اس بات پر ہم پھر تاکید کرتے ہیں کہ سیر الی اللہ میں اصلی چیز " خدا کابندہ بننا" ہے اور ہم اس بندہ ہونے کو تین اعتبار سے تقسیم کر سکتے ہیں۔ افعال میں بندہ ہونا۔ صفات میں بندہ ہونا اور ذات میں بندہ ہونا۔ اور ان مراحل کو طے کرنے کے لیے بھی کچھ خاص افعال اور اعمال کی ضرورت ہے:
تقوی مشارطہ، مراقبہ اور محاسبہ کے سائے میں۔
یہ بات واضح ہونے کے لیے کہ سیر و سلوک اور عرفانی مراحل کو طے کرنے کی اصلی روح "بندگی" ہے اب اس سوال کی باری آتی ہے کہ کون سے کاموں سے انسان بندہ بن سکتا ہے۔ بندہ بننے کے لیے کن اعمال کو انجام دینا ضروری ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے توجہ کریں۔ عبد اور بندہ اصطلاح میں اسے کہاجاتا ہے جس کا تمام اختیار اس کے مولا کے ہاتھ میں ہو اور وہ اس کا مطیع ہو۔ اور مولا کی اجازت کے بغیر کوئی کام انجام نہ دے۔ اس اعتبار سے اللہ کا بندہ اس وقت کہلائے گا جب مکمل طور پر اسکا مطیع ہو گا۔ اس کے اوامر اور نواہی کے برخلاف قدم نہیں بڑھائے گا۔ دوسرے الفاظ میں ، وہ عامل اور سبب جو انسان کو اس راستے پر گامزن کرتا ہے تقویٰ ہے۔ لہذا مقام عمل میں بندگی کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان متقی ہو اور تقوی کا ملکہ اپنے اندر پیدا کرے۔ تقویٰ یہ کہ انسان تمام واجبات الٰہی کو انجام دے اور تمام محرمات سے پرہیز کرے۔ اور اس ملکہ کو اپنے اندر پید اکرنے کے لیے کچھ امور پائے جاتے ہیں کہ جنہیں ہر سالک کو انجام دینا چاہیے۔ یہ امور مندرجہ ذیل ہیں: مشارطہ، مراقبہ اور محاسبہ
ہر انسان صبح کے نیند سے اٹھتا ہے اسے یہ جان لینا چاہیے کہ خدا نے اسے آج نئی زندگی دی ہے اور نئی فرصت اس کے اختیار میں قرار دی ہے۔ کتنے لوگ ایسے تھے جو بستر پر نیند کے لیے لیٹے پھر اٹھ نہیں پائے۔ یہ ایسا حادثہ ہے جو ہر کسی کے لیے ممکن ہے اتفاق پائے۔ قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے:
اللہ یتوفیٰ الانفس حین موتھا و التی لم تمت فی منامھا فیمسک التی قضی علیھا الموت و یرسل الاخریٰ الی اجل مسمی انّ فی ذلک لایات لقوم یتفکرون۔[1]
اللہ ہی ہے جو روحوں کو موت کے وقت اپنی طرف بلا لیتا ہے اور جو نہیں مرتے ہیں ان کی روحوں کو ایک مقررہ مدت کے لیے آزاد کر دیتا ہے اس بات میں صاحبان فکر و نظر کے لیے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔اس وجہ سے انسان کو آگاہ رہنا چاہیے کہ نیند سے بیدار ہونا ایک نئی زندگی اورنعمت ہے خدا کی طرف سے ۔ اور ایک نیا سرمایہ ہے جوانسان کے اختیار میں رکھا گیا ہے۔ ایسا انسان اس سرمایہ سے دنیا اور آخرت کی سعادت کسب کر سکتا ہے۔ یا دنیا اور آخرت کی شقاوت اور بدبختی کو اپنا نصیب بنا سکتاہے ۔
اس صورت میں سالک راہ حق کو اس سلسلے میں غور و فکر کرنے کے بعد اپنے نفس کے ساتھ عہد کرنا چاہیے اور شرط باندھنا چاہیے کہ اس نعمت اور سرمایہ کو صرف راہ خدا میں صرف کرے گا۔ یہاں پر گویا ہم اپنے نفس کو اپنا پاٹنر اور شریک قرار دے کر یہ سرمایہ اس کےحوالے کرتے ہیں تا کہ وہ اس کے ساتھ تجارت کرے اور اس کے ساتھ یہ شرط باندھیں گے کہ وہ اس سرمایہ سے فائدہ اٹھائے نہ نقصان۔ اپنے نفس کے ساتھ انسان یہ عہد و پیمان باندھے کہ اس دن وہ تمام گناہوں سے پرہیز کرے گااور تمام واجبات کو انجام دے گا۔
