شيخ صدوق (رہ) کی شرفیابی
شيخ صدوق (رہ) اور حضرت امام مھدى(عليہ السلام)
وہ عظیم شخصیات اور علماء جو حضرت حجہ بن الحسن(علیہ السلام) کے دیدار اور زیارت سے شرفیاب ہوگئے ، ان میں ایک عظیم شخصیت جناب شيخ صدوق رحمہ اللہ ہیں!۔ البتہ ان کی شرفیابی، ان برکات کا باعث بنی جن سے نہ صرف خود وہ مستفید ہوتے رہے بلکہ شیعہ معاشرہ بھی ان سے بہرہ مند ہوگئے ہے!۔
اس شرفیابی کی کہانی اس شکل میں بیان کرے گے جس طرح خود وہ بیان کرتے ہیں:
حضرت على بن موسى الرضا(علیہ السلام) کی زیارت کرنے کے خاطر مشھد مقدّس شرفیاب ہوگیا تھا۔ جس وقت میری زیارت کا زمانہ ختم ہوگیا تو میں واپسی پر راستے میں نیشاپور میں چند دن ٹھرا ۔
اس شہر میں شیعہ لوگ ملاقات کے لئے میری ٹھری ہوئی جگہ پر آتے تھے۔
ان رفت و آمد کے دوران میں متوجہ ہوگیا کہ حضرت ولی عصر عجّل اللہ تعالى فرجہ کے مسئلۂ غیبت نے شیعیوں کو پریشان کردیا ہے اور انہیں شک و تردید میں مبتلا کیا ہے۔ اس طرح کہ وہ لوگ صحیح راستے سے منحرف ہوگئے ہیں اور باطل نظریات اور قیاس آرائیاں قبول کر چکے ہیں!۔
لہٰذا میں نے کوشش کی کہ انہیں حقیقی عقیدہ سکھا کر ہدایت کروں اور انہیں ان احادیث کے توسط سے جو پیغمبر اور ائمہ (علیھم السلام) سے اس بارے میں بیان ہوئے ہے، صحیح راستے کی طرف واپس پلٹاؤں!۔
یہی دن تھے کہ شھر بخارا سے ایک فاضل اور عالم آدمی جو اہل قم تھا، مجھ سے ملنے آیا ، جس سے ملنے کی آرزو بہت عرصہ سے تھی اور میں اس کے دین ، طریقہ کار اور مستحکم نظریات کا مشاہدہ کرنے کا مشتاق تھا!۔
وہ آدمی " شيخ نجم الدّين ابو سعيد محمد بن حسن بن محمد بن احمد بن على بن صلت قمى( رحمہ اللہ)" تھے ، میرے والد ان کے " مرحوم جد محمد بن احمد بن على بن صلت قمى " کے حوالے سے حدیث نقل کیا کرتے تھے اور ان کے علم، عمل، زہد، رحیم ہونے اور عبادت کی تعریف و تمجید کرتے تھے!۔
لہٰذا چونکہ خداوند تبارک و تعالی نے اس عالم کی ملاقات جو اس عظیم خاندان سے تعلق رکھتا تھا ، میرے لئے ممکن بنائی ، اس کا شکر بجا لایا!۔
ان دنوں ایک روز وہ عالم میرے لئے ہی گفتگو کررہا تھا، اس نے بتایا کہ فلسفہ اور منطق کے ایک بڑے تجربہ کار عالم نے، حضرت قائم(عليہ السلام) کے بارے میں ایک اشكال بیان کیا ، اس طرح کہ اس بڑے عالم کو ، حضرت کی غیبت طولانی ہونے اور ان کی خبریں منقطع ہوجانے کی وجہ سے، اسے شک اور ابھام میں ڈالا تھا !۔
لہٰذا میں نے امام زمان(عليہ السلام) کے وجود اور ان کی غيبت طولانى ہونے کے بارے میں حضرت پيغمبر اسلام و ائمہ(عليھم السلام) سے بعض روایات اس کے لئے بیان کی، جن سے اس کے دل میں سکون پیدا ہوگیا اور جو بھی اس کے دل میں شک و ابھام ایجاد ہوگیا تھا، برطرف ہوگیا!۔
اسی وجہ سے اس نے مجھ سے درخواست کی کہ اس بارے میں ایک کتاب لکھوں اور میں نے بھی اسے وعدہ کیا جب میں اپنے وطن یعنی ری واپس چلا جاؤں گا ، یہ کام انجام دوں گا!۔
انہی دنوں ، ایک رات، میں اپنے اہل و عیال اور بھائیوں کے بارے میں سوچ رہا تھا، اتنے میں مجھ پر نیند کا غلبہ ہوگیا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ مکہ اور مسجد الحرام میں خانۂ خدا کا طواف کررہا ہوں۔ گویا میں حجرالاسود کے کنارے ساتویں چکر(۸۱) میں ، استلام(۸۲) اور اس کا بوسہ لینے میں مشغول تھا ، اور کہہ رہا تھا: " میں نے اپنی امانت ادا کی اور اپنے عھد و پیمان کی وفا کی لہٰذا تم اس کا گواہ رہنا!" ، اسی اثناء میں اپنے مولی حضرت قائم صاحب الزمان(عليہ السلام) کو کعبہ کے دروازے کے کنارے کھڑا دیکھا ، درحالیکہ میری فکر و دل اپنے عھد و پیمان میں مشغول تھی ، ان حضرت کے قریب چلا گیا !۔
میں نے سلام عرض کی اور انہوں نے میری سلام کا جواب دیا اور فرمایا : جو بھی ارادہ ہے کیوں اس کے لئے ایک کتاب غیبت کے بارے میں نہیں لکھ رہے ہو؟!۔ (83)
