اردو
Wednesday 8th of January 2025
0
نفر 0

حیات طیبہ یا پاکیزہ زندگی (۳) / امام سجاد علیہ السلام کے تربیتی اسلوب(۳)

مقدمہ  :     گزشتہ دوشماروں  میں امام سجاد  کے تین طرح کے تربیتی اہداف ومقاصدکی طرف اشارہ کیا گیا ۔

١۔اسلامی معاشرے کی اصلاح اور پاکیزہ زندگی ''حیات طیبہ''کا حصول ۔٢۔توحید کو مرکزیت اور بنیاد قرار دینا ۔ ٣۔حق کی ہدایت وراہنمائی اور حق کی باطل سے جدائی۔

 اور یہ بھی بیان کیا گیا ان مذکورہ اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لئے امام سجاد  کے بیان کردہ بصیرت اور آیڈیالوجی عطا کرنا،عفووبخشش ،نعمات کی یادآوری کرانا، تغافل اور چشم پوشی جیسے اسلوب لازم ہیں ، لہٰذا اسی بحث کو جاری رکھتے ہوئے امام سجاد  کے بیان کردہمحبت اور دوستی کا طریقہ کار،پیار بھرا ، متواضع  اور نرم برتاؤ کا طریقہ جیسے دوسرے اسلوب اور طریقہ کاروں  کو اس شمارے میں قارئین کرام کی خدمت میں بیان کیا جائے گا تاکہ یہ انسان کو اپنے مقصد خلقت ''قرب الی اللہ ''کی رسائی تک موثر اور معاون ثابت ہوں ۔

۔٣۔محبت اور دوستی کا طریقہ کار۔

 محبت یعنی کسی لذّت والی شیٔ کی جانب طبیعی تمایل اور رجحان (inclination) پایا جانا اور اس کو پسند بھی کیاجاتا ہو ]١٩[ ۔ ملا مہدی نراقی  نے محبت کی تعریف میں یہ لکھتے ہیں کہ :''محبت کی تعبیر یہ ہے کہ کسی مناسب اور لذت بخش شے سے طبیعی تمایل اور کشش  ہونا '']٢٠[ ۔ اسی طرح محبت کی تعریف میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ :'' محبت انسان کی نفسانی صفت ہے اور  محبت کرناوالے (محّب)کے عقیدے اور یقین کی بنا پراس چیز سے تعلق رکھتی ہے جس میں بہتری اور خوبی پائی جاتی ہو ''۔

 قرآن مجید اور امام سجادعلیہ السلام کی کلام پاک میںمحبت اور دوستی :

قرآن کریم میں لفظ محبت اسم اور فعل کی صورت میں ٨٣ مرتبہ آیا ہے قرآن کریم اور امام زین العابدین علیہ السلام  کے ادعیہ مبارک میں تین طرح کی محبت پائی جاتی ہے :

الف:خداوند عالم کی محبت اپنے بندوں سے (استاد سے شاگرد تک)

 خداوند عالم کی صفات میں سے ایک اہم صفت اپنے سارے مخلوقات بالخصوص انسان سے اس کی محبت کرنا ہے قرآن کریم میں بھی خداوند عالم نے بار بار اپنی محبت کا ظہار فرمایا ہے بہت ساری آیات کریمہ میں ''ان اللہ یحبُّ الذّین ...''کے عنوان کے تحت پاک وپاکیزہ نیک ، متّقی اور پرہیز گار ، توبہ کرنے والے ، توکّل اور بھروسہ کرنے والے، صبرواستقامت کرنے والے اور عدل وانصاف سے کام لینے والے افراد کے تئیں اپنی دوستی اور محبت کو بیان فرمایا ہے ۔

 اسی طرح دوسری جگہ پر خدوند عالم اور بندوںکے درمیان دو طرفہ محبت کو ''ےُحِبُّھُم وےُحِبُّونَہ''(21) یعنی : وہ (پروردگار عالم ) ان کو دوست رکھتا ہے اور وہ (بندے)بھی اس سے محبت کرتے ہیں ،کی آیۂ کریمہ میں بیان فرمایا ہے ۔ اسی طرح ایک اور جگہ پر پروردگار عالم کی رحمت کو حاصل کرنے (22) ، اور بندوں کے لئے اپنی محبت اور شفقت لازمی اور مقدر ہونے (٢٣)کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔

