اردو
Wednesday 25th of December 2024
0
نفر 0

الغدیر اور اسلامی اتحاد

اسلامی اتحاد سے كیا مراد ہے؟ كیا یہ مراد ہے كہ اسلامی مذاھب میں ایك كا انتخاب كیا جاۓ اور دیگر مذاھب كو كنارےلگادیا جاۓ، یا یہ مراد ہے كہ تمام مذاھب كے اشتراكات كو لیكر مفترقات كو مسترد كردیا جاے اورایك نیا مذھب بنایا جاے كہ اس طرح سارے مذاھب كالعدم ہوجائيں ؟یا اتحاد اسلامی سے مراد مذاھب كا اتحاد نہیں بلكہ مسلمانوں كا اتحاد ہے ؟وہ اس طرح سے كہ اسلامی مذاھب كے پیرو اپنے اختلافات كو ہاتھ لگاے بغیر مشتركہ دشمن كے مقابل متحد ہوجائيں۔

اسلامی اتحاد كے مخالف اتحاد كو غیر منطقی اور غلط معنی میں پیش كركے كہتے ہیں كہ اتحاد سے مراد مذاھب كا اتحاد ہے تاكہ پہلے ہی مرحلے میں وہ شكست سے دوچار ہوجاے۔

صاف روشن ہے كہ علماء اور روشن فكراسلامی دانشوروں كے نزدیك اتحاد یہ نہیں ہے كہ تمام مذاھب كو ملاكر ایك كردیا جاے یاتمام مذاھب كے مشتركات كو لےلیا جاے یا ان كے مفترقات كو ترك كردیا جاے كیونكہ یہ نہ معقول ہے نہ منطقی بلكہ ان لوگوں كے كہنے كا یہ مقصد ہے كہ مسلمانوں كو مشتركہ دشمنوں كا مقابلہ كرنے كے لۓ متحد اور ایك ہوجانا چاہیے ۔

مسلمان علماء اور دنشوروں كا كہنا ہےكہ مسلمانوں كے پاس اتحاد كے بہت سے اسباب ہیں جو مسلمانوں كے اتحاد كا باعث بن سكتے ہیں سارے مسلمانان ایك خدا، ایك رسول پر ایمان ركھتے ہیں سارے مسلمانوں كی ایك كتاب ہے یعنی قرآن كریم، اور سب كا قبلہ بھی ایك ہی ہے سارے مسلمان ایك ساتھ ایك دن اور ایك ہی جگہ پر حج بجالاتے ہیں ان كی عبادات و معاملات كے احكام ایك جیسے ہیں كچھ جزئي امور میں اختلاف كے علاوہ ان كے مابین اختلاف نہیں ہے مسلمان ایك ہی نظریہ كائینات ركھتے ہیں ان كی ایك ہی تہذیب و تمدن ہے اور سب اس عظیم تہذیب و تمدن میں برابر كے شریك ہیں ۔

ان تمام امور میں اتحاد مسلمانوں كو امت واحدہ میں تبدیل كرسكتاہے اوروہ ایسی عظیم طاقت بن كر ابھر سكتے ہیں جس كے سامنے دنیا كی تمام طاقتیں جھكنے كو مجبور ہوجائيں گي ۔

قرآن كریم نے اتحاد پر بے حد زور دیا ہے قرآن كے صریحی حكم كے مطابق مسلمان بھائي بھائي ہیں اور ان كے حقوق اور ذمہ داریاں انہیں ایك دوسرے سے جوڑے ركھتی ہیں تاہم مسلمان ہرطرح كے وسائل وذرایع كے مالك ہونے كے باوجود ان سے استفادہ كیوں نہیں كرتے؟

