تاریخ معاصر میں ہر موضوع پر اظہار خیال کرنے کے لئے اس کے متخصصین و ماہرین سے رجوع کیا جاتا ہے اور کسی کو بھی غیرمتعلقہ موضوع پر بولنے کی دعوت نہیں دی جاتی سوائے دینی موضوعات کے اور صد افسوس کہ صرف دین اسلام ہی ہے جو بیرونی یلغار کا بھی سامنا کررہا ہے اور اندرونی مسائل کا بھی۔ دین اسلام میں غیرمتعلقہ لوگوں کو اظہار خیال کی دعوت دشمنان اسلام نے دی گوکہ ہمارے اپنے ملکوں میں بھی ہر کس و ناکس دین پر بول لیتا ہے مگر دشمنان اسلام نے غیر متعلقہ افراد کو اسلام کے مفتیوں تک کا درجہ دے دیا اور اصل مفتی بے چارے اپنی جان لئے گوشوں میں دبکے ہوئے ہیں کہ کہیں عالمی ایجنسیوں یا بالفاظ دیگر چندقومیتی کمپنیوں سے وابستہ اور دین سے ناواقف مفتی ان کو عوامی اجتماعات میں ذبح کرنے پر مبنی فتوے ہی جاری نہ کردیں! جس کی مثالیں بہت ہیں۔
عرب دنیا کفار کی ریشہ دوانیوں اور تسلط کے خلاف بولنے تک کو گوارا نہ کرنے والے اور اپنے ملکوں میں مغرب کے خلاف جدوجہد سے منہ چھپانے والے کئی ڈاکٹر، انجنیئر اور فطری جرائم پیشہ اور انسانوں کے خون کی ہولی کھیل کر قلبی سکون حاصل کرنے والے افراد اسلام کے ہیرو اور مفتی اعظم بن بیٹھے ہیں اور باقاعدہ فتوے دے رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمسایہ ممالک میں بھی دین کی تعلیم حاصل کئے بغیر کئی مفتیوں نے عوام کا حمام خون گرم کررکھا ہے اور دوسری طرف سے کچھ غیرعالم اشخاص بعض ٹی وی اور ریڈیو پروگراموں میں بھی اور اپنی کتابوں اور مضامین اور نام نہاد دروس میں بھی اسلام کے بارے میں تفسیر بالرائے کرتے ہیں اور چونکہ انہیں علم حدیث؛ صحیح و حسن و ثقہ و ضعیف و مسند و مرسل احادیث کا علم نہیں ہے چنانچہ بعض مجعول اور موضوعہ احادیث کا سہارا لے کر دنیائے اسلام کی عظیم ترین شخصیات تک پر کیچڑ اچھال دیتے ہیں۔
دو سال قبل ایک ایم بی بی ایس کی ڈگری کے حامل عالم نما طبیب نے – جو اصطلاحاً ڈاکٹر کہلاتے تھے اور پاؤں چھوٹے ہونے کے باوجود مصلحین کے جوتے پہنے ہو ئے تھے اور حال ہی میں یوم الحساب کی طرف چلے ہیں – نے حرمت شراب کے بارے میں ترمذی کی ایک ایسی حدیث کا سہارا لے کر علی علیہ السلام کی بے حرمتی کی تھی جو اکثر سنی علماء و محدثین نے بھی مجعول قرار دی ہے۔ اور جب انہوں نے شیعیان اہل بیت (ع) سے معافی مانگی تو یہ کہہ کر مانگی کہ «جو بات انہوں نے کی تھی؛ تھی تو صحیح مگر اگر اس سے شیعہ حضرات کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ معافی چاہتے ہیں» اور یوں انہوں نے عذر گناہ بدتر از گناہ کا عملی نمونہ پیش کیا۔
ہم یہاں شراب کی تحریم کی پوری داستان جدید زمانے کی معتبر ترین تفسیر «المیزان» کی روشنی میں پیش کررہے ہیں جس میں اہل سنت کے بزرگ علماء اور مفسرین کے حوالے بھی موجود ہیں۔
اس مضمون کی بنیاد علوم آل محمد (ص) ہیں وہی جو دروازہ علم کے ذریعے شہر علم سے براہ راست حاصل ہوئز ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کی سندیت کچھ زیادہ ہی قوی ہونی چاہئے اور بحمداللہ علوم آل محمد (ص) کو کبھی کسی بھی دوست یا دشمن نے چیلنج کرنے کی جرأت نہیں کی سوائے ان لوگوں کی جو جہالت و نادانی کی بنا پر کچھ دعوے تو کرتے ہیں مگر اپنے دعؤوں کے اثبات میں عجز و قصور سے دوچار ہوجاتے ہیں۔
تحریم شراب کی روایتیں (*)
ان روایتوں میں وہ داستانیں ذکر ہوئی ہیں جن کے نتیجے میں شراب نوشی اسلام میں حرام ہوگئی۔
