اردو
Monday 22nd of July 2024
0
نفر 0

بعثت نبی (ص) کیوں؟ بعثت کے نکتے

اسلام نے درندگی پر مبنی رسم و رواج کو عادلانہ قوانین کے ذریعے ختم کیا اگر آج بھی ایسے قوانین اسلامی معاشروں میں دیکھے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ معاشرے دین کو اپنانے میں ناکام رہے ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رائے عامہ کو تبدیل کرنے کی بہتیری کوشش کی لیکن اگر یہ کوششیں ہمارے معاشروں میں بارآور دکھائی نہیں دے رہی ہیں تو یہ ہمارے انحراف کا ثبوت ہےاقدار کا انقلاب

انسانوں کی دنیا اور آخرت نابود ہورہی تھی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مبعوث ہوئے اور لوگوں کی دنیا با مقصد ہوئی اور مادی قدریں الہی قدروں میں بدل گئیں۔ خرافہ پرستی اور توہم پرستی نے اپنی جگہ حقیقت کی تلاش کو دی گو کہ بعض لوگ آج تک حقیقت کی تلاش کو گمراہی کا سبب سمجھتے ہیں اور لکیر کی فقیری کو سنت حسنہ سمجھتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کو تحقیق و تدبر کا راستہ دکھانے کے لئے تشریف لائے اور اگر طے یہ ہوتا کہ لوگ لکیر کے فقیر ہوں اور تبدیلی اور اصلاح اور تحقیق و مطالعہ نہ کریں تو بعثت کی ضرورت ہی کیا تھی؟

بعثت کے بعد رسول اللہ نے کشت و خون اور قتل و غارتگری اور ناانصافی کو قسط و عدل و مساوات اور مواسات میں بدل دیا؛ ـ مساوات اس لحاظ سے کہ انسان اللہ کی بارگاہ میں برابر ہیں اور کالے اور گورے میں فرق نہيں ہے اور مواسات کے معنی ایثار کے ہیں جس سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی دولت، اپنے لباس اور اپنے کھانے میں سے دوسروں کو بھی دے اور قرآنی حکم کے مطابق اپنی آمدنی میں غرباء کے لئے بھی ایک حصہ قرار دے اور صدقہ و خیرات ادا کرے ـ چنانچہ نیچ سمجھے جانے والوں کو اسلام نے انسانیت کا درجہ دیا اور سیاہ غلاموں کو مکہ اور مدینہ کے کافر و مشرک راجوں مہاراجوں پر فوقیت دی اور مسلمان سرداروں کے برابر لاکھڑا کیا۔ پست قبیلوں اور غلاموں کو باعزت معاشرتی درجہ دیا گیا اور مادی معیاروں نے رخت سفر باندھا اور معنوی معیار آگئے۔

یہ غلط فہمی نہ آنے پائے کہ یہ جو آج بھی اسلامی معاشروں میں غلامی، نا انصافی، عدم برابری، قتل و غارت، مختلف قسم کے قومی، فرقہ وارانہ اور معاشرتی حیثیت کے حوالے سے امتیازی رویئے پائے جاتے ہیں ان کا تعلق اسلام سے ہے! حقیقت یہ ہے کہ ان کا تعلق دور جاہلیت سے ہے جس کا جدید ورژن دنیا بھر میں رائج ہے اور مسلمان کہلوانے والے جہلاء کے ساتھ ساتھ نام نہاد مغربی تمدن کے منتظمین بھی دور جدید کی جاہلیت کے علمبردار اور دنیا بھر میں امتیازی رویوں کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں۔

بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت اقدار کا انقلاب تھی جس نے تمام غیرانسانی اور وحشیانہ اقدار کو بدل دیا اور اگر آج ہمارے مسلم معاشروں میں اس طرح کی قدریں پائی جاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام میں کوئی نقص ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ "ہمارے معاشرے مسلمان ہیں لیکن اسلامی نہیں ہیں اور اگرچہ لوگ مسلمان ہيں لیکن ان کی رائج قدروں کا اسلام سے کوئی تعلق نہيں ہے۔

اسلام نے درندگی پر مبنی رسم و رواج کو عادلانہ قوانین کے ذریعے ختم کیا اگر آج بھی ایسے قوانین اسلامی معاشروں میں دیکھے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ معاشرے دین کو اپنانے میں ناکام رہے ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رائے عامہ کو تبدیل کرنے کی بہتیری کوشش کی لیکن اگر یہ کوششیں ہمارے معاشروں میں بارآور دکھائی نہیں دے رہی ہیں تو یہ ہمارے انحراف کا ثبوت ہے یہ الگ بات ہے کہ یہ انحرافات کب سے شروع ہوئے اور کیوں اور کیسے شروع ہوئے لیکن امر مسلم یہ ہے کہ رسول خدا (ص) نے ہماری سعادت کے سارے قوانین دیئے اور اگر ہم نے اپنی مصلحت اور اپنے مفادات کو ان قوانین اور احکامات سے دوری کرنے میں ڈھونڈی تو اس میں اسلام کا کوئی قصور نہیں ہے۔

