١٩ق.
١٢۔ ابن احمد مکی، موفق؛ مقتل الحسین خوارزمی، تحقیق: محمد سماوی، ج١، ص١٠٧، حدیث٣٨، قم: انوار الھدیٰ، ١٤١٨ق.
جوینی خراسانی، ابراہیم بن محمد، فرائد السمطین، تحقیق: محمد باقر محمودی، ج٢، ص٦٨، بیروت: موسسة المحمودی للطباعة و النشر ١٤٠٠ق.
١٣۔ جوینی خراسانی، ابراہیم بن محمد، فرائد السمطین، تحقیق: محمد باقر محمودی، ج٢، ص٤٦، حدیث٣٧٨، بیروت: موسسة المحمودی للطباعة و النشر ١٤٠٠ق.
حاکم نیشابوری، محمد، المستدرک الصحیحین، تحقیق: یوسف مرعشی، ج٣، ص١٥٣، بیروت: دار المعرفة، ١٤٠٦ق.
اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج٢، ص٩٣، بیروت: دار الکتاب الاسلامی، ١٤٠١ق.
١٤۔ ابن معازلی شافعی، علی بن محمد؛ مناقب الامام علی بن ابی طالب، ص٢٨٥، حدیث٤٠١، طبع الثالثہ، بیروت دار الاضوائ، ١٤٢٤ق، حدیث ٤١٦.
حاکم نیشابوری، محمد، المستدرک الصحیحین، تحقیق: یوسف مرعشی، ج١٠، ص١١٦، بیروت: دار المعرفة، ١٤٠٦ق.
قندوزی، حنفی، شیخ سلیمان؛ ینابیع المودة، تحقیق: علاء الدین اعلمی، ج١، ص٢٠٤، بیروت: مووسة الاعلمی للمطبوعات، ١٤١٨ق.
طبری، محمد بن جریر بن رستم (صغیر)؛ دلائل الامامة، ص١٤٦، تحقیق: قسم الدراسات الامامیة، قم: موسسۂ بعثت، ١٤١٣ق.
ابن حجر عسقلانی، الاصابة فی تمییز الصحابة، تحقیق: عادل احمد عبد الموجود، ج٨، ص٢٦٦، بیروت: دار الکتب العلمیة، ١٤١٥ق.
ابن اثیر جزری، اسد الغابة فی معرفة الصحابة، ج٦، ص٢٢٧، بیروت: دار الفکر، ١٤١٩ق.
ابن جوزی، سبط، تذکرة الخواص، ص٢٧٩، بیروت: موسسة اھل بیت، ١٤٠١ق.
١٥۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، تحقیق: محمود دریاب؛ ج١٨، ص٦٤۔٦٥، بیروت: دار التعارف للمطبوعات، ١٤٢١ق.
١٦۔ ابن مغازلی شافعی، علی بن محمد؛ مناقب الامام علی بن ابی طالب، ص٣٠٣، حدیث٤٣٠، طبع الثالثہ، بیروت دار الاضوائ، ١٤٢٤ق، حدیث ٤١٦.
١٧۔ ابن حاکم شامی، جمال الدین یوسف، الدر النظیم فی مناقب الائمة الھامیم؛ ص٤٥٧، تحقیق: موسسة نشر اسلامی، قم، ١٤٢٠ق.
١٨۔ ابن مغازلی شافعی، علی بن محمد؛ مناقب الامام علی بن ابی طالب، ص٣٠٣ ۔٣٠٤، حدیث٤٢٩، طبع الثالثہ، بیروت دار الاضوائ، ١٤٢٤ق، حدیث ٤١٦.
١٩۔ ابن احمد مکی، موفق؛ مقتل الحسین خوارزمی، تحقیق: محمد سماوی، ج١، ص١٠٣، حدیث٤٣٠، قم: انوار الھدیٰ، ١٤١٨ق.