تفسیر عیاشی میں ہے کہ ہشام بن سالم کہتے ہیں: میں نے امام ابی عبداللہ جعفر الصادق (ع) کو فرماتے ہوئے سنا: «حمزہ اور ان کے بعض دوست شراب کی بساط پر بیٹھے تھے کہ اتنے میں «شریف» نامی کھانے کا ذکر چھڑ گیا؛ حمزہ نے پوچھا: یہ غذا کس طرح تیار کی جاسکتی ہے؟ دوستوں نے کہا کہ اونٹ کے کلیجے اور کوہان سے تیار ہوتی ہے اور یہ لیجئے آپ کے بھتیجے «علی (ع)» کا اونٹ؛ حمزہ اٹھے اور فی الفور علی (ع) کے اونٹ کو نحر کیا اور اس کا کلیجہ اور کوہان اٹھا کر دوستوں کے پاس لائے؛ علی (ع) کو معلوم ہؤا تو حمزہ پر ناراض ہوئے اور رسول اکرم (ص) کی پاس شکایت کی۔ رسول اللہ (ص) علی (ع) کے ہمراہ راوانہ ہوئے اور حمزہ کا مؤاخذہ کرنے کے لئے ان کی گھر پہنچے۔ حمزہ کو بتایا گیا کہ رسول اللہ (ص) دروازے پر ہیں۔ حمزہ غضبناک ہوکر باہر آئے؛ رسول اللہ (ص) نے ان کی یہ حالت دیکھی تو کچھ کہے بغیر واپس چلے گئے»۔ ہشام کہتے ہیں یہاں امام صادق (ع) نے فرمایا: «حمزہ نے رسول للہ کی خدمت میں عرض کیا: ابوطالب کے بیٹے نے آپ میں اتنا نفوذ کیا ہے کہ جہاں بھی چاہے آپ کو کھینچ کر ساتھ لے جاتا ہے اور پھر حمزہ اپنے گھر میں گھس گئے اور رسول اللہ (ص) بھی واپس آگئے»۔(1)
نیز امام صادق(ع) سے منقول ہے کہ: «یہ واقعہ جنگ احد سے قبل کا تھا اور اس واقعے کے بعد شراب کی آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ (ص) نے حکم دیا کہ شراب کے برتنوں کو الٹ دیں اور ان میں موجود شراب کا خاتمہ کریں۔ اس کے بعد آپ (ص) نے جنگ احد کے لئے ایک خیمہ برپا کیا اور آپ (ص) کے منادی نے اعلان کیا کہ سارے مسلمان احد کی جانب رہسپار ہوں۔ لوگ احد کی جانب روانہ ہوئے اور حمزہ بھی مدینہ سے احد کی جانب نکلے؛ وہ رسول اللہ کے ساتھ اس طرح برتاؤ کرنے پر سخت شرمندہ تھے چنانچہ آپ (ص) کے ساتھ روبرو ہونے سے اجتناب کررہے تھے اور اپنے آپ کو دور رکھتے تھے؛ حتی کہ دو لشکر آمنے سامنے صف آرا ہوئے تو حمزہ نے دشمن کی صفوں پر بھاری حملہ کیا اور دشمنوں کے درمیان اوجھل ہوگئے اور تھوڑی دیر بعد واپس لشکر اسلام کی جانب لوٹ کر آئے؛ مسلمان مجاہدین نے حمزہ کو تنبیہ کی اور کہا: اے رسول اللہ (ص) کے عمّ محترم! خبردار کہیں رسول اللہ (ص) سے معافی مانگے بغیر اپنے آپ کو معرض قتل میں قرار مت دینا۔ رسول اللہ (ص) سے معافی مانگ کر ہی میدان کارزار میں اتریں مگر حمزہ خوداعتمادی کی انتہا پر ایک بار پھر دشمن کے لشکر پر عقاب کی مانند حملہ آور ہوئے اور دشمن کے سپاہیوں کی بھیڑ میں اوجھل ہوگئے مگر بہت جلد اپنی سپاہ کے پاس واپس لوٹ کر آئے لوگوں نے پھر بھی انہیں خبردار کیا چنانچہ حمزہ نے رسول اللہ کی خدمت میں شرف حضور پایا؛ رسول اللہ(ص) نے اپنے عمّ بزرگوار کو آتے ہوئے دیکھا تو ان کا خیر مقدم کیا اور انہیں گلے لگایا اور چچا کی دو آنکھوں کے مابین پیشانی کا بوسہ لیا اور فرمایا: چچا جان اب جاؤ حملہ کرو۔ حمزہ نے حملہ کیا اور اس حملے کے دوران [معاویہ کی ماں اور ابوسفیان کی بیوی "ھند" کی پہلے سے تیار کردہ سازش کے تحت "وحشی" نامی غلام کی برچھی سے] شہید ہوئے۔ [مال غنیمت اکٹھا کرنے کی غرض سے رسول اللہ (ص) کی نافرمانی کرکے درے پر تعینات بعض صحابیوں کے میدان میں چلے جانے اور مورچہ ترک کرنے کی بنا پر خالد بن ولید کے درے پر حملے کے نتیجے میں مسلمانوں کو بھاری شکست ملنے کے بعد] رسول اللہ (ص) نے "نمرہ" نامی اونی کپڑے کے ذریعے حمزہ سیدالشہداء کو کفن دینے کی کوشش کی» – امام (ع) نے اس وقت اپنے گھر میں لٹکے ہوئے کپڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: «بالکل اسی طرح کا کپڑا تھا؛ مگر چونکہ حمزہ کا قد اونچا تھا لہذا کپڑا ناکافی تھا چنانچہ آپ (ص) نے وہ کپڑا ان کے چہرے پر ڈالا اور ٹانگوں کو صحرا کے پودوں اور گھاس کے ذریعے ڈھانپ دیا»۔
امام صادق(ع) نے یہاں فرمایا کہ «حمزہ کی شہادت کے بعد مسلمانوں کو بہت ہی شدید شکست سے دوچار ہونا پڑا اور حالات اتنے سخت ہوئے کہ مسلمان سپاہی تقریبا سب کے سب بھاگ گئے اور صرف علی بن ابیطالب (ع) میدان میں جانفشانی کے جوہر دکھانے باقی رہے۔
رسول اللہ (ص) نے علی علیہ السلام سے مخاطب ہوکر فرمایا: «یا علی! اب کیا کروگے؟» علی (ع) نے عرض کیا: «یا رسول اللہ (ص) میں استقامت و پامردی کے سوا کچھ بھی نہیں کروں گا»۔
رسول اللہ نے فرمایا: «تم سے یہی توقع کی جاسکتی ہے یا علی!»