میں عرض کیا: میں نے غیبت کے بارے میں چند کتابیں لکھیں ہے!۔
حضرت نے فرمایا: نہ اس شکل میں، بلکہ میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ اب ایک کتاب غیبت کے بارے میں لکھو اور اس میں وہ غیبتیں جو انبیاء کو درپیش تھیں، انہیں بیان کرو!۔
پھر حضرت اس جگہ سے گذر گئے۔ اس کے بعد میں بیدار ہوگیا اور طلوع فجر تک درگاہِ خداوند میں گریہ گذاری اور دعا کرنے میں مشغول رہا، اور جب صبح ہوگئی تو حضرت ولى اللہ الاعظم(علیہ السلام) کے امر کی اطاعت کرنے کے خاطر درحالیکہ خداوند سے مدد طلب کرتا تھا اور اس پر ہی توکل کیا تھا، اپنی خطا سے معافی طلب کی ، کتاب (کمال الدین و تمام النعمۃ) تألیف کرنے میں مشغول ہوگیا!۔(84)
یہ تھی وہ شرفیابی جو مرحوم شيخ صدوق کے لئے برکات نازل ہونے کے علاوہ اس بات کا باعث بن گئی کہ شيعہ بھی " کمال لدین " کتاب سے مستفید اور بہرہ مند ہوکر ، حضرت ولى عصر عجل اللہ تعالى فرجہ الشريف کے بنسبت اپنے عقائدمزید مستحکم اور قوی بنائے!!۔
امام زمان(عليہ السلام) سے ملاقات!!
شرفیابی کا امکان!!
حضرت حجہ بن الحسن(علیہ السلام) کی خدمت میں شرفیاب ممکن ہونے کے لئے، مختلف دلائل میں، جس دلیل پر بحث کی جاسکتی ہے وہ ایسی دعائیں ہے جو اسی کے متعلق ذکر و نقل ہوئی ہے۔ مثال کے طور دعاے عھد میں نقل ہوا ہے : "واكحل ناظرى بنظره منّى اليه، یعنی خدایا!، میری آنکھ میں ان کے دیدار سے کا سرمہ لگا دے !۔ "
نیز : "و أره سيده يا شديد القوى، يعنى اے وہ ذات جو شدید قدرت اور طاقت کا مالک ہے، اس بندے کے مولی اور سردار کو اسے دکھا دے !! "
اسی طرح وہ دعا جو حضرت کے سرداب مبارك (72)میں سلام کے بعد پڑھی جاتی ہے، اس میں اس طرح آیا ہےکہ : "و أرنا وجهه، يعنى اے خدا یا! ہمارے مولی اور سردار کا چھرہ ہمیں دکھا دے!۔ "
ان تمام ادعیہ سے اور اسی طرح کی دوسری مشابہ دعاؤں سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ اس عزیز اور عظیم ذات کی خدمت اقدس میں حاضر ہونے کی شرفیابی نہ صرف ممکن ہے بلکہ خداوند تبارک و تعالی سے اس کی درخواست و دعا کرنا بھی مستحب ہے !۔ البتہ اس کےخاطر کی جانے والی یہ دعائیں قبول نہ ہونا، شرفیابی کے ناممکن ہونے پر دلیل قرار نہیں دی جاسکتی ہے کیونکہ جب ائمہ(عليہم السلام) (جو کہ خداوند متعال کے اذن اور اسی کی طرف سے کلام کرتے ہیں!) ان دعاؤں کے پڑھنے کا حکم دیتے ہیں ، اس کے علاوہ خداوند متعال بھی قرآن کریم میں فرماتا ہے: "ادعونى استجب لكم (73) ، يعنى مجھے پکارو! تاکہ میں تمہاری آرزو پوری کروں! "، ان سب سے یہ روشن ہوجاتا ہے کہ شرفیابی کی دعا بنیادی طور پر ممکن ہے اور وہ قبول نہ ہونے کی وجہ دوسری دلائل ہے جیسے کہ دعا کرنے والے نے بعض شرائط کا خیال نہ رکھا ہو!۔
شرفیابی کے امکان پر جس دوسری دلیل کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے وہ، ان واقعات کا رونما ہونا ہے، یعنی تاریخِ غیبت کے دوران ہم ایسے افراد اور اشخاص کا سامنا کرتے ہیں جو اس عزیز اور عظیم ذات کے جمال مبارک کا دیدار اور نطارہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں!۔ سید بحرالعلوم (رہ) ، يا سيد بن طاووس (رہ) جیسے افراد اور یا انہی جیسے سینکڑوں اشخاص جو اس توفیق سے فیضیاب ہوگئے اور اس عظیم ذات کی خدمت اقدس میں حاضر ہونے کا شرف حاصل کرچکے ہیں!۔
شرفیابی اور فیضیابی کے امکان پر یہ خود بخود ایسی دلیل ہے جس میں کوئی خدشہ اور رخنہ نہیں ڈالا جاسکتا ہے کیوںکہ ان بزرگوں کے کلام کی تصدیق اور تائید سب نے کی ہیں اور ان شرفیابیوں کے آثار ان کے چہرے اور کردار میں نمایاں رہے ہیں!۔
شرفیابی کے امکان کی مثال !!