 چوتھے امام زین العابدینعلیہ السلام پہلی دعا میں ہی پروردگار عالم کی محبت اپنے بندوںکے تئیں کو حمدوثنا کا موضوع قرار دیتے ہیں ''ثم سلک بھم طریق ارادتہ وبعثھم فی سبیل محبَّتہ''(24) یعنی : اس خدا کا شکریہ اور مہربانی جس نے ساری مخلوقات کو فطری طور پر اپنی ہدایت کی ہے اور اپنی محبت کے راستے میں ان کو مبعوث کیا ہے  ۔

 اسی دعاکے دوسرے حصہ میں خداوند عالم او ر بندوں کے درمیان والی محبت اور دوستی کی طرف اشارہ فرماتے ہیں :''یا حبیبَ من تحبّب الیک'' یعنی : اے اس شخص کے دوست (محبوب)جو تجھے سے ہی محبت کرتاہے ۔(25)

ب:بندے کی محبت اپنے خالق ومالک خداوند عالم سے (شاگرد سے استاد تک) :

 اسلام میں تربیت کی بنیاد پروردگار عالم کی محبت پر ہے بہت سارے لوگ اپنے وجود کے اور خلقت کے حقیقی منبع اور منشا سے غافل ہوتے ہیں اور فقط وجود کے ظاہری صورتوں پر نظر رکھتے ہیں ۔ چونکہ وہ لوگ اﷲ تعالی کے کمال اور قدرت کے پہلوئوں کو مخلوقات کے وجود میں پاتے ہیں لہٰذا ان کو اپنا محبوب بنا لیتے ہیں جبکہ قرآن مجید میں مومنین کی صفات میں سے ایک بڑی اور اہم خوبی خداوند عالم کی تئیں شدید عشق و محبت کا ہونا ، بیان ہوئی ہے :''...والذین آمنوا اشدّ حُبَّا ﷲ...'' (26) یعنی :  وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں وہ پروردگار عالم کے محّب اور عاشق ہوتے ہیں (ان کی تمام تر اور شدید محبت اسی سے ہوتی ہے )۔

خداوندعالم جو  بشر کا اہمترین عظیم  مربی اور پرورش کرنے والا ہے ،کے بہ نسبت بندے کی محبت  بہترین تربیت و پرورش اور حقیقی کمال وسعادت کی رسائی کے لئے پہلا اور حقیقی منبع  ہے ۔ جہاں خداوندعالم کی محبت کے تربیتی اثرات میں محبوب کے رنگ لینے کے لئے عفو و بخشش اور ایثاروقربانی کرنا ہے وہیں اس کا دوسرا تربیتی اثر محبوب کی اطاعت اور پیروی کرنا ہے لہٰذا یہ دو انسان کی تربیت میں بنیادی اور مرکزی کردار ادا کرتے ہیں  ۔

 اما م زین العابدین سید سجاد علیہ السلام  دعائے ابو حمزہ ثمالی میں فرماتے ہیں کہ :''معرفتی یا مولای دلیلی علیک وحبِّی لک شفیعی الیک''(27)یعنی: اے میرے مولا وسردار میں نے یہ تجھ سے جان لیا کہ میرا راستہ تیری ہی طرف ہے اور تجھ سے میری محبت تیری درگاہ میں میری شفاعتکرنے والی ہے  ۔

دعا کے اس حصہ میں امام سجاد علیہ السلام  خداوند عالم سے بندے کی محبت کو اس کے گناہوں اور غلطیوں سے شفاعت کا سبب تھراتے ہیں ۔

ج:آپس میں انسانوں کی محبت ایک دوسرے کے لئے :

