اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

رسول اﷲ ۖ کی معاشی زندگی پر ایک نظر

 

١۔ بچپن میں آپ کی معاشی زندگی

رسول اکرم ۖ کی ولادت کے مبارک موقع پر انسانیت کے خزاں رسیدہ گلشن میں ایمان کی بہار آئی ۔ کفر کے ایوانوں میں خاک اڑنے لگی اور ہدایت کے چراغ روشن ہونے لگے ۔ ایوان کسری کے چودہ کنگرے گر گئے ، آتش کدہ فارس بجھ گیااور دریائے ساوا خشک ہو گیا اورآپ ۖسے ایک ایسا نور نکلا جو پورے آسمان پر مشرق سے مغرب تک پھیل گیا۔ ١

مشہور قول کے مطابق آ پ ۖ کے والد گرامی آپ ۖ کی ولادت سے پہلے اس دار فانی سے کوچ کر گئے تھے ۔ ٢

اس لئے آپۖ کی ولادت کے بعدآپۖ کی کفالت کے اخراجات جہاں آپۖ کی والدہ اور چچا کے ذمہ تھے وہاں والد گرامی کی طرف سے وراثت سے بھی آپ کی کفالت کا سامان فراہم ہو نے لگا تھا ۔

ابن سعد اپنی تاریخ الطبقات الکبری میں آپ ۖ کے والد کی میراث کے بارے میں لکھتے ہیں:

'' ترک عبد اﷲ ابن عبد المطلب ام ایمن و خمسة اجمال اوارک یعنی تاکل الاراک و قطعة غنم فورث ذالک رسول اﷲ صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فکانت ام ایمن تحضنہ و اسمہا برکة''۔٤

عبد اﷲ ابن عبد المطلب نے وراثت میں( ایک لونڈی )ام ایمن ، پانچ آوارک اونٹ یعنی ؛وہ اونٹ جو پیلو کے درخت کے پتے کھاتے ہوں، چند بھیڑیں جو آپ ۖ کومیراث میں ملیں۔ یہی ام ایمن ہیں جس نے آپۖ کی پرورش کی تھی، جس کا اصل نام برکة تھا۔

والدہ ماجدہ کی وفات کے بعدآپۖ کی پرورش اور معاشی کفالت کی ذمہ داری آپۖ کے دادا عبد المطلب نے قبول کی۔ عبد المطلب اپنے یتیم پوتے کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ پس دو سال ہی گذرے تھے کہ آپ ۖ کے شفیق دادا کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے آپۖکو آزمائش میں سرخرو ہو نے کا ایک اور موقع فراہم کیا ۔

دادا کی وفات کے بعدآپۖ کی معاشی کفالت کی ذمہ داری آپ ۖ کے چچا حضرت ابوطالب نے قبول کی۔ وہ آپۖ کو اپنی اولاد سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے۔ سفر میں ہوں یا حضر میں وہ آپۖکو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے ۔ قرآن مجید نے ابوطالب کے اس کریمانہ سلوک کو اس طرح بیان کرتا ہے:

'' اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی''٥

''کیا تمہیں نہ پایا یتیم ، پھر ٹھکانا دیا''

یہ حقیقت ہے کہ اس شفیق چچانے اپنے یتیم بھتیجے کی معاشی کفالت ، نصرت ، و حمایت اور تکریم و جمیل میں اپنی بساط کے مطابق کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا تھا۔ حضرت ابو طالب ہی کے زیر سایہ آپ ۖ نے تجارت کے اصول وضوابط سے آگاہی حاصل کی اور اُس زمانے کی تجارتی دنیا سے آشنا ہوئے ۔

٢. ۔گلہ بانی

اﷲ تعالی کی حکمت میں کیا راز پوشیدہ ہے کہ اس نے اکثر انبیاء کرام سے بکریاں چروائیں۔ آپ ۖ کا ارشاد گرامی ہے کہ:۔

'' لیس من نبی الا و قد رعی الغنم'' ٦

'' کوئی بھی ایسا نبی نہیں جس نے بکریاں نہ چرائیں ہوں''

کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں بکریاں چرانے کے ذریعے لوگوں کے ساتھ رعایت اور مدارا کرنے کی تربیت دی ہے ۔ جیساکہ امام جعفر صادق ـ نے ارشاد فریا کہ:۔

'' ما بعث اﷲ نبیا قط حتی یسترعیہ الغنم و یعلمہ بذالک رعیة الناس''٧

''اﷲ تعالی نے کسی نبی کو مبعوث نہیں کیا یہاں تک کہ اس سے بکریاں چروائیں تاکہ اس کے ذریعے اسے لوگوں کی رعایت سکھائے''

آپ ۖ نے بھی بکریاں چرائیںجیساکہ ابن ہشام اپنی سیرت میں بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ۖنے فرمایا کہ