اس کے بعد آپ (ص) نے بارگاہ الہی میں ہاتھ بلند کئے اور عرض کیا: بار الہا! تو نے مجھے جو وعدہ دیا تھا وہ وعدہ وفا کر کیونکہ اگر تو نہ چاہے تو تیری پرستش نہ ہوگی۔ (2)
اور زمخشری نے «ربیع الابرار» میں لکھا ہے کہ شراب کے بارے میں تین آیتیں نازل ہوئی ہیں۔ ایک آیت یہ ہے: يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَآ أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا (3)۔یہ آیت نازل ہونے کے بعد بعض لوگوں نے شراب نوشی ترک کردی اور بعض نے ترک نہیں کی۔ یہاں تک کہ ایک آدمی شراب پینے کے بعد نشی کی حالت میں نماز کے لئے کھڑا ہوگیا اور نماز میں ہذیان بکنے لگا؛ اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُكَارَى حَتَّىَ تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ (4)
پھر بھی بعض مسلمان شراب نوشی میں مبتلا رہے حتی کہ ان ہی ایام میں عمر نے میگساری کرکے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی سے عبدالرحمن بن عوف پر حملہ کیا اور ان کا سر پھوڑ دیا اور پھر ایک طرف بیٹھ کر «اسود بن یغفر» کے اشعار پڑھ کر بدر میں مشرکین قریش کے مقتولین کے لئے مرثیہ خوانی کی اور ان کے لئے روئے۔
اشعار کچھ یوں ہیں:
و اين بالقليب قليب بدر
ثمن القنیات و الشرب الکرام
وکاین بالقلیب قلیب بدر
ثمن السری المکامل بالسنام
ایوعدنا ابن کبشة ان نحیی
و کیف حیاة اصداء و هام
ایعجزان یرد الموت عنی
و ینشرنی اذا بلیت عظامی
الا من مبلغ الرحمن عنی
بانی تارک شهر الصیام
فقل لله: یمنعنی شرابی
و قل لله: یمنعنی طعام (5)
کتنی نغمہ سرا کنیزیں
اور کریم ہم پیالہ افراد بدر کے کنوئیں میں نہاں ہوگئے
اور کتنے بزرگ افراد جو اپنے بزرگترین فرد کےساتھ
بدر کے کنوئیں میں زیرخاک چلے گئے اور سوگئے
کیا (معاذ اللہ) ابن کبشہ(6) ہمیں موت کے بعد زندہ ہونے کا وعدہ دیتے ہیں؟!
اور چہ معنی دارد کہ «صدی» اور «ھام»(7) میں تبدیل ہونے کے بعد انسان دوبارہ زندہ ہوجائے ؟
کیا وہ اس سے عاجز ہیں کہ موت کو مجھ سے ہٹادیں
اور پھر مجھ میری ہڈیاں خاک ہونے کے بعد زندہ کردیں گے!
کوئی ہے جو رحمان کو میرا پیغام پہنچادے
اور اس سے کہہ دے کہ میں تیرے رمضان کا روزہ نہیں رکھتا
پس کہہ دو اللہ سے کہ مجھے پینے سے منع کردے
اور خدا سے کہہ دو کہ مجھے کھانے سے منع کردے
خبر حضرت رسول اکرم (ص) کو پہنچی تو آنحضرت (ص) غضبناک ہوکر گھر سے نکلے؛ آپ (ص) اتنی سرعت کے ساتھ چل رہے تھے کہ آپ (ص) کی عبا زمین پر گھسٹ رہی تھی اور جب عمر کے قریب پہنچے تو ہاتھ اوپر کو اٹھایا تا کہ انہیں اس شیۓ کے ذریعے مضروب کردیں جو آپ (ص) کے ہاتھ میں تھی اور ان کو تأدیب و تنبیہ کریں۔
عمر نے عرض کیا: خدا کی پناہ مانگتا ہوں خدا اور اس کے رسول (ص) کے غضب سے؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ (ص) کا غصہ ٹھنڈا ہؤا اور اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی:
إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللّهِ وَعَنِ الصَّلاَةِ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ (8)
بے شک شیطان چاہتا ہے کہ شراب اور جوّے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور دشمنی ڈال دے اور تمہیں یاد خدا اور نماز سے غافل کردے تو کیا تم اجتناب کروگے؟! عمر نے جب یہ سنا تو کہنے لگے: بس ہم اس عمل سے رک گئے اور ہم نے اس سے ہاتھ کھینچ لیا۔(9)
سیوطی کی تفسیر «درّالمنثور» میں ہے کہ «ابن جریر»اور «ابن منذر» اور «ابن ابی حاتم» اور «ابو الشیخ» اور «ابن مردویہ» اور «نحاس» نے اپنی کتاب «ناسخ» میں؛ سب نے «سعدبن ابی وقاص» سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ: تحریم شراب والی آیت میرے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر نازل ہوئی ہے اور وہ واقعہ کچھ یوں تھا کہ: ایک روز ایک انصاری مرد نے کھانا پکایا اور ہمیں بھی اپنے دسترخوان پر بلایا؛ ہمارے علاوہ بھی کئی لوگ تھے اور ہم سب نے کھانا کھانے کے بعد شکم سیر ہوکر شراب نوشی کی اور سارے مست و لایعقل ہوگئے – البتہ یہ واقعہ شراب نوشی کی حرمت کا حکم نازل ہونے سے قبل کا ہے – جب ہمارے سر شراب کے نشے سے گرم ہوئے تو انصار نے تفاخر شروع کیا اور کہنے لگے "ہم قریش سے بہتر ہیں"؛ قریش نے کہا:"ہم انصار سے بہتر ہیں"؛ فخر فروشی کے اس بازار میں ایک شخص نے وہاں پڑی اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اٹھا کر میری ناک پر ماری اور میری ناک پھٹ گئی،(تاریخ میں ہے کہ سعد کی ناک آخر عمر تک پھٹی ہوئی تھی)؛ میں اسی حال میں رسول اللہ (ص) کی خدمت میں حاضر ہؤا اور آپ (ص) کی بارگاہ میں شکایت کی اور اپنا ماجرا کہہ سنایا اور میری عرض حال کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اور رسول اللہ (ص) نے اس کی تلاوت فرمائی:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (10)
اے ايمان والو! شراب، جوّا، بت اور ازلام (جو ایک قسم کی بخت آزمائی ہے) پلید اور شیطان کے عمل سے ہیں اور ان سے پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پاؤ!
