اردو
Monday 6th of May 2024
0
نفر 0

توہین رسالت اور قرآنی رد عمل

دشمنانِ دین، انبیاء و اولیاء علیھم السلام کے چہروں کو مخدوش کرنے کے لئے مختلف حربوں کا استعمال کرتے ہیں اور ہمیشہ ان کی کردار کشی کے درپے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عظیم المرتبت پیغمبر اکرمۖ کو مجنون، جادوگر، شاعر، کاہن، خوش فہم،اور گمراہ وغیرہ کہا۔ عصر حاضر میں یہی کام صہیونزم اور اس کے ہم فکروں کے ذریعہ انجام پارہا ہے۔
قیادت، اسلامی معاشرہ میں بنیادی رکن کی حیثیت رکھتی ہے جیساکہ حضرت امیر المومنین  نے خطبۂ شقشقیہ میں قیادت کو چکی کی مرکزی کیل سے تعبیرکیا ہے۔         
(نہج البلاغہ، خطبہ٣)
اسلامی قیادت کی تخریب سے دین اور معاشرے کے تمام ارکان متأثر ہوتے ہیں۔ اسلام دشمن عناصر قیادت کی اس اہمیت کے پیش نظر ہمیشہ اس بات کے لئے کوشاں رہے ہیں کہ ہر ممکنہ طریقہ سے اسلامی معاشرہ کی رہبریت کی تخریب کی جائے۔ اس مقصد کو پانے کے لئے دشمن کبھی قتل، زندان اور دھمکیوں کا سہارالیتا ہے تو کبھی تہذیبی یلغار اور شخصیت کشی کی راہ کو اپناتا ہے۔
قرآن کریم نے متعدد آیتوں میں دشمنوں کی طرف سے ہونے والی تہذیبی یلغار، اسلامی نظام اور حضور اکرمۖ کی تخریب کی کوششوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ کوشش صرف اُسی زمانہ سے مخصوص نہیں بلکہ ہر دور میں یہ حربے استعمال کئے گئے۔ آج بھی اسلامی قیادت کی تخریب کے لئے یہ کوششیں جاری ہیں۔
حضور اکرمۖ کی کردارکشی کے مقابلہ میں قرآن کا مستحکم دفاع اس بات کا درس دیتا ہے کہ اپنے رہبر کا مکمل دفاع اور تخریبی اقدامات کا بھرپور مقابلہ پوری امت پر فرض ہے۔ شاید محمد و آل محمد ''صلوات اللہ علیہم'' پر درود و سلام کی فضیلت کی ایک وجہ ہر زمانہ میں ان عظیم ہستیوں پر دشمنوں کی طرف سے ہونے والی یہی یلغار ہو۔
رسول اکرمۖ کا استہزا 
(الف) استہزا کے طریقے 
خواہ کتاب ''آیات شیطانی'' ہو یا بنگلادیشی گستاخ خاتون کے نوشتے، ترکی کا روشن خیال شخص ہو یا پھر ''ڈنمارکی خاکہ'' یہ تمام گستاخیاں اور توہین رسالت مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے ہوئیںجس سے ہر خاص و عام حیرت زدہ رہ گیا۔
لیکن قرآن کریم اور تاریخ اسلام کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اس طرح کی حرکتیں نئی نہیں بلکہ آغازِ بعثت سے لیکر رحلت پیغمبرۖ تک دشمنوں نے شخصیت ِ سرکار ختمی مرتبتۖ کی تخریب کے لئے اس حربہ کو اپنایا۔
کبھی مؤمنوں کا استہزا کیا گیا(سورۂ بقرہ١٠٤، تفسیر نمونہ، ٣٨٣١، سورۂ توبہ٧٩) ، کبھی آیاتِ الٰہیہ کا مسخرہ کیا گیا (انعام٦٨، مومن٨٣، جاثیہ٩، کہف٥٦، تفسیر نمونہ ٢٨٨٥) تو کبھی انبیائے الٰہی کا مذاق اڑایا گیا۔