''ما من نبی الا و قد رعی الغنم و قیل انت یا رسول اﷲ ، قال و انا'' ٨

''کوئی بھی ایسا نبی نہیں جس نے بکریاں نہ چرائیں ہوں، پوچھا گیا کہ آپ ۖ نے بھی ، فرمایا ہاں میں نے بھی (بکریاں چرائیں ہیں)''

ابواب فقہ میں بکریاں چرانے کو مستحب عمل کہا گیا ہے۔لہٰذا آپۖ بچپن ہی میں جب آپۖ کی عمر مبارک دس سے بارہ سال تھی تو آپ ۖ نے اپنے چچا کا معاشی ہاتھ بٹانے کے لیے بکریاں چرانا شروع کیں ۔علامہ مجلسی بحار الانوار میں ابوداؤد کی روایت بیان کرتے ہیں کہ :۔

''کانت لہ ماة شاة لایرید ان یزیدو کان صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کلما ولدت سخلة ذبح مکانہا شاة۔'' ٩

''آپ ۖ کے پاس سو( ١٠٠) بکریاں تھیں ، ان سے زیادہ (تعداد)بڑھانا نہیں چاہتے تھے ، جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تھا تو آپ ۖ اس کی جگہ ایک بکری ذبح کرتے تھے''

(ابو داؤد نے ایک تفصیلی واقع بیان کیا جو اس حدیث میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے)

٣. تجارت

جب آپ ۖ جوان ہوئے تو آپ ۖ نے تجارت کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔اس ذریعہ معاش کے انتخاب کی وجوہ میں سے نمایاں وجہ یہ تھی کہ آپ ۖ کے خاندان بنوہاشم اور قریش مکہ بھی تجارت پیشہ تھے ۔ آپ کے آباء واجدادتجارت ہی کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔ جیسا کہ ایک روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ:

''کان اصحاب الایلاف اربعة اخوة: ہاشم ، و عبدالشمس، ولمطلب، و نوفل بنو عبد مناف ۔ فاما ہاشم فانہ کان یؤلف ملک الشام ای اخذ منہ حبلا و عہدا یأمن بہ فی تجارتہ الی الشام ۔ اخوہ عبد الشمس کان یؤلف الی الحبشة۔ و المطلب الی الیمن ۔ و نوفل الی فارس۔'' ١٠

اصحاب ایلاف چار بھائی ہیں: ہاشم ، عبد الشمس ، مطلب اور نوفل ہیں جو اولا د عبد المناف میں سے ہیں ۔ ہاشم نے شام کے بادشاہ سے امان نامہ اورتجارتی عہد لیا تھا تاکہ ملک شام کی طرف ان کی تجارت پر امن رہے۔ ان کے بھائی عبد الشمس نے حبشہ کے حاکم سے تجارتی معاہدہ کیا تھا۔ مطلب نے یمن کے بادشاہ اور نوفل نے ایران کے بادشاہ کسری کے ساتھ تجارتی معاہدہ کیا تھا۔

شام کا تجارتی سفر اور حضرت خدیجة الکبری کے ساتھ عقدجیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے آپ ۖ نے بچپنے ہی میں اپنے چچا حضرت ابو طالب کے زیر سایہ تجارت کے بنیادی اصول وضوابط کی تربیت حاصل کرلی تھی ۔لہٰذا اسی دوران پہلی بار آپۖ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب کے ساتھ تجارت کے لیے شام کا سفر کیا تھا، لیکن اس سفر میں آپ ۖ تاجر کی حیثیت سے نہیں تھے ۔

دوسری بار جب آپ ٢٥ سال کے ہوئے تو آپ ۖ کی امانت و دیانت اور سچائی مشہور ہو گئی تھی ۔ حضرت خدیجہ الکبری جو عرب کی شریف ترین اور مالدار ترین خاتون تھیں، ان کا تجارتی کاروان اہل مکہ کے تجارتی کاروان کے برابر ہوتا تھا، وہ اپنا مال دے کر تجارت میں شرکت ہو جاتیں تھیں اور شرکاء کے لیے ایک حصہ بھی مقرر کرتی تھیں،خود قریش کے لوگ بھی تاجر تھے ۔ جب انہیں رسول ۖ کی سچائی ، امانتداری اور شرافت و اخلاق کے واقعات کی خبر پہنچی تو آپ ۖ کو بلوا بھیجا اور درخواست کی کہ آپ ۖ اُن کا مال لیکر میرے ایک غلام کے ساتھ جس کا نام میسرہ تھا، تجارت کے لیے تشریف لے جائیں۔ آپ ۖ کو معاوضہ بھی اس سے زیادہ دونگی جو دوسرے تاجروں کو دیتی ہوں۔ رسول اﷲ ۖ نے حضرت حضرت خدیجہ کی یہ درخواست قبول فرمالی ۔ آپ ۖ ان کا سامان لے کر میسرہ کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوگئے ۔ ١١

