اردو
Saturday 4th of May 2024
0
نفر 0

معراج انسانیت امام موسیٰ کاظم(ع)

آپ کے زمانہ میں سیاست کا شکنجہ پھر سخت ہو گیا۔ ا

اب نہ تعلیم و تدریس کی وہ آزادی رہی نہ تبلیغ و اشاعت کے مواقع باقی رہ گئے۔ حکومت وقت برابر آپ سے برسر پرخاش رہی یہاں تک کہ آخر عمر کے کئی سال تمام اوکمال قید خانہ میں گزر گئے مگر آپ کی بلند سیرت کی روشنی اتنی تیز تھی کہ قید خانہ کی اونچی اور سنگین دیواریں اس کے لئے ایک نازک و باریک پردہ سے زیادہ نہ تھیں جس کے اندر سے اس کی شعائیں چھن کر باہر نکلی رہیں۔ یہاں تک کہ چودہ صدیاں پار کرکے ہم تک بھی پہنچ سکی ہیں۔

چنانچہ اسی سیرت کی بلندی کا نتیجہ یہ تھا کہ حکومت وقت کے مقررکردہ قیدخانوں کے افسر آپ کی نیکوکاری کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے تھے اورآپ کے ساتھ سختی کرنے سے معذور رہتے تھے جس کے نتیجہ میں بار بار نگرانوں کے بدلنے کی ضرورت ہوتی تھی۔ چنانچہ پہلے آپکو بصرہ میں عیسیٰ بن جعفر بن منصور کی نگرانی میں رکھا گیا۔ اس ہدایت کے ساتھ کہ ان کو قید تنہائی میں رکھو اور کچھ دن کے بعد حکم دیا کہ انہیں قتل کر دو۔ وہ خلیفہ وقت کا چچازاد بھائی تھا مگر اس کے دل پر امام موسیٰ کاظم(ع) کے حسن کردار کا اثر پڑ گیا تھا۔ اس نے لکھا کہ میں نے ان کے حالات کی خوب جانچ کی ہے وہ تو ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے ہیں اور شب و روز عبادت میں مصروف رہتے ہیں تنہائی کے عالم میں بھی ہم میں سے کسی کے لئے کبھی بددعا نہیں کرتے بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ تونے مجھے اپنی عبادت کے لئے یہ تنہائی کی جگہ عطا فرمائی۔ ایسے خداترس اور عبادت گزار کی جان لینا میرے بس کی بات نہیں ہے۔

جب اس نے انکار کیا تو آپ کو بصرہ سے بلوا کر بغداد میں فضل بن ربیع کے سپرد کیا گیا۔ مگر فضل پر بھی آپ کے کردار کے مشاہدہ کا خاص اثر پڑا۔ آخر فضل بن ربیع کو بھی اس صورت سے برطرف کیا گیا۔ یحییٰ برمکی کو براہ راست نگران بنا دیا گیا اور اس سے بھی پھر غیرمطمئن ہو کر سندی بن شاہک کو مقرر کیا گیا۔ یہ ایسا قسی القلب اور سفاک تھا کہ اس نے زہر دغا دے کر امام(ع) کی زندگی کا خاتمہ کیا۔

زندگی میں قید خانہ میں محبوس رکھے گئے اور پھر قبر کے اندر مدفون ہو گئے مگر ان کے اوصاف و کمالات، زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت ہی نہیں بلکہ ان کے زبان و قلم سے نکلے ہوئے بہت سے ارشادات و تعلیمات اور شریعت نبوی ک ےاحکام اب تک کتابوں کے صفحات پر موجود ہیں جو بتا رہے ہیں کہ وہ اسی سلسلہ کی ایک فرد تھے جس میں سے ہر ایک اپنے دور کے حالات کے مطابق کاروان بشر کو منزل کمال انسانیت تک پہنچانے کے لئے رہنمائی کا فرض انجام دیتا رہا۔ اور اپنے کردار کی رفعت سے "معراج انسانیت" کی نشان دہی کرتا رہا۔

 


source : http://shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

دو محرم سے لے کر نو محرم الحرام تک کے مختصر واقعات
ہدف کے حصول ميں امام حسين کا عزم وحوصلہ اور شجا عت
حضرت علی علیہ السلام کا علم شہودی خود اپنی زبانی
زندگی نامہ حضرت امام حسین علیہ السلام
تحریک عاشورا کے قرآنی اصول
پہلا باب فضائلِ علی علیہ السلام قرآن کی نظر میں
غديرخم اور حضرت علي عليه السلام کي منزلت
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے خطوط بادشاہوں ...
اقوال حضرت امام زین العابدین علیہ السلام
امام جعفر صادق (ع) کی حدیثیں امام زمانہ (عج) کی شان ...

 
user comment