اردو
Thursday 28th of November 2024
0
نفر 0

دنیائے اسلام کا ممتاز مقام

 دنیائے اسلام جس کی آبادی تقریباًڈیڑھ ارب ہے اپنی فراوان اقلیمی ،جغرافیائی ،قدرتی اور انسانی وسائل اور بے بدیل سرمایہ کے طفیل ایک متحد اور عظیم طاقت کی صورت میںابھر سکتا ہے ۔آج دو سو سالوں سے مغربی استعمار اپنی جیبیں اسی خطّے سے بھر رہا ہے ۔یہ خطّہ کسی نہ کسی صورت دنیائے استکبار کہ جس کی بھاگ ڈور امریکہ کے ہاتھوں میں ہے ،کے سیاسی مقاصد میں آلہ کار رہا ہے ،چاہے وہ استعماری دور ہو یا جدید استعماری دور یا پھر دور جدید میں ۔اگر اسلامی امت اتحاد کا دامن تھام لیتی ہے !

اگر اسلامی اقتدار حقیقی معنوں میں جلوہ گر ہو جائے !اگر ان علاقوں میں استقلال،اسلامی استقلال اور حقیقی استقلال عملی شکل میں سامنے آجائے ،دشمن کا اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی تسلّط منقطع ہو جائے گا ۔یہ لوگ اس پر رضا مند نہیں ہو سکتے اور پوری قوت کے ساتھ کوشش کر رہے ہیں کہ ایسا واقع ظہور پذیر نہ ہو ۔جو راہ حل انہوں نے ڈھونڈا ہے وہ تفرقہ ڈالنا ہے ۔میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس مسئلے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کریں۔

اسلامی امت کے دشوار مرحلے
 اسلامی امت دشوار مراحل سے گزر کر آئی ہے اور اپنی تاریخ میں بہت زیادہ نشیب و فراز دیکھے ہیں اور آج ایک تاریخی موڑ پر کھڑی ہے ۔اگر آج اسلامی امت ہمت کا مظاہرہ کرتی ہے تو ایسی راہ کا انتخاب اس کے لئے ممکن ہے کہ جہاں سے وہ دنیائے اسلام کی پسماندگیوں ،مشکلات ،سختیوں اور ذلّتوں پر خط بطلان کھینچ سکتی ہے ۔اس تحریک کے پیشوا بھی نابغہ حضرات ہیں ،چاہے وہ سیاسی نابغہ ہوں یا عملی و ثقافتی (دینی اور علمی قلمرو میں )وہ اسلامی امت کو اس راہ کی طرف رہنمائی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتے ہیں ۔
 دوسری راہ یہ ہے کہ اسلامی امت اسی غفلت میں پڑی رہے جو کہ دشمنان اسلام کی خواہش ہے ۔اسی غفلت میں گرفتار رہے اور تفرقہ بازی،تنگ نظری،خود پسندی ،دنیا پرستی اور نابغہ حضرات کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل میں مبتلا رہے ۔اگر ایسا ہوتا ہے دنیا ئے اسلام کی راہ سعادت کم از کم کئی دہائیوں تک اسلامی امت کی پہنچ سے باہر ہے۔
یہ ہمارے زمانے کی خصوصیت ہے ؛اسلامی امت کے فیصلے کا دن ہے ۔یہ بات صحیح ہے کہ ترقی اور بہتری کی راہ میں حرکت یک دفعی نہیں ہے (بلکہ آہستہ آہستہ اور طویل مدت میں ثمر آور ہے)لیکن نابغہ اور ذمہ دار حضرات کی رہبری کی جانب پیشقدمی اور عالم اسلام میں ان کے فیصلوں میں ہر دن کی تاخیر اسلامی امت کے لئے نقصان دہ ہے ۔سب کو ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔دنیائے اسلام کے اتحاد کا دن ہے ۔آپ محسوس کر سکتے ہیں کہ اسی کمزورسے اتحاد کو سبوتاژ کرنے کے لئے دشمن کس قدر سرمایہ لٹا رہا ہے۔عراق کی صورتحال کا آپ جائزہ لیں؛دوسرے اسلامی خطّوں میں بھی کم و بیش انہی سازشوں کے تانے بانے ہیں تاکہ اسلامی قبیلوں کے درمیان ،اسلامی فرقوں ،اسلامی اقوام اور اسلامی ملّتوں کے درمیان مختلف بہانوں سے تفرقہ ڈالیں ۔یہ لوگ ان کو توڑیں اور وہ ان کو توڑ دیں ،ان کے دل ان کی نفرت سے بھر جائیں اور وہ لوگ اپنے دلوں کو ان کی نفرتوں سے بھر دیں ۔نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ دنیائے اسلام کے حقیقی دشمن اور دنیا کے اس خطّے پر تسلّط اور قبضہ کے منصوبہ سازوں سے غافل رہ جائیں گے ۔اگر اسلامی دنیا متحد ہو جاتی ،تو آج فلسطین کو تنہائی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔فلسطین کی منتخب حکومت دبائو کے زیر اثر نہ ہوتی اور اپنے اصولوں سے پیچھے نہ ہٹنے کی صورت میں اسے امداد روکنے کی دھمکیاں نہیں دی جاتی۔دنیائے اسلام کے لئے ضروری ہے کہ ایک آواز بن کر اور ایک نعرے کے ساتھ فلسطین کے عوام اور ان کے رہبروں کے ساتھ اپنی حمایت کا اعلان کر دے۔اور ان کی اصول پرستی کا دفاع کرے ۔اگر ایسا ہوتا تو وہ لوگ میدان میں آکر قرض خواہوں کی طرح پیش نہیں آتے جو فلسطینی عوام اور اس ملک کی بد بختی کے ذمہ دار ہیں ۔فلسطینی عوام پر کس قدر ظلم ڈھایا جارہا ہے !یہ یورپ والے انسانی حقوق علمبردار اور انسان دوست حضرات صم بکم جیسے گونگے ہیں،اندھے ہیں اور دیکھتے نہیں ہیں ۔جس وقت فلسطینی حکومت لوگوں کی مرضی اور رائے سے منتخب ہو کر آتی ہے اس کے خلاف بولتے ہیں اور اسٹینڈ لیتے ہیں ۔یہ سب دنیائے اسلام کے اختلافات کی وجہ سے ہے اور یہ دنیائے اسلام کے نابغہ حضرات اور سیاست دانوں کے گھمنڈ کی وجہ سے ہے۔