اس سفر میں آپ ۖ نے بہت سا منافع کمایا اور بہت سے معجزات بھی آپ ۖ سے وقوع پذیر ہوئے، یہ تمام واقعات اور عظیم الشان خبریں حضرت خدیجة الکبری ۖ کو میسرہ نے سنائیں ۔ اس کے بعد حضرت خدیجہ نے رسول ۖ کے ساتھ وصلت کا پیغام بھیجا ۔چونکہ حضرت خدیجہ قریش کی عورتوں میں نسب و شرف کے لحاظ سے افضل و اعلی اور دولت کے لحاظ سے تمام عورتوں میں مال دار تھیں ۔ قریش کا ہر شخص اُن سے وصلت کا آرزومند تھا ۔ ١٢

رسول اﷲ ۖنے اپنے چچاؤں سے اس کا ذکر کیا ۔ آپۖ حضرت حمزہ بن عبد المطلب کے ہمراہ تشریف گئے اور اس طرح خدیجہ بنت خویلد سے آپۖ کا عقد ہو گیا۔ ١٣

اس وقت رسول اﷲ ۖ نے انہیں ٢٠(بیس) جوان اونٹنیاں دیں۔ ١٤

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ۖ کے پاس اتنا مال تھا کہ آپ ۖ نے انہیں ٢٠ اونٹنیاں حق مہر میں دیں۔ اس کے بعد حضرت خدیجة الکبری نے بھی اپنی تمام دولت آپ ۖ کے سامنے رکھدی یوں اﷲ تعالیٰ نے آپۖ کو غنی کر دیا ۔ یہ گواہی اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں اس طرح بیان کرتا ہے:۔

''وَ وَجَدَکَ عَائِلاً فَاَغْنَی'' ١٥

''اور آپ کو مفلس پایا اور پھر غنی کر دیا''

آپۖ کے تجارتی سفر :

اس کے بعد دوبارہ آپ ۖ حضرت خدیجة الکبری کا سامان تجارت لیکر جرش (یمن) تشریف لے گئے۔جرش یمن کا ایک بہت بڑا شہر تھا۔١٦

اسی طرح آپ ۖ تجارتی غرض سے بحرین بھی تشریف لے گئے۔ ١٧

یہ تو اعلان نبوت سے پہلے کی آپۖ کی معاشی زندگی تھی ،بعثت کے بعد جب آپ ۖ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو وہاں بھی آپ کی معیشت کے مختلف ذرایع تھے ۔

ہجرت مدینہ کے بعد آپ ۖ کے معاشی حالات:

جب آپ ۖ کے دو بڑے سہارے، حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجة الکبری ، یکے بعد دیگرے اس دنیا سے کوچ کر گئے تو اب کوئی ان جیسا مددگار نہ رہا تھا،ان کے فقدان پر آپ ۖ نے ارشاد فرمایا کہ :۔

'' ما نالت منی قریش شیئا اکرہہ حتی مات ابوطالب'' ١٨

ابوطالب کی وفات تک قریش مجھ سے ایسا کوئی (بُرا)سلوک نہ کر سکے ، جو مجھے نا پسند ہوا ہو۔

اسی سال کو رسول اﷲ ۖ نے عام الحزن قرار دیااور آپ ۖ نے اﷲ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ کافی کی روایت ہے کہ:

''لما توفی ابو طالب نزل جبرئیل علی رسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ و آلہ وسلم فقال یا محمد اخرج من مکة فلیس لک فیہا ناصر''١٩

''جب ابو طالب ـ کی وفات ہوئی تو آپ ۖ پر جبریل نازل ہوئے اور کہا اے محمد ۖ ! آپۖ مکہ سے نکلیں، کیونکہ اب وہاں آپۖ کا کوئی مددگار نہیں ہے''

مدینہ منورہ میں ابتداء میں آپ ۖ کے صحابہ کرام ،آپ ۖ اور آپ ۖ کے اہل خانہ کی معاشی کفالت کیا کرتے تھے ۔انصار مدینہ زراعت پیشہ تھے وہ اپنے کھیتوں میں سے کچھ حصہ وقف کر دیتے تھے اور پکنے کے وقت ایک مخصوص حصہ آپۖ کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔ ٢٠

جانور پالنا

جب افراد خانہ کی تعداد بڑھتی گئی تو آپۖ نے ان کی گذر بسر کے لیے کچھ معاشی فعالیت شروع کی ۔ آپ ۖ نے چند بکریاں خرید یںجن کا دودھ آپ ۖکے خاندان والے بطور خوراک استعمال کیا کرتے تھے۔ بکریوں کی تعداد بڑھتی رہی ۔ ان کی بکریوں کے ساتھ آپ ۖ کے ذاتی اونٹ اور گھوڑے بھی ہوتے تھے ۔ جب ان کی تعداد کافی بڑھ گئی تو مدینہ منورہ کے قریب ایک چراہ گاہ میں یہ جانور رہنے لگے ۔ ایک صحابی ان کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے اور دودھ آپ ۖ کے گھر بھیجا دیا جاتا تھا۔ ٢١

