دنیا میں ہر حاکم کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کی رعایا سب سے اچھی ہو اور انسانی و اخلاقی اقدار سے دور نہ ہوجائے ،جو حاکم صالح نہیں بھی ہوتے وہ بھی بظاہر ایسا ہی دکھاوا کرتے ہیں حتی کہ غیر مذہبی حکومتیں بھی یہی چاہتی ہیں کہ ان کی رعایا اور معاشرہ اخلاقی اقدار کو گم نہ کردیں کیونکہ جس معاشرے میں اخلاقی زوال آجاتا ہے وہ منتشر ہوکر برباد ہوجاتا ہے .شہروں ،بستیوں ،قصبوں اور دیہاتوں میں امن کمیٹیاں اور سماج سدھار تنظیمیں اور پولس و انتظامیہ کی جانب سے ان کی حوصلہ افزائی اس کی اہمیت کو بیان کرتی ہے .پوری دنیا کے اصلاح معاشرہ کے لئے یہ اقدامات ایک طرف اور اسلامی جہاد ایک طرف ،اسلامی جہاد سے معاشرہ جیسا صاف ستھرا اور پُر امن رہتا ہے ایسا کسی بھی ذریعہ سے نہیں رہ سکتا ،یہ اسلامی جہاد ہی ہے جس کی بدولت خود بخود ہر انسان اپنے آپ پر نگاہ رکھتا ہے اور اپنا محاسبہ کرکے آلودگیوں سے بچنے کے راستے فراہم کرتا ہے ،اسے ہم جہاد بالنفس کہتے ہیں ،یہ اسلامی جہاد ہی ہے جس کی وجہ سے ہر مسلمان اپنا فرض سمجھتا ہے کہ وہ اپنے قلم کو معاشرے کی اصلاح و بھلائی میں استعمال کرے ،اسے جہاد بالقلم کہا جاتاہے ،یہ اسلامی جہاد ہی ہے جو انسانوں کو یہ دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنی زبان سے برائیوں کو نہ پھیلنے دیں اسے جہاد بااللسان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ،یہ اسلامی جہاد ہی ہے جو معاشرے پر ہر قسم کے اٹیک کو ڈفینس کے ذریعہ روکنے کی تاکید کرتا ہے،ڈفینس صرف تلوار یا دیگر اسلحہ سے ہی نہیں ہوتا بلکہ معاشرے پر چاہے اقتصادی حملہ ہو یا مخرب اخلاق فلموں اور سیریلوں کے ذریعہ ثقافتی یلغار ہو دفاع کرنا ضروری ہے ،بعض نادان لوگ مخرب اخلاق فلمیں دکھانے والے سینما گھروں کے مالکوں کو دھمکیاں دیتے ہیں یاپھر بم سے اڑادیتے ہیں یہ طریقۂ کار اسلامی جہاد کے منافی ہے،اس کے دفاع کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اخلاقی قدروں پر مبنی فلموں ،سیریلوں اور لٹریچر کی معاشرے میں فراوانی کردی جائے .لوگوں نے جہاد کو بغیر سمجھے اسے بدنام کرنا شروع کردیا، بدنام کرنے والوں میں ایسے بھی تھے جو اسلامی جہاد کے فلسفے سے اچھی طرح آشنا تھے مگر معاشرے میں اخلاقی اصول و ضوابط کو پنپتا ہوا نہیں دیکھ سکتے تھے لہٰذا انہوں نے اسلامی جہاد کی مخالفت کرکے اسے دہشت گردی کا نام دے دیا ،ایسے یہودی یا عیسائی نظریہ پرداز اگر تنہا خود یہ کام انجام دیتے تو اتنا کامیاب نہ ہوتے جتنا مٹھی بھر جاہل مسلمانوں کو استعمال کرکے ہوئے کیونکہ ان مسلمانوں نے جو بھی غیر اخلاقی و غیر انسانی کام انجام دیئے وہ جہاد ہی کے نام پر دیئے جس سے پوری دنیا میں جہاد جیسا معاشرہ ساز فریضہ نفرت میں تبدیل ہوگیا اور ڈر ہے کہ کہیںاس مقدس فریضہ کو جرم نہ بنا دیا جائے اور پھر اس کے لئے کوئی دفعہ بھی ایجاد کرلی جائے.