مؤلف: تحریم شراب کے بارے میں منقولہ داستانوں کے سلسلے میں وارد ہونے والی روایات اہل تسنن کے منابع و مآخذ میں کثیر ہیں اور ان روایات میں مضمون کے حوالے سے بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے چنانچہ اصحاب رسول (ص) میں سے وہ افراد جو شراب نوشی کے مرتکب ہوئے ہیں بھی بہت ہیں جن کے نام و نشان و احوال کا ذکر چونکہ ہماری مقصد سے تعلق نہیں رکھتا لہذا ان کے نام ذکر کرنے سے معذور ہیں؛ کیونکہ ہمارا کام تفسیر قرآن ہے اور بس۔
مندرجہ بالا سطور میں جو داستانیں ذکر ہوئیں صرف یہ بتانے کے لئے تھیں کہ سورہ بقرہ کی آیت کے نزول کے بعد بھی بعض مسلمان شراب نوشی میں مبتلا تھے جس کی بنا پر بعد والی آیات نازل ہوئیں۔
البتہ ایسے بھی روایات ہیں کہ علی (ع) اور عثمان بن مظعون ان آیات سے قبل بھی شراب نوشی سے پرہیز کیا کرتے تھے۔
کتاب «ملل و نحل» میں ان عرب مَردوں کا بھی ذکر آیا ہے جنہوں نے زمانہ جاہلیت میں ہی شراب نوشی اپنے اوپر حرام قرار دی تھی جن میں سے بعض نے بعد میں اسلام قبول کیا۔ ان ہی لوگوں میں سے «عامربن ظرب عدوانی» اور «قیس بن عاصم تمیمی»، (جنہوں نے اسلام کی روشنی کا ادراک کیا) اور «صفوان بن امیة بن محرث کنانی» اور «عفیف بن معدی کرب الکندی» اور «اسلوم الیامی» وہ لوگ تھے جنہوں نے شراب اور زنا کو ایک ساتھ اپنے اوپر حرام کیا تھا۔ البتہ یہ لوگ اس زمانے کے بعض ہی افراد ہیں جن کی زبان پر کلمہ حق جاری ہؤا ورنہ اس زمانے کے عام لوگ – سوائے یہودیوں کے – شراب نوشی میں مبتلا تھے اور شراب کا استعمال پانی کی طرح ان کے درمیان رائج اور عام تھا(11)(12) تا آنکہ خداوند متعال نے قرآن کریم میں بھی انہیں حرام کردیا۔
آیات کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شراب کی حرمت کا حکم مکہ میں ہی قبل از ہجرت نازل ہؤا ہے جیسا کہ
«قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُواْ بِاللّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُواْ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ»(13)
کہہ دو: «خداوند متعال نے صرف اعمال قبیح [بھونڈے افعال] کو – چاہے آشکار ہوں یا نہاں – حرام قرار دیا ہے اور اسی طرح گناہ اور غیرحق ظلم کو اور یہ کہ وہ چیز - جس کے لئے خدا نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے - تم اس کا شریک قرار دو اور خدا کو ایسی چیز (فعل و کلام) کی نسبت دو جسے تم نہیں جانتے ہو»۔
یہاں گناہ (اثم) سے مراد شراب نوشی ہے۔ کیونکہ یہ آیت مکی ہے اور اگر اس کو آیت«آیہ یسئلونک عن الخمر و المیسر قل فیهما اثم کبیرو منافع للناس و اثمهما اکبر من نفعهما»(14) کے ساتھ ضمیمہ کیا جائے جو ایک مدنی آیت ہے تو معلوم ہوگا کہ شراب اوائل ہجرت میں مسلمانوں پر حرام تھی۔ اور اگر موضوع بحث آیات، خاص طور سورہ مائدہ کی آیت کا حصہ «فهل انتم منتهون»، اور «لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُواْ إِذَا مَا اتَّقَواْ وَّآمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَواْ وَّآمَنُواْ ثُمَّ اتَّقَواْ وَّأَحْسَنُواْ وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ» (15) (= ایمان لانے والے عمل صالح انجام دینے والوں پر ان چیزوں کے حوالے سے کوئی گناہ نہیں ہے جو انہوں نے کھالی ہیں (اور حکم تحریم سے پہلے شراب نوشی کی بنا پر انہیں سزا نہیں ملے گی) بشرطیکہ تقوادار ہوجائیں اور ایمان لائیں اور اعمال صالح انجام دیں اور پھر پرہیزگار بنیں اور ایمان لائیں اور پھر پرہیزگار ہوجائیں اور نیکی کریں اور خداوند متعال نیک عمل لوگوں کو دوست رکھتا ہے) کے سیاق میں غور و خوض کیا جائے تو کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا کہ سورہ بقرہ کی آیت نازل ہونے سے پہلے اور سورہ مائدہ کی آیات نازل ہونے سے قبل بعض مسلمانوں کا اس عمل میں ابتلا سابقہ برے عمل کا تسلسل تھا بالکل اسی طرح کہ بعض لوگوں کے لئے ماہ مبارک رمضان کی راتوں میں بیویوں کے ساتھ ہمبستری سے پرہیز کرنا دشوار تھا کیونکہ دیگر مہینوں کی راتوں میں یہ ان کی روزمرہ کی عادت تھی اور ترک عادت ماہ رمضان میں بھی ان کے لئے مشکل تھا اور اسی بنا پر وہ نافرمانی کا ارتکاب کیا کرتے تھے اور آخر کا یہ آیت نازل ہوئی:«أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَآئِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عَلِمَ اللّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ فَالآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُواْ مَا كَتَبَ اللّهُ لَكُمْ» (16)(= تمہارے لئے بیویوں کے ساتھ مجامعت روزے کی راتوں کو حلال قرار دی گئی، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو (دونوں ایک دوسرے کی زینت اور ایک دوسرے کی حفاظت کا سبب ہو)، خدا جانتا تھا جب تم اپنے ساتھ خیانت کیا کرتے تھے (اور اس عمل ممنوع کا ارتکاب کئے کرتے تھے) پس خدا نے تمہاری توبہ قبول فرمائی اور تمہیں بخش دیا اب اپنی بیویوں کے ساتھ ہمبستری کرو اور وہی کچھ طلب کرو جو تمہاری لئے مقرر کیا گیا ہے۔) اور یہ آیت نازل ہوتے ہے سابقہ حکم منسوخ ہؤا!،