علماء كی نظر میں اس بات كی كوئي ضرورت نہیں ہے كہ مسلمان اتحاد كے لۓ اپنے مذھب كے اصول و فروع پر كسی طرح كا سمجھوتہ كریں اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں ہےكہ اپنے اصولی اور فروعی اختلافات كے سلسلے میں بحث واستدلال اور تحقیقات نہ كریں بلكہ اتحاد كے لۓ جس چیزكی ضرورت ہے وہ یہ ہےكہ مسلمان یہ كوشش كریں كہ ایك دوسرے كے جذبات مجروح نہ ہوں، ایك دوسرے كو برابھلا نہ كہیں، ایك دوسرے پر تہمت وبہتان نہ لگائيں اور كم ازكم ان اصولوں كی پابندی كریں جو اسلام نے غیر مسلمانوں كو اسلام كی دعوت دینے كی غرض سے وضع كۓ تھے ۔اتحاد كے بارے میں بعض لوگ یہ منفی سوچ ركھتے ہیں كہ جو مذاھب صرف فروع میں اختلاف ركھتے ہیں جیسے شافعی اور حنفی وہ آپس میں ایك ہوسكتے ہیں لیكن جو مذاھب اصول میں ایك دوسرے سے اختلاف ركھتے ہیں ان كے مابین اتحاد ممكن نہیں ہے، اس فكر كے حامل لوگوں كا كہنا ہےكہ اصول مذھب بہم پیوستہ تعلیمات كا ایسا مجموعہ ہے جس میں ایك اصل پرلچك دكھانے سے گویا سارے اصول ناكارہ ہوجاتے ہیں ۔علماء و دانشور ان لوگوں كویہ جواب دیتے ہیں كہ ضروری نہیں ہےكہ ہم اصول دین كو بہم پیوستہ اصولوں كا مجموعہ سمجھیں اور "یا سب یا كچھ بھی نہیں" كے اصول كی پیروی كریں بلكہ یہاں پر یہ قاعدہ لاگوكیا جاے گا كہ المیسور لایسقط بالمعسور، ومالایدرك كلہ لایترك كلہ یعنی ناممكن امر كی بناپر ممكن امر كو ترك نہیں كیا جاسكتاہے اور جس چیزكو مكمل طرح سے درك (حاصل) نہیں كیاجاسكتا اسے مكمل طرح سے چھوڑابھی نہیں جاسكتا ۔

اس سلسلے میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام كی شخصیت ہمارے لۓ بہترین نمونہ عمل ہے آپ نے مسلمانوں كو تفرقہ و تشتت سے بچانے كے لۓ ایسا بے مثال منطقی اور معقول موقف اپنایا تھا جو آپ كی عظیم شخصیت كے شایان شان تھا، آپ نے اپنے حق كی بازیابی كے لۓ اپنی طاقت بھر كوشش كی امامت كے احیاء كے لۓ كوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں كیا لیكن كبھی بھی "یا سب یا كچھ نہیں "كے اصول پر عمل نہیں كیا بلكہ برعكس مالایدرك كلہ لایترك كلہ كے اصول كو اپنی روش كی بنیاد قراردیا۔

امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اپنے حق كے غاصبوں كے خلاف قیام نہیں كیا اور آپ كا قیام نہ كرنا مجبوری كی وجہ سے نہیں تھا بلكہ آپنے سوچ سمجھ كر یہ موقف اختیار كیا تھا، آپ موت سے نہیں ڈرتے تھے بلكہ شہادت آپ كی دیرینہ آرزو تھی اور آپ نے فرمایا ہے كہ آپ موت سے اس طرح مانوس تھے جس طرح بچہ اپنی ماں كے دودھ سے مانوس ہوتاہے، حضرت علی علیہ السلام نے اپنے زمانے میں اس نتیجہ پر پہنچے تھے كہ ان حالات میں ترك قیام بلكہ تعاون ضروری ہے آپ نے متعدد مرتبہ اس امر كی طرف اشارہ فرمایا ہے، مالك اشتر كے نام ایك خط میں تحریر فرماتے ہیں كہ:

"فامسكت یدی حتی رایت راجعۃ الناس قد رجعت عن الاسلام و اھلہ یدعون الی محق دین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ فخشیت ان لم انصر الاسلام و اھلہ اری فیہ ثلما او ھدما تكون المصیبۃ بہ علی اعظم من فوت ولایتكم التی انما ھی متاع ایام قلائل" ان حالات میں میں نے اپنا ہاتھ روكے ركھایہانتك كہ میں نے دیكھا كہ مرتد ہونے والے اسلام سے مرتد ہوكر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے دین كو مٹاڈالنے كی دعوت دے رہے ہیں اب میں ڈرا كہ اگر كوئي رخنہ یا خرابی دیكھتے ہوۓ میں اسلام ومسلمین كی مدد نہ كرونگا تو یہ میرے لۓ تمہاری خلافت كے ہاتھ سے چلے جانے سے بڑی مصیبت ہوگي جوكہ چند دنوں كا اثاثہ ہے"۔

چھ افراد پر مشتمل شوری میں عثمان كے خلیفہ چنے جانے كے بعد آپ نے شوری كو مخاطب كركے كہا كہ لقد علمتم انی احق الناس بھامن غیری واللہ لاسلمن ماسلمت امور المسلمین ولم یكن فیھا جور الاعلی خاصۃ (خطبۃ 72 ) "تم جانتے ہوكہ مجھے اوروں سے زیادہ خلافت كا حق پہنچتاہے خدا كی قسم جب تك مسلمانوں كے اموركا نظم ونسق برقراررہے گا اور صرف میری ہی ذات ظلم وجور كا نشانہ بنتی رہے گي میں خاموشی اختیار كرتارہونگا تاكہ (اس صبرپر) اللہ سے اجر و ثواب طلب كروں اور اس زیب وزینت و آرائيش كو ٹھكرادوں جس پر تم مرمٹے ہو"۔

ان امور سے پتہ چلتا ہے كہ حضرت علی علیہ السلام نے كبھی بھی یا سب كچھ یا كچھ نہیں كے اصول پر عمل نہیں كیا بلكہ اس طرزفكر كو مسترد كیا یہاں اس مختصر مقالے میں اتحاد قائم ركھنے كے سلسلے میں حضرت علی علیہ السلام كےاقدامات كااحصاء نہیں كیاجاسكتا آپ كی سیرت پر لكھی گئي كتابوں میں ان امور كا تفصیل سے مطالعہ كیا جاسكتا ہے ۔

علامہ امینی

آئيے اب دیكھتے ہیں كہ علامہ امینی كتاب الغدیر كے مولف كی سوچ كیا ہے اور كیا وہ صرف تشیع میں اتحاد كو منحصر سمجھتے ہیں یا یہ نظریہ ركھتے ہیں كہ اسلامی اتحاد كا دائرہ وسیع تر ہے اور كلمہ شہادتین كی ادائيگي كے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے مسلمانوں كے ایك دوسرے پر حقوق بن جاتے ہیں اور قرآن كے مطابق ان كے درمیان اخوت كا رشتہ قائم ہوجاتاہے۔

علامہ امینی نے اتحاد كے بارے میں اپنے نظریات متعدد مرتبہ بیان كۓ ہیں اور یہ بھی واضح الفاظ میں بیان كردیا ہےكہ الغدیر جیسی كتاب اتحاد بین المسلمین میں مثبت كردار كی حامل ہے ۔

علامہ امینی نے دشمنوں كی صف یا خود اپنے حلقے میں موجود اعتراض كرنے والوں كا جواب دیتے ہوے عالم اسلام میں كتاب الغدیر كی افادیت اور مثبت كردار كی طرف اشارہ كرتے ہوۓ كہا ہے كہ ہمارا یہ كام خدمت دین اعلاے كلمہ حق اور امت اسلامی كو زندہ كرنے كے لۓ ہے علامہ امینی الغدیركی تیسری جلد میں نقدواصلاح كے زیر عنوان ابن تیمیہ، آلوسی، اور قصیمی كی یہ افتراپردازی كہ شیعہ اھل بیت كے بعض افراد جیسے زید بن علی كو دوست نہیں ركھتے كہتے ہیں كہ "اس طرح كے جھوٹے الزامات اور تہمتیں فساد كاباعث ہوتی ہیں اور امت اسلامی میں دشمنی پھیلاتی ہیں اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالتی ہیں امت كو متشتت كردیتی ہیں اور مسلمانوں كے مفادات كے منافی ہیں"