دیگر بادشاہوں کے تحائف

جب آپ ۖ نے مدینہ منورہ میں باقائدہ اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالی اور آس پاس کے حاکموں کو دین کی دعوت دینے کے لیے مکتوبات لکھے اور اپنے نمائندے بھیجے تو ان بادشاہوں نے آپ ۖ کی خدمت میں تحائف بھیجے ۔ ان تحائف میں اونٹ گھوڑے ، خچر، گدھے وغیرہ شامل تھے۔(اس کی مختصروضاحت ہم آپ ۖ کے جانوروں میں بیان کریں گے۔)

غنائم

آپۖ کی کفار اور اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ بہت سی جنگیں ہوئیں تھیں ان جنگوں میں آپ ۖکو بہت سال مال غنیمت حاصل ہوا، ان میں سے ایک حصہ آپ ۖ کے لئے خاص ہوتا تھا۔ یہ حصہ آپۖ کو دو صورتوں میں ملتا تھا ، ایک مجاہد کی حیثیت سے اور دوسرا سربراہ مملکت کی حیثیت سے ، جس کو قرآن کریم میں خمس کہا گیا ہے، اس مال سے آپ ۖ اپنی اور اپنے قرابتداروں کی ضروریات پوری کیا کرتے تھے:۔

''وَ اعْلَمُوآ اَنََّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَالْمَسَکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ اِنْ کُنْتُمْ اٰ مَنْتُمْ بِاللّٰہِ وَ مَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقََانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِ یْرُ۔''٢٢Ø

''جان لو کہ تم جس قسم کی جو کچھ غنیمت حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ تو اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت داروں کا اور یتیموں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا، اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر اس دن اتارا جو دن حق اور باطل کی جدائی کا تھا جس دن دو فوجیں بھڑ گئی تھیں اور اﷲ ہر شی پر قدرت رکھتا ہے''۔

مخیریق کی جائداد کا آپ ۖ کو ملنا:

مخیریق قبیلہ بنو قینقاع کا ایک مالداریہودی تھا، اسے آپ ۖ سے انتہائی عقیدت تھی ۔اور آپ ۖ ان کو ''خیر یہود'' کہا کرتے تھے۔ ٢٣

اس کے سات باغ تھے ۔ وہ آپ ۖ کے ساتھ غزوہ احد میں شریک تھا ۔ اس نے وصیت کی تھی کہ اگر وہ مر جائیں تو ان کی تمام دولت آپۖ کی ملکیت ہوجائے گی ۔٢٤

وہ اسی غزوہ میں قتل ہو گئے اسی طرح اس کی ساری دولت آپۖ کی ملکیت میں آگئی۔اس کے سات باغات کے نام یہ ہیں:العواف،الدلال، البرقة، المثیب، الحسنی، الصافیة، مشربة ام ابراہیم (یہ نام اس لیے رکھا کہ آپ ۖ کے بیٹے ابراہیم کی والدہ حضرت ماریہ قبطیہ وہاں رہتی تھی)۔٢٥

بنو نضیر کی زمین اور نخلستان

اﷲ تعالی نے آپۖ کو بنو نضیر کے باغات اور زمین کا مالک بنایاجس کی گواہی قرآن کریم کی سورئہ حشر میں موجود ہے کہ:۔

''اور جس مال کو اﷲ نے اپنے رسول کی آمدنی قرار دیا ہے (اس میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے ) کیونکہ اس کے لیے نہ تو تم نے گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ ،لیکن اﷲ اپنے رسولوں کو جن پر چاہتا ہے غالب کردیتا ہے اور اﷲ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔'' ٢٦

بنو نضیر نے جب معاہدے کی خلاف ورزی کی تو آپ ۖ نے اﷲ تعالیٰ کے حکم سے ان پر چڑھائی کی ، جس کی نتیجے میں انہوں نے جلاوطنی قبول کی اور اپنی تمام جائداد چھوڑ دی سوائے منقولات میں سے صرف جتنا اٹھا سکے اتنا لے گئے۔ آپ ۖ نے ان کے منقولات کو تمام مجاہدین میں تقسیم کردیا اور غیر منقولات (زمین اور باغات وغیرہ)اﷲ کے حکم کے مطابق اپنے لیے رکھ لیئے ۔

عامہ کی روایت کے مطابق بنو نضیر کی زمین اور نخلستان آپ ۖ کے لیے خاص تھے :