جہان اسلام کے خاص شرائط
عزیز بہنوں اور بھائیو!آج دنیائے اسلام خصوصی شرائط کا حامل ہے ۔کہا جاسکتا ہے کہ جو فرصت اس وقت دنیائے اسلام کے ہاتھ آئی ہے صدیوں سے دنیائے اسلام اس سے محروم رہا ہے ۔آج بہت عظیم فرصت ہمارے ہاتھ آئی ہے ،اسلامی اقوام بیدار ہو چکی ہیں احیاے اسلام کی لہر دنیا اسلام کے کونے کونے تک پھیل چکی ہے ۔اسلامی اقوام اپنے حقوق سے واقف ہو چکی ہیں اور بہت سارے اسلامی رہنما وہ (اگر چہ اظہار نہ کریں) کے دل استکبار کے خلاف بغض و دشمنی سے بھرے ہوئے ہیں اور ہم اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ کئی اسلامی ممالک کے رہبر اور سیاستدان اور ذمہ دار حضرات امریکہ اور استعماری طاقتوں کی پالسیوں سے سخت ناراض اور دلگیر ہیں ۔یہ دنیائے اسلام کے لئے ایک عظیم اور سنہری موقع ہے اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھا نا چاہیے ۔ایک ذمہ داری سیاستدان حضرات کی ہے اور ایک دوسری ذمہ داری فکری و ثقافتی رہبروں کی ہے ۔دوسری ذمہ داری کی اہمیت پہلی ذمہ داری کی نسبت کم نہیں ہے ۔علمائے اسلام ،دنیائے اسلام کے روشن فکراور اساتید ،عظیم مفکر ،یہ جن کے ہاتھ میں عمومی ٹریبون ہیں اور افکار عامہ کی تعمیر کر سکتے ہیں ۔ان کی ذمہ داری بہت عظیم ہے اور ان کا وظیفہ ہے کہ دنیائے اسلام میں موجود قومی اقتدار اور عوام الناس کی توانائی سے انہیں آگاہ کریں ۔کچھ صدیوں سے (استعمار کی شکل گیری سے آج تک )استعمار کی خواہش رہی ہے کہ مسلمان اقوام کو باور کرائیں کہ تم کسی کام کے نہیں ہو۔تم ہم سے مقابلے کی سکت نہیں رکھتے ۔البتہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کافی عرصے تک استعمار کی اس تلقین پر ایمان لائے اور کچھ سیاستدانوں کی متانت بھی اس میں مدد گار ثابت ہوئی ۔اس نادرست یقین کے نتیجے میں بڑی مصیبتیں پیش آئیں جن میں بیت المقدس کا مسئلہ اور فلسطین کا مسئلہ سر فہرست ہیں۔