علامہ امینی الغدیر كی تیسری جلد میں سید رشید رضا كے ان الزامات كا جواب دیتے ہیں كہ شیعہ مسلمانوں كی ہرشكست سے خوش ہوتے ہیں یہانتك كہ ایران میں روس كےہاتھوں مسلمانوں كی شكست كا بھی جشن منایا گیاتھا علامہ امینی ان الزامات كا جواب دیتے ہوۓ لكھتے ہیں كہ یہ جھوٹے الزامات خود سید رشید رضا كی ذھنی اپچ ہیں وہ لكھتے ہیں كہ اس طرح كے الزامات عراق و ایران كے شیعہ مسلمانوں پر لگاے جاتے ہیں لیكن ان دونوں ملكوں كا سفر كرنے والے سیاحوں مستشرقین اور اسلامی ممالك كےنمائندوں كو ایسی كوئي چیزنہیں دكھائي دی، شیعہ بلااستثناء تمام مسلمانوں كے جان و مال و آبرو كو محترم سمجھتاہے اور جب بھی عالم اسلام میں كسی بھی علاقے اور كسی بھی فرقے پر براوقت پڑا ہے اھل تشیع نے ان كے ساتھ غم بانٹا ہے شیعہ نے كبھی بھی اسلامی اخوت كو جس پرقرآن و سنت نے تاكید كی ہے عالم تشیع میں محدود نہیں سمجھا ہے اور اتحاد كےسلسلے میں شیعہ وسنی میں كبھی فرق نہیں كیا ہے ۔

علامہ امینی اپنی كتاب كی تیسری جلد میں قدماءكی بعض كتابوں جیسے ابن عبدربہ كی عقد الفرید، ابوالحسین خیاط معتزلی كی الانتصار، ابومنصوربغدادی كی الفرق بین الفرق، محمد بن عبدالكریم شہرستانی كی الملل والنحل، ابن تیمیہ كی منھاج السنۃ، ابن كثیر كی البدایہ والنھایہ اور بعض متاخرین كی كچھ كتابیں جیسے شیخ محمد خضری كی الامم الاسلامیہ، احمد امین كی فجرالاسلام، محمد ثابت مصری كی الجولۃ فی ربوع الشرق الادنی، قصیمی كی الصراع بین الاسلام والوثنیہ والشیعہ وغیرہ پر تنقید كرتے ہوۓ لكھتے ہیں كہ ان كتابوں پر تنقید كرنے سے ہماراھدف یہ ہے كہ ہم عالم اسلام كو خبردار كريں مسلمانوں كو بیدار كریں كہ یہ كتابیں عالم اسلام كے لۓ شدید ترین خطرات كاباعث ہیں كیونكہ اسلامی اتحاد كونشانہ بنایا ہواہے ان سے مسلمانوں كی صفوف میں شگاف پڑجائيں گے ان كتابوں كی طرح سے كوئي اور شی مسلمانوں كے اتحاد كو نقصان نہیں پہنچاتی اور ان كے رشتہ اخوت كو پارہ نہیں كرتی ۔

علامہ امینی نے اپنی گرنقدر كتاب كی پانچویں جلد میں نظریۃ كریمہ كی زیرعنوان مصر كے ایك مصنف كے تعریفی خط كا جواب دیا ہے جس سے یہ بالكل واضح ہوجاتاہےكہ آپ اتحاد بین المسلمین كے بڑے حامیوں میں سے تھے علامہ امینی لكھتے ہیں كہ "مذاھب كےبارے میں آراءو نظریات كا اظہار كرنا آزاد ہے اس سے رشتہ اخوت اسلامی كو كہ جس پر قرآن نے انما المومنوں اخوہ كی مھرلگائي نقصان نہیں پہنچتا گرچہ علمی بحث ومباحثہ، كلامی ومذھبی مجادلہ اپنے عروج ہی كوكیوں نہ پہنچاہو، وہ لكھتے ہیں اس سلسلے میں ہمارے لۓ ماسلف بالخصوص صحابہ وتابعین كی سیرت نمونہ عمل ہے۔