ڈکشنری میں جہاد کے معنی کوشش کے ہیں اور یہ کوشش چاہے کسی بھی کام کے لئے کی جائے جہاد کہلائے گی اور اصطلاح میں معاشرے سے برائیوں کو جڑ سے ختم کرنے کی راہ میں کوشش کرنا جہاد کہلاتا ہے ،اسی لئے اسلامی روایات میں جہاد کی درجہ بندی میں سب سے اوپر جہاد بالنفس﴿اپنے نفس سے جہاد کرنا﴾رکھا گیا ہے یعنی اپنے نفس کو خواہشات کی پیروی اور برائیوں سے روکنا ،روایات میں اسے ’’جہاد اکبر ‘‘کا نام دیاگیا ہے یعنی سب سے بڑا جہاد ،جب ہر انسان اسلامی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اپنے نفس کو برائیوں اور خواہشات کی پیروی سے دور رکھنے کے لئے جد و جہد کرے گا تو یہ معاشرہ جنت نظیر بن جائے گا نہ پولس کی ضرورت ہوگی نہ عدالتوں پر کروڑوں خرچ کرنے پڑیں گے، جہاد بالنفس سے خود بخودپورا معاشرہ مہذب اور با اخلاق ہو کر راحت و سکون کے ساتھ اپنی منزلیں طے کرے گا ،اسلامی روایات میں جہاد باللسان کو دوسرے درجہ میں رکھا گیا ہے یعنی برائی کو دیکھ کر انسان خاموش نہ رہے بلکہ برائی کو برا ضرور کہے،اس جہاد کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کہتے ہیں ،زمانہ اتنا دگر گوں ہوگیا ہے کہ برائی کرنے والے کو برائی سے کوئی نہیں روکتا بلکہ سب اسی کو برا بھلا کہتے ہیں جو برے کو برا کہتا ہے ،ایک طرف تو معاشرہ علمائ پر یہ الزام تراشی کرتا ہے کہ علمائ حضرات معاشرے کو سدھارنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھاتے دوسری جانب اگر کوئی شخص کسی شخص کی برائی پر نگاہ رکھتا ہے اور اسے ٹوکتا ہے تو یہی معاشرہ کہتا ہے کہ میاں تمہیں کیا مطلب ؟ جو کر رہاہے کرنے دو ،اس کو اگر برائی پر ٹوکو گے تو معاشرے میں اس سے انتشار پھیلے گا ،یہ منطق برائی کوسماج میں پھیلانے کے لئے ایجاد کی گئی ہے اور اسلامی تعلیمات کے سو فی صد خلاف ہے ،قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے : ’’ ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر و اولئک ھم المفلحون‘‘اور تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی دعوت دے ،نیکیوں کا حکم دے ،برائیوں سے منع کرے اور یہی لوگ نجات یافتہ ہیں ،یہ جہاد اسلام کے نظام کا ایسا جزو ہے جو خود بخود معاشرے کی نگرانی کرتا ہے ،ہر انسان اپنا شرعی فریضہ سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کو اس کے اعمال و رفتار سے آگاہ کرتا ہے اور یہاں یہ مثل صادق آتی ہے کہ : ’’مومن ،مومن کا آئینہ ہے‘‘اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب میں برائیوں کو روکنے اور اچھائیوں کو پھیلانے کا ایسا طریقہ نہیں پایا جاتا ،یہ شرف تو صرف اسلام ہی کو حاصل ہے کہ وہ معاشرے میں ہر قسم کے فساد کا مخالف ہے جو اس دنیا میں ہر صالح حکومت اورحاکم کی تمنا ہوتی ہے،اس کے بعد جہاد بالقلم یعنی معاشرے کو سدھارنے کے لئے قلم کے ذریعہ کوشش کی جائے ،اس جہاد کے بھی بے حد ثواب ہیں اور اس کا درجہ تلوار کے جہاد سے بڑا ہے ،قول معصوم ہے کہ : ’’عالم کے قلم کی سیاہی کا قطرہ شہید کے خون سے افضل ہے‘‘ اس روایت میں واضح طور پر جہاد