اردو
Tuesday 20th of August 2024
0
نفر 0

اہل سنت کی روایات کے مطابق امام مھدی کی غیبت پر عقیدہ کا ایک اہم فائدہ

 آخری زمانے میں امام مھدی - کی آمد اور آپ کی عادلانہ حکومت کے قیام کا نظریہ تمام اسلامی مذاہب کے نزدیک مسلّم اور متفقہ ہے جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔

البتہ جب سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی زبانی حجت خدا کی غیبت کا موضوع بیان ہوا اسی وقت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال بھی آیا کہ: ''غیبت کی صورت میں امام مھدیعجکے وجود کا فائدہ کیا ہو گا؟ اور انسانوں کی زندگی میں امام کے وجود کا نقش وکردار کیا ہو گا؟ نیز یہ کہ کسی شخص کا اپنے غائب امام سے فائدہ حاصل کرنا کیسے ممکن ہے ؟

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ  نے جابر بن عبداللہ انصاری کے اسی قسم کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا:'' والذی بعثنی بالنبوۃ انھم یستضیؤن بنورہ وینتفعون بولایتہ فی غیبتہ کانتفاع الناس بالشمس وان جلّلھا السحاب'' (١)

''اس خدا کی قسم جس نے مجھے نبوت کے ساتھ مبعوث کیا، وہ لوگ اُس (امام مھدی -)کی غیبت کے دور میں اس کے نور سے ضیاء پائیں گے اور اس سے اسطرح فائدہ حاصل کریں گے جیسے لوگ بادلوں کے پیچھے چھپے ہوئے سورج سے فائدہ حاصل کرتے ہیں''

اسی قسم کی تعبیر امام زمانہ - سے خود بھی نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' أما وجہ الانتفاع بی فی غیبتی فکالانتفاع بالشمس اذا غیبتھا عن الابصار السحاب'' (۲) '' لیکن میری غیبت میں مجھ سے فائدہ حاصل کرنا اسی طرح ہے جیسے سورج سے اسوقت فائدہ حاصل کیا جابئے جب وہ آنکھوں سے بادلوں کے پیچھے اوجھل ہو جائے'' ۔ 

اس بنا پر جیسے سورج کا نور اور اس کی حرارت بادلوں کے پیچھے سے بھی زمین پر پہنچتی اور موجودات کی زندگی کا سبب بنتی ہے ویسے ہی غیبت کی صورت میں بھی امام کے وجود کی برکتیں دنیا والوں کو ملتی ہیں اور انسانی معاشرہ اپنے وقت کے امام کے وجود سے بہرہ مند ہوتا ہے اگرچہ وہ امام کسی مصلحت کے تحت لوگوں کی نظروں سے اوجھل اور پردہ غیب ہی میں کیوں نہ ہو۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ  کا مذکورہ فرمان اور نہایت پُرمعنی وجالب تعبیر، اگرچہ صاحبان ایمان کی تسلی وتشفی اوراطمینان کیلئے کافی ہے لیکن اس کے باوجود امام زمانہ کے وجود پُرنورکا عقیدہ رکھنے والے صاحبان ایمان ایک طویل عرصہ سے مخالفین کے اعتراضات کی زد میں ہیں۔ کیونکہ شیعوں پرامام مھدی - کے حوالے سے ہونے والے اعتراضات میں سے ایک اہم اعتراض یہ ہے کہ وہ غائب امام پر یقین رکھتے ہیں ، اُن کا امام ایک طویل عرصہ سے غائب ہے لیکن شیعہ حضرات آج تک مسلسل اس کا ذکر کر رہے ہیں، اسکے فضائل بیان کرتے، اسے پکارتے اور اس کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ ظاہر ہوکر دنیا میں عدل وانصاف قائم کرے۔ لیکن اتنے طویل عرصہ سے غائب امام تمہیں کیا فائدہ پہنچاتا ہے اور بھلا کسی غائب شخص سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟! 

چونکہ امام مھدی - کے وجود کے حوالے سے قرآن مجید کی آیات کے علاوہ شیعہ واہل سنت مسلمانوں کی معتبر کتب میں  ایسی ناقابل تردید روایات موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہرزمانے میں ایک امامِ معصوم کا ہونا ضروری ہے ۔ اس بنا پر بعض حقیقت پسند غیر شیعہ افراد مذکورہ آیات واحادیث کے پیش نظر امام مھدی عجل اللہ فرجہ کے وجود کا انکار تو نہیں کرتے البتہ یہ سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ کسی غائب امام پر عقیدہ رکھنے کا فائدہ کیا ہے؟ کیونکہ غائب امام کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے اور ایسا امام، امت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتااور نہ ہی امت پر اسکے وجود کا کوئی اثر مترتب ہو سکتا ہے، بھلا وہ امام جو نہ کوئی فیصلہ کرے اور نہ کوئی فتوی دے، نہ کسی سے کوئی چیز لے اور نہ کسی کو کوئی چیز عطا کرے، نہ کوئی اسے دیکھ سکے اور نہ کوئی اس کی بات سن سکے اور اُس سے فائدہ حاصل کر سکے، توبھلا ایسے امام کے وجود کا کیا فائدہ؟! بلکہ اُس کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے اور نہ ہی اسکے وجود کی کوئی ضرورت ہے۔ 