''کانت اموال بنی نضیر مما آفاء اﷲ علی رسولہ مما لم یوجف المسلمون علیہ بخیل و لا رکاب ، کانت لرسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ وسلم خالصا ینفق علی اہل بیتہ ۔'' ٢٧

بنو نضیر کے اموال خالصة اﷲ کے رسول ۖ کے لیے تھے جو اﷲ نے اپنے رسول کو عطا کئے تھے جس میں مسلمانوں نے نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ، یہ اموال آپ ۖ اپنے اہل بیت پر خرچ کرتے تھے۔

آپ ۖ نے اپنی ازواج کی کفالت کے لیے بنو نضیر کے نخلستان ،جو آپۖ کو غنیمت کے طور پر ملے تھے ،کی پیداوار میں سے ایک حصہ مقرر کیا تھا ، جسے فروخت کرکے ان کے سال بھر کی گذربسر کا سامان کیا جاتا تھا۔جب خیبر فتح ہوا تو تمام ازواج کے لیے فی کس اسی وسق کھجور اور بیس وسق جو سالانہ مقرر ہوا تھا۔ ٢٨

خیبر کی آمدنی

آپ ۖ نے صلح حدیبیہ کے بعد خیبر کی طرف رخ کیا کیونکہ وہاں کے یہود اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ جب خیبر فتح ہوا تو آپ ۖ نے انہیں اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے کے بجائے وہاں رہائش اختیار کرنے کی اجازت دے دی اس شرط کی بنا پر کہ وہ خیبر کی زمین کاشت کریں گے اور اس کا آدھا حصہ آپۖ کو بھیجیں گے۔ ٢٩

خیبر کی زمینوں کی آمدن آپ ۖ کے لیے تھی۔

فدک

فدک حجاز کے بالائی حصہ میں دوسرے قصبات کی طرح ایک مستقل ریاست کا درجہ رکھتا تھا ۔ اس کی زمین زرخیز اور پیداوار کے لیے مشہور تھی ۔ بلاذری لکھتے ہیں:۔''فدک حجاز کا ایک شہر ہے ، مدینے سے فدک تک دو دن یا تین دن کا سفر ہے ، اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول ۖ کوساتویں ہجری میںیہ بطور غنیمت عطا کیا۔ جب نبی پاک ۖ نے خیبر پر حملہ کیا اور اس کے تمام قلعے فتح ہو گئے اور وہاں کے لوگوں نے رسول اﷲ ۖ کو خیبر کی آمدنی کا آدھا حصہ دینے کا معاہدہ کیا۔ تو یہ خبر فدک والوں تک پہنچی تو انہوں نے رسول اﷲ ۖ کو پیغام بھیجا کہ وہ آپۖ کو اپنی زمین اور اموال کا آدھا حصہ دینے کا معاہدہ کریں گے ۔ آپ ۖ نے ان کی یہ پیش کش قبول کی۔ یہ غنائم خالصة رسول اﷲ ۖکے لیے تھے کیونکہ اس میں مسلمانوں نے (جنگ کے لیے) نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ۔'' ٣٠

اس طرح فدک کی زمین آپۖ کی ملکیت میں آگئی۔ اور آپ ۖ نے اﷲ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فدک اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کو دے دی۔٣١

وادی القری

یہ وادی مدینہ اور شام کے درمیان ہے ، جسے یہودیوں نے قبل از اسلام آباد کیا تھا، یہ بہت سے قصبوں پر مشتمل تھی۔ ٣٢

آپ ۖ فدک کے بعد وادی القری کی طرف متوجہ ہوئے ، سب سے پہلے انہیں اسلام کی دعوت دی انہوں نے اس د عوت کو قبول نہ کیا ، بلکہ جنگ کے لیے آمادہ ہوئے ۔ مختصر محاصرہ کے بعدآپ ۖ نے وادی القری کو فتح کیا ۔ وہاں کے لوگوں نے آپۖ کو اپنی زمین کا آدھا حصہ دینے کا معاہد کیا ، جسے آپ ۖ نے قبول کر لیا۔

وادی التیمائ

تیما ء شام کی جانب ایک قصبہ ہے جو وادی القری اور شام کے درمیان تھا، یہ شام اور دمشق سے آنے والے حجاج کے راستے میں پڑتا تھا، یہاں پر سموآل یہودی کا قلعہ الابلق الفرد تھا۔ ٣٣

جب رسول اﷲ ۖ نے اہل خیبر اور اہل فدک اوراہل وادی القری کے ساتھ معاہدہ کئے تو اہل تیماء نے بھی آپۖ کو صلح کا پیغام بھیجا آپ ۖ نے قبول فرمایا اورانہیں اپنی زمین میں رہنے دیااوروہ اپنی زمین کی پیداوار کا نصف حصہ آپۖ کو دینے پر راضی ہوئے۔٣٤