گواہ کے طور پر مرحوم علامہ حلّى رحمۃ اللہ علیہ سے نقل شدہ ایک دلچسپ داستان کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
جناب سيد محمد(رہ) ، مفاتيح الاصول و مناھل الفقہ کے مؤلف، علامہ حلّى(رہ) کی تحریر سے جو انہوں نے اپنی کتابوں کی حاشیہ میں بیان کی ہے، اس سے نقل کرتے ہیں:
شب جمعہ کی ایک رات علامہ حلی (رہ) اکیلے ہی اپنے مولی ابى عبداللہ الحسين(عليہ السلام) کی قبر مطھر کی زیارت کرنے جارہے تھے۔ وہ ایک حیوانی مرکب پر سوار تھے اور اسے دوڑانے کے لئے ایک کوڑا ہاتھ میں لیا تھا۔ اتفاق سے راستے میں عرب لباس پہنا ہوا ایک پیدل چلنے والے شخص سے ان کا سامنا ہوا اور پھر ان کے ساتھ ہمسفر بن گئے!۔
راستے میں اس عرب شخص نے ایک مسئلہ بیان کیا ۔ علامہ حلّى(قدس سرہ) سمجھ گئے یہ عرب آدمی عالم اور خبردار ہے ، بلکہ کم نظیراور بے مثال، لہٰذا اپنے بعض مشکلات کے بارے میں ان سے سؤال کئے تاکہ یہ دیکھ لے اس کے پاس ان کے لئے کیا جواب ہوگا!۔ تو انتھائی حیرت و تعجب سے یہ مشاہدہ کیا یہ شخص مشکلات، مسائل اور ابھامات حل کرنے والااور مشکل گشا ہے۔ دوبارہ علامہ نے ان مسائل کے بارے میں جن میں انہیں خود کو مشکل پیش آئی تھی، ان کے بارے میں بھی پوچھااور اس عرب آدمی سے ان کا جواب لیا۔ مختصر یہ کہ علامہ متوجہ ہوگئے کہ وہ شخص علامہ دھر ہے اس لئے اس وقت تک کوئی بھی اپنے جیسا صاحب علم و مقام نہیں دیکھا تھا نیز خود بھی ان مسائل میں حیرت اور مشکل کا سامنا کرچکے تھے جن کے بارے میں اس شخص سے پوچھا!۔ یہاں تک کہ اس سؤال و جواب گفتگو کے اثناء میں ایک ایسے مسلٔہ کا ذکر ہوا جس میں اس شخص نے علامہ حلّی کے برخلاف فتوی بیان کیا۔ علامہ نے اسے قبول نہیں کیا اور کہا: یہ فتوی قانون اور قاعدے کے برخلاف ہے، اور ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل اور روایت موجود نہیں ہے جو اس کی سند قرار دی جائے!۔
اس جناب نے فرمایا: اس حکم کی دلیل جو میں کہا، ایک حدیث ہے جو شیخ طوسی نے کتاب "تھذیب" میں ذکر کیا ہے!۔ علامہ نے کہا : اس طرح کا کوئی حدیث "تھذیب" میں موجود نہیں ہے اور میرے ذہن میں نہیں آرہا ہے کہ میں نے یہ حدیث دیکھا ہو ، شیخ طوسی یا اس کے علاوہ کسی دوسرے نے اسے نقل کیا ہو۔
اس آدمی نے کہا: کتاب"تھذیب" کا جو نسخہ تمھارے پاس ہے ، ابتداء سے اس کے اتنے صفحہ گن لو، فلان صفحہ میں فلان سطر پر یہ حدیث پالوگے!۔
علامہ نے اپنے آپ سے کہا: شاید یہ شخص جو میرے ساتھ آرہا ہے، میرے عزیز مولی حضرت بقيہ اللہ الاعظم(عليہ السلام) ہوں۔ لہٰذا اپنے خاطر یہ حقیقت روشن ہوجانے کے لئے ، اسی وقت کوڑا اس کے ہاتھ سے گر گیا ، سؤال کیا: کیا حضرت صاحب الزمان کے ساتھ ملاقات کرنا ممکن ہے؟۔ اس شخص نے جب یہ سؤال سنا، خم ہوگیا اور کوڑا اٹھا کر اپنے ہاتھ سے، خاص انداز میں علامہ کے ہاتھ میں رکھا اور جواب میں فرمایا: کس طرح سمجھا نہیں جاسکتا ہے اور جس وقت اب اس کا ہاتھ تمھارے ہاتھ میں ہو!۔
جونہی علامہ نے یہ کلام سنا ، بے اختیار ہوکر اس حیوان سے جس پر سوار ہوگیا تھا، اس مہربان امام کے پاؤں تلے گرا دیا تاکہ ان کے پائے مبارک کا بوسہ لے لے لیکن بہت ہی زیادہ محبت اور شوق کی وجہ سے بے ہوش ہوگئے!۔
