دہشت گردی کے شک میںزندگی گذارنے والے مسلمانوںکے درمیان سے دہشت گردی کے خلاف آوازآئی ہے۔دنیااسلام میںاپنی الگ شناخت رکھنے والا دارالعلوم دیوبند نے دہشت گردی کے خلاف اجلاس منعقدکیا اوراجلاس میںدہشت گردی کوپوری طرح غیراسلامی قراردے دیا ۔اجلاس میںمدارس کے تعلق سے پیدا ہونے والے شک وشبہات پربھی ردعمل اظہارہوا ۔دیگرفرقوںنے دارالعلوم کی اس آواز میںاپنی اپنی آوازیںملائیں۔بہرحال دارالعلوم دیوبند کا یہ اجلاس بہت شانداررہا ۔اسی قسم کی دہشت گردی کے خلاف ایک میٹنگ مسلم پرسنل لا ء بورڈ کی جانب سے ہاوڑا میںبھی کی گئی ۔
مسلم برادری کی جانب سے اجلاس کابڑھ چڑھ کراستقبال ہوالیکن کئی قسم کے سوالات بھی اٹھے ان سوالوںکے جواب بھی علماء ہی دیںتواچھا رہے گا۔اب سوال یہ ہے کہ آخر دارالعلوم دیوبند کے علما ء کواس اجلاس کی ضرورت کیوںمحسوس ہوئی؟کیونکہ میڈیاکی توجہ طلب کرنے کے لئے یہ اجلاس بلایاگیااورمیڈیا آج کل مسلمانوںکے معاملات سے کافی دوررہا ہے۔میڈیاکے تعلق سے اب تک کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جب تک مسلم معاشرہ سے جڑے کسی معاملے کا منفی جڑائو نا ہومیڈیا مسلمانوںکی طرف رخ نہیںکرتا ۔برسوںسے تمام اسلامی مراکز یہ کہتے رہے ہیںکہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیںہے مگرمیڈیا نے کبھی ان کی طرف توجہ نہیںکی۔دیو بند میںاجلاس منعقد کرنے بعدایک سب نے ایک اسٹیج پرکھڑے ہوکرکہی توکم از کم پرنٹ میڈیانے تواپنی توجہ اس طرف کی۔اس کے علاوہ ایک دوچینلوںکوچھوڑ کرباقی الیکٹرونک میڈیا کواس میںبھی کوئی خبرنظرنہیںآئی۔
دیوبند کے اس اجلاس میںدارالعلوم کے مہتمم مفتی مرغوب الرحمن نے اپنے صدارتی خطبے میںکہا کہ ''اسلام نے امن،انصاف،رحمدلی اورمحبت کی تعلیم دی۔اسلام نے فردوںاورطبقوںکوحدوںکا پابندبنایا۔اسلام کسی بھی قیمت پردہشت وفسادات کوجائزنہیںٹھہراتا۔یہی وجہ ہے کہ اسلام سے دہشت گردی کا کوئی تعلق نہیںہوسکتا۔اسلامی مدارس اسلامی تعلیم کے نمائندے ہیںجوکسی بھی پناہ کے بغیردہشت گردی سے کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نا ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔''ان کی آٹھ صفحات پرمشتمل تقریر میںدہشت گردی کا نام لئے بغیرامریکہ کوذمہ دارٹھہرایاگیا۔طویل بحث کے بعدمنظورہونے والی بحث میںکہا گیا کہ ''دارالعلوم دیوبند ہرقسم کی دہشت گردی کی شدیدمذمت کرتا ہے۔''
علماء کرام نے ''اسلامی دہشت گردی''کے لفظ کے استعمال پرسخت اعتراض کیا۔امریکہ سے آنے والے اس لفظ پرحکومت سے یہ درخواست کی گئی کہ وہ اپنے ملک میںدہشت گردی کے مسئلہ کوامریکی نظرسے دیکھنے کے بجائے ہندوستانی نظریہ سے دیکھے اورمسئلہ کی تہہ میںپہنچ کراس کا حل تلاش کرے۔اجلاس میںتقریباً تمام علماء اسی موضوع پربولے۔دہشت گردی کے نام پرمسلم نوجوانوںکوجیلوںمیںڈالنے کا معاملہ اورمدارس کا مدعابھی اٹھا۔دارالعلوم دیوبند نے دعویٰ کیا کہ ڈیڑھ سوسال کے دوران اس مدرسہ سے جڑا کوئی بھی شخص کسی بھی غیرقانونی واردات میںابھی تک ملوث نہیںپایاگیادہشت گردی توبہت دورکی بات ہے۔حکومت کومدارس میںتلاشی مہم کا چلینج بھی دیا گیا ۔ساتھ ہی مدرسے چلانے والوںسے پیسہ کا حساب کتاب درست رکھنے اوراس میںکھلاپن لانے کی بھی ہدایت دی گئی۔مدارس کے افراد اورطلباء سے اپنے حلقوںمیںدہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرنے کی بھی ہدایت دی گئی۔
