بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی قدس سرہ کی تئيسیوں برسی میں شرکت کرنے سات سو غیر ملکی مہمان ايران آچکے ہیں۔امام خمینی رح کی برسی کی انتظامی کمیٹی کے ایک اعلی عھدیدار سید احمد میریان نے ہمارے نمائندے سےگفتگو میں کہا کہ بیس ملکوں سے مہمان آئے ہیں جن میں علماء و دانشور بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان مہمانوں کو مشہد مقدس کی زیارت بھی کروائي جائے گي۔ تین جون کو امام خمینی رح کی تئيسویں برسی منائي جائے گي۔
ادھر ترکی میں اھل بیت فاونڈیشن کے سربراہ فرمانی آلتون نے کہا ہےکہ امام خمینی قدس سرہ نے دنیا میں مکتب اھل بیت علیھم السلام کو متعارف کروانے میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ فرمانی التون نے آج ارنا سے گفتگو میں کہا کہ امام خمینی رح کے افکار و نظریات ساری دنیا پر چھاگئے ہیں اور آپ نے دنیا کو مکتب اھل بیت علیھم السلام سے روشناس کرانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ترکی کے اھل بیت فاونڈیشن کے سربراہ نے کہا کہ اسلامی اور عرب ملکوں پر نااھل حکمرانوں نے حقیقی اسلام یعنی مکتب اھل بیت علیھم السلام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررکھی تھیں اور اپنے ذاتی اور سلطنتی اھداف کو ملت اسلامی کے مفادات پر ترجیح دیتے تھے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور بحرین و سعودی عرب اس کے واضح نمونے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حضرت امام خمینی رح نے حقیقی اسلام کی بنیادوں پر اسلامی حکومت قائم کی ہے اور اسلامی انقلاب نے گذشتہ تیس برسوں میں دنیا پر مفید اثرات مرتب کئےہیں جنہيں آج ہم عالم اسلام ميں دیکھ رہے ہیں۔
ادھر روس کی پارلیمنٹ دوما میں ایک نشست میں بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی قدس سرہ کو خراج عقیدت پیش کیا گيا۔ یہ نشست جو لبرل ڈیموکریٹک پارٹی اور ماسکو میں ایرانی کلچرل ہاوس کے تعاون سے منعقد ہوئي اس میں حضرت امام خمینی رح کی شخصیت کے سیاسی اور معنوی پہلوؤں کا جائزہ لیا گيا۔ اس نشست میں دوما کے نائب اسپیکر ولادیمیر ژیرنوفسکی نے کہا کہ امام خمینی مظلوموں کی حمایت کے پرجم دار تھے اور انہوں نے ایران میں دینی جمہوریت کی بنیادوں پر حکومت قائم کی۔ انہوں نے کہا کہ دینی جمہوریت کا نظریہ سرمایہ دارانہ نظام کے مقابل ایک بڑا چیلنج شمار ہوتا ہے اور دنیا کے لئے یہ امام خمینی کا تحفہ ہے۔اس نشست میں روس کی علمی اور سیاسی شخصیتوں نے کہا کہ امام خمینی کسی ایک زمانے میں محدود شخصیت نہیں ہیں بلکہ آپ کے افکار و نظریات جغرافیائي حدود سے ماوراء ہوکر ساری دنیا میں پھیل گئے ہيں۔
source : http://urdu.irib.ir