جیسا کہ اہلسنت کے حنبلی مذہب کے مشہور عالم ابن تیمیہ نے اپنی کتاب منھاج السُنّۃ میں شیعوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہاہے: مھدی الرافضۃ لیس لہ عین ولا أثر ولایعرف لہ حس ولا خبر لم ینتفع بہ أحد لافی الدنیا ولافی الدین(۳).

''شیعوں کے امام مھدی عج کا کوئی نام و نشان نہیں ہے ، نہ اُسے محسوس کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اُسکی کوئی خبر ہے۔نہ کوئی اُس سے دینی فائدہ حاصل کرتاہے اور نہ ہی دنیوی'' ۔ 

اہل تشیع پر یہ اعتراض اس حد تک بڑھا کہ بعض سادہ لوح مومنین بھی اس کی زد میں آنے لگے اور عام شیعہ جوانوں کے ذہنوں میں بھی امام زمانہ - کی غیبت کے دور میں آپ عجل اللہ فرجہ کے وجود مبارک کے فوائد کے حوالے سے شکوک وشبھات جنم لینے لگے ہیں۔یہاں تک کہ حقیر کو جہاں بھی شیعہ جوانوں یا عام مومنین میں امام زمانہ - کے حوالے سے گفتگو کا موقعہ ملا وہاں یہ سوال ضرور پوچھا گیا کہ ہم امامِ غائب سے کیسے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں یا غائب امام کا لوگوں کی زندگی پر کیا اثر ممکن ہے جبکہ نہ تو امام زمانہ - کو دیکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی آپ سے ملاقات کی جا سکتی ہے؟

اس سوال کے جواب میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ  کی مذکورہ حدیث (جس میں امام مھدی - کو بادلوں کے پیچھے چھپے ہوئے سورج سے تشبیہ دی گئی ہے)بھی لوگوں کیلئے قانع کندہ دلیل ثابت نہیں ہوتی لہذا مناسب یہ ہے کہ امام مھدی - کے وجود کے اثرات اور لوگوں کو اُس غائب امام - کے وجود سے حاصل ہونے والے فوائد پر مفصل بحث وگفتگو کی جائے تاکہ مخالفین کی زبانیں بھی بند ہو جائیں اور مومنین کو بھی اطمینانِ قلب حاصل ہو ۔

 

    اہلسنت کی متعدد معتبر کتب میں '' حدیثِ خلفائ'' کے عنوان سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ  کی معروف حدیث مختلف الفاظ میں موجود ہے، ذیل میں اس حدیث کی چند نصوص پیش کرتے ہیں

١): ایک روایت کے مطابق رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ  نے فرمایا:''من مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاھلیۃ '' (۴) ''جو کوئی ایسی حالت میں مرے کہ اس کی گردن میں کسی (امام) کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا'' ۔

٢) : دوسری روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ  نے فرمایا: ''من مات بغیر امام مات میتۃ جاھلیۃ''(۵) ''جو کوئی امام (کی معرفت)کے بغیرمر جائے وہ جاہلیت کی موت مرا''۔

٣): ایک اور روایت کے مطابق آپصلی اللہ علیہ وآلہ  کا ارشاد ہے: ''من مات ولیس علیہ امام مات میتۃ جاھلیۃ '(۶)''جو کوئی ایسی حالت میں مرے کہ اسکا کوئی امام نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرا''۔

مذکورہ حدیث اگرچہ مختلف الفاظ کے ساتھ اہل سنت کی بہت سی معتبر کتب میں ذکر ہوئی ہے لیکن ان تمام احادیث کا مفہوم ایک ہی ہے جس کے لیے اس کی وضاحت ضروری ہے:

حدیث خلفاء کی وضاحت:

اس حدیث سے چند نکات واضح ہوتے ہیں:

١: ''من مات'' کے لفظ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے کسی برحق امام کی بیعت میں سستی کرنا جائز نہیں کیونکہ موت کسی بھی وقت انسان کو اپنی آغوش میں لے سکتی ہے اور پھر بیعت کا موقعہ نہ ملے گا۔

٢: ولیس فی عنقہ بیعۃ کے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ امام برحق کی بیعت توڑنا یا خلاف ورزی کرنا بھی جائز نہیں۔