آپ ۖ کے جانور

(الف)آپۖ کے اونٹ

ابن کثیر کی روایت کے مطابق آپۖ کی تین اونٹنیاں تھیں۔(١) القصوی (٢) الجدعائ(٣) العضباء ، ٣٥

تہذیب الکمال للمزی کی روایت کے مطابق آپ ۖ کے پاس بیس دودھ دینے والی اونٹنیاں تھیں:۔(٤) الحناء (٥)السمراء (٦)العریس (٧)السعدیہ (٨) البغوم (٩) الیسیرة (١٠) الربی (١١) بردة جو آپ ۖ کو ضحاک ابن سفیان الکلابی نے ہدیہ کی تھی یہ دو اونٹنیوں کے برابر دودھ دیتی تھی۔(١٢) مہرة (١٣) الشقراء (١٤) القصوی (١٥) الجدعائ(١٦) العضباء (١٧)الصہباء (١٨) الغیم (١٩) النوق (٢٠) مروة۔ ٣٦

مناقب ابن شہر آشوب کی روایت کے مطابق: (١) العضباء (٢) الجدعا(٣) القصوی یا اسے القضواء کہا جاتا ہے (٤)الصہباء (٥) البغوم (٦) الغیم (٧) النوق (٨) مردة اور دس دودھ دینے والی اونٹنیاں (٩) مہرة (١٠) الشقراء (١١) الریا (١٢) الحبا(١٣) السمرا (١٤) العریس (١٥) السعدیة (١٦) البغوم (١٧) الیسیرة (١٨) بردة۔٣٧

سبل الہدی کی روایت کے مطابق آپ ۖ کی ٤٥ دودھ والی اونٹنیاں تھیں۔٣٨

لیکن اس نے تمام کے نام ذکر نہیں کئے۔

(ب)آپۖکے گھوڑے

ابن شہر آشوب کی روایت کیے مطابق آپ ۖ کے گھوڑے یہ تھے :۔ (١)الورد (٢) الطرب (٣) اللزاز (٤) اللحیف (٥) مرتجز (٦) السکب (٧) الیعسوب (٨) السبحة (٩) ذو العقاب (١٠) الملاوح اسے مراوح بھی کہا جاتا ہے۔٣٩

بعض روایات کے مطابق آپ ۖ کے پاس پندرہ گھوڑے تھے بعض کے مطابق بیس تھے۔٤٠

(ج)بغالہ (خچر)

سبل الہدی کی روایت کے مطابق آپ ۖ کے پاس سات خچر تھے ،(١) دلدل جوآپۖ کوشاہ مصر مقوقس نے ہدیہ کیا تھا(٢) فضة جوآپۖ کو فروة بن عمرو الجذامی نے ہدیہ کی تھی۔(٣) ایک خچر ایلیا کے رئیس نے ہدیہ کیا تھا (٤) ایک خچر کسری نے ہدیہ کیا تھا (٥)ایک دومة الجندل (٦) ایک نجاشی نے ہدیہ کی تھی۔(٧) حمارة شامیة ۔٤١

(د)حمارہ(گدھے)

آپ ۖ کے پاس دو گدھے تھے بحار الانوار کی روایت کے مطابق(١)یعفور جو مقوقس نے دلدل کے ساتھ آپۖ کو ہدایہ کیا تھا۔ (٢) عفیر فروة جذامی نے فضة کے ساتھ ہدیہ کیا تھا۔٤٢ سبل الہدی و الرشاد کی روایت کے مطابق ان کی تعداد چار تھی دو یہی اور (٣) سعد بن عبادة نے ہدیہ کیے تھے (٤) آپ ۖ کے کسی صحابی نے ہدیہ کیا تھا۔٤٣

(ھ)آپ ۖ کے بکریاں

آپ ۖ کی ١٠٠ بھیڑ بکریاں تھیں۔٤٤

(١١)آپۖ کی مجموعی زمینی پیداوار

السید مرتضی العسکری نے اپنی کتاب معالم المدرستین میں آپۖ کی معاشیات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے، ان میں سے پہلا حصہ: صدقات جو آٹھ تھے:

(١)سب سے پہلے آپ ۖ کو مخیریق یہودی کی وصیت کے مطابق اس کی زمین جو الحوائط السبعة کے نام سے ہے مشہور تھے، ملکیت میں ملی۔(٢)مدینہ منورہ میںبنو نضیرکی زمین،(٣)(٤)(٥) خیبر کے تین حصے(٦)آدھا فدک(٧) وادی القری کا ثلث (٨)سوق المدینہ جس کو مہزور کہا جاتاہے۔

دوسرا حصہ: آپ کا حق فی تھا جو آپ ۖ کے لیے خاص تھا۔

تیسرا حصہ: خیبر کا خمس تھا ۔ یہ تمام حقوق خاص رسول ۖکے لیے خاص تھے ، اس میں کوئی اور شریک نہیں تھا۔ ٤٥