٢٠۔ مجلسی، محمر باقر، بحار الانوار، تحقیق: محمود دریاب؛ ج١٨، ص٦٤، بیروت: دار التعارف للمطبوعات، ١٤٢١ق.
٢١۔ عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر العیاشی؛ تحقیق: بنیاد بعثت، ج٢، ص٣٥٨، رقم٢١٣٣٦١، قم: بنیاد بعثت، ١٤٢١ق.
٢٢۔ اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج١، ص٤٩٨، بیروت: دار الکتاب الاسلامی، ١٤٠١ق.
٢٣۔ شیخ صدوق، علل الشرایع، ج١، ص٢١٢، باب١٤٢، حدیث٣، بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات، ١٣٠٨ق.
شیخ صدوق، الامالی، الخامسة، ص٤٧٤، مجلس٨٦، ج١٨، بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات، ١٤١٠ق.
مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، تحقیق: محمود دریاب؛ ج١٨، ص١٣، بیروت: دار التعارف للمطبوعات، ١٤٢١ق.
اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج٢، ص٨٩، بیروت: دار الکتاب الاسلامی، ١٤٠١ق.
طبری، محمد بن جریر بن رستم (صغیر)؛ دلائل الامامة، ص٨٩۔١٠، تحقیق: قسم الدراسات الامامیة، قم: موسسۂ بعثت، ١٤١٣ق.
ابن حاکم شامی، جمال الدین یوسف، الدر النظیم فی مناقب الائمة الھامیم؛ ص٤٤٥، تحقیق: موسسة نشر اسلامی، قم، ١٤٢٠ق.
٢٤۔ شیخ صدوق، معانی الاخبار، تصحیح: علی اکبر غفاری، ص٦٤، باب٢٨، حدیث١٥، قم: موسسہ نشر اسلامی، ١٣٦١ق.
شیخ صدوق، علل الشرایع، ج١، ص١٤٣ و ٢١٥، حدیث٣، بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات، ١٤٠٨ق.
طبری، محمد بن جریر بن رستم (صغیر)؛ دلائل الامامة، ص١٤٩، تحقیق: قسم الدراسات الامامیة، قم: موسسۂ بعثت، ١٤١٣ق.
مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، تحقیق: محمود دریاب؛ ج١٨، ص١٥، بیروت: دار التعارف للمطبوعات، ١٤٢١ق.
٢٥۔ طبری، محمد بن جریر بن رستم (صغیر)؛ دلائل الامامة، ص١٤٩، تحقیق: قسم الدراسات الامامیة، قم: موسسۂ بعثت، ١٤١٣ق.
٢٦۔ محمد بن جریر بن رستم (صغیر)؛ دلائل الامامة، ص٨٠، تحقیق: قسم الدراسات الامامیة، قم: موسسۂ بعثت، ١٤١٣ق.
ابن حاکم شامی، جمال الدین یوسف، الدر النظیم فی مناقب الائمة الھامیم؛ ص٤٥٦، تحقیق: موسسة نشر اسلامی، قم، ١٤٢٠ق.
٢٧۔ شیخ صدوق، علل الشرایع، ج١، ص٢١٥، حدیث١، بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات، ١٤٠٨ق
اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج٢، ص٩٤، بیروت: دار الکتاب الاسلامی، ١٤٠١ق.
طبری، محمد بن جریر بن رستم (صغیر)؛ دلائل الامامة، ص ١٥٢، تحقیق: قسم الدراسات الامامیة، قم: موسسۂ بعثت، ١٤١٣ق.
مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، تحقیق: محمود دریاب؛ ج١٨، ص٦٣، بیروت: دار التعارف للمطبوعات، ١٤٢١ق.
٢٨۔ شیخ صدوق، الامالی، الخامسة، ص٤٧٤، مجلس٨٦، حدیث١٨، بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات، ١٤١٠ق.