٣:بیعت سے مراد ایساوعدہ کرنا ہے کہ جس کے بعد امام کے ہر قول کی اطاعت کرنا پڑے گی اور اس کے کسی بھی حکم سے سرپیچی کرنا حرام ہوگا لہذا صرف ایسے امام کی بیعت کی جا سکتی ہے کہ جو زندہ ہو۔

٤: اس حدیث سے یہ بھی واضح ہے کہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ اماموں کی بیعت کرنا صحیح نہیںہے نیز اہلسنت کی دیگر روایات بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہیںمثلا: اذا بویع لخلیفتین فاقتلوا الآخر منھما(۷) ''اگر (ایک ہی وقت میں) دوخلیفوں کی بیعت کی جائے تو جس کی بعد میں بیعت کی گئی ہو اُسے قتل کر دیا جائے''۔

اسی لیے بغدادی کہتے ہیں: وقالوا(أھل السنۃ) لاتصح الامامۃ الا لواحد فی جمیع أرض الاسلام (۸) ''اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق روئے زمین پر صرف ایک

امام کی امامت صحیح ہے''۔

٥: جاہلیت کی موت سے مراد ضلالت وگمراہی کی موت ہے کہ جس کے بعد آخرت کا دائمی عذاب ہو گا اور مذکورہ حدیث کی بناء پر کسی امام کی بیعت میں نہ ہونا گمراہی کا سبب ہے اور ایسے شخص کی حالت جاہلیت کے لوگوں کی سی ہو گی جوگمراہی کی حالت ہی میں مرتے ہیں۔

٦:اہلسنت کے نزدیک امام کی شرائط میں اگرچہ کچھ اختلاف پایا جاتاہے لیکن جن شرائط پر سب کا اتفاق ہے وہ یہ ہیں : 

    ١: امام قریش (سادات) میں سے ہو، کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ  نے فرمایا: الأئمۃ من قریش (۹) ''امام صرف قریش میں سے ہیں'' 

    ٢: دین کا عالم ہو۔        

    ٣:۔ عادل ہو اور فاسق نہ ہو۔

اہلسنت کی مشکل:

اول:۔ مذکورہ حدیث کے حوالے سے موجودہ دور میں اہلسنت اور خاص طور پر انکے علماء نہایت پریشانی کا شکار ہیںکیونکہ حدیث کے مطابق کسی بھی زمانے میں لوگوں کے کسی امام کا نہ ہونا ان کی جاہلیت کی موت کا سبب ہے ، نیز اہلسنت کسی مملکت کے حاکم وقت کو بھی اپنا امام نہیں مان سکتے کیونکہ ان میں سے اکثر نہ توسادات میں سے ہیں اور نہ ہی دین کے عالم اورنہ اسلامی قوانین پر عمل پیرا ہیں، اور اگر کوئی حاکم وقت ظاہری طور پر ایسا ہو جب بھی اسے امام نہیں مانا جا سکتا کیونکہ اس کی امامت پر کوئی دلیل نہیںہے جبکہ امامت کے اثبات کیلئے کسی یقینی دلیل کا ہونا ضروری ہے۔

دوم: ایک زمانے میں صرف ایک امام کی بیعت ہو سکتی ہے پس اگر بعض اہلسنت ایک امام کی بیعت کریں اور دوسرے بعض کسی اور امام کی، تو ان میں سے کسی ایک کی بیعت یقینی طور پر غلط، غیرشرعی اور ناجائز ہو گی۔

سوم: ایسے امام کی بیعت کرنا ضروری ہے جوتمام مسلمانوں کا امام ہو نہ کہ کسی ایک خاص گروہ کا۔ نیز اہلسنت کے نزدیک کسی کی امامت مندرجہ ذیل طریقوں میں سے ایک کے ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔

١: قرآن مجید کے ذریعہ      

٢: پیغمبر اکرم کے فرمان کے ذریعہ

  ٣: سابقہ امام کی تصدیق کے ذریعہ 

٤: مسلمانوں کی شوری یا اھل حل وعقد کے اجماع سے۔

جبکہ موجودہ دور میں اہل سنت کے نزدیک اس طرح کسی کی امامت ثابت نہیں ہے۔

اس نکتہ کی طرف توجہ بھی ضروری ہے کہ اہلسنت کے نزدیک تمام مسلمانوں کو ملکر صرف ایک امام کی بیعت کرنا ہوگی اور کوئی مسلمان اپنی مرضی سے کسی کو اپنا امام مان کر اس کی بیعت نہیں کر سکتا وگرنہ حضرت عمر فاروق کے قول کے مطابق ایسے شخص کو قتل کرنا ضروری ہے جو مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر اپنی مرضی سے کسی کو امام بنا لے جیسا کہ حضرت عمر نے کہا: فمن بایع رجلامن غیر مشورۃ من المسلمین فلا یبایع ھو ولا الذی بایعہ تغرۃ ان یُقتلا ''جو کوئی مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی شخص کی بیعت کرے تو اس کی بیعت نہ کی جائے اور نہ بیعت کرنے والے کی بیعت ہو کیونکہ اس کا انجام یہی ہو گا کہ دونوںقتل کر دئیے جائیں گے''(۱۰)۔ 

