اردو
Tuesday 14th of May 2024
0
نفر 0

پیغمبر کی ہدایت کا رخ

معجزہ خاتمیت اس لحاظ سے کہ کتاب ہے اور قول و بیان و علم و زبان کی صنف سے ہے‘ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ اس کتاب اعجاز کے گوشے تدریجاً اور آہستہ آہستہ زیادہ روشن ہوتے جاتے ہیں‘ آج قرآن مجید کے بہت سے تعجب خیز امور ہمارے زمانے کے لوگوں پر ظاہر اور واضح ہوئے ہیں‘ جو اس سے پہلے ظاہر نہیں تھے اور یہ بات کل تک ممکن بھی نہیں تھی‘ قرآن مجید کو دانش ور طبقہ عام لوگوں سے بہتر سمجھتا ہے۔ اسی لحاظ سے حضرت رسول خدا کا معجزہ کتاب کی نوع سے قرار دیا گیا ہے تاکہ یہ دور خاتمیت سے مناسب رکھتا ہو‘ لیکن___

کیا یہ معجزہ اس لحاظ سے کتاب کی نوع سے قرار دیا ہے کہ ضمناً انسان کو غیب و شہود کی طرف‘ نامعقول سے عقلی و منطقی امور کی طرف اور ماورائے طبیعت سے طبیعت کی طرف رہنمائی کرے؟ کیا حضرت محمد ۱کی یہ کوشش تھی کہ لوگوں کی تلاش و جستجو کا رخ غیر عادی امور اور کرامات و خوارق عادات کی طرف سے عقلی و منطقی‘ علمی و طبیعی‘ اجتماعی و اخلاقی امور کی طرف موڑ دیں اور عجیب و غریب امور کے سلسلے میں ان کی دلچسپی کو واقعات و حقائق کی طرف موڑ دیں۔

ظاہراً معلوم نہیں ہوتا کہ یہ نظریہ صحیح ہو اور اگر یہ نظریہ صحیح ہو‘ تو ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ تمام انبیاء غیب کی طرف دعوت دیتے تھے اور محمد ۱محسوس اور ظاہری چیزوں کی طرف دعوت دیتے تھے لیکن پھر قرآن کریم کی سینکڑوں آیتیں انہیں ”عجیب و غریب امور“ کے ساتھ کیوں مخضوص کی گئی ہیں‘ بے شک قرآن کا ایک بنیادی امتیاز آیات الٰہی ہونے کے اعتبار سے عالم شہادت و طبیعت کے مطالعے کی دعوت دینا بھی ہے‘ لیکن طبیعت کے مطالعے کی دعوت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ذہنوں کو ہر غیر طبیعی امر کی طرف سے موڑ دیا جائے‘ بلکہ اس کے برعکس آیات اور نشانیوں کی حیثیت سے طبیعت کے مطالعے کی دعوت دینا طبیعت سے ماورائے طبیعت کی طرف عبور کرنے کے معنی میں ہے۔ قرآن کی نظر میں غیب کا راستہ عالم شہود سے‘ ماورائے طبیعت کار استہ طبیعت سے اور معقولات کا راستہ محسوسات سے ہو کر گذرتا ہے۔

حضرت محمد کے کام کی اہمیت اس میں ہے کہ جس طرح آپ طبیعت‘ تاریخ اور معاشرے میں غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں اور ان لوگوں کو جو غیر طبیعی امور کے سوا کسی بات کو تسلیم نہیں کرتے تھے‘ عقل و منطق اور علم کے ذریعے دین کا تابع و مطیع بناتے ہیں۔ اسی طرح آپ کوشش کرتے ہیں کہ ان لوگوں کی قوت فکر کو بھی جو عقل و منطق کا دم بھرتے ہیں اور عقلی و طبیعی و محسوس چیزوں کے علاوہ کسی چیز کو نہیں مانتے ایک برتر و بلند تر منطق سے آشنا کریں۔ اس دنیا و مافیا کے متعلق جو نظریہ عمومی طور پر مذہب اور بالخصوص اسلام پیش کرتا ہے‘ اس کو ان نظریات کے مقابلے میں جس کو انسانی علوم اور خالص فلسفے پیش کرتے ہیں‘ جو بنیادی امتیاز حاصل ہے‘ وہ یہ ہے کہ بقول ولیم جیمز مذہبی نظریات میں ایسے عناصر پائے جاتے ہیں‘ جو مادی عناصر کے علاوہ ہیں اور ان میں ایسے قوانین بھی موجود ہیں‘ جو انسانی معاشرے کے جانے پہچانے قوانین سے مختلف ہیں‘ قرآن نہیں چاہتا کہ طبیعت و محسوسات کی طرف توجہ کو ماورائے طبیعت اور غیر محسوس امور کا جانشین بنا دے۔ قرآن کی اہمیت اسی میں ہے کہ کائناتی مطالعے کی طرف خاص توجہ کے باوجود (جسے قرآن میں ”شہادت“ سے تعبیر کیا گیا ہے) غیب پر ایمان لانے کو اپنی دعوت میں سرفہرست قرار دیا ہے۔