چونکہ شراب ہجرت سے قبل حرام ہوئی تھی اور صحابہ اس حکم سے بخوبی آگاہ تھے لہذا مذکورہ روایات میں دو حوالوں سے سقم پایا جاتا ہے:
اولاً: ان روایات میں تحریم شراب کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے اختلاف ہے؛ بطور مثال پہلی روایت میں ہے کہ تحریم شراب کا حکم جنگ احد سے پہلی نازل ہؤا تھا جبکہ طبری نے اپنی تفسیر میں اور سیوطی نے درالمنثور میں طبری اور ابن منذر اور قتادہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ تحریم شراب کا حکم جنگ احزاب کی بعد نازل ہؤا ہے۔(17) ممکن ہے کہ جنگ احزاب کی بعد تحریم شراب کا حکم نازل ہونے حضرات کی مراد یہ ہو کہ سورہ مائدہ کی آیات جنگ احزاب کی بعد نازل ہوئی ہیں گو کہ یہ توجیہ بھی بعض روایت کے ساتھ لفظی تناسب نہیں رکھتا
ثانیاً: یہ روایتدلات کرتی ہیں اس بات پر کہ سورہ مائدہ کی آیات کی نزول سے پہلی شراب حرام نہیں تھی؛ یا پھر اگر حرام تھی بھی تو حتی اصحاب تک کو اس حکم کا علم نہیں تھا! حالانکہ سورہ اعراف کی آیت ثابت کرتی ہے کہ اثم یعنی شراب نوشی مطلقاً حرام تھی اور سورہ بقرہ کی آیت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ شراب نوشی «اثم» ہی؛ تو اب سوال اٹھتا ہے کہ ان ایام میں اصحاب کے لئے حرمت شراب کیونکر واضح و آشکار نہ ہوسکی تھی؟ اور یہ کہ کوئی کہہ دے کہ «اثم» کی حرمت ہجرت سے قبل مکہ معظمہ میں دیگر گناہوں کی حرمت کے ہمراہ نازل ہوئی ہے جیسا کہ فرمان خداوندی ہے: «قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُواْ بِاللّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُواْ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ»(18) اور اس طویل عرصے میں کسی بھی مؤمن نے «اثم» کے معنی و مفہوم کے بارے میں کچھ بھی نہیں پوچھا ہے اور مشرکین نے بھی اسلام و قرآن پر تنقید و اعتراض کے تمام مواقع سے استفادہ کرنے کے لئے آمادگی کے برعکس اس عرصے میں تناؤ پیدا کرنے کے لئے اس کے بارے میں کوئی وضاحت طلب نہیں نہیں کی ہے؛ تو یہ واقعی ناقابل قبول اور بعید از قیاس توجیہ ہوگی؛ بلکہ تاریخ سے تو ثابت ہے کہ مشرکین کے ہاں رسول اللہ (ص) کی جانب سے شراب کی حرمت بھی، شرک اور زنا کی حرمت کی مانند مشہور و معروف تھی چنانچہ «ابن ہشام» نے اپنی کتاب «السیرة» میں «خلادبن قرة» اور «بکر بن وائل» کے اساتذہ – جو اہل علم تھے – سے نقل کیا ہے کہ «اعشی بن قیس» رسول اللہ (ص) کی زیارت اور قبول اسلام کی غرض سے مکہ معظمہ کے لئے روانہ ہؤا۔ اس نے رسول اللہ (ص) کی مدح میں ایک قصیدہ کہا تھا جس کا مطلع یہ تھا:
«الم تغتمض عیناک لیلة ارمدا * ثو بت کما بات السلیم مسهدا»(19)
جب شہر مکہ کے نواح میں پہنچا تو اس کا سامنا بعض مشرکین سے ہؤا۔
ایک مشرک نے پوچھا: کہاں جارہے ہو؟
اعشی نے کہا: مکہ جارہا ہوں۔
مشرک نے پوچھا: کس مقصد سے مکہ جارہے ہو؟
اعشی نے کہا: مکہ جاکر رسول اللہ (ص) سے ملاقات اور ان پر ایمان لانا چاہتا ہوں۔
مشرک نے کہا: اے ابا بصیر! ایسا ہرگز مت کرنا کیوں کہ انہوں نے زنا کو حرام قراردیا ہے!
اعشی نے کہا: خدا کی قسم! میں کبھی بھی زنا میں مبتلا نہیں رہا ہوں اور اور اس کی حرمت کی مجھے کوئی پروا نہیں۔
مکی مشرک نے کہا: صرف زنا ہی نہیں بلکہ وہ شراب نوشی کو بھی حرام قرار دے رہے ہیں!
اعشی اپنے ارادے میں قدرے سست ہؤا اور کہنے لگا: شراب کی تحریم والی بات میرے اسلام لانے کے التواء کا سبب ہے؛ کیونکہ شراب کی محبت کے بقیات ابھی تک میرے دل میں ہیں جنہیں میں نظر انداز نہیں کرسکتا لہذا اس وقت واپس لوٹ کر جاتا ہوں اور ایک سال تک سیر ہوکر شراب نوشی کرتا ہوں اور اگلے سال لوٹ کر آتا ہوں۔
چنانچہ اعشی اگلے سال اسلام قبول کرنے کی غرض سے مکہ کا سفر اختیار کرنے کی نیت لے کر واپس چلا گیا مگر موت نے اس کو لوٹنے کی مہلت نہ دی۔
چنانچہ تحریم شراب کے حکم سے حتی مشرکین بھی آگاہ تھے اور اب سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود ان روایات کے لئے کیا جواز رہتا ہے جن کی بنا پر سورہ مائدہ کی آیات کے نزول سے قبل شراب حرام نہ تھی یا شراب کی حرمت مسلمانوں کے لئے واضح و معلوم نہ تھی؟ مگر یہ کہ ہم ان روایات کی یوں وضاحت کریں کہ «اصحاب نے قرآنی آیات میں اجتہاد کیا تھا اور انہوں نے اجتہاد کے وقت سورہ اعراف کی آیت « قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ ۔۔۔» سے غفلت برتی تھی!