جب ہوش میں آئے تو کوئی بھی نہیں دیکھا اور غمگین اور ناراض ہوگئے۔ اس کے بعد جب میں گھر چلا گیا اور اپنی کتاب "تھذیب" اٹھا کر دیکھی تو اس حدیث کو اسی جگہ جہاں پر اس عظیم شخص نے فرمایا تھا، مشاہدہ کیا۔ پھر اپنی اس کتاب کے حاشیہ میں یہ عبارت تحریر کی:
یہ وہ حدیث ہے جس کی خبر میرے مولی حضرت صاحب العصر(علیہ السلام) نے دی ہیں اور حضرت نے ان سے فرمایا : "(یہ حدیث)فلاں ورق میں، فلاں صفحہ میں اور فلاں سطر پر موجود ہے!۔"
جناب سيد محمد ،مفاتيح الاصول کے مؤلف فرماتے ہیں : میں نے وہی کتاب اٹھائی اور اس کے حاشیہ میں علامہ کے خط سے تحریر کردہ اس واقعہ کو پڑھا!۔(74)
شرفیابی اور فیضیابی کے شرائط!!
حضرت بقيہاللہ الاعظم (علیہ السلام) کی خدمت اقدس میں شرفیابی اور فیضیابی کے لئے کچھ آداب اور شرائط لازم اور ضروری ہے جو عام طور پر ان کے دیدار کے لئے پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہے!۔
نمونہ کے طور پر ان کی خدمت اقدس میں شرفیاب ہونے کے لئےایک شرط یہ بیان کی جاتی ہے : وہ" اضطرار "ہے!، یعنی ایک شخص اس طرح اپنے آپ کو مشکلات میں محسوس کرے کہ وہ سمجھ لے ، اب کوئی بھی طاقت اسے نجات نہیں دے سکتی ہے مگر یہ کہ وہ خداوند متعال کی لامحدود قدرت کا سہارا لے لے ۔ جس کا روشن جلوہ حضرت ولى عصر عجل اللہ تعالى فرجہ الشريف کی عظیم مقدس ذات ہیں!۔
جب انسان اس حالت میں پہونچ جائے کہ اب اس کی امید دوسری تمام جگہوں سے ختم اور قطع ہوجائے اور موت کاسامنا کرنے کے لئے اب صرف چند قدم دور باقی دیکھ لے، تو اس وقت یقیناً وہ اضطرار ، مصیبت اور خطرے کا احساس کرتا ہے!۔ اسی لمحہ وہ ایک ایسی قدرت کی طرف متوجہ اور متوسل ہوجاتا ہے جس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ وہ ذات یقیناً اسے بچانے اور نجات کی طاقت کا مالک ہے جو کہ وہی خداوند تبارك و تعالى کی ذات مقدس ہے!۔ وہ خداوند متعال جو زمین پر اپنے نمایندے اور خلیفہ یعنی حضرت مھدی (عليہ السلام) کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا کرشمہ دکھاتا ہے!۔
اسی وجہ سے علماء نے فرمایا ہیں : اگر کوئی شخص کسی خشک اور بغیر پانی کے صحرا میں گرفتار ہوجائے اور اپنا راستہ کھو بیٹھے، اور جتنی بھی تلاش کرتا ہو اور دور دور تک اپنی نظر دوڑاتا ہو لیکن کسی بھی آباد جگہ کی کوئی خبر معلوم نہ ہو!۔ اسی دوران اس پر پیاس اور بھوک کا غلبہ سوار ہوجائے اس طرح کہ اب وہ محسوس کرتا ہے چند لمحوں کے اندر اس کی موت یقینی آپہونچے گی!، اس وقت اس کی امید دوسری تمام جگہوں سے کٹ جاتی ہے اور صرف و صرف خداوند متعال کی مدد و نصرت کا امیدوار رہتا ہے!۔ یہی وہ لمحہ ہے جس میں وہ حقیقی اور اصلی اضطرار ، مصیبت اور پریشانی میں کھڑا ہوگیا ہے، اور اس سے نجات پانے کے لئے اپنے مولی کو پکارے اور آواز دے:
"يا اباصالح المهدى ادركنى"
بىشك وہ نجات پالے گا اور انشاء اللہ تعالی اس حضرت کے دیدار سے بھی شرفیاب اور فیضیاب ہوجائے گا!۔