بالسیف یعنی تلوار کے جہاد پر قلم کے جہاد کی فضیلت کو بیان کیاگیا ہے ،قلم کے ذریعہ کیاگیا جہاد سب سے زیادہ دیر پا ہوتا ہے ،تقریریں ذہنوں سے محو ہو سکتی ہیں لیکن قلمی کاوشیں کتابوں اور لٹریچر کی شکل میں زیادہ عرصہ تک محفوظ رہتی ہیں،جس سے کئی کئی نسلیں استفادہ کر سکتی ہیںاسی لئے جہاد بالقلم کی بہت تاکید ہے. اس کے بعد جہاد مالی ہے یعنی مال کے ذریعہ معاشرے کی فلاح و بہبود کا انتظام کرنا تاکہ معاشرے میں جرائم کا گراف بڑھ نہ جائے ،تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ معاشرے میں جرائم فقر و ناداری کی وجہ سے زیادہ ہوتے ہیں،لہٰذا اس راہ میں صاحب استطاعت لوگ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرکے ایسے جرائم کو روک سکتے ہیں ،مال خرچ کرنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ تھوڑا بہت دے کر فقیری کی لت کو پروان چڑھایا جائے بلکہ نادار شخص کو اس کے پیروں پر کھڑا کردیا جائے ،ایسا کرنے سے معاشرہ خود بخود پر سکون ہوجائے گا،سب سے نچلے طبقے میں جہاد بالسیف یعنی معاشرے کی اصلاح اور اُس پر ہونے والے حملوں کے دفاع میں اسلحہ اٹھانا ،اگر ہم تاریخ یعقوبی ،الامامہ والسیاسہ، وقعہ صفین ،شرح نہج البلاغہ، بحار الانوار ،تاریخ طبری، مروج الذہب وغیرہ تاریخی کتابوں کا مطالعہ کریں تو بزرگان اسلام کے لکھے ہوئے سیکڑوں خطوط اور کئی گئی تقریریں مل جائیں گی جو اِن بزرگوں نے معاشرے کے دفاع اور راہ خدا میں تلوار چلانے سے پہلے مد مقابل سے جہاد بالقلم اور جہاد بااللسان کے طور پر کیںبالخصوص امام حسین (ع) نے میدان کربلا میں تو اس کا بہت زیادہ اہتمام کیا 10محرم 61ہجری سے پہلے تک آپ برابر جہاد بااللسان اور جہاد بالقلم فرماتے رہے حتی کہ جب آپ تنہا رہ گئے اُس وقت بھی آپ نے ان جہادوں کو ترک نہ فرمایا اور آخری مرتبہ یزیدی فوج کو مخاطب کرکے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ : ’’ابھی بھی اگر تم راہ راست پر آجاؤ تو میں اپنے اصحاب اور اولاد کی دردناک شہادت کو بھلا سکتا ہوں ‘‘امام عالی مقام نے اس وقت تلوار چلائی جب یزیدی فوج نے کسی بھی ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کردیا ،عالم اسلام میں اس سے اچھی مثال جہاد بالسیف کے نچلے پائیدان میں ہونے کی نہیں مل سکتی ،اور یہ اجازت بھی اسلام نے شاید اس لئے دے دی کہ اس کی نظر میں اصلاح معاشرہ بہت اہم ہے .اسلام دشمن عناصر اس جہاد کو قتل و غارت گری سے تشبیہ دیتے ہیں جو کہ غلط ہے، چونکہ اسلام عالم انسانیت کے لئے امن کا پیغام لے کر آیا تھا لہٰذا وہ طاقتیں جو معاشرے کے کمزور لوگوں کا خون چوس رہی تھیں اور ان کو سودی قرضوں میں جکڑ کر غلام بنا چکی تھیں اسلام کے اس پیغام سے بوکھلا گئیں اور ہر طرح کی مخالفت شروع کردی جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے ،لہٰذا اسلام نے بھی مسلمانوں کو اپنے دفاع کا حق دیاہے جس کو عقل بھی تسلیم کرتی ہے.
source : http://www.masoomeen.blogfa.com