اس محبت اور دوستی کے ارکان اور عناصر انسان ہی ہیں ۔ پروردگار عالم نے لوگوں کو اپنی طرف جذب کرنے اور تربیت و پرورش کرنے کا بہترین اور مفید طریقہ محبت اور دوستی قرار دی ہے اور پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کا حکم بھی فرمایا ہے :''فبما رحمة من اللہ لنت لھم ولو کنت فظَاً غلیظ القلب لانفضّوا من حولک فاعف عنھم واستغفر لھم ...'']٢٨[ یعنی : پس پروردگار کی رحمت(کی برکت سے )ان کے ساتھ آپ نے نرم (اور مہربان)برتائو کیا او ر اگر ان کے ساتھ تم تند مزاجی اور سنگ دلی سے کام لیتے تو یقینا وہ لوگ آپ سے پراکندہ اور الگ ہوجاتے لہٰذا آپ انہیں معاف کریں اور ان کے لئے طلب مغفرت کریں ... ۔

 عالم جہان کی خلقت اور اس کی ساخت و ساز رحمت اور محبت کی بنیاد پر استوار ہے پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  پروردگار عالم کی رحمت اور محبت کے عالی اور کامل چہرے کے طور پر متعارف کرائے گئے ہیں :''وما ارسلناک الا رحمة للعالمین''(28) یعنی : اور ہم نے آپ کو عالمین کے لئے صرف رحمت بناکر بھیجا ہے  ۔

  رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  نے محبت اور دوستی کے وسیلہ سے نہایت ہی زیادہ بگھڑے اور سرکش  مخالفوں کو اپنی طرف جذ ب اور راغب کیا اور اس کے علاوہ لوگوں کی ہدایت اور تربیت کے بدلے میں کوئی اجرت نہیں مانگی بلکہ فقط وفقط اپنے احباب واہل بیت کی ولایت اور محبت طلب فرمائی :''قل لااسئلکم علیہ اجراً الا المودة فی القربیٰ...''(30) یعنی: آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقرباء سے محبت کرو ۔۔۔   ۔

 اس نصیحت اور وصیت کی علت یہ ہے کہ اطاعت اور پیروی محبت کے اثرات میں سے ایک اہم اثر اور نتیجہ ہے اس طریقہ کار میں محبّ اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اپنے محبوب اور معشوق کی خوبیوں اور صفات سے خود کو بھی اسی میں رنگا رنگ کرے بالخصوص پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  اور اہل بیت علیھم السلام کی محبت اور دوستی جو نفس کی اصلاح وہدایت، تربیت وپرورش اور تہذیب وپاکیزگی کا بہترین اور نزدیک ترین راستہ اور وسیلہ ہے ۔

 امام زین العابدین علیہ السلام خداوند عالم سے مومنین کے قلوب میں ان کی محبت ڈالنے کی دعا طلب کرتے ہیں :''واجعل لنا فی صدور المومنین ودّا ً''(31) ۔ اسی طرح خداوند عالم کے دربار سے پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  کی محبت کی خاطر مقام اور بڑھائی کی درخواست کرتے ہیں :''وبحبّی النّبیّ الامیّ القریشیّ الھاشمیّ العربیّ التھامیّ المکیّ المدنیّ ارجوا الزُّلفة لدیک ''(32) یعنی : خدایا تیری درگاہ میں امی،قریشی،ہاشمی، عربی، تھامی، مکی، مدنی پیغمبر کی محبت اور دوستی کی خاطر تجھ سے ایک مقام ومنزلت کی امید رکھتا ہوں۔

 چوتھے امام حضرت سید سجادعلیہ السلام کی دعائوں اور عملی سیرت میں سارے مسلمانوں ، فرزندوں اور غلاموں حتی بے خبر دوستوں اور دشمنوں کی تربیت اور ہدایت کی غرض سے محبت اور دوستی کے طریقہ کو بروئے کار لایا گیا لہٰذا اس طرح یہ تمام اساتید اور مربیوں کے لئے ایک بہترین اور عظیم نمونہ عمل اور اسوہ حسنہ (ideal)قرار پاتا ہے او ر اس کو عملی جامہ پہنانے سے ہی  اپنے شاگرد کی بہتر سے بہتر تربیت وپرورش کرسکتے ہیں ۔

۔٤۔  پیار بھرا ، متواضع  اور نرم برتاؤ کا طریقہ :

 قرآن کریم میں جب ہدایت اور تربیت کی بات آتی ہے تو خداوند متعال پیامبر اکرم (ص) کو یہ حکم فرماتے ہے کہ حتی دشمن کے ساتھ بھی آہستہ اور نرم لہجہ سے بات کریں : '' فقولا لہ قولاً لّیّناً۔۔۔ '' ۔ (33)