اسلام کے رہبر بزرگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ صرف خود جاہلانہ رسوم اور خرافات و توہمات کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی بلکہ اپنے صحابہ سے بھی فرماتے رہے کہ جہاں بھی جائیں سب سے پہلے خرافات و توہمات کا خاتمہ کریں تا کہ اسلام کا پودا لگانے کے لئے زمین زرخیز ہوجائے۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے معاذ بن جبل کو تبلیغ کی غرض سے یمن روانہ کیا تو فرمایا: سب سے پہلے جاہلانہ رسموں کو مار دو اور پھر لوگوں میں اسلام کی حیات آفرین سنتیں رائج کرو۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے 23 سال تک محنت کی اور اپنی حیات طیبہ کے آخری دنوں میں حجۃالوداع کے دوران لوگوں کو پھر بھی اقدار میں انقلاب بپا کرنے کی تلقین اور کمال انسانی کی خوبصورتیوں اور ارتقائی چوٹیوں کی طرف صعود و عروج کرنے کی تاکید فرمائی؛ فرمایا: 

"ألا کُلُّ شَیءٍ مِنْ أمْرِ الْجاهِلیّةِ تَحْتَ قَدَمی موضوعٌ"۔

ترجمہ: جان لو کہ میں جاہلیت کی تمام باطل رسموں کو پاؤں تلے روندتا ہوں اور انہیں باطل قرار دیتا ہوں۔

سیرة ابن هشام، ابو محمد عبد الملک بن هشام حمیری، مطبوعہ دار القلم، بیروت، ج4، ص250۔ 

بعثت نبی (ص) کا فلسفہ:

مندرجہ بالا سطور میں عرض کیا گیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں نجات اور سعادت کی ساری ترکیبیں سکھائیں لیکن ہم اپنے لئے زیادہ وقعت و اہمیت کے قائل ہوئے اور ہم نے بہت سی چیزیں آپ (ص) سے اخذ کرنے کو ضروری نہيں سمجھا اسی وجہ سے ہم بہت سے اسرار کو سمجھنے سے قاصر رہے کیونکہ ان تعلیمات میں عبور کے لئے کچھ رموز ہیں جو عمل نہ کریں تو کھوجاتے ہیں اور آج کی سائبر اصطلاحات کے مطابق جب آپ غلط یوزر نیم چند مرتبہ دہرائیں گے تو پاس ورڈ بھی ہاتھ سے نکلے گا اور آپ کو بیگانہ یا جارح اور متجاوز سمجھا جائے گا اور لوٹنے کے لئے پہلے جیسا سلسلہ طے کرنا پڑے گا۔ جب کوڈ ورڈ یا پاس ورڈ کھوجائے تو اسلامی تعلیمات کی جڑوں تک پہنچنے سے محرومی حاصل ہوگی اور بیگانوں کی طرف دیکھنا پڑے گا اور ہم مسلمانوں کے لئے یہ بات صدیوں کے تجربے سے ثابت ہے۔

امیرالمؤمنین علیہ السلام بھی بعثت نبی (ص) کو اقدار کا انقلاب قرار دیتے ہیں اور فلسفۂ بعثت کی وضاحت کرتے ہوئے اسی نکتے پر زور دیتے ہیں؛ فرماتے ہیں:

"ألا وَإنّ بَلیَّتَکُمْ قَدْ عادَتْ کَهَیئَتِها یَوْمَ بَعَثَ اللهُ نَبیَّهُ ـ صلّی الله علیه و آله ـ وَالَّذی بَعَثَهُ بِالْحَقِّ لَتُبَلْبَلُنَّ بَلْبَلَةً وَلَتُغَرْبَلُنَّ غَرْبَلَةً وَلَتُساطُنَّ سَوْطَ الْقِدْرِ حَتّی یَعُودَ أسْفَلُکُمْ أعْلاکُمْ وَأعْلاکُمْ أسْفَلَکُمْ"۔

ترجمہ: ؛ جان لو اور آگاہ ہوجاؤ کہ تمہاری بدبختیاں اور تمہارے فتنے بعثت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قبل کے زمانے کی مانند، واپس تمہاری جانب لوٹ آئے ہیں۔ اس خدا کی قسم جس نے پیغمبر (ص) کو برحق مبعوث فرمایا تم کڑی آزمائش سے دوچار ہوجاؤگے اور چھلنی میں دانوں یا دیگ میں کھانے کی مانند الٹ پلٹ دیئے جاؤگے حتی کہ اوپر والے نیچے اور نیچے والے اوپر ہوجائیں۔

نهج البلاغه، ترجمة محمد دشتی، نشر ائمه، قم، 1379، ش، خطبه16.