شیخ صدوق، علل الشرایع، ج١، ص٢١٢، باب١٤١، حدیث٣، بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات، ١٤٠٨ق.
اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج٢، ص٨٩، بیروت: دار الکتاب الاسلامی، ١٤٠١ق.
طبری، محمد بن جریر بن رستم (صغیر)؛ دلائل الامامة، ص٨٠۔ ٧٩، تحقیق: قسم الدراسات الامامیة، قم: موسسۂ بعثت، ١٤١٣ق.
ابن حاکم شامی، جمال الدین یوسف، الدر النظیم فی مناقب الائمة الھامیم؛ ص٤٤٥، تحقیق: موسسة نشر اسلامی، قم، ١٤٢٠ق.
٢٩۔ عطاردی، شیخ عزیز اللّٰہ، مسند الامام الرضا، ج١، ص١٤١، حدیث١٧٧، الثالثة، بیروت: دار الصفوة، ١٤١٣ق.
٣٠۔ عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر العیاشی؛ تحقیق: بنیاد بعثت، ج١، ص٣٠٣۔ ٣٠٤، حدیث٤٢ ٦٨١، قم: بنیاد بعثت، ١٤٢١ق.
٣١۔ شیخ صدوق، علل الشرایع، ج٢، ص٦٥، حدیث١، بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات، ١٤٠٨ق.
ابن جوزی، سبط، تذکرة الخواص، ص٢٨٠، بیروت: موسسہ اھل بیت، ١٤٠١ق.
مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، تحقیق: محمود دریاب؛ ج١٨، ص٦٣، بیروت: دار التعارف للمطبوعات، ١٤٢١ق.
٣٢۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، تحقیق: محمد دریاب، ج٥، ص٣١٥، حدیث٢، بیروت: دار التعارف للمطبوعات، ٤٢١ق.
٣٣۔ ابن مغازلی، شافعی، علی بن محمد؛ مناقب الامام علی بن ابی طالب، ص٢٩٢، حدیث٤١٠، طبع الثالثہ، بیروت دار الاضوائ، ١٤٢٤ق، حدیث ٤١٦.
٣٤۔ مرعشی نجفی، سید شہاب الدین، ملحقات الاحقاق الحق، ج٢٣، ص٤٧٧، طبع٢، قم: کتابخانہ آیة اللہ مرعشی نجفی، ١٤١٧ق.
٣٥۔ شوشتری، قاضی نور اللہ، احقاق الحق و ازھاق الباطل، ج١٠، ص٣٢٣، تہران: کتابفروشی اسلامیہ، ١٣٩١ق.
قندوزی حنفی، شیخ سلیمان، ینابیع المودة، تحقیق: علاء الدین اعلیٰ، ج٢، ص٢٣٦، بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات، ١٤١٨ق.
٣٦۔ شیخ الاسلامی، سید حسین، مسند فاطمہ الزہرائ، ص١٦١، حدیث٩٣، قم: انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، ١٤١٩ق.
٣٧۔ ابن مغازلی، شافعی، علی بن محمد؛ مناقب الامام علی بن ابی طالب، ص٢٩٢۔ ٢٩٣، حدیث٤١١، طبع الثالثہ، بیروت دار الاضوائ، ١٤٢٤ق، حدیث ٤١٦.
ابن حاکم شامی، جمال الدین یوسف، الدر النظیم فی مناقب الائمة الھامیم؛ ص٤٦٢، تحقیق: موسسة نشر اسلامی، قم، ١٤٢٠ق.
٣٨۔ قندوزی حنفی، شیخ سلیمان، ینابیع المودة، تحقیق: علاء الدین اعلیٰ، ج٢، ص٣٠٥، بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات، ١٤١٨ق.
٣٩۔ شوشتری، قاضی نور اللہ، احقاق الحق و ازھاق الباطل، ج١٠، ص٣٦٧، تہران: کتابفروشی اسلامیہ، ١٣٩١ق.
source : http://rizvia.net