علامہ امینی لكھتے ہیں كہ ہم مصنفین ومولفین جو دنیا كہ گوشہ وكنار میں ہیں ہم اصول وفروع میں تمام اختلافات كے باوجودایك جامع مشتركہ قدر كےحامل ہیں اور وہ خداورسول پر ایمان جوہمارےوجود میں رچابساہے اور یہی اسلام كی روح اور كلمہ اخلاص ہے "

علامہ امینی لكھتے ہیں كہ ہم اسلامی مصنفین سب كے سب پرچم اسلام كے تحت زندگي گزاررہے ہیں اور قرآن و رسالت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی قیادت میں اپنا فریضہ اداكررہے ہیں ہمارا پیغام یہ ہےكہ ان الدین عند اللہ الاسلام اور ہمارانعرہ یہ ہےكہ لا الہ الا اللہ و محمد رسول اللہ جی ہاں ہم حزب اللہ ہیں اور اس كے دین كےحامی ہیں ۔

علامہ امینی اپنی كتاب كی آٹھویں جلد میں "الغدیر یوحد الصفوف فی الملاء الاسلامی "كے زیر عنوان اسلامی اتحاد میں كتاب الغدیر كے كردار پرروشنی ڈالتے ہیں اس باب میں وہ ان لوگوں كے الزامات كاجواب دیتے ہیں جوغدیر كو مسلمانوں كےدرمیان تفرقہ كا سبب سمجھتے ہیں اور ثابت كرتے ہیں كہ الغدیر سے بہت سی غلط فہمیوں كا ازالہ ہوجاتاہے اور مسلمان ایك دوسرے كےقریب آتےہیں اس كے بعد غیر شیعہ علماء كے اعترافات نقل كرتےہیں اور آخر میں شیخ محمد سعید دحدوح كا خط بھی قارئين كی سامنے پیش كرتے ہیں۔

ہم اپنے قارئين سے معذرت خواہ ہیں كہ اسلامی اتحاد میں الغدیر كے كرداركے بارے میں علامہ امینی كے سارے نظریات پیش كرنا ہمارے لۓ ناممكن ہے البتہ یہ بتاتے چلیں كہ الغدیر كا ترجمہ بہت سی عالمی زبانوں میں ہوچكاہے اسلامی اتحاد میں الغدیر اس طرح مفید ثابت ہوئي ہےكہ سب سے پہلے اھل تشیع كا نقطہ نظر بیان كرتی ہے اور یہ ثابت كرتی ہےكہ اسلام كا یہ بڑا فرقہ پروپگینڈوں كے برخلاف سیاسی نسلی اور خاندانی مسائل كی بناپر معرض وجود میں نہیں آیا بلكہ اھل تشیع قرآن و سنت پر استوار مستحكم نظریاتی نظام كے حامل ہیں، دوسری بات یہ ہے كہ الغدیر اس وجہ سے بھی اتحاد كےلۓ مفید ہےكہ اھل تشیع پر عائد دسیوں بےبنیاد الزامات كا مستدل جواب پیش كرتی ہے جن كو پڑہ كرمنصف مزاج لوگ یقینا اس نتیجہ پر پہنچتے ہونگے كہ الزام تراشی سے صرف اور صرف دشمنان دین كے مفادات فراہم ہوتے ہیں اور امت اسلامیہ میں تفرقہ پھیلتا ہے، تیسری بات یہ ہےكہ الغدیر امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام كی شخصیت كوجوكہ اسلام كی مظلوم ترین شخصیت ہے اور جو تمام مسلمانوں كارہبر بننے كے قابل ہے ان كی اور ان كی ذریت كی شناخت كرواتی ہے ۔