قرآن مجید کے مطابق تمام رسولوں کا مذاق اڑایا گیا (سورۂ حجر١١، انبیائ٤١) یعنی ہر زمانے میں تمام انبیاء کے دشمنوں کی یہی عادت رہی ہے اور یہ حربہ ایسا ہے جس میں دشمن کافی کامیاب رہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی دشمن اس حربہ کا استعمال کر رہے ہیں۔ آیۂ کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے:
(و ما یاتیہم من رسول الا کانوا بہ یستھزؤون) (حجر١١)
''اور ان میں سے ان کے پاس کوئی رسول نہیں آیا مگر یہ کہ وہ اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔''
]و لقد استھزیٔ برسل من قبلک فحاق بالذین سخروا منھم ما کانوا بہ یستھزؤون[ (انبیائ٤١)
''اور پیغمبر آپ سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا گیا ہے جس کے بعد ان کفار کو اس عذاب نے گھیر لیا جس کا یہ مذاق اڑا رہے تھے۔''
مذکورہ آیات کے علاوہ قرآن مجید میں ایسی آیات بھی موجود ہیں جن میں خاص طور سے حضرت نوح اور حضرت موسیٰ جیسے انبیاء کے مذاق اڑائے جانے کی بات کہی گئی ہے۔ (سورۂزخرف٤٧)
]و اذا رء اک الذین کفروا یتخذونک الا ھزواً أ ھذا الذی یذکر آلھتکم و ھم بذکر الرحمٰن ھم الکافرون[                   (سورۂ انبیائ٣٦)
''اور جب بھی یہ کفار آپ کو دیکھتے ہیں تو اس بات کا مذاق اڑاتے ہیں کہ یہی وہ شخص ہے جو تمہارے خدائوں کا ذکر کیا کرتا ہے اور یہ لوگ خود تو رحمن کے ذکر سے انکار ہی کرنے والے ہیں۔''
کبھی کبھی تو اس استہزاء کی شدت یہ ہوتی تھی کہ حضور اکرمۖ ملول ہوجاتے تھے مگر خداوند عالم آپ سے یہ وعدہ کرتا تھا کہ دشمنوں کے استہزاء کے مقابلے میں آپۖ کی حفاظت فرمائے گا۔
]فاصدع بما تؤمر و اعرض عن المشرکین۔ انا کفّیناک عن المستھزئین۔ الذین یجعلون مع اللہ الاھاً آخر فسوف یعلمون و لقد نعلم انک یضیق صدرک بما یقولون...[ (سورۂ حجر٩٤۔٩٧)
''بس آپ اس بات کا واضح اعلان کردیں جس کا حکم دیا گیا ہے اور مشرکین سے کنارہ کش ہوجائیں ہم ان استہزاء کرنے والوں کے لئے کافی ہیں جو خدا کے ساتھ دوسرا خدا قرار دیتے ہیں اور عنقریب انہیں ان کا حال معلوم ہوجائے گا اور ہم جانتے ہیں کہ آپ ان کی باتوں سے دل تنگ ہورہے ہیں...''
علامہ طباطبائی اس آیت کے معنی و مفہوم کے سلسلہ میں رقمطراز ہیں:
اس آیت کے یہ معنی ہیں: جب آپ ہمارے عذاب کے سلسلے میں ڈرانے والے ہیں تو پھر جس چیز کا آپ کو حکم ہوا ہے اسے آشکار کردیجئے، دعوت کا اعلان اور حق کا اظہار کردیجئے اور مشرکوں سے منھ موڑ لیجئے اس لئے کہ ہم اپنے عذاب کے ذریعہ مذاق اڑانے والوں کے شر کو ختم کردیں گے۔ خداوند عالم کا یہ کلام: ]و لقد نعلم انک یضیق صدرک...[ دوبارہ رسول خداۖ کے غم و اندوہ کی طرف اشارہ ہے کہ استہزاء کی وجہ سے آپ دل تنگ ہوگئے تھے، اس کلام کے ذریعہ خداوند تعالیٰ نے حضور اکرمۖ کی قوت و استحکام روح اور مضبوطی قلب کا سامان فراہم کیا اور پھر حکم فرمایا کہ استہزاء کے سبب لاحق ہونے والے غم و اندوہ کے ازالہ کے لئے حمد و تسبیح خدا اور سجدۂ رب الارباب کا سہارا لیں۔ (المیزان، ١٩٤١٤)
استہزاء کا نتیجہ 