حوالہ جات

١۔ تاریخ یعقوبی، ج ٢ ، ص ٨، تاریخ دمشق، ج ٣٧، ص ٣٦١

٢۔ طبقات ابن سعد ، ج ١، ٩٩

٣۔ یعقوبی، ج ٢ ، ص ١٠

٤۔ طبقات الکبری لابن سعد ، ج ١ص ، ١٠٠

٥۔ القرآن ، الضحی،٦

٦۔ اصول الکافی، ج ١، ٤٤٩،۔ صحیح البخاری، ج٢، ص ١٥۔سیرت ابن ہشام، ج ١ ،ص ١٧٨

٧۔ (الشیخ الصدوق (متوفی ٣٨١ھ ناشر مکتبة الحیدریة ، نجف، ١٩٦٦ع)علل الشرائع، ج١، ص ٣٢

٨۔ سیرت ابن ہشام، ج ١، ص ١٠٨

٩۔ بحار الانوار ، ج٦١، ص ١١٦، ابوداؤد ، سنن ابی داؤد ، ج١، ص ٣٨، حدیث نمبر ١٤٢

١٠۔ تفسیر القرطبی ، ج٢٠، ص٢٠٤

١١۔ سیرت ابن ہشام ج ١،ص ١٢١

١٢۔ سیرت ابن ہشام ج ١،ص ١٢٢

١٣۔ ایضاً

١٤۔ ایضاً

١٥۔ القرآن ، الضحی :٨

١٦۔ ڈاکٹر پروفیسر نور محمد غفاری، نبی کریم ۖ کی معاشی زندگی، ص ٨٢

١٧۔ ایضاً

١٨۔ سیرت ابن ہشام،ج ٢، ص٢٨٣، تاریخ الطبری ، ج٢، ص٨٠

١٩۔ الکافی، ج١، ص٤٤٩

٢٠۔ نبی کریم ۖ کی معاشی زندگی، ص ١٥٣

٢١۔ نبی کریم ۖ کی معاشی زندگی، ص ١٥١

٢٢۔ القرآن، الانفال، آیت ،٤١

٢٣۔ بحار الانوار ، ج ٢٠، ص ١٣٠

٢٤۔ ایضا

٢٥۔ تہذیب الاحکام ، ج ٩ ، ص ١٤٥، بحار الانوار ،ج ٢٢، ص ٢٩٨

٢٦۔ القرآن، الحشر ، ٦

٢٧۔ صحیح البخاری ، ج ٦، ص ٥٨،سنن ابو داؤد، ج ٢ ،حدیث نمبر ٢٩٦٥، ص ٢٢ ، سنن الترمذی، ج ٣ ، ص ١٣١

٢٨۔ معجم الاوسط ، الطبرانی، ج٢، ص٢٠٥، عبداﷲ اابن قدامہ، مغنی، ج ٥ ، ص٥٨٤

٢٩۔ صحیح المسلم ، ج ٥، ص٢٧، سنن ابی داؤد ، ج٢، ص١٢٦۔

٣٠۔ معجم البلدان، ج ٤، ص ٢٣٨

٣١۔ الکافی ، ج١، ص ٥٤٣

٣٢۔ معجم البلدان ، ج ٥، ص٣٤٥

٣٣۔ معجم البلدان ، ج٢، ص ٦٦

٣٤۔ ایضاً

٣٥۔ ابن کثیر ، السیرة النبویة، ج ٤ ص ٧١٣، البدیة و النہایة ، ج ٦، ص١٠

٣٦۔ تہذیب الکمال ، ج ١ ، ص ٢١١

٣٧۔ مناقب ابن شہر آشوب ، ج ١ ، ص ١٤٦

٣٨۔ سبل الہدی و الرشاد، ج ٧، ص ٤٠٧

٣٩۔ مناقب آل ابی طالب، ج ١ ،ص ١٤٦

٤٠۔ سبل الہدی و الرشاد ، ج ١١، ص ٤١٩

٤١۔ سبل الہدی و الرشاد ، ج ٧،ص٤٠٥

٤٢۔ بحار الانوار ، ج ١٦ ، ص١٠٨

٤٣۔ سبل الہدی و الرشاد ، ج ٧ ، ص ٤٠٦

٤٤۔ مناقب لابن شہر آشوب، ج ١ ، ١٤٦ ،بحار الانوار ، ج٦١، ص ١١٦، ابوداؤد ، سنن ابی داؤد ، ج١، ص ٣٨، حدیث نمبر ١٤٢

٤٥۔ السید مرتضی العسکری ،معالمة المدرستین، ج٢، ص ١٣١

المراجع والمصادر

١۔ القرآن الکریم

٢ ۔ ابن شہر آشوب ابو عبد اﷲ محمد ابن علی ابن شہر (متوفی ٥٨٨ھ)