دنیائے اسلام علمی،اقتصادی،تبلیغاتی اور فوجی محاصرے میں
 آج دنیائے اسلام علمی، اقتصادی، اور تبلیغاتی اور اب فوجی محاصرے میں ہے ۔بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ ،عراق و افغانستان پر قبضہ کا باعث بنا ۔اور صہیونی دیو اور قابل نفرت و بے شرم استکبار امریکہ اس وقت سارے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ بلکہ سارے عالم اسلام کے لئے منصوبہ سازی اور سازشوں میں مشغول ہے ۔اور بیداری کی جس تحریک نے اسلامی امت کے پیکر میں ایک نئی روح پھونک دی ہے اسے اپنی نفرت اور انتقام کا نشانہ بنایا ہے۔
    اس وقت امریکہ اور مغربی استکبار اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دنیا پر ان کی حکمرانی کے منصوبے کے خلاف قیام اور بیداری کا مرکز مسلمان اقوام اور ممالک خاصکر مشق وسطیٰ کے علاقے ہیں ۔اگر وہ اقتصادی ،سیاسی اور تبلیغاتی ،بالاخر فوجی لائو و لشکر کے ساتھ آیندہ چند سالوں تک اسلامی بیداری کی اس تحریک کو کچلنے میں ناکام رہتے ہیں ،دنیا پر حاکمیت مطلق اور تیل و گیس کے اہم ترین ذرائع ،جوکہ ان کی صنعتی مشین کا تنہا موٹر ہے اور دنیائے بشریت پر ان کی مادی برتری کا وسیلہ ہے ،پر کنٹرول ان کے منصوبے خاک میں مل جائیں گے ۔ اس سے مغرب کے غول پیکر سرمایا دار اور صہیونیزم جو کہ جابر حکومتوں کے پس پردہ ہدایت کار ہیں،اپنی تحمیلی حاکمیت سے ہاتھ دھو بیٹھے گے۔

اسلامی امت مختلف قسم کی تہمتوں اور دھمکیوں کی زد میں
 اسلامی امت اس وقت مختلف قسم کی تہمتوں اور دھمکیوں کا سامنا کر رہی ہے ۔امریکہ کی چودھراہٹ اور صہیونی حکومت کی دلالی اور آتش افروزی کے سائے میں بے لگام استکبار اسلامی اقوام کی تقسیم اورجدائی سے بہترین صورت میں اپنا الو سیدھا کر رہی ہے ۔ فلسطین قوم کے خونین قیام اور انتفاضہ کے پر افتخار پرچم نے استکبار کے سیاسی منصوبہ سازوں کو خشم آلود اور حواس باختہ کر دیا ہے اور انہیں گستاخانہ اعمال اور نا معقول احمال قدرت کی ہوس میں مبتلا کر دیا ہے ۔نیویارک میں ستمبر کے واقعات وائٹ ہائوس کی روز افزوں غنڈہ گردی اور فلسطین میں اسرائیلی حکومت کے بے سابقہ مظالم کا بہانہ بن گئے ۔افغانستان میں امریکہ کی المناک کاروائیوں کے بعد ، ریاستہای متحدہ امریکہ کا فوجی اور وحشی چہرہ ہر گزرتے دن کے ساتھ عالمی فضا کو نا امنی ،جنگ،اور قتل و غارت گری سے د چار کر رہا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور مشرق وسطیٰ میں صلح کی (نام و نہاد) حمایت ،امریکی انتہا پسندی اور غنڈہ گردی کے لئے مرغوب بہانے بن چکے ہیں اور اس کی آ ڑ میں تسلّط خواہی اور ملتوں کے حیاتی سرمایہ اور منابع کی غارت گری میں مشغول ہے ۔