پس: موجودہ دور کے اہل سنت حضرات کسی ایک متفقہ امام کی بیعت میں نہیں ہیں اور نہ ہی وہ متفقہ طور پر کسی ایک شخص کو امام مانتے ہیں، اور اس طرح انہوں نے دین اسلام کے انتہائی اہم حکم پر عمل نہیں کیا کہ جس کے بغیر کسی مسلمان کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔ اگر اہلسنت یہ جواب پیش کریں کہ انہوں نے اختیاری طور پر اس فریضہ کو ترک نہیں کیا بلکہ وہ مجبور ہیں کیونکہ اس دور میں کوئی شخص بھی امام بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا، تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ:

اوّلاً:۔ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ  کی حدیث ہر زمانے کیلئے ہے پس اس دور میں بھی ایک حقیقی امام کا وجود ضروری ہے وگرنہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ پر حرف آئے گا کہ شاید (نعوذباللہ) آپصلی اللہ علیہ وآلہ  آنے والے زمانے سے باخبر نہ تھے اور اس طرح انہوں نے تمام مسلمانوں کو جاہلیت کی موت سے دچار کر دیا۔

ثانیاً: اہلسنت علماء کیلئے ممکن ہے کہ وہ جس کو امامت کیلئے مناسب سمجھتے ہیں سب ملکر اس کی امامت پر اتفاق کر لیں چاہے وہ اچھا ہو یا برا کیونکہ لابد للناس من امیر برّ او فاجر(۱١) ''لوگوں کے لیے کسی ایک رہبر کا ہونا ضروری ہے چاہے وہ اچھا ہو یا برا''۔ 

اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر تمام باانصاف اہل سنت مسلمان بھائیوں کو شیعوں کی طرح امام مھدیعج ہی کے وجود کو تسلیم کر کے انہیں امام مان لینا چاہیے تاکہ وہ جاہلیت کی موت سے بچ جائیں، اور اہلسنت کا امام مھدی عج کی ولادت تسلیم کرنا اور انہیں امام زمانہ مان لینا کوئی بے جا فعل بھی نہ ہو گا کیونکہ ان کی بہت سی معتبر کتب میں بھی امام مھدیعج کی ولادت کے اشارے ملتے ہیں۔

اسی مسئلہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے اہل سنت کے بہت سے حقیقت پسند علماء نے امام مھدی عج کی ولادت کا اعتراف کیا ہے کہ وہ محمد بن الحسن العسکری علیہ السلام ہیں کہ جو اِسوقت زندہ وموجود ہیں۔ پس مذکورہ دونوں احادیث (حدیث ثقلین اور حدیث خلفائ) سے امام مھدی عج کی ولادت کے نظریہ کی تصدیق ہوتی ہے۔

(١) کمال الدین(شیخ صدوق) ج١، ب٢٣، ح٣.

(۲)کمال الدین(شیخ صدوق)ج١، ب٢٣،ح٣.

(۳) منھاج السنۃ النبویۃ ٨:١٨٧.

(۴)صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب١٣۔ السنن الکبری٨:١٥٦. فتح الباری١٣:٥.     

(۵)مسندأحمد بن حنبل٤:٩٦؛ مجمع الزوائد٥:٢١٨.

(۶)مجمع الزوائد ٥:٢١٨.        

(۷) السنن الکبری، صحیح مسلم، کتاب الامارۃ.

(۸) الفرق بین الفرق،ص٣٥٠.

(۹)سیرۃ الحلبیۃ٣:٤٨٠؛ تاریخ طبری٣:٢٠٥؛ انساب الاشراف١:٥٨٢.

(۱۰) صحیح بخاری ، کتاب المحاربین من اھل الکفر والردۃ، باب رجم الحبلی.


source : http://www.zuhoor14.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

زندگی نامہ حضرت امام حسین علیہ السلام
پیغمبر (ص) امامت کو الٰہی منصب سمجھتے ہیں
چنداقوال از حضرت امام جواد علیہ السلام
سيد المرسلين ص کي علمي ميراث کے چند نمونے ( حصّہ ...
خصائص اہلبیت (ع)
امام حسین (ع)کی زیارت عرش پر اللہ کی زیارت ہے
عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں حضرت زہرا کا کردار
فاطمہ (س) کی معرفت لیلۃ القدر کی معرفت ہے
ائمہ معصومین علیہم السلام نے ایسے دورحکومت -5
اقوال حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام

 
user comment