قرآنی آیات ، پیامبر اکرم (ص) اور ائمہ اطہار (ع)کی سیرت کی بنیاد پر تربیت کی دنیا میں اصل اور بنیاد سھولت وآسانی  ، نرم خوئی اور تواضع پر ہے اور جوچیز بھی تکلیف پہچاننے ، غصہ  ،خصومت ا ور خوف کے ساتھ ہو وہ اس دائرہ سے خارج ہے ۔

 تربیت کرنے کے ابتدائی مراحل میں  شاگرد کی طرف سے جہالت اور غیرضدی ہونے کی وجہ سے انجام دینے والی خطاؤں کے مقابلے میں نرم خوئی اور پیار بھرا برتاؤ کرنا ضروری ہے ۔ لہذا تربیت کے معاملے میں اصل اور بنیاد سھولت وآسانی  ، نرم خوئی اور تواضع پر ہے ۔ یہ برتاؤ کا طریقہ شاگرد میں تربیت و پرورش کے بنیادی مسائل اور اس کے طریقہ کاروں کی قبولی کیلئے محرک پیدا کرنے اور اس کے جانب اسے  رغبت دلانے  میں پیش خیمہ ہے نیز شاگرد کوتربیتی مقاصد کے قریب لیجانے کیلئے بھی زمینہ فراہم کرتا ہے ۔

 کھبی کھبی شاگرد مخصوصاً نوجوان اور جوان اپنے استاد کے تئییں غیرمناسب طریقہ کار اختیار کرتا ہے تو ایسے مواقع پر اس کا جواب بھی نامناسب برتاؤ سے نہیں دینا چاہیے بلکہ یہاں پر اسے پیار اور نرم خوئی اور اس کواحترام و عزت دینے کے برتاؤ اور ارتباط کے ذریعہ دوسروں کے ساتھ مناسب سلوک کی طرف دعوت دی جائے ۔

امام سجاد علیہ السلام کے کلام مبارک میں  پیار بھرا ، متواضع  اور نرم برتاؤ کا طریقہ :

ہاں پر اس حصہ میں مختصرطور پر صرف ہمسایوں کے ساتھ پیار بھرا ، متواضع  اور نرم برتاؤ کے طریقہ پر بحث کریں گے ۔

ائمہ اطھار علیہ السلام کی اجتماعی زندگی میں ہمسایوں کے حق کی رعایت کرنا ، ایک ایسا حق ہے جس پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔ امام سجاد علیہ السلام صحیفہ سجادیہ میں ہمیں انفرادی تربیت کے علاوہ اجتماعی آداب کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں ۔ صحیفہ میں چھبیسواں دعا ہمسایوں کے ساتھ پیار بھرا ، متواضع  اور نرم برتاؤ اختیار کرنے کیلئے مخصوص ہے ۔ دعا کی ابتداء میں امام علیہ السلام خداوند متعال سے دعا طلب کرتے ہیں کہ وہ اسے ہمسایوں اور دوستوں کے حق کی رعایت کرنے میں ہمراہی اور نصرت فرمائے : '' اللھمّ صل علی محمد و آل محمد  و تَولّنی فی جیرانی و موالیّ العارفین بحقّنا، والمنابذین لاعدائنا بافضل ولایتک '' یعنی ؛  '' خداوندا محمد و آل محمد پر درود و صلوات بھیج ، اور مجھے اپنے ہمسایوں اور دوستوں کے حق کی رعایت کرنے میں جوکہ ہمارے حق کی معرفت رکھتے ہیں اور ہمارے دشمنوں کے ساتھ لڑرہے ہیں ، بہترین طریقہ سے مدد فرما ''۔(34)

نیز آپ فرماتے ہیں : '' وردھم بصیرةً فی حقّی ، و معرفةً بفَضلی حتّی یسعدُوا بی و اسعدَ بھم ''یعنی : '' خدوندا میرے حق میں ان کی بصیرت اور میرے فضل و کرم کے بارے میں ان کی معرفت میں اضافہ فرما تاکہ وہ میرے وسیلہ سے سعادت پر فائز یوجائے اور میں ان کے وسیلہ سے سعادتمند ہوجاؤں '' ۔ (35)