دنیائے اسلام کے لئے دو چیزوں کا ادراک ضروری ہے
 دنیائے اسلام کے لئے لازم ہے کہ دو باتوں کی طرف توجہ دیں ۔ایک:عالمی استکبار (خاصکر امریکہ) کی جانب سے بڑا خطرہجو اسلام کے وجود ،حیثیت اور اس کی حیات و استقلال کے لئے ہر زمانے سے زیادہ خطر ناک ہے ۔
ان لوگوں کی وحشی گری ،شرارت اور بے جا مداخلت پہلے سے زیادہ بڑھ چکی ہے ۔اس میں مزید اضافہ ہو گا ۔دنیائے اسلام کو اس خطرے کی جانب متوجہ ہونا پڑے گا ۔صہیونی عناصر ،وہ حکمران جن کی عنان ان کے ہاتھ میں ہے یا ان کی چھتر چھایہ میں سانس لے رہے ہیں اور اسی طرح وہ بادشاہ و سربراہان مملکت جو کہ اپنے مفادات امریکہ ،عالمی استکبار اور مغربی حاکمیت سے رابطہ میں تلاش کرتے ہیں ،یہ لوگ عالم اسلام کے موجودہ اور واضح دشمن ہیں اور مسلمان اقوام کیلئے اور یہ دنیائے اسلام کے لئے عظیم خطرہ ہیں ۔البتہ عالم اسلام جاگ چکا ہے اس خطرے کو بہت حد تک محسوس کر رہا ہے۔
 دوسری بات یہ ہے کہ اگر مسلمان چاہیں تو اس خطرے کو لگام دے سکتے ہیں اور اسے روک سکتے ہیں ۔سپر طاقتوں نے تلقین کر رکھی تھی کہ ان کے ارادے ناقابل تغیر ہیں ۔ایک بار ہمارے انقلاب میں ،ایک بار آٹھ سالہ تحمیلی جنگ میں ۔اور مختلف مسائل میں بارہا ،اسی طرح خلیج فارس میں اس دعوے کا کھو کھلا پن ثابت ہو چکا ہے ۔سپر طاقتیں اپنی زبان درازی ،خوف اور سپر طاقت کے نام کی دہشت سے اپنا الو سیدھا کر رہی ہیں وگرنہ اگر محسوس اور ملموس قدرت سے جائزہ لیں تو کوئی بھی ملت اگر ارادہ کرتی ہے انہیں شکست دے سکتی ہے۔

مسلمانوں کی پیش قدمی کا دن
آج وہ دن ہے کہ مسلمان اقوام اور حکومتیں پیش قدم ہو سکتے ہیں اور بہت عظیم حرکت کی بنیاد رکھ سکتے ہیں ۔فلسطینی مظلوم عوام کی حمایت ،بیدار عراقی قوم کی حمایت ،لبنان، شام اور خطّے کے دوسرے ممالک کی ثابت قدمی اور حاکمیت کی حفاظت ہر ایک کی ذمہ داری ہے ۔سیاسی دینی اور ثقافتی ممتازین اور قومی شخصیات ،جوانوں اور دانشگاہی حضرات کا وظیفہ دوسروں سے سنگین ہے ۔مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان وحدت ،بھائی چارہ اور قومی و گروہی اختلافات سے پر ہیز ان ممتاز حضرات کی اولین ترجیح ہونی چاہیے ۔علمی و سیاسی ۔۔ثقافتی جستجو اور ساری توانائیوں کو ان حقیقی صفوں میں متمرکز کرنا ،ان کی دعوت کا سر مشق ہونا چاہیے ۔