نمونے کے طور پر ایک کہانی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے:
مرحوم ملاّ على رشتى کے بیان سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا ہیں : میں کربلاے معلّی سے واپس آرہا تھا، میں ایک کشتی میں سوار ہوگیا جس میں حلّہ کے بھی کچھ رہنے والے لوگ سوار ہوگئے تھے۔وہ لوگ ہنسی مذاق میں مشغول تھے ، ایک جوان کا مذاق اڑا رہے تھے اور اس کے مذہب کا بھی مسخرہ اور اس کی اہانت کررہے تھے، لیکن یہ با سکون اور باوقار جوان ، ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کررہا تھا۔ اور جو حیرت کی بات تھی وہ یہ کہ اس سب کے باوجود ، وہ کھانا کھانے کے وقت ان کے ساتھ اٹھا اور ان کے دسترخوان پر ہی کھانا کھانے بیٹھا!۔ میں اس فرصت کی تلاش میں تھا کہ اس کے بارے میں حقیقت سے آگاہ ہوجاؤں!۔
راستے میں کشتی ایسی جگہ پر پہونچ گئی جہاں نہر کا پانی کم ہوگیا تھا اور مجبوراً سب لوگ اتر گئے اور نہر کے کنارے میں آگے بڑھنے لگے۔ میں نے موقعہ غنیمت سمجھا ، خود کو اس جوان کے پاس پہونچایا اور اس کے ساتھ گفتگو شروع کی ۔ میں نے اسے ان لوگوں کے مذاق اور مسخرہ کرنے کی وجہ پوچھی ۔
اس جوان نے کہا: یہ سب لوگ میرے قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ اہل سنت ہیں، میرا باپ بھی سنی تھا لیکن میری ماں شیعہ اور خاندان عصمت(عليہم السلام) کی محبّ تھی!۔
میں خود حلّہ میں رہتا ہوں اور میرا کام کاج روغن فروشی ہے ۔ میری کہانی وہاں سے شروع ہوتی ہے جب میں نے ایک سال تیل خریدنے کی غرض سے ایک قافلہ کے ہمراہ اطرافی جگہوں کا سفر کیا ۔ کام پورا ہوجانے کے بعد واپسی پر قافلہ والوں نے آرام کرنے کے خاطر صحرا میں کچھ مدت کے لئے پڑھاؤ ڈالا تاکہ راستے کی کچھ تھکاوٹ دور ہوجائے اور پھر دوبارہ آگے سفر طے کرلیں۔ اسی دوران مجھے نیند آگئی تھی، جب میں نے آنکھ کھولی تو نہ قافلہ تھا اور نہ ہی اس کی کوئی نشانی!۔
جہاں تک میری نظر جاسکتی تھی سار ا کا سارا عالم صحرا تھا اور جلن و گرمی، نیز راستہ مجھے معلوم بھی نہیں تھا اور اس علاقہ سے میں آشنا نہیں تھا، سراپا خوف اور ڈر نے مجھے ہلا کے رکھ دیا لیکن میں نے ٹھرنے کو ہی بہتر سمجھا، رات سامنے تھی اور بھوک اور پیاس۔۔۔ !! ۔
میں نے تیل کے ڈبوں کو اٹھایا اور چلنے لگا، اکیلے اور تنہا ہی صحرا کو طے کیا لیکن گویا کہ جتنا آگے بڑھ رہا ہوں اتنا ہی دور ہوتا جارہا ہوں، اور جتنی پہل کر رہا ہوں اتنا ہی بیشتر کھوئے جا رہا ہوں، سختی اور گرمی، پیاس اور موت کا خوف مجھے چاروں طرف سے کانپ رہا تھا، مضطر اور پریشان ہوگیا ۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ اپنے دینی بزرگوں سے توسل کروں اور ان سے مدد طلب کروں، چوںکہ میں سنی تھا تو میں پہلے کو آواز دی اور التماس کیا لیکن کوئی خبر نہ آئی ، دوسرے سے متوسل ہوگیا لیکن اس کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا ، اور اسی طرح ایک ایک کر کے سب سے التماس کیا لیکن کوئی خبر نہ ملی۔۔۔ !!۔