الم‘ ذالک الکتاب لاریب فیہ ھدی للمتقین الذین یومنون بالغیب

( سورہ بقرہ‘ آیت ۱۔۳) 

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قرآن ان امور سے لوگوں کو منحرف کرنے کی فکر میں ہو‘ جب کہ وہ خود بھی ”عجیب و غریب امور“ سے ہے یعنی معجزہ ہے‘ اس کے علاوہ اس نے ایک سو سے زیادہ آیات ”انہی عجیب و غریب امور“ سے متعلق پیش کی ہیں‘ میری سمجھ میں اس جملے کے معنی نہیں آتے کہ کتاب خدا وہ واحد و تنہا معجزہ ہے‘ جس کا اعتقاد محض امور غیبی کے معتقدین پر منحصر نہیں ہے‘ کیا اور کیسا اعتقاد؟ کیا یہ اعتقاد کہ یہ ایک کتاب ہے؟ اور بہترین مطالب پر مشتمل ہے؟ یا یہ عقیدہ کہ یہ معجزہ ہے؟ کسی چیز کے الٰہی دلیل ہونے کے معنی میں معجزہ ہونے پر ایمان غیب پر ایمان کے مساوی ہے‘ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص بیک وقت غیب پر ایمان بھی رکھتا ہو اور اس سے عاری بھی ہو؟

یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”محمد کا معجزہ غیر بشری امور کی صنف سے نہیں ہے‘ اگرچہ ایک غیر بشری فعل ہے۔“ اس جملے کے معنی بھی میرے لئے مبہم ہی ہیں اور اس کی تفسیر دو طرح سے کی جا سکتی ہے‘ ایک یہ کہ محمد کا معجزہ (قرآن) اس بناء پر کہ وحی ہے نہ کہ خود آنحضرت کا قول پس ایک غیر بشری عمل ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جہاں وہ قول بشری نہیں ہے بلکہ قول خدا ہے‘ وہاں امور بشری سے بھی ہے اور ایک ایسا عادی کام ہے‘ جو بشری کاموں کے مترادف ہے‘ میرے خیال میں یہ بعید معلوم ہوتا ہے کہ جملہ کا مطلب یہ ہو (جو بیان کیا گیا) کیوں کہ اس صورت میں قرآن کو دوسری آسمانی کتابوں کے مقابلے میں کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے‘ اس وجہ سے کہ وہ تمام کتابیں مبدائے وحی سے صادر ہوئی ہیں‘ لہٰذا غیر بشری فعل ہے‘ لیکن اس لحاظ سے کہ کوئی غیر معمولی پہلو نہیں رکھتیں غیر بشری امور سے نہیں ہیں‘ جیسا کہ ہمارے پاس کچھ ایسے کلمات ہیں‘ جو احادیث قدسیہ کے نام سے مشہور ہیں اور عین وہ بھی کلام خدا ہیں‘ جو وحی و الہام کئے گئے ہیں‘ لیکن ان کا تعلق غیر بشری امور سے نہیں ہے۔

قرآن مجید کو تمام آسمانی کتابوں اور احادیث قدسیہ پر جو امتیاز حاصل ہے‘ وہ اسی وجہ سے ہے کہ یہ ایک غیر بشری امر بھی ہے‘ یعنی وحی ہے اور غیر بشری امور سے بھی ہے‘ یعنی اعجاز اور قدرت مافوق البشر کی حد میں ہے‘ اسی لئے قرآن کہتا ہے:

قل لئن اجتمعت الانس و الجن علی ان یا تو ابمثل ھذا القرآن لا یاتون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظھیرا( سورہ اسراء‘ آیت ۸۸)

”اے رسول کہہ دو اگر تمام جن و انس اس بات کے لئے جمع ہو جائیں کہ اس قرآن کی مثل بنا لائیں‘ تو وہ اس کی مثل نہ لا سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ بھی ہوں۔“

اس جملے کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ حضرت محمد کا معجزہ‘ سابقہ تمام انبیاء کے معجزات جیسے عصا کو اژدھا بنا دینا اور مردوں کو زندہ کر دینا کہ جن کا تعلق بشری فعل کی نوعیت سے نہیں ہے‘ کے برخلاف بشری کاموں کی نوع سے ہے کیوں کہ اس کا تعلق کلام و بیان و علم اور کلچر سے ہے‘ لیکن اس کے باوجود ایک غیر بشری عمل اور فعل ہے‘ یعنی بشری طاقت سے باہر ہے‘ اس کا سرچشمہ ایک غیبی اور ماورائے طبیعی طاقت ہے‘ اگر مقصود یہ ہو‘ اور یہی ہونا بھی چاہئے تو یہ خود غیب کا‘ ماورائے طبیعت کا‘ خارق العادت کا اور بالآخر ان تمام چیزوں کا اقرار و اعتراف ہے‘ جنہیں عجیب و غریب امور کہا جاتا ہے‘ پھر کیوں شروع سے ہم معجزے اور خارق عادت امور کو خرافات و نامعقول امور کی مانند سمجھیں۔ کیا ہمیں شروع سے ہی معجزے اور غیر معمولی فعل کے حساب کو خرافات و اوہام کے حساب سے جدا رکھنا نہیں چاہئے تھا تاکہ ناواقف اور کم علم افراد ان تعبیرات سے کچھ اور نہ سمجھیں‘ جو ہمارا مقصد بھی نہیں ہے اور بنیادی طور پر ”پیغمبر اسلام کی کتاب معجزہ ہے“ جیسی مشہور تعبیر کو بدل کر ہم یہ کیوں کہیں کہ ”پیغمبر کا معجزہ کتاب ہے“ تاکہ نامناسب تعبیر و تفسیر کرنے کی گنجائش پیدا ہو۔