مسلمان اقوام کو بیدار ہونا چاہئے
 مسلمان اقوام کی بیدار ی ضروری ہے ۔دشمن ،اس کی سازشوں اور اس کی حرکات کو حقیر نہیں سمجھنا چاہئے اپنی بیداری ،آگاہی اور ہوشیاری کی حفاظت کر نی چاہیے ۔آج اسلامی اقوام اور اسلامی حکومتوں کے اتحاد اور بھائی چارے کا دن ہے ۔میں یہیں سے اپنی قوم، عراقی قوم ،پاکستانی قوم اور دوسری مسلمان اقوام کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ مذہبی منافرت اور شیعہ سنی اختلافات کو لگام دیں ۔میں آج ایسے ہاتھ دیکھ رہا ہوں جو منصوبہ بند طریقے سے بعنوان شیعہ سنی ،مسلمانوں کے درمیان جنگ چھیڑ نا چاہتے ہیں ۔
جو قتل عام ہو رہے ہیں ،مساجد ،امام بارگاہوں ،نماز جماعتوں ،اور نماز جمعہ کے اجتماعات میں جو بم دھماکے ہوتے ہیں ،کسی شک و تردید کے بغیر ان میں صہیونیزم اور استکبار کے خبیث ہاتھ ملوث ہیں ۔یہ کام مسلمانوں کا نہیں ہے ۔عراق میں، ایران میں، افغانستان میں، پاکستان میں بھی اور اسی طرح تمام اسلامی ممالک میں آج مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اتحاد و بھائی چارے کے مسئلے پر توجہ دیں ۔توحید ایک،خدا ایک، نبوت ایک،معاد ایک،قرآن ایک، اکثر اسلامی احکام ایک جیسے،سب کچھ ایک جیسا لیکن دشمن اختلافی نکات پر انگلی رکھتا ہے ۔اور دلوں کو ایک دوسرے کی نفرت سے بھر دیتا ہے اس لئے کہ وہ چاہتا ہے کہ اپنے اہداف حاصل کرے ۔ ہمارے بزرگوار امام جو وحدت مسلمین کو اتنی زیادہ اہمیت دیتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس خطرے کو دیکھ رہے تھے اور اس سے آگاہ تھے ۔ہمارے ملک اور دوسرے اسلامی ممالک میں برطانیہ والوں اور برطانوی جاسوسی ادارے نے شیعہ اور اہل سنت کے درمیان اختلافات پیدا کر دیئے ہیں ۔ان مسائل میں وہ ید طولیٰ رکھتے ہیں ۔سب کو محتاط رہنا پڑے گا ۔اس وقت صہیونی ہاتھ بھی ان مسائل میں ملوث ہیں ۔ہماری اطلاعات کے مطابق صہیونیزم کے شیطانی ہاتھ اور دشمنان اسلام کے ایجنٹ ان تمام حوادث میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ملّوث ہیں جن کا دنیا کے گوشہ و کنار میں انسان مشاہدہ کرتا ہے ۔

بیداری اور اسلامی تشخص
 دنیا کے مسلمان جاگ چکے ہیں اور اپنے اسلامی تشخص کو دوبارہ حاصل کر لیا ہے ۔وہ اپنے مسلمان ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔اسلامی مملک میں جوانوں ،دانشوروں ،روشن ضمیروں اور نابغہ حضرات کے دل اسلامی اہداف کی جانب مائل ہیں ،ان کو اہمیت دیتے ہیں اور ان کے لئے کوشش کرتے ہیں ۔دنیائے اسلام میں ملّتوں نے اس شجرئہ طیبہ کی برکت سے اپنے حقیقی تشخص ،قومی اور اسلامی تشخص کو حاصل کر لیا ہے اور اب قدرت کا احساس کرتے ہیں اگرچہ مدتوں تک سپر طاقتوں کے پنجہ قدرت میں گرفتار تھیں ۔آج فلسطین ایک مثال ہے ،عراق ایک نمونہ ہے ،شمالی افریقہ میں کئی نمونے ہیں،لبنان ایک مثال ہے ۔امید، اسلام اور استقلال ان اقوام کے درمیان موجود ہے اور وہ پر امید اور جوش و خروش سے کوشش کر رہے ہیں ۔یہ سب کچھ اسی شجرئہ طیبہ کی پیداوار ہے جسے اس عظیم شخصیت ،اس عبد صالح نے اپنے قیام اور اپنی منحصر بہ فرد خصوصیات کے طفیل بویا تھا ۔
 ہمیں بیدار ہونا چاہیے ۔ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہمارا فیصلہ دنیائے اسلام کی تاریخ کے دھارے کو مشخص کرے گی ۔البتہ یہ فیصلہ فقط ہماری شخصیت یا ہمارے آج سے مخصوص نہیں ہے۔ آج اسلامی امت کے سامنے کوئی بھی راستہ نہیں ہے مگر یہ کہ وہ اپنی طاقت پر بھروسہ کرے۔


source : http://www.theislamicworld.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مظلومیت ہی مظلومیت
اخلاق کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
افغانستان میں قرآن کریم کی بے حرمتی، مغرب میں ...
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
مسجد اقصیٰ اسرائیلی نرغے میں
سب سے پہلے اسلام
سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار

 
user comment