 امام سجاد علیہ السلام اس کے باوجود کہ وہ معصوم ہیں لیکن خداوند متعال سے طلب کرتے ہیں کہ : ''  میں ان کے وسیلہ سے سعادتمند ہوجاؤں '' ۔ یہ امام کی درخواست اس تربیتی مطلب پر مشتمل ہے کہ انسان کے کمال کے حصول میں صحیح و سالم اجتماعی روابط مؤثر ہے ۔ جنانچہ اگر یہ روبط الٰھی معیاروں کی بنیاد پر منظم اور تیار کئے جائے تو سارے انسان دنیوی اور معنوی رشد اورکمال میں نیز تربیت کے معاملے میں ایک دوسرے کی مدد کرپاسکتے ہیں۔ 

امام زین العابدین علیہ السلام کے عملی سیرت میں  پیار بھرا ، متواضع  اور نرم برتاؤ کا طریقہ:

 یہاں  پر اس حصہ میں  صرف '' ناآشنا دوستوں '' کے امام علیہ السلام ساتھ پیار بھرا ، متواضع  اور نرم برتاؤ کے طریقہ پر بحث کریں گے ۔

انبیاء کرام اور ائمہ اطہار علیھم السلام مختلف لوگوں سے ضرورتمند طریقہ کاروں سے پیش آتے تھے ۔ اگر کھبی ضرورت ہوتی تھی تو گفتگو اور پیار بھرے، متواضع  اور نرم برتاؤ ان ناآشنا اور دھوکھہ کھائے ہوئے دوستوں کے ساتھ پیش آتے تھے جو دشمنوں کے پروپگنڈوں کے زیر اثر آئے ہوتے تھے تا کہ اس سلوک کے ذریعہ سے ان کو راہ راست کی طرف ہدایت فرماتے !۔  

 امام سجاد علیہ السلام نے ٦١ویں ہجری میں کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے کربلا کے راستے میں سفر کے دوران اپنی اس سیرت کو عملی طور پر اجراء کیا ۔جس وقت اہل بیت علیھم السلام کے اسراء شام میں داخل ہوگئے تو ایک شامی آدمی امام کے سامنے کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا : اس خداوند کا شکر جس نے آپ کو مارا ، نابود کیا ، ہمارے لوگوں کو آپ کے شر سے آرام دیدیا اور امیرالمونین کو آپ پر کامیاب کیا ۔

 علی ابن الحسین علیہ السلام خاموش رہے یہاں تک کہ اس شامی آدمی نے جو بھی اس کے دل میں تھا اپنی زبان پر لایا ۔

 اس کے بعد امام علیہ السلام نے اس سے پوچھا : کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟ ۔

 شامی نے جواب دیا : ہاں ۔

پھرامام علیہ السلام نے پوچھا: کیا یہ آیت پڑھی ہے ؟ :'' ۔۔۔قل لا أسئلکم علیہ أجراً الاّ المودّة فی القربی ۔۔۔ ''۔ (36)

 شامی نے جواب دیا : ہاں۔

پھرامام علیہ السلام نے پوچھا: کیا یہ آیت پڑھی ہے ؟ :'' ۔۔۔ وء ات ذالقربی حقّہ ۔۔۔ ''۔ (37)

 شامی نے جواب دیا : ہاں۔

اور کیا یہ آیت بھی پڑھی ہے ؟ :'' ۔۔۔انما یرید اللّہ لیذھب عنکم الرجس أھل البیت و یطھّرکم تطھیراً ''۔(38)

 شامی نے جواب دیا : ہاں۔

 پھر امام علیہ السلام نے کہا : اے شیخ یہ آیات ہماری شان میں نازل ہوگئی ہیں ، ہم ہی ذوی القربی ہیں ، ہم ہی ہر طرح کی بدی اور برائی سے پاکیزہ اہلبیت ہیں ۔