قرآن کریم نے آیاتِ الٰہیہ، رسول خداۖ اور مومنوں کے استہزاء کے سخت نتائج کی طرف بارہا اشارہ کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: ''بے شک یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کن عذاب ہے ان کے پیچھے جہنم ہے ... اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔'' (سورۂ جاثیہ، ٩۔١٠)
اور قرآن کے مطابق وہ لوگ جس طرح استہزاء کیا کرتے تھے وہی چیزیں ان پر مسلط کردی جائیں گی۔ (سورۂ غافر٤٠، سورۂ انبیائ٤١)
استہزاء کے مقابلہ کی راہیں 
اللہ تبارک و تعالیٰ حضور اکرمۖ کو حکم فرماتا ہے کہ مذاق اڑانے والوں کا مقابلہ کرنے کی غرض سے آپۖ ان سے رخ پھیر لیجئے اور ان کے درمیان حاضر نہ ہوا کیجئے مگر یہ کہ وہ مذاق اڑانا بند کردیں اور دوسری باتیں کرنے لگیں۔ آیۂ کریمہ ]اذا رأیت الذین یخوضون فی آیاتنا فاعرض منہم...[ کے ذیل میں تفسیر مجمع البیان میں امام محمد باقر سے منقول ہے: جب یہ آیت نازل ہوئی تو مسلمانوں نے کفار اور مذاق اڑانے والوں کے ساتھ نشست و برخاست ترک کردی، بعض مسلمانوں نے کہا: اگر ہر جگہ ایسا ہی کرنا ہے تو پھر مسجد الحرام بھی نہ جائیں اور طواف بھی نہ کریں تو آیت نازل ہوئی کہ ان موقعوں پر انہیں نصیحت کرو۔(تفسیر نمونہ، ج٥، ص٢٨٨)
قرآن مجید کی نظر میں استہزاء کرنے والوں کا مقابلہ کرنے کا ایک راستہ حمد و تسبیح خدا، سجدہ و عبادت اور صبر ہے۔ یہ چیزیں ایسی ہیں جن کی بنیاد پر حضور اکرمۖ دشمنوں کے استہزاء اور ان کی طرف سے ہونے والی مختلف اذیتوں کو بہتر طور پر تحمل کرسکتے ہیں۔ (تفسیر المیزان، ١٩٤١٤)
اس سلسلہ کی آخری بات یہ کہ عصر حاضر میں توہین رسالتۖ کے مختلف طریقے اپنائے جارہے ہیں۔ بے بنیاد اور توہین آمیز افسانوں کے ذریعہ آپۖ کی معصوم شخصیت کی تخریب، اہانت آمیز کارٹون کی اشاعت، غلط فلموں کی ترویج، گستاخانہ لطیفوں کی تشہیر وغیرہ ایسے حربے ہیں جن کے سہارے دشمن ہمارے نبی آخرۖ کی توہین کی جسارت کررہا ہے لہٰذا قرآنی فرامین کی بنیاد پر ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ حتیٰ المقدور ان کا مقابلہ کریں اور ہم خود بھی ان کے لئے گستاخیوں کا میدان ہموار نہ کریں۔ممکنہ صورت میں نبی اعظمۖ پر سب و شتم کرنے والوں اور آپۖ کا استہزاء کرنے والوں پر فقہی حکم اور معین شدہ حد ضرور جاری ہونا چاہئے۔


source : http://www.alhaider.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا )
حضرت پیغمبر اسلام (ص) کا مختصر زندگی نامه
قاتلین حسین (ع) کی حقیقت
امام جعفر صادق عليہ السلام کي سيرت طيبہ
شہادت امام جعفر صادق علیہ السلام
دو محرم سے لے کر نو محرم الحرام تک کے مختصر واقعات
ہدف کے حصول ميں امام حسين کا عزم وحوصلہ اور شجا عت
حضرت علی علیہ السلام کا علم شہودی خود اپنی زبانی
زندگی نامہ حضرت امام حسین علیہ السلام
تحریک عاشورا کے قرآنی اصول

 
user comment