مشارطہ کے بعد "مراقبہ" کی باری آتی ہے سالک نے اس کے بعد کہ اس نےصبح نیند سے اٹھتے ہی شرط باندھی اور ارادہ کیا کہ واجبات کو انجام دے گا او ر محرمات اور گناہوں سے اجتناب کرے گا پورا دن ہر لمحہ اس شرط کو مد نظر رکھے اور اپنے نفس کی مراقبت کرے اور اس پر نگرانی رکھے کہ کبھی وہ اس شرط کی خلاف ورزی نہ کر دے۔ مراقبت کی اصطلاح بعض روایات اور دعاؤں میں بھی وارد ہوئی ہے۔ منجملہ مناجات شعبانیہ میں وارد ہوا ہے:
الٰہی و الحقنی بنور عزک الابھج فاکون لک عارفا و عن سواک منحرفا و منک خائفا مراقبا۔[2]
خدایا! مجھے اپنی عزت کے نور سے ملحق کر دے کہ جو تیری ہر لذت سے زیادہ لذت آور ہے تاکہ میں تیرا عارف بن سکوں اور تیرے غیر سے دور ہوجاؤں۔ اور تجھ سے خائف رہوں اور اپنے نفس پر مراقب رہوں۔
اس شخص کی طرح کہ جو ایک کارخانہ میں کام کرنے والوں پر نگرانی رکھتا ہے اور ان پر مراقب رہتا ہے کہ کبھی کام خراب نہ کر دیں۔ سالک بھی پورا دن اپنے نفس کے کاموں پر نگرانی رکھتا ہے کہ وہ اپنے عہد و پیمان اور شرط پر باقی ہے کہ نہیں۔ اور کبھی اس شرط کے برخلاف کام انجام تو نہیں دے رہا۔ ایسی مراقبت اور نگرانی انسان کی اصلاح کرنے کے لیےبہت مدد گار ثابت ہو تی ہے کہ انسان کے قدم کبھی بھی نہ لڑکھڑائیں۔ اور خدا کی اطاعت اور بندگی کے راستے سے منحرف نہ ہو۔
آخر کار ،مراقبت کےبعد محاسبہ کی منزل ہے ۔محاسبہ سے مراد یہ ہے کہ انسان رات کے وقت سونے سے پہلے اپنے دن کے اعمال اور افعال کے اوپر تھوڑی فکر کرے اور ایک ایک کام کہ جو اس نے دن میں انجام دیا ہے یاد میں لائے اور اپنے نفس کے ساتھ حساب و کتاب کرے۔ جیسے ایک کارخانہ کے دو شریک آپس میں حساب و کتاب کرتے ہیں کہ دن میں کتنا فائدہ ہوا اور کتنا گھاٹا۔ انسان مومن اور سالک کو بھی چاہیے کہ دن میں اپنے تمام اعضاء اور جوارح پر نگرانی رکھے کہ آیا وہ اپنی ذمہ داری کو ٹھیک طریقہ سے انجام دے رہے ہیں یا نہیں۔ اور رات میں ان کا محاسبہ اور حساب و کتاب کرے کہ آیا یہ عبودیت اور بندگی کی منزل میں انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو ٹھیک نبھایا ہے یا نہیں۔ اور اگر حساب و کتاب میں کھرے اتریں تو خدا کا شکریہ ادا کرے کہ اس نے توفیق عنایت کی اور اگر خدا نخواستہ کوئی لغزش سرزد ہوئی ہو تو استغفار کرے اور دیر ہونے سے پہلے اس کا جبران کرے ۔ روایات میں آیا ہے کہ جب کوئی خطا اور گناہ کسی مومن سے سرزد ہو تا ہے ملائکہ جو اس پر مامور ہیں سات گھنٹے تک صبر کرتے ہیں کہ شائد استغفار کر لے۔ اور اگر انسان اس دوران توبہ کرے اس کے نامہ اعمال میں نہیں لکھتے۔ اس اعتبار سے انسان کو چاہیے کہ ہر روز اپنے اعمال کا محاسبہ کرے تا کہ اگر کوئی لغزش انجام پائی ہو تو فورا توبہ کرے اور اگر قضا یا پیسہ دے کر جبران کرنے یا کسی اور ذریعے سے جبران کرنے کے قابل ہے تو فورا اقدام کرے۔
یہ تین چیزیں، مشارطہ یعنی دن کے آغاز میں محکم ارادہ کرنا، مراقبہ یعنی پورادن نگرانی کرنا اور محاسبہ یعنی شام کو نفس کا دقیق حساب و کتاب کرنا، سیر وسلوک کے مراحل میں پائی جاتی ہیں۔ مزید وضاحت انشاء اللہ آئندہ بحثوں میں بیان ہوگی۔
[1] زمر، ۴۲
[2] مفاتیح الجنان ، اعمال مشترک ماہ شعبان، عمل ہشتم
source : http://www.ahlulbaytportal.com