محمد بن عبدالوھاب اپنی کتاب ”الرّد علی الرّافضة“ میں جو آئین تشیع کی رد میں لکھی گئی ھے، کچھ مطالب شیعوں کے عقائد کے بارے میں لکھتا ھے جو درحقیقت قابل تنقید تحقیق یا جواب نھیں ھیں بلکہ خود مصنف کے ظرفِ کاھلی اور بے دینی پر دلالت کرتا ھے ۔
وہ کتاب کے آغاز میں حضرت علی علیہ السلام کی خلافت و وصایت کے بارے میں بحث کرتے ھوئے کہتا ھے کہ جو شخص بھی آیہٴ بلّغ اور حدیث غدیر کا معتقد ھو اور خلافت علی علیہ السلام کو ”منصوص من اللّٰہ والرسول“ جانتا ھو، کافر ھے .وہ اسی کتاب میں کہتا ھے:
”شیعہ تحریف قرآن کے قائل ھیں اور قرآن کو ناقص جانتے ھیں اور جو لوگ نقص و تحریف کے قائل ھیں وہ کافر ھیں“
موٴسسِ وھابیت اسی مذکورہ کتاب میں اختصار کے ساتھ ایک بحث تقیہ کے بارے میں بھی کرتا ھے اور جوکچھ ناسزا، تھمت اورگالیاں اپنے پاس رکھتا تھا وہ سب اس نے شیعوں کی جان پر نثار کردیتا ھے اور تقیّہ کے مسئلہ پر اعتقاد رکھنے کی وجہ سے وہ شیعوں کو کافر کہتا ھے۔
اور شیعوں کو اس عقیدہ کی وجہ سے کہ وہ حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کرنے والے شخص اور ان کے دشمن کو کافر جانتے ھیں، فاسق و کافرکہتا ھے]
ائمہ طاھرین (ع) کی عصمت سے متعلق شیعوں کے عقیدہ کے بارے میں کہتا ھے کہ:
”اماموں کے بارے میں عصمت کا دعویٰ اور اثبات کرنا، شیعوں کے جھوٹ اور افترء ات میں سے ھے جبکہ کتاب، سنت، اجماع، صحیح قیاس اور عقل سلیم میں سے کوئی بھی دلیل اس پر دلالت نھیں کرتی ھے اور خدا مار ڈالے ان کو کہ ایسا عقیدہ رکھتے ھیں“
اسی کتاب ”الرّد علی الرافضة“ میں افضلیت علی (ع) کے بارے میں شیعوں کے عقیدہ کو مورد نشانہ بناتے ھوئے اپنے ھمعصر اور ھم روزگار کے ساتھ ملکر کہتا ھے:
”علی علیہ السلام کی افضلیت کا اعتقاد رکھنا کفر ھے“
مسئلہ ”رجعت“ سے متعلق شیعوں کے عقیدہ کے بارے میں جو کچھ گالیاں اور نازیبا الفاظ جانتا تھا، سب شیعوں کو ھدیہ کرتا ھے،آپ حضرات! ادب و تربیت کو ملاحظہ کریں کہ اس نے شیعوں کو نافھم گدھوں کے لقب سے یاد کیاھے،اور ایسی باتوں کے ذریعہ جن میں عفت قلم، ادب کلام، اسلامی تربیت اور رسول گرامی اسلام(ص) کی سنّت کی پیروی موجزن ھے!! شیعوں کو مخاطب قرار دے کر کہتا ھے:
”خداوند عالم نے تم جیسے شقی لوگوں کی عقل کو سلب کرلیا ھے اور تم کو ذلیل و خوار کیا ھے“
ایک دوسری جگہ اس طرح کہتا ھے: ”شیعوں نے اذان کے فقروں میں اضافہ کیا ھے، جو بدعت ھے اور خلاف دین و سنّت ھے نہ اس پر اجماع کی کوئی دلیل ھے اور نہ ھی صحیح قیاس کی دلیل ھے اور نہ ھی کتاب و سنّت کی کوئی دلیل اس پر دلالت کرتی ھے۔“
اسی کتاب میں متعہ کے متعلق بھی اشارہ کرتا ھے اور اس کو شیعوں کی طرف سے ”زنا“ جائز ھونے کے معنی میں خیال کرتا ھے اور اس کو ایک منسوخ حکم اور حرام عمل کی حیثیت سے معرفی کرتا ھے“۔
کتاب کے آخر میں شیعوں کو یھودیوں سے مشابہ قرار دیتا ھے اور کھنا چاہتا ھے کہ آئین تشیّع یھودیوں کے ھاتھوں بنایا گیا ایک دین ھے“۔
قابل ذکر ھے کہ یہ ایک ایسا مطلب ھے جسے وھابی مصنّفین اپنی کتابوں اور فحش ناموں میں تشیع کے خلاف ایک حربہ کے بطور استعمال کرتے ھیں،ایک دوسرا اعتراض جسے یہ جناب شیخ الاسلام، شیعوں پر تھوپتے ھیں وہ جمعہ اور جماعت کا ترک کرنا ھے۔