یہ توایک رہا ایک پہلو۔اس کا دوسرا پہلویہ ہے کہ دہشت گردی کے مخالفت کرنے والے تمام علماء میںسے کسی ایک نے بھی کسی دہشت گردتنظیم کا نام لے کرمذمت نہیںکی۔القاعدہ اورطالبان بین ا لاقوامی سطح پراپنی کارکردگی کواسلام کا نام لے کرانجام دیتے رہے ہیں۔کشمیرمیںگذشتہ بیس سال سے اسلام کا نام لے کرعلیحدگی پسندی کی مہم چل رہی ہے۔لشکرے طیبہ ،حزب المجاہدین اورجیش محمد جیسی اسلامی تنظیمیںاسلام کے نام پردہشت گردی پیداکررہی ہیں۔پہلے ان کا دائرہ کارکشمیرتک محدودتھا لیکن اب ملک کے دیگرعلاقوںمیںبھی ان کا اثربڑھ رہا ہے۔پاکستانی صدرپرویز مشرف نے حال میںکشمیر میںجاری دہشت گردی کوجہادقراردیتے رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کواسلام مخالف قراردینے والے علماء کرام ان تنظیموںکے خلاف کچھ کہنے سے کیوںپیچھے رہ گئے۔کیا ان کی نظرمیںیہ دہشت گردی نہیںہے۔اجلاس میںجس قدردہشت گردی پھیلانے کا الزام امریکہ پرعائد کیا گیا اتنا اپنے گریباںمیںجھانکنے کا کیوںنہیںکیا ۔دہشت گردی کولے کرامریکہ کی مذمت میںطالبان نے افغانستان میںاسلام کے نام پرجوکیا اس پرکوئی لفظ نا کہنا اورالقاعدہ کی کارروائیوںپرخاموشی اختیارکرنا ان کوسوالوںکے گھیرے میںلے لیتا ہے۔اس سے متعلق جماعت اسلامی ہند کے صدرجلال الدین انصاری سے دریافت کرنے پرانہوںنے کہا کہ ''آپ جن تنظیموںکا ذکرکررہے ہیںدنیا کے کسی بھی اسلامی ادارے نے انہیںمنظوری نہیںدی ہے۔''سوال یہ ہے کہ ان تنظیموںنے منظوری حاصل کرنے کے لئے کہیںدرخواستیںدی ہیں؟دہشت گردی کا مسئلہ کافی پرانہ ہے اورملک میںبرسوںسے سے دہشت گردی کواسلام سے جوڑکرہی دیکھا جا رہا ہے۔کہیںدہشت گردانہ واقعہ پیش آنے پرمسلمانوںکوپکڑکردہشت گردقراردے دیا جاتا ہے۔بھلے ہی وہ بعدمیںرہا کردیا جائے۔حال ہی میںاترپردیش میںکئی معاملات میںپانی سرسے اوپرچڑھنے پرعلماء کوپوری مسلم برادری کے دہشت گردی سے نقصان ہونے کی بات سوجھی۔آخر پہلے علماء کرام اس معاملے پرپرزورانداز میںکیوںنہیںبولے؟دارالعلوم دیوبند نے اجلاس پہلے کیوںنہیںبلایا؟دارالعلوم دیوبند کی پہل پرکتنی تنظیمیںاس کے ساتھ جڑیں؟یہ بھی ایک اہم سوال ہے ۔