اچانک میرے ذہن میں آگیا کہ ان قدیم دنوں میں میری ماں مجھے کہا کرتی تھی: ہمارا ایک امام ہے جو بھی اسے پکارتا ہے وہ اسے جواب دیتا ہے اور جو بھی اسے مدد چاہتا ہے وہ اس کی نصرت کرتا ہے، وہ بے پناہ والوں کی پناہ گاہ ہے، کمزوروں کا دستگیری کرنے والا، اور وہی ہے ہر راستہ کھونے والے کا راہنما اور ہادی۔۔۔ !۔
لیکن میں اسے نہیں جانتا تھا البتہ جس طرح میری ماں اس کی تعریف کرتی رہتی تھی اور اس کی محبت اور مہربان ہونے کے بارے میں بتایا کرتی تھی۔ (یہ یاد آنے سے) میرے دل میں امید کی کرن پیدا ہوگئی، میں نے اپنے پرودگار سے وعدہ کیا کہ اگر مجھے اس نے جواب دیا ، تو میں شیعہ بن جاؤں گا، اور اس کے کرامت کے قدموں تلے اپنا رخسار ڈالوں گا، اور اس کے لفط و کرم کی درگاہ پر ہمیشہ ثابت قدم رہوں گا!۔
بے خوف فریاد دی اور اس کا مقدس نام جو میں نے ماں سے سیکھا تھا اپنی زبان پے جاری کیا اور اس مردہ صحرا کو "يا اباصالح المهدى ادركنى" کی آواز سےوجد میں لایا۔ میں اس کے نام میں اتنا مشغول و مست ہوگیا کہ پیاس کی تڑپ ہی میں بھول گیا اور گرمی کی جلن بھی، اس کی یاد میں عشق و محبت اظہار کرنے میں اتنا سرگرم ہوگیا تھا کہ مجھے پتا ہی نہیں چلا وہ کس جانب سے میری طرف آگیا تاکہ میں اسے اس کے اپنے گھر کی کوئی خبر پوچھوں یا اس کے کوچہ کی کوئی نشانی مانگ لوں۔۔۔ ، اس کی محبت و لطف کی حرارت، میں روح سے محسوس کررہا تھا ، اس کا کلام، تڑپ کے قلم سے اپنے دل کے صفحہ پر تحریر کررہا تھا، اس کے چاند جیسے نورانی چھرے میں کھو گیا تھا ۔۔۔ ، ماضی کے بارے میں اس نے کچھ نہ فرمایا، لیکن میرے مستقبل کا ایک ایسا دروازہ کھول دیا کہ جس میں، میں نے سعادت و بشارت پائی!۔
اس نے فرمایا: شیعہ بن جاؤ!،۔۔۔ ۔ اور میں نے اس کی چہرے پر سینکڑوں باتیں پڑھی اور بہت سار ے مطلب اس کے کلام سے سیکھ لئے۔۔۔ !۔
جب جدائی کا لمحہ آپہنچا تو دیکھا فراق کی آگ نے میرے دامن میں پیاس کا شعلہ بڑھکایا ہے اور جدائی کو اس طرح پایا کہ وہ ہوا میں موت کا صور پھونک رہی ہے، میں نے اس سے کہا پیاس کی تڑپ بجھانے کے لئے تمھارا رخ کیا اور موت کے ڈر سے تیری پناہ میں آگیا ، اب تو تم جا رہے ہو تو میں کس کا دامن تھا م لوں اور جدائی کا شکوہ کس سے کروں؟، کتنا حسین آنا تھا اور کتنا دل خراش جانا ہے!!۔
فرمایا: اس وقت دنیا کے اطراف میں ہزاروں ایسے دردمند اور بیچارے لوگ ہیں جو مجھے پکارہے ہیں اور میں بھی ان کے پاس ہی جارہاں ہو!!۔
یہ کلام میں نے سنا اور اس کے بعد کسی کو بھی نہیں دیکا سواے صحرا اور راستے کی گرمی اور جلن ۔۔۔ ،نیز دوری پر ایسے درخت تھے جو پانی اور آبادی کی خبر دیتے تھے(اس طرح میں اپنا راستہ پیدا کر سکا) !!۔ (75)
یہ بات قابل توجہ ہے کہ یہ اضطرار ، مصیبت اور مشکلات میں گرفتار ہونے کا مسئلہ بنیادی طور پر پر مرکزی اہمیت کا حامل نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے یہ قابل بیان اور توجہ ہے کہ یہ انسان کی بیہودہ اور بے بنیاد امیدیں اور وابستگیاں، ختم اور جدا ہونے کا سبب ہے ، اور انسان کو فقط خداوند متعال کی لامحدود اور لازوال قدرت کی طرف راغب اور متوجہ ہونے کا باعث بنتا ہے!۔