''مناقب آل ابی طالب''، المطبعة الحیدریة النجف الاشرف، سنة ١٣٧٦

٣۔ احمد بن حسین بن علی البیہیقی(الموتوفی:٤٥٨):'' السنن الکبریٰ''ناشر دار الفکر بیروت لبنان

٤۔ امام ابوالفداء اسماعیل بن کثیر(المتوفی ٧٧٤): ''البدایہ والنہایہ''، ناشر دار الاحیاء التراث، العربی، الطبعة الاولی سنة ١٩٨٨

٥۔ امام ابوالفداء اسماعیل بن کثیر(المتوفی ٧٧٤) :''السیرة النبویة'' ناشر دار المعرفة بیروت ، طبع اول ،سنة ١٣٩٦ھ

٦۔ امام ابوالفداء اسماعیل بن کثیر(المتوفی ٧٧٤) : ''البدیة و النہایة'' ، الناشر : دار الاحیاء التراث العربی۔

بیروت، الطبعة الاولی ١٤٠٨ھ

٧۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری(المتوفی ٢٥٦ھ) :''صحیح البخاری''،ناشردار الفکربیروت،سنة ١٤٠١ھ

٨۔ امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی(التوفی ٩٤٢ ):'' سبل الہدی و الرشاد''، ناشر دار المکتبة العلمیة بیروت لبنان،

الطبعة الاولیٰ سنة ١٩٩٣ع

٩۔ امام مسلم بن حجّاج ا لقشیری : ''صحیح مسلم ،'' ناشر دار الفکر بیروت ۔ لبنان

١٠۔ الترمذی محمد ابن عیسی (متوفی ٢٧٩ ھ): ''سنن الترمذی''، دار الفکر بیروت ، سنة ١٤٠٣ھ

١١۔ جمال الدین ابو الحجاج یوسف المزی (متوفی ٧٤٢ھ): ''تہذیب الکمال'' ، الناشر :

موسسة الرسالة، الطبعة الرابع سنة ١٤٠٦ھ

١٢۔ (ڈاکٹر پروفیسر نور محمد غفاری، نبی کریم ۖ کی معاشی زندگی، دیال سنگھ لائبرری لاہور

١٣۔ سلیمان ابن اشعث السجستانی (متوفی٢٧٥ھ):

''سنن ابی داؤد''، طبع اولیٰ،دارالفکربیروت،سنة ١٤١٠ھ۔١٩٩٠ع

١٤۔ السید مرتضی العسکری (معاصر)معالمة المدرستین، بیروت، سنة ١٤١٠ھ۔١٩٩٠ع

١٥۔ شہاب الدین ابو عبد اﷲ یاقوت الحموی (متوفی ٦٢٦ھ):

''معجم البلدان'' ، دار الاحیاء التراث العربی ،بیروت سنة ١٣٩٩ھ

١٦۔ (الشیخ الطوسی محمد ابن الحسن (متوفی٤٦٠ھ): ''تہذیب الاحکام''

الناشر : دار الکتب الاسلامیة، الطبعة الرابعة ١٣٦٥ ش

١٧۔ الشیح محمد باقر المجلسی (المتوفی١١١١ھ )''بحار الانوار''،

ناشر مؤسسة الوفاء بیروت لبنان، الطبع الثانیہ ، سنة ١٩٩٣ع

١٨۔ (الطبرانی سلیمان ابن احمد(متوفی٣٦٠ ھ)، ''معجم الاوسط ''،المطبعة دار الحرمین، سنة ١٤١٥ھ ١٩٩٥ع

١٩۔ عبد الملک بن ہشام الحمیری(المتوفی ٢١٨) :''سیرت النبی ۖ ''

طبع مکتبة محمد علی صبیح و اولادہ میدان الازہر بمصر سنة ١٣٨٣ھ

٢٠۔ محمد یعقوب کلینی(المتوفی ٣٢٩ھ) :" اصول کافی " ناشر دارالکتب اسلامیہ تہران، طبع چہارم ،سال ١٣٦٥ھ ش

٢١۔ (یعقوبی احمد بن ابی یعقوب (متوفی٢٨٤):''تاریخ یعقوبی''،الطبع ، دار الصادر، بیروت،

 


source : http://www.shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

رسول اﷲ ۖ کی معاشی زندگی پر ایک نظر
عظمت و منزلت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ...
کیا اس کلام کی سند روایت پر مبنی کوئی ضمانت ہے جس ...
حضرات ائمه عليهم السلام
حسین(ع) سب کا
امام علی النقی علیہ السلام کی چالیس حدیثیں
فاطمہ زہرا(س) پر پڑنے والی مصیبتیں
کرامات امام جعفر صادق علیہ السلام
اہل بیت علیہم السلام کے کلمات میں امام عصر (عج) کی ...
امام زمانہ عج کلام رسول اکرم (ص)کی روشنی میں

 
user comment