الغدیر كے بارے میں علماء اسلام كے نظریات

عالم اسلام كے علماء اور دانشورجو تعصب سے مبرا ہیں الغدیر كے بارے میں وہی نظریات ركھتے ہیں جوہم نے بیان كۓ ہیں ۔

محمدعبدالغنی حسن مصری الغدیر كی پہلی جلد طبع دوم كے مقدمے پر تقریظ میں لكھتے ہیں كہ خدا آپ كی اس غدیر كو كہ جس میں صاف وشفاف پانی ہے شیعہ اور سنی بھائيوں كےدرمیان صلح ودوستی كا باعث قراردے كہ وہ متحد ہوكر امت واحدہ كی بنیاد ركھیں ۔

مصر كے الكتاب رسالے كے مدیر عادل غضبان الغدیر كی تیسری جلد كے مقدمے میں لكھتے ہیں كہ یہ كتاب اھل تشیع كی منطق كوواضح كرتی ہے اور اھل سنت اس كتاب كےذریعے شیعہ فرقے كے بارے میں صحیح شناخت حاصل كرسكتے ہیں كیونكہ شیعوں كی شناخت سے شیعہ سنی نظریات قریب آئيں گے اور مجموعی طور سے سب ایك صف میں آجائيں گے ۔

جامع الازھر كے شعبہ اصول دین میں فلسفہ كے استاد ڈاكٹر محمد غلاب الغدیر كی چوتھی جلد كے مقدمےمیں لكھتے ہیں كہ"آپكی كتاب بہت مناسب وقت میں مجھے موصول ہوئي كیونكہ میں اس وقت مسلمانوں كے بارے میں ایك كتاب لكھ رہا ہوں اوریہ چاھتاہوں كہ اھل تشیع كے بارے میں صحیح معلومات حاصل كروں آپ كی كتاب سے مجھے بڑی مدد حاصل ہوگی اور میں شیعوں كےبارے میں دوسروں كی طرح غلطیاں نہیں كرونگا ۔

ڈاكٹر عبدالرحمن كیالی حلبی الغدیر كی چوتھی جلد كے مقدمے میں دور حاضر میں مسلمانوں كےانحطاط كےاسباب كاذكر كرتے ہوۓ اس انحطاط سے نجات حاصل كرنے كی راہوں كی نشاندھی بھی كرتے ہیں ان میں ایك راہ وصی رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی شناخت كو بھی قراردیتے ہیں وہ كہتے ہیں "كتاب الغدیر اور اس كے مستدل مطالب ایسے مطالب ہیں جن سے ہرمسلمان كو آگاہ ہونا چاہیے تاكہ انہیں معلوم ہوكہ مورخین نے كس طرح غلطیان كی ہیں اور حقیقت كہاں ہے كیاہے ہمیں اس كتاب كے ذریعے ماضی كی تلافی كرنی چاہیے اور كوشش كركے اتحاد قائم كرنا چاہیے تاكہ اجر وثواب كے مستحق بن سكیں ۔

جی ہاں یہ تھی علامہ امینی كی نظر اتحاد اور عالم اسلام میں الغدیر كے مفید كردار كے سلسلے میں رضوان اللہ علیہ


source : http://shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

علامہ محمد اقبال اور پیغام وحدت امت
اتحاد بین المسلمین کے دشمن کون ہیں اور کیوں
اسلام میں عید غدیر کی اھمیت
اخلاق اور مکارمِ اخلاق
یوم خواتین اور خواتین کا مقام اسلام و مغرب کی نظر ...
سیرت امام علی علیہ السلام کی روشنی میں آداب ...
امام حسین علیہ السلام
عصر حاضر کے تناظر میں مسلمانوں کا مستقبل
دکن میں اردو مرثیہ گوئی کی روایت
خاندانی حقوق

 
user comment