نیز یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اس میں کوئی تضاد ، اشکال اور اختلاف نہیں ہے کہ خداوند متعال کی قدرت موجود ہونے کے باوجود ، پیغمبراکرم اور معصومین(علیھم السلام) سے توسل اور طلب نصرت طلب کی جائے!۔ اس لئے کہ وہ سب زمین پر خداوند متعال کے جانشین اور نمایندے ہیں اور ان کی طاقت کا سرچشمہ اور مرکز بھی خداوند تبارک و تعالی کی قدرت ہی ہے جبکہ ان پر نیک اعمال اور عظیم صفات کی وجہ سے، خداوند کریم کی خاص عنایت اور کرم سایہ افکن ہوتا ہے!!۔
اسی وجہ سے ہے بعض افراد بغیر اس کے کہ وہ دنیوی مشکلات میں گرفتار ہوجائیں اور مضطر بن جائیں ، وہ خداوند متعال کے مورد قبول اور پسندیدہ اعمال انجام دیکر اور اسے ناراض و ناخوش کرنے والے اعمال سے دوری اختیار کر کے، یقین اور ایمان کے اس مرحلے میں قدم رکھتے ہیں ، جہاں وہ صرف اور صرف حضرت حق (ذات خداوند تعالی) اور معصومین کرام کے شیدائی بن جاتے ہیں اور کسی بھی دوسرے وسیلہ اور قدرت کی طرف توجہ اور اعتماد نہیں کرتے ہیں!۔ یہ صورتحال خود بخود حضرت ولى عصر(عليہ السلام) کے ساتھ ایک طرح کا تناسب اور ہماہنگی ایجاد ہونے کا باعث بن جاتی ہےاور ان کے لئے حضرت کی خدمت اقدس میں ملاقات کی شرفیابی اور فیضیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوجاتی ہے!!۔
وجود مبارك حضرت ولى عصر عجل اللہ تعالى فرجہ الشریف ایک خط میں جو شيخ مفيد رحمہ اللہ کے نام تحریر اور ارسال کیا تھا، اس میں یوں فرماتے ہیں:
" و لو انّ اشياعنا وفّقهم الله بطاعته على اجتماع من القلوب فى الوفاء بالعهد عليهم لما تأخر عنهم اليمن بلقائنا و لتعجّلت لهم السّعاده بمشادتنا على حق المعرفه و صدقها منهم بنا فما يحبسنا عنهم الاّ ما يتّصل بنا ممّا نكرهه و لا نؤثره منهم "(76).
يعنى اگر ہمارے تمام شیعیوں اور پیروکاروں (خداوند انہیں اپنی اطاعت سے کامیاب کرے!)، کے دل اور قلوب اس عہد و پیمان کی وفاداری پر جو ان کے ساتھ باندھا گیا تھا، متحد ہوجاتے ، تو ان کے لئے ہمارےدیدار کی برکت میں کوئی دیر نہیں ہوجاتی اور جلدی ہی ہماری ملاقات کی سعادت بہتر معرفت کے ہمراہ، ان کے لئے فراہم ہوجاتی!۔ لہٰذا ہم سے (کوئی بھی مسٔلہ) پوشیدہ اور مخفی نہیں رہتا (البتہ) صرف جو بھی ان کے (برے ) اعمال (کی وجہ سے ہماری ملاقات میسر نہیں ہوپاتی ہے اور جو بھی ان کے اعمال)سے ہم تک پہونچتا ہے ، ہم ان امور سے دوری کرتے ہیں اور پسند نہیں کرتے ہیں!۔
البتہ یہ بات ذھن میں رہے کہ ان کی خدمت اقدس میں شرفیاب ہونے کے لئے بعض ایسے دعائیں اور اذکار نقل ہوئی ہے جو سارے انسان کے کردار اور سلوک میں حضرت ولى عصر(عليہ السلام) کے ساتھ تناسب اور ہماہنگی ایجاد ہونے کا زمینہ فراہم کرتی ہے اور ان کی محبت اور دوستی دل میں زیادہ کرتی ہے!۔ نیز یہ بھی پوری طرح واضح و روشن ہے کہ حقیقی محبت اس بات کا سبب بن جاتی ہے کہ وہ سارے پردے اور موانع جو محبوب و معشوق سے ملنے اور وصال میں حائل ہوں، برطرف ہوجاتے ہے اور محب و عاشق خود کو اپنے محبوب کے دیدار کے لئے تیار کرتا ہے!!۔
جناب سيد بحر العلوم(ره) کی شرفیابی