دارالعلوم دیوبند نے اپنی دیڑھ سوسالہ تاریخ میںپہلی بار مختلف فرقوںکے افرادکومدعوکیا اورپہلی بارمیڈیا کے لئے دروازے کھولے لیکن اس کے باوجود کئی مسلکوںکے علماء اس اجلاس میںشریک نہیںہوسکے۔بریلوی مسلک کے علمائ،شیعہ طبقے کے مولانا کلب جواد اورمولانا صادق ،اجمیرشریف کی درگاہ کمیٹی کے صدرسید غلا م چشتی اورکمیٹی کے سابق سیکریٹری سرورچشتی اس اجلاس میںشریک نہیںہوئے۔حیرت کی بات ہے کہ ایک جانب تمام علماء دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیںتودوسری جانب ایک ساتھ مل کربیٹھنا بھی گوارہ نہیںکرتے ان کا یہ رویہ ان کی شخصیوںکومشکوک بنا سکتا ہے جس کا خمیازہ پوری مسلم برادری کوبھگتنا پڑسکتا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ علماء کرام نے اپنی گلے پڑنے والی اس مصیبت کوٹالنے کی غرض سے یہ اجلاس بلا یا ہے ۔دارالعلوم دیوبند نے ہمیشہ نرم رویہ اختیارکیا ہے۔2001میںطالبان پرامریکی حملوںکے دوران تمام مساجداورمدارس میںطالبان کے حق میںدعائیںکی گئیںتھیں۔درالعلوم نے طالبان پرامریکی حملوںکی مذمت کی لیکن طالبان نے افغانستان میںجوکچھ کیا اس پرکوئی وضاحت نہیںکی ۔تمام علماء نے فلسطین میںاورعراق میںامریکی فوج کے ہاتھوںمارے جانے والے مسلمانوںکی موت پرتوخوب ماتم کیا ۔سامراجی طاقتوںیعنی امریکی اوراسرائیل کوخوب کوستے ہیںلیکن مسلمانوںکے ہاتھوںمسلمانوںکے قتل پران کی زبان نہیںکھلی۔عراق میںصدام حسین نے کردوںکے ساتھ جوسلوک کیا اس پرہندوستانی مسلمانوںکے مذہبی رہنمائوںنے کوئی تبصرہ نہیںکیا۔سوڈان میںگذشتہ پانچ برسوںسے مسلمانوںکے ہاتھوںمسلمانوںکا قتل ہورہا ہے ۔سوڈان کے دارفرعلاقے میںاس وقفے میںدوسے چار لاکھ مسلمانوںکوموت کے گھاٹ اتاراجاچکا ہیاورقریب 20لاکھ مسلمان ہجر ت پرمجبورہوچکے ہیں۔لیکن علماء اس قتل عام پرخاموش رہے۔آخرکیوں؟کیا صرف اس لئے کہ وہاںمسلمان آپس میںخون خرابہ کررہے ہیں۔
ہندوستان سمیت پوری دنیا میںدہشت گردی کا مسئلہ جس قد نازک ہوچکا ہے علماء کا کسی شک کی لکیرپرکھڑے رہنا درست نہیںیا توآپ لکیر کے ایک طرف کھڑے ہوکر دہشت گردی کی حمایت کریںیادہشت گردی کی مذمت کریں۔یہ نہیںچل سکتا کہ ایک جانب تودہشت گردی کوغیراسلامی حرکت قراردیا جائے اورغیراسلامی حرکت کرنے اولوںکے خلاف خاموشی اختیارکی جائے۔اگردہشت گردی کے خاف آواز اٹھا نی ہے تواسے صرف غیراسلامی کہنے سے کام نہیںچلے گا۔بلکہ دہشت گردتنظیموںکا نام لے کران کی سخت الفاظ میںمذمت کرنی پڑیگی۔دارالعلوم دیوبند نے مسلمانوںسے دہشت گردی کوغیراسلامی کا پروپیگنڈہ کرنے کی تلقین کی اس سے ظاہرہوتا ہے کہ دارالعلوم مسلمانوںکے درمیان دہشت گردی کو لے کرکہیںنا کہیںغلط فہمی کا شکارہے۔اب سوال یہ ہے کہ یہ غلط فہمی پیداکیسے ہوئی؟جب طالبان کے حق میںدیوبند سمیت مسجدوںاورمدرسوںمیںدعائیںمانگیںگئیںتودارالعلوم دہشت گردی اورغیراسلامی حرکت سے واقف نہیںتھا۔
یہی حرکتیںمدارس کوشک کے دائرہ میںکھڑاکردیتی ہیں۔ایل آئی یوکے ذریعہ ملک کی خفیہ ایجنسیوںتک یہ ساری خبریں پہنچتی ہیں۔خفیہ ایجنسیاںنمک مرچ لگاکرحکومت تک رپورٹ پہنچادیتی ہیں۔اس طرح مسجدیںاورمدرسے شک کے دائرہ میںآجاتے ہیں۔اگرعلماء نے پہلی ہی اس معاملے میںدوراندیش فکرکامظاہرہ کیا ہوتا توآج مسلمانوںکواپنے کردارکولے کرادھرادھربھٹکنا ناپڑتا۔نا ہی دیوبند جیسا اجلاس بلاکرخودکوپاک صاف ثابت کرنے کی کوشش کرنی پڑتی۔خیردیرآیددرست آید۔
source : http://www.shianet.in