یعنی اے مسلمانو! تم عصر بعثت کی طرح منقلب اور دیگرگوں ہوجاؤگے اور ایک بار پھر اقدار کا انقلاب رونما ہوگا۔

اس ارشاد مولا سے واضح ہوتا ہے کہ لوگ ایک بار طبقاتی نظام کا شکار ہوجائیں اور جاہلیت کی طرف لوٹیں گے اور وہ ایک بار پھر اقدار کے انقلاب کے محتاج ہونگے اور ان کے اوپر کے طبقوں کو نیچے لایا جائے گا اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقوں کو ان کا جائز مقام دیتے ہوئے مالداروں اور صاحب حیثیت لوگوں کے برابر میں لایا جائے گا اور مادی و ظاہری اقدار کو ایک بار پھر معنوی اور انقلابی اقدار میں تبدیل کیا جائے گا اور حق ایک بار پھر اپنے محور کی طرف لو ٹے گا جس کا مسلمانان عالم، عیسائی دنیا اور یہودی مکتب سے لے کے بدھ مت اور ہندومت نیز دیگر مشرقی فلسفی مکاتب کے پیروکار بھی اس دن کے منتظر ہیں جب حق اپنے محور کی جانب لوٹے گا اور حق کے معیارات پہچانے جائیں گے چنانچہ حق اہل حق بھی پہچانے جاسکیں گے اور اہل باطل بھی؛ چنانچہ مولائے کائنات علیہ السلام کے کلام میں بوضوح فرمایا گیا ہے کہ"چونکہ تم نے پیشرفت کی بجائے پسرفت کی ہے اور ترقی کی بجائے تنزل اور اوج و عروج کی بجائے حضیض کی طرف لوٹے ہو اسی لئے اب ایک بار تمہیں ترقی اور پیشرفت کی جانب کے لئے ان ہی مراحجل سے گذرنا پڑے گا اور ان ہی واقعات کا سامنا کرنا پڑے گا اور حق سے دور کئے جانے والے حق کو ایک بار پھر اپنے محور کی طرف لوٹایا جائے گا؛ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

"عليّ مع الحق والحق مع عليّ لن يفترقا حتي يردا عليّ الحوض"۔

ترجمہ: علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے اور یہ دو ہرگز الگ نہ ہوگے حتی کہ قیامت کے روز حوض کوثر پر مجھ سے آملیں۔

تاريخ بغداد، ج 14، ص 321.

طبراني اور دوسرے راویوں سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ کی بارگاہ میں التجا کرتے ہوئے عید غدیر کے دن یوں دعا کی:

"اللّهم وال من والاه وعاد من عاداه ۔۔۔ وادر الحق معه حيث دار"۔

ترجمہ: اے اللہ تو محبت کر اس سے جو علی سے محبت کرے اور دشمنی کر اس سے جو علی کی دشمنی کرے اور حق کو اسی طرف پلٹا دے جس طرف کہ علی پلٹتے ہیں۔

المعجم الأوسط، ج 5، ص 455، ح 4877.

یعنی علی علیہ السلام کو معیار اور مدار قرار دے اور ہم جانتے ہیں کہ ایک ایک طرف دعا ہے تو دوسری طرف سے ایک خبر بھی اور اس کے ذریعے مسلمانوں کو بتایا جارہا ہے کہ حق کا دارو مدار علی علیہ السلام کی شخصیت پر ہے اور علی ہے میزان حق و باطل ہیں چنانچہ سب کچھ علی اور آل علی علیہم السلام کی طرف لوٹے گا تو دنیاوی اور اخروی سعادت ملے گی اور علوم و معرفت کے دروازے مل جائیں گے اور رمز کی علامتوں اور کوڈ لفظوں کا حصول ممکن ہوجائے گا۔

میرے خیال میں انسانوں نے موجودہ بدبختیوں سے چھٹکارا پانے کے لئے تمام راستے طے کئے ہیں اور تمام تر روشوں کو بروئے کار لا چکے ہیں لیکن وہ گویا دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور جتنا نکلنے کے لئے زور لگاتے ہيں اس میں مزید دھنس رہے ہیں لیکن انھوں نے حقیقی راستہ اپنانے کی طرف توجہ نہیں کی ہے اور وہ حقیقی راستہ درحقیقت محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا راستہ ہے جہاں سعادت یقینی ہے اور وہاں کسی طرح کے بحران اور ناہمواری کا تصور نہیں ہے اور اگر بحران بھی آتا ہے تو وہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم ان کے راستے پر گامزن نہيں ہیں خواہ ہم محمد و آل محمد (ص) کی پیروکاری کے دعویدار ہی کیوں نہ ہوں۔


source : http://www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

صراط مستقیم کیا ہے ؟
خداوند متعال نے سب انسانوں کو مسلمان کیوں نھیں ...
امام حسین علیہ السلام کون ہیں؟
کیاامام زمانه کے زنده هونے پر عقلی دلائل موجود ...
کیا خداوندعالم کسی چیز میں حلول کرسکتا ہے؟
فلسفہ اور اسرار حج کیا ہیں؟
قمہ زنی(خونی ماتم) کے پیچھے کس کا مخفی ہاتھ ہے؟
عاشورائے حسینی کا فاتح کون؟
کیا قرآن مجید میں " پل صراط" کی طرف اشاره ھوا ھے؟
مذہب شيعہ باب مدينة العلم امام علي (ع) کے زمانے سے

 
user comment