نمونے کے طور پر کہہ سکتے ہیں، جناب سيد بحر العلوم(ره) جیسا شخص معنوی مقامات کے اس درجہ پر فائز ہو ا تھا جو بہت مرتبہ اس مہربان امام کا دیدار کرنے میں کامیاب ہوگیا!۔ چنانچہ عالم ربانى ملا زين العابدين سلماسى رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں کہ ایک دن جناب سيد بحر العلوم ، حرم اميرالمؤمنين(عليہ السلام) میں داخل ہوگئے ۔ وہاں پر اپنے ساتھ یہ بیت گھنگنا رہے تھے: " کتنا حسین ہے قرآن کی آواز تم دلربا سے سننا!"۔
میں نے سید سے پوچھا: یہ بیت پڑھنے کی وجہ کیا ہے؟۔ انہوں نے فرمایا: جونہی میں حرم اميرالمؤمنين(عليہ السلام) میں داخل ہوگیا، میں نے اپنے مولی حضرت ولى عصر(علیہ السلام) کو دیکھا جو روضہ کے سر مطھر پر بلند آواز سے قرآن کریم کی تلاوت فرما رہے تھے۔ جب میں نے ان حضرت کی آواز سنی تو یہ بیت پڑھا اور جونہی میں حرم میں داخل ہوگیا حضرت نے قرآن کریم کی قرائت وہی کامل کی اور حرم سے تشریف لے گئے!۔ (77)
شھيد ثانى (رہ) کی شرفیابی
مرحوم شھيدثانى فرماتے ہیں: رملہ(ایک جگہ) کے مقام پر، وہاں کی مسجد میں جو "جامع ابیض" کے نام سے معروف ہے، ان پیغمبروں کی زیارت کے لئے جو واہاں مدفون ہیں، چلا گیا۔
جب وہاں پہونچا تو دیکھا مسجد میں تالا لگا ہے اور کوئی بھی وہاں پر نہیں ہے۔ میں نے اپنا ہاتھ تالے پر رکھا اور اسے کھینچا۔ دروازہ کھل گیا اور میں غار میں داخل ہوگیا۔
وہاں میں نماز اور دعا میں مشغول ہوگیا اور خداوند متعال کے ساتھ میری قلبی توجہ اتنی زیادہ مشغول ہوگئی ، کہ میں اپنے ہمراہ آئے ہوئے کاروان کی روانگی بھول گیا!۔ کچھ مدت میں وہاں بیٹھے رہا۔ اس کے بعد شھر میں داخل ہوگیا اور قافلہ والوں کی جگہ پر چلا گیا ، لیکن دیکھا کہ وہ چلے گئے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی وہاں نہیں رکا ہے !۔
میں نے اپنے آپ پر تعجب کیا اور فکر کرنے لگا ، چونکہ میں پیدل چل کر کاوان سے ملحق نہیں ہوسکتا تھا ، اور دوسری طرف سے میرے وسائل اور حیوان (مرکب) وہ اپنے ساتھ لے گئے تھے !۔
تو مجبور ہو کر اکیلے اور پیدل ان کے پیچھے نکل پڑا یہاں تک کہ پیدل چلنے سے تھک گیا اور قافلہ تک بھی نہیں پہونچ سکا۔ حتی دور سے بھی کاروان کی کوئی خبر نہیں تھی!۔
اسی دوران جب میں سختی اور مشقت میں گرفتار ہوا تھا، ایک آدمی کو دیکھا جو میری طرف آیا ۔ وہ ایک خچر پر سوار تھا اور جب میرے پاس پہونچ گیا، تو فرمایا:میرے پیچھے استر پر سوار ہوجاؤ!۔
میں سوار ہوگیا۔
اس نے بجلی کی طرح راستہ طے کیا اور جلدی ہی قافلہ تک پہونچ گئے۔
اس شخص نے مجھے استر سے اتارا اور فرمایا: اپنے دوستوں کے پاس چلے جاؤ!۔
میں بھی کاروان میں داخل ہوگیا۔
شھید ثانی (ره) فرماتے ہیں: راستے میں اس کی تلاش میں تھا تا کہ اسے دیکھ لوں، لیکن ہزگز اسے نہیں دیکھا اور اس سے پہلے بھی کھبی اسے نہیں دیکھا تھا!۔
مأخذ:
كتاب العبقری الحسان، جو پانچ فصول پر مشتمل ہے ، جلد اول میں تین فصلیں اور جلد دوم دو فصلیں موجود ہے ۔
مذکورہ پیش کردہ بیانات ، جلد اول، فصل دوم(المسك الاذفر) و جلد دوم، فصل اول (الياقوت الاحمر) سے ماخوذ ہے !!۔
source : http://www.theislamicworld.net