اس بوڑھے آدمی نے جان لیا جو بھی اس نے اسراء کے بارے میں سنا تھا وہ صحیح نہیں ہے ، وہ خارجی نہیں ہیں ، بلکہ پیغبر کے فرزندان ہیں ۔ لہذا جوبھی ان کے بارے اس نے کہا تھا اس سے پشیمان ہوگیا ۔ اس کے بعد یہ کہنے لگا : خدایا ، میں نے جو  ان کا بغض دل میں رکھا تھا تیری درگاہ توبہ کرتا ہوں ۔ میں محمد وآل محمد کے دشمنوں سے بیزار ہوں ۔ جب یہ خبر دشمن تک پہنچی تو اسے قتل کردیا ۔ (39)

یہاں پر امام علیہ السلام اس شامی آدمی کو تربیت کے لائق ٹھیک سمھجتے ہیں ۔کیونکہ اس نے اپنی بات کا آغاز خداوند عالم کے حمد سے کیا :'' اس خدا کا شکر جس نے آپ کو۔۔۔ '' ، لیکن حکومت شام کے جھوٹے پروپگنڈے نے اسے اپنے تحت تاثیر ڈالا تھا۔ اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے پیار بھرے  اور نرم برتاؤ سے اس کی اہانتوں کو سن رہے ہیں  اور نرمی اور آرام سے اس کے ساتھ بات کرتے ہیں یہانتک کہ اس کو راہ راست کی طرف ہدایت کی اور اسے علوی تربیت کے سایہ میں لائے ۔

    پیاربھرا ، نرم اور مہربان برتاؤ شاگردوں کے قلوب جذب کرنے اور ان میں محبت و الفت پیدا کرنے کا باعث بن جاتا ہے ۔ اپنے گھر کے اعضاء ، اپنے اطراف میں رہنے والے لوگ ، پڑوسیوں اور معاشرے کے افراد کے ساتھ نرم خوئی اور متواضع ومھربان برتاؤکرنا چھوتھے امام زین العابدین علیہ السلام کی سیرت کا  ایک عملی درس و عبرت ہے ۔

اگلے شمارے میں قارئین کرام کی خدمت میں صالحین اور متقین کے امام حضرت سید الساجدین علیہ السلام کی دوسری تربیتی طریقہ کار کو بیان کریں گے ۔

(ماخذ :  مجلہ نامہ جامہ  ، شمارہ 27 و 28 )

 

حوالہ جات

١٩۔حسن عمید ،فرھنگ عمید،ج٢،ص ١٧٦٩۔

٢٠۔مھدی نراقی،علم اخلاق،ص٣٨٦۔

٢١۔سورہ مائدہ/٥٤۔

٢٢۔سوری اعراف/١٥٦۔

٢٣۔سورہ انعام/١٢۔

٢٤۔صحیفہ سجادیہ،دعاء ١،ص٦۔

٢٥۔صحیفہ سجادیہ،دعاء ١،ص٣٣٩۔

٢٦۔سورہ بقرہ/١٦٥۔

٢٧۔دعائے ابو حمزہ ثمالی۔

٢٨۔دعائے ابو حمزہ ثمالی۔

٢٩۔سورہ آل عمران/١٥٩۔

٣٠۔سورہ انبیائ/١٠٧۔

٣١۔سورہ شوری/٢٣۔

٣٢۔صحیفہ سجادیہ،دعاء ٢٦۔

٣٣۔ سورہ طہ/٤٤۔

٣٤۔ صحیفہ سجادیہ،دعاء ٤٢۔

٣٥۔ صحیفہ سجادیہ،دعاء ٤٢۔

٣٦۔ سورہ الشوری /٢٣۔

٣٧۔سورہ الاسرائ/٢٦۔

٣٨۔ سورہ الاحزاب/٣٣۔

٣٩۔  سید بن طاووس ، اللھوف ، ص٢٣٩و ٢٤٠۔


source : http://basharatkmr.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

زندگي نامہ امام علي عليہ السلام
ائمہ معصومین علیہم السلام نے ایسے دورحکومت -9
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے طلب شفاعت
امام محمد باقر (ع) کے علمی فیوض
24 رجب یوم فتح خیبر --- پیغمبر(ص) نے فرمایا: علی (ع) ...
سیدالشہداء کے لئے گریہ و بکاء کے آثار و برکات
چھوتھے امام: حضرت زین العابدین علیہ السلام
قرآن کی نظر میں جوان
دَاستانِ طبی امیرالمومنین
بیعت عقبہ اولی

 
user comment