اسی محترم دانش ور کا ایک مقالہ تہران یونیورسٹی کے شعبہ ادبیات کے رسالہ ”فلق“ میں قرآن اور کمپیوٹر کے زیرعنوان شائع ہوا تھا‘ جس کو مسئلہ اعجاز کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کی تصحیح اور ان کے غور و فکر کی تدریجی ترقی و ارتقاء کی علامت سمجھا جا سکتا ہے۔

اس مقالے میں قرآن مجید کے الفاظ کو کمپیوٹر کی علامتوں سے بدلنے اور قرآن کی حقیقتوں کے کشف و اظہار کے لئے انسانی ترقی و تمدن کے اس عظیم مظہر (کمپیوٹر) سے استفادہ کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے‘ جو درحقیقت بہت بہرمحل پیشکش ہے‘ پھر اس مقالے میں ان بعض مصری دانش وروں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے‘ جنہوں نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے‘ اور اس کے ساتھ بعض ایرانی مسلمان انجینئروں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے‘ جو اس سلسلے میں کام کرنے کا ارادہ کر سکتے ہیں یا کر چکے ہیں‘ اس کے بعد ”قرآن کا اعجاز کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے“ کے عنوان سے اسی مقالے میں ایک دلچسپ بحث کی ہے اور اسی کے ضمن میں ایک نہایت اہم اور قیمتی کتاب ”سیرتحویل قرآن“ کی طرف اشارہ کیا ہے‘ جو حال ہی میں شائع ہو کر منظرعام پر آئی ہے اور اس کتاب کے بلند پایہ مولف کی گراں قدر کشف و تحقیق کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے ثابت کیا ہے کہ آیتوں کے چھوٹے بڑے ہونے اور رسول اکرم پر وحی شدہ کلمات میں روز بروز اضافے نے ۲۳ سال کی مدت میں ایک دقیق منظم اور خارق عادت منحنی قائم کی ہے۔

پھر خود اس طرح اضافہ کرتے ہیں:

”دنیا میں کون مقرر اور سخن ور ایسا ہے‘ جس کی عبادت کی لمبائی سے ہر جملہ کی ادائیگی کا سال معین کیا جا سکتا ہے؟ بالخصوص جب کہ یہ عبارت کسی ایسی کتاب کا متن نہ ہو‘ جو ایک ادیب یا علمی شخصیت کا شاہکار ہو‘ اور جو اس کی طرف سے ایک معین وقت میں رشتہ تحریر میں لایا گیا ہو بلکہ یہ وہ کلام ہے جو ایک انسان کی پرتلاطم زندگی کے ۲۳ برسوں میں اس کی زبان پر جاری ہوا‘ خاص کر جب ایسی کتاب بھی نہ ہو‘ جو کسی خاص موضوع یا معین شدہ عنوان کے تحت تالیف کی گئی ہو بلکہ جس میں طرح طرح کے ایسے مسائل ہوں‘ جو معاشرے کی ضرورتوں کے پیش نظر اور مختلف سوالات کے جوابات کے طور پر عنوان کئے گئے ہوں‘ ایسے حوادث و واقعات یا مسائل جو ایک طویل جدوجہد کے دوران پیش آتے ہیں اور ایک رہبر و رہنما کے ذریعے سے بیان ہوتے ہیں اور پھر انہیں منظم شکل میں جمع کر لیا جاتا ہے۔(رسالہ فلق‘ کتاب اول‘ ص ۲۵) 


source : http://www.shiastudies.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام حسن علیہ السلام اور افسانۂ طلاق‏ / تحقیقی ...
امام زین العابدین علیہ السلام کے مصائب
مکتب اہلبیت علیہم السلام کی پائیداری
اصحاب امام مہدی علیہ السلام ۳۱۳افراد کیوں ؟
امام حسن مجتبی (ع) کے مناظرے
حضرت علی علیہ السلام دینی تقویٰ اور خدا تعالیٰ کی ...
رسول (ص) کے فرامین اور اھلبیت (ع)کی عظمت صادق اور ...
ماہ رمضان ، قرآن کریم کے نازل ہونے کا مہینہ ہے
حسین شناسی
امام مھدی عج کےظھور کی علامات

 
user comment