مفسرین نے ان روایات کی توجیہ و وضاحت میں عجیب و غریب قسم کی توجیہات اور وضاحتیں پیش کی ہیں، حتی ان میں سے بعض نے کہا ہے کہ «صحابہ سورہ بقرہ کی آیت «قل فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ» کی تأویل کیا کرتے تھے» حالانکہ قرآن کریم نے اس سے قبل سورہ اعراف کی آیت « قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ ۔۔۔» «اثم» کی حرمت کا اعلان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ «اثم سے مراد گناہ خاص یعنی «شراب» ہے۔(20)
مختصر یہ کہ قرآنی آیات اس حقیقت پر تصریح و تنصیص کررہی ہیں کہ شراب اسلام میں اور قبل از ہجرت حرام ہوئی ہے اور سورہ مائدہ کی آیت ابتدائی تحریم پر تأکید اور احکام سابق کی تشدید کے عنوان سے مسلمانوں کو ان احکام کی پابندی پر آمادہ کرنے، خدا کی طرف سے ممنوعہ افعال سے اجتناب کرنے اور اس سلسلے میں سستی اور غفلت کی حرمت کے اعلان کی غرض سے نازل ہوئی ہے۔
تفسیر عیاشی میں «خمر»، «میسر»، «انصاب» اور «ازلام» کی حرمت کے بارے میں دیگر روایات بھی ہیں۔ عیاشی کے مطابق «ہشام» نے ایک موثق مرد سے اور اس نے بعد کے راویوں کے نام ذکر کئے بغیر (مرفوعاً) امام صادق(ع) سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے آنجناب کی خدمت میں عرض کیا: آپ اہل بیت (ع) سے روایات نقل ہورہی ہیں کہ «خمر»، «میسر»، «انصاب» اور «ازلام» درحقیقت اشخاص سے کنایہ ہیں!
امام علیہ السلام نے فرمایا: جھوٹ ہے؛ خداوند متعال کبھی بھی اپنی مخلوقات سے ایسے انداز میں خطاب نہیں فرماتا جو ان کی سمجھ سے باہر ہو۔(21)
نیز اسی تفسیر میں ہے کہ «عبد اللہ بن سنان» نے امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ: «قدامة بن مظعون» کو شراب نوشی کے جرم میں «عمر بن خطاب» کے ہاں حاضر کیا گیا؛ گواہوں نے بھی اس کے خلاف گواہی دی تھی، عمر نے علی(ع) پوچھا کہ اب کیا کرنا چاہئے؟ امام (ع) نے فرمایا: اب اسے اسّی تازیانے مارنے چاہئیں۔
قدامہ نے کہا: یا امیرالمؤمنین مجھ پر حد جاری نہیں ہونی چاہئے کیوں کہ میں اس آیت کے مصادیق میں شامل نہیں ہوتا! بلکہ میں اس آیت کے مصادیق میں شمار ہوتا ہوں: لیس علی الذین آمنوا وعملوا الصالحات جناح فیما طعموا ۔۔۔ اور اس نے آیت آخر تک پڑھ لی۔
امیر المؤمنین علی (ع) نے فرمایا: جھوٹ بول رہے ہو تم اس آیت کا مصداق نہیں ہو کیونکہ اس آیت کے مصادیق نے جو بھی کھایا تھا ان کے لئے حلال تھا (کیونکہ یہ سب انہوں نے تحریم شراب سے پہلے کھایا تھا) اور وہ حلال کے سوا نہ کچھ کھاتے تھے اور نہ ہی کچھ پیتے تھے(22)۔
مؤلف: عیاشی نے عین یہی روایت «ابی الربیع» سے اور انہوں نے امام صادق(ع)(23) سے اور شیخ طوسی نے تہذیب میں اپنی سند سے امام صادق (ع) سے نقل کی ہے (24) اور اہل سنت کے مصادر و منابع میں بھی یہی حکم آیا ہے۔ اور یہ جو امام (ع) نے فرمایا ہے کہ: «اس آیت کے مصادیق نے جو بھی کھایا ہے ان پر حلال تھا اسی بیان کے عین مطابق ہے جو ہم نے اس سے قبل آیت شریفہ کے حوالے سے پیش کیا ہے؛ رجوع کریں۔
اور طبری اپنی تفسیر میں «شعبی» سے نقل کرتے ہیں کہ اس نے کہا: «شراب کے بارے میں چار آیتیں نازل ہوئی ہیں۔ سب سے پہلی آیت «یسئلونک عن الخمر و المیسر۔۔۔» نازل ہوئی تو لوگوں نے آیت سن کر شراب نوشی ترک کردی؛ پھر آیت «وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ»(25)(اور تم کھجور اور انگور کے درختوں سے (ناپاک) نشہ آور اشیاء اور اچھا اور پاکیزہ رزق حاصل کرتے ہو؛ اس میں روشن نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو سوچتے اور سمجھتے ہیں!) نازل ہوئی تو لوگوں نے آیت سن کر دوبارہ شراب نوشی کا آغاز کیا اور اس کے بعد سورہ مائدہ کی دو آیتیں (90 اور 91) فهل انتم منتهون تک نازل ہوئیں(26)[اور لوگوں نے شراب ترک کردی!؟]
مؤلف: شعبی کے کلام کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ سورہ نحل کی آیت نازل ہوئی تو سورہ بقرہ کی آیت منسوخ ہوئی اور سورہ مائدہ کی دو آیتیں نازل ہوئیں تو انہوں نے سورہ نحل کی آیت کو منسوخ کردیا اور یہ بات اتنی سست اور بے بنیاد ہے کہ میرا خیال نہیں ہے کہ قارئین کرام کے لئے اس کا بطلان ثابت کرنے کے لئے مزید وضاحت کی ضرورت ہوگی۔