اس کے بعد، اسی کتاب میں عیسائیوں سے شیعوں کی مشابہت نیز مجوسیوں سے شیعوں کی شباہت کے بارے میں بحث کرتا ھے اور کہتا ھے کہ شیعہ بھی مجوسیوں اور زردشتیوں کے مانند خدا کو خیر کا خالق اور شیطان (اھرمن) کو شر کا خالق جانتے ھیں۔
آخر میں حضرت سید الشھداء امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے مسئلہ کو اس طرح بیان کرتے ھوئے کہتا ھے:
”امام حسین علیہ السلام کے لئے عزاداری منانا دین سے خارج ھونے کے برابرھے، امام حسین (ع) کی عزاداری بدعت ھے اور اسے روکنا چاہئےے اور اس سلسلہ میں اپنے معلم فکری ”ابن تیمیہ“ کے نظریہ سے استناد کرتا ھے اور سیدالشھداء کے لئے عزاداری کو منکرات، قبیح افعال، خلاف شرع اور بدعتوں میں شمار کرتا ھے“۔
بس اس مقدار میں آئین تشیّع سے موٴسسِ وھابیت کی آشنائی ھے اور نیز ناسزا کھنے اور تکفیر و تفسیق کرنے میں اس کی مھارت، تربیت و ادب کی مقدار بھی یھیں تک محدود ھے۔
محمد بن عبدالوھاب کی یھی تمام باتیں ھیں جنھیں منجمد افکار اور بے شعور لوگوں نے جیسے شریعت سنگلجی نے اپنی کتاب ”توحید عبادت“ اور احمد کسروی اور دوسرے افراد نے اپنی اپنی کتابوں میں”طابق النعل بالنعل(ھو بھو) “ نقل کیا ھے اور دینی اصلاح اور احیاء دین کے نام پر ایک بے خبر اور نامتمیّز افراد کے لئے بیان کیا ھے۔
جی ھاں یہ عقل و دین کے دشمن افراد نے اپنی تعصّب آلود اور عامیانہ عقل کے ذریعہ تھمت اور جسارت کرنے میں کسی طرح کی کوئی شرم و حیاء نھیں کی ھے، ان عالم نما جاھل عوام کا مبلغ علم،
مقدار شعور اور ان کی نھایت درجہ علمی صلاحیت فقط چند حدیثوں کو نقل اور حفظ کرنا ھے اور وہ بھی ان میں نہفتہ عمیق معانی و معارف پر غور و فکر کئے بغیر ھے خرافات اور بدعتوں سے مبارزہ، شرک و بت پرستی، سنّت صحیح اور صالحین سلف کے مذھب کی پیروی کے دعوئے کے نام پر ھر طرح کی تھمت اور نازیبا الفاظ سے غیر وھابی مسلمانوں خصوصاً شیعوں کو نوازتے ھیں اور اپنے اس عمل کے ذریعہ اعلان کرتے ھیں کہ ھم کس حد تک حضرت سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنّت کے پیروکار ھیں۔
وھابی ایسے عام لوگ ھیں جنھوں نے علماء کا لباس پھن لیا اور تناقض گوئی، ان کی دیرینہ میراثِ تعصّب، جمود اور ان کے درمیان رائج روشوں میں سے ایک ھے، خود دوسروں سے زیادہ خرافات اور وھم پرستی میں مبتلا ھیں، لیکن شرک و خرافات کو ختم کرنے کا دعویٰ کرتے ھیں، جن لوگوں کی فکری پرواز، تجسّم خدا (خدا کو جسم والا ماننا) تشبیہ حق اور جبر پر اعتقاد ھو کیا وہ احیاء دین کرسکتے ھیں؟! حقیقت تو یہ ھے کہ دین ان کے ھاتھوں میں اسیر ھے جیسا کہ خانہ کعبہ ان کے ھاتھوں میں اسیر ھے؟
یہ ھوس باز اور شھوت پرست مکار لوگ جو خود کو ”خادم الحرمین“ اور شیخ الاسلام، عالم اسلام، امام مسلمین اور اتقیاء میں سے اپنے آپ کو پہچنواتے ھیں، بدعت گذار، مشرک، جلاد اور آدم کش ھیں۔
جو ھمیشہ مسلمانوں کے اتحادپرکاری ضرب لگاتے آئے ھیں اور اسلام کو محو اور نابود کرتے رہتے ھیں ، اُجرت خوار اور مزدور مصنفین شب وروز مسلمانوں کے خلاف ردّ اور فحش نامے لکھ رھے ھیں اور پھر اُس وقت محمد بن عبدالوھاب اپنی کتابوں میں مسلمانوں میں تفرقہ، دشمنی اور اختلاف سے پرھیز کا دم بھرتا ھے۔
source : http://www.tebyan.net