شراب کی ازلی اور ابدی حرمت
حقیقت یہ ہے کہ شراب تمام شریعتوں میں حرام تھی اور «الکافی» اور «التہذیب» میں امام ابی جعفر محمد بن علی علیہماالسلام سے نقل ہؤا ہے کہ: «خدا نے جو بھی پیغمبر مبعوث فرمایا اس کے علم میں یہ بات تھی کہ جب ان کا دین مکمل ہوگا ان کے دین کے کمال کا لازمہ یہ ہوگا کہ شراب کو حرام قرار دیا جائے اور شراب ہمیشہ سے حرام تھی؛ اختلاف صرف اتنا تھا کہ ہر نبی کی شریعت کی ابتدائے بعثت اور انتہائے بعثت میں شراب کی تحریم کا انداز مختلف تھا۔ ابتدا میں نرمی کے ساتھ تحریم کا حکم نازل ہوتا تھا اور انتہا میں جزم و قطع اور شدت کے ساتھ؛ کیونکہ اگر انبیاء ابتدا میں ہی سختی سے شراب حرام قرار دیتے اور شدت عمل بروئے کار لاتے تو لوگ سرتسلیم خم نہ کرتے اور دین کے ساتھ اپنا رشتہ ہی توڑ دیتے»۔
نیز امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے: «کوئی بھی خداوند متعال کے برابر انسانوں کے ساتھ روادارانہ اور نرم رویہ اختیار نہیں کرتا اور یہ بھی خداوند متعال کی رواداری اور نرمی ہے کہ فرائض کو بندوں کے درمیان نرمی سے اور قدم بقدم لاگو فرماتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر اگر کوئی فریضہ یکبارگی کے ساتھ ان کے کندھوں پر ڈال دیا جائے تو وہ گمراہ اور بالنتیجہ ہلاک ہوجائیں گے»(27)
علامہ کلینی (رح) اپنی سند سے «عمرو بن شمر» سے اور وہ ابی جعفر محمد باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ (ع) نے فرمایا: «جب خداوند متعال نے آیت «إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ» نازل فرمائی تو کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: مَيْسِرُ، کیا ہے؟ آنحضرت (ص) نے فرمایا: وہ ساری اشیاء اور آلات جن کے ذریعے جوّابازی ہوتی ہے حتی کہ «کعب» (28)، اور اخروٹ بھی۔
لوگوں نے پوچھا: انصاب کیا ہیں؟
آنحضور (ص) نے فرمایا: وہ چیزیں جو بتوں کے لئے قربان کی جاتی ہیں۔
پوچھا: ازلام کیا ہیں؟
رسول اللہ (ص) نے فرمایا: لکڑیوں کی بنی وہ چھڑیاں جن کے ذریعے قرعہ اندازی کی جاتی تھی»۔(29)
اور الکافی میں «عطاء بن یسار» کی روایت میں ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے نے فرمایا: «كل مسكر حرام، وكل مسكر خمر = ہر مُسکِر (نشہ آور مادہ) حرام اور ہر مُسکِر خمر (شراب) ہے۔(30)
مؤلف: یہ روایت اہل سنت کے ذرائع نے بھی «عبداللہ بن عمر» سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کی ہے؛ اور اس روایت کی عبارت کچھ یوں ہے: «ہر مسکر خمر ہے اور ہر خمر حرام ہے اور بیہقی اور دیگر سنی محدثین نے یہ روایت نقل کی ہے(31) اور ائمہ اہل بیت (ع) سے یہ روایت کہ «ہر مسکر حرام ہے اور ہر وہ چیز جس کے ذریعے جوّابازی کی جاسکتی ہو حرام ہے» استفاضہ کی حدتک پہنچی ہے۔
اور تفسیر عیاشی میں «ابوالصباح» سے روایت ہوئی ہے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے «نبیذ» اور «خمر» کے بارے میں پوچھا کہ کیا دونوں کی حیثیت برابر ہے اور دونوں حرام ہیں؟(32) امام صادق(ع) نے فرمایا: نبیذ خمر کے برابر نہیں ہے؛ خدا نے خمر حرام قرار دیا ہے خواہ کم ہو یا خواہ زیادہ ہو جیسا کہ مردار جانور، خون اور خنزیر کا گوشت چاہے کم ہو چاہے زیادہ، حرام ہے اور رسول اللہ (ص) نے ہر اس مشروب کو حرام قرار دیا ہے جو نشہ آور ہو اور البتہ رسول اللہ (ص) نے جو کچھ بھی حرام قرار دیا ہے درحقیقت خدا نے ہی اسے حرام کردیا ہے»۔(33)
اور الکافی اور التہذیب میں امام موسی کاظم علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا: «خدا نے خمر کو اس لئے حرام قرار نہیں دیا کہ اس کو شراب اور خمر کے نام سے نفرت تھی بلکہ اس کی حرمت کا سبب اس کے نہایت برے اثرات اور نہایت برا انجام ہے؛ چنانچہ وہ ساری چیزیں جن کا اثر اور انجام شراب کے انجام و آثار کی مانند ہو، خمر ہے اور حرام ہے»۔ (34) (35) [اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نشہ آور اشیاء جن کے اثرات برے ہیں اور ان کا انجام شراب سے کم نہیں بلکہ بعض مواقع پر شراب سے بھی زیادہ مضر ہیں جیسے ہروئن، چرس، افیون، مارفین، کوکائین، میری جوانا، کرسٹل، مختلف قسم کے نشہ آور ٹیکے وغیرہ سب خمر اور شراب کے زمرے میں آتے ہیں اور حرام ہیں]۔
ایک اور روایت میں ہے کہ ہر وہ چیز جو شراب کا کام کرے شراب ہے اور شراب حرام ہے۔ (36)۔
مؤلف: خمر اور میسر کی حرمت کے بارے میں شیعہ اور سنی منابع سے وارد ہونے والی روایات شمار سے باہر ہیں اور اگر کوئی ان روایات سے آگہی حاصل کرنا چاہے، اس کو حدیث کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
مآخذ:
*۔ (مقالہ کا اصل منبع: ترجمه تفسیر المیزان جلد 6 ، علامہ سیدمحمدحسین طباطبایی؛ص 193 تا 201)
1۔ رسول اللہ (ص) کے رویّے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (ص) نے ایک طرف سے چچا کی بڑائی کا لحاظ رکھا اور مال جن کا ضائع ہؤا تھا وہ بھی اخ الرسول (ص) ہی تھے اور حمزہ کے بھتیجی بھی تھے اور پھر اس قصے میں کسی دوسرے انسان کو کوئی جسمانی تکلیف بھی نہ پہنچی تھی اور حمزہ نے اپنے اس عمل کو درست قرار دے کر کوئی اسلام مخالف اظہار خیال بھی نہیں کیا تھا چنانچہ رسول اکرم (ص) اور علی (ع) نے اپنے چچا کے عمل سے درگذر فرمایا۔
2۔ تفسیر عیاشی ج 1 ص 339۔
3۔ سورہ بقرہ آیت 219۔ شراب اور جوّے کے بارے میں وه آپ سے سوال کرتے ہیں؛ ان سے کہہ دو کہ ان میں بہت بڑا گناہ اور زیادہ نقصانات ہیں اور (مادی لحاظ سے) لوگوں کے لئے فائدے ہیں (لیکن) ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت بڑا ہے۔
4۔ سورہ نساء آیت 46۔اے ایمان والو! نشے اور مستى کی حالت میں نماز کے قریب مت جانا تا کہ سمجھ سکو کہ کیا کہہ رہے ہو۔
5۔ ابن ابی الحدید معتزلی نے یہ اشعار یوں نقل کئے ہیں:
(فماذا بالقليب قليب بدر
من الفتيان والقوم الكرام !
وماذا بالقليب قليب بدر
من الشيزى تكلل بالسنام!
أيخبرنا ابن كبشة أن سنحيا
وكيف حياة أصداء وهام !
إذا ما الرأس زال بمنكبيه
فقد شبع الانيس من الطعام
أيقتلني إذا ما كنت حيا
ويحييني إذا رمت عظامي !)
(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی ج1 ص 118۔)
6۔ ابن کبشہ: مشرکین قریش پیٹھ پیچھے رسول خدا (ص) کو اس لقب سے یاد کرتے تھے۔
7۔ مشرکین قریش میں سے بعض «تناسخ» کے قائل تھے اور ان کا خیال تھا که انسانی روح بعد از موت «صدی» اور «ھام» نامی پرندوں میں تبدیل ہوتی ہے اور یہ پرندے قبرستانوں میں بسیرا کرتے ہیں۔
8۔ سورہ مائدہ آیت 91۔
9۔ ربیع الابرار۔
10۔ در المنثور ج 2 ص 315۔ (مائده 90)
11۔ ملل و نحل ج 2 ص 242۔
12۔ [شریعت ابراہیمی کے پیروکار جن میں بنوہاشم کی اکثریت بھی شامل تھی تمام محرمات منجملہ شراب، جوّے اور زنا وغیرہ جیسی بدفعلیوں کو زمانہ جاہلیت میں بھی حرام سمجھتے تھے]
13۔سورہ اعراف آیت 33۔
14۔ سورہ بقرہ آیت 219۔
15۔ (مائدہ 93)
16۔ سورہ بقرہ آیت 187۔
17۔ درّ المنثور ج 2 ص 318۔
18۔ سورہ اعراف آیت 33۔
19۔ (کیا آپ وہ رات بھی آنکھوں میں ہی گذارتے ہیں جب آپ کو آنکھوں کی تکلیف ہوتی ہے * اور کیا سانپ گزیدہ انسان کی طرح رات کو جاگ کر گذارتے ہیں!)
20۔ تفسیر مجمع البیان ج 2 ص 316۔
21 و 22۔ تفسیر عیاشی ج 1 ص 341 ح 189۔
23۔ تفسیر عیاشی ج 1 ص 341 ح 190۔
24۔ تہذیب الاحکام ج 1 ص 93 ح 17۔
25۔ نحل 67
26۔ الدر المنثور ج 2 ص 2 ح 1۔
27۔ الکافی ج 6 ص 395 ح 3 تہذیب الاحکام ج 9 ص 102 ح 178۔ 22۔
28۔ کعب کو فارسی میں قاپ کہتے ہیں اور یہ وہ ہڈیاں ہیں جو جوّے بازوں کے استعمال میں آتی ہیں۔ (بھیڑ بکریوں کے پاؤں کے ساتھ جوڑ میں واقع چھوٹی چھوٹی سی ہڈیاں)
29۔ الکافی ج 5 ص 122 ح 1۔
30۔ الکافی ج 6 ص 408 ح 3۔
31۔ سنن بیہقی ج 8 ص 288۔
32۔ نبیذ بھی چونکہ کھجور اور انگور کا پانی ہے جو ابالا جائے تو اس کا پینا حرام ہے اور ابال کر معینہ حد تک اس کی مقدار کم کی جائے تو پینا حرام ہے لیکن نجاست کے دائرے سے نکل جاتا ہے اور اگر نبیذ نشہ آور ہو تو خود بخود خمر کے دائرے میں آتا ہے اور حرام ہے جیسا کہ فرمایا گیا کہ کل مسکر خمر و کل خمر حرام۔
33۔ تفسیر عیاشی ج 1 ص 340 ح 184۔
34۔ الکافی ج 6 ص 412 ح 1۔
35۔ التہذیب ج 9 ص 112 ح 221۔
36۔ الکافی ج 6 ص 412 ح